علومِ اسلامیہ کی تاریخ کا ایک بے مثال علمی کارنامہ ”الموسوعة الحدیثیة لمرویات الإمام أبی حنیفة“ ۲۰ جلدوں میں

(ذخیرہ حدیث کے باب میں ایک بہترین اضافہ )

مولانا حذیفہ ابن مولانا غلام محمد صاحب وستانوی#

اللہ رب العزت نے قرآن کریم اور دین اسلام کی حفاظت کا وعدہ ﴿انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون﴾کے ذریعہ کیااور اپنے اس وعدہ کو سچ کر دکھایا، اس طور پر کہ شریعت ِمطہرہ کا مدار جن بنیادی نصوص پر ہے وہ دو ہیں ۔ ایک ” قرآن کریم“ اور دوسرا ”احادیثِ نبویہ “اور ان کی روشنی میں اجماع اور قیاس۔ خاص طور پر ان دونوں نصوص کی حفاظت کے لیے اللہ رب العزت نے ایسے انتظامات کیے، جس کی نظیر انسانی تاریخ میں کہیں نہیں ملتی ۔ ہمارے علما نے لکھا ہے کہ قرآن کریم متنِ متین ہے، اللہ نے ہر زاویے سے اس کی حفاظت کی ؛کہیں تجوید کے ذریعہ اس کے تلفظ کی حفاظت کی ،کہیں تفسیر کے ذریعہ اس کے صحیح مفاہیم کی حفاظت کی تو کہیں احادیث کے ذریعہ اس کے معانی اور عملی تفاصیل کی حفاظت کی ۔
تدوین حدیث کا نقطہ آغاز
تدوینِ حدیث کا مبارک سلسلہ دورِ نبوی ہی سے شروع ہوچکا تھا، البتہ دورِتابعین میں اس کو مستقل حیثیت دی گئی۔ اللہ نے پہلے سیدنا حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے ذریعہ قرآن کو جمع کروایا، اس کے بعد حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے ذریعہ رسم الخط کو مجتمع فرمایا اور اس کی متعدد کاپیاں بنواکر عالم اسلام میں اسے پھیلا دیا، اس طرح بغیر کسی شبہِ اختلاط کے قرآنِ کریم محفوظ ہوگیا ۔
اس کے بعد دورِ علی رضی اللہ عنہ سے ”علم الاسناد اور علم اسماء الرجال“ کی بنیاد ڈلوائی؛ تاکہ قرآن کی تفسیر کے ساتھ احادیثِ مبارکہ کا ذخیرہ بھی خوب اچھی طرح محفوظ ہوجائے۔
تدوین حدیث کے باریے میں مستشرقین کی غلط بیانی
مستشرقین نے یہ شوشہ چھوڑا کہ احادیث کی تدوین بہت زمانے کے بعد عمل میں آئی اور اس کے دیکھا دیکھی نام نہاد مسلمان منکرینِ حدیث بھی اسے لے اڑے ، جب کہ محقق دوراں علامہ حمید اللہ مرحوم نے لکھا ہے کہ :
” عہدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہی میں صحابہٴ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کے ہاتھوں تدوین حدیث کے متعدد واقعات ملتے ہیں ،مثلاً: عبد اللہ بن عمروابن عاص ، حضرت ابو رافع ،خادم رسول حضرت انس اورایک انصاری صحابی جو آپ کی مجلس ہی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین قلمبند کرتے تھے ۔ اس کے بعد عہدِ صحابہ میں عام تدوین عمل میں آئی ۔ “(دنیا کا قدیم ترین مجموعہ احادیث صحیفہ ہمام ابن منبہ ص ۳۸-۳۹ سے مستفاد )
تدوین حدیث کی تاخیر میں حکمت الہی
یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر قرآن کی طرح احادیث کی باقاعدہ تدوین دور نبوی اور دورِ ابی بکری وعمری میں کیوں نہیں عمل میں آئی ؟ تو اس کا بہترین جواب بقیة السلف والخلف، محققِ کبیر، محدثِ دوراں حضرت مولانا مفتی سعید صاحب پالنپوری مد ظلہ العالی نے دیا ہے :
”قرآن لوگوں کے گھروں میں محفوظ تھا۔اور متفرق چیزوں میں لکھا ہوا تھا۔اور اس لکھے ہوئے کی آئندہ ضرورت بھی پڑنے والی تھی ،پس اگر لوگوں کے گھروں میں حدیثیں بھی لکھی ہوئی ہوں گی تو قرآن کے ساتھ اشتباہ کا اندیشہ تھا۔
البتہ ایسا نہیں ہے کہ دور نبوی میں احادیث بالکل ہی نہیں لکھی گئی ۔ ” لکھی گئیں اور مخصوص لوگوں کو لکھنے کی اجازت بھی دی ، اس سے کتابت حدیث کا جواز ثابت ہوا ۔ جیسے ایک رمضان میں دویا تین راتیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تراویح جماعت سے پڑھائی ، پھر فرضیت کے اندیشہ سے بند کردی ، مگر اتنے عمل سے جواز ثابت ہوگیا ، چناں چہ جب فرضیت کا اندیشہ نہ رہا تو فاروقِ اعظم نے اس کا باقاعدہ نظام بنادیا ؛ اسی طرح جب ضرورت پیش آئی تو حدیثیں مدون کی گئیں ، کیوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فی الجملہ حدیثیں لکھوائی بھی تھیں اور اس کی اجازت بھی مرحمت فرمائی تھی ۔“ (تحفة الالمعی:۶۶)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حدیثیں جمع کرنے کا ارادہ کیا مگر اشارہ نہ پایا :
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے زمانہٴ خلافت میں احادیث کو جمع کرنے کاارادہ فرمایا تھا ۔ حضرت ہی کو سب سے پہلے قرآن جمع کرنے کا خیال بھی آیا تھا اور ان کے مشورہ سے قرآن جمع کیا گیا تھا یعنی سرکاری ریکارڈ میں لیا گیا تھا ۔ یہی ارادہ آپ کا حدیثوں کو سرکاری ریکارڈ میں لینے کا بھی تھا ، چناں چہ آپ نے مشورہ کے لیے صحابہ کو اکٹھا کیا اور فرمایا کہ میرے دل میں یہ بات آتی ہے کہ حدیثیں لکھ لی جائیں۔ سب نے مشورہ دیا : مبارک خیال ہے ایسا ضرور کرلیا جائے ، مگر آپ کو شرحِ صدر نہ ہوا تو آپ نے استخارہ شروع کیا ، ایک ماہ مسلسل استخارہ کرنے پر شرح صدر ہوگیا کہ حدیثوں کو مدون نہ کیا جائے ، چناں چہ آپ نے پھر صحابہ کو جمع کیا اور فرمایا کہ ” مجھے یاد آگیا کہ گزشتہ امتوں نے جو اللہ کی کتابیں ضائع کردیں، تو اس کی وجہ یہ ہوئی تھی کہ انہوں نے اپنے پیغمبروں کی باتیں بھی لکھ لی تھیں ، وہ ان میں ایسے مشغول ہوگئے کہ اللہ کی کتابوں سے ان کی توجہ ہٹ گئی اور جب ان کا اہتمام نہ رہا تو وہ ضائع ہوگئیں، پس بخدا! میں اللہ کی کتاب کے ساتھ کسی چیز کو نہ رلاوٴں گا ! “ (تحفة الالمعی:۶۶-۶۷)
بہر حال حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی یہ احتیاط اس لیے تھی کہ لوگ قرآن میں مشغول رہیں ، چناں چہ حفظِ قرآن کا مسلمانوں میں ایسا رواج ہوگیا کہ دن بدن بڑھتا ہی جارہا ہے اور اس کی نظیر یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں یہ حکم نافذ کیا تھا کہ کوئی شخص حج کے ساتھ عمرہ نہ کرے ۔ عمرہ کے لیے مستقل سفر کر کے آئے ، چنا ں چہ سال بھر کعبہ شریف آباد ہوگیا ۔ اور دن بدن عمرہ کرنے والوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے ۔
اورحضرت عمر رضی اللہ عنہ کے استخارہ میں جو تدوین حدیث نہیں آئی، اس کی وجہ یہ ہے کہ جس طرح قرآن کی حفاظت کی ذمہ داری عام مسلمانوں کی ہے ، حکومت ہی کی یہ ذمہ داری نہیں ہے۔ اسی طرح حدیثوں کی حفاظت کی ذمہ داری بھی عام مسلمانوں کی ہے ۔ اگر حدیثیں جمع کرلی جاتیں یعنی سرکاری ریکارڈ میں لے لی جاتیں تو عام مسلمانوں کی توجہ اس سے ہٹ جاتی اور حدیثوں کے ضائع ہونے کا امکان پیدا ہوجاتا ۔ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے صحابہ کرام کے سامنے جوبات فرمائی تھی کہ پچھلی امتوں نے اللہ کی کتابوں کو اس طرح ضائع کیا : اس کی تفصیل یہ ہے کہ محبت کی دو قسمیں ہیں : عقلی اور طبعی ۔ عقلی محبت : معنویات سے اور غائب سے ہوتی ہے ۔ اور طبعی محبت اپنی ذات اوربیوی بچوں سے ہوتی ہے اور وہ ظاہر احوال میں غالب نظر آتی ہے ۔ (تحفة الالمعی:۶۷-۶۸)
اسی طرح اس مسئلہ کو بھی سمجھنا چاہیے کہ مومن کو اللہ اور اللہ کی کتاب سے جو محبت ہے وہ عقلی ہے اور صحابہ کو جو اپنے نبی اور اس کی باتوں سے تعلق ہے وہ طبعی ہے ، چناں چہ گزشتہ امتوں نے اللہ کی کتابوں کے ساتھ اپنے انبیا کی باتیں بھی لکھ لیں تو ان کے صحابہ فطری محبت کی وجہ سے ان کی باتوں میں ایسے منہمک ہوگئے کہ اللہ کی کتابوں کا اہتمام باقی نہ رہا ، چناں چہ وہ ضائع ہوگئیں۔ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثیں بھی دور صحابہ میں اور عہد فاروقی میں جمع کرلی جاتیں، تو اندیشہ تھا کہ صحابہ اس میں قرآن سے زیادہ مشغول ہوجاتے ، اس لیے عہد صحابہ تک حدیث مدون نہیں ہونے دی گئیں، عہد صحابہ کے بعد اس کی تدوین ہوئی ، کیوں کہ تابعین کے لیے اللہ اور اللہ کے رسول دونوں غیب ہیں، اورقرآن وحدیث دونوں معنویات ہیں ۔ پس دونوں سے محبت عقلی ہوگی اور عقلی محبت اللہ کی اور اس اللہ کی کتاب کی قوی تر ہے اللہ کے رسول اور ان کی حدیثوں کی محبت سے اس لیے وہ خطرہ اب باقی نہ رہا ۔ (تحفة الالمعی:۶۸)
جمع حدیث کے متعدد مراحل :
حضرت مولانا سعید صاحب نے ایک اور بڑی معقول بات لکھی ہے کہ پہلے دور میں علاقائی حدیثیں جمع ہوئیں مثلاً مدینہ ، بصرہ ، کوفہ ، شام اوریمن ۔ ہرعلاقے کے محدثیں نے اپنے علاقے کے مشاہیرکی حدیثیں جمع کرلی اودوسرے دور میں جوامع لکھی گئی ۔ دوسری صدی کے نصف ثانی میں جیسے جامع سفیان ثوری ، مصنف عبد الرزاق ،مصنف ابن ابی شیبہ ۔ اس کے بعد تیسرے دور میں احادیث صحیحہ کے مجموعے تیار کیے گئے ۔ اس طرح تیسری صدی تک تدوین حدیث کا کام مکمل ہوگیا ۔ اس کے بعد جو کچھ احادیث بچ گئی تھیں امام طبرانی ، امام بیہقی وغیرہ نے اسے بھی چوتھی صدی تک مکمل کرلیا ، گویا اب کتاب و سنت اور اس سے متعلق تمام علومِ عربیہ و اسلامیہ مدون ہوگئے ۔ وللہ الحمد علی ذالک!
خلاصہ یہ ہے کہ صحابہ  کی اولاد اور تلامذہ یعنی تابعین نے احادیث کو قلمبند کرنا شروع کیا ۔ کسی نے ”صحیفہ صادقہ“ اپنے والد اور دادا کی احادیث سے حدیث بیان کی ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے شاگرد ہمام ابن منبہ نے ”صحیفہٴ ہمام“ کی صورت میں احادیث کو محفوظ رکھنے کی کوشش کی ۔ اس کے بعد حضرت عمر بن عبد العزیز نے باقاعدہ اسے جمع کرنے کا بعض محدثین کو مکلف کیا ،جو علامہ حمید اللہ کی کاوش سے نشر بھی ہوا ۔ قرنِ اول کے اختتام تک قرآن و حدیث مکمل طور پر محفوظ کرلیے گئے ،اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے مزید اپنے فضل سے قرآنی تعلیمات کی عملی صورت کو کما حقہ محفوظ رکھنے کے لیے بے شمار ائمہٴ فقہ کو کھڑا کیا، جن میں سے چار کو مقبولیت عامہ حاصل ہوئی ، جن کے پیشِ نظر مکمل قرآنی وحدیثی علوم تھے ؛ لہٰذا اصولِ فقہ اور فقہ کو دوسری صدی کے علما نے مدون کیا ۔
بہر کیف احادیث صحیحہ کو کتابی شکل دینے کا کام اللہ نے دوسری صدی کے اواخر کے محدثین کے ذریعہ کیا ، جن میں ابن ابی شیبہ، عبدالرزاق ، امام احمد وغیرہ پیش پیش تھے ۔ اور تیسری صدی میں تویہ کام اپنے عروج کو پہنچ گیا اور بے شمار محدثین نے احادیث صحیحہ کے نسخے تیار کیے؛ جن میں سے صحاح ستہ کو مقبولیتِ عامہ حاصل ہوئی ۔ غرض یہ کہ اسلامی اور عربی علوم پر خدمت کا کام مسلسل چودہ صدیوں سے جاری و ساری ہے بل کہ مرورِ زمانہ کے ساتھ اس میں ندرت آتی رہتی ہے ۔
علم الاسناد اور علم اصول فقہ اہم ترین:
ڈاکٹر محمود احمد غازی مرحوم نے بڑی قیمتی بات ارشاد فرمائی کہ اللہ نے علمِ اصول فقہ کے ذریعہ اسلام میں عقلی راستے سے آنے والے فتنوں اور گمراہیوں پر روک لگوادی کہ عقلی طور پر اتنے دائرے تک جاسکتے ہیں اور علم الاسناد والرجال کے ذریعہ نقل کے راستے سے آنے والی گمراہیوں پر روک لگائی ؛ لہٰذا اسلام میں نہ عقل کے راستے سے گمراہی آنے کا امکان باقی رہا اور نہ نقل کے راستے سے ، اسلامی تعلیمات میں اب کہیں سے گمراہی داخل نہیں ہوسکتی ۔ اور ہو ئی بھی تو علما‘ اصولِ صحیحہ کی روشنی میں اس کا رد کردیں گے ۔الحمد للہ اسلام میں نہ عقل کے راستے سے گمراہی آنے کا امکان باقی رہااور نہ نقل کے راستے سے۔
آخری سوسال میں احادیث نبویہ کی عظیم خدمت :
انیسویں صدی میں انکارِ حدیث کے فتنے نے سراٹھایا ،توعلمائے حق میدان میں آئے اور الحمد للہ! جم کر حدیث کی خدمت کا بیڑا اٹھایا۔بس پھر کیا تھا نئے نئے پہلووٴں سے علم ِحدیث پر جو کام ہوا اور ہورہا ہے وہ بے مثال ہے ۔ الحمدللہ حق کو جتنا دبانے کی کوشش کی گئی اتناہی ابھر ا، اس پر علما نے مزید نکھار پیدا کرنے کی کوشش کی اوریہ سلسلہ ہنوز جاری ہے ۔ مولانا سمیع اللہ صاحب سعدی نے ” دور جدید کا حدیثی ذخیرہ ایک تعارفی جائزہ “ کے عنوان سے تفصیلی مقالہ لکھا ہے جو ” الشریعہ“ گوجرانوالہ میں ۷/ قسطوں میں اگست ۲۰۱۷ء سے فروری ۲۰۱۸ء شائع ہوا ، جو قابل مطالعہ ہے ۔(الشریعہ کی ویب سائٹ پر دست یاب ہے www.alsharia.org) حدیث سے شغف رکھنے والوں کو ضرور اس کا مطالعہ کرنا چاہیے ، جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ ” علم حدیث کی تاریخ میں دور جدید بعض وجوہ سے نہایت اہمیت کا حامل ہے ، کیوں کہ امت مسلمہ کے دور زوال میں علم حدیث مسلم اور غیر مسلم مفکرین کی توجہ کا مرکز رہا ہے “۔ اس کے بعد لکھا کہ ” دورجدید میں علم حدیث پر ہونے والے کام کے اہم جہات تین ہیں : (۱) ذخائر احادیث (۲) تاریخ حدیث (۳) علو م الحدیث۔ اور پھرہر جہت کے تحت دسیوں اقسام کو ذکر کی ہے ۔
اس مقالہ کی پانچویں قسط میں آپ نے لکھا ہے کہ اس دور میں حدیث پر ہونے والے کام میں ایک بڑا ذخیرہ احادیث پرموسوعة انسائیکلو پیڈیاکی شکل میں ہوا ہے ۔ زیر تعارف کتاب اسی قبیل سے ہے ۔
امام اعظم قلیل الحدیث نہیں ہوسکتے:
یہ بات مُسلَّم ہے کہ ہر ”فقیہ“ محدث، مفسر اور ادیب ہوتا ہے تو ہی و ہ اجتہاد کا ملکہ حاصل کرسکتا ہے ۔ امام اعظم ابو حنیفہ رحمة اللہ علیہ متفقہ طور پر امت کے عظیم امام فقہ ہے، مگر افسوس کہ بعض حضرات ان پر قلیل الحدیث ہونے کی تہمت لگاتے ہیں، جو کہ نہ عقلاً درست ہے اور نہ شرعاً ، اس لیے کہ جب ذخیرہ ٴاحادیث پر نظر نہیں ہوگی تو اجتہاد کیسے کرسکتے ہیں!!!
شرعی اعتبار سے بھی اہلیت کے لیے عربی اور اسلامی علوم پر دسترس ضروری ہے ۔ تو ایک طرف آپ کو امام اعظم کہا جائے اور دوسری طرف انہیں قلیل الحدیث کہا جائے کسی صورت میں درست نہیں ہوسکتا ۔
امام صاحب کی روایتیں صحاح ستہ میں کیوں نہیں ؟
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امام صاحب کی روایتیں احادیث صحاح ستہ میں کیوں نہیں ہے ؟!! تو اس کا جواب یہ ہے کہ امام صاحب کے دور میں کتب ِاحادیث صحیحہ کا بالکل ابتدائی دور تھا، بل کہ آپ کے بعد اس کا دورشروع ہوا، لہٰذا آپ کی احادیث مشہور کتابوں میں کم نظر آتی ہیں ایک وجہ یہ بھی بیان کی جاتی ہے صحاح ستہ کے جامعین ایسی روایات کو جمع کرنے زیادہ التزام کیا جن کو مشاہیر کے تلامذہ نے جمع نہ کیا ہو اس لیے کہ ان کو تو ان ائمہ کے شاگردوں جمع کر ہی لیا تھا اسی لیے امام مسلم نے امام شافعی کی مرویات نہیں لی امام بخاری نے بھی تعلیقا لی ہے اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ حدیث کی دیگر کتابوںآ پ کا تذکرہ اور مرویات بکثرت موجود ہے تب ہی تو مولانا لطیف الرحمن صاحب کے لیے سند کے ساتھ اس موسوعة میں تقریبا گیارہ ہزار احادیث کا جمع کرنا ممکن ہوسکا !!!!
بلکہ محقق علم حدیث مولانا عبدالرشید نعمانی رحمہ اللہ نے ماتمس الیہ الحاجہ میں لکھا ہے کتاب الاثار اول ماصنف من الصیحح جمع فیہ الامام الاعظم صحاح السنن و مزجہ باقوال الصحابة و التابعین وقد تبعہ الامام مالک فی موٴطئہ و سفیان الثوری فی جامعہ وعلیہ بنی کل من جاء بعدہ ( ماتمس الیہ الحاجہ۱۸) امام صاحب کا شمارصرف محدث ہی کی حیثیت سے نہیں ہوتا ہے بلکہ امام جرح و تعدیل اور علم مصطلح الحدیث میں بھی آپ کے قول کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے جیسا کہ ملا علی قاری رحمہ اللہ نے شرح مسند ابی حنیفہ میں امام ذھبی کے حوالے سے نقل کیا ہے وابو حنیفة ممن تذکاآراء ہ فی مصطلح الحدیث وفی قواعد الحدیث ورجالہ حتی عدہ الذہبی فی تذکرتہ التی ہی ثبت الحفاظ(شرح مسند ابی حنیفہ۷)
دوسرا امام صاحب پر فقہی رنگ غالب تھا ، لہٰذا آپ اسی سے مشہور ہوگئے ؛ورنہ امام صاحب کے عالم بالحدیث ہونے کے بارے میں کیسے شک کیا جا سکتا ہے؛ جب کہ آپ کی دسیوں ہزار احادیث کتابوں میں اب بھی موجود ہیں ۔امام ابویو سف فرماتے ہیں کہ مارأیت احداً اعلم بتفسیر الحدیث ومواضع النکت التی فیہ من ابی احنیفة وکان ابصر بالحدیث الصحیح منی ۔ احادیث کی تفسیر کے بارے میں میں نے امام صاحب سے زیادہ ماہر کسی کو نہیں پایا اور امام صاحب مجھ سے زیادہ احادیث صحیحہ سے واقف تھے ۔اسی لیے بہت سارے بعد میں آنے والوں کے لیے آپ کی مسانید لکھنا آسان ہوا اور اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ مندرجہ ذیل محدثین نے یہ خدمت انجام دی ہے۔
۱- امام حارثی
۲-حافظ ابن ابی العوام
۳-حافظ ابن خسرو
۴-حافظ ابن المقری
۵-الامام الثعالبی
۶-حافظ ابو نعیم
۷-حافظ ابن عدی
۸- الامام ابو یوسف
۹-الإمام محمد الشیبانی وغیرہ
امام صاحب کی مرویات کو جمع کرنے کی علما کی تمنا اور آرزو:
مذکورہ علما ئے محدثین نے امام صاحب کی احادیث کو اپنے اپنے طور پر جمع کیا ، مگر ضرورت تھی ایک انسائیکلو پیڈیائی انداز میں امام صاحب کی احادیث کو جمع کرنے کی جس سے دو فائدے ہوں ، ایک تو امام صاحب پر جو بہتان ہے قلیل الحدیث ہونے کا وہ علمی انداز میں زائل ہو۔ اور دوسرا اسی بہانے امام صاحب کی منتشر دسیوں ہزار احادیث ایک جگہ جمع ہوجائے؛ تاکہ طاعنین اور حاسدین کی زبان بند ہوجائے۔ ویسے تو امام صاحب کے تلامذہ ہی سے اس کام کا آغاز ہوگیا تھا ، البتہ ہمارے آخری دور میں سلفیت کے دعوے داروں نے کچھ زیادہ ہی سر اٹھایا اور بہتان سے تمسخر تک پہنچ گئے ، تو پچھلے تقریباً سوسال سے علمائے احناف یہ تمنا کررہے تھے کہ اب تو یہ کام کسی بھی صورت میں ہونا چاہیے ۔ علامہ عبد الحی فرنگی محلی نور اللہ مرقدہ نے خاص طور پر اس جانب توجہ دلائی تھی اور اپنی کتاب ” تذکرة الراشد “ میں لکھا : ” اگر کوئی مصنف امام صاحب کے تلامذہ اور آپ کے قریبی دور میں لکھی گئی حدیث کی کتابوں پر نظر کرے، تو امام صاحب کی سیکڑوں نہیں بل کہ ہزاروں احادیث پائے گا ،جس کو آپ نے اپنے اساتذہ سے روایت کی ہیں ۔(مقدمة موسوعة لمرویات الامام ابی حنیفة)
علامہ ظفر احمد عثمانی نے بھی تحریر کیا کہ ” اگر امام صاحب کی منتشر احادیث کو جمع کیا جائے تو حدیث کی ضخیم کتاب وجود میں آسکتی ہے ۔
(مقدمہ اعلاء السنن )
مفتی مہدی حسن صاحب شاہ جہاں پوری نے تحریر کیا ،جو لوگ امام صاحب کی طرف صرف ۱۷/ احادیث کی نسبت کرتے ہیں وہ سراسر غلط ہے ، اس لیے کہ آپ کے تلامذہ ہی کی کتابوں میں سیکڑوں احادیث موجود ہیں اور حدیث کی دیگر کتابوں میں جوہیں وہ مستزاد ۔ (مقدمةقلائد الازہار)
مفتی فخر الدین الغلائی نے ”سعی السلام مجمع احادیث ابی حنیفة الإمام “ کے مقدمہ میں لکھا ہے کہ امام زاہد الکوثری نے کوشش کی کہ امام صاحب کی احادیث یکجا کی جائے ، مگروہ نہیں کرسکے بل کہ امام جلال الدین السیوطی نے بھی ” تبییض الصحیفہ “ میں تمنا ظاہر کی کہ میں امام صاحب کی احادیث کو جمع کروں گا ، مگر شاید وہ نہیں کرسکے۔
اسی طرح علامہ ابو الوفاء الأفغانی نے بھی کوشش کی مگر نہ ہوسکا ، اس کے بعد انہوں نے مولانا عبد الرشید النعمانی کو یہ کام سپرد کیا ، مولانانے کام شروع کیا مگر مکمل نہ کرسکے ۔ اس طرح یہ کام قرض کے طور پر علمائے احناف کے ذمہ باقی رہا ، یہاں تک کہ اللہ رب العزت نے اس عظیم کام کو محدثِ عصر( تلمیذ محدث کبیر علامہ حبیب الرحمن الاعظمی) مولانا لطیف الرحمن صاحب بہرائچی دامت برکاتہم کے مقدر میں لکھ دیا اور الحمد للہ طویل جد و جہد کے بعد اب یہ کام مکمل ہوچکا ہے ، بس اب یہ طباعت کے مرحلہ میں ہے ۔ کام کی تفصیل کچھ یوں ہے :
موسوعہ کے مرتب اور جامع مولانا لطیف الرحمن صاحب بہرائچی دامت برکاتہم کا تعارف :
حضرت مولانا لطیف الرحمن صاحب قاسمی# در اصل ہمارے آخری دور کے بزرگوں کے منظور نظر رہے ہیں، حضرت نے اپنی عالمیت کی ابتدائی تعلیم جامعہ ہتھورہ باندہ سے حاصل کی ،جہاں عارف باللہ حضرت قاری صدیق صاحب باندوی نور اللہ مرقدہ کے آپ خاص توجہ کے مرکز رہے ۔ اس کے بعد دارالعلوم سے آپ نے دورہ ٴحدیث شریف کیا ۔ آپ کی صلاحیت اور صالحیت کی وجہ سے آپ اپنے اساتذہ کی توجہ اپنے جانب مرکوز کرنے میں کامیاب ہوئے۔اس کے بعد جب علم حدیث سے آپ کو شغف زیادہ ہوا تو آپ نے محدث کبیرحضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب اعظمی نور اللہ مرقدہ سے استفادہ کیا۔ حضرت نے بھانپ لیا کہ یہ بندہ کام کا بنے گا ، لہٰذا آپ پر خاص توجہ دی اوراس طرح آپ کو علم حدیث اورمخطوطات کی تحقیق میں درک حاصل ہوگیا ۔ اللہ تعالیٰ کسی کی محنت کو ضائع نہیں کرتے ، اللہ نے آپ کو آج سے تقریباً ۳۰/ سال قبل مکہ پہنچادیا اور آپ کا تعلق پیر طریقت حضرت مولانا عبدالحفیظ مکی نور اللہ مرقدہ سے ہوگیا ، بس پھر کیاتھا اللہ نے آپ سے وہ کام لیا، جس کی عصر حاضر میں امت محمدیہ کو ضرورت تھی اوروہ یہ ہے :
” الموسوعة الحدیثیة لمرویات الامام ابی حنیفة “
در اصل آپ جامع شریعت وطریقت ہیں ، ہمارے متعدد بزرگوں سے آپ کواجازت خلافت حاصل ہے ۔ بندے کا حضرت سے تعلق کافی پرانا ہے ، بل کہ آپ کا عارف باللہ قاری صدیق صاحب باندوی  کی مناسبت سے والد صاحب سے بھی گہراربط رہا ہے ۔ بندے نے سالِ گزشتہ جب آپ ہمارے برادرِ کبیر مولانا سعید صاحب رحمة اللہ علیہ کے انتقال کے بعد تشریف لائے ،تو کہا کہ حضرت ہم الاستاذ الزائر کا سلسلہ شروع کرنا چاہتے ہیں، جس کا آغاز آپ سے کرتے ہیں ۔ حضرت نے وعدہ کیا اور شوال کے اخیرمیں تشریف لائے تو دورہٴ حدیث شریف میں ” امام ابو حنیفہ اور علم حدیث “ کے عنوان سے آپ کا محاضرہ رکھا ،جو الحمد للہ انتہائی مفید رہا ، جس میں آپ نے ”الموسوعة الحدیثیة لمرویات الامام ابی حنیفة “کا تذکرہ کیا تو بندے نے مناسب جانا کہ اس کا تعارف آنا چاہیے۔
موسوعہ پر کام کی نوعیت:
آپ نے اپنی تالیف کے مقدمہ میں اپنے کام کی نوعیت اس طرح بیان کی کہ امام صاحب رحمہ اللہ کی مرویات پر جو کام شروع کیاگیا تھا ،یہ اس سلسلہ کی پندرہویں کتاب ہے ۔ اس سے قبل جو مسانید پر تحقیق کا کام ہوا ہم اس کے مقدمہ میں یہ وعدہ کرتے چلے آئے ہیں کہ امام صاحب کی مسانید کی تحقیق در اصل آپ کی مرویات کے انسائیکلوپیڈیا کے پیش خیمہ کے طور پرہے ۔ ان شاء اللہ اپنے باب میں ایک خاص اضافہ کی حیثیت رکھے گا اوربعد میں آنے والوں کے لیے امام صاحب کی مرویات کے باب میں اہم مصدر اور مرجع بنے گا ؛ جس میں بندے نے احادیث کی تمام کتابوں کو کھنگالاہے،خواہ وہ مسانید ہوں یا سنن یاصحاح یاجوامع یا مصنفات یا مستدرکات یا معاجم یا اجزاء یا مشکل آثار یا کتب الزوائد یاکتب اطراف وغرائب یا کتب رجال یا تاریخ یا طبقات وتراجم وغیرہ ۔ غرض یہ کہ قرون اولی اور اس کے بعد احادیث پر جو بھی اور جس نوعیت کابھی کام ہوا ہو اس سے مکمل استفادہ کرکے امام صاحب کی مرویات کو وہاں سے ایک جگہ جمع کیا جائے گا ۔دونوں کاموں کی جلدوں کی مجموعی تعداد ۴۰/ سے متجاوز ہوگی ۔
علم حدیث کے باب میں ایک بے مثال اضافہ:
گویا امام صاحب کی مرویات کا اتنا عظیم ذخیرہ پہلی بار یکجا جمع ہوکر زیور طباعت سے آراستہ ہونے جارہا ہے ۔ اللہ اسے اس کے شایان شان طبع ہونے کے اسباب مہیا فرمائے ۔آمین !جب کہ یہ تو محض مرویات کا وہ حصہ ہے جو موجودہ مطبوعات اور مخطوطات میں ہے ، البتہ امالی ابو یوسف میں احادیث بکثرت تھی ، لیکن اس کا ایک معنی قلمی نسخہ تھا جومصر کے سفر میں علامہ کوثری کے ساتھ تھا وہ سمندر کی نذر ہوگیا ۔
موسوعہ کے محرک :
آپ نے مقدمہ میں تحریر کیا کہ در اصل علامہ عبد الرشید نعمانی نور اللہ مرقدہ نے آج سے تقریباً ۲۵/ سال قبل مکہ مکرمہ (زادہا اللّٰہ شرفا وکرماً )میں ایک ملاقات کے دوران یہ خواہش ظاہر کی تھی کہ امام صاحب کی مرویات کو جمع کرنا چاہیے۔احیاء المعارف النعمانیہ حیدر آباد نے علامہ زاہد کوثری اورڈاکٹر حمید اللہ وغیرہ کو شامل کر کے اس کے لیے مسانید جمع کرنا شروع کیا اور کئی شیوخ کے نسخے جمع بھی کرلیے ، مگر اس وقت یہ کام کسی وجہ سے نہیں ہوسکا تھا ، البتہ مولانا لطیف الرحمن صاحب کے بیان کے مطابق احیاء المعارف النعمانیہ کے ذمہ داروں نے اس کام میں بھر پور تعاون کیا اور جو بھی مسانید کے نسخے ان کے پاس تھے سب فراخ دلی کے ساتھ استفادہ کے لیے مرحمت فرمائے ، جس پر میں ان کا بے حد ممنون ہوں ۔
کام کو دو مرحلوں میں انجام دیا گیا :
مولانا لطیف الرحمن صاحب بہرائچی دامت برکاتہم تحریر فرماتے ہیں کہ در اصل میں نے اس کام کو دو مرحلوں میں تقسیم کیا ۔
مرحلہ اولیٰ : پہلے مرحلے میں امام صاحب کی تمام مسانید پر تحقیق کرکے اس کی طباعت کے لیے تیار کیا، جس کے لیے آپ نے دنیا بھرکے کتب خانوں کی خاک چھانی، خاص طور پر ہندستان ، پاکستان ،مصر، ترکی، روس ، انڈونیشیااورسعودی وغیرہ جاکر مخطوطات کی فہرست کو کھنگالا اوراس فن کے ماہرین سے رابطہ کرکے استفادہ کیا ، جس کے نتیجے میں متعدد مسانید اور متعدد معبتر ترین نسخے ہاتھ لگے ، خاص طور پر(۱)مسند حارثی (۲) فضائل الامام ابی حنیفہ لابن ابی العوام (۳) مسند ابی حنیفہ لابن خسرو اور ان تینوں کی طباعت بھی الحمد للہ عمل میں آئی ۔ان کے ایسے نسخے حاصل کیے جو جامعین کے دور کے بالکل قریب ہو۔ اور اس کے علاوہ بھی امام صاحب کی مندرجہ ذیل دیگر مسانید پر تحقیق کا کام مکمل ہوچکا ہے۔
۱-المسند لابن المقری ․
۲-المسند للثعالبی ․
۳-المسند لابی نعیم ․
۴-کشف الاثار الشریفة للحارثی․
۵-جامع المسانید للخوارزمی․
۶-الآثار لابی یوسف․
۷-الآثار للإمام محمد بن الحسن الشیبانی․
مرحلہ ثانیہ : دوسرے مرحلے میں تمام کتب حدیث اور اس کے متعلقات کتب سے امام صاحب کی مرویات کو جمع کرنے کا کام کیا گیا۔
الحمدللہ ۱۵/ سالہ اس جہد مسلسل کے بعد تقریباً ۱۰۴/ کتابوں سے امام صاحب کی ۱۰۶۱۳/ (دس ہزار چھ سو تیرہ )مرویات جمع ہوگئیں ہیں۔
محدثین احناف پر جو قرض تھا گویا ادا ہوگیا :
اس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ اللہ رب العزت نے مولانا لطیف الرحمن صاحب سے ایک عظیم علمی خدمت لی ہے ، اللہ اسے شرف قبولیت سے نوازے ۔ علمائے احناف پر امام صاحب کا ایک قرض تھا گویا وہ ادا ہوگیا ۔ مولانا نے اپنی کتاب کے مقدمہ میں اشارہ کیاہے کہ امام صاحب کے تلامذہ اور متبعین نے آپ کی مرویات پر کافی کام کیا ہے ، مگر افسوس کہ اس میں سے اکثر دنیا کے مختلف کتب خانوں میں مخطوطات کی صورت میں موجود ہیں اور مولانا ان میں الاہم فالاہم کی رعایت کرتے ہوئے اسے تحقیق کرکے شائع کرنے کے لیے تیار کررہے ہیں ۔اور بہت سارا ذخیرہ عالم اسلام پر مختلف زمانوں میں ہوئی یلغار کے نتیجہ میں ضائع ہوگیا ۔
امام صاحب کے پاس پانچ لاکھ احادیث کا ذخیرہ تھا :
ورنہ امام صاحب نے خود ایک موقعہ پر کہا ہے کہ” أن تعمل بخمسة أحادیث انتخبتہا من خمس مأئة الف حدیث ۔“
(وصیة للامام الاعظم ابی حنیفة لابنہ حماد: ۱۰۱)
اے میرے بیٹے حماد تو ان پانچ حدیثوں پر عمل کر، جن کو میں نے پانچ لاکھ احادیث میں سے چناہے ۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے پاس کم ازکم پانچ لاکھ تو احادیث تھیں۔ مولانا لطیف الرحمن صاحب فرماتے ہیں کہ پیر طریقت مولانا عبد الحفیظ مکی صاحب کو اس عبارت پر اطمینان نہیں تھا، تو بندے کو مکلف کیا کہ وہ اس کی تحقیق کرے۔الحمدللہ ! اس رسالہ کے دسیوں قلمی نسخوں سے تحقیق کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ امام صاحب نے یہ بات بیان کی ہے کہ میں نے پانچ لاکھ احادیث سے پانچ کو منتخب کیا ۔ اس میں کوئی شک نہیں اور یہ عبارت بے غبار ہے ۔
اب اگر کسی کو یہ اعتراض ہو کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس دعوے میں امام صاحب منفرد اور اکیلے نہیں ہیں ، بل کہ امام بخاری اور امام احمد بن حنبل نے بھی اس طرح کے دعوے کیے ہیں ۔مگر ہمیں تو کہیں ان کی کتابوں اور مرویات میں اتنی بڑی تعداد نہیں ملتی! تو اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ آپ نے جو زیادہ مستدل اور معتبر سمجھی ان کو جمع کیا بقیہ کو ترک کردیا ، تو امام صاحب کے بارے میں بھی یہی کہا جائے گا !!!۔ اور دوسری بات یہ بھی کہ تاتاری فتنہ کے زمانہ میں جو کتابیں دریابرد کی گئیں وہ سب سے زیادہ احناف کی رہی ہوں گی ، کیوں کہ کوفہ اور بغداد اس زمانہ میں فقہ حنفی کے مرکز تھے ، تو ہوسکتا ہے کہ بہت سی کتابیں اس میں ضائع ہوگئی ہوں ۔ واللہ اعلم بحقیقة الحال!
ایک اور موقع پر امام صاحب نے کہا یحی بن نصرابن حاجب کہتے ہیں : سمعت ابا حنیفة رحمہ اللہ یقول عندی صنادیق من الحدیث ما اخرجت منہا الا الیسیر الذی ینتفع بہ ۔(مناقب ابی حنیفة بحوالہ وصیة للامام الاعظم ابی حنیفة لابنہ حماد)
ایک اور موقعہ پر یحی کہتے ہیں : دخلت علی ابی حنیفة فی بیت مملوء کتباً فقلت ما ہذہ ؟ قال ہذہ احادیث کلہا وماحدثت بہ الا الیسر الذی ینتفع بہ فقلت حدثنی ببعضہا فاملی علی ۔ (بحوالہ مذکورہ بالا)
مولانا نے ایک انجمن سے زیادہ کام کیا :
حضرت مولانا علی میاں ندوی نور اللہ مرقدہ کہا کرتے تھے کہ اسلامی تاریخ میں بعض شخصیتیں ایسی گزری ہیں کہ جنہوں نے اکیلے اتنا کام کیا جسے پوری پوری انجمن بھی آسانی سے انجام نہیں دے سکتی ۔ میرا ماننا ہے (کا تب ھذہ السطور حذیفہ وستانوی)کہ مولانا لطیف الرحمن صاحب دامت برکاتہم بھی ایسی شخصیتوں میں سے ایک ہیں ۔
کتاب کا اسلوب اور منہج:
مولاناکے بیان کے مطابق کتاب کل ۲۰/ جلدوں میں ہے ، جس میں طویل مقدمہ ہے جو ۳/ جلدوں پر مشتمل ہے ، جس میں امام اعظم رحمة اللہ علیہ کا مکمل دفاع، علم حدیث میں آپ کا عظیم مقام اور آپ کی مرویات پر ہوئے کام کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے ۔ بہت سی غلط فہمیاں اس بارے میں جوعلمی حلقوں میں رائج ہے اس کی نشان دہی کی گئی ہے اور اسے دور کیا ہے۔ ماشاء اللہ کتاب فقہی اور حدیثی دونوں ترتیب کی رعایت کے ساتھ مرتب کی گئی ہے ۔ کتاب کا آغاز ” باب ماجاء فی تصحیح النیة “سے کیا ہے ، جس کی پہلی روایت یہ ہے :
۱- اخبرنا أحمد بن محمد الہمداني، ثنا أحمد بن محمد بن یحیي الحازمي، حدثني حسین بن سعید اللخمي،عن أبیہ، عن زکریا بن أبي العتیک عن أبي حنیفة، عن یحیي بن سعید ، عن محمد بن إبراہیم التیمي، عن علقمة بن وقاص اللیثي، عن عمر بن الخطاب قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : (( الأعمال بالنیات ولکل امرئ ما نوی فمن کانت ہجرتہ إلی اللہ و رسولہ فہجرتہ إلی اللہ ورسولہ ، ومن کانت ہجرتہ إلی دنیا یصیبہا أو إلی امرأة ینکحہا، فہجرتہ إلی ما ہاجر إلیہ )) ۔(الموسوعة الحدیثیة )
اسی کے بعد حدیث کی تخریج کی ہے ، مثلاً اس پہلی حدیث پر تخریج اس طرح ہے :
(المسند للحارثی:۲۶۴)، والخبر أخرجہ ابن المبارک فی الزہد ۱۸۸، والطیالسي ۳۷، والحمیدي ۲۸، وأحمد ۱/۲۵، ۴۳، والبخاري۱/۲،۲۱،۳/۱۹۰، ۵/۷۲، ۷/۴،۸/۱۷۵،۹/۲۹، ومسلم ۶/۴۸، وأبوداوٴد ۲۲۰۱، والترمذي ۱۶۴۷، والنسائي ۱/۵۸، ۶/۱۵۸، ۷/۱۳، وابن ماجہ ۴۲۲۷، والبزار۲۵۷، وابن الجارود ۶۴، وابن خزیمة ۱۴۲، ۱۴۳، ۴۵۵، والطحاوي۳/۹۶، وابن حبان ۳۸۸، والدارقطني ۱/۵۰، والبیہقي ۱/۴۱، ۴/۲۳۵، ۶/۳۳۱، والبغوي -۱-۲۰۶ من طرق عن یحیي بن سعید عن محمد بن إبراہیم بہ۔(الموسوعة الحدیثیة)
موسوعةحدیثیہ کا آخری باب ” باب ماجاء فی صفة الجنة والحور “ اور آخری روایت یہ ہے :
حدثنا أحمد بن محمد، قال: أخبرني عبد اللہ بن بہلول قال: ہذا کتاب جدي فقرأت فیہ، قال: حدثني حفص بن عبد الرحمن التغلبي، عن مسلمة بن جعفر، قال: حدثت أبا حنیفةرحمة اللہ علیہ بحدیث فیہ ذکر الجنة فرأیت عینیہ تجریان حتی قطر دموعہ وأومی إلي، فأمسکت عن بقیة الحدیث۔(کشف الاسرار للحارثي (۴۳۲)
(الموسوعة الحدیثیة )
کتاب میں جتنے رواة ہیں ان سب کے تراجم ہیں، جن کی تعداد ۲۳۱۴/ہیں ۔ پوری کتاب کچھ اس طرح ہے :
(۱)۳/ جلدیں مقدمہ ۔(۲) ۳/ جلدیں تراجم رواة ۔(۳) ۲/ جلدیں فہرست ۔(۴) ۱۲/ جلدوں میں احادیث ۔ اس طرح کل ۲۰/ جلدوں میں کام پایہٴ تکمیل تک پہنچا ۔ بہر حال بڑی بے چینی سے اس کا انتظار رہے گا ۔ اللہ تعالیٰ اس کی طباعت کے مرحلے بحسن خوبی عافیت کے ساتھ پورا فرمائے اور ہمیں اس سے استفادہ کی توفیق مرحمت فرمائے ۔ اورجامع کے لیے ذخیرہ ٴ آخرت بنائے اورقبول فرمائے اور علمی میدان میں مزید آپ سے کام لے۔ آمین !
اس موسوعہ کے علاوہ مولانا کی دیگر مطبوعہ وغیر مطبوعہ تالیفات وتحقیقات یہ ہیں :
(۱) کتاب الآثار للامام ابی یوسف (۲) کتاب الآثار للامام محمد ابن الحسن الشیبانی (۳) مسند الامام ابی حنیفہ لابن المقرئ (۴) مسند الامام حنیفہ للثعالبی (۵) مسند الامام ابی حنیفہ لأبی نعیم الاصفہانی (۶) کشف الآثار الشریفة فی مناقب ابی حنیفة للحارثی (۷) جامع المسانید للخوارزمی(یہ کل ۱۶/ جلدیں ہیں ۔ (۸) الموسوعة الحدیثیة لمرویات ابی حنیفة ۲۰ جلدیں (۹) مسند الامام ابی حنیفہ للحارثی (۱۰) مسند الامام ابی حنیفہ لابن خسرو (۱۱) فضائل ابی حنیفة لابن ابی العوام (۱۲) الرسائل الثلاث الحدیثیة (۱۳) مسند الطحاوی ۱۰/ جلدوں میں (۱۴) تحقیق المقال فی تحقیق احادیث فضائل الاعمال (۱۵) الدیباجہ شرح سنن ابن ماجہ (۱۶) المواہب اللطیفیة لملا عابد السندی (۱۷) المسائل الشریفة فی ادلة ابی حنیفة (۱۸) المعجم لرجال الطحاوی (۱۹) تکملة مسند الطحاوی (۲۰) الفتاوی التاتارخانیة (۲۱) معجم مصنفات
الاحناف (۲۲) شرح معانی الآثار للطحاوی ۱۰/ جلدوں میں ہے،جس میں۱۴/ قلمی نسخوں پر اعتماد کیا اور ساتھ ساتھ ساری حدیثوں پر حکم بھی لگایا ہے۔
مذکورہ کتابوں میں سے بعض پر کام مکمل ہوگیا ہے اوربعض پر جاری ہے ۔ ان شاء اللہ بہت جلد مکمل ہوجائے گا۔
اخیر میں مولانا کا شکریہ ادا کرتاہوں کہ آپ نے معلومات فراہم کی ، اللہ اجر عظیم سے نوازے اور ہم سب کو آپ کی تحقیقات نفع پہنچائے ۔
عام طور پر ہمارے بر صغیر کے علما نے شرح کتب حدیث کا کام زیادہ کیاہے اور حدیث کی فنی خدمت بہت کم ہوئی ہے ۔ الحمد للہ مولانا لطیف الرحمن صاحب گویااس قرض کو بھی چکانے کی کوشش میں ہما تن مصروف عمل ہے اور الحمدللہ موفق من اللہ بھی ہے۔
شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی صاحب بھی ” المدونة الجامعة “ کے ذریعہ ایک عظیم کام اپنے متعلقین کے ساتھ انجام دے رہے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہمارے ان اکابرین کی خدمات کو قبول فرمائے اور اس کے دائرے کو مزید وسیع فرمائے اور ہمیں اس سے استفادہ کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں بھی ان کے نقش قدم پر کچھ کرنے کا حوصلہ اور توفیق نصیب فرمائے۔آمین!
#…#…#

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے