ڈاکٹر مفتی محمد عبید اللہ قاسمی، دہلی
آج کل جدید دانشوران اور مفکرین کی طرف سے ایک نیا ٹرینڈ چل رہا ہے جس میں اسلام سے متعلق علوم، افکار، فقہ، تہذیب، مدارس اور ان کے نصاب اور علماء پر وہ "روایتی” کا لیبل لگاکر اسے مسترد، فرسودہ، گھٹیا اور نالائقِ عمل قرار دینا چاہتے ہیں اور اس کے مقابلے میں اپنی خودساختہ جدید چیزوں کی تبلیغ میں مصروف ہیں. متعدد مضامین، تبصرے اور کتابیں منظرِ عام پر تیزی سے آرہی ہیں جن میں اسلام سے متعلق صحیح علوم وافکار اور مدارس اور ان کے نصاب کو "روایتی” کہکر ان کو ہلکا یا مسترد کرنے کی کوشش کی جاتی ہے.
ایسے امریکی اور مغربی مفکرین ودانشوران اور ان سے متأثرین جو راویتی اور قدیم چیزوں کو مسترد کر ڈالتے ہیں وہ درحقیقت سائنس اور ٹکنالوجی اور دنیا کے جدید ایجادات کے سحر سے علی الاطلاق متأثر ہیں اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ جب دنیا کی ہر نئی ایجاد اور نیا انکشاف پرانی چیز سے بہتر ہے تو پھر اسلام اور اس سے متعلق چیزیں بھی اسی کے زمرے میں رکھی جانی چاہیے اور لہذا اسلام کو بدل کر نئے زمانے کے مطابق اسلام کو وضع کرنا چاہئے یعنی نئے زمانے میں دنیا میں جتنے غیر اسلامی معاملات رائج ہیں ان سب کو اسلام کے مطابق درست قرار دینا چاہیے اور اس طرح وہ اس "غیر روایتی” اور جدید اسلام میں سود، قمار سٹہ، شراب، مرد وزن کا اختلاط، ہم جنس پرستی، سیکس ورکری، پورنوگرافی کی تجارت اور ان جیسی تمام چیزیں حالات کی دُہائی دے کر اور ضرورت کا تقاضا بتاکر جائز کردینا چاہتے ہیں. جبکہ ان عقل کے بیچاروں کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ دنیا جتنی زیادہ نئی چیزوں اور نئی ایجادات کی طرف بڑھے گی وہ دنیوی اسبابِ راحت اور دنیوی ترقی کی طرف بڑھے گی مگر اسلام کے بارے میں انسان جتنا پیچھے کی طرف یعنی زمانہِ نزولِ اسلام کی طرف جائے گا وہ اسلام پر اتنا زیادہ عمل کرنے والا ہوگا اور دینی اعتبار سے ترقی یافتہ انسان ہوگا اور جتنا اس سے مختلف ہوتا جائے گا وہ اتنا ہی اسلام سے منحرف اور گمراہ ہوتا چلا جائے گا خواہ وہ انحراف وگمرہی اور اس کے مظاہر کتنے ہی خوبصورت اور بظاہر معقول کیوں نہ نظر آئیں، یعنی مسلمان کی دینی ترقی پیچھے کی طرف جانے میں ہے اور دنیوی ترقی آگے کی طرف جانے میں ہے. جب یہ فرق ملحوظ رہے گا تو آدمی بات بات میں اسلام ومتعلقات کو "روایتی” کہہ کر مسترد کرنے سے گریز کرے گا.
ایسے "غیر روایتی” مفکرین کو یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے اور اپنی فکر کی اصلاح کرنی چاہیے کہ کسی چیز کے روایتی وقدیم ہونے یا غیر روایتی وجدید ہونے میں کچھ نہیں رکھا ہے بلکہ اصل چیز کسی چیز کی نافعیت ہے. جو چیز نافع ہو اسے اختیار کرنا چاہیے خواہ وہ روایتی وقدیم ہو یا غیر روایتی وجدید ہو. اسی اصول کو اختیار کرکے انسان فلاح یاب ہوسکتا ہے. اسلام کی پوری عمارت "نافعیت” پر قائم ہے، نہ کہ قدامت وجدت پر. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو دعاء "اللهم إني أسئلك علما نافعا…” فرمائی ہے اس میں "نافعیت” کی بات مذکور ہے، قدیم وروایتی یا جدید وغیر روایتی علم کی بات نہیں ہے. لہذا ضرورت ہے کہ ایسے مفکرین اپنی فکر کا احتساب کریں، اس کا ہیولی درست کریں اور بات بات پر "روایتی” کی تعبیر استعمال کرنے سے گریز کرتے ہوئے اپنا فوکس "نافع” اور "غیر نافع” پر کریں.
کیا یہ حیرت کی بات نہیں ہے کہ یہ مفکرین جو اسلام، مسلمان، مدارس، نصابِ مدارس، علماء، فقہ وغیرہ پر "روایتی” کا لفظ چسپاں کرکے استخفاف واسترداد کرتے ہیں اگر یہی تعبیر ان سے متعلق امور کے بارے میں استعمال کی جائے تو انہیں گراں گزرنے لگتا ہے. ان کا یہ رویہ اور وجہِ فرق یقیناً ناقابلِ فہم ہے. اسی "روایتی” تعبیر کی تفریع کرتے ہوئے ان سے جب پوچھا جاتا ہے کہ آپ کی روایتی اولاد کتنی اور غیر روایتی کتنی ہیں، کتنی بیویاں روایتی اور کتنی غیر روایتی ہیں، روایتی والد کون اور غیر روایتی کون ہیں، روایتی مدخلِ طعام کیا اور غیر روایتی کیا ہے، آپ خواتین کو ہی روایتی طرز اختیار کرتے ہوئے بچے جننے اور پرورش کی ذمہ داری کیوں دیتے ہیں، چلنے اٹھنے بیٹھنے سونے میں روایتی طرز کیوں اختیار کرتے ہیں اور اس طرح کے دوسرے سوالات جب ان سے پوچھے جاتے ہیں تو وہ پریشان ہوجاتے ہیں.
خلاصہ یہ کہ اسلام، احکامِ اسلام، فقہِ اسلامی، علماءِ اسلام اور مدارسِ اسلام پر "روایتی” لفظ استعمال کرتے ہوئے ان کا ٹھٹھا کرنا، ان پر طنز کرنا، فرسودہ قرار دینا استخفاف اور مسترد کرنا سخت قابلِ اصلاح امر ہے. اس سے گریز ضروری ہے. کسی چیز کو جانچنے کا اصل پیمانہ اس کی "نافعیت” ہے خواہ وہ روایتی ہو یا جدید.
مورخہ 13 جنوری 2025