مولانا ابو الوفا افغانی اور آپ کا ادارہ لجنۃ المعارف النعمانیہ

تحریر: مولانا عبد المتین منیری
https://telegram.me/ilmokitab
مولوی عاصم پٹیل صاحب نے چند روز قبل سورت سے مولانا ابو الوفا افغانی رحمۃ اللہ علیہ کے ادارے لجنۃ المعارف النعمانیۃ حیدرآباد کی شائع کردہ کتابوں اور ان کے حصول کے سلسلے میں معلومات طلب کی تھیں، الحمد للہ ہماری اس بزم میں مذہب حنفی سے وابستہ مفتیان کرام اور علمائے کرام کی ایک بڑی تعداد موجود ہے، لیکن کتنے تعجب کی بات ہے کہ اس فرمائش پر کسی کی توجہ نہیں گئی۔۔۔ مولانا ابو الوفا افغانی کی شخصیت علمی دنیا کی ایک مظلوم شخصیت ہے، عموما ہمارے اہل علم ان کے نام سے بھی ناواقف ہیں، آپ کے حالات تلاش کرنے پرصرف مولانا محمد یوسف بنوری اور مولانا ثناء اللہ عمری کے کچھ تفصیلی دو مضامین دستیاب ہوئے، ان کے علاوہ دوتین مجلات کے مضامین کی حیثیت معمولی شذرہ سے زیادہ نہیں ہے۔ مولانا ابو الوفا اٖفغانی کی وفات ۲۳ جولائی ۱۹۷۵ء میں ہوئی تھی۔ آپ نے اپنے قائم کردہ لجنۃ احیاء المعارف النعمانیۃ حیدرآباد کے ذریعے محدود ذاتی وسائل سے مذہب حنفی کی کتابوں کو زندہ کرنے کا جو بیڑہ اٹھایا، اس کی مثال شاذ ونادر ملتی ہے، شیخ محمد زاہد الکوثری رحمۃ اللہ علیہ آپ کے معاصر تھے، جو اپنے دور میں ترکیہ میں پانے جانے والے مخطوطات کے سب سے بڑے شناور تھے،مصر کے کتب خانے بھی ان کی دسترس میں تھے، لیکن ہماری محدود معلومات کی حد تک شیخ کوثری علیہ الرحمۃ نے مذہب حنفی کے علمی ذخیروں کو اپنی تحقیق وتدوین سے اتنا زندہ نہیں کیا جتنا مولانا افغانی نے کیا۔ مولانا سید محمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کی اس خدمت کی طرف ان الفاظ میں توجہ دلائی ہے۔
"سب سے بڑا قابل صد فخر کارنامہ احیاء المعارف النعمانیہ جیسے ادارے کی تاسیس ہے، اس ادارے کا اساسی مقصد یہ تھا کہ حضرات ائمہ کرام امام ابوحنیفہ ابو یوسف محمد بن الحسن شیبانی رحمہم اللہ کی اصلی کتابوں کو مہیا کر کے تعلیقات و مقدمات کے ساتھ عمدہ سے عمدہ صورت میں شائع کیا جائے ، اس کے بعد طبقہ ثانیہ و ثالثہ کے ائمہ فقہاء حنفیہ کی تالیفات کی خدمت کی جائے ، امام العصر حضرت مولانا محمد انور شاہ رحمہ اللہ جیسی ہستی اس ادارے کی معاون رکن بن گئی اور جیب خاص سے ایک رقم بھی عطا فرمائی اس لحاظ سے حضرت شیخ کی رہنمائی اور اعانت کا شرف اس ادارے کو حاصل رہا اور حضرت شیخ کی رہنمائی سے ہی یہ معلوم ہوا کہ قاہرہ میں ایک محقق حنفی عالم الشیخ محمد زاہد کوثری موجود ہیں، چنا نچہ امام العصر کے بعد دوسری ہستی محقق روزگار متصلب حنفی ، وسیع النظر ترکی علامہ کی سرپرستی بھی ان کو نصیب ہوئی ،۱۳۵۰ھ سے ۱۳۷۱تک نشرات تک مدة العمر حضرت شیخ کوثری اس ادارے کے بے نظیر علمی معاون اور رہنما ر ہے نہ صرف رہنما بلکہ مقدمات و تعلیقات میں نام بے نام اصلاح فرما یا کرتے تھے اور استنبول کے علمی کتب ذخائر کے نوادرات کی اطلاع دیا کرتے تھے اور ان کے فوٹو وغیرہ منگوانے میں ان کی رہنمائی فرما یا کرتے تھے اور طباعت کے لئے کتابوںکا انتخاب ان کی رائے سے ہوتا تھا، قاہرہ میں شیخ رضوان محمد رضوان ان کی رہنمائی سے وکیل احیاء المعارف منتخب ہوئے جن کی کوششوں سے احیاء المعارف کی کتا ہیں قاہرہ میں آب و تاب سے عمدہ تصحیح کے ساتھ چھپنی شروع ہو گئیں۔ شیخ کوثری کی رہنمائی ہی سے ادارہ نادر ترین مخطوطات سے مالا مال ہو گیا ، امام ابو زید دبوسی اور امام جصاص کے نوا در مؤلفات ادارے میں پہنچ گئیں حضرت مولانا مفتی مهدی حسن صاحب شاہ جہاں پوری کا امام العصر حضرت شاہ صاحب رحمہ اللہ کی وجہ سے ادارے سے تعلق ہوا کتاب الحجۃ علی اہل المدینہ انہی کی تصحیح و مقابلہ و تعلیقات سے حیدر آباد میں طبع ہوئی ، رفتہ رفتہ مجلس علمی ڈھابیل کی بھی توجہ ہوئی اور امام محمد بن الحسن کی کتاب الآثار کی شرح مولانا ابو الوفا صاحب رحمہ اللہ سے لکھوانے کی خواہش کی جس کی دو جلد میں طبع ہو گئیں اور غالبا شرح پوری نه موسکی یا طباعت پذیر نہ ہوسکی، راقم الحروف بنوری کون ۱۹۵۰ء میں اس ادارے کی مجلس عاملہ کارکن منتخب کیا گیا۔ بعد میں غالبا مولانا عبد الرشید نعمانی کو بھی ادارے کا ممبر بنایا ، الغرض احیاء المعارف النعمانیہ کے ذریعہ جس طرح ٹھوس علمی خدمات کی اور قدماء ائمہ اور قدماء فقہاء کتابیں عمدہ ترین ٹائپ میں تعلیقات و مقدمات کے ساتھ شائع کرتے رہے، یہ قیامت تک ان کی یاد گار رہے گی ، اور انشاء اللہ تعالٰی ان کے لئے صدقہ جاریہ رہے گا . احیاء المعارف النعمانیہ کی جس انہاک و شغف اور عشق ومحبت سے علمی خدمت کی اس کی نظیر ہم نے نہ کبھی دیکھی نہ سنی اور اگر دیکھتے تو یہ گمان بھی نہیں ہو سکتا تھا کہ ایسی کوئی بستی بھی ہوگی جو اس انداز سے حکومت کرتی ہو، شب وروز علاوہ عبادت و سحر خیزی کے یا تصحیح و مقابلہ ہے یا تعلیق کا کام ہے اور کمال تو یہ تھا کہ خود ایک حبہ تک کا معارضہ مجلس سے نہ لیتے تھے اور کوشش یہ ہوتی تھی کہ دوسرا شریک کار مقابلہ کے لئے بھی ایسا کوئی معاوضہ نہ دینا پڑے۔ ڈاکٹر حمید اللہ صاحب حیدرآبادی متع الله الا بخدماتہ الدينية جو آج کل پیرس میں قیام پذیر ہیں ؟ وہ ادارے کی مجلس عاملہ کے رکن تھے،ان سے بھی مقابلے اور تصحیح کی خدمات لیتے تھے ، انتہائی بوس و تکلیف کی زندگی گزارتے تھے اور انتہائی معمولی حقیر پنشن پر زندگی بسر کرتے تھے ۔ لیکن کیا محال کہ کوئی معاوضہ مجلس سے وصول کریں، اب آج انہی کے اخلاص و احتیاط کی برکت سے ادارے کے کتب نامےمیں بے شمار علمی مخطوطا کا ذ خیرہ جمع ہو گیا، اور مطبوعات کا بڑا ذخیرہ فراہم کیا گیا، خود مرحوم کا نادر کتب خانہ تھا، نہ معلوم کہ ان ذخائر علمیہ اور علمی خزانوں کا کیا حشر ہوا ہو گا ؟
حضرت مرحوم نے تجرد کی زندگی گزاری اور تمام زندگی علمی خدمات کی نذر کی اور تقریبا پچاسی برس تک احیاء المعارف کی جلیل القدر قابل رشک خدمات انجام دیں، مرحوم کی برکت سے کتب ستہ میں سے پہلی مرتبہ الجامع الکبیر مصنفہ امام محمد بن الحسن عمده تعلیقات و مقدمہ کے ساتھ زیور طبع سے آراستہ ہو گئی اور امام ابو یوسف کی کتاب الآثار کا پہلی مرتبہ دنیائے علم کو علم ہوا کہ امام ابو یوسعت کی بھی کتاب الآثار ہے ، مرحوم ہی کی کوشس سے حکومت کے مطبعہ دائرۃ المعارف سے امام محمد رحمہ اللہ کی کتاب المبسوط شائع ہونی شروع ہوئی ۔ اس شہید علم پر اللہ تعالی کی رحمتیں نازل ہوں، جس نے اس پر آشوب دور میں سلف صالحین کی یاد تازہ کردی”۔
ہمارے بعض احباب کے رویوں سے جن کے ساتھ مفتی کا لاحقہ بھی لگتا ہے محسوس ہوتا ہے کہ انہیں بیسویں صدی کے بعض علماء سے اظہار عقیدت ہی میں مذہب حنفی کی خدمت نظر آتی ہے، ہمارے مفتی شاہجہاں صاحب ہم سے بار بار کہتے ہیں کہ کیسے کیسے لوگوں کو مفتی کی سند دی جاتی ہے، جو چند اردو کتابیں پڑھنے کو بہت سمجھتے ہیں، وہ مذہب کی اہم اور بنیادی کتابوں کا فہم نہیں رکھتے۔
مولانا ابو الوفا کی دیدہ ریزی سے شائع کردہ کتابوں کے زیادہ تر ایک ہی ایڈیشن نکلے ہیں، آپ کی وفات کے بعد بیروت سے ان میں سے بعض کتابیں فوٹو آفسٹ پر شائع ہوئیں، اب ایک طویل عرصہ سے یہ کتابیں بازاروں میں دستیاب نہیں ہیں، جو اس بات کی علامت ہے کہ طلبہ و اساتذہ میں ان کتابوں کو مقبول بنانے کی شعوری کوشش نہیں ہوئی ہے، ہمارے مفتیان کرام بھی اگر قریبی دور کی اردو کتابوں ہی کو پڑھیں گے تو پھر مراجع اور اسلاف کی کتابوں کو کون پڑھنے کی کوشش کرے گا۔ احسان مندی کا تقاضا ہے کہ کم ازکم مولانا افغانی کی تحقیق سے شائع شدہ جملہ کتابوں کی تلاش کی جائے، اورجن کتابوں کے پی ڈیف پر تصویر شدہ نسخے دستیاب ہیں انہیں یکجا کیا جائے،اور جو کتابیں کتب خانوں کی الماریوں میں بند ہیں انہیں اسکین کرکے محفوظ کیا جائے۔ مراسلہ نگار سے گذارش ہے کہ لجنۃ المعارف النعمانیہ کی کتابوں کی ایک فہرست ٹائپ کرکے پوسٹ کریں، تاکہ انہیں تلاش کرنا آسان ہو۔

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے