از:مولانا عبد الرشید طلحہ نعمانی
24؍ستمبر2019ء کا سورج تما م تر رعنائیوں اور تا بانیوں کے ساتھ طلوع ہو چکا تھا ،حسبِ معمول تاجرین اپنی تجارت ،کاشت کار اپنی زراعت،مزدور اپنی مزدور ی اور مختلف پیشوں سے تعلق رکھنے والے افراد اپنے اپنے پیشے میں منہمک و مصروف تھے،کسی کے ذہن ودماغ میں غفلت سے بھی اس بات کا خطرہ نہیں گزرا تھا کہ ڈوبنے والا یہ سورج کوئی اندوہ ناک سانحہ اپنے پیچھے چھوڑ جائے گااور تقریباً 4؍ بجے کے آس پاس کوئی زبردست بھونچال آئے گا اور زمین پوری قوت وشدت کےساتھ دھل جائے گی ؛مگر ہونی کو کون ٹال سکتاتھا؟ وہی ہوا جو خدا کو منظو ر تھا،بھارت کےدارالحکومت دہلی سمیت پورے شمالی ہندوستان اورپاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد، صوبہ پنجاب اور خیبرپختونخوا کے مختلف شہروں بالخصوص مقبوضہ کشمیر میں زلزلے کےزبردست جھٹکےمحسوس کیے گئے؛ امریکی جیالوجیکل سروے کے مطابق زلزلے کا مرکز مقبوضہ کشمیر کا شہر میرپور تھا ؛جس کی گہرائی 10 کلومیٹر تھی۔ زلزلے کے بعد گھروں، دفاتر اور عمارتوں میں موجود لوگ کلمہ طیبہ کا ورد کرتے ہوئے باہر آ گئے؛جبکہ رپورٹس کے مطابق زلزلے کا یہ دورانیہ 8 سے 10 سیکنڈ تک تھا۔
سر زمین کشمیر تو سخت اچھاڑ پچھاڑ کے نتیجہ میں تہہ وبالا ہو کر رہ گئی ،کئی گھر منہدم ہوگئے، سڑکیں تباہ وبرباد ہو گئیں اور اخباری اطلاع کے مطابق درجنوں افراد ِ انسانی موت کا لقمہ تر بن گئے ۔
درسِ عبرت دے گیا ہے زلزلہ کشمیر کا
بس نہیں چلتا خدا کے قہر پر تدبیر کا
جب زمین پر بڑھتا جاتا ہے گناہوں کا وبال
دفعتہً یوں جوش میں آتا ہے قدرت کا جلال
جب زمین لرزتی ہے تو آدمی پر اپنی حقیقت آشکار ہو جاتی ہے،اپنی بے بسی ،بےکسی اور لا چار ی کا شدید احساس ہو تا ہے ،گھمنڈ ،تکبر اور نخوت کے بت پاش پاش ہوجاتے ہیں ،اسبابِ ظاہری کی فراوانی؛بلکہ تر قی یافتہ ایجادات اور نت نئی اختراعات کے باوجود اس قادرِ مطلق کی قدرت کا ملہ کا ادراک ہو نے لگتا ہے۔کوئی کسی وقت کتنا ہی تکلف وتصنع سے کام لے؛ مگر ایسے ہو لناک ،روح فرسا اور زہرہ گداز موقع پر ہر ہر متنفس وسعت بھر ہاتھ پاؤں مارنے کی کوشش کر تا ہوا دکھائی دیتا ہے ،رجوع الی اللہ ہونے والوں کا تناسب بھی پہلے کے مقابلہ میں کئی گنابڑھ جاتا ہے ،ہر فرد بشر خشیت وانابت کے جذبات سے معمورــــــــ وقتی طور پر ہی سہیــــــــ اپنے اعمال کی اصلاح میں لگ جاتا ہے؛لیکن حیف صد حیف کہ مادیت پر ست قوم میں کچھ نام نہاد روشن خیال ایسے بھی ہو تے ہیں جو معرفت الہی اور بصیرت ایمانی سے محروم، حالیہ تباہیوں اور بر بادیوں پر ظاہری اسباب وذرائع کے تحت تبصرہ کر تے ہیں جن کے تجزئیے اس بات سے آگے نہیں جاتے کہ ’’زیرِ زمیں آگ کا ایک جہنم دھک رہا ہے اس کی بے پناہ حرارت کی وجہ سے زمین غبارے کی طرح پھیل پڑتی ہے اور پھٹ جاتی ہے ‘‘۔زمین ٹھنڈی ہو رہی ہے اور اس کے نتیجہ میں غلافِ زمین کہیں کہیں چٹخ جاتا ہے ۔علاوہ ازیں آج کا سب سے مقبول نظر یہ ہے کہ ’’زمین کی بالائی پر ت اندرونی طور پر مختلف پلیٹوں میں منقسم ہے ،جب زمیں کے اندرونی کُرے میں موجود پگھلے ہوئے مادّے میں کر نٹ پیدا ہو تا ہے تو یہ پلیٹیں بھی اس کے جھٹکے سے متحرک ہو جاتی ہیں جس کو زلزلہ سے تعبیر کیا جاتا ہے ‘‘وغیرہ وغیرہ مختلف سائنسی تحقیقات پیش ہو نے لگتی ہیں؛جبکہ اہلِ اسلام کا اس بارے میں وہی نظریہ ہے جو قرآن وسنت سے ماخوذ ہے اور سائنسی اسباب وجوہات کا دار ومدار بھی خود احکم الحاکمین کی حکمت ومشیت پر ہے اس لئے محض سائنسی اسباب وجوہات کو تلاش کر نے کے بجائے "ظھر الفساد فی البر والبحر بما کسبت ایدی الناس "کے قرآنی فرمان پر بھی ہماری نظر ہو نی چاہیے۔اسی طرح قرآن مجید میں اللہ تعالی نے اس عظیم سانحے اور بالیقین وقوع پذیر ہونے والے حادثے یعنی قیامت کامختلف مقامات پر صراحتاً و اشارتاً کئی جگہ تذکرہ فرمایا،ایک مقام پر اس کی یوں منظر کشی کی گئی:جب زمیں اپنی پوری شدت کے ساتھ ہلا ڈالی جائیگی،ور زمین اپنا تمام بوجھ باہر نکال دے گی اورانسان کہے گا : اسے کیاہوا؟ (سورۃ الزلزال) مفسرین اس آیت سے یہ معنی لیتے ہیں کہ اس وقت زمین کا کوئی مخصوص حصہ نہیں؛بلکہ پورے کا پورا کرہ ارض ہلا دیا جائیگا جسکے نتیجے میں دنیا کا وجود ختم ہو جائے گا۔ مگر اس عظیم زلزلے کے واقع ہو نے سے پہلے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق زمین کے مختلف حصوں پر زلزلوں کا ایک لا متناہی سلسلہ شروع ہوجائےگا۔جیساکہ آپﷺ نےزلزلوں کے بہ کثرت آنے کی و جوہات بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ جب مالِ غنیمت کو اپنی ذاتی دولت سمجھا جانے لگے ،زکوٰۃ، تاوان سمجھ کر نا گواری کے ساتھ ادا کی جائے ، علم کا حصول دنیوی اغراض ومقاصد کے تحت ہو نے لگے ،آدمی والدین کے بجائے بیوی کا فرماں بر دار ہو جائے ، والدین کے مقابلہ میں دوست احباب کو تر جیح دی جائے ،مساجد میں کھلم کھلا شور مچا یاجائے ،قوم کی سر داری فاسق وفاجر افراد کر نے لگیں ،قوم کا سر براہ قوم کا ذلیل ترین شخص بن جائے ،گانے والی عورتوں اور ساز وباجے کا رواج ہو جائے ،شراب نوشی عام ہو جائے اور امت کے بعد والے پہلے لوگوں کو برا بھلا کہنے لگیں تو اس وقت تم سرخ آندھی ،زلزلے ،زمین کے دھنسنے ،صورتوں کے مسخ ہو نے اور آسمان سے پتھروں کی بارش ہو نے کا انتظار کرو۔(تر مذی شریف )
ایک دوسری روایت میں آپ ﷺ کا ارشاد ہے : میری امت پر اللہ کی جانب سے رحم کیا گیا ہے آخرت میں اس کو کوئی عذاب (اجتماعی شکل میں )نہیں ہو گا البتہ فتنوں ،زلزلوں اور قتل وقتال کی شکل میں دنیا میں ہو گا ۔(مسند احمد)
آج جب ہم حدیث کی رو سےاپنا جائزہ لیتےہیں اوراجتماعی طور پر احتساب کرتے ہیں تویہ تمام نشانیاں پوری ہوتی نظر آتی ہیں ۔کیا یہ سچ نہیں کہ آج اہل ثروت کا ایک بڑا طبقہ زکوٰۃ کو تاوان اور ٹیکس سمجھ رہا ہے، امانت ودیانت کا تصور رفتہ رفتہ ختم ہوچکاہے،علم دنیا تو درکنارعلم دین بھی حطام دنیا کمانے کے لیے حاصل کیا جارہاہے، دوست اتنے عزیز ہوچکے ہیں کہ باپ کی حیثیت صرف ایک کھوسٹ بوڑھے کی ہوکر رہ گئی ہے ،گانے بجانےکے اسباب اس طرح عام ہوگئے ہیں کہ لوگ قرآن کی تلاوت بھول گئے، صبح میوزک سے اٹھتے ہیں اور شام بھی میوزک ہاؤس میں ہوتی ہے،زناکاری اور قمار بازی کا حال تو یہ ہے کہ روشن خیال طبقہ میں یہ کوئی بری بات ہی نہیں رہ گئی ہے ،صحابہ اور اسلاف امت کو برا بھلا کہنے والوں کی ایک جماعت آج بھی موجود ہے جو وقفہ وقفہ سے بڑوں کی شان میں دریدہ دہنی کا مظاہرہ کرتی رہتی ہے۔ ظاہر سی بات ہے جب امت اس ابتر صورت حال سے دوچار ہوگی تو پھر وہ سب کچھ ہوگا؛جس کی مخبر صادقﷺنے پیشین گوئی دی ہے اور اس طرح پے درپے ہوگاجیسے کسی لڑی کا دھاگہ ٹوٹ جائے اور لگاتار اس کے دانے گرنے لگیں ۔پہلے سونامی آئی ، گردابی آندھی آئی ، پتھر برسے، زلزلے کے جھٹکے ایک دن میں کئی کئی بار محسوس کیے گئے، تودے گرے۔ اور پتہ نہیں کیا کیا ہونے کو باقی ہے۔
مختصر یہ کہ زلزلے،ہماری شامتِ اعمال کا نتیجہ ،خوابِ غفلت سے بیداری کا الارم اور ساری انسانیت کے لئے عبرت وموعظت کا ایک پیغام ہیں ۔
کر نے کے کچھ کام :
خوف ناک اور ہول ناک حالات میں بھی ضروری ہے کہ ہم عہد ِ صحابہؓ وتابعین سے رہنمائی حاصل کر یں اور ان کے بتلائے ہوئے خطوط ونقوش پر گامزن رہ کر فلاح دارین سے سر فراز ہوں چنانچہ سیدنا عمرؓ کے عہد خلافت میں ایک مر تبہ شدید زلزلہ آیا کہ چار پائیاں ایک دوسرے ٹکرا گئیں تو حضرت عمرؓ نے خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:تم نے دین میں نئے نئے کام ایجاد کر رکھے ہیں اور اس میں بہت جلدی مچار رکھی ہے اور اگر اس قسم کا زلزلہ دوبارہ آیا تو میں تمہارے درمیان سے نکل جاؤں گا ،ایک دوسری روایت میں ہے کہ یہ زلزلہ تو جب ہی آتا ہے جب تم لوگ دین میں کوئی نئی چیز پیدا کرو،اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے اگر دوبارہ ایسا ہوا تو میں کبھی تمہارے ساتھ نہیں رہوں گا ۔(مصنف بن ابی شیبہ)
جلیل القدر صحابی سیدنا عبدا للہ ابن مسعودؓ کے زمانہ میں ایک مر تبہ سر زمین کوفہ دھل گئی تو آپ نے بر ملایہ اعلان فرمایا کہ : اے لوگو! یقیناً رب تم سے ناراض ہو چکا ہے تم اسے اپنی رضامندی چاہتا ہے لہذا تم اس کو راضی کر لو اور اس کی طرف رجوع کر تے ہوئے توبہ کر لوورنہ اسے یہ پر واہ نہ ہو گی کہ تم کس وادی میں ہلا ک ہو تے ہو ۔(العقوبا ت لا بن ابی الدنیا )
سر زمین شام جب زلزلہ سے دھل گئی تو حضرت عمربن عبدا لعزیز نے وہاں یہ پیغام بھیجا کہ راہ خدا میں خرچ کرو! جو شخص صدقہ کر سکتا ہے تو وہ ایسا ضرور کر ے اس لئے کہ اللہ کا ارشاد ہے با مراد ہوا وہ شخص جس نے تزکیہ کیا ۔
ان دو چار واقعات سے زلزلوں کی وجوہات اور ان حوادث کے مواقع پر کر نے کے کچھ کام بھی معلوم ہوگئے بہر کیف ان لرزہ خیز زلزلوں سے بر بادیوں اور ویرانیوں کی جو مایوس کن دستانیں بنیں وہ مدت مدید تک خون کے آنسو رلاتی رہیں گی ،کرب واضطراب کے روح فر سا نظارے قلب وروح کو چھلنی کر تے رہیں گے متاثرین کی آہ وبکا اور چیخ وپکار رہ رہ کر یہ احساس دلاتی رہے گی کہ چشمِ زدن میں یہ کیا کچھ ہوا ؟کیسے ہو ا ؟ کہاں کہاں ہوا ؟اور کیوں ہوا ؟
یاد رہے کہ دنیوی زندگی میں آلام ومصائب انسانی فطرت وسر شت کو آزمانے اور مخلوق کو خالق کی جانب متوجہ کر نے کے لئےہی آتے ہیں اور قرآنِ حکیم کی لَعَلَّھُمْ يَرْجِعُوْنَ، لَعَلَّہُمْ يَتَفَكَّرُوْنَ کی صدائے بازگشت ہمیں ان تباہیوں کے بیچ جھنجھوڑ کراس بات کا پیغام دیتی ہے کہ ہم اپنی زندگیوں کا جائزہ لیں ،اپنے نفوس کا محاسبہ کریں ،اور اوامر کی بجا آوری اور نواہی سے اجتناب میں کو تاہی سے احتراز کریں ،ساتھ ہی ساتھ یہ المناک صورتحال میں سب کے لئے فردا ً فرداً امتحان ہے ہمارے ایثار کا ہمارے انفاق کا انسان دوستی کا ،صبر وثبات کا اور فہم ودانش کا ۔
حق تعالی ہمیں حالات سے عبرت لےکر زندگیوں میں انقلاب لانے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین