مہاتما گاندھی کے دیڑھ سو سالہ جینتی کے موقع پر شہری احتجاج کو غیر قانونی نہ بنایا جائے
ساگاریکھا گھوش ( ٹائمز آف انڈیا 29/جنوری 2020)
ترجمہ و تلخیص: ایڈوکیٹ محمد بہاء الدین، ناندیڑ( مہاراشٹرا)
موجودہ جو بحران سٹیزن شپ کے قانون سے متعلق پیدا ہے اُسی طرح کا ایک بحران نونرمان تحریک کے نام سے 1970ء میں چلا تھا۔ جو بہت ہی ترش و آتشی تھا۔ اکثر وہ متشدد بھی ہوتا تھا جس کی وجہ سے گجرات حکومت چاک ہوگئی تھی۔ سو سے زائد لوگ مارے گئے۔ ہزاروں زخمی ہوئے۔ بسوں کو جلا دیا گیا۔ پبلک پراپرٹی کو نقصان پہنچا اور اس طرح وہاں کی ریاستی حکومت تحلیل ہوگئی۔
نونرمان کے احتجاج کا آغاز طلباء کے کالج کی فیس میں اضافہ کی وجہ سے شروع ہوا تھا جس میں جن سنگھ، آر ایس ایس اور اے بی وی پی والے تھے اور احتجاج کرنے والوں میں اُس وقت کے نوجوان جہدکار نریندر مودی تھے۔ وہ احتجاج کو اس وقت لوگوں کی رائے کا اظہار کے طرز پر دیکھا جاتا تھا۔ جس کی وجہ سے وہ گورنمنٹ و ریاستی حکومت کو اپنے عہدہ سے ہٹنا پڑا۔
لیکن آج چار دہوں کے بعد جبکہ عظیم تر پیمانے پر CAA اور NRCکے احتجاج کرنے والوں کو غیر قانونی یکساں طو ر پر کہا جارہا ہے۔ گاندھی جی کے دیڑھ سو سالہ برسی منانے کے ہفتہ میں بھی ہمیں یاد رکھنا چاہیے ہمارے فادر آف نیشن بھی خود شہری احتجاج میں عدم تشدد کے فادر تھے۔
لیکن آج جب لوگوں کو مختلف القاب سے نوازنا، گالی گلوج کرنا، جنہوں نے سی سی اے اور این آر سی کے خلاف احتجاج شروع کیا ہے انہیں جہادی، اینٹی نیشنل یا پاکستان کے ہمدرد وغیرہ وغیرہ کہا جارہا ہے۔ شاہین باغ کے احتجاج کی دہلی میں مثال کے طور پر اُن پر یہ الزام لگایا جارہا ہے کہ وہ ٹریفک میں مزاحم ہورہے ہیں اور وہ سیاست دانوں کے ایجنٹ ہیں اور ریاست کی حکومت کے دُشمن ہیں۔ جبکہ یونین منسٹر نے اُن کے خلاف تشدد کے الفاظ کا استعمال بھی کیا ہے۔ اور چند مہینے پہلے ہی اُن تمام نے گاندھی جی کو دیڑھ سو سال جشن منانے والی تقریب میں اُنہیں یاد کیا تھا۔ بلکہ اُن کے نام سے مختلف پروگرام بھی شروع کیے تھے۔ جس میں چرخے کا استعمال، عینک کا استعمال، گویا کہ وہ گاندھی کی روایت اور میراث پر عدم تشدد پر اور عدم تعاون تحریک پر قائم ہے۔
عدم تشدد کرنے والے احتجاجیوں کی جمہوریت کی کیوں ضرورت ہے؟ اس لیے کہ وہ جو منتخبہ نمائندے ہوتے ہیں اُنہیں چاہیے کہ وہ جن پر وہ حکمرانی کررہے ہیں اُن کی مرضی بھی حاصل کریں۔ اور یہ کلیدی اور بنیادی شہریوں کی آزادی کی ضرورت ہے کہ وہ اپنا اعتماد، اپنی رضامندی جسے وہ ضروری سمجھتے ہیں وہ جمہوریت کے لیے اکثریت خود فراہم کرے۔ ورنہ وہ اکثریت ہجومی حکومت ہوجائے گی۔
اکثریت زدہ ذہن یہ سوچتا ہے کہ ایک مرتبہ جب عوام نے انہیں ووٹ دے دیا ہے وہ یہ سمجھ لیتے ہیں کہ اب عوام کو اُن سے اختلاف کرنے کا حق حاصل نہیں ہے اور نہ ہی وہ اُن کی پالیسیوں کی خلاف ورزی کرسکتے ہیں یا عدم تعاون کرسکتے ہیں۔ اور اس لیے ضروری ہے کہ لوگوں کی تائید و حمایت، مرضی، حکومت میں شامل ہو۔ تاریخ دان ایلے ٹیموتھی سائنڈر انتباہ دیتا ہے پہلا سبق ہمیں جو پڑھنا چاہیے کہ کوئی بھی شہری نہیں چاہتا ہے کہ وہ اپنی تمام تر آزادیوں کو چھوڑ دے۔ وہ اپنی مرضی پیشگی میں نہیں دیتا اور نہ ہی کاروبار سے بھاگ جاتا ہے اور نہ ہی اندھا بن جاتا ہے کہ گورنمنٹ جو چاہے کرے۔ اس لیے کہ وہ شہری نہیں چاہتا ہے جس باتوں سے وہ متفق نہیں ہے وہ اس پر حکمرانوں کے ذریعہ لادی نہ جائے۔ بجائے اس کے لیے اُن کے پاس سڑکوں پر، اُن کی آوازوں، اُن کے احتجاج کے ذریعہ ایک راستہ ہے جس کے ذریعہ وہ اپنی آزادی کا تحفظ کرسکتے ہیں۔
گاندھی جی کے نزدیک انفرادی آزادی بہت ہی اہم ہے۔ اُن کا یہ سوچنا تھا ریاستی حکومت کو تمام تر اختیارات مل جائیں، وہ مشکوک ہوجاتی ہے۔ گاندھی جی ہمیشہ سے متنبہ کرتے تھے کہ ریاستی حکومت کو لا محدود اختیارات ملنے سے وہ فرد کے خلاف تشدد کا استعمال کرنا شروع کرسکتی ہے۔وہ کہا کرتے تھے کہ ” ریاستی اختیارات میں اضافہ کا یہ مطلب ہے کہ انسانیت کو زبردست خطرہ پیدا ہو، اس لیے کہ اس کے ذریعہ سے فرد کی انفرادیت کو تباہ کیا جاتا ہے اور یہ فرد ہی ہے جو تمام ترقیاتی کاموں کی جڑ ہے۔ آزاد فرد اور شہری گاندھی جی کی ستیہ گرہ کا مرکز نگاہ ہوتا ہے۔ زیادہ شخصی پابندیاں، کنٹرول کی وجہ سے اخلاقی طور پر پابندیاں عائد کی گئی تھیں۔ اس لیے گاندھی جی کی جو عدم تعاون کی تحریک تھی وہ کوئی انارکی نہ تھی اور نہ کوئی تشدد والا جرم تھا۔ بجائے اس کے کہا جاتا ہے کہ وہ شہریوں کی جدوجہد صرف جمہوری اصولوں کی اور اخلاقی اقدار کے نفاذ کے لیے کی جاتی تھی۔
عدم تشدد کا احتجاج، دھرنا، ستیہ گرہ، ہندوستانی جمہوریت کے ماں باپ ہیں۔ اس لیے کہ ان تحریکات کی وجہ سے ہی آزادی پیدا ہوئی اور کئی دہوں تک احتجاج کرنے کے بعد ہی نئے لیڈر نے جنم لیا ہے۔
حالیہ دنوں میں جئے پرکاش نارائن کی مخالف ایمرجنسی تحریک نے مختلف ٹاپ سیاسی قائدین کو آج اقتدار میں پہنچادیا ہے۔ نتیش کمار، لالو پرساد یادو اس زمانہ کے احتجاج کی ہی پیداوار ہیں۔ احتجاج کرنے والے طلبہ میں سیتا رام یچوری اور آنجہانی ارون جیٹلی بنیادی قائدین ہیں۔ ممتابنرجی بھی سڑکوں پر احتجاج کرنے والی بنگالی خاتون ہیں۔
حالیہ دنوں میں سب سے زیادہ ماضی قریب کی دیکھا جائے تو یہ انا ہزارے کا ہی احتجاج تھا جو 2011ء میں یو پی اے کے دورِ حکومت میں کھڑا ہوا تھا۔ جس نے ایک بڑا پلیٹ فارم مودی کی حکمرانی میں بی جے پی کے لیے تھا۔ انا ہزارے کی تحریک گویا ایک نئے طرز کا نیا جمہوری اسٹارٹ اپ تھا۔ عاپ کے سیاسی ایجنڈے پر بھی سوالیہ نشان اٹھایا گیا کہ کس طرح انہوں نے اس پبلک پلیٹ فارم کو جو کرپشن کے خلاف تھا اور جو عدم تشد د پر مشتمل تھا اس کا بھی استحصال کیا گیا ہے۔ جس طریقہ سے مندرجہ بالا تحریکوں اور احتجاجوں کو کسی نے بھی غیر قانونی نہیں قرار دیا تو کیونکر آج موجودہ حکمران مخالف CAA,NRCکے احتجاج کو حکومت کے خلاف قرار دے سکتے ہیں۔
یہ جو شہری احتجاج باضابطہ طورپرپُرامن طریقہ سے کیا جارہا ہے یہ تو دراصل مادرِ شکم کی طرح ہے جہاں سے سیاسی لوگ پیدا ہوتے ہیں۔ یہ ہندوستان کی روایت ہی رہی ہے اس لیے ان گہری جڑوں کو عزت کی نگاہ سے دیکھنا چاہیے ملک بھر میں چیخ و پکار جب اندرا گاندھی کی حکومت کے خلاف تھی یعنی 1972ء سے 1974ء کے درمیان ، تو اس وقت اس تحریک کو عوامی آواز قرار دیا گیا تھا جو حکمرانی کے خلاف تھی۔ اس طرح 47 سال کے بعد کیونکر اس احتجاج کو یہ عوامی حکومت اپنے سیاسی کپڑوں کو کیونکر بدل سکتی ہے۔
اب اس احتجاجی تحریک کو مذہبی نقطہ نظر اور منشور سے دیکھا غلط ہے اور جان بوجھ کر اسے فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ جبکہ یہ سیکولر تحریک ہے۔ مثال کے طور پر اگر ناگالینڈ کے طلبہ جنہوں نے اپنے کالجز کو ریاست بھر میں بند کیا ہے کیا انہیں کسی مذہبی ذات یا جماعت کے طور پر لیبل لگایا جاسکتا ہے۔ اُسی طرح قبائلی اقوام نے جب سڑکوں پر آواز اٹھائی جو CAA کے خلاف تھی کیا یہ فرقہ واریت ہوسکتی ہے؟ اگر فرض بھی کرلیجیے کہ CAA کے احتجاج کرنے والوں میں ملک کے بعض علاقوں میں مسلمانوں کی اکثریت شامل ہے تو کیا ان کی تحریک کو غیر دستوری کہا جاسکتا ہے؟
جو قیادت امبیڈکر کےn Constitutio کے اقدار کی پابند ہے اور گاندھی کے اقوال کو مانتی ہے تو اسے چاہیے کہ وہ ان شہریوں کی آواز کو پہلے سنے۔ چہ جائیکہ اُن کے خلاف ماردھاڑ، دھکا بکی یا پوری قوم کو گالی گلوج کیا جائے۔ دراصل یہ ووٹ بینک کے تقسیم کی سیاست ہے۔ اگر گاندھی جی ہوتے تو شاید ہوسکتا ہے کہ وہ شاہین باغ جاکر اُن سے بات چیت کا آغاز کرسکتے تھے۔ جبکہ حکمران بی جے پی نے ہر گھر پہنچ کر CAA کی تائید میں لوگوں کا دل و دماغ جیتنے کی کوشش کررہی ہے۔ یقینا ہوم منسٹر کو چاہیے کہ وہ شاہین باغ کو جاکر اُن شہریوں سے گفت و شنید کریں، جیسا کہ وہ ملک کے دیگر حصوں میں لوگوں سے بات کرنے جارہے ہیں۔ کیا یہ شہری اُن دیگر شہریوں کے برابر مساوی نہیں ہیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ و تلخیص: ایڈوکیٹ محمد بہاء الدین، ناندیڑ( مہاراشٹرا)
Cell:9890245367