خامہ بگوش: ابو سعد چارولیہ
خادم جامعہ ڈابھیل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
صد سالہ اجلاس کے ہنگامے فرو ہوگئے، قرب و جوار اور دور و دراز سے آئے ہوئے مہمانان اپنے گھروں کو پہنچ چکے، سب چیزیں دوبارہ اپنی جگہ عود کرگئیں، مگر اب تک یادیں ہیں کہ ذہن کے کینواس سے محو نہیں ہوتیں، باتیں ہیں کہ گھوم گھوم کر وہیں آ رکتی ہیں، سوچا کیوں نہ ان یادوں کے سہارے کوئی تحریری مجلس آراستہ کی جائے، کیا پتا کہ کتنے عاشقانِ زار اس میں اپنی تصویر دیکھ پائے اور کتنے ہجر کے ماروں کو قرار آجائے تو لیجیے، قلم اٹھاتے ہیں
چل میرے خامہ بسم اللہ
خدائے بزرگ و برتر کا کس زبان سے شکر ادا کیا جائے کہ صد سالہ اجلاس کامیابی کو پہنچا،اس کامیاب جلسے کے انعقاد کا ایک پس منظر اور ایک پیش منظر، پیش منظر تو کیمرے کے اِس زمانے میں بھی ہزاروں عینی شاہدوں نے اپنی سگی آنکھوں سے دیکھا کہ تیاریاں ہورہی ہیں، شامیانہ لگ رہا ہے، دار الاقامہ چمکایا جارہا ہے، عمارتوں کی پیشانی پر نام چسپاں کیے جارہے ہیں، ہال دل چسپ اور تاریخی معلومات سے سنوارا جارہا ہے، کرسیاں بِچھ رہی ہیں،اسٹیج سج رہا ہے، ڈیگیں چڑھ رہی ہیں، دعوت نامے گھوم رہے ہیں، فون آرہے ہیں اور جارہے ہیں، فضلا کی جماعتیں سر گرم و پُر جوش ہیں، طلبہ مشتاق ہیں کہ تاریخی جلسے کا مشاہدہ کریں، فضلا بے چین ہیں کہ انتظار کی گھڑیاں کب ختم ہوں گی، لیجیے اکتیس اگست کی صبحِ جاں فزا خدا خدا کرکے آن پہنچی، عاشقوں کا ہجوم ہر طرف سے پانی کے ریلے کی طرح آرہا ہے، جامعہ کا دروازہ اپنی کشادگی کے باوصف اور دخول و خروج کے لیے الگ الگ راستے طے کرنے کے باوجود تنگ نظر آرہا ہے،
وقت سے بہت پہلے جلسہ گاہ کھچاکھچ بھر چکا ہے، پاؤں رکھنے بلکہ تل دھرنے تک کی جگہ نہیں، اسٹیج پر یکے بعد دیگرے مہمانوں کی آمد آمد ہیں، دیکھتے ہی دیکھتے باوقار مہمانوں سے شہ نشین سج دھج گیا، تا آنکہ صدرِ محترم، بقیۃ السلف و الخلف محبوب العلماء و الصلحاءحضرت اقدس مفتی احمد صاحب خانپوری دامت برکاتہم بھی تشریف لے آئے، ان کے آتے ہی صدہا پکاریں بلند ہوئیں:
صحنِ چمن کو اپنی بہاروں پہ ناز تھا
وہ آگئے تو ساری بہاروں پہ چھاگئے
اناؤنسر کی شیریں مگر رندھی، پُر جوش مگر رقت آمیز آواز جامعہ کی فضا میں گونج رہی ہے، بانئ جامعہ حضرت مولانا احمد حسن بھام سملکی کے سبق آموز حالات و واقعات کانوں سے ٹکراکر دل میں اتر رہے ہیں، ایک ایک لفظ دل پر دستک دے رہا ہے، اس گنہگار نے اپنی دیدۂ تر سے بہتیری آنکھوں کو بھیگا اور بہت سے ہونٹوں کو دانتوں تلے دبا ہوا دیکھا،کچھ دیوانے ایسے بھی تھے جن کے ضبط کا بندھن ٹوٹا،چشمِ تر سے موتی گرا،رخسار سے ڈھلکا اور خاموشی سے دامن میں جذب ہوکر فنا ہوگیا، شاید اتنے بڑے ہجوم میں سے کسی آنکھ نے نہ دیکھا ہو مگر لا تأخذہ سنۃ و لانوم کی شان والا تو دیکھ ہی رہا تھا، ہر دل میں جذبات کا طوفان تھا، لیجیے مضامین و مقالوں کا دور شروع ہوا، ورق الٹتے گئے اور ماضی کی سنہری تاریخ آنکھوں کے سامنے آتی گئی اور وہ بھی اس تیزی سے کہ ایک ورق الٹتا اور ایک دہائی نکل جاتی، حتی کہ جام گردش کرتے کرتے میر ساقی کے سامنے آٹھہرا، مردِ درویش،پیرِ مغاں، سالارِ کارواں: استاذنا المکرم کی نورانی شخصیت سے سامعین نے نور ونکہت سے سجی سنوری بزم میں نوریوں کے سردار: علامہ کشمیری کے حالات سنے، مضمون کی سلاست، معانی کی روانی اور زبان کی چاشنی کے ساتھ تاثیر و رقت کی اس سے بَڑھیا مثال اِن آنکھوں نے کیوں دیکھی ہوگی! پچیس تیس منٹ کا عرصہ یوں گذرا جیسے ہوا کا جھونکا، اور میر ساقی جب جام رکھ کر پیچھے ہٹا تو رندوں کی صلائے عام دھڑکتی سانوں سے ادا ہوئی
ایک دو بوند سے ہم رندوں کا بھلا کیا ہوگا
ہم تو کہتے ہیں کہ پورا میخانہ اٹھاکر رکھ دو
مقالوں کی پے بہ پے صدا سے قریب تھا کہ طبیعتیں بوجھل ہوجاتیں اور اسٹیج نگاہوں سے اوجھل، کہیں کہیں شکم سے ”صدائے رحیل”بھی اٹھنے لگی تھی، بھلا ہو ہمارے معزز و مکرم دوست سمعان صاحب کا کہ انہوں نے بھٹکل سے چمنستانِ جامعہ کو پکارا اور جامعہ کی تین بلبلیں بیک آواز نغمہ زن ہوئیں، نغمہ کیا تھا،چلتے پھرتے منچلوں کے قدم جماگیا،دوڑتے بھاگتے اکا دکا بچوں کی شرارت ختم کرگیا اور ادب کی زبان میں کہییے تو پرندے زمین پر اتار لایا، پہلی مجلس ختم ہوئی تو کیا اسٹیج کیا شامیانہ ہر کسی کی زبان پر اسی ترانے کا ذکر تھا ۔
ظہر کی نماز شروع ہوئی تو ”محمود و ایاز” صف بستہ نظر آئے، نماز مکمل ہوتے ہی دسترخوان سج گیا، دھوپ نہ چمکی مگر بھوک خوب چمک رہی تھی، میزبانوں نے بھی خوب نظام سنبھالا، ”العطش و الجوع ”کا نعرۂ مستانہ لگانے والے مجمع کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور مجمع نے کھانے کو آڑے ہاتھوں لیا،سب سے اخیر میں مسجد کے مائک سے اعلان ہوا کہ طلبۂ جامعہ مطبخ میں پہنچ جائیں، تھکے ہارے مجاہدین کی کھیپ سرحدِ طعام پر خیمہ زن تو ہوئی مگر ذمے داریوں کے بوجھ تلے ایسی دبی ہوئی تھی کہ کھانے سے اپنا مشہورِ زماں انصاف نہ کرسکی ۔
ابھی کمر بھی سیدھی نہ کرپائے تھے کہ دوسری مجلس کے لیے جامعہ کی مسجد باجود اپنی وسعت کے تنگ دامنی کی شکایت کرتی نظر آئی،اُدھر حالات کے ستائے، ہجر کے مارے، فراق کے ڈسے: فضلائے جامعہ یوں ہجوم کیے ہوئے تھے جیسے باز کے آہنی پنجوں سے بچنے کے لیے چوزے اپنی ماں کے پروں میں پناہ لیتے ہیں، اور اِدھر محبت کے آبشار اور شفقت کے شجرِ سایہ دار تھے جو روحانی بانہیں پھیلائے مدتوں سے بچھڑے اپنے بچوں کو سکون و قرار کی دولت سے مالامال کررہے تھے، یہ وہ کیفیت ہے جس کے سامنے بیسیوں اعلامیے ہیچ ہیں، ” پیوستہ رہ شجر سے، امیدِ بہار رکھ” کا یہ وہ پیغام ہے جس کے قدموں میں صدہا تجاویز ڈھیر کی جاسکتی ہیں، اور یہ وہ جذبات ہیں جن کے سامنے الفاظ و تعبیرات کا کوہِ ہمالہ بھی بونا نظر آتا ہے ۔
اساتذہ بول رہے تھے، نہیں جی! موتی رول رہے تھے، الفاظ نہیں تھے، پھول تھے جس کے نازک پتوں سے ہیرے کا جگر کٹا جارہا تھا اور پچاس کے پٹے پر پہنچ کر بھی کچھ لمحوں کے لیے فضلا کو لگ رہا تھا کہ ابھی بھی پہلا گھنٹہ چل رہا ہے، کچھ شریر کھڑے ہیں اور استاد جی اسی ہلکے پھلکے انداز میں اپنے لاڈلوں راج دُلاروں کو
لعل و گہر سے نواز رہے ہیں ۔ابھی” ہل من مزید”کی ندا جاری تھی کہ دفعتا وہ اٹھ گئے اور سانسوں کی سرگوشی سنائی دی
یہ کون چپکے چپکے اٹھا اور چل دیا
خاطر! یہ کس نے لوٹ لیں محفل کی دھڑکنیں
عصر کا وقت ہوچلا تھا اور مے کشوں کی پیاس بڑھتی جارہی تھی، نماز ادا ہوئی، "شراب الصالحین”انڈیلی اور نمازِ مغرب پڑھ کر پھر جلسہ گاہ کو دوڑے، اسٹیج پر دو جبہ ہوش عمامہ سر پر لپیٹے نمودار ہوئے، ایک کا باطن ظاہر کی طرح اُجلا، اندرون بیرون کی طرح آراستہ اور دوسرا ۔۔۔۔بس اللہ ہی رحم فرمائے، مہمانوں کی آمد ہوتے ہی آخری نشست کا آغاز ہوگیا، مقالوں کا سلسلہ شروع ہوا، کبھی اکابر کے محسن خاندان و افراد نظر آئے تو کبھی اکابر کی محنتوں کے اثرات،گاہے مجاہد ملت کی ترک تازیاں سامعہ نواز ہوئیں تو گاہے علامہ عثمانی کے شپ و روز، مہانوں کے تأثرات ہوئے، غازیپوری ترانہ بھی ننھی بلبلوں کی زبانی دھوم مچا گیا، کلماتِ تشکر و امتنان اور دعائے مستجاب پر تاریخی اجلاس تمام ہوا اور تمام کیا ہوا تاریخِ جامعہ کا روشن و تابناک باب بن کر ہمیشہ کے لیے انمٹ نقوش چھوڑ گیا ۔
آئیے! اس پیش منظر کے بعد دھڑکتے دل سے پس منظر بھی ملاحظہ کیجیے:
لوگاں کہتے پھرتے ہیں کہ جلسہ کامیاب رہا، مگر یہ کتنے لوگ جانتے ہیں کہ اس کامیابی کے پیچھے چھپے راز کیا ہیں، اندرونی باتوں کو منظرِ عام پر لانے اور اکابر سے ڈانٹ کھانے کا خدشہ نہ ہوتا تو نام بہ نام صد سالہ اجلاس کا ایک ایک ورق الٹتا اور اس پر بکھرا ہوا خون ایک ایک کو دکھاتا، خدمت کے طلبہ ابھی تک مطبخ میں نہیں پہنچے اس کا اعلان تو لوگوں نے سنا مگر ان کی کتنی راتیں اختر شماری میں کٹیں یہ کسی نے نہیں دیکھا، جلسے کے سلیقے، طلبہ کے قرینے اور میزبانی کے طریقے کا ذکر تو ہوا مگر یہ کون جانتا ہے کہ اس مقام تک پہنچنے کے لیے کیسی محنتیں ہوئیں، کاش! مجھے کہنے کی اجازت ہوتی تو میں بتاتا کہ اس اجلاس کی تیاری کے لیے اساتذہ نے کتنے دن تک گھر کا کھانا نہیں کھایا، کتنے لانبے لانبے مشورے ہوئے، پیشانیوں پر کیسی کیسی سلوٹیں ابھریں! بالیقین مجھے ڈانٹ پڑے گی، مگر سن لیجیے کہ جب مشاورتی نشستوں کا آغاز ہوا تو اجلاس کے لیے بجٹ کے نام پر ایک کوڑی بھی نہ تھی، خدا جانے کون کون رویا کہ دیکھتی آنکھوں موسم بدل گیا، سورت، ممبئی، حیدرآباد کے فرزندان آگے آئے اور اس ذمے داری کے لیے اپنے کاندھے پیش کیے، بستی والے اپنے گھر کی چابیاں لے کر دوڑے کہ گھر حاضر ہے،پھر تو اندرون سے بیرون تک فرزندانِ جامعہ کا ایسا تانتا بندھ گیا کہ ایک استاد گرامی قدر کو ان سے رابطے کے لیے متعین کیا گیا، موبائل کی اسکرینیں اور فون کالز گواہ ہیں کہ بہتوں کی پیش کش پر حسنِ معذرت سے کام لینا پڑا، اللہ سلامت رکھے اِن بزرگوں کو کہ یہ باوجود عسرت کے غیرت کا کبھی سودا نہیں کرتے، سچ کہوں بندہ ذاتی طور پر ایسے متعدد اساتذہ کو جانتا ہے جنہوں نے جلسے کے لیے اپنے خانگی پیسے لگائے، ڈابھیل، سملک کالا کاچھا، آسنا ویسما کے باشندوں نے اپنے گھر کے دروازوں کے ساتھ دل کے دروازے بھی کھول دیے اور تاریخی خدمت کرکے اپنے آباؤ اجداد کی یاد دلادی ! اعتکاف میں ٹھہرے طلبہ سہ پہر کو کتنا روئے وہ ان کا رب جانتا ہے اور خدا مست درویشوں نے کتنے آنسو بہائے وہ ان کی آنکھیں جانتی ہیں، راقم کے ایک دوست جنہیں حضرتِ والا کے دربارِ اعلی میں رسائی حاصل ہے بیسیوں مرتبہ حاضرِ خدمت ہوکر نام بہ نام دعائیں کروائیں اور ان ہی کا بیان ہے کہ ہر مرتبہ حضرتِ والا نے پیٹ بھر بھر کر دعائیں دیں،دعائیں لے کر جب وہ شاد کام لوٹتے تو ایک ایک استاد اور ایک ایک خادم کو پکڑ پکڑ کر کہتے کہ آج حضرت نے تیرا نام لے کر یہ دعا کی، او فلاں! تیرا نام لے کر بھی دعا کی، دن کی جلوت میں دعائیں دینے والے کے متعلق کیا آپ یہ گمان بھی کرسکتے ہیں کہ سحر گاہی خلوتوں میں وہ جامعہ کو بھول جاتا ہوگا! "زور و زر ”سے کچھ نہیں ہوتا، سب کچھ ”زاری” سے ہوتا ہے
نقش ہیں سب ناتمام خونِ جگر کے بغیر
سودا ہے نغمۂ خام خونِ جگر کے بغیر
ہال دلہن کی طرح سج دھج گیا تھا مگر جانتے ہیں کہ اس کے پیچھے کتنی توانائیاں صَرف ہوئیں، پریس میں کتنی بھاگ دوڑ ہوئی اور میرے غیرت مند استاد کو صرف جامعہ کی خاطر پریس والوں کی کڑوی کسیلی بھی سننی پڑی، ان کے ناز نخرے بھی برداشت کیے، مقالے تیار بھی ہوئے اور چھپ بھی گئے مگر کسے معلوم کہ لکھنے والی آنکھوں کے کتنے چراغ جلے اور چھاپنے والے ہاتھوں نے کتنا دکھ سہا، وہ ایک جبہ عمامہ پہنے اسٹیج پر ٹھاٹھ سے آیا یہ تو دنیا نے دیکھا مگر لفٹ سے اترتے وقت اس کی زبان سے کانپتی آواز کے ساتھ”اللھم اجعل سریرتی خیرا من علانیتی واجعل علانیتی صالحۃ ” صرف میرے کانوں نے سنا، تاج محل تو سبھی نے دیکھا اور اس کی دل کشی و رعنائی سے اپنی آنکھیں بھی سینکیں مگر آج اس کے معماروں کو کون جانتا ہے، صد سالہ اجلاس ہوا تو دوسرے دن سب اساتذہ و طلبہ نے آرام کیا، صبح درسگاہیں بند رہیں; مگر معلوم ہوا کہ سات بجے دفترِ اہتمام کھلا ہے اور اس کا حاضر باش خادم سرخ آنکھیں لیے سیٹھ پر جلوہ افروز ہے، حالاں کہ میں اپنی سگی سے آنکھوں سے پچھلی رات دیکھ چکا تھا کہ فام ہاوس پر آلِ اکابر کی خدمت کررہے ہیں، ناظم جلسہ نے عرض بھی کیا کہ: حضرت! آپ تشریف رکھیے، ہم دیکھ لیں گے تب بھی وہ اپنا ناتواں جسم لیے رات دو بجے تک وہیں ٹھہرا رہا اور کام کرنے والے جانتے ہیں کہ وہ صبح گیارہ بجے چھٹی ہوتے ہی روزانہ گھر جانے کے بجائے کام کرنے والے اساتذہ کے ساتھ بیٹھتا اور ان کا حوصلہ بڑھاتا، جلسے کے دوسرے دن راقم سو سا کر نیند کی تنی ہوئی چادر پھاند کر جب عصر کے بعد ناظمِ جلسہ سے ملا تو ارشاد ہوا کہ ہم تو صبح مدرسہ آگئے تھے اور مہمانوں کو روانہ کرکے اب قبیل عصر فارغ ہوئے، راقم عرقِ ندامت سے پانی پانی ہوا جارہا تھا اور ادھر سے میری خفت مٹانے کو دعائیں دی جارہی تھیں، ہائے! ان ہی سے سنا ہوا شعر کیسا بروقت یاد آگیا
مکتبِ عشق کے انداز نرالے دیکھے
اس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا
مجھے وہ لمحہ بھی یاد ہے جب اعتکاف، روزوں، دعاؤں اور صدقہ خیرات کا نظام بناتے بناتے میرے ہر دل عزیز استادِ جامعہ نے طلبۂ عزیز سے کہا کہ تمہیں جلسے میں نہیں بیٹھنا ہے، مہمانوں کو موقع دینا ہے تو معا ان کے چہرے بجھ گئے، جوش سرد پڑگیا اور آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھاگیا مگر نتیجہ یہ ہوا کہ اپنے ارمانوں کا خون کرکے انہوں نے مہمانوں کا اکرام کیا، ان کے لیے بھاگے دوڑے، چیخیں سنیں، ڈانٹ بھ کھائی، خاموش رہے، سر جھکاکر دوبارہ مصروفِ خدمت ہوگئے، مہمانوں میں سے بہت سے قابلِ قدر مہمان ایسے بھی تھے جن سے دورانِ جلسہ مستفید ہونے کو دل چاہ رہا تھا مگر وقت اجازت نہیں دے رہا تھا، ان میں سے بعضوں سے بعد میں منتظمینِ جلسہ کو معافیاں بھی مانگنی پڑیں، بہتیرے خدام سے بعد جلسہ کنوینر نے کہا کہ: ” بِل دیجیے تو انہوں نے کہا کہ: دل لیجیے”، کس کس کی قربانی کو یاد کیجیے اور کس کس کو چھوڑیے!
یہ تو ایک جھلک ہے، ورنہ صبحِ خوش ہنگام سے پہلے کیا کیا قیامتیں ٹوٹی ہیں وہ تو جلسے سے وابستگان کا دل جانتا ہے، کسی کا نام لے کر ان کی خدمت کی قیمت گھٹانا نہیں چاہتا، نہ انہیں صلے کی تمنا ہے نہ ستائش کی آرزو، یہ سب ان اجری الا علی اللہ پر یقین رکھنے والے لوگ ہیں، شاد عظیم آبادی سے معذرت کے ساتھ ہم ان کے دو مصرعوں پر اِن بکھرے جذبات کو ختم کرتے ہیں
ڈھونڈوگے اگر ملکوں ملکوں; ملنے کے نہیں، نایاب ہیں ہم
اے اہلِ زمانہ! قدر کرو، نایاب نہیں، کمیاب ہیں ہم
بشکریہ: علم وکتاب واٹس ایپ گروپ