عبداللہ خالد قاسمی خیرآبادی
7895886868
ادھر مسلسل کئی سال سے یہ بات دیکھنے میں آرہی ہے کہ اسلام اور ملک دشمن افراد و جماعتیں کمالِ ہوشیاری سے مسلمانوں کے درمیان مختلف مسائل کھڑے کرکے ان کی تشہیر اور ان پر بحث و مباحثہ کے لئے اپنی پوری طاقت صرف کردیتی ہیںاور مسلمانوں کا ہر طبقہ اسی میں الجھ کر رہ جاتا ہے ،لمبی لمبی بحثیں،اخبارات و میڈیا پر ان کے سلسلہ میں ایک ہنگامہ،ہرایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی ہوڑ میں لگ جاتا ہے اور مسلم امت اپنے اصل اہداف و مقاصد سے کوسوں دور ہوجاتی ہے ،حالاں کہ ’’اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا‘‘ کے پیش نظر مسلمانوں کا دائرۂ فکر اور ان کی توجہات کی دنیا بڑی وسیع ہے ،طائرِ فکر کی پرواز با مقصد ہونی چاہئے جو کہ مقصود و محمود ہے ۔
اگر غور کیا جائے تو واضح ہوگا کہ گذشتہ کئی سال سے ہمارے ملک ہندوستان میںمذہب کے نام پر جس برے انداز میں فرقہ پرستی کو ہوا دی جارہی ہے اور مختلف انداز سے مسلمانوں کو خوفزدہ اور ہراساں کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں وہ ہندوستانی تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے ، ہندوستان کا نظام جمہوری ہے ،یہاں بسنے والے تمام افراد آئینی اور قانونی اعتبار سے مذہبی معاملات میں خودمختار اور آزاد ہیں ،لیکن آج جمہوریت اور آئین کو ایک تماشا بنا کر رکھ دیا گیا ہے ،ہندوستان میں بسنے والی اقلیتوں خاص طور سے یہاں کی سب سے بڑی اقلیت مسلمانوں کو جمہوری اور آئینی حقوق سے بے دخل کرنے کی ایک زبردست مہم اور منصوبہ بند طریقہ سے ایک تحریک چلائی جارہی ہے ،آزادی کے بعد سےہر دور میں ایک ذہنیت اس ملک میں ایسی رہی ہے،جو ملکی سالمیت اور تعمیر ملک و وطن کے منافی کردار ادا کرتی رہی ہے اور مسلمانان ہند اُن کی نظروں کا کانٹا بنے رہے، اسی منفی ذہنیت کے افراد ملک میں سیاسی اقتدار حاصل کرکے ایوان حکومت میں پہونچ چکے ہیں،ظاہر سی بات ہے مسلم دشمنی کا جو کام پہلے شخصی، یا علاقائی طور پر انجام دیا جاتا تھا اب وہی کام حکومتی اور سرکاری سرپرستی میں انجام دیا جارہا ہے اور یہ بات ملک کی سالمیت اور اس کی ترقی اور یہاں کے امن و سکون اور تعمیر وطن کے لئے انتہائی خطرناک ہے ۔
اسلام دشمن افراد و جماعتیں مسلمانوں اور اسلام کے خلاف بر سر پیکار ہیں ، آج مسلمانوں کو ہندوستان میں آئینی اور جمہوری تحفظ اس قدر حاصل نہیں ہے جتنا ہونا چاہئے ، مسلمانوں کے حقوق کی پامالی ہورہی ہے ،آج ہر طرف سے آواز آرہی ہے کہ مسلمان ترقی کی راہ میں بہت پیچھے ہیں ، زمانہ کی رفتار کا ساتھ نہیں دے پارہے ہیں، دقیانوس ہیں، رجعت پسند ہیں اور نہ جانے اس انداز کے کتنے آوازے کسے جارہے ہیں، اس میں ایک طرف تو دشمن کی سازش ہے کہ مسلمانوں کے خلاف اتنا زہر اگلاجائے کہ انہیں خود اپنے وجود سے گھن آنے لگے، دوسری طرف ’’ہم اپنے گھر میں آگ خود لگارہے ہیں‘‘ والا معاملہ ہے ۔
۳؍اکتوبر ۲۰۲۴ء کو ڈاسنا دیوی مندر غازی آباد کے مہنت ’’یتی نرسنگھا نند سرسوتی ‘‘ کی طرف سے محسنِ انسانیت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں توہین آمیز ، انتہائی گستاخانہ اور دل آزار ہفوات سامنے آئی ہیں ،جن سے سبھی مسلمانوں کے قلوب میں ایک عجیب طرح کی بے چینی اور اضطراب پایا جاتا ہے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسلمانوں کو جو محبت و عقیدت ہے عصر حاضر کےدشمنان اسلام اس سے بخوبی واقف ہیں اور جانتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت سے مسلمانوں کا تعلق ایمان و عقیدہ کا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و عظمت پر ذرہ برابر آنچ آجائے اور مسلمان پر سکون رہیں ممکن نہیں، اس کے باوجود اہانت رسول کی جرأت کرکے مسلمانوں کی غیرت کو للکاراگیا ہے، جب کہ شاتمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو خوب پتہ ہے کہ مسلمان عملی اعتبار سے جتنے بھی ناکارہ اور فکری لحاظ سے جس قدر بھی منتشر ہوں مگر محبت رسول کی چنگاری ان کے خاکستر میںاب بھی دبی ہے جو ذرا سا کریدنے پر آتش فشاں بن کر پھٹ پڑے گی، مسلمان اپنے ایمان و عقیدہ کا سودا نہیں کرسکتے، آخری سرمایہ نہیں لٹا سکتے، ایک مسلمان کا کل اثاثہ اور متاع دین و ایمان اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ناموس کی حفاظت ہے،اس کے پیش نظر اس کے نبی کا فرمان لایومن احدکم حتی اکون احب الیہ من والدہ وولدہ والناس اجمعین،(تم میں سے کوئی مومن کامل اس وقت تک ہوہی نہیں سکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے والدین،اس کی اولاد اور دنیا جہاں کے تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ بن جاؤں)ہمہ وقت رہتاہے۔ عملی اعتبارسے مسلمان کتنا ہی گیا گذرا کیوں نہ ہو لیکن جب براہ راست اس کے نبی کی توہین کی جائے اور اس کو باقاعدہ تمسخر اوراستہزاء کا موضوع بنایا جائے تو یہ کسی بھی مسلمان سے کبھی بھی برداشت نہیں ہوسکتا۔
وطن عزیز ہندوستان سے اسلام اور مسلمانوں کومٹا دینے کی کوشش کرنے والے فسادی، ہندوستان کو ہندو راشٹریہ بنانے کا غیر قانونی نعرہ لگانے والے وطن دشمن افراد،شاید یہ نہیں جانتے کہ دنیا کا کوئی کمزور ترین ایمان رکھنے والا مسلمان ہزار ہا فروگزاشتوں اور کوتاہیوں کے باوجودمحسن انسانیت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں سنگ باری کرنے اور اسوہ حسنہ پر کسی بھی قسم کی حرف زنی پر دہاڑ اٹھتا ہے،اسلام کے خلاف الزام و دشنام اسے کسی بھی صورت کسی بھی لمحہ برداشت نہیں ہے ۔
حال میں پیش آنے والے اِس گستاخیٔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا جو دینی شرعی، فطری ، قانونی اور جذباتی رد عمل ہونا چاہئے وہ سامنے آیا۔
دشمنان اسلام کو اس بات کی خبر نہیں ہے وہ جس ہستی کے خلاف غوغہ آرائی کرتے ہیں وہ تو محسن انسانیت ہے،تمام نبیوں کا سالارہے،جس نے جہالت،ظلم،شقی القلبی اور حیوانیت کے ظلمات اور اندھیری کی آماجگاہ بنی ہوئی کائنات میں آفتاب جہاں تاب بن کر تاریخ کا سب سے بڑادل آفریں انقلاب برپا کیا،انسانیت کے اذہان و قلوب کے تاریک گوشوں کو منور کیا،احترام آدمیت کا فلسفہ دیا،شرف انسانیت کوعالم آشکارا کیا۔
اس مذموم حرکت کا مقصد مسلمانوں کو ذہنی انتشار کا شکار بنانا ہے، اسلام دشمن عناصر کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ مسلمانوں کے سامنے ایسے مسائل کھڑے کئے جائیں جن سے وہ مشتعل ہوں اور پھر اپنے اثاثی اور بنیادی مقاصد کو پس پشت ڈال دیں تاکہ یہ غیر مسلم عناصر اسلام دشمنی کے لیے اپنی راہیں اور ہموار کرسکیں۔
پورے ملک میں مسلمان احتجاج کررہے ہیں، شیدائیان رسالت اپنی اپنی محبتوں کا اظہار کررہے ہیں،تحفظ ناموس رسالت کی سعی محمود کررہے ہیں، ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے، ایک جمہوری ملک کے باشندے ہونے کے ناطے حکومت سے ہمیں یہ اپیل کرنی ہےکہ ملک کی سب سے بڑی اقلیت مسلمانوں کی دل آزاری ہوئی ہے ،ایسی ہفوات و بکواس کرنے والے کو ایسی سخت سزا دی جائے جس سے کسی کو کبھی بھی کسی مذہب ،دین دھرم اور اس کے پیشواؤں کا تمسخر و استہزاء کرنے کی جرآت نہ ہوسکے۔
مسلمان ہر جگہ سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں ،اور یہ ان کے دین اور رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم سے محبت و شیفتگی کا تقاضا بھی ہے ،لیکن اشتعال میں آنے کے بجائے خاموشی اور سنجیدگی سے پر امن طریقے پر اپنے غم و غصہ کا اظہار کرنا چاہئے، اور دینی اعمال میں پہلے سے بھی زیادہ رسوخ پیدا کرنا چاہئے تاکہ دشمنان اسلام اپنے منھ کی کھائیں۔
دیکھنے میں آرہا ہے کہ گذشتہ کچھ سالوں سے پوری دنیا میںرسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ اقدس میں گستاخی کے سلسلے رکنے کے بجائے دراز ہوتے چلے جا رہے ہیں ، ایسی صورت میں ہمیں بذات خود اپنے طرز عمل پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے، اس سلسلے میں پہلی بات یہ ہے کہ ہم خود اور ہمارے بچے پیار ے نبی کی سیرت سے کتنی واقفیت رکھتے ہیں ؟اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے، کیا یہ حادثہ نہیں ہے کہ پیغمبرآخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں وہ بنیادی معلومات بھی ہم میں سے اکثریت کے پاس نہیں ہے جسے آپ عام معلومات کہتے ہیں ،پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کا مقصد، آپ کی شخصیت کے حقیقی خد وخال ،آپ کے امتیاز ات اور آپ کی تعلیمات سے شعوری وابستگی کا معاملہ بہت دور کی بات ہوجاتی ہے ۔
ہندوستان کے موجودہ حالات میں خصوصاً اور پوری دنیا میں عموماً اس بات کو رواج دینا ایک مسلمان کی دینی و شرعی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پاک ،آپ کے صحابہ کرام و ازواجِ مطہرات و بنات اطہار کے سوانحی حالات اور ان کی لائق تقلید و اتباع زندگی کو اپنی زندگیوں میں لائیں اور دنیا کو یہ باور کرائیں کہ ہم اس نبی برحق کی تعلیمات کے پیرو اور متبع ہیں جس کا لایا ہوا پیغام پوری انسانیت کی صلاح و فلاح کا ضامن ہے ،سیرت النبی کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہونچائیں ،خود بھی عمل کریں ،عمل کا ماحول پیدا کریں ،پھر پوری انسانیت ان فطری تعلیمات کی گرویدہ ہوگی اور دشنام طرازی اور یاوہ گوئی کا یہ سلسلہ بند ہوتا چلا جائے گا،ان شاء اللہ۔
مظاہرے کا ایک طریقہ یہ بھی ہو سکتا تھا کہ سیرت کا اجتماعی مطالعہ کیا جا تا ،سیرت پر متعدد محاضرات سماعت کئے جاتے ،سیرت کی کسی کتاب کا بالاستیعاب مطالعہ کیا جاتا، سیرت نبوی کے بعض گوشوں پر کچھ اجتماعی تحقیقات پیش کی جاتیں، اخباروں میں بعض صفحات خرید کر سیرت کے اہم گوشوں کو جدید اسلوب وتحقیق میں عام کیا جاتا،کیا یہ سچ نہیں کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی محبت کا بھرم کچھ رسوم کی ادائیگی کے ذریعہ قائم رکھنا چاہتے ہیںاوریہ نہیں چاہتے کہ اتباع اور مطالعہ سیرت کے نام پر اپنے نفس کو مشقت میں ڈالیں ۔
اگر واقعی ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتے ہیں تو آئیے نبی کی سیرت پرکم از کم کسی تحقیقی کتاب کا کم از کم مطالعہ کریں ، اپنے بچوں کو سیرت رسول سے واقف کرانے کی کوشش کریں ، پوری دنیا میں سیرت کو عام کرنے کی کو سش کریں ،معاشرہ کا ہر ہر فرد اپنی بساط اور اپنے اپنے دائرۂ اختیار میں رہ کر سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کو عام کرے ،اگر دنیا سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مطالعہ کرے گی تو اسے آپ کی ذات میں متعدد امتیازات نظر آئیں گے۔
ہم اپنی ذمہ داریوں سے بھاگنے کے بجائے حقائق کا سامنا کریں ،دنیا میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کو عام کرنے میں مشغول ہو جائیں ،دنیا کے بیشتر لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ڈھنگ سے نہیں جانتے ،انہیں نہیں معلوم کہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت تاریخ اور تحقیق کے اصولوں پر کھری اترتی ہے ، انسانی زندگی کو جس نمونے کی بھی حاجت ہے برق رفتار بدلتے حا لات کے باوجود نبی محترم کی حیات طیبہ میں وہ سارے نمونے کسی نہ کسی حوالے سے موجود ہیں، سیرت پیغمبر کی یہ جامعیت لوگوں میں بہتر انداز میں پہنچانے کی ضرورت ہے ۔
آج کے نفرت زدہ ماحول میں ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمان بذات خود سیرت کا مطالعہ کریں اور دنیا کے سامنے منظم انداز میں مطالعہ سیرت کی راہ ہموار کریں ۔
بلاشبہ مسلمانوں کے تمام مسالک و مکاتب فکرمتحد ہوکرمعلم انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے گوشوں کو دنیا کے سامنے لائیں ،دنیا جب اس محسن انسانیت کی زندگی کے تمام گوشوں کا مطالعہ کرے گی ،تو یقینا اس معلم انسانیت کی زندگی میں انسانی فطرت کے اصولوں کو محسوس کرے گی اور غیر اختیاری طور پر قریب سے قریب تر ہوتی جائے گی۔اس لئے کہ ع
ذرا نم ہوتو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی!