مولانا شفیق احمد بستوی (فاضل دار العلوم دیوبند)
ہماری زندگی میں کچھ ایسی شخصیات نمایاں ہوتی ہیں جو اپنی گوناگوں خوبیوں اور ہمہ جہت کمالات کے سبب ہمارے ذہن و ضمیر میں اپنا انمٹ نقش چھوڑ جاتی ہیں، پھر وہ زمان و مکان کے فاصلاتی بُعد کے باوجود ہمہ وقت ہمارے ذہن و ضمیر کی دُنیا میں ایسی رچی بسی رہتی ہیں کہ اُن کو بھلایا نہیں جاسکتا اور بالخصوص جب کہ ان سے ذاتی نوعیت کی وابستگی اور تعلق داری قائم ہو، ایسی شخصیات کی جدائی اور ابدی مفارقت بلاشبہ سوہانِ رُوح بن جاتی ہے اور دل و دماغ ایک ناقابل بیان صدمہ و رنج کی کیفیت سے دو چار ہوجاتے ہیں، بعدازاں جب جب وہ یاد آئیں تو بس زیرلب دُعائیں اور سرد آہیں فقط قلب و رُوح کا ساتھ نبھاتی ہیں۔
کچھ اسی طرح کی شخصیت احقر کی زندگی میں حضرت مولانا عبدالرشید خان صاحب بستوی رحمة اللہ علیہ کی تھی جو تقریباً احقر کے ہم عمر اور ہم وطن و ہم زمانہ ہی صرف نہ تھے بلکہ بہت سے اساتذئہ کرام سے استفادہ میں بھی شریک تھے، خصوصاً وحید العصر و شیخ الادب دارالعلوم دیوبند حضرت مولانا وحیدالزمان کیرانوی رحمة اللہ علیہ سے شرفِ تلمذ حاصل کرنے میں ہم دونوں ہی سابق و لاحق کے طور پر شریک رہے، یاد آتا ہے کہ غالباً ١٩٨٤ء میں انجمن تہذیب الکلام طلبہ ضلع بستی کے قلمی و علمی ترجمان ماہ نامہ ”عقاب” کی ایک ادارت مولانا عبدالرشید مرحوم کے پاس تھی اور انجمن کی نظامت احقر کے پاس تھی، اس دور سے ہی مولانا مرحوم اَدبی ذوق کا بہترین مظاہرہ فرمارہے تھے اور اچھوتے مضامین سپردِ قرطاس و قلم فرمارہے تھے، زمانۂ طالب علمی کا اِختتام ہوا تو احقر وطن سے دُور افتادگی کا ہدف ٹھہرا اور مولانا مرحوم تدریسی خدمات کی انجام دہی کے لیے دارالعلوم اسلامیہ بستی اور دارالعلوم ہوجائی آسام تشریف لے گئے، جہاں اُنہوں نے اپنی عمر عزیز کا ایک بیش قیمت اور طویل حصہ گزار کر بے شمار تشنگانِ علم دین کو اپنے علم و فن سے سیراب کیا، بعدازاں مادرِ علمی ازہرالہند دارالعلوم دیوبند میں تدریسی خدمات کے لیے تشریف لائے اور ایک زمانہ بھرپور جہد مسلسل کے ساتھ گزارا، جہاں اپنے کئی اساتذہ کرام کی معیت و شفقت سے بہرہ ور ہوئے اور پھر دیوبند ہی کے ہوکر رہ گئے، چناں چہ قدرتی اسباب کے تحت مولانا مرحوم حضرت العلام مولانا سیّد انظر شاہ کشمیری کے نو تأسیس عربی میڈیم ادارہ ”جامعة الامام انور شاہ دیوبند” میں اپنی خدمات کا تسلسل برقرار رکھتے ہوئے تشریف لے آئے اور پھر تاحیات اسی ادارہ سے وابستہ رہے۔ آج سے دس سال قبل احقر کو دیوبند کی حاضری کا موقع ہوا تو مولانا عبدالرشید کے ہاں ہی قیام رہا، اس موقع پر جامعة الامام انور شاہ دیکھنے کا بھی شرف حاصل ہوا، جہاں یہ دیکھ کر بڑی خوشی ہوئی کہ اسکول کی تعلیم کے ساتھ ساتھ درسِ نظامی کی مکمل تعلیم عربی زبان میں دی جارہی ہے یعنی دورانِ سبق افہام و تفہیم کی زبان خالص عربی ہے، چناں چہ اسی وجہ سے وہاں زیر تعلیم طلبہ کی عربی زبان بہت اچھی ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں عصری تقاضوں کے پیش نظر انگریزی بھی سکھائی جاتی ہے، مولانا مرحوم اس ادارہ میں رہ کر حضرت علامہ سیّد انظر شاہ صاحب کشمیری کے سایۂ شفقت میں تدریسی خدمات انجام دینے کے ساتھ ساتھ اِدارہ کے قابل قدر وقیع مجلہ ماہ نامہ ”محدثِ عصر” کی اِدارت کے فرائض بھی انجام دیتے رہے اور حضرت علامہ سیّد انظر شاہ کشمیری کے بعد ان کے صاحبزادئہ ذی وقار حضرت مولانا سیّد احمد خضر شاہ صاحب کشمیری مدظلہ کے دست راست رہے، مولانا مرحوم کے عربی اور اُردو مقالات مختلف جرائد و مجلات میں شائع ہوتے رہے۔
احقر سے مولانا مرحوم کا تعلق قلبی اور بڑا مثالی تھا۔ چناں چہ متعدد بار پاکستان تشریف لائے تو قیام احقر کے ہی غریب خانہ پر رہا، ایک سفر میں تو حضرت علامہ سیّد انظر شاہ کشمیری کے ہمراہ تشریف لائے تو بھی قیام کے لیے احقر کے غریب خانہ کو ہی ترجیح دی، جو کہ مولانا مرحوم کی احقر کے ساتھ قلبی وابستگی کی دلیل ہے۔ یہاں شہر کراچی کے مختلف مدارس و جامعات میں بھی مولانا کے بہت اچھے اور علمی بیانات ہوئے جن کی وجہ سے یہاں کافی لوگ مولانا مرحوم کو عقیدت و محبت سے یاد کرتے ہیں۔ مولانا نے احقر کی مسجد میں بھی کئی بار جمعہ کی نماز سے قبل بیان فرمایا جس سے لوگوں کو بڑا فیض پہنچا۔ بحمداللہ!!
یہاں دیارِ سندھ میں چند قدیم تاریخی مقامات ہیں جہاں مولانا کے ہمراہ احقر کو بھی جانے کا اِتفاق ہوا، چناں چہ ”دیبل” کا وہ تاریخی مقام جہاں محمد بن قاسم اپنی پوری جماعت سمیت کشتیوں سے اُترے تھے اور پھر سندھ کے مغرور و ظالم حکمراں راجہ داہر سے جنگ لڑی تھی، یہ ساحل ”دیبل” کے مقام پر ہے، جس کو اب ”بھنبھور” کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ مولانا کے ساتھ اس مقام پر جانا ہوا جہاں اب حکومت نے ایک تاریخی میوزیم بنادیا ہے، جس کو دیکھ کر تاریخی مطالعہ کے کچھ گوشے عیاں ہوتے ہیں، حضرت مولانا بڑی توجہ اور دلچسپی کے ساتھ وہاں کے تاریخی احوال و واقعات اپنی یادداشت کی ڈائری میں جمع فرماتے رہے، اندازہ یہ ہے کہ کم و بیش بیس سے پچیس صفحات کا مواد جمع کیا ہوگا، مگر کم قسمتی یا قسمت کی ستم ظریفی کہیے کہ جب مولانا مرحوم یہاں سے حضرت شاہ صاحب کے ہمراہ کراچی سے دہلی کی پرواز پر تشریف لے گئے تو دہلی اِیئر پورٹ پر مولانا مرحوم کا وہ بیگ بھی نہیں مل سکا جس میں وہ تاریخی احوال پر مشتمل مواد اکٹھا کیا تھا، مولانا مرحوم کو اس کا بڑا افسوس بھی ہوا۔ بہرحال یہ بھنبھور کا تاریخی مقام حضرت مولانا مرحوم نے بڑی دلچسپی سے دیکھا، محمد بن قاسم کے ہاتھوں تعمیر کی گئی طویل و عریض مسجد کی باقیات اور قطعۂ بھنبھور کے کھنڈرات اور دیبل کا ساحل بڑی تسلی اور اِطمینان کی کیفیت میں دیکھا، پھر ہم نے ٹھٹھہ شہر کی شاہ جہانی مسجد دیکھی جو کہ شاہ جہاں بادشاہ نے تعمیر کروائی ہے، یہ بھی دہلی اور لاہور کی شاہی مسجدوں کی طرح شاہی مسجد ہے جو فن تعمیر کا ایک شاہکار ہے۔ ہم مولانا کے ساتھ ضلع ٹھٹھہ کے ایک تاریخی قصبہ میں گئے جہاں دیوبند کے رُوحانی آثار و انوار محسوس ہوتے ہیں، جس کا نام ”سونڈہ” ہے، یہاں کی جامع مسجد میں ایک حجرہ ہے جس میں حضرت شیخ الہند نے دورانِ سفر قیام فرمایا تھا، اسی بنا پر اس کے دروازہ کے اُوپر ”حجرئہ شیخ الہند” کی تختی لگی ہوئی ہے، یہاں دارالعلوم دیوبند کے چند فضلا آج سے تقریباً ڈیڑھ صدی قبل تشریف لائے تھے جو زمانہ کے اعتبار سے کچھ متقدم و متأخر تھے، تاہم یہ سب لوگ دارالعلوم دیوبند کے اِبتدائی یا پہلی نصف صدی کے فضلا کرام تھے، کیوں کہ ان حضرات کی جو اکابر دارالعلوم سے مکاتبت و مراسلت ہوئی اس کے خطوط اور تحریری مواد تاہنوز محفوظ ہیں، جنہیں راقم الحروف نے دیکھا ہے، ان خطوط میں حضرت مولانا رفیع الدین اور حضرت شیخ الہند اور بعد کے مشائخ و اکابر کے خطوط ان کے دستخطوں کے ساتھ ہیں، اس حجرہ اور مسجد میں واقعتا اللہ والوں کے انوار و برکات محسوس ہوتے ہیں۔
اس قصبہ سے ملحقہ قبرستان میں ایسے آثار نمایاں ہیں جو اِسلام کی اِبتدائی صدیوں کی علامات معلوم ہوتے ہیں، چناں چہ حضرت مولانا عبدالرشید کے ہمراہ ہی اس قبرستان میں جاکر دیکھا تو قبروں پر لگے ہوئے پتھروں، نیزے، تلواروں اور ڈھال کے نقوش کندہ ہیں، جنہیں دیکھ کر ماہرین آثارِ قدیمہ یہی کہتے ہیں کہ یہ قبرستان اور اس سے ملحقہ میدان محمد بن قاسم ثقفی اور راجہ داہر کے مابین برپا ہونے والے ایک معرکہ کی جگہ اور میدان ہے اور اس میں شہید ہونے والے لوگ یہیں مدفون ہیں، اس زمانہ میں یہ رواج تھا کہ جہادی معرکوں میں شہید ہونے والوں کی قبروں پر آلاتِ حرب کے نقش کندہ کردیئے جاتے تھے۔
مولانا عبدالرشید بستوی کے ہمراہ اندرونِ سندھ کے ایک قدیم شہر نصرپور جانا ہوا، جہاں احقر پہلے بھی جاچکا تھا مگر مولانا مرحوم کی معیت میں جاکر ایک علمی فائدہ ہوا کہ ہمارے علم میں یہ بات آئی کہ یہ نصر پور وہ تاریخی شہر ہے جہاں اِسلام کی اِبتدائی صدیوں میں چار سو محدثین تھے، علاوہ ازیں بڑے بڑے فقہا اور علما بھی گزرے ہیں، جن میں سے کئی حضرات اصحابِ تصانیف کثیرہ ہیں، یہ بات مولانا مرحوم کے ذریعہ معلوم ہوئی اور مزید ایک بات یہ بھی مولانا نے تاریخی حوالوں سے بتائی کہ نصر پور ہی وہ جگہ ہے، جہاں ہاتھوں سے ٹائلیں بھٹی میں تیار کی جاتی ہیں، جو کہ ہند و پاک و اِیران اور دیگر اِسلامی ریاستوں میں بنی ہوئی تاریخی عمارات میں اِستعمال ہوئی ہیں، حتیٰ کہ ٹھٹھہ کی شاہی مسجد میں جو ٹائلیں نیلی و سفید رنگت والی لگی ہوئی ہیں، وہ ساری اسی نصر پور کی بھٹیوں میں تیار ہوئی ہیں، چناں چہ ہم اپنے میزبان مولانا ڈاکٹر تاج محمود قاضی صاحب کے ساتھ ایک بھٹی دیکھنے کے لیے گئے، جہاں یہ ٹائلیں تیار ہوتی ہیں، بھٹی والے نے خاطر داری کرتے ہوئے ہمیں ایسی دو ٹائلیں ہدیہ میں پیش کیں جن میں سے ایک پر لفظ ”اللہ ” اور دوسری پر لفظ ”محمد” لکھا ہوا تھا اور اس نے بتایا کہ یہ ٹائل سازی کی صنعت نصر پور میں صدیوں پرانی صنعت ہے، یہاں سے کئی ممالک میں یہ ٹائلیں جاتی ہیں اور زمانۂ ماضی میں بھی جاتی تھیں۔
یہ چھوٹا سا شہر نصر پور عہد رفتہ کی ایک یادگار اور ہمارے اِسلامی علوم و فنون کی عظمت و برتری کی پُرانی تصویر ہے جس میں ہم اگر غورو خوض کریں تو بہت ساری علمی تحقیقات کے گوشے عیاں ہوں گے۔ میں نے مولانا عبدالرشید بستوی کو وہاں پہنچتے ہی یہ کہا: مولانا یہاں کی زمین کا پانی بہت ہی شان دار، شیریں اور شفاف ہے، یہ بات ایک مجلس میں ہوئی تو نصر پور کے ہمارے میزبان ڈاکٹر مولانا تاج محمودقاضی صاحب نے بتایا کہ جے پور کے راجہ مان سنگھ کے پینے کے لیے پانی یہیں نصر پور سے سواریوں پر لے جایا جاتا تھا، میں نے اس پانی کی شیرینی اور شفافیت کا سبب جاننے کے لیے سوال کیا تو بتایا گیا کہ دریائے سندھ کسی زمانہ میں یہیں سے گزرتا تھا، جہاں اب نصر پور کی آبادی کا بڑا حصہ آباد ہے، رفتہ رفتہ دریا نے اپنا راستہ کافی دُور کرلیا ہے جو کہ دریائی بہائو کے لیے قدرتی عمل ہوتا ہے۔
حضرت مولانا عبدالرشید بستوی کو اندرونِ سندھ کی کچھ مزید تاریخی جگہوں کو دیکھنے کا شوق تھا تو ہم نے ایک دن مولانا کے ساتھ لمبے سفر کا پروگرام بنایا، چناں چہ ہم کراچی سے چل کر نوشہرہ فیروز ضلع کے ایک شہر کنڈیارو پہنچے، جہاں دو جلیل القدر علمی شخصیتوں سے ملاقات ہوئی حضرت مولانا محمد قاسم سومرو اور ان کے صاحبزادہ مولانا ڈاکٹر محمد ادریس سومرو جو کہ آج کل اسلامی نظریاتی کونسل آف پاکستان کے ممبر بھی ہیں۔ ایک رات ہم نے ڈاکٹر سومرو صاحب کے گھر پر قیام کیا اور ان کے والد ماجد مولانا قاسم سومرو صاحب مدظلہ کے گھر قائم اُن کی ذاتی لائبریری دیکھی، جس میں ہزاروں کتب و رسائل کا ذخیرہ موجود ہے۔ ڈاکٹر سومرو نے بتایا کہ انہوں نے پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھنے کے لیے ١٩٤٧ء سے لے کر مقالہ لکھنے کے زمانہ غالباً ٢٠٠٠ء تک کے سندھی زبان میں جتنے رسائل شائع ہوئے ہیں، سب کا ذخیرہ اکٹھا کیا جن کی تعداد پانچ ہزار سے زائد ہے، یہ لائبریری قاسمی لائبریری کے نام سے موسوم ہے، جس سے کافی اہل تحقیق و ریسرچ استفادہ کرتے ہیں۔
ہم دُوسرے دن صبح کو ناشتہ کرکے شکارپور اور پھر اس کے آگے شہداد کوٹ ”سیرت لائبریری” کی زیارت کے قصد سے نکلے۔ سکھر سے جب شکارپور کے راستہ پر گامزن ہوئے تو کچھ دیر بعد ایک مقام آیا جہاں مولانا ادریس سومرو صاحب نے مولانا عبدالرشید بستوی کو بتایا کہ اس مقام پر ہم کچھ دیر رُکنا چاہتے ہیں، کیوں کہ یہاں چند قبریں ہیں جن کے بارے میں اہل علم لوگوں میں معروف ہے کہ یہ حضرات صحابہ کرام کی قبریں ہیں، مگر ان کے نام صراحت کے ساتھ ہمارے علم میں نہیں ہیں، چناں چہ ہم لوگ گاڑی سے اُترے اور ان پانچ قبروں کے پاس پہنچے تو وہاں کچھ مزید قبریں بھی تھیں جو ان کے خاندان کے دیگر افراد کی قبریں بتائی جاتی ہیں، بالکل ہی سادہ جگہ دائیں بائیں جنگلی درختوں کی موجودگی کچھ عجیب سی وحشت ناکی کا نقشہ کھینچ رہی تھی، مگر سچ یہ ہے کہ اس جنگل میں بھی ان نیک نفوسِ قدسیہ کی موجودگی کے سبب بڑے انوارات محسوس ہوئے، وہاں ہم کچھ دیر فاتحہ خوانی کرنے کے بعد شکارپور کی طرف روانہ ہوئے۔ یہ بھی پاکستان کا ایک معروف مگر چھوٹا سا شہر ہے، یہاں کی کوئی قابل ذکر خاص چیز تو ہمیں نہیں معلوم؛ البتہ یہاں اچار سازی کی صنعت پورے ملک میں مشہور ہے، چناں چہ درجنوں قسم کے اچار یہاں بنائے جاتے ہیں جن میں گوشت کا اچار، مچھلی کا اچار اور تمام ہی اقسام کی سبزیوں کے اچار یہاں بنائے جاتے ہیں، بہرحال آگے چل کر ہم لوگ عصر کے قریب شہداد پور پہنچے۔ ”سیرت لائبریری” کے قریب ہی مسجد میں نماز ادا کی گئی، پھر سیرت لائبریری میں داخل ہوئے، یہ لائبریری بھی قاسمی لائبریری کے برابر یا اس سے کچھ بڑی ہوگی، اس کی خاص بات کتب سیرت کا ذخیرہ ہے۔ چناں چہ لائبریری کے مالک نے ہند و پاک میں شائع ہونے والی سیرتِ پاک پر ہر کتاب بلاامتیاز مکتب فکر اپنے اس ذخیرہ میں اکٹھا فرمائی ہوئی ہے۔ مولانا عبدالرشید صاحب کا تعارف ڈاکٹر ادریس سومرو نے کرایا تو اِتفاق سے ”رجال السند والہند” کا ترجمہ جو مولانا موصوف نے کیا اور احقر کے اِدارہ سے شائع ہوا ہے وہ بالکل قریب ہی رکھا ہوا تھا تو مالک سیرت لائبریری مولانا کی ملاقات سے بہت خوش ہوئے۔ احقر کے لیے یہ معلوماتی سفر مولانا عبدالرشید بستوی کی برکت سے ہوا، وقت کی کمی تھی ورنہ اندرونِ سندھ کی کچھ قدیم تاریخی جگہیں بھی مولانا دیکھتے جاتے، مگر مولانا فرماتے کہ چلیں بقیہ مقامات کی زیارت ان شاء اللہ! آئندہ سفر میں کریں گے۔
مولانا مرحوم نے احقر کی خواہش پر ”رجال السند والہند” کا ترجمہ فرمایا۔ اسی طرح شیخ عبدالفتاح ابوغدہ رحمة اللہ علیہ کے ایک رسالہ کا ترجمہ ”اِسلامی آدابِ زندگی” کے نام سے فرمایا، یہ دونوں احقر کے مکتبہ خدیجة الکبریٰ، اُردو بازار، کراچی سے شائع ہوئے ہیں، علاوہ ازیں مولانا کی تالیف ”امثال و محاورات” عربی، اُردو، اسی طرح ”درحدیث دیگراں” بھی شائع ہوکر مقبولیت پاچکی ہیں، مولانا کی چند کتب احقر کے پاس کمپوز شدہ طباعت کے لیے تیار صورت میں موجود ہیں، ان شاء اللہ! اُن کو بھی شائع کیا جائے گا، ان میں ”امثال و محاورات” اُردو سے اُردو، ”شہرِ رسول” شامل ہیں، ان کتب و مسودات کے تذکرہ سے سمجھا جاسکتا ہے کہ مولانا مرحوم کا احقر سے کیسا سچا اور علمی ذوق کا تعلق تھا۔
یہاں شہر کراچی میں مولانا عبدالرشید بستوی سے محبت و عقیدت کا تعلق رکھنے والے حضرات کافی سارے ہیں، ان میں سے چند قابل ذکر شخصیات یہ ہیں: حضرت الاستاذ مولانا مفتی عبدالرؤف خان غزنوری مدظلہ جو کہ مولانا عبدالرشید بستوی کے زمانۂ تدریس دارالعلوم میں خود بھی مدرّس تھے، یہاں دورانِ سفر مولانا مرحوم سے بڑی محبت اور شگفتہ مزاجی کا برتائو فرمایا، گھر پر کھانے کی دعوت اور ہدیہ و تحفہ کی صورت میں شفقت و محبت کا اِظہار فرمایا، جب حضرت غزنوی صاحب مدظلہ کو مولانا مرحوم کے اِنتقالِ پُرملال کی خبر ملی تو بڑی افسردگی اور غم و رنج کی حالت محسوس کی اور کافی دیر تک مولانا مرحوم کا تذکرہ فرماتے رہے، یہاں جامعة العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹائون میں بخاری شریف جزو ٢ کا سبق پڑھاتے ہیں، حضرت نے سبق کے دوران طلبہ کے سامنے مولانا مرحوم کا متعدد بار تفصیل سے ذکر کیا اور ان کے لیے طلبہ کے ساتھ اِیصالِ ثواب اور دُعائے مغفرت کا اہتمام فرمایا۔ واضح رہے کہ کراچی کی مقتدر دینی درس گاہوں میں جامعہ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹائون کا شمار صف اَوّل میں ہوتا ہے، دورئہ حدیث میں تقریباً چھ سو طلبہ ہوتے ہیں۔ اس کے بانی و مؤسس محدث العصر حضرت علامہ سیّد محمد یوسف بنوری؛ صاحب ”معارف السنن” ہیں، جو کہ حضرت امام العصر علامہ سیّد محمد انورشاہ کشمیری کے اجل تلامذہ میں سے ہیں۔
اسی طرح جناب حضرت قاری عبدالستار صاحب محمود کوٹی مدظلہ بھی مولانا مرحوم سے بڑا قلبی اور عقیدت مندانہ تعلق رکھتے ہیں، موصوف شعبۂ حفظ و تجوید میں مہارتِ تامہ کے علاوہ حفظ و ناظرہ اور قاعدہ کے شعبوں میں تعلیم کے ساتھ تربیت کی محنت بہت شان دار طریقہ سے کررہے ہیں۔ چناں چہ موصوف نے ”تحفة المدرسین”، ”تجوید کی اہمیت” اور ”فیض رحمانی یعنی طریقۂ تدریس قاعدہ نورانی” جیسی بیش قیمت کتابیں تالیف فرمائی ہیں اور ان پر مولانا مرحوم کے قلم سے تقاریظ موجود ہیں۔ قاری صاحب تجوید و قرأت کی تعلیم و تدریس کے ساتھ ساتھ تربیت کا بڑا عمدہ اور طویل تجربہ رکھتے ہیں، مختلف مدارس و جامعات میں تدریسی دورۂ جات کا اہتمام فرماتے ہیں، جن سے مدرّسین کو بڑا فائدہ ہوتا ہے۔ آج کل حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید کی مسجد خاتم النبیین میں تدریس و تربیت کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
مولانا کے اِنتقال کی خبر سن کر حیرت و افسوس کی گویا تصویر بن گئے اور بتانے لگے کہ مولانا مرحوم سے میری تقریباً ہر مہینہ ٹیلی فون پر گفتگو ہوتی تھی، قاری صاحب نے اپنے مدرسہ میں اور تلامذہ سے اُن کی درس گاہوں میں مولانا مرحوم کے لیے قرآنِ کریم پڑھواکر اِیصالِ ثواب کا اہتمام کیا اور دیگر تلامذہ سے بھی کرایا، ہمارے ادارہ میں بھی مولانا کے اِیصالِ ثواب کے لیے قرآنِ کریم کی تلاوت اور دُعاکا اہتمام کیا گیا۔
مولانا مرحوم کی معیت میں ایک علمی لطیفہ اس وقت سننے اور دیکھنے کا موقع ہوا، جب کہ راقم الحروف مولانا بستوی کو ایک بڑے عالم دین مفسر قرآن و محدث ذی شان سے ملاقات کرانے لے گیا تو مولانا نے مذکورہ عالم دین بلکہ علامہ صاحب سے دورانِ گفتگو ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ جی ہاں حضرت علامہ کشمیری کی سیرت و سوانح پر ایک کتاب احقر نے لکھی ہے، جس کا نام ”علامہ انور شاہ کشمیری کی ہشت پہلو شخصیت” ہے، تو وہ علامہ صاحب بول پڑے کہ ہشت پہلو کے بجائے درست تعبیر ”ہشت جہت” ہے۔ مولانا مرحوم نے پلٹ کر جواب دیا کہ حضرت اُردو لغت میں ”ہشت پہلو” ہی دُرست ہے نہ کہ ”ہشت جہت” مگر علامہ صاحب نے اس کو تسلیم نہ کیا، وہ بزعم خویش اُردو دانی میں مہارت رکھتے ہیں، حالاں کہ وہ صاحب زبان بھی نہیں ہیں، بلکہ پشتو زبان والے ہیں، خیر ہم اس ملاقات سے فارغ ہوکر رات کو واپس آگئے۔ مولانا کا قیام احقر کے آفس میں تھا، جہاں ٹیلی فون لگا ہوا تھا، جب صبح ہم نے فجر کی نماز ادا کرلی تو احقر نے فیروز اللغات اُردو میں ”ہشت پہلو” کی تعبیر دیکھی تو وہاں درج تھی، لیکن ”ہشت جہت” والی تعبیر قطعی طور پر نہیں ملی، تو میں نے مولانا سے عرض کیا کہ رات کو علامہ صاحب اپنی اُردو دانی پر ناز کرتے ہوئے ”ہشت جہت” والی تعبیر کی دُرستگی پر مصر تھے، حالاں کہ ان کی تعبیر تو اُردو لغت میں ہے ہی نہیں! تو مولانا نے بتایا کہ رات واپس آتے ہی میں نے لغت میں یہ تعبیر دیکھ کر علامہ صاحب کو رات ہی فون کر دیا تھا کہ دُرست تعبیر ”ہشت پہلو” ہی ہے، مجھے یہ سن کر بڑا تعجب ہوا کیوںکہ علامہ صاحب اصلی پٹھان اور گرم مزاج والے ہیں، عام طور پر ان سے لوگ بے تکلف بات کرنے کا حوصلہ نہیں کر پاتے، مگر مولانا عبدالرشید بستوی نے ان علامہ صاحب کو ”قائل و قانع کرکے چھوڑا” دراصل یہ علامہ صاحب حضرت علامہ انور شاہ کشمیری سے بڑی عقیدت رکھتے ہیں، چناں چہ اُنہوں نے بیٹے کا نام انور شاہ رکھا ہے، چوں کہ یہ علامہ بنوری کے شاگردِ رشید ہیں، اس لیے علامہ کشمیری سے والہانہ عقیدت و محبت رکھتے ہیں۔
مولانا مرحوم کے لیے یہاں اندرونِ سندھ اور پنجاب کے مختلف مدارس میں دُعائوں اور اِیصالِ ثواب کا سلسلہ رہا اور کئی لوگ تعزیت کے جذبہ سے احقر سے فون پر رابطہ کرتے رہے، چند بار مولانا نے پاکستان آکر محبتوں کی وہ سوغات لوگوں میں تقسیم فرمائی کہ یہاں دورانِ قیام اجنبیت کا قطعی احساس نہیں ہوتا تھا اور مولانا بھی اپنائیت محسوس کرتے تھے۔ مولانا کے ایک ہم سبق اور بے تکلف دوست بھی ایک مدرسہ کے مدیر و مہتمم ہیں جنہوں نے دورئہ حدیث مولانا کے ساتھ ہی دارالعلوم دیوبند سے کیا ہے، وہ مولانا اسعد زکریا قاسمی صاحب ہیں۔ موصوف بھی مولانا کے اِنتقال سے بڑے غمزدہ ہوئے اور اپنے مدرسہ میں اِیصالِ ثواب کا اہتمام کیا۔ اسی طرح ایک برمی نژاد فاضل دیوبند بھی مولانا کے درسی ساتھی یہاں کراچی میں ہی مقیم ہیں اور ایک مدرسہ البنات چلارہے ہیں اور دیگر مدرسہ میں تدریس فرماتے ہیں ان کا نام نورحسین قاسمی ہے۔ موصوف نے بھی بڑے گہرے رنج و غم کا اظہار کیا اور مرحوم کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے گراں قدر دُعائوں سے مولانا مرحوم کو یاد کرتے رہے۔
مولانا مرحوم کی شخصیت سادگی، سنجیدگی، متانت کے ساتھ خوش طبعی اور ہمہ وقت علم دوستی سے عبارت ہے، حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنی ہمہ جہت علمی و قلمی مشغولیات کے تناظر میں اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔ تدریس کے ساتھ ساتھ صحافتی خدمات، ترجمہ و تالیف کے کام کے علاوہ ملک کے مختلف علاقوں میں دروس و مواعظ کا سلسلہ بھی قائم رکھتے تھے، کئی مدارس و جامعات کے مشیر ایڈوائزر کی حیثیت سے بھی کام کرتے تھے۔ بہرحال! اللہ رب العزت نے مولانا مرحوم سے علمی حلقوں میں بڑا گراں قدر کام لیا ہے اور احقر یہ اُمید کرتا ہے کہ مولانا بستوی کے علمی و قلمی کارنامے اور خدمات ان کے لیے عظیم صدقہ جاریہ ہیں اور آخرت کے لیے بہترین ذخیرہ ہیں، ملک و بیرون ملک پھیلے ہوئے مولانا کے سینکڑوں تلامذہ بھی ان کا علمی سرمایہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں احقر دست بہ دعا ہے کہ وہ اپنی شانِ کریمی کے صدقہ مولانا مرحوم کو بھرپور اعزاز و اکرام سے نوازے اور تمام تر صغائر و کبائر کو معاف فرماکر رفع درجات سے ہمکنار فرمائے اور آخرت کی تمام منازل میں کامرانی و سرخ روئی عطا فرمائے اور جملہ پسماندگان بالخصوص اہلِ خانہ اور تمام اعزہ و اقربا کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین!
ایں دُعا از من واز جملہ جہاں آمین باد