سوانح معاویہؓ: ایک مطالعہ

نام کتاب:سوانح معاویہؓ

تعداد صفحات :

مؤلف : مولانا یحیی نعمانی

قیمت: 600

ناشر: الفرقان بک ڈپو لکھنؤ

ملنے کے مزید پتے: مکتبہ ضیاءالکتب خیرآباد ضلع مئو، کتب خانہ نعیمیہ دیوبند۔

بقلم محمد اجمل قاسمی
خادم تدریس جامعہ قاسمیہ مدرسہ شاہی مرادآباد

سال ِگذشتہ مؤلفِ كتاب سے ایک خوشگوار ملاقات كی سعادت میسر آئی ‏، دوران گفتگو مؤلف مدظلہ العالی نے اپنی تازہ تالیف سوانح معاویہ كا تذكرہ كیا جوابھی زیرِطباعت تھی، ساتھ ہی كتاب كے مشمولات اور اس كی اہمیت پر بھی كچھ روشنی ڈالی ‏،جس سے كتاب دیكھنے كا اشتیاق ہوا‏، چنانچہ كتاب جب شائع ہوئی تواس كے حصول كی فكر ہوئی‏، مگر كس سے منگائی جائے؟ كیسے منگائی جائے؟ اسی میں معاملہ ٹلتارہا‏كہ اچانک ایک دن ایک معروف علمی وادبی گروپ پاسبان علم وادب میں كتاب كی پی ڈی ایف فائل پر نظر پڑی‏، چنانچہ پڑھنا شروع كردیا، موبائل كی اسكرین پر كسی كتاب كا باقاعدہ مطالعہ راقم كی طبیعت پر نہایت گراں ہوتا ہے‏، مگر كتاب سے اس كے شغف كا یہ حال رہا كہ معمول كے كاموں كی ادائیگی كے ساتھ تین چار روز كی مدت میں پانچ سو صفحے كی یہ پوری كتاب موبائل پر ہی پڑھ گیا‏، پھر اس كا ورقی نسخہ بھی بعد میں حاصل كیا‏۔

كتاب كا موضوع اہم ہونے كے ساتھ بہت نازک ہے‏، جواپنے اندر بہت سی معركة الآراء بحثوں كو سمیٹے ہوئے ہے‏، اس پر تنقید و تبصرہ كسی محقق اور صاحب نظر كا كام ہے‏، یہ بے مایہ طالب علم نہ تو اس كا اہل ہے اورنہ ہی یہاں اس كا قصد وارادہ ہے‏۔ ان سطور سے مقصود بس اتنا ہے كہ مختصر الفاظ میں كتاب كے مشمولات كا تعارف كرادیا جائے‏، اس كے محاسن اور خوبیوں كو كسی قدر اجاگر كردیاجائے‏،اور كتاب كے مطالعہ نے ذہن ودماغ پر جو خوشگوار تاثرات چھوڑے ہیں اس كی داستان دوسروں كو بھی سنادی جائے۔

زیر نظر كتاب امیرالمومنین حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ كی تحقیقی وتفصیلی سوانح عمری ہے‏،جو محقق عالم دین حضرت مولانا یحیی نعمانی ناظم دارالعلوم الصفہ‏،لكھنؤ‏، کی كی كاوش اورتحقیق وجستجو كا نتیجہ ہے‏، مولانا موصوف حضرت مولانا محمد زکریا سنبھلی مدظلہ شیخ الحدیث دارالعلوم ندوۃ العلماءکے صاحبزادہ گرامی قدر اور حضرت مولانا محمد منظور نعمانی رحمہ اللہ کے نواسے ہیں۔ یہ مبسوط كتاب ایک مقدمہ‏،انیس ابواب ‏ اور ایک ضمیمہ پر مشتمل ہے‏۔مقدمہ میں سوانح معاویہؓ كی تالیف كے اسباب و محركات‏، اس كی مشكلات‏، اور اس كے منہج تالیف وتحقیق وغیرہ پر بحث ہے‏۔پہلے باب میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ كے خاندانی پس منظر‏، پیدائش اور قبول اسلام پر گفتگو كی گئی ہے‏۔پھر اس كے بعد بالترتیب چند ابواب میں حضرت معاویہ ؓ كے حق میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم كی دعائیں‏، عہد نبوی، عہد صدیقی‏، عہدفاروقی اور عہدعثمانی میں ان كی خدمات اور عظیم الشان كارناموں پر روشنی ڈالی گئی ہے‏، یہ پورا دور حضرت معاویہ كی نابغہٴ روزگار شخصیت كی تشكیل اور تكمیل كادور ہے‏، جس میں انہوں نے براہ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و خلفاء راشدین كی تربیت اور سرپرستی میں كام كیاہے‏۔ كتاب كے چھٹے باب میں شہادت حضرت عثمان غنیؓ وفتنہ كبری، اور ساتویں باب میں سیدنا حضرت علیؓ كے زمانہٴ خلافت میں حضرت معاویہؓ‏كا موقف اور سیدنا حضرت علیؓ سے ان كے اختلاف كی نوعیت پر روشنی ڈالی گئی ہے‏، یہ دونوں باب كتاب كے نازک ترین و مشكل ترین باب ہیں‏، جن میں مصنف نے فتنے كے اسباب ‏، فتنے كے بعد صحابہ كے مختلف گروہ ‏ اور ان كے موقف كا محققانہ دیدہ وری سے جائزہ لیاہے‏، اور اس خارزار كو نہایت كامیابی سے سر كیا ہے۔

آٹھواں باب سیدنا حضرت حسن اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہما كے مابین ہونے والی عظیم صلح كی بحث پر مشتمل ہے‏۔اس كے بعد حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ كا عہد خلافت شروع ہوتاہے‏، یہی دور حضرت معاویہ كے كارناموں اوران كے وہبی كمالات كے ظہوركا اصل زمانہ ہے، مصنف نے ناقابل انكار دلائل سے ثابت كیا ہے كہ یہ عہد خلافت راشدہ كے عہد كے بعد اسلامی تاریخ كا زریں اور مثالی عہد ہے‏، جس میں حضرت معاویہ نے فتنہ كبریٰ كی داخلی خانہ جنگیوں كے بعد ایک بار پھر خلافت وحكومت كے پورے نظام كو خلافت راشدہ كے نہج پر مستحكم بنیادوں پر استوار كیا ہے، چنانچہ متعددابواب میں عالم اسلام كے مختلف داخلی وخارجی محاذوں پر حضرت معاویہ كے جہاد وفتوحات‏ اور داخلی فتنوں كی سركوبی كی تفصیلات پیش كی گئی ہیں‏، اور ان كے نظام حكومت‏، مالیاتی‏، دفاعی‏، عدل وقضا ، داخلی امن واستحكام اور خدمات عامہ كے شعبوں كا جائزہ لیاگیاہے‏۔ یہ ابواب نہایت دلچسپ، فكر انگیز‏، اور مفید معلومات سے لبریز ہیں‏، نیزحضرت امیر معاویہؓ كی ہشت پہلو شخصیت‏،ان كے كمالات‏،عظیم الشان و ہمہ جہت خدمات‏، بے مثال كارناموں‏‏، ان كی عبقریت اور غیرمعمولی انتظامی و عسكری صلاحیتوں كے آئینہ دار ہونے كی وجہ سے سوانح معاویہ میں درشہوار اور واسطۃ العقد كی حیثیت ركھتے ہیں۔

انیسویں باب میں یزیدكی ولی عہدی اور زندگی كے آخری ایام كاذكر كیاگیاہے‏، یہ باب تین فصلوں پر مشتمل ہے‏، پہلی فصل میں یزید كی ولی عہدی پر گفتگو كی گئی ہے‏، اس ضمن میں ان اسباب و محركات پر بھی بحث كی گئی ہے‏،جن كی بنیاد پر حضرت معاویہ ؓ نے یزید كی ولی عہدی كا فیصلہ كیاہے‏، نیز جن صحابہ نے اس فیصلے سے اختلاف كیاہے‏، ان كے دلائل بھی پوری امانت داری سے پیش كئے گئے ہیں‏ؑ۔ فصل دوم میں حضرت معاویہ كے مرض وفات اور ان كی وصیتوں كا ذكر ہے‏، اور فصل سوم میں آپ كی خصوصیات وكمالات اورشخصی احوال ومعمولات پر روشنی ڈالی گئی ہے‏، اس باب كی یہ فصل بھی مفید اور اہمیت كی حامل ہے‏، جو حضرت معاویہ كی سیرت كے بعض اہم پہلوؤں سے پردہ اٹھا تی ہے‏۔ كتاب كا خاتمہ ایک ضمیمہ پر ہوتا ہے جس میں كتاب میں پیش كی گئی ان صحیح احادیث وروایات كو جداگانہ طور پر پیش كردیا گیاہے‏، جن سے حضرت امیر معاویہ كے عہد پرروشنی پڑتی ہے‏،اورجس نے كتاب كی خاكہ سازی میں رہنما خطوط كا كردار ادا كیاہے۔ شروع كتاب میں عناوین كتاب كی تفصیلی فہرست ہے‏، اور اخیر میں عربی اردو اور انگریزی مآخذ ومراجع كا تذكرہ ہے جن كی تعداد دوسوتک پہنچتی ہے۔

ابواب ِكتاب كے اجمالی تذكرے سے كتاب كی جامعیت كا اندازہ ہوتاہے‏‏، یہ ہمہ جہت سوانح جہاں حضرت امیرمعاویہؓ كے تفصیلی حالات وخدمات سے واقف كراتی ہے، وہیں اپنے جلو میں آپ كو اجمالی طور پر آغازِ اسلام كی پچاس سالہ كی ایک بہترین جھلک بھی دكھادیتی ہے‏۔ مصنف كتاب نے چارسال تک قدیم وجدید ‏، عربی وغیر عربی مراجع‏ كی ورق گردانی كی ہے‏، مختلف خارزاوں كو سر كیا ہے‏، ایک ایک بیان كی تہ تک پہنچنے كی انتھک كوشش كی ہے‏، سبائیوں اور صحابہ كی كرداری كشی كرنے والے شیعی رایوں كی افترا پردارزیوں‏، اور بہتان تراشیوں كے طومار كی علمی تحقیق وتنقید، اورصحابہ كے اصلی وبے داغ كردار كو اجاگر كرنے كےسلسلے میں انہیں دشت ِتحقیق كی سخت آبلہ پائی كرنی پڑی ہے‏،اور ایک ایک بات كو كافی وشافی اطمینان كے بعد ہی كتاب میں درج كیاہے‏، جس سے كتاب كی علمی وتحقیقی حیثیت كا اندازہ ہوتاہے۔

حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ كی شہادت كے بعد امت میں ہوش ربا فتنے رونما ہوئے‏، اور صحابہ میں وقت كے بعض اہم مسائل كو لے كر اختلاف بلكہ جنگ و جدال تک كی نوبت آئی‏، جسے مشاجرات صحابہ كانام دیا جاتاہے‏، صحابہ كی بڑی تعداد ان اختلاف سے بیزار اور كنارہ كش رہی ‏، اور دینی پہلو سے وہ اسی كو امت كے حق میں بہتر سمجھتی تھی‏۔جب كہ متعدد صحابہ ایسے تھے جنہوں نے امت كی زمام كو حالات كی رو پر چھوڑ كر الگ تھلگ بیٹھنے كو اپنے لیے كسی طرح بھی جائز خیال نہ كیا‏؛ بلكہ امت كو بحرانی حالات سے نكالنے کے لیے جو بھی تدبیر انہوں نے ضروری اور مفید سمجھی اس كو بروئے كار لانا ضروری سمجھنا‏، حضرت علی، حضرت زبیر‏، حضرت طلحہ‏، حضرت عائشہ‏ وغیرہم كا شمار ایسے ہی صحابہ میں ہے‏، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ بھی اس پورے زمانہ میں ایک بہت ہی اہم اور نمایاں فریق كی حیثیت سے میدان میں رہے ہیں‏۔ اس پورے دور میں سبائی فتنہ پرووں كی فتنہ سامانیوں‏، سازشوں ‏اور ان كی افتراء پردازیوں‏ كا ایک سیلاب ہے‏، یہیں سے امت میں خوارج كا ظہورہوا‏، شیعی ‏اور ناصبی متعصب گروہ سامنے آئے جن كی دورغ گوئیوں‏، الزام تراشیوں‏، اور متضاد روایتوں نے تاریخ اوراس كے صفحات كو اس قدر تاریک اور كہر آلود كردیا ہے‏ كہ تاریخ كے مطالعہ سے صحابہ كے موقف اور ان كردار كے متعلق كسی صحیح رائے تک رسائی نہایت مشكل ہوگئی ہے‏، یہی وجہ ہے كہ جو مؤلفین اس خارزار میں حقیقت كی تلاش میں نكلنے ہیں وہ خود بھی لہو لہان ہوئے ہیں اور اپنے قاری كو بھی لہولہو كردیا ہے‏، اس باب میں تاریخی روایات كے تضاد كا كیا حال ہے‏، خود مؤلف كی زبانی سنیے:

‘‘اس عہد كی تاریخ كا جب مطالعہ كیا جاتاہے‏، تو متضاد روایات كا ایک وسیع ذخیرہ سامنے آتاہے‏، ان سے حضرت معاویہ كی دو متضاد تصویریں بنائی جاسكتی ہیں‏،ایک تصویر ایک بلندكردار‏، عالی ہمت‏، مخلص مومن‏، مردِ مجاہد‏، اور صاحب تقوی شخصیت كی بنتی ہے‏۔ جو علم وفضل میں اپنے دور میں امامت كا درجہ ركھتاہے‏، لوگ اس كوایک قابل اتباع عالم كی نظر سے دیكھتے ہیں‏،جس كی حكومت اقامت دین اور نفاذ شریعت میں مصروف ہے‏، اور عدل وانصاف قائم كررہی ہے۔ اور بلاشبہ ایک دوسری تصویر بھی بن سكتی ہے‏، جوایک بے ضمیر و بے اخلاق، خالص دنیا دار‏؛ بلكہ خوف خدا سے عاری‏، امارت و حكومت كے حریص شخص كی ہے‏، جس كو بہر قیمت اقتدار چاہیے تھا‏،اوراس كے لیے وہ اصول واخلاق كی ہرقربانی دے سكتاتھا‏، جو رشوتوں سے لوگوں كے ضمیر خریدتا اورظلم و جبر سے ان كے منہ بندكرتاتھا‏، اورجس كی حكومت میں خیانت، عوامی مال پر دادعیش دینا‏، ظلم وجبر اورناحق قتل روز كا معمول تھا’’ (سوانح معاویہ ص19 )

سوانح معاویہ ؓ كے مصنف كے لیے مشاجرات صحابہ كی اس خارزار وادی سے گذرنا ناگزیر تھا‏، اور ان كوشش تھی كہ اس دشوار گھاٹی سے وہ خود بھی فكر ونظر كی سلامتی سے گذریں اور اپنے قارئین كو بھی فكر ونظر كی سلامتی سے گذاریں‏؛ چنانچہ انہوں نے اس دشوار بحث میں داخل ہونے لیے ایک محفوظ رہ گزر تلاش كی، انہوں نے اپنی كتاب كا نہج یہ قرار دیا كہ محدثین كے اصول تنقید پر احادیث اور روایات كا جائز لیا جائے‏، ان احادیث وروایات كے ذخیرہ میں جوحصہ محدثین كے معیار صحت پر كھرا اتر ہوتا ہو‏، قبول كیا جائے اور اسی كو بنیاد بناكر سوانح كا بنیادی خاكہ تیار كرلیا جائے ‏، پھر حدیث وتاریخ كی كتابوں میں جو روایتیں اس كے مطابق ہوں ان سے تشنہ گوشوں كی تكمیل كی جائے، اور جو اس كے مخالف ہوں ان كورد كردیا جائے‏، مؤلف لكھتے ہیں:

‏‘‘قرون اولی كے مطالعہٴتاریخ كا یہ بنیادی اصول ہے‏، كہ پہلے صحیح و قوی روایات كو جمع كركے اس عہد كی تاریخ كا ایک بنیادی تصور اور خاكہ تیار كرلیا جائے ‏،جو افراد وشخصیات كے مزاج واخلاق اوراداروں كے كردار كے بنیادی خاكے طے كردیتی ہیں‏، پھر قدیم تاریخی مآخذ میں جو معلومات ایسی دستیاب ہوں جوان صحیح و قوی روایات كے مطابق ہوں یا كم از كم ان سے متصادم نہ ہوں‏،ان كو قبول كیا جائے‏، اور جو تاریخی معلومات و حكایات صحیح اسانید سے ثابت روایات كے خلاف ہوں،ان كو قطعا ناقابل قبول قرارد یا جائے‏، اہل سنت والجماعت كے نزدیک قرآن مجید اور سنت رسول كی تصریحات كی بناپر صحابہ كرام كی جماعت كا جو منفرد واجب الاحترام مقام ہے اس كا بھی یہی تقاضہ ہے كہ حضرت معاویہ كی شخصیت و كردار كےسلسلے میں اس اصول كو لازم پكڑا جائے’’۔ (سوانح معاویہؓ ص21)

اس محفوظ اور پختہ منہج كی اتباع كی پیروی كا نتیجہ یہ ہوا ہے كہ مؤلف اس سنگ لاخ سےخود بھی فكر و نظر كی سلامتی كے گذرے ہیں اور اپنے قاری كو بھی گذار لے گئے ہیں‏۔ مؤلف نے مشاجرات صحابہ كے باب میں بشمول حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ مشاجرات كا حصہ بننے والے تمام صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین كے موقف‏ اور ان كے دلائل كو اتنی نكھر ی ہوئی صورت میں پیش كیا ہے كہ ذہن جہاں ایک طرف ان كے موقف كی معقولیت كا قائل ہوتا ‏ہے، وہیں ان كے موقف كے مطالعہ سے دین كے تئیں ان كے اخلاص‏، امت كے لیے ان كی بے لوثی وخیرخواہی‏، اور ان كی عظمت و شرافت نفسی كا نقش دل پر مزید گہرا ہوجاتاہے‏، اور ضمیر یہ پكار اٹھتاہے كہ واقعی یہ مقدس گروہ "رزم ہویا بزم ہو پاک دل و پاک باز” كا اولین مصداق تھا۔

مشاجرات صحابہ كی اس بحث كو مؤلف نے اس عمدگی سے تحریر فرمایا ہے‏كہ اس كی ضمن میں صحابہ كا ادبِ اختلاف بھی بڑی خوبصورتی كے ساتھ نمایاں ہوتا چلا گیا ہے‏، گو كہ ان كا اختلاف قتل وقتال تک پہنچ گیاہے ؛ لیكن ان سب كے باوجود ان كا ادبِ اختلاف نہایت ‏اعلی و مثالی اور امت كے لیے ایک بہترین نمونہ ہے۔ مقام ومرتبہ كا لحاظ‏، حدود كی رعایت‏، اختلاف كے باوجود خدمات و صلاحیتوں كا فراخ دلی سے اعتراف‏، ایک دوسرے كا احترام‏، حریف كی علمی آراء اور فتاوی سے استفادہ‏، برسرپیكار ہونے كے باوجود فریق مخالف كی نیک نیتی كا اعتراف‏، اس كے بارے كلمہٴخیر اور اس كے اقدام كے لیے عذر و تاویل، یہ سب كچھ مشاجراتِ صحابہ كی اس نفیس بحث میں ایسا سمایا ہوا ہے جیسے باد صحرگاہی میں شبنم كا نم یا برگ گل میں بوئے گل رچی بسی ہوتی ہے‏۔ مصنف نے بالقصد اس چيز كو نمایاں نہیں كیا ہے، مگر وہ تحریر كی سطر سطر سے الم نشرح ہے‏۔

مشاجراتِ صحابہ كی بحث میں مصنف كی یہ ایک اہم ترین كامیابی ہے كہ وہ اس خارزار سے ادب اختلاف كے خوش رنگ پھول لے كر نكلے ہیں‏، اصحاب ِرسول كی زندگی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كی حیات طیبہ كا عكس جمیل ہونے كی وجہ سے جہاں زندگی كے عام معاملات میں اسوہ اور نمونہ ہے‏، وہیں ان كی زندگی امت كے اندرونی اختلاف كے باب میں بھی اس كے لیے ایک بہترین نمونہ پیش كرتی ہے‏، اور غالبا امت كو یہی اسوہ فراہم كرنے كے لیے اس مقدس جماعت كو تكوینی طور پر اس آزمائش سے گذاراگیا‏، تاكہ اسلام كا كوئی پہلو نمونہٴعمل سے خالی نہ رہے۔

تاریخی كتابوں نے متعدد برگزیدہ صحابہ اورتابعین بالخصوص حضرت امیر معاویہ ‏،حضرت عمربن العاص‏، حضرت مغیرہ بن شعبہ رضوان اللہ علیہم اجمعین‏ كی طرف ایسے كردار منسوب كیے ہیں‏، جو ان كی عظمت شان سے میل نہیں كھاتے‏، اوربعد كی تاریخی كتابوں میں بھی ان كو من وعن اس طرح نقل كردیا گیاہے جیسے كہ وہ مسلمہ حقیقت ہوں‏۔ مصنف نے ایسی حكایات و روایات كو جب تنقید كی كسوٹی پر پركھا تووہ دروغِ بے فروغ ثابت ہوئیں، اور صحیح روایات سے جب صحابہ كا اصل كردار پیش كیا، تو جو تصویر سامنے آئی وہ صحابہ كی عظمتِ شان كے عین مطابق تھی۔ كتاب كے مطالعے میں جب بھی ایسے مقامات سے گذر ہوا تو ایسی راحت كا احساس ہوا كہ جیسے دل سے كوئی بھاری بوچھ اتر گیا‏ ہو، اور گوہر مراد ہاتھ آئی گئی ہو‏، فرطِ محبت و عقیدت میں آنكھیں نم اور روح شاد تھی۔ ایسے تمام مواقع پر مؤلف كے لیےدل سے دعائیں نكلیں۔

مصنف نے خلافتِ معاویہ كی دینی واخلاقی حیثیت پر بھی چشم كشا بحث كی ہے‏، معتبر احادیث اور قوی دلائل كی بنیاد پر آپ كے دور كو‏ ‘‘ملوكیت ورحمت’’ كا دور قرار دیاہے‏، جو دینی و اخلاقی اور شریعتِ اسلامی كی پیروی وپاسداری كے لحاظ سےخلافت راشدہ سے كمتر‏، مگر اس كےقریب اورمماثل تھا‏، البتہ مذكورہ حیثیت سے وہ بعد كی حكومتوں كے سے بہتر‏‏، اور بہت سے معاملات میں ان كے لیے نمونہ اور اسوہ كی حیثیت ركھتاتھا‏۔ مصنف نے واضح الفاظ میں لكھا ہے كہ ملكوكیت اسلامی نظام كی ضد نہیں ہے‏، بادشاہت اگر شریعت و عدل كی محافظ‏، اور اسلام كے مقاصد كے حصول كے لیے سرگرم عمل ہو تو وہ ایک قابل قبول نظام ہے‏۔ اور اس سلسلے میں ان جدید مفكرین كے مغالطوں كو بھی واضح كیاہے‏، جنہوں نے بادشاہت كو قطعا ایک ناقابل قبول شے اور روح اسلام كی عین ضد باور كرایاہے‏، اور پھر اسی نقطہٴنظر سے عہد معاویہ كی ایک نہایت ہی غلط اور مكروہ تصویر كھینچی ہے‏، جو بتصریح مؤلف خالص جھوٹی، غیر مستند روایات اورطبع زاد اضافوں اور مبالغوں پر مبنی ہے‏۔

كسی بھی حكومت كی دینی واخلاقی حالت كو جاننے كے لیے ایک اہم چیز یہ ہوتی كہ اس حكومت كی پالیساں كیا تھیں؟‏ اور اس كے سربراہان وحكام‏، اور حكومتی مشینری كے كل پرزہ كی حیثیت سے كام كرنے والا عملہ كیسا تھا‏؟ مؤلف نے ناقابل انكار شہادتوں سے ثابت كیا ہے كہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ كو حكومت كے ہر ہر معاملہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ كے طرز ِعمل كی تتبع و تلاش، اور اس كی پیروی كا حددرجہ اہتمام تھا‏؛ بلكہ ان كی ترجیح یہ ہوتی تھی كہ مختلف حكومتی ذمہ داریوں كے لیے انہیں افراد و اشخاص كا انتخاب كریں جو خلافت راشدہ بالخصوص حضرت عمر كے عہد میں كام كرچكے تھے‏۔وہ ذمہ داریوں كے لیے لائق اور قابل اعتماد افراد كے انتخاب كو بہت اہمیت دیتے تھے‏، اور اس سلسلے میں ان كے اہتمام كا حال یہ تھا كہ كئی اہم ذمہ داریاں انہوں نے ایسے افراد كے سپرد كر ركھی تھیں‏، جو حضرت علی رضی اللہ عنہ كے عہد خلافت میں حضرت معاویہ سے برسرپیكار رہے تھے‏، مگر یہ فریقین كا خلوص تھا كہ یہ چیز نہ تو حضرت معاویہؓ كے لیے ان كا انتخاب كرنے میں مانع ہوئی‏، اور نہ ہی حضرت معاویہ كی زیر حكومت اسلامی خدمت كی انجام دینے میں ان حضرات كے لیے ركاوٹ بنی‏۔اس طرح مؤلف نے ثابت كیا ہے كہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ كی حكومتی مشینری بڑا حصہ انہیں افراد مشتمل تھا، جو خلفاء راشدین كے زمانہ میں حكومتی نظام كا حصہ رہ چكے تھے ۔ (تفصیل كے لیے كتاب كا تیرہواں باب ملاحظہ ہو)

حضرت معاویہ كی زندگی كا ایک نہایت تابناک اور درخشان پہلو یہ ہے كہ انہوں نے حیاتِ مستعار كے چالیس سال اسلامی سرحدوں كی حفاظت اور رومن امپائر سے جہاد كرنے میں صرف كئے، ان كی جہادی كوششوں اور خدمات كا دائرہ اتنا متنوع، ‏وسیع اور ہمہ جہت ہے‏ كہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ عربوں كے پاس كسی باقاعدہ منظم فوج سے لڑنے كا تجربہ نیا نیاتھا‏، ان كی حكومت نئی نئی تھی، ان كے پاس جنگی وسائل، اس دور كے جدید ہتھیار اور افراد كی كمی تھی‏، بحری جنگ كے طریق كار سے وہ مكمل ناواقف تھے۔ دوسری طرف مقابلے میں ایسی حكومت تھی، جس كا اقتدار صدیوں پرانا تھا‏، جس كا رقبہ ہزاروں میل سے متجاوز تھا، جو اپنے عہد كی سب منظم‏ اور دفاعی اعتبار سے سب سے مستحکم حكومت تھی‏، اس كے پاس بہترین جنگی وسائل‏، جدید ہتھیار اور دفاعی تجربے سے مالا مال دنیا كی سب بڑی تربیت یافتہ فوج تھی ‏۔حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ نے اس زبردست تفاوت كے باوجود چند ہزار عرب جیالوں كے ذریعہ روم كی صدیوں پرانی بیزنطینی حكومت كو ہر محاذ پر اپنی محیر العقول‏ حكمتِ عملی دوربینی اور فراست سے جس طرح‏ لوہے كے چنے چبوائے ہیں‏،اور بلااستثنا ہر بری و بحری محاذ پر جس طرح انہیں پسپا ہونے پر مجبور كیا ہے‏، اور حكومت اسلامی كے رقبے كی جو زبردست توسیع کی ہے‏، یہ سب كچھ تاریخ كا ایسا عظیم الشان كارنامہ ہے جس میں حضرت امیر معاویہ كا دور دور تک كوئی ہمسر نظر نہیں آتا‏، ان كارناموں كو پڑھ كر سر شرم اور عظمت دونوں كے احساس سے جھک جاتاہے‏، عظمت كا احساس تو حضرت كی عبقری شخصیت اور عظیم كارناموں كی وجہ سے‏، اور شرم كا احساس اس وجہ سے كہ بے گانے تو خیر بےگانے ہیں‏، ان سے توقع ہی كیا‏؟ اپنے بھی امت كے اس عظیم محسن اور مرد مجاہد كی قربانیوں سے كماحقہ واقف اور اس كے قدردان نہ ہوسكے‏‏۔ مصنف ِكتاب نے تین مفصل ابواب كے میں نہایت تفصیل سے ان كارناموں كو ذكر كیا ہے‏، اورحق یہ ہے كہ حق ادا كردیا ہے۔
سوانح معاویہ كے مؤلف نے صاحب سوانح كے حالات كے مطالعہ كے سلسلے میں اپنے تاثرات كو ایک جگہ كچھ ان الفاظ میں بیان كیا ہے‏، لكھتے ہیں:

‘‘اس كتاب كی تالیف كے دوران میں راقم سطور كو اللہ تعالی نے یہ توفیق بخشی كہ حضرت معاویہ اوران كے عہد كا وسیع گہرا تجزیاتی اور تحقیقی مطالعہ كرے‏۔ اگر چہ حضرت معاویہ كے سلسلے میں اہل سنت كے موقف میں نہ مجھے كبھی كوئی شبہ رہا تھا‏، نہ حضرت معاویہ كی شخصیت و كردار كے بارے میں كوئی اشتباہ یاخلش‏، لیكن اب یہ كہنے كی ضرورت محسوس ہوتی ہے كہ حضرت معاویہ كے صفات و كمالات اورعظیم الشان كارناموں كے بارے میں جو بہتر سے بہتر حسن ظن پہلے سے قائم تھا‏،اس مطالعے كے بعد علم ہوا كہ وہ حسن ظن ان كے مقام سے كم تھا۔ ان كمالات اور كارناموں سے صحیح اور كافی واقفیت نہ ہونے كا نتیجہ یہ ہے كہ اگر حضرت معاویہ اوران كے دور حكومت كی كچھ ستائش بھی كی جاتی ہے تو لہجہ كمزور و لرزیدہ ‏،اور انداز اعتماد سے خالی ہوتاہے’’(سوانح معاویہ ص18)

مؤلف موصوف نے مطالعہ سے پہلے اور بعد كے بارے میں جو تاثرات تحریر كیے ہیں بعینہ اس كتاب كے مطالعہ كے پہلے اور بعد میں وہی تاثرات راقم الحروف كے بھی ہیں‏، اور امید ہی نہیں؛ بلكہ یقین ہے كہ ہر سلیم الفكر قاری كتاب كے مطالعہ كے بعد ‏ٗٗ‘‘وللآخرة خیر لك من الاولی’’ والا احساس ہی اپنے اندر پائے گا۔

كتاب كی ایک نمایاں خوبی یہ ہے كہ اس كتاب میں آپ كو علم وتحقیق، فكر ونظر، عشق ومحبت، ادب واحتیاط اور توسط واعتدال كا وہ حسین امتراج ملے گا جو اہل سنت كی نمایاں خصوصیت ہے‏، مؤلف كا مقصد حضرت معاویہ كی عظمت اور كارناموں كا بیان ہے، مگر انہیں فرق مراتب كا پورا لحاظ ہے‏، چنانچہ وہ كہیں بھی حضرت معاویہ كو ان كے حریف سیدنا حضرت علی رضی اللہ عنہ سے برتر یا برابر پیش كرنے كی سعی كرتے نظر نہیں آتے‏، بلكہ اس كے برعكس وہ صاف طور پر واضح كرتے ہیں:

‘‘سیدنا علی ؓ اورحضرت معاویہؓ كے درمیان اختلاف كو جس زاویہ سے بھی دیكھا جائے ‏،سیدنا علی كی فضیلت و فوقیت اور حقانیت ایک امر واقعہ ہے‏،اور اہل سنت كا مسلمہ فكر و خیال بھی‏،اس علمی سفر كے دوران سیدنا علی كی عظمت ِكردار‏، شرافت اور خلوص و نصح كے ایسے مناظر راقم كے سامنے آئے كہ آنكھیں بے ساختہ اشكبار ہوگئیں‏، اور جبین عقیدت خم ہوگئی‏۔سیدنا علی كرم اللہ وجہہ سابقین اولین كی بھی صف اول میں تھے۔۔۔۔سابقین اولین اور لاحقین كے درمیان كسی موازنے كا خیال ہمیں ہی نہیں‏، قرن اول میں كسی بھی قابل ذكر ہستی كو نہیں تھا‏، بلكہ خود حضرت معاویہ ؓ كو بھی نہیں تھا۔حیرت ناک حدتک افسوس كی بات ہے كہ بعض لوگ شیعت اور شیعت زدگان سے حضرت معاویہ كے دفاع میں انتہا پسندی كے شكار ہوجاتے ہیں‏، اور سیدنا علیؓ اور حضرات حسنینؓ كے احترام ومحبت كا دامن ان سے چھوٹنے لگتاہے،یہ بڑی محرومی كی بات ہے’’۔(سوانح معاویہ ص24)

كتاب كا اسلوب علمی و تحقیقی ہے، انداز بیان سادہ ہے‏، مگر ترتیب اور تسلسل ایسا ہے كہ كتاب كو شروع كردیجیے توختم كیے بغیر چین ہی نہیں آتا‏، بلاشبہ یہ مصنف كے تصنیفی و تحریری ملكہ اور حضرات صحابہ بالخصوص صاحب سوانح سے ان كے قلبی خلوص كی روشن دلیل ہے‏۔

كتاب میں پروف كی كچھ غلطیاں بھی نظر آئیں‏، بعض جگہ ایسا ایجاز و اختصار بھی نظر آیا جس سے مراد مبہم سی ہوگئی ہے اور مدعا سمجھنے میں قدرے مشكل ہوتی ہے‏، بعض جگہ مقصود خوب اچھی طرح واضح بھی نہیں ہوا ہے، مگر ایسے مقامات كتاب میں زیادہ نہیں ہیں۔

مشاجرات صحابہ كے بارے میں ماضی قریب كے بعض جدید مفكرین كے غیر محتاط اور غلوپسندانہ طرز تحریر نے اہل سنت كے حلقوں میں بہت سے افراد كو متاثر كیا‏، اور متعدد صحابہ كرام بالخصوص حضرت معاویہ كی كے بارے میں شكوک وشبہات كے بیج بودئے‏، اور موجودہ وقت میں بھی بعض مبلغین اور مقررین اہل سنت كے صحیح الفكر حلقوں میں كھلم كھلا شیعیت كے بیج بورہے ہیں‏، سَبِّ صحابہ كی جگالی كرنے والے یہ نام نہاد كج فكر مقررین سادہ لوح لوگوں كو دھوكہ دینے كے لیے مغالطے اور تلبیس سےكام لیتے ہیں‏، جس كا نتیجہ یہ سامنے آرہا ہے كہ بہت سے نوجوان صحابہ كے بارے میں شكوک وشبہات كا شكار ہورہے ہیں‏، اور حدیہ ہے كہ نوجوان فارغین مدارس كی بھی ایک تعداد ایسی ہے جو صحیح عقیدے اور مسلک سے منحرف ہو كر صحابہ پر تنقید اور حضرت معاویہ پر طعن وتشنیع میں جری اور بے باک ہورہی ہے۔

اس لیے موجودہ وقت میں اہل علم بالخصوص نو فارغینِ مدارس كے لیے یہ اور اس جیسی كتابوں كا مطالعہ نہایت ضروری ہوگیاہے‏‏، تاكہ وہ ان صحابہ كے مقام، ان كی جلیل القدر خدمات‏، امت كے تئیں ان كے خلوص‏، ان كی بے مثال قربانیوں‏، اور امت پر ان كے عظیم احسان سے واقف ہوں‏، جن پر بدخوا ہ زبان طعن دراز كرتے ہیں‏، اس كتاب كے مطالعہ سے سَبِّ صحابہ كی جگالی كرنے والے مقررین كے طبل بلندبانگ كی تہی دامنی اور اس كا كھوكھلا پن واضح ہوتاہے‏، ان كے بوئے ہوئے شكوک و شبہات كا اچھی طرح ازالہ ہوتا ہے‏، اور دل صحابہ كی عظمت و محبت سے معمور ہوتاہے۔

حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ كے حالات پر اردو میں كوئی ایسی كتاب موجود نہیں ہے‏، جوان كی شخصیت، ان كے كمالات اور كارناموں كا جامع اور مفصل تعارف كرائے، اور ان پر كی گئی افتراء پردازیوں كی قلعی كھول كر ركھ دے‏، جو بلا شبہ ایک بڑا خلا ہے‏، اس فاضلانہ تصنیف نے اس خلا كو نے بڑی خوبی سے پر كیاہے‏، اور وقت كی ایک اہم ضرورت كی تكمیل كی ہے‏، بلاشبہ مؤلف اپنی اس قابل قدر كاوش وكوشش كے لیے پوری جماعت علماء كی طرف سے شكریے اور مباركبادی مستحق ہیں۔

كہاں یہ بلند پایہ
كتاب‏، اور كہاں یہ طالبِ بے مایہ!!
ہے آرزوكہ گیسوئے برہم كو دیكھیے
اس حوصلے كو دیكھیے اور ہم كو دیكھیے
مگر اس كے باوجود كتاب كی اہمیت اور وقت كی ضرورت اور تقاضے نے مجبور كیا كہ اس وقیع كتاب كے تعارف میں حصہ لے كر عظمت صحابہ كا دفاع كرنے والوں كی صف میں شامل ہویا جائے‏۔ دعاہے اللہ رب العزت كتاب كو شرف قبولیت عطا فرمائے‏، اس كے نفع كوعام و تام ‎‎‎كرے‏، اور مؤلف كتاب كی اپنی شایان شان جزائے خیرسے نوازے ‏، آمین!
ایں دعا ازمن و ازجملہ جہاں آمین باد!

بقلم محمد اجمل قاسمی
خادم تدریس جامعہ قاسمیہ مدرسہ شاہی مرادآباد
بروزدوشنبہ29 ربیع الاول 1447ھ مطابق22ستمبر2025

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے