محمد حبان بیگ قاسمی
شعبۂ ترتیب فتاوی دارالعلوم دیوبند
یہ تو سچ ہے کہ قرآن کریم سراپا عبادت ہے، اسے سمجھ کر پڑھنا، بے سمجھے پڑھنا، تجوید سے پڑھنا یا باوجود کوشش کے اپنے ٹوٹے پھوٹے انداز میں پڑھ لینا، حتی کہ اسے چومنا، محبت سے اسے چھونا، آنکھوں سے لگانا، دل سے چمٹانا اور پیار بھری نظروں سے اسے دیکھ لینا یہ سب کا سب عبادت ہے، یہ کلامِ محبت ہے، یہ خالق ومخلوق کے درمیان ہم کلامی کا رابطہ اور راز ونیاز کا وسیلہ ہے، محبت میں زبان سمجھنے کی حد بندی بے محل ہے، کلامِ محبوب تو صرف اس جذبے سے پڑھ لینا بھی کافی ہے کہ یہ محبوب کی بات ہے، محبت کیفیت کو دیکھتی ہے، نتائج ومقاصد پر نظر ضروری نہیں.
البتہ اس کلامِ محبت میں نصیحتیں بھی ہیں اور راہنمائیاں بھی، انتباہات بھی ہیں اور حفاظتی تدابیر بھی، یہ کلام؛ محض کلام نہیں؛ یہ ایک پیغام ہے جو رب ذو المِنن کی طرف سے ابدی کامیابی کے لیے بھیجا گیا ہے؛ یہ جس طرح سراپا محبت ہے ایسے ہی سراپا نصیحت بھی.
لہذا سب سے اعلی مرتبہ تو یہی ہے کہ اس کے لفظ لفظ اور حرف حرف میں تدبر ہو؛ مگر یہ کلاموں کا شہنشاہ ہے اور ہے بھی تو شہنشاہ کا کلام؛ اسی لیے ہر کس وناکس کو اس میں تدبر وانتاج کی اجازت نہیں دی جا سکتی، یہ کام تو انبیاء اور ان کے وارثین کا ہے، یہ دربارِ خاص کی باتیں ہیں، ہرکسی کی رسائی یہاں ممکن نہیں، یہ احکام کی آیات ہیں، اور حکم کی تہ تک پہنچنا عوام کا کام نہیں؛ البتہ بہت سے پیغامات دربارِ عام کے ہیں، یہ اعلاناتِ عامہ ہیں، یہ سب کے لیے ہیں، یہ رب کی طرف سے انذارات وتبشیرات ہیں، ترغیبات وترہیبات ہیں، توحید ورسالت اور جنت ودوزخ کی علامات باہرات ہیں، ان میں غور وفکر یعنی ان پیغامات کی روح تک پہنچنا ہر کسی کی اپنی ذمہ داری ہے، ان پر اصلاح دنیوی واخروی موقوف ہے، ان میں غور وفکر کی دعوت دی گئی ہے، ان پیغامات سے غفلت یا اعراض؛ خسارے اور نقصان کی بات ہے، اگر اپنے بس کی ہو تو خود سمجھنا چاہیے اور کم از کم اتنی سمجھ پیدا کرنا تو شعور کی علامت ہے کہ خوف کی بات سے ڈر اور راحت کی بات سے خوشی ہو، نعمتیں بیان ہوں تو شکر پیدا ہو اور پکڑ کی بات آئے تو دل کانپ اٹھے، اس کے لیے پورے طور پر سمجھنا یا سمجھ کر پڑھنا ضروری نہیں، بس ادراک اور شعور ہی کافی ہے، اور اگر یہ بھی نہ ہو سکے تو کم سے کم درجہ یہ ہے کہ اہل علم سے ان کو سنا جائے اور مجالس وخانقاہ، مدارس ومراکز سے جڑ کر اس صلائے عام کا ادراک کیا جائے، یہ اس کلام سے محبت کا تقاضا بھی ہے اور صاحب کلام کی نصیحت کی عظمت بھی، یہ ہر شخص کی ضرورت اور اپنی ذمے داری ہے.
اور اگر اتنا بھی نہیں کیا تو واقعی یہ اعراض ہے، بے توجہی اور غفلت ہے، محبوب اور اس کے کلام کی ناقدری ہے، اپنے خیر خواہ کی احسان فراموشی ہے اور نتیجتاً اس کا موجبِ عقاب ہونا بعید نہیں.
جیسے یہ کہنا درست نہیں کہ یہ کلام سمجھے بغیر پڑھنا گناہ ہے ویسے ہی اس درجہ غفلت کو روا رکھنا کہ روحِ کلام تک بھی نہ پہنچا جائے خواہ کسی بیساکھی ہی کے واسطے سے ہو درست نہیں، یہ کلامِ محبت بھی ہے اور کلام نصیحت بھی؛ چناں چہ جہاں اسے محض محبت سے پڑھ لینا بھی کافی ہے؛ پڑھ ہی لینا کیا؛ دیکھ لینا بھی نفع ہی نفع ہے؛ وہیں اس پیغام کی اصل روح اور نصیحت تک نہ پہنچ پانا، مقصد سے دور ہوجانا اور غفلت واعراض برتنا بھی خسارہ ہی خسارہ ہے.