تحریر: مولانا نور الحسن راشد کاندھلوی
نوٹ: چند روز قبل علم و کتاب واٹس اپ گروپ پر ایک استفسار آیا تھا کہ مولانا نور الحسن راشد صاحب کے پاس موجود سنن نسائی کے نسخے کو کتب حدیث کی پہلی کتاب کہا جاتا ہے، کیا اس سے زیادہ قدیم کوئی مطبوعہ کتاب کسی کے علم میں ہے، مطبوعہ کتابوں سے متعلق کتابوں کی تلاش کے بعد ہمیں ڈاکٹر احمد خان کی کتاب معجم المطبوعات العربیۃ فی شبہ القارۃ الھندیۃ و الباکستانیۃ میں ایک دوسری کتاب کا اندراج ملا، اس کی اطلاع جب مولانا کو ملی تو بڑی محنت کے ساتھ سنن نسائی کے پہلے ایڈیش اور متعلقہ معلومات ایک مراسلہ میں ہمیں ارسال کی ہیں، جس پر ہم مولانا کے تہ دل سے ممنون و مشکور ہیں، اور افادہ عام کے لئے مولانا کی یہ تحریر پوسٹ کررہے ہیں۔
ہمارے یہاں بفضلہ تعالیٰ جو کتابیں موجود ہیں ، ان میں پوری دنیا میں متون حدیث میں سے سب سے پہلے شائع مکمل کتاب، سنن نسائی[ جو صحاح ستہ کا ایک اہم جزء ہے]بھی موجود ہے۔یہ کتاب حضرت شاہ محمد اسحاق کی تصحیح ، توجہ او رکوشش سے، ہندوستان کے آخری مغل مسندنشیں، بہادر شاہ ظفر کے ذاتی مطبع ، مطبع سلطانی سے، جو قلعۂ معلی میں تھا ۱۲۵۷ھ [۱۸۴۱ء] میں شائع ہوئی تھی،اس کے آخر میں درج، خاتمۃ الطبع کے الفاظ یہ ہیں:’’وکان الفراغ من ہذہ النسخۃ المبارکۃ المیمونۃ، المسمیٰ بالنسائي، سنۃ ست وخمسین بعد الألف والمائتین من الہجرۃ النبویۃ، علی صاحبہا الصلٰوۃ والتحیۃ في دارالخلافۃ شاہ جہاں آباد في عہد بہادر شاہ ‘‘ [۱۲۵۶ھ مطابق ہے ۴۱۔۱۸۴۰ء کے]اس طباعت کے کل چھ سو ستّر[۶۷۰] صفحات ہیں، آخر میں چود ہ صفحات کاصحت نامہ اغلاط بھی شامل ہے، آغاز کتاب پر، ایک صفحہ میں حضرت شاہ محمد اسحاق کی سنن نسائی کی حضرت امام نسائی تک سند ہے،جس کا آغاز اس طرح ہوا ہے:
’’ یقول العبد الضعیف، خادم علماء الآفاق، محمد اسحاق أخبرنا وأجازنا شیخنا و مولانا الشیخ الأجل المحدث الشاہ عبدالعزیز الدہلوي، لہٰذا الکتاب……‘‘
یہ نسخہ مکرمی مولانا طلحہ نعمت ندوی [نالندہ، بہار] نے دیکھا اور شیخ جمعہ ماجددبئی کے ادارہ کے مجلہ آفاق التراثکے مدیر صاحب کو ایک مراسلہ کے ذریعہ سے اس کی اطلاع دی، انہوںنے فوراً ہی اس کو اپنی اور جمعہ ماجد کی ویب سائٹ پر ڈال دیاتھا، جس سے یہ بات پوری دنیا میں پھیل گئی، لیکن اس کے جواب میں کسی نے لکھا کہ یہ اطلاع صحیح نہیں، دہلی سے سنن نسائی کی طباعت سے پہلے ۱۲۳۳ھ [۱۸۔۱۸۱۷ء] میںسنن ابن ماجہ شائع ہوچکی تھی۔ یہ اطلاع ملی تو تعجب ہوا کہ یہ کہاں سے آئی، اس کا اب تک نہ کسی کتب خانہ اور لائبریری میں سراغ ملا، نہ کسی فہرست اور معجم مطبوعات میں اس کا اشارہ اور حوالہ ہے، نہ کسی محقق نے اس کاتذکرہ کیاہے۔ بہرحال یہ تردید نیٹ پر چلتی رہی، کئی لوگوں سے اس کا علم ہوا، اب سننے میں آیاہے کہ یہ تردید آں مکرم کی جانب سے تھی اور یہ بھی کہ آںمکرم اس اطلاع کو صحیح خیال فرماتے ہیں، اس لئے دو تین باتیں لکھنے کی اجازت چاہتاہوں:
l میری ناچیز معلومات میں دنیا بھر میں امہات کتب حدیث میں سے جو کتاب افق طباعت پر سب سے پہلے جلوہ گر ہوئی وہ یہی سنن نسائی ہے[ جس کا تعارف
شروع میں گذرا] او رجس کو حضرت شاہ محمد اسحاق نے مرتب کرکے مطبع سلطانی [قلعہ معلی] شاہ جہاں آباد [دہلی] سے ۱۲۵۶ھ میں شائع کرادیاتھا۔ اس طباعت کا ایک عمدہ نسخہ ہمارے یہاں محفوظ ہے،جس میں حضرت مولانا نورالحسن [وفات:۱۲۸۵ھ ۔۱۸۶۸ء] نے حضرت شاہ محمد اسحاق سے اور حضرت مولانامحمد یحییٰ کاندھلوی نے حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی سے ۱۳۱۴ھ میںپڑھا، ان دونوں حضرات نے اپنے اساتذہ کے درس میں اس کی تصحیح کی بھی کوشش کی ہے، اس پر دونوں کے قلم سے تصحیحات اور مختصر مختصر افادات درج ہیں۔ اس طباعت کے دو نسخے اوربھی میری نظر سے گذرے ہیں، جن میں سے ایک حضرت شاہ عبدالعزیز اورشاہ رفیع الدین، نیز شاہ محمد اسحاق کے مشترک شاگرد، مولانامنشی جمال الدین کتانوی [مدارالمہام، ریاست، بھوپال، جو بعد
میں نواب صدیق حسن خاں کے خسر بھی ہوگئے تھے، ] کا مملوکہ ہے، اس پر منشی جی کی مہر بھی ہے، اس میں انہوںنے پڑھایا بھی ہے، اوراس پر ان کے قلم سے تصحیحات بھی ہیں۔
سنہ ۱۲۳۳ھ[۱۸۔۱۸۱۷ء] میں دہلی میں کیا، تقریباً پورے شمالی ہندوستان میں، کوئی قابل ذکر مطبع یا طباعتی ادارہ نہیں تھا، دہلی میں، جہاں تک معلوم ہے سب سے پہلا مطبع مولوی محمد حیات کا تھا، دوسرا مطبع سلطانی تھا، جو لا ل قلعہ میں قائم ہوا تھا، پھر اور مطابع قائم ہوتے چلے گئے، اس وقت بلکہ اس کے بعد بھی کم سے کم پچیس سال تک، مطبع مجتبائی کا کہیں پتہ نشان نہیںتھا۔
سنہ ۱۲۳۳ھ[۱۸۔۱۸۱۷ء] میں نہ دہلی میں پریس آیا تھا، نہ وہاں سے کوئی کتاب چھپی ، نہ اس وقت مطبع مجتبائی کا تذکرہ تھا، اس وقت شاید اس کے بانی بھی تولد نہیں ہوئے تھے، اس لئے یہ اطلاع سراسر غلط اور تصحیح طلب ہے۔
یہ غلط فہمی بروکلمان سے چلی،ان کی کتاب میں غلطی سے ۱۳۳۳ھ کی جگہ ۱۲۳۳ھ چھپ گیا،۱ بعد والوں کے پاس غالباً اس کی تحقیق کا ذریعہ نہیں تھا، اس لئے انہوںنے اس کو جوں کا توں نقل کردیا، علامہ فواد سزگین کے یہاں بھی یہی ہوا۲ اور وہیں سے یہ غلطی ڈاکٹر احمد خاں کے یہاں آئی ہے۔۳ ڈاکٹر احمد خاں صاحب نے، اس کے ساتھ مطبع مجتبائی کا اضافہ کرکے ،غلط فہمی میں کچھ اور اضافہ کردیا ۔ وجوہات عرض ہیں۔
l دہلی سے کسی بھی کتاب ،خصوصاً سنن ابن ماجہ جیسی بڑی کتاب کی طباعت، ۱۲۳۳ھ میں ممکن ہی نہیں تھی، کیوںکہ اس وقت تک دہلی ، بلکہ شمالی ہندوستان میں کہیں پر یس نہیں آیاتھا، دہلی میں ۱۲۳۳ھ یا [۱۸۱۸ء] میں کسی طباعتی سرگرمی کی ، کسی بھی زبان میں ہو، کوئی اطلاع نہیں ہے۔
l کتاب یا اخبارات ورسائل کی طباعت تو دور کی بات ہے، اس وقت تک دہلی سے کوئی سرکاری رپورٹ بھی نہیں چھپتی تھی، اس دوران جو سرکاری رپورٹیں یا کوئی انگریزی کتاب چھپی، وہ کلکتہ یا بنگال کے کسی اور شہر ،یالندن کی مطبوعہ ہے۔ دہلی میں [۱۸۱۸ء]میں کسی طباعتی سرگرمی اور پریس کا اب تک تذکرہ نہیں ملا۔دہلی میں پہلا پریس تقریباً ۱۸۴۰ء [۱۲۵۶ھ
میں] یا اس کے قریب آیاتھا، دینیات یا اردو کتابوں کی پہلی اشاعت، مطبع مولوی محمد حیات کی ہے، اس کے بعد قلعۂ معلی [لا ل قلعہ میں] سلطانی پریس قائم ہوا، اس کے بعد مولانا وجیہ الدین احمد سہارنپوری کا مطبع احمدی [جس کو بعد میں حضرت مولانا احمد
علی محدث نے خرید لیا تھا] وجود میں آیاتھا۔
اس کی اس سے بھی تصدیق ہوتی ہے کہ جب کلکتہ سے مولوی امین الدین احمد نے، جو حضرت شاہ عبدالعزیز [وفات: ۱۲۳۹ھ۔۱۸۲۴ء] اور حضرت سید احمد شہید [شہادت:۱۲۴۵ھ۔۱۸۲۹ء] کے متوسلین اور وابستگان میں سے تھے، حضرت شاہ صاحب کو اطلاع دی، کہ بنگال وکلکتہ میں اس طرح کی کچھ مشینیں آئی ہیں، جن سے کتابوں کے بہت سے نسخے، ایک ساتھ تیار ہوجاتے ہیں[ چھپ جاتے ہیں]تواس پر حضرت شاہ صاحب نے بہت خوشی کا اظہار فرمایاتھا اور حضرت شاہ ولی اللہ کی تصانیف میں سے تین کتابوں: الفوز الکبیر، حجۃ اللّٰہ البالغۃ اور الخیر الکثیر کی طباعت کی کوشش کرنے پر توجہ دلائی تھی، کہ اگر ہوسکے تو ان کتابوں کے چھپوانے کی کوشش کریں۔
اگر ۱۲۳۳ھ میں دہلی میں، طباعت کا کام شروع ہوگیا ہوتا، تو حضرت شاہ صاحب ان سے کیوں فرماتے اور کیوں نہ دہلی میں ان کتابوں کی طباعت کے لئے کوشش فرمالیتے۔ بہرحال اب تک اس بات کی کوئی شہادت نہیں ملی کہ دہلی میں ۱۲۳۳ھ [۱۸۱۷ء] میں پریس آگیا تھا، اس لئے اس اطلاع کی تصدیق مشکل ہے۔
l اگر بالفرض ۱۲۳۳ھ میں سنن ابن ماجہ چھپی تھی، تو دنیا بھر کے اہل علم میں سے کوئی ایک تو اس کے دیکھنے یا اس کی موجود گی کا تذکرہ کرتا او رکوئی فاضل یا محقق، اس کی دید سے ضرور مشرف ہوتا، لیکن اس طرح کی کوئی اطلاع ، جہاں تک میرے ناچیز علم میں ہے ، سامنے نہیں آئی۔
سنہ ۱۲۳۳ھ میں تو بنگال کے ان مرکزی مقامات میں، جہاں سے طباعت کے عمل کا آغاز ہوا، فورٹ ولیم کالج بندرہوگلی، مرشدآباد اور کلکتہ تھے، وہاں بھی طباعت کی ابتدانہیں ہوئی تھی، بڑے پریس یا سامان طباعت وجود میں نہیں آئے تھے، فورٹ ولیم کالج کی غالباً پہلی اشاعت’’رسائل اخوان الصفا‘‘ کے اردو ترجمہ کی طباعت ہے، جو پہلی مرتبہ۱۲۲۵ھ [ ۱۸۱۰ء]میں چھپی تھی۔[اس
اشاعت کا ایک نسخہ ہمارے ذخیرہ میں محفوظ ہے] کلکتہ سے اسلامی، دینی عربی کتابوں کی اشاعت ۱۲۳۰ھ [۱۸۱۵ء] میں شروع ہوئی تھی،جہاں تک مجھے معلو م ہے ، دینی علوم کی سب سے پہلی کتاب، جو برصغیر ہندیا پوری دنیا میں شائع ہوکر، عام ہوئی ،وہ ۱۸۱۵ء کی مطبوعہ سراجی ہے، اس سے پہلے غالباً کوئی بھی دینی متن یا عربی کتاب، برصغیر ہند میں شائع نہیںہوئی۔ کلکتہ سے فقہ، اصول، کلام اور عربی ادب کی متعدد کتابیں مسلسل چھپیں، لیکن مشکوٰۃ المصابیح اور علامہ شیخ عبدالحق کی شرح مشکوٰۃ کے علاوہ، حدیث کی کسی بڑی کتاب کی ۱۲۵۶ھ [۱۸۴۰ء] تک، بنگال کے مطابع سے طباعت کی تصدیق نہیں ہوئی۔ مشکوٰۃ المصابیح بھی بہت بعد میں چھپی تھی، لیکن فقہ حنفی کی بڑی کتابیں ہدایہ، وقایہ ، مختصر وقایہ ، شروحات ہدایہ، درمختار ، فصول عمادی، فتاویٰ حمادیہ ،فتاویٰ عالمگیری وغیرہ مختلف مطابع سے وقتاً فوقتاً چھپتی رہیں۔
ان تمام وجوہات کی وجہ سے بلاتأمل کہاجاسکتاہے کہ ۱۲۳۳ھ میں یا اس کے قریب، دہلی سے سنن ابن ماجہ یا کسی بڑی کتاب کی طباعت کی اطلاع ناقابل قبول اور تمام تاریخی آثار وشواہد کے خلاف ہے۔
سنن نسائی کی طباعت کے بعد، جو حدیث شریف کی مکمل کتاب سب سے پہلے شائع ہوکر سامنے آئی، وہ سنن ترمذی ہے، جس کو حضرت مولانا مملوک العلی کے تعاون سے، حضرت مولانا احمد علی محدث سہارنپوری نے مرتب کیا تھا، اس کی طباعت کا سید اشرف علی کے مطبع اشرف العلوم، دہلی میں، صفر۱۲۶۵ھ[جنوری ۱۸۴۹ء] میں آغاز ہوا تھا، مگر اس مطبع کا سلسلہ طباعت بہت سست تھا، اس لئے اس کی طباعت حضرت مولانا احمدعلی نے ،اپنے مطبع احمدی میں منتقل فرمالی تھی،جو ۱۲۶۶ھ [۱۸۵۰ء] میں مکمل ہوئی، اس طباعت کے تین نسخے میری نظر میں ہیں،مفصل معلومات کے لئے دیکھئے: راقم کی تالیف: استاذ الکل حضرت مولانا مملوک العلی ص:۲۳۸،۲۴۱، [۱۴۳۰ھ۔۲۰۰۹ء]
سنن ترمذی کی طباعت کے ساتھ ہی، حضرت مولانا احمد علی کے مطبع احمدی سے حدیث شریف کی امہات کتب کی طباعت، تصحیح اور تحقیق وتعلیق کے ساتھ شروع ہوگئی تھی، جس سے سنن نسائی کے علاوہ کتب خمسہ چھپیں، جس میں صحیح بخاری کا بے نظیر وبے مثال نسخہ سرفہرست ہے، اس کے بعد ہی ہندوستان میں کتب حدیث کی طباعت کا سلسلہ عام ہوا اور مختلف مطابع سے طرح طرح کی اشاعتیں سامنے آنی شروع ہوگئیں۔ یہاں ایک بات اور قابل ذکر ہے کہ عالم اسلام اور دنیا کے عرب میں طباعت کتب کے سلسلہ کا ہندوستان کے بہت بعد آغاز ہوا اور خصوصاً کتب حدیث، صحاح ستہ وغیرہ تو اس کے تیس پینتیس سال بعد چھپنی شروع ہوئی تھیں۔
l سنن ابن ماجہ کی سب سے پہلی طباعت وہ ہے، جو حضرت شاہ عبدالغنی مجددی، دہلوی[مہاجر مدنی
] کی تصحیح اور حاشیہ [انجاح الحاجہ] سے مزین ہوکر، عمدۃ المطابع دہلی سے باہتمام مولوی محمد حسین ۱۲۷۳ھ [۵۷۔۱۸۵۶ء] میں شائع ہوئی تھی، اس طباعت میں اصل کتاب کے آغاز سے پہلے ایک فاضل صفحہ ہے، جس میں حضرت شاہ عبدالغنی مجددی نے اپنی سنن نسائی کی اجازات اور سندوں کا تذکرہ فرمایاہے،جو یہ ہیں:
(الف)اپنے والد ، شیخ ابوسعید دہلوی سے، جو ۱۲۵۰ھ میں حاصل ہوئی ۔ (ب)شیخ محمد عابد سندھی المدینۃ المنورۃ
سنن ابن ماجہ ایک مرتبہ مولانا فخرالحسن گنگوہی کے حاشیہ مرتب ہوکر،مطبع فاروقی دہلی سے چھپی تھی، اس پر طباعت درج نہیں۔
l مطبع مجتبائی مولوی منشی ممتاز علی صاحب نے میرٹھ میں قائم کیا تھا، اول اول حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی، اسی مطبع میں ملازم تھے۔
سنہ ۱۹۴۷ء تک مطبع مجتبائی ، جامع مسجد دہلی کے، جنوبی دروازہ کے سامنے، گلی سے اندرجاکر جنوب مغرب میں واقع تھا، وہ بڑی حویلی جس میں مطبع مجتبائی تھا، خلیق منزل کے نام سے معروف ہے اور اب بھی موجود ہے۔
l مطبع مجتبائی منشی ممتاز علی صاحب نزہت رقم نے قائم کیاتھا، منشی ممتاز علی جو خط نسخ کے اپنے عہد کے نادرہ کارخطاط اور بہادرشاہ ظفر کے خاص شاگرد تھے، خصوصاً قرآن کریم کی تحریر وتزئین میں بے مثال تھے۔ مطبع مجتبائی کے نام سے دو بڑے اشاعتی ادارے دہلی اور میرٹھ میں قائم کئے تھے، جس میں شائع ہر ایک کتاب، حسن تحریر اور صحت کانمونہ ہوتی تھی۔
l ہندوستان میں قرآن کریم کی اعلیٰ سے اعلیٰ طباعتوں اور بہترین ترجموں کی مختلف انداز اور اعلیٰ معیارات پر طباعت میں قدیم مطبع مجتبائی کا بہت بڑا اور خاص حصہ ہے۔ اس مطبع نے جو قرآن کریم چھاپے، وہ صحت متن ، صحت الفاظ اور حسن کتابت وطباعت میں بے نظیر ہیں، ایک دو نہیں بلکہ مطبع مجتبائی کے چھپے ہوئے تقریباً بیس قرآن کریم میری نظرسے گذرے ہیں، اس کے علاوہ اور بھی ہوںگے اور ان میں سے ہرایک ایسا دیدہ زیب ہے کہ اس کود یکھ کر ، یہی کہنے کو جی چاہتاہے: جا ایں جا است!
اس مطبع نے سنن نسائی کا ایک اہم نسخہ بھی شائع کیا تھا، جس میں مولانا شیخ محمد محدث تھانوی کا حاشیہ تھا، یہ نسخہ جو ۱۳۱۵ھ [ستمبر۱۸۹۸ء] میں شائع ہوا تھا، مطبع مجتبائی کی او رطباعتوں کی طرح، بہت عمدہ اور قابل دید ہے، اس کا ایک نسخہ ہمارے ذخیرہ میں ہے۔
l مطبع مجتبائی کی ایک بڑی شاخ میرٹھ میں بھی قائم ہوگئی تھی، اس نے بھی بڑی بڑی بنیادی اور اہم کتابیں شائع کیں، اس میں بھی حضرت مولانا قاسم نانوتوی نے کام کیا۔
مطبع مجتبائی دہلی کی اہم اور بڑی خاص مطبوعات میں شامی ممتاز ہے،جو بہت عمدہ ، نفیس کاغذ پر بڑے سائز کی پانچ جلدو ں میں چھپی تھی، تحریری صراحت تو نہیں ملی، لیکن اپنے اساتذہ خصوصاً ،مولانا مفتی مظفر حسین صاحب سے سناتھا کہ شامی کے اس نسخہ کی تصحیح بھی، مولانا قاسم صاحب نے فرمائی تھی، اہل علم کا خیال ہے کہ شامی کا یہ نسخہ سب سے زیادہ صحیح ہے۔
بہرحال قدیم مطبع مجتبائی کی طباعت کا ایک بڑا سلسلہ دہلی سے بھی جاری رہا، چند سال بعد مطبع مجتبائی کے مالک منشی ممتاز علی صاحب نے ہندوستان سے ہجرت کرکے حرمین شریفین میں قیام کا ارادہ کرلیاتھا، اس وقت اپنا یہ دارالاشاعت مطبع مجتبائی مولوی عبدالاحد صاحب کو ۱۸۸۶ء میں فروخت کردیا تھا۔منشی جی نے مکہ معظمہ میں بھی مطبع مجتبائی کے نام سے ایک پریس لگایا تھا، مکہ معظمہ کے اس مطبع سے بھی دو تین چھوٹی چھوٹی کتابیں شائع کی تھیں، مگر وہ مطبع دیر تک نہیں چلا۔
مولوی عبدالاحد صاحب نے مطبع مجتبائی خریدلینے کے بعداس پر بڑی توجہ کی اور اس کوتجارتی مرکز سے بڑھا کر بڑا علمی، تصنیفی ادارہ بنادیا تھا، جہاں سے حدیث وتفسیر، فقہ اصول وکلامیات اور بیسیوں موضوعات پر، بہت عمدہ اعلیٰ درجہ کی بے شمارکتابیں ،تصحیح کے اہتمام ، حواشی اور تعلیقات کے ساتھ چھاپیں ،جس میں سے بہت سی کتابیں عصر حاضرتک تصحیح وتنقیح کی مثال بنی ہوئی ہیں۔
مطبع مجتبائی نے اس دور میںبھی، حدیث شریف کی اعلیٰ کتابیں، صحیحین اور سنن نسائی وغیرہ شائع کیں،مگر یہ ۱۳۰۰ھ کے کسی قدر پہلے اور بعد کی بات ہے۔بہرحال مولانا عبدالاحد صاحب کی نگرانی میں، مطبع مجتبائی نے طباعت واشاعت کابہت وسیع اوراعلیٰ درجہ کا کام شروع کیا تھا، جو ۱۹۴۷ء تک جاری رہا۔۱۹۴۷ء میں مولوی عبدالاحد کے اخلاف پاکستان چلے گئے تھے، کراچی میں مطبع مجتبائی کا احیاء کیا ، جو غالباً اب تک کام کررہاہے۔
سنن نسائی کی ایک اور قابل ذکرطباعت وہ ہے ،جس پر مولانا ڈپٹی نذیر احمد صاحب[مشہور مصنف اور ناول نگار] کا عمدہ حاشیہ ہے، اس حاشیہ کی مولانا مفتی کفایت اللہ صاحب نے تکمیل کی تھی، یہ نسخہ بھی سال۱۳۱۵ھ [۱۸۹۸ء] میں مطبع انصاری، دہلی سے چھپاتھا، یہ بھی ہمارے ذخیرہ میں موجودہے۔
l جہاں تک معجم المطبوعات العربیۃ فی شبہ القارۃ الہندیۃ [طبع اول، ریاض]کی بات ہے ، تواس کی اکثر اطلاعات بغیر حوالہ کے یوسف سرکیس سے منقول ہیں،جناب مرتب کی اپنی معلومات کم ہیں اور جو معلومات ہیں، اس میں خصوصاً ۱۸۵۷ء [۱۲۷۳ھ] سے قبل کی اور بنگال کے مطابع کی مطبوعات کا، جو غالباً کئی سو ہیں، بہت کم تذکرہ ہے اور جو تذکرے ہیں، ان میں اغلاط کی کمی نہیںہے، میں اپنی جسارت کی معافی چاہتاہوں، کہ اس کی تقریباً ایک چوتھائی اطلاعات بالکل غلط ہیں، کتابوں، مصنفین،مطابع، سنین طباعت وغیرہ ہر طرح کی غلطیاں خاصی مقدار میں ہیں، مزید یہ کہ اس میں فارسی کتابوں ، اردو ترجموں اور بعض بالکل غیرمتعلق اشاعتوں،کتابوں کے نام بھی آگئے ہیں۔
میںنے تقریباً بیس سال قبل جب سب سے پہلے یہ کتاب دیکھی پڑھی تھی اس وقت اس کی فروگذاشتوں کی مفصل نشان زد کیا تھا، مگر اس کی اشاعت کا خیال نہیں ہوا۔ تاہم اس فہرست پر بہت اعتماد درست نہیں۔ آخر میں طول بیانی کے لئے معذرت خواہ ہوں کہ چھوٹی سی بات کی وضاحت میں کئی صفحے سیاہ ہوئے ،مگر کیا کرتا :
مقطع میں آپڑی تھی ، سخن گسترانہ
بشکریہ
مولانا عبد المتین منیری