ضیاء الحق خیرآبادی ( حاجی بابو)
ماں کی ذات سراپا شفقت ومحبت ہوتی ہے ، ان کا سایہ اولاد کے سرپر بڑی خیر وبرکت کا باعث ہوتا ہے،ان کا وظیفۂ حیات ہی اپنی اولاد کی صلاح وفلاح ہوتا ہے، اماں کی حیات میں کبھی ان کی فرقت وجدائیگی کا خیال بھی نہ آتا تھا مگر تقدیر کا لکھا پورا ہوکر رہتا ہے، ۹؍جون2008ء مطابق۴؍ جمادی الاخریٰ1429ھ دوشنبہ کی صبح بعد نماز فجر والدہ ماجدہ … جن کی جدائیگی کا تصوربھی سوہان روح تھا… ایک مختصر علالت کے بعد ہمیں داغ مفارقت دے گئیں ، آج اس سانحہ پر بارہ سال کا عرصہ گزر چکا ہے، اس عرصہ میں متعدد بار قلم اٹھایا کہ اماں کی شخصیت پر کچھ لکھوں لیکن خیالات وافکار کے ہجوم اور یا دوں کی یلغار اورروانی میں الفاظ اس قدر پیچھے رہ جاتے کہ چند سطروں کے بعد قلم رکھ دینا پڑتا ، اور میں ان کی یادوں میں کھوکر رہ جاتا۔آج پختہ ارادہ کے ساتھ قلم اٹھایا ہے کہ جس قدر ممکن ہوسکے ان کی یادوں کو ذہن کے نہاں خانوں کے نکال کر ان صفحات پر منتقل کردوں ۔
اماں پرانے طرز کی گھریلو خواتین کی طرح تھیں، ان کی تعلیم بس اتنی تھی کہ وہ قرآن مجید درست طور پر پڑھ لیتی تھیں، لکھنا نہیں جانتی تھیں ، اس وقت بہت سے مسلم گھرانوں میں بچیوں کو صرف قرآن مجید پڑھادیا جاتا تھا ، اماں بھی اسی تعلیم کا نمونہ تھیں ، صوم وصلوٰۃ کی انتہائی پابند ، نوافل اور بہت سے اذکارواوراد ان کے معمولات میں رہتے تھے ، سورہ یاسین وغیرہ زبانی یاد تھی ، حسن انتظام اور خدمت خلق میں پورے خاندان میں اماں کی کوئی نظیر نہ تھی ، گھر ، خاندان ، پاس پڑوس اور رشتہ داریوں میں کوئی بیمار ہوجائے تو سب سے پہلے عیادت وتیمار داری میں موجود، کسی کا انتقال ہوجائے تو تسلی وتعزیت میں پیش پیش! پورے خاندان میں کہیں کوئی پروگرام یا تقریب ہوتو اماں کی موجودگی ضروری سمجھی جاتی ، ہر طرح کے امور میں سب لوگ اس سے مشورے کے طالب ہوتے ، اماں صرف مشورے پر اکتفا نہیں کرتی تھیں بلکہ اس کام میں لگ کر اس کو تکمیل تک پہنچاتی تھیں ،جذبہ خدمت کا یہ حال تھا کہ کوئی بیمار ہوجائے تو گھر سے ہاسپٹل تک خدمت کے لئے حاضر رہتیں ۔ کھانا بہت عمدہ اور لذیذ بناتی تھیں ، مہمان نوازی کا خاص ذوق تھا۔ استاذی حضرت مولانا اعجاز احمد صاحب اعظمی علیہ الرحمہ کی بکثرت آمد ہوتی تھی ، ان کے ساتھ مہمانوں کی بھی ایک معتد بہ تعداد ہوتی تھی ، اماں مہمانوں کی خدمت کے لئے ہمہ وقت مستعد رہتیں ، وقت ناوقت جب بھی مہمان آجائیں کبھی ان کی پیشانی پر شکن نہیں آتی تھی ، ان کے ہاتھ اور کام میں برکت بہت تھی ، ہر کام بہت جلد مکمل کرلیتی تھیں، فجر کی اذان سے پہلے بیدار ہوجاتیں اور دن نکلتے نکلتے نماز وتلاوت اور اپنے معمولات سے فارغ ہوکر امور خانہ داری میں لگ جاتیں،سستی وکاہلی ان کو چھوکر بھی نہیں گزری تھی ، کافی جفاکشی کی زندگی انھوں نے گزاری۔
اپنی اولادوں کے ساتھ محبت اور تعلق تو سبھی ماؤں کو ہوتا ہے ، لیکن اماں کو اپنی اولادوں کے ساتھ جو محبت تھی وہ غیر معمولی تھی ،بڑے ہوجانے کے بعد بھی تمام بہن بھائیوں پر ان کی گہری نظر رہتی تھی، میںچونکہ آخری اولاد تھااس لئے میرے ساتھ مزید خصوصی معاملہ تھا ، اس کی وجہ سے لاڈ وپیار بھی سب سے زیادہ ملا ، اماں کہتی تھیں کہ جب تم سال بھر کے ہوئے تو تمہارے ابا نے کہا کہ حج کا فارم بھرنا ہے ، تو میں نے کہا کہ یہ بڑی سعادت کی بات ہے لیکن میں بابو کو چھوڑ کر نہیں جاؤں گی ،حالانکہ اس وقت مجھے سنبھالنے اور دیکھنے کے لئے پورا گھر موجود تھا ، لیکن اماں کسی قیمت پر چھوڑ کر جانے کے لئے تیار نہیں ہوئیں چنانچہ میں نے والدین کے ساتھ ایام طفولیت ہی میں بیت ﷲ کی زیارت اور حج بیت ﷲ کی سعادت حاصل کرلی ،ﷲ تعالیٰ اماں کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائیں یہ سب اسی کی بدولت ممکن ہوا، اسی حج کی وجہ سے مجھے ’’ حاجی بابو ‘‘ کہا جاتا ہے ، اور یہ عرفیت نام پر بھی غالب آگئی ہے ۔ اماں اس حج کے بہت سے واقعات بیان کرتی تھیں ، ابا کا ایک خط محفوظ ہے جو انھوں نے مکہ مکرمہ سے گھر والوں کو لکھا تھا ، اس میں میرے متعلق چند سطریں ہیں ،اسے یہاں درج کرتا ہوں:
۔۔۔۔۔۔۔ بابو ضیاء الحق سلّمہ بفضلہ تعالیٰ کسی قسم کی رکاوٹ نہیں ڈال رہا ہے ، خوب مزے میں بیٹھا رہتا ہے ، اور اس کی ماں باجماعت نماز ادا کرلیتی ہے اور طواف کا کام میں خود ہی گود میں لے کر کرلیتا ہوں۔۔۔۔۔
جب سے میں نے ہوش سنبھالا ۱۶؍ ۱۷؍ سال کی عمر تک کبھی اماں سے چند دنوں کی دوری بھی یاد نہیں ہے، سوائے اس حج کے جو والدین نے۱۹۸۹ء میں کیا ، اس وقت تین ماہ اماں کے بغیر کیسے گزرے اب تک یاد ہے ،مسلسل ساتھ رہنے کی وجہ سے لاابالی پن کی اس عمر میں کچھ احساس نہ تھا کہ ماں کا سایہ کتنی بڑی نعمت ہے ، اس سفر حج کی وجہ سے جب کئی ماہ کی فرقت کا تجربہ ہواتب پہلی بار سمجھ میں آیا کہ ماں کی ذات کیا ہے؟ کہنے کوتو سب لوگ موجود تھے لیکن ہر ہر موقع پر ماں کی کمی محسوس ہوتی تھی ۔ ؎
آئی بہار گلشن گل سے بھرا ہے لیکن ہرگوشۂ چمن میں خالی ہے جائے بلبل
میں تو حفظ شروع کرنے سے پہلے یعنی تیرہ چودہ سال کی عمر تک اماں کے پاس ہی سوتا تھا ، ان سے الگ رہنے کا کوئی تصور نہیں تھا ۔ اماں جب مجھے چھوڑ کرحج میں جانے کے لئے تیار نہیں ہوئیں تو اور کہاں چھوڑ کر جاتیں ، کہیں بھی جانا ہوتا تو ساتھ میں لے کر جاتیں ، ان کے ساتھ تمام رشتہ داریوں میں جانا اب بھی یاد ہے ۔ اماں کی یہ بات اب بھی یاد آتی ہے تو ہنسی آتی ہے کہ گھر پر چائے کے ساتھ توس یا پاؤ روٹی کھانے کا معمول تھا ، اماں بتاتی تھیں کہ جب کہیں مہمانی میں جانا ہوتا اور وہاں چائے آتی تو تم اس کے ساتھ توس یا پاؤ روٹی کی ضد کرنے لگتے اور میزبانوں کو دقت میں ڈال دیتے تھے ،یا چائے گرم ہوتی تو کہتے کہ اس میں پانی ڈال کر ٹھنڈاکرکے پلاؤ۔ یہ بات تو یادداشت کے نہاں خانوں سے اب بھی ابھر ابھر سامنے آجاتی ہے کہ اماں جب نماز پڑھتی تھیں اور سجدے میں جاتیں تو ان کی پیٹھ پر بیٹھ جاتا تھا ، جس کی وجہ سے وہ سجدہ لمبا کردیتی تھیں اور جب اٹھتیں تو ان کا کندھا پکڑ کر جھول جاتا تھا ۔
ابا کا رعب ودبدبہ توبحیثیت گھر خاندان کے ذمہ دارہونے کے تھا ہی ، لیکن گھریلو امور میں مکمل گرفت اور ہولڈ اماں کا تھا ، مجھے ابا سے زیادہ اماں کا خوف رہتا تھا ، میری شرارت بھی بچپن کی اس عمر میں کچھ زیادہ ہی تھی ، اس لئے زبان کے ساتھ ساتھ اماں کا ہاتھ بھی میرے اوپر چل جاتا تھا ، اگرچہ ایسا کم ہوتا تھا لیکن اس کی وجہ سے شفقت ومحبت اور رعب وخوف کے درمیان توازن برقرار رہتا تھا، اور شرارت بے لگام نہیں ہوتی تھی۔ میرا شعور جب بیدار ہوا تو بہنیں اس وقت بڑی ہوچکی تھیں ، اس لئے ماں کے ساتھ ان سب کا حصہ میری تربیت وپرورش میں ہے ، باری تعالیٰ سب کو اپنے شایان شان اجر عطا فرمائیں۔
بچپن تو خیر بچپن تھا ، جب مدرسہ جانا شروع کیا تو اماں کا کام بڑھ گیا ، میرا بستہ ، کتابیں ، قلم دوات کو درست رکھنا ماں اور اس کے ساتھ بہنوں کی ذمہ داری تھی ، مدرسہ سے گھر آکر بستہ ایک طرف رکھتا اور کھیلنے کیلئے نکل جاتا ،شام کو تختی لکھنے کے لے بیٹھایا جاتا ، پھر بہنیں سبق یاد کراتیں ، یہ سلسلہ کچھ دنوں تک رہا ، اس کے بعد جب لکھنے پڑھنے کا ذوق بیدار ہوا تو یہ حال رہتا کہ کتاب پڑھتے پڑھتے سوجاتا اور اماں اسے اٹھا کر رکھتیں اور صبح ڈانٹتیں کہ کتاب رکھ کر سویا کرو ،پھر پڑھنے کے سلسلہ میں کبھی اماں کو کہنا نہیں پڑا کہ پڑھو اور محنت کرو۔ صبح پورے اہتمام سے ناشتہ تیار کراتیں جو عموماً قیمہ کے ساتھ روٹی ہوتی ،میں اور میرے بڑے بھائی مولوی منظور الحق صاحب گرما گرم ناشتہ کرتے اور مدرسہ جاتے ، یہ روزکا معمول تھا ۔
مائیں واقعی محبت وشفقت اور لاڈوپیار کا مظہر ہوتی ہیں ، وہ اپنی جان کی قیمت پر اولادوں کی صلاح وفلاح چاہتی ہیں ، اس کی یہ بات کبھی نہیں بھولتی،جب میں نے حفظ شروع کیا تو کسی نے اماں سے بتادیا کہ اگر بادام کے چند دانے بھگوکر رکھ دئے جائیں اور صبح سل پر رگڑ کر کھلایا جائے تو اس سے حافظے پر بہت خوشگوار اثر پڑتا ہے ، اللہ تعالی اماں کو غریق رحمت فرمائیں یہ سن کر اس نے پابندی سے ایک عرصہ تک مجھے سل پر رگڑ کربادام کھلایا ، اس کا میرے حافظے پر کیا اثر ہوا مجھے نہیں معلوم ، لیکن میرے دل پر اس کا یہ اثر ہوا کہ میں کبھی اماں کو اپنی دعاؤں میں بھول جاؤں شاید کبھی ایسا ہوا ہو، تقریباً روزانہ پابندی سے اس کے لئے اور ابا کے لئے ایصال ثواب کرتا ہوں ،روزانہ صبح کی تفریح میں وہ راستہ اختیار کرتا ہوں جو قبرستان سے ہوکر گزرتا ہے، ان کی قبروں پر حاضری دے کر ان کے لئے دعائے مغفرت اور اپنے لئے سکونِ دل کا سامان پیدا کرتا ہوں، اپنے احباب سے گزارش کرتا ہوں کہ آگے بڑھنے سے پہلے اس سراپا شفقت ومحبت ہستی(اماں ) اورا با کی مغفرت ورفع درجات کے لئے ہاتھ اٹھادیں۔
جب میں نے حفظ قرآن کی تکمیل کی تو اماں اور ابا دونوں کی خوشی دیدنی تھی ، پورے مدرسہ اور رشتہ داریوں میں مٹھائی تقسیم کروائی گئی ، اس وقت تک ابھی ایسے موقع پر دعوتوں کا سلسلہ شروع نہیں ہوا تھا ، آخری حد بس یہی مٹھائی کی تقسیم تھی ۔ مجھے بچپن میں غصہ بہت آتا تھا ،استاذی مولانا اعجاز احمد صاحب اعظمی علیہ الرحمہ کی صحبت وتربیت کی برکت سے اس میں بہت کمی آئی لیکن اب بھی اس کے کچھ بچے کھچے اثرات رہ گئے ہیں ، اﷲ تعالیٰ اس کے شر سے محفوظ رکھیں ، حفظ کے زمانے میں یاد نہیں آرہا ہے کہ کس بات پر غصہ آیا کہ کئی وقت کھانا نہیں کھایا اور نہ کسی سے بات کی ، اس وقت اماں کی کلفت وپریشانی کو یاد کرتا ہوں اب بھی روح کانپ جاتی ہے ، میرے ایک استاذ کو معلوم ہوا تو انھوں نے مجھے سمجھایا اور کہا کہ جاکر فوراً معافی مانگو، فجر کے بعداماں تلاوت کررہی تھیں جاکر ان کے پیروں پر سر رکھ دیا اور بہت رویا اماں بھی روئیں ، ماں تو خیر ماں ہوتی ہے وہاں معافی نہ ہونے کا کیا سوال ،لیکن اس کے بعد اﷲ کا شکر ہے کہ ان کی وفات تک کبھی ایسی صورت پیش نہ آئی ۔ہم بھائی بہنوں میں سے اگر کسی کی طبیعت خراب ہوجاتی تو پھران کا سکون واطمینان اور چین رخصت ہوجاتا ہے ، رات دن سرہانے بیٹھی رہتیں ، اور ازالہ مرض کی جتنی تدبیریں ان کو معلوم ہوتیں روبہ کار لاتیں ، میرے ساتھ کئی بار ایسا ہوا ہے کہ رات رات بھر میرے پاس بیٹھ کر صبح کردی، شادی کے بعد بیوی بچوں کے ساتھ بھی یہی معاملہ رہتا۔
جب حصول علم کے لئے گھر چھوڑ کر شیخوپور استاذی حضرت مولانا اعجاز احمد صاحب اعظمی علیہ الرحمہ کی خدمت میں پہنچا تو اس وقت میری عمر سولہ سترہ سال کے قریب تھی، اماں کو چھوڑ کر گھر سے باہر رہنے کا پہلا اتفاق تھا ، ابتداء میں جب بھی مدرسہ کے لئے روانہ ہوتا تو اماں کا یہ حال ہوتا جیسے کسی کمسن بچے کو رخصت کررہی ہوں ، ہر دوسرے تیسرے روز اباسے فون کرواکے خیریت معلوم کرتیں ، وہ تو حضرت مولانا علیہ الرحمہ کی خدمت میں تھا اس لئے ان کو اطمینان رہتا تھا،ورنہ اس کے کئی سالوں کے بعد جب دیوبند پہنچا تو اماں کا حکم تھا کہ ہر جمعہ کو صبح فون کرکے اپنی تفصیلی خیریت سے آگاہ کرتے رہنا،چنانچہ قیام دیوبند کے دوسالوں میں اس کی پوری طرح پابندی کرتا رہا۔ آج کی نسلِ نوجو’’ اَن لمٹیڈ فری کالنگ‘‘ کی عادی ہوچکی ہے اس کو کیا پتہ کہ اس وقت ایس ٹی ڈی کال کا چارج ایک منٹ میں چالیس روپیہ ہوتا تھا ، ۱۲؍ بجے رات سے صبح چھ بجے تک ایک چوتھائی چارج لگتا تھا، تو جمعہ کو فجر کے معاً بعد کال کرتا ، اس وقت اماں منتظر رہتیں ، چار پانچ منٹ بات کرتا ، اگر کبھی کسی مصروفیت کی وجہ سے بات نہیں کرپاتا تو اماں پریشان ہوجاتیں اورابا سے اس پی سی او والے کے یہاں فون کرواتیں۔ گھر پر عام حالات میں اماں کا یہ حکم تھا کہ کہیں بھی جاؤ تو واپسی کا وقت بتاکر جاؤ اور وقت متعینہ پر حاضر ہوجاؤ،اماں اورا با دونوں کی طرف سے تاکید یہ ر ہتی تھی کہ کہیں بھی جاؤ کوشش کرو کہ مغرب سے پہلے گھر آجاؤ، اگر کبھی گھر آنے میں دیر ہوجاتی تو اماں پریشان ہوجاتیں ، باہر نکل کر بچوں سے پوچھتیں کہ کہاں ہے کہ اب تک نہیں آیا ، اس لئے یہ معمول سا بن گیا ہے کہیں بھی جاتا ہوں اور وقت سے تاخیر کا اندیشہ ہوتا ہے تو فوراً گھر مطلع کردیتا ہوں ، اب اماں نہیں ہیں تواسی عادت کے مطابق اہلیہ کو بتادیتاہوں کہ اتنی دیر سے گھر آنا ہے ، اپنے بچوں کو بھی اسی کی تاکید کرتا ہوں جو میرے والدین مجھ سے کرتے تھے۔ اماں کا معمول مغرب بعد ہی کھانا کھلانے کا تھا ، ابا مغرب پڑھ کر آتے تھے تو دسترخوان لگتا اور اسی وقت کھانے سے فارغ ہوجاتے اور عشاء بعد جلد سونے کا معمول تھا ۔
اماں کا یقین و توکل اﷲ کی ذات پر غیر معمولی تھا ، مختلف طرح کے حالات آتے لیکن کبھی ان کو گھبراتے اور جزع فزع کرتے نہیں دیکھا،ایسے مواقع پر ان کو نماز ودعا میں مشغول دیکھا ، ہم لوگوں کو بھی اسی کی تلقین کرتیں ۔ایک عورت کے لئے شوہر کا انتقال زندگی کا سب سے بڑا سانحہ ہوتا ہے ، ابا کے انتقال کے وقت میں تو تراویح پڑھانے کے لئے شیخوپور چلا گیا تھا ، انتقال کے بعد گھر پہنچا تو معلوم ہوا کہ جیسے ہی انتقال ہوا ، اماں نے پہلے وضو کیا اور دورکعت نماز پڑھ کردعا کے لئے ہاتھ اٹھادیئے، ایسے نازک وقت میں بھی اﷲ کی ذات سراپارحمت کاان کو مکمل استحضار تھا۔ ابا کے انتقال کے بعد ان کی حساسیت بہت بڑھ گئی تھی ، شوہر کاتو کوئی بدل ہوہی نہیں سکتا ، لیکن ابا کے انتقال کے بعد ہم لوگوں نے ان کا غیر معمولی طور پر خیال رکھا اور بیوی بچوں کو تاکید کررکھی تھی کہ اماں کو یہ احساس نہ ہونے پائے کہ ابا نہیں ہیں ، اس کا وہ اظہار بھی دوسروں سے کرتی تھیں کہ بچے میرا بہت خیال رکھتے ہیں ۔ جب تک زندہ رہیں تندرست اور صحت مند رہیں ، انتقال سے چند ہفتہ قبل بخارمیں مبتلا ہوئیں جو آگے چل کر مرض الموت ثابت ہوا ، ان کی وفات سے ایک ہفتہ قبل ۲؍ جون کو مجھے اچانک دہلی جانے کی ضرورت پیش آئی ، اس وقت تک بیماری تشویشناک نہیں تھی ، میں نے اماں سے پوچھا کہ دہلی چلا جاؤں تو کہا کہ ہاں چلے جاؤ، ان سے اجازت لے کر دہلی چلا گیا،ہوش وحواس کی حالت میں ان سے یہ آخری ملاقات تھی ،دہلی پہنچنے کے بعد کے بعد معلوم ہوا کہ طبیعت زیادہ خراب ہوگئی ہے ، ۵؍ جون جمعرات کو میری واپسی تھی، جمعہ کو گھر پہنچا ، اس وقت وہ نیم بے ہوشی کی حالت میں تھیں ، دوسرے دن سنیچر کو لے کر اعظم گڈھ گیا ، ڈاکٹروں نے صورتحال دیکھ کر مشورہ دیا کہ ان کو گھر لے جائیں اور وہیں علاج کریں ، اس سے سمجھ میں آگیا کہ یہ ان کا دم واپسیں ہے ،چنانچہ دوا لے کر اعظم گڈھ سے گھر آگئے۔
اتوار کی صبح مدرسہ کے ایک ضروری کام کی وجہ سے شیخوپور چلاگیا ، رات وہاں ایک پروگرام تھا ، لیکن اماں کی طبیعت کی وجہ سے دل رکنے پر آمادہ نہ ہوا اور شام کو گھر آگیا ، ایک انجانا سا خوف دل پر سوار تھا کہ نہ جانے کب کیا ہوجائے ،رات ویسے ہی امید وبیم میں گزری ، فجر سے پہلے بہنوںنے بلایا کہ اماں بابو بابو کہہ رہی ہیں ، جاکر دیکھا تو محسوس ہوا کہ عالم نزع شروع ہوچکا ہے ، وہ کسی اور عالم میں کسی کو پکار رہی ہیں ، ایک جانب ہاتھ بڑھاتی تھیں جیسے کسی چیز کو پکڑنا چاہ رہی ہوں ،اس غم انگیز وجگرخراش منظر کو دیکھ کر دل بھر آیا، ؎
جلتا ہوں اپنی طاقتِ دیدار دیکھ کر
فجر پڑھ کر آیا تو وہ وقت موعود آہی گیا جس سے کسی انسان کو مفر نہیں ، اماں ہم سب کو چھوڑ کر سفر آخرت پر روانہ ہوگئیں ، اناﷲ وانا الیہ راجعون ۔ظہر کے بعد جنازہ تھا ، میری درخواست پر مولانا محمد عارف صاحب جہاناگنجی (سابق شیخ الحدیث دارالعلوم مئو و احیاء العلوم مبارکپور) نے جنازہ کی نماز پڑھائی ، علماء وصلحاء کی ایک بڑی تعداد نے جنازہ میں شرکت کی اور سپرد خاک کیا ۔ قبرستان سے واپسی کے بعد کئی دنوں تک عجب بے کیفی طاری رہی ، جیسے ہر طرف بالکل سناٹا ہو، نگاہیں اماں کو ڈھونڈتی تھیں اور تھک ہارکر ناکام واپس آجاتی تھیں ، اس وقت پُر خاص الہ آباد کے ایک صاحب دل شاعر جناب انیس پُرخاصوی کی وہ نظم بہت یاد آئی جو انھوں نے اپنی ماں کی وفات پر کہی تھی، ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے انھوں نے میرے لئے ہی یہ نظم کہی ہے۔ ؎
سونی سونی ڈگر اجڑا اجڑا چمن
بن ترے اب نہ مہکے گا مشک ختن
ٹوٹ کر جیسے گر جائے گا یہ گگن
مری ماں تو ہے جنت میں اپنی مگن
کیسے تجھ کو کہوں پھر سے آجا یہاں
میری ماں میری ماں میری ماں میری ماں
یہ تو ممکن نہیں بھول جائوں تجھے
دل میں کیا ہے تمنا بتائوں تجھے
رات دن فکر ہے کیسے پائوں تجھے
اپنے اللہ سے مانگ لائوں تجھے
جانے کب تجھ سے اب میں ملوں گا وہاں
میری ماں میری ماں میری ماں میری ماں
مشکلوں میں نہ ماتھے پہ تیرے شکن
یہ تو تائید غیبی کا تھا بانکپن
تیرے بن سونی سونی ہے یہ انجمن
دل کو بھاتا نہیں ہے یہ چرخ کہن
کس کو اپنی سنائوں گا میں داستاں
میری ماں میری ماں میری ماں میری ماں
تو ہے سرمایۂ حسن دنیا و دیں
دل میں آتا ہے رکھ دوں میں اپنی جبیں
تیری عظمت پہ قربان جانِ حزیں
تیرے قدموں کے نیچے ہے خلدِ بریں
تیرا بیٹا زمیں اور تو آسماں
میری ماں میری ماں میری ماں میری ماں
میرے والد کا تادیر سایہ رہے
ان کی محنت مشقّت سے ہم سب پلے
ان کی چشم عنایت کا دریا بہے
دل سے خدمت کریں انکی اب بن کہے
ان کی خدمت کا وعدہ لیا تونے ماں
میری ماں میری ماں میری ماں میری ماں
صبر کرتا تو ہوں صبر آتا نہیں
تیرا پیغام اب کوئی لاتا نہیں
سامنے تیری صورت کو پاتا نہیں
دردِ دل ہائے رے میرا جاتا نہیں
تو ہے فردوس میں تجھ کو ڈھونڈھوں کہاں
میری ماں میری ماں میری ماں میری ماں
قبر تیری بنے ایک عمدہ چمن
سوتی رہ جیسے سوتی ہے کوئی دلہن
تیرا میلا نہ ہو تا قیامت کفن
یہ دعا کرتے ہیں سارے ہی مرد و زن
تجھ کو مل جائے جنت میں بہتر مکاں
میری ماں میری ماں میری ماں میری ماں
میری ماں تیری ممتا پہ قربان میں
یاد کرکے جو ہو جائوں حیران میں
بھول جائوں نہ مولا کا فرمان میں
تجھ کو پڑھ پڑھ کے بخشوں گا قرآن میں
تیرا بیٹا انیسؔ اور تو اس کی ماں
میری ماں میری ماں میری ماں میری ماں
اسی رات خواب میں اماں کونہایت اچھی حالت میں خوش وخرم دیکھا ، مجھے خواب میں یہ بات یاد تھی کہ اماں کا انتقال ہوگیا ہے ، میں نے اس سے پوچھا کہ اماں تمہارے ساتھ اﷲ کے یہاںکیا معاملہ ہوا ،کہنے لگیں کہ سب کچھ ٹھیک ٹھاک رہا ، اﷲ تعالیٰ نے میری مغفرت فرمادی ، پھر میں نے پوچھا کہ مرنے کے وقت کوئی تکلیف نہیں ہوئی ، کہا کہ نہیں ، بس اتنی تکلیف ہوئی جیسے آنکھ میں بِلنی( یہ ایک مرض ہے جس میں پلکوں پر پھنسی کی طرح دانا نکل آتا ہے ) نکل آتی ہے بس اسی کے بقدر! اس خواب کے بعد طبیعت منشرح ہوگئی ، اور دل نے کہاکہ اﷲ تعالیٰ نے اماں کی مغفرت فرمادی ہے، یا اﷲ تو ایساہی کردے ۔
اماں نے ہم لوگوں کے لئے اپنی زندگی تج دی ،اس کی قربانیوں کا میں کیا بدلہ دے سکتاہوں ، ہاں اس کے لئے اس بات کا اہتمام کرتا ہوں کہ پابندی کے ساتھ روزانہ ایصال ثواب، مغفرت اور بلندیٔ درجات کے لئے دعائیں کرتا رہتا ہوں ، *ربنا اغفرلی ولوالدی* کی قرآنی دعا بکثرت وردِ زباں رہتی ہے اور اکثر صبح کی تفریح میں قبر پر حاضرہوکر بھی دعا مغفرت کرتاہوں، بلکہ گھر موجود رہنے کی صورت میں یہ تو تقریبا ً روز کا معمول ہے ،اﷲ تعالیٰ اسے قبول فرمائیں اور اماں کو اعلیٰ علیین میں جگہ دیں،آمین یارب العالمین
حافظ ابن قیم نے اپنی’’ کتاب الروح‘‘جو روایتیں نقل کی ہیں اگر ان پر اعتماد کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ مردے زیارت کرنے والوں کو پہچانتے بھی ہیں اور ان کے سلام کا جواب دیتے ہیں اور ان کی دعاؤں اور حاضری سے انسیت ومسرت محسوس کرتے ہیں اور وہ اس بات پر دوسروں پر فخر کرتے ہیں کہ ان کے اعزا ان کی زیارت کے لئے حاضر ہوتے ہیں اور سلام ودعا کا نذرانہ بھیجتے ہیں ، واﷲ اعلم بحقیقۃ الحال