’’شاید انور صابری مرحوم سے واقف ہوں آپ‘‘

✒️ڈاکٹر عبید اقبال عاصم، علی گڑھ

بھاری قدو قامت، پُر رعب چہرہ، بڑی بڑی آنکھیں (جن میں دنیا کے مشاہدات کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے تھے) کرخت آواز، لمبے لمبے بال، بے ربط دراز داڑھی، گیروے رنگ کا جبہ نما کرتا، جو دبیز جسم پر جھول معلوم ہوتا تھا، ہاتھوں میں دبی ہوئی مسلسل وِلس کی سگریٹ، منھ سے نکلتا ہوا دھواں، دیوبند کی سڑکوں پر رکشا میں رواں دواں جاتے ہوئے درج بالا حلیہ کا کوئی شخص چالیس سال قبل دور سے بھی جاتا ہوا نظر آجاتا تو تمام واقف کار سمجھ جاتے کہ ’’علامہ‘‘ آج کل دیوبند میں وارد ہیں اور انہیں سہرا، رخصتی یا مرثیہ لکھوانے میں کوئی دشواری نہیں ہے۔‘‘
یہ ’’علامہ‘‘ برہان الحق شاہ المعروف بہ غلام انور صابری تھے، جو عرف عام میں ’’علامہ‘‘ یا ’’بڑے صابری صاحب‘‘ اور ادبی و شعری حلقوں میں ’’انور صابری صاحب‘‘ کے نام سے جانے جاتے تھے۔ ان کی پیدائش دیوبند کے ایک عثمانی خانوادے میں انیسویں صدی کے آخری سال یا بیسویں صدی کے ابتدائی سال میں ہوئی تھی۔
بچپن ہی سے ’’علامہ‘‘ میں بڑے پن کے آثار نمایاں تھے، ابتدائی تعلیم انہوں نے مروجہ طریقہ پر حاصل کی، پھر دارالعلوم دیوبند میں د اخل کردئیے گئے، جہاں انہیں علامہ انور شاہ کشمیری سے تلمذ حاصل ہوا۔ دارالعلوم سے فراغت تو حاصل نہیں کرسکے لیکن علامہ انور شاہ کشمیریؒ سے اکتسابِ فیض کیا اور شاید یہ اسی اکتسابِ فیض کا نتیجہ تھا کہ اللہ نے انہیں زبردست قوتِ حافظہ، ذہانت و دیانت و یادداشت میں مثالی انسان بنا دیا۔ طالب علمی کے ابتدائی ایام میں ہی انہیں ہندوستان کو انگریزوں کی گرفت سے نکالنے اور تحریک آزادی ہند میں شامل ہونے کا چسکا لگ گیا، جس کی وجہ سے تعلیم جاری نہ رکھ سکے۔ غالباً مولانا حسین احمد مدنیؒ کی معرفت وہ ہندوستان کی سیاست میں داخل ہوئے، مجلس احرار کے رکن کی حیثیت سے ان کے سیاسی مشن کا آغاز ہوا، وہ ’’انگریزوں سے ہندوستان کی رہائی‘‘ کے مبلغ بن گئے جس کی پاداش میں انہیں مختلف اوقات میں دیو ہیکل دیواروں کے پیچھے کئی سال قید بامشقت کی شکل میں گزارنے پڑے جسے انہوں نے خندہ پیشانی سے برداشت کیا۔
وہ جذبۂ حب الوطنی سے سرشار تھے، اللہ نے انہیں بہت سی فطری صلاحیتوں سے نوازا تھا، جن میں ایک ان کی قلندرانہ شاعری اور اس پر مستزاد ان کی بلند و بالا قد آور شخصیت اور ان کی مترنم آواز بھی تھی، اپنے اشعار، آواز اور حاضر جوابی کی بدولت مشاعرے لوٹ لینا ان کے بائیں ہاتھ کا کمال تھا۔ وہ حقیقت میں شاعر تھے، فی البدیہ شاعری میں وہ جتنے ماہر تھے اتنی مہارت کسی کسی کو حاصل ہوتی ہے۔ وہ راقم کے قریبی عزیز تھے، میری والدہ کے حقیقی ماموں تھے، بچپن میں اکثر و بیشتر تقاریب کے مواقع پر سہرے، رخصتی لکھوانے کی ذمہ داری میری ہوتی تھی۔محلہ بڑے بھائیان میں واقع ان کے مکان کے باہری حصے میں ان کی بیٹھک تھی، جہاں داخل ہوتے ہی چق کے پیچھے سے گرج دار آواز آتی ’’کون‘‘؟ یہ آواز بسا اوقات سہما دینے والی ہوتی، تمام ہمتیں جٹا کر جب اپنا تعارف کرایا جاتا تو شانِ نزول دریافت ہوتا، جب باریابی کی اجازت ہوجاتی اور عرض مدعا ہوتا تو ان کا پہلا کام ان کے لئے سگریٹ فراہم کرنا ہوتا، جس کے پیسے وہ خود ادا کرتے، جب سگریٹ لائی جاتی تو قلم ہاتھ میں دبا کر چند منٹ میں ہی سہرا یا رخصتی ہاتھ میں دے دیا جاتا۔ ناموں کو اور واقعات کو اشعار میں سمو دینے اور ان کو ذو معنی کرنے میں یدِ طولیٰ رکھتے تھے، ایسی ہی ایک تقریب میں ایک عزیزہ کی رخصتی لکھوانے کے لئے راقم صابری صاحب کے پاس گیا اور ان سے بچکانہ انداز میں احوال عرض کئے۔ صابری صاحب کو معلوم تھا کہ لڑکی کے والد تقریب میں شریک نہیں ہو رہے ہیں، انہوں نے رخصتی لکھ کر دی جس کے ایک شعر نے رخصتی پڑھنے اور سننے والے ہر شخص کو رلادیا، وہ شعر آج تک حافظہ میں موجود ہے:

واقعہ ہے کس قدر تقدیر کی بیٹی ہے تو
باپ ہے سر پر مگر بے باپ کی بیٹی ہے تو
حقیقت یہ ہے کہ علامہ انور صابری بہت عالی مرتبت و اعلیٰ اوصاف کے حامل تھے، ان کی شان قلندرانہ تھی، اللہ نے انہیں جس قدر مقبول عوام و خواص میں کیا تھا اس کی مثال مشکل سے ہی ملے گی، وہ وطناً دیوبندی تھے اور مسلکاً بریلویت سے قربت رکھتے تھے، لیکن وہ دونوں طبقوں کے خواص میںعزت و احترام کی نظروں سے دیکھے جاتے تھے۔ وہ دیوبندی علماء کی مجالس میں جاتے تو وہاں ہاتھوں ہاتھ لئے جاتے۔ مولانا حسین احمد مدنیؒ، علامہ ابراہیم بلیاویؒ اور قاری محمد طیب صاحبؒ جیسے جلیل القدر علمائے کرام ان کے لئے مسند خالی کرنا اپنا فریضہ سمجھتے تھے۔ مزارات اور خانقاہوں میں جاتے تو ان کے مریدین و معتقدین کا ایک بڑا حلقہ تھا جو ان سے اکتساب فیض کرتا اور ان کی جوتیاں سیدھی کرنا اپنے لئے باعث فخر و افتخار سمجھتا۔ سیاسی حلقوں میں وہ آزاد ہندوستان کے ابتدائی 37؍برسوں میں (1947ء تا1984ء) پارلیمنٹ کے بیشتر بااثر ممبران سے لے کر وزارتِ عظمیٰ تک براہِ راست رسائی رکھتے تھے لیکن کبھی ایسا نہ ہوتا کہ وہ اپنے کسی شناسا سے ایسے مواقع پر غافل ہوگئے ہوں بلکہ ایسے مواقع پر وہ اپنے شناسائوں کا خاص خیال رکھتے اور اگر انہیں کسی مدد کی ضرورت ہوتی تو وہ بلاتامل کرادیتے۔
غرباء نوازی بھی ان کا ایک خاص وصف تھا، مجھ سے دیوبند کے ایک مزدور پیشہ شخص نے اپنا واقعہ سنایا کہ میں مزدوری کے لئے سری نگر گیا ہو تھا، مجھے کسی سے معلوم ہوا کہ صابری صاحب کشمیر کے وزیر اعلیٰ بخشی غلام محمد کی دعوت پر سری نگر آئے ہوئے ہیں اور آج وہ اسی مقام پر آئیں گے جہاں میرا کام چل رہا تھا۔ میں نے سوچا کہ صابری صاحب تو مجھے کیا پہچانیں گے؟لیکن میں تو صابری صاحب کو پہچان لوں گا، ان کو دیکھنے کے لئے اسی جگہ چلا گیا جہاں انہیں آنا تھا، صابری صاحب بخشی غلام محمد کے ساتھ پورے فوجی لشکر کے ساتھ تھے، مجھے اپنے ہم وطن کی اس عزت پر فخر ہو رہا تھا کہ اچانک صابری صاحب نے مجھے نام سے آواز دی کہ ’’ابے اور فلاں‘‘ میں قریب پہنچا تو صابری صاحب نے مجھے لپٹا لیا اور بخشی غلام محمد سے میری تعریفیں کرنے لگے۔ واقعہ میں ہوسکتا ہے کہ کچھ مبالغہ ہو لیکن صابری صاحب کی یہ خصوصیت تھی کہ وہ اپنے ہم وطنوں اور شناسائوں کو بھری محفل میں پہچان کر بلاامتیاز صغیر و کبیر آواز دے کر بلالیا کرتے تھے اور اس کے لئے وہ مجمع یا کسی شخصیت کی پرواہ نہ کرتے۔
صابری صاحب ظاہری وضع قطع میں بناؤ سنگھار سے بے نیاز تھے، اس لئے بسا اوقات انہیں پہچاننے میں وہ لوگ مغالطہ میں مبتلا ہوجاتے جن کے ذہنوں میں صابری صاحب کا تصور بہت بلند و بالا تھا، ان کی بے ترتیب داڑھی اور بکھرے بکھرے بال، بدن پر جھول نما کرتا جس کی جیبیں اکثر بیشتر گھٹنے تک جاتی ہوتیں، ایک عام آدمی کو ان کے بارے میں ایک درویش سے زیادہ حیثیت نہ دے پاتیں، بہت سے لوگ تو انہیں مجنون یا مجذوب بھی سمجھتے تھے۔ وہ واقعتاً درویش صفت انسان تھے۔ انہوں نے زندگی میں جتنی دولت کمائی اگر اسے وہ جمع کرتے تو ان کی کئی نسلیں اس دولت سے فیضیاب ہوتیں، لیکن صبح کی آمدنی شام تک خرچ کردینا ور شام کی دولت کو صبح تک اڑا دینا ان کی طبیعت ثانیہ تھی۔ یہی وجہ تھی کہ جب صابری صاحب کہیں سے واپس آتے تو اسٹیشن پر انہیں لانے کے لئے خواہش مند رکشا والوں کی قطار لگ جاتی، یہ رکشا والے ان سے معاوضہ بالکل طے نہ کرتے کیوں کہ انہیں معلوم تھا کہ اباجی کے ہاتھ میں جو آئے گا وہ ان کی محنت ہے، اس سستے زمانے میں رکشا والوں کو بیس تیس روپئے دیدینا ان کے لئے عام بات تھی، کبھی ایسا بھی ہوتا کہ اس مفلس کی جیب خالی ہوتی تو رکشا والے خالی ہاتھ واپس ہوتے، لیکن اس سے رکشا والوں کو کبیدگی نہ ہوتی بلکہ وہ خندہ پیشانی سے صابری صاحب کو لانے لے جانے کا فریضہ انجام دیتے۔ ان کا معاملہ یہیں تک محدود نہ تھا بلکہ ان کی فیاضانہ طبیعت، شاعرانہ کلام بھی بے دریغ لٹاتی جس کی وجہ سے بہت سے متشاعر ’’قدآور شعراء‘‘ کی صف میں نظر آنے لگتے۔ اپنے شاگردوں کو ان کی طبیعت کی موزونی کے مطابق غزل لکھ کر دینا، پھر اسے مشاعروں میں پڑھوانا اور اس پر داد دینا اور دلوانا ان کی خصوصیات تھیں۔
علامہ بہت بارعب شخصیت کے مالک تھے، مشاعروں کو لوٹنا، اپنی ادائوں سے محفل کو زندہ کردینا، دلچسپ واقعات، لطیفوں اور حاضر جوابی سے مجمع کو زعفران زار بنا دینا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا، لیکن وہ کبھی بے ادبی برداشت نہ کرتے۔ دیوبند کے دو تین چھوٹے چھوٹے مشاعرے وہ بھی یاد ہیں کہ جب منتظمین نے انہیں باصرار بلایا، وہ رونق مشاعرہ ہوئے، جب ان کا نمبر آیا تو کچھ من چلوں نے گستاخانہ ریمارک پاس کردئیے تو وہ آگ بگولہ ہوگئے، اللہ نے ان کو قوتِ حافظہ بھی عجیب دیا تھا، ایسے مواقع پر وہ گستاخ کی آواز سنتے ہی مائک سے ہی گویا ہوتے کہ :ابے اور فلانے !تو مجھے جانتا نہیں، تو گستاخ کب سے ہوگیا؟ وغیرہ وغیرہ۔ صابری صاحب ریمارکس بہت دلچسپ ہوتے تھے، انہیں جب سنا جاتا تو قہقہے ٹوٹ پڑتے، بہت سے لوگ اسی وجہ سے گستاخی کی جرأت بھی کرتے تاکہ ہنسنے ہنسانے کا موقع مل سکے۔
صابری صاحب سے متعلق ادبی دنیا میں جتنے لطائف مشہور ہیں بیسویں صدی میں شاید ہی کسی دوسرے کے حصہ میں آئے ہوں، اکثر تو یہ ہوتا کہ وہ اپنی حاضر جوابی کے باعث پالا مار لیتے لیکن کبھی کبھار انہیں لاجواب بھی ہونا پڑتا، ان کے ایسے ہی لطائف میں مشہور ہے کہ ایک دفعہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ایک مشاعرہ میں جب انہوں نے محسوس کیا کہ طلباء کسی بھی شاعر کو سننے پر رضامند نہیں ہیں اور ہر ایک کو بے داد کر رہے ہیں تو صابری صاحب نے اپنا نمبر آنے پر اس کا توڑڈھونڈھ نکالا۔ صابری صاحب نے مائک پر آکر طلباء کو خطاب کرتے ہوئے ان کی توجہ نعت نبی پر مبذول کراکے محفل کو سنجیدہ بنادیا اور اپنی پراثر، مترنم آواز میں نعت کا مطلع پیش کیا تو سبحان اللہ، الحمد للہ کی داد تحسین سے پنڈال گونج اٹھا، لیکن کسی من چلے طالب علم نے جب نعرۂ تکبیر اور اس کے جواب میں مجمع نے اللہ اکبر کی صدا بلند کی تو صابری صاحب جزبز ہو کر رہ گئے۔
علی گڑھ کے ایک مشاعرہ میں شرکت کرنے کے بعد واپسی کے وقت بس اسٹینڈ کے قریب ایک مزار کے پاس سے گذرتے ہوئے صابری صاحب نے اپنے جلو میں چلنے والے طلبہ کے ہجوم کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے کے لئے زور سے ’’وعلیکم السلام‘‘ کہا، طلباء متحیر ہو کر مستفسرانہ نظروں سے صابری صاحب کو دیکھنے لگے تومرحوم نے فرمایا کہ ’’صاحب قبر نے سلام کیا تھا، یہ اپنے سلسلے کے ہیں‘‘ یہ سنتے ہی طلباء کو ہنسی پر قابو پانا دشوار ہوگیا، بعدمیں جب صابری صاحب کو معلوم ہوا کہ یہ ’’کتے کی قبر‘‘ ہے تو انہیں بھی خفت اٹھانی پڑی۔
بہرحال وہ اپنے وقت کے عجیب و غریب انسان تھے، جب تک وہ چلتے پھرتے نظر آئے تو محسوس ہی نہیں ہوا کہ عظیم الشان ہمارے درمیان ہے لیکن جب وہ دنیا سے رخصت ہوگئے تو پتہ چلا کہ دنیا ایک اچھے شخص سے خالی ہوگئی۔13اگست 1985ء کو دیوبند میں ان کا انتقال ہوا۔ انتقال سے کچھ قبل ہی انہوں نے کہا تھا کہ:
حشر تک اب زباں نہ کھولیں گے
تم پکارو گے ہم نہ بولیں گے
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی حساس طبیعت کو اپنی ہمیشہ کی خاموشی کا یقین ہو چلا تھا، ان کی شاعرانہ خصوصیات میں جہاں انہیں فی البدیہہ اشعار کہنے پر قدرت تھی وہیں وہ کلام کا معیار نہیں گرنے دیتے تھے۔ خود پسندی اور انا کا بھرم رکھنا ان کی روایت تھی، وہ محبوب کا شکوہ بھی کرتے تو اس کا بھی مخصوص انداز ہوتا۔ فرماتے ہیں:
چپ وہ بھی رہے چپ ہم بھی رہے فریاد زباں پر لا نہ سکے
مجبوریٔ دنیا کیا کہئے وہ آ نہ سکے ہم جا نہ سکے
ایسے ہی ایک جگہ انہوںنے یہ بھی کہا ہے کہ:
وجہ بربادی دل پوچھ رہی ہے دنیا
لب پہ کیا جانئے کیوں آپ کا نام آتا ہے
دل ناکام سہی پھر بھی تومیرا دل ہے
یہی ناکام برے وقت میں کام آتا ہے
ہندوستان کی آزادی کے لئے انہوں نے جو انقلابی نظمیں کہیں وہ تحریک کی شکل اختیار کرگئیں، وہ نامکمل آزادی کے کبھی قائل نہیں رہے بلکہ ہمہ جہت آزادی کے علمبردار تھے۔ انہوںنے کہا کہ:
جس انقلاب میں مزدور کامیاب نہیں
وہ انقلاب کبھی میرا انقلاب نہیں
صابری صاحب آزادی کو مذہبی فریضہ تصور کرتے تھے جس کا عکاس ان کا مندرجہ ذیل شعر ہے:
غلام قوم کا دل بھی غلام ہوتا ہے
غلام قوم کا سجدہ حرام ہوتا ہے
علامہ انور صابری کی مشاعروں میں موجودگی مشاعروں کی کامیابی کی ضمانت تصور کیا جاتا تھا، اس کی وجہ جہاں ان کا اپنا مخصوص لب و لہجہ، ہیئت کذائی اور دل سوز و پردرد آواز تھی وہیں ان کی وہ پھبتیاں بھی تھیں جن سے وہ اسٹیج پر بیٹھنے والوں کو زعفران زار بناتے رہتے، ان کی یہ پھبتیاں کبھی نثرمیں ہوتی تھیں اور کبھی منظوم۔ مائک پر موجود شاعر کے شعر پر تضمین لگانے میں مہارت رکھتے تھے۔ بسا اوقات اسی شاعر کو اپنے تضمینی اشعار سنا کر شاعر کو بھی محظوظ کرتے اور خود بھی محظوظ ہوتے، بسمل شاہ جہاں پوری سے ان کی دوستانہ نوک جھونک کے بہت سے واقعات ہیں۔ ایک مشاعرہ میں بسمل جب اپنی بلند و بالا مترنم آواز میں اپنی غزل کا مقطع:
یہ نہیں ساز کی آواز کی محفل کی غزل
نام قاتل ہے منسوب بہ بسمل کی غزل
سنا کر مشاعرہ لوٹ کر تشریف فرما ہوئے تو صابری صاحب نے انہیں مخاطب کرکے اپنی تضمین سنا کر اسٹیج کو قہقہوں سے لوٹ پوٹ کردیا:
نہ یہ تنہائی کا نغمہ نہ یہ محفل کی غزل
صرف آواز ہی آواز ہے بسمل کی غزل
شنکر لال شنکر نے لال قلعہ کے جشن آزادی کے مشاعرہ میں جب اپنا شعر:ـ
غنچہ جب کوئی چٹکا تو یہ کہہ کے اڑا بلبل
اٹھ خواب سے او غافل، ہنگام سحر آیا
حاضرین کی نذر کیا تو صابری صاحب نے برجستہ کہا:
شنکر کی غزل سن کر محفل یہ پکار اٹھی
شہرت کا تماشائی اک طالب زر آیا
بہرحال علامہ انور صابری مرحوم آج اس عالم آب و گل میں موجود نہیں ہیں۔ 13؍اگست 1985ء کو دیوبند میں انتقال ہوا اور وہیں سہارنپور روڈ پر واقع مولوی بشیر صاحب کے قبرستان میں تدفین عمل میںآئی۔ لیکن ان کی یادیں ایک نسل کے ذہن میں محفوظ ہیں، انہوںنے اپنے علمی ترکہ میں تقریباً پانچ مطبوعات چھوڑیں لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ یہ عظیم شخص اپنوں کی غفلت کی نذر ہوگیا۔ ان کے مجموعۂ کلام اور نثری سرمائے اس وقت مفقود ہیں لیکن اتنا ضرور ہے کہ کچھ افراد ابھی بھی ایسے ہیں جن کو ان کے نام یاد ہیں، ان کے نثر و نظم کی مطبوعات ’’مجیٹھہ سرداروں کی حب الوطنی‘‘، ’’جانے پہچانے اور وہ جنہیں کوئی نہیں جانتا‘‘، ’’از آدم تا ایں دم‘‘، ’’برطانوی سامراج‘‘ وغیرہ جیسی مطبوعات ہیں۔ اول الذکر دو کتابوں نے نثر نگاری میں صابری صاحب کی قدرت کا احساس دلایا تو مؤخر الذکر دونوں منظوم کلام ہیں۔ علاوہ ازیں گزشتہ دنوں ان کے نواسے عمیر عثمانی صاحب نے صابری صاحب کی چند نعتوں کو یکجا کرکے ایک نعتیہ مجموعہ ’’سلام علیک‘‘ شائع کیا جو محبانِ رسولؐ میں پسندیدگی کی نظر سے دیکھا گیا۔
صابری صاحب کی دو شادیاں ہوئیں، پہلی اہلیہ سے ایک بیٹے اظہر صابری اور ایک بیٹی شکیلہ خاتون ہوئیں، ان کے نقش قدم پر چلنے والے اظہر صابری مرحوم کا انتقال اپریل 1991ء میں ہوگیا۔ شکیلہ خاتون کی شادی علامہ کے ہی خاندانی عزیز مولانا شمیم احمد صاحب مرحوم سے ہوئی تھی، ان کا انتقال(مارچ2018ء) میں دیوبند میں ہوا۔ صابری صاحب کی دوسری شادی بھی دیوبند میں ہی ہوئی۔ دوسری اہلیہ نے کم و بیش ایک صدی کی بہار و خزاں کا لطف لے کر جنوری 2024ء میں وفات پائی۔ ان سے تین صاحبزادیاں اور دو صاحبزادے تولد ہوئے ۔حسیبہ خاتون والدہ کے چند ماہ گذرنے کے بعد (اکتوبر 2024ء) میں داغِ مفارقت دے گئیں، انا للہ و انا الیہ راجعون۔رضیہ خاتون، ا طہر صابری، شاہین بیگم اور انظر صابری اپنے اپنے مشاغل میں مشغول ہیں۔اطہر صابری تقریباً گذشتہ تیس سالوں سے حیدرآباد میں مقیم ہیں، جہاں اُن کے بچے مختلف النوع کاروبار سے وابستہ ہیں۔ شاہین بیگم دہلی کے سرکاری اسکول میں تدریسی فرائض انجام دینے کے بعد سبکدوش ہوچکی ہیں۔ انظر صابری صاحب دیوبند میں رہ کر کسبِ معاش میں مصروف ہیں۔
علامہ انور صابری مرحوم کو دنیا سے رخصت ہوئے40سال گزر رہے ہیں لیکن اس عظیم شخص کی جس نے جدوجہد آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا، گیسوئے اردو کو سنوارا تھا سیاسی اتار چڑھائو میں کانگریس کے لئے سپاہیانہ کردار ادا کیا تھا ، کسی بھی حیثیت سے ان کی وہ قدر افزائی نہیں ہوئی جس کے وہ مستحق تھے۔
حقیقت یہ ہے کہ صابری صاحب کی درویشانہ صفت کے باعث ان کی صلاحیتوں کا استحصال ان کی زندگی میں بھی ہوا اور مرنے کے بعد بھی ان کے ساتھ یہ عمل مسلسل جاری ہے، اس کی ذمہ داری اوروں پر نہیں، خود ان کے اپنوں پر ہے کہ جنہوں نے اپنی غفلت اور بے حسی کے باعث اس انسان کو ضائع کردیا ابھی بھی اگر ان کے کلام اور ان کی نثری مطبوعات کی طرف توجہ دی جائے تویہ دنیائے اردو کے لئے نیک فال ہوگا اور صابری صاحب کے تئیں زبردست خراج عقیدت۔ راقم کو اپنی آواز نقار خانہ میں طوطی کی مانند ہونے کا احساس ہے لیکن بقول صابری صاحب:
کوئی سنے نہ سنے انقلاب کی آواز
پکارنے کی حدوں تک تو ہم پکار آئے
(ڈاکٹر) عبیدا قبال عاصم
وادیٔ اسماعیل، نزد مسجد ابراہیم
دوہرّہ معافی، علی گڑھ 202002
email : ubaidiqbalasim@gmail.com
٭٭٭

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے