عبدالرشیدطلحہ نعمانیؔ
وطن عزیز ہندوستان پچھلے چالیس یوم سے رزم گاہِ حریت بنا ہوا ہے۔ملک کے طول وعرض سے مسلسل آزادی کی صدائیں گشت کررہی ہیں،ہر مذہب ماننے والا،ہر زبان جاننے والا ،ہر خطےاور پیشے سے تعلق رکھنے والاہوش مندانسان ملک کے جمہوری اقدار وسیکولر روایات کی حفاظت کےلیےسراپا احتجاج بناہوا ہے۔ان جاں بہ لب حالات کو دیکھ کر ایسا محسوس ہورہاہے کہ ہندوستان میں ایک بار پھراسپین کی تاریخ دہرانے کی سازش رچی جارہی ہے،این آرسی اور شہریت ترمیمی قانون کے ذریعہ مسلمانوں کو ملک بدر کرنے یا کم از کم ارتداد کے گھاٹ اتارنے کے تانے بانے بنے جاچکے ہیں اور وزیر داخلہ بھی اپنے تازہ ترین متنازع بیانات کے ذریعہ اس پر یقین دلانے کی سعیِ نامشکورکرتے نظر آرہے ہیں ۔
‘اسپین’جس پر مسلمانوں نےتقریباً آٹھ سو سال تک اس شان وشوکت کے ساتھ حکم رانی کی کہ یورپ جیسی عظیم قوت بھی ورطۂ حیرت میں مبتلا ہوئے بغیر نہ رہ سکی، دنیا کی سب بڑی مسجد اندلس میں تھی جس کا نام جامع قرطبہ تھا، جہاں بہ یک وقت علم تفسیر،علم حدیث ،علم فقہ ،علم فلسفہ اور مختلف علوم وفنون پڑھائے جاتے تھے،جہاں ہزاروں مسجدیں اور مدرسے آباد تھے ، جہاں کی تہذیب وثقافت ،خوش حالی وزرخیزی کے ساری دنیا میں چرچے تھے،جہاں اسلام کے متوالوں نے جوش وجنوں اور عز م و استقلال کی روشن مثال قائم کی اوراسلام کی انسانیت نواز تعلیمات کو پیش نظر رکھ کر فتح کے پرچم گاڑھے ۔تاریخ گواہ ہے کہ طارق بن زیادکی جاں باز فوجوں نے اندلس کو فتح تو کرلیا؛ لیکن وہاں کے لوگوں کا کشت وخون نہیں کیا۔مگر جب کم وبیش آٹھ سو سال بعد مسلمانوں کی غفلت اور عیش وعشرت میں مبتلا ہوجانے کے سبب عیسائیوں نے دوبارہ اس ملک پر قبضہ کیا تو ایک بھی کلمہ گونہیں چھوڑا ،علماء کو دہکتی ہوئی آگ میں ڈالا گیا ،عورتوں کی سرعام عزتیں لوٹی گئیں، بچوں کو اپنے گھروں میں رکھ کر عیسائی بنایا گیا، ایک طویل عرصہ تک وہاں کے بام ودر اذان کی آواز کےلیے ترستے رہے ۔ان کی اسلام دشمنی کا یہ عالم تھا کہ کوئی ڈاڑھی والا مسلمان کہیں نظر آتاتواس کو مجبور کیا جاتا کہ وہ عیسائی بن جائے،مسلمان عورتوں پرظلم ڈھایاجاتا کہ وہ مذہب تبدیل کرلیں، بچوں کا اغواکیا جاتا اور ان کے نام بدل کر عیسائیوں کے نام رکھ دیئے جاتے پھر ان کو بائبل پڑھا کر عیسائیت میں تبدیل کردیا جاتا ، لاکھوں مسلمانوں کو بالجبریاتو عیسائی بنا لیا گیا یا شہید کردیا گیا۔ وہاں کی مسجدیں کلیسا اور گرجا گھر وں میں تبدیل کردی گئیں۔ وہاں کی مسجد قرطبہ آج تک ماتم کررہی ہے اور نماز پڑھنے والوں کے انتظار میں ہے۔ اقبال مرحوم نے اس پریوں مرثیہ خوانی کی ہے۔ ؎
اے گلستان اندلس وہ دن ہے یاد تجھ کو
تھا تیری ڈالیوں پہ جب آشیاں ہمارا
اے موجِ دجلہ! تُو بھی پہچانتی ہے ہم کو
اب تک ہے تیرا دریا افسانہ خواں ہمارا
یہ قانون فطرت ہے کہ رب کائنات نے ہر دور میں حق و باطل کی آویزش رکھی، فرعون کے لئے موسی کو پیدا فرمایا ،جہاں بڑے بڑے ظالم ،جابر اور غاصب حکم راں آئے جنہوں اسلام کےشجر طوبی کو کاٹناچاہا، اس کی فطری مقبولیت کو کم کرنے کا ارادہ کیااور اس کو بیخ وبن سے اکھاڑپھینکنے کی سازش رچی ،وہیں اسلام پر اپنی جان ومال ،اپنی آل و اولاد اور اپنا گھر بار سب کچھ قربان کر کے اسلام کی شمع کو روشن کرنے والے بھی سر پر کفن باندھ کر میدان کار زار میں موجودرہے اور حق تعالی کا وہ وعدہ ناقابل تردیدسچائی بن کر سامنے آیا کہ حق آیا اور باطل ملیامیٹ ہوگیا۔
مسلمانانِ ہند کو درپیش خطرۂ ارتداد:
ان سیاہ قوانین کے نفاذ کے بعد(خداکرے کہ یہ نافذ ہی نہ ہوں اور ظالموں کے خلاف مظلوموں کو کامیابی نصیب ہو) بزرگان دین کو جس فتنے کا سب سے زیادہ اندیشہ ہے وہ ارتداد کا فتنہ ہے؛ اس لیے کہ گاؤں دیہات سے تعلق رکھنے والے وہ کمزور و نادار مسلمان جو دین کی ابجد بھی نہیں جانتے بعید نہیں ہے کہ وہ شہریت حاصل کرنے کےلیے اسلام کو خیر باد کہہ دیں اور خوشی خوشی شرک و بت پرستی قبول کرلیں۔ پھرآج کا دورایمان داری کا دور نہیں ہے۔لوگ چند کوڑیوں کےلیے جھوٹ بولنے پر راضی ہوجاتے ہیں، چند ٹکوں کےلیے غلط گواہی دینے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں، معمولی جائیداد کےلیے حقیقی بھائی کے قتل کو معمولی سمجھنے لگتے ہیں،ایسے دور میں جب اسلام کے ماننے والوں پر عرصۂ حیات تنگ کیا جائے گا، انہیں ملک و جائیداد سے محروم کرنے کی بات ہوگی تو ایمان و یقین کی عمارت میں ضرورزلزلہ آئے گا اور وہ دھڑام کے ساتھ زمین بوس ہو جائے گی۔
یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ یہ صرف زبانی اندیشے اوراوہام وخیالات نہیں ہیں؛بل کہ برصغیر کی تقسیم سے قبل بھی انگریزی دور حکومت میں شدھی تحریک کے عنوان سے دیگر مذاہب کے لوگوں کو ہندومت میں شامل کرنے کی مذموم کوششیں ہوتی رہی ہیں۔ شدھی کرن کے معنی ہیں پاک کرنا۔ ہندو اس سے مراد یہ لیتے ہیں کہ جو پہلے ہندو تھے، انہوں نے اسلام قبول کرلیا تو وہ ناپاک ہوگئے۔ انہیں پھر ہندو بناکر پاک کیا جائے گا۔ اسی خیال سے انہوں نے تحریک کا نام ’’مسلم شدھی کرن تحریک‘‘ رکھا۔ پنڈت دیانند سرسوتی اور آگرہ میں سوامی شروھانند کی ’’بھارتی شدھی سبھا‘‘ کا صرف یہی مقصد تھا کہ مسلمانوں کو ذہنی طور پر باور کروایا جائے کہ تم لوگ ہندو ہو اور تمہارے باپ دادابھی ہندو تھے۔ تاہم مسلمانوں کو مرتد بناکر ہندو ازم میں داخل کرنے کی اس مذموم تحریک کا آغاز ۱۹۲۳ء میں ہوا ، گاؤں گاؤں،قریہ قریہ بھولے بھالے مسلمانوں کو شدھی ہونے کے لیے کہا جاتا تھااور جان ومال کےلیےلوگ تیزی کے ساتھ مرتد ہوتے چلے جاتے تھے۔
برسراقتدارجماعت کا اصل مقصدبھی ہندوستان کو ہندو راشٹریہ میں تبدیل کرنا اور مسلمانوں کو ہندو رنگ میں رنگنا ہے۔معروف ہندی روزنامے کیسری اور اجالا کی رپورٹ کے مطابق موہن بھاگوت نے وارنسی میں عیسائیوں کی گھر واپسی اور مسلمانوں کی شدھی کرن کے منصوبے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان بھر میں طے شدہ ہدف کے مطابق شدھی کرن پر کام ہو رہا ہے۔ اس ناپاک منصوبے کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے ۸۰۰ کے لگ بھگ تربیت یافتہ پرچارکوں اور ہندوسکالروں کی رہنمائی میں ۸۰ ہزار این جی اوز کی ذیلی تنظیموں کو تربیت دی گئی۔ اہداف شدہ علاقوں میں مذموم سرگرمیاں جاری ہیں۔ آر ایس ایس کے ترجمان روزنامہ پنج جینیہ کی ایک رپورٹ کے مطابق شدھی کرن کے اس نئے منصوبے کے پہلے مرحلے میں مسلمانوں میں اسلامی معاشرے سے ارتداد پر زور دیا جائے گا۔ اس مذموم مقصد کو حاصل کرنے کے لیے قادیانیوں کا استعمال، مسلم نام نہاد تنظیموں اور انجمنوں کا قیام، مسلمانوں میں بابا گیری اور جادو ٹونے کا فروغ، مسلم راشٹریہ منچ جیسی تنظیموں کا ملک بھر میں جال بچھا دینا شامل ہے تاکہ مسلمان عمومی طور پر دھیرے دھیرے جمہوریت کے ساتھ ہندو توا کو بھی ذہنی طور پر قبول کر لیں۔
برطانوی جریدے پریمئر نے اپنی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ بھارت میں آر ایس ایس اور اس کی آئیڈیالوجی سے وابستہ تنظمیں ایک طرف بھارت کو ہندو راشٹریہ میں تبدیل کرنے کے لیے عیسائی مشنری کو جبرو تشدد کا نشانہ بنارہی ہیں تو دوسری طرف ایک بڑے منصوبے کے تحت ’’مسلم شدھی کرن‘‘ پر بھی متواتر کام کیا جارہا ہے، جریدے کے مطابق مسلمانوں کے شدھی کرن کوسنگھ پریوار نے ایک چیلنج کی طرح قبول کیا ہے؛کیونکہ مسلمانوں میں اسلام سے وابستگی کا خاتمہ ناممکن ہے، اس لیے ناپاک منصوبے پر مرحلہ وار کام ہو رہا ہے۔(القلم آن لائن)
اسلام ترا دیس ہے تو مصطفوی ہے!
جب فاران کی چوٹیوں سےاسلام کا نیر تاباں طلوع ہوا تو اولاًاعلان حق اور تبلیغ اسلام کی پاداش میں سب سے زیادہ نبی اکرم ﷺ کو ستایا گیا اورجسمانی و قلبی اذیتیں دی گئیں، بعد ازاں صحابہ کرام کے ساتھ ہر قسم کا ظلم وستم روا رکھا گیا۔ ان کے ایمان پر ثابت قدمی کے درجنوں واقعات حدیث و تاریخ کی کتابوں میں موجود ہیں جو آج بھی ہمارے لیے ایمان میں تازگی اور یقین میں پختگی کا سبب ہیں۔بہ طور نمونہ ایک دو واقعات ذیل میں ملاحظہ فرمائیں!
یہ حضرت خباب بن ارت ہیں، جوزمانۂ جاہلیت میں قیدی بناکر مکۃ المکرمۃ لائے گئے اور انہیں مکہ مکرمہ کے بازارمیں بیچاگیا؛مگر جب آپ نے پیغام حق سنا توکھلم کھلا قبول اسلام کا اعلان کردیا، جس کی پاداش میں انہیں کئی اذتیوں سے گزرنا پڑا۔ان مظالم ومصائب کی داستان خود ان کی زبانی سنیے!ایک دن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت خباب سے ان پرہونے والے مظالم ومصائب کی خوں چکاں داستان پوچھی تو عرض کیا :اے امیر المؤمنین! میری کمر دیکھیے ! حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کمر دیکھ کر فرمایا کہ ایسی کمر تو آج تک کسی کی دیکھی ہی نہیں ۔ حضرت خباب نے عرض کیا! میرے لیے آگ دہکا ئی جاتی پھر مجھے آگ کے انگاروں پرڈال کر گھسیٹا جاتا اور میری چربی سے وہ آگ بجھ جاتی ۔
یہ حضرت بلال ہیں جنہوں نے امیہ بن خلف جیسے کٹر مشرک کی غلامی میں بائیس (22) برس گزارے، اسی اثناء میں آپ کے کانوں میں دعوت توحید کی صدا پہنچی، یہ بعثت کا ابتدائی زمانہ تھا اور سرور دو عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے بڑی رازداری کے ساتھ تبلیغ حق کا آغاز فرمایا تھا۔ چنانچہ دعوت اسلام ملتے ہی آپ نے بلا تائل لبیک کہا اور اپنا دل و جان آقا صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم پر قربان کر بیٹھے۔ آپ ان سات سعید الفطرت ہستیوں میں شامل ہیں جنہوں نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا۔جب امیہ کے کانوں میں حضرت بلال رضی اللہ تعالٰی عنہ کے قبول اسلام کی بھنک پڑی تو وہ آگ بگولہ ہو گیا۔ اس نے آپ کو بلوا کر پوچھا کہ “ میں نے سنا ہے کہ تم نے کوئی اور معبود ڈھونڈ لیا ہے ؟ سچ سچ بتاؤ، تم کس کی پرستش کرتے ہو ؟ “ آپ (رضی اللہ تعالٰی عنہ) نے جواب دیا، “ محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے خدا عزوجل کی۔“ اس نے کہا کہ، “ محمد (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کے خدا کی پرستش کا مطلب ہے کہ تو، لات و عزی کا دشمن بن گیا ہے، سیدھی طرح راہ راست پر آجا، ورنہ ذلت کے ساتھ مارا جائے گا۔“ آپ نے جواب دیا کہ “ میرے جسم پر تیرا زور چل سکتا ہے، لیکن دل پر نہیں، اب اللہ تعالٰی کی عبادت و رضا ہی میری زندگی کا مقصود ہے، چنانچہ تمہارے خود ساختہ معبودوں کو درست سمجھنا اور پوجنا میرے بس کی بات نہیں۔“ اس اقرار کے بعد ظالم نے آپ پر ظلم و ستم کا ایک لا متناہی سلسلہ شروع کر دیا۔ مکہ مکرمہ میں حرہ کی زمین گرمی کے سبب سے مشہور ہے، یہ گرمی میں تانبے کی طرح گرم ہو جاتی ہے۔ امیہ دوپہر کے وقت، آپ کو اس جلتی ہوئی ریت پر لٹا کر ایک بھاری پتھر ان کے سینےپر رکھ دیتا تا کہ ہل بھی نہ سکیں۔ پھر کہتا، “ محمد (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی سے باز آ جا، اور “ لات و عزی “ کے معبود برحق ہونے کا اقرار کر لے ورنہ اسی طرح پڑا رہے گا۔“ اس کے جواب میں شیدائے حق کی زبان سے احد احد کی آواز نکلتی تھی۔ امیہ غضب ناک ہو کر ان کو زدوکوب کرنا شروع کر دیتا، لیکن آپ “ احد، احد “ ہی کہتے چلے جاتے۔ ایک مرتبہ اس نے آپ کو ایک دن رات بھوکا پیاسا رکھا اور تپتی ہوئی ریت پر ان کا تماشہ دیکھتا رہا۔اللہ اکبر
آئے عشاق ,گئے وعدہ فردا لے کر
اب انھیں ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لے کر
خلاصۂ کلام :
اس وقت جہاں ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ ہم پوری توانائی کے ساتھ احتجاج کا حصہ بنیں اور ان سیاہ قوانین کو واپس لینے کا مطالبہ کریں،وہیں ہمارا یہ بھی فریضہ ہے کہ ہم نعمت ایمان کا استحضار رکھیں اور عام مسلمانوں تک یہ پیغام پہنچائیں کہ چاہے جو بھی ہوجائے ہم دین اسلام سے پھرنے والے نہیں ہیں،ہم اسلام کی بقا کے بعد ملک کی سالمیت چاہتے ہیں اور ہمیں اس بات پر پورایقین ہے کہ ہم ملک و ملت کے دونوں محاذوں پر کامیاب و کامران رہیں گے۔اگر ہم میں سے ہر فرد یہ فیصلہ کرلے کہ اسے صرف اللہ تعالیٰ کا بندہ بن کررہنا ہے،ایمان پر ثبات کو یقینی بناناہے، سب کی بھلائی چاہنا ہے، سب کے لئے سراسر خیر ثابت ہونا ہے ، ہر حرام سے بچنا ہے، رب ذوالجلال ،اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کی کتاب مجید کی محبت کو دیگر تمام محبتوں پر غالب کردینا ہے اسے اپنی تمام ذمہ داریاں تن دہی اور جاں فشانی سے انجام دینا ہے، خود ہی راہ راست پر نہیں چلنا ہے؛بل کہ جہاں تک آواز پہنچتی ہے خیر کی اس آواز کو پہنچانا اور عام کرناہے ، اپنی سب سے قیمتی متاع یعنی وقت کا ایک ایک لمحہ رب کی قربت کا مستحق بننے کی سعی میں بسر کرنا ہے ،اگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر امتی یہ پختہ فیصلہ کرلے ، پھر اللہ تعالیٰ سے مددطلب کرے تو یقینا آنے والا وقت ہمارا ہوگا اور آخرت کی سرخروئی اس سے بھی پہلے یقینی ہوجائے گی۔
کچھ رہے یا نہ رہے پر یہ تمنا ہے امیر
آخری وقت سلامت مرا ایمان رہے