حامد محمود راجا
قاری نور محمد حقانی 1272ھ مطابق 1856ء کو لدھیانہ میں پید اہوئے ۔یہ شہر موجودہ بھارتی پنجاب کا حصہ ہے جو لودھی سلطنت کے دوسرے حکمران سکندر لودھی (وفات: 21 نومبر 1517ء ) کی طرف منسوب ہے۔یہ لودھی خاندان سے تعلق رکھنے والے بہلول لودھی کے بیٹے اور جانشین تھے۔سکندر لودھی کا دور حکومت 17 جولائی 1489ء تا 21 نومبر 1517ئ( 28 سال 4 ماہ 4 دن) پر محیط ہے ۔قطب مینار کی بالائی دو منزلیں سکندر لودھی نے تعمیر کروائیں۔سکندر لودھی علم وادب کے رسیا تھے۔ انہوں نے حکام کا انتخاب ذاتی قابلیت کے بنا پہ کیا لہذا اعلی عہدوں کے حصول کے لیے ہندوؤں نے فارسی زبان سیکھنا شروع کردی۔ وہ ایک قابل، عقل مند اور عادل بادشاہ تھے۔ صوفیا کرام کا خاص ادب کرتے۔ اپنے لیے مراتب نہ لیتے، بادشاہ ہو نے کے باوجود عام گھوڑے پہ سواری کرتے اور سادگی اختیار کرتے سخاوت اُن کی عادت تھی اور متانت مزاج کا حصہ۔ سکندر لودھی،لودھی باغ دہلی میں مدفون ہیں۔ اُن کا مقبرہ اُن کے بیٹے ابراہیم لودھی نے تعمیر کروایا۔
سکندر لودھی کا بسایا شہر”لدھیانہ” اپنے علماء کے لیے معروف رہا ہے ۔ لدھیانوی نسبت کے علماء کی ایک بڑی تعدادنے برصغیر پاک وہند میں شہرت پائی ۔پاکستان میں جامعة الرشید کے بانی مفتی رشید احمد لدھیانوی اور مولانا یوسف لدھیانویشاید اس نسبت کے حامل علماء میں آخری بڑے نام تھے ۔ یہ خطہ جنگِ آزادی 1857کے مجاہدین کے حوالے سے بھی معروف رہا ہے ۔( عہماء امجاہدین کی فہہرست ۔) اس مردم خیز خطہ کے موضع مانگٹ میںمحمد علی لدھیانوی کے ہاں نور محمدکی پیدائش ہوئی۔ قاری نور محمد نے اپنی ابتدائی تعلیم لدھیانہ کے مدارس سے حاصل کی جب کہ اعلی سطحی تعلیم کے لیے انہوں نے دہلی ، کان پور اور لکھنؤ کے مدارس کا رخ کیا ۔ قاری نور محمد نے حدیث کی تعلیم مولانا احمد علی سہارن پوری اور مظہر علی نانوتوی سے حاصل کی ۔ قاری نور محمد کے والدعلی محمد لدھیانوی نے بنات (طالبات) کا ایک مدرسہ بھی قائم کیا تھا۔ جب اس کی دیکھ بھال قاری نور محمدحقانی کے ہاتھ میں آئی تو انہوںنے اس کا نام مدرسہ حقانیہ تجویز کیاجو تعلیم قرآن، تربیت اور افراد سازی میں مثالی نمونہ تھا۔ اس زمانے میں عیسائی مشنریاں اپنی ارتدادی سرگرمیوں میں بڑے زورو شور سے مصروف تھیں جس کا مقابلہ علماء نے بھر پور طریقے سے کیا ۔ قاری نور محمد نے بھی اس مدرسہ کے ذریعے ان ارتدادی سرگرمیوں کا بھر پور تدارک کیا ۔قاری نور محمدنے ایک کتب خانہ ”مطبع حقانیہ بھی قائم کیاتھا۔قاری نور محمد علیہ الرحمة نے”نماز اور عقائد ” پر ایک منظوم کتاب بھی تصنیف کی تھی۔قاری نور محمد اپنا تخلص حقانی پسند کرتے تھے اسی وجہ سے انہوںنے اپنے مدرسہ اور مکتبہ کانام بھی حقانیہ تجویز کیا۔
” قاری نور محمد حقانی،عبد الرحیم سہارن پوری کے خلیفہ مجاز بھی تھے، اس مناسبت سے عبد الرحیم رائے پوری ان کے پیر بھائی اور ساتھیوں میں سے تھے۔ان دونوں حضرات کو یکے بعد دیگرے حضرت میاں عبدالرحیم سہارن پوری سے اجازت حاصل ہوئی تھی، پہلے یہ (قاری نور محمد )حضرت میاں عبدالرحیم سرساوی کے مدرسہ تعلیم القرآن کے ناظم تھے، پھر 1303ھ میں ان کے انتقال کے بعد لدھیانہ میں مدرسہ حقانی بنایا تھا۔ 1328ھ میں حضرت اقدس عالی رائے پوری کے ساتھ سفر حج پر تشریف لے گئے اور اس کے بعد مستقل رائے پور میں قیام رہا۔ حضرت عالی رائے پوری کے سلسلہ مدارس” تعلیم القرآن” کے نگران اعلی اور ناظم آپ ہی تھے، حضرت اقدس رائے پوری نے اردو اور عربی سیکھنے کے لیے الگ الگ آپ سے قاعدہ لکھوایا جس کا نام آپ نے ”نورانی قاعدہ ”رکھا اور اپنے مکاتب قرآنیہ کے نصاب میں شامل کیا اور آج ہر مکتب قرآن کا حصہ ہے ۔(اردو والا قاعدہ راقم کی نظر سے نہیں گزرا)۔ قاری نور محمد نے رمضان 1338ھ مطابق اپریل 1920ء میں مدرسہ” ام المدارس” قائم فرمایا، آپ کا مزار فیل گنج قبرستان لدھیانہ میں ہے ”۔ (راقم نے یہ اقتباس کسی کتاب میں سے فوٹو کاپی کروایا تھا ، لیکن سرورق کی کاپی نہیں ہوسکی ۔اس لیے کتاب کا عنوان معلوم نہیں ،غالباً حضرت عبدالرحیم رائے پوری کے خلفاء اور متعلقین پر کوئی تصنیف ہے ۔ حامد)
انہوں نے ایک پرچا بھی جاری کیا جس کا نام ”نور علی نور” رکھا،یہ نام سورة نور کی آیت سے ماخوذ ہے ۔ارشاد باری ہے:
اللَّہُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ مَثَلُ نُورِہِ کَمِشْکَاةٍ فِیْہَا مِصْبَاح الْمِصْبَاحُ فِیْ زُجَاجَةٍ الزُّجَاجَةُ کَأَنَّہَا کَوْکَب دُرِّیّ یُوقَدُ مِن شَجَرَةٍ مُّبَارَکَةٍ زَیْْتُونِةٍ لَّا شَرْقِیَّةٍ وَلَا غَرْبِیَّةٍ یَکَادُ زَیْْتُہَا یُضِیْء ُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْہُ نَار نُّور عَلَی نُورٍ یَہْدِیْ اللَّہُ لِنُورِہِ مَن یَشَاء ُ وَیَضْرِبُ اللَّہُ الْأَمْثَالَ لِلنَّاسِ وَاللَّہُ بِکُلِّ شَیْْء ٍ عَلِیْم (35)
ترجمہ:”۔ اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے اُس کے نور کی مثال ایسی ہے کہ گویا ایک طاق ہے جس میں چراغ ہے اور چراغ ایک قندیل میں ہے اور قندیل (ایسی صاف شفاف ہے کہ) گویا موتی کا سا چمکتا ہوا تارا ہے، اس میں ایک مبارک درخت کا تیل جلایا جاتا ہے (یعنی) زیتون، کہ نہ مشرق کی طرف ہے نہ مغرب کی طرف (ایسا معلوم ہوتا ہے کہ) اس کا تیل خواہ آگ اُسے نہ بھی چھوئے جلنے کو تیار ہے (بڑی) روشنی پر روشنی (ہو رہی ہے) اللہ اپنے نور سے جس کو چاہتا ہے سیدھی راہ دکھاتا ہے اور اللہ جو مثالیں بیان فرماتا ہے (تو) لوگوں کے (سمجھانے کے) لئے اور اللہ ہر چیز سے واقف ہے ”۔
یہ (غالباً)وہی پرچہ ہے جس میں نظم ”بہشتی زیور ” کے عنوان سے شائع ہوئی تو مولانا اشرف علی تھانوی نے اس نظم کو اپنی معروف کتاب کے دیباچے کے عنوان کے آخر میں لکھا ۔مولانا اشرف علی تھانوی بہشتی زیور کے مقدمہ میں رقم طراز ہیں :”میں جس وقت یہ دیباچہ لکھنے کو تھا ، پرچہ” نور علی نور” میں ایک نظم اس کتاب کے نام مضمون کے مناسب نظر سے گزری جو دل کو بھلی معلوم ہوئی ، جی چاہا کہ اپنے دیباچہ کو اسی پر ختم کروں تاکہ ناظرین خصوصاً لڑکیاں دیکھ کر خوش ہوں اور مضامین کتاب ہذامیں ان کو زیادہ رغبت ہو بلکہ اگر یہ نظم اس کتاب کے ہر حصے کے شروع پر ہوتو قند ِمکرر کی حلاوت بخشے ، وہ نظم یہ ہے :
اصلی انسانی زیور
ایک لڑکی نے یہ پوچھا اپنی اماں جان سے
آپ زیور کی کریں تعریف مجھ انجان سے
کون سے زیور ہیں اچھے یہ جتا دیجیے مجھے
اور جو بد زیب ہیں وہ بھی بتا دیجیے مجھے
تاکہ اچھے اور برے میں مجھ کو بھی ہو امتیاز
اور مجھ پر آپ کی برکت سے کھل جائے یہ راز
یوںکہا ماں نے محبت سے کہ اے بیٹی مری
گوش دل سے بات سن لو زیوروں کی تم ذری
سیم و زر کے زیوروں کو لوگ کہتے ہیں بھلا
پر نہ میری جان ہونا تم کبھی ان پر فدا
سونے چاندی کی چمک بس دیکھنے کی بات ہے
چار دن کی چاندنی اور پھر اندھیری رات ہے
تم کو لازم ہے کہ کرو مرغوب ایسے زیورات
دین و دنیا کی بھلائی جس سے اے جاں آئے ہاتھ
سر پہ جھومر عقل کا رکھنا تم اے بیٹی مدام
چلتے ہیں جس کے ذریعہ سے ہی سب انساں کے کام
بالیاں ہوں کان میں اے جان گوش ، ہوش کی
اور نصیحت لاکھ تیرے جھمکوں میں ہو بھری
اور آویزے نصائح ہوں کہ دل آویز ہوں
گر کرے ان پر عمل تیرے نصیبے تیز ہوں
کان کے پتے دیا کرتے ہیں کانوں کو عذاب
کان میں رکھو نصیحت دیں جو اوراق کتاب
اور زیور گر گلے کے کچھ تجھے درکار ہوں
نیکیاں پیاری مری تیرے گلے کا ہار ہوں
قوت بازو کا حاصل تجھ کو بازو بند ہو
کامیابی سے سدا تو خرم و خرسند ہو
ہیں جو سب بازو کے زیور، سب کے سب بے کار ہیں
ہمتیں بازو کی اے بیٹی تری درکار ہیں
ہاتھ کے زیور سے پیاری دستکاری خوب ہے
دستکاری وہ ہنر ہے سب کو جو مرغوب ہے
کیا کرو گی اے مری جاں زیور خلخال کو
پھینک دینا چاہیے بیٹی بس اس جنجال کو
سب سے اچھا پائوں کا زیور یہ ہے نور بصر
تم رہو ثابت قدم ہر وقت راہ نیک پر
سیم و زر کا پائوں میں زیور نہ ہو تو ڈر نہیں
راستی سے پائوں پھسلے گر نہ میری جاں کہیں
قاری نور محمد حقانی کا انتقال 1343 ہجری مطابق 1925 عیسوی میں ہوا۔ان کے بعد ان کے چھوٹے بیٹے احمد حسن نے مدرسے کے نظم و نسق کو سنبھالا ۔ احمد حسن 1947کے بعد پاکستان کے شہر فیصل آبا د منتقل ہو گئے اوروہاں بھی انہوںنے ایک مدرسہ قائم کیاجواب تک قرآنی علوم کی اشاعت میں اپنا کردار ادا کررہا ہے ۔(اشتیاق کے باوجود راقم کافیصل آباد میں مقیم اس خانوادے سے براہ راست تعارف نہ ہو سکا ۔)قاری صاحب عمر بھر مدرسہ ، مکتبہ اور رسالہ کی مفید اور جان دار سرگرمیوں میں مصروف رہے۔ قاری نور محمد حقانی کو شہرت دوام اُن کے قاعدے سے حاصل ہوئی ۔ قاعدہ عربی زبان میں بنیاد کے لیے استعمال ہوتاہے ۔ اس کی جمع قواعد ہے ۔ چونکہ اس طرح لکھے گئے قاعدہ جات ناظرہ قرآن کی نبیاد بنتے ہیں اس وجہ سے ان کو قاعدہ کہا جاتا ہے ۔ نورانی قاعدہ سے قبل بھی متعدد قاعدہ جات معروف رہے ہیںجن میں بغدادی قاعدہ سر فہرست تھا ۔بانی تبلیغی جماعت مولانا الیاس کے والد مولانا اسماعیل کاندھلوی نے مولانارشید احمد گنگوہی سے بیعت کی درخواست کی۔ حضرت گنگوہی نے ان کی درخواست یہ کہہ کر مسترد کردی کہ”آپ کو اس کی حاجت نہیں، جو اس طریق سلوک اور ان ذکر و اذکارکامقصود ہے ، وہ آپ کو حاصل ہے، اس کی مثال ایسی ہے کہ کوئی شخص قرآن مجید پڑھنے کے بعد یوںکہے کہ قاعدہ بغدادی میں نے نہیں پڑھا ، اس کو بھی پڑھ لوں”(بحوالہ مولانا الیاس اور اُن کی دینی دعوت) ۔مولانا اسماعیل کاندھلوی کا انتقال 26فروری 1898ء کو ہوا ۔ بغدادی قاعدہ اس کے بعد بھی مکاتب کا حصہ رہا ہے ۔ مفتی تقی عثمانی 1947ء کے آس پاس کا واقعہ تحریر کرتے ہیں:
”پھوپی امة الحنان کا گھریلو مکتب :
ہم جس محلے میں آباد تھے ، اس میں اُس چوک کے قریب جس کا ذکر میں نے پہلے کیا ہے ، ہمارے خاندان کی ایک بزرگ خاتون کا قیام تھا جن کا نام امة الحنان تھا، اور ہم انہیں پھوپی کہا کرتے تھے،(مصنف نے پھوپھی کے بجائے پھوپی ہی لکھا ہے ،حامد) کیونکہ وہ حضرت والد صاحب ، رحمة اللہ علیہ ، کی رشتے کی بہن تھیں ۔ اُن کا گھر کیا تھا؟ خاندان بھر کے ، بلکہ دور دور کے بچوں کی ایسی تعلیم گاہ تھی جس میں کئی کئی پشتوں نے اُن سے تعلیم حاصل کی تھی۔ وہ کہنے کو تو بچیوں اور بہت چھوٹے بچوں کو قرآن شریف ناظرہ پڑھاتی تھیں ،لیکن در حقیقت وہ بچیوں کو قرآن شریف کے علاوہ بہشتی زیور کے ذریعے وہ سب کچھ پڑھادیتی تھیں جس کی انہیں شادی کے بعد تک ضرورت ہوتی، اور نہ صرف نظریاتی طور پر پڑھا دیتی تھیں ، بلکہ اُس کی عملی تربیت بھی دیتی تھیں۔ یہی اُن کا مشغلہ تھا، اور یہی اُن کاشوق ، جس کے ذریعے انہوں نے سینکڑوں بچوں اور بچیوں کوانسانیت سکھادی تھی۔ ہماری سب بڑی بہن س لے کر مجھ تک ، سب نے اُن سے پڑھا تھا۔ میں ابھی اسی قابل تو نہ ہوا تھا کہ اس تعلیم گاہ کا باقاعدہ شاگرد بنوں ، لیکن میرے والدین مجھے غیر رسمی طور پر قاعدۂ بغدادی دے کر اُن کے گھر بھیج دیتے تھے ، اور اس طرح قاعدہ ٔبغدادی کا آغاز میں نے اس گھریلو مکتب میں کیا، جہاں محترمہ امة الحنان صاحبہ، رحمة اللہ علیہا ، اپنی کڑک دار آواز میں تعلیم و تربیت کے فرائض بڑی تندہی سے انجام دیتی تھیں۔یہ ساری باتیں مجھے یاد ہیں ، اور اس کے علاوہ بھی بہت سی باتیں جوشاید قارئین لے لیے کسی دل چسپی یا فائدے کی حامل نہ ہوں۔ اس وقت میر ی عمر کیا تھی؟ میں یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتا، لیکن ساڑھے چار سال سے یقینا کم تھی، کیونکہ پانچ سال کی عمر پوری ہونے سے پہلے ہی ہم دیوبند سے پاکستان روانہ ہو گئے تھے۔ (ماہنامہ البلاغ 1439 ھ)۔
راقم کو تلاش کے باوجود قاعدہ بغدادی کا کوئی نسخہ نہ مل سکا۔نورانی قاعدے کی ترویج کے بعد یہ قاعدہ اب دیکھنے کو بھی نہیں ملتا۔ نورانی قاعدے کے مصنف نے ہر باب کو ایک تختی کانام دیا ہے اور ا س میںکل 17 تختیاں ہیں جن میں حروف تہجی، مفردات اور مرکبات کے تمام بنیادی اصول شامل ہیں۔ نورانی قاعدہ بہت نافع تھا لیکن مشقیں اجمالی تھیں۔ ایک ہی زمین پر متعدد امور کی مشقیں درج تھیں، اس کے علاوہ مزید ضروری قواعد و فوائد کے اضافہ کے ساتھ اسے محمد ابرار الحق حقی نے مرتب کیا۔محمد ابرار الحق حقی (پیدائش: 1339ھ مطابق 20 دسمبر 1920ء )شاہ عبد الحق محدث دہلوی کی اولاد میں نمایاں فرزندتھے۔ یہ خاندان علاؤ الدین خلجی کے زمانے میں ترکی سے ہندوستان آیا تھا۔ ابرار الحق کی ولادت قصبہ پلول میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم ہردوئی میں انوار احمد انبیٹھوی سے حاصل کی، یہیں ناظرہ و حفظ قرآن کی تکمیل کی اور بعدہ مظاہر علوم میں داخلہ لیا۔ 1357 ہجری میں اعلی نمبرات سے کامیابی حاصل کی۔مظاہر علوم سہارن پور کے درخشاں فاضل اور سلسلہ چشتیہ کے مشہور زمانہ عالم و داعی ، نیز مشرب تھانوی کے قولی و عملی ترجمان اور نمونہ حقیقی سمجھے جاتے تھے۔ ہندستانی مسلمانوں میں متعدد فکری، تعلیمی و اصلاحی کاموں کے محرک و بانی تھے۔محمد زکریا کاندھلوی، منظور احمد خاں، عبد الرحمن کیملپوری، اسعد اللہ رامپوری ان کے مشہور اساتذہ میں سے ہیں۔مولانا محمد یوسف کاندھلوی اورمولانا انعام الحسن کاندھلوی، محمد ابرار الحق کے درسی ساتھی تھے۔ ان کے والد محمود الحق ہردوئی خانقاہی ذہن کے تھے اورمولانا اشرف علی تھانوی کے مجاز صحبت خلیفہ تھے، اس لیے گھر کا ماحول بھی دین دارانہ تھے۔ طالب علمی میںمحمد ابرار الحق، مولانا اشرف علی تھانوی سے بیعت ہو گئے تھے۔ چونکہ خانقاہ میں بے ریش نوجوانوں کو ٹھہرنے کی اجازت نہ تھی، اس لیے تھانہ بھون میں کسی عزیز کے یہاں قیام کرتے۔ فطری صلاحیت اور وہبی کمالات اعلی درجہ کے تھے اس لیے 22 سال کی عمر میں ہی خلافت سے نوازے گئے۔ انتقال کے بعدخواجہ عزیز الحسن مجذوب، وصی اللہ الہ آبادی، محمد احمد پرتاب گڑھی اور محمود الحسن گنگوہی رحمہم اللہ سے یکے بعد دیگرے استفادہ کا تعلق رہا اور نیاز مندانہ ان کے یہاں حاضری دیتے رہے۔فراغت کے بعد اولا مظاہر علوم سہارن پور میں بحیثیت معین مدرس منتخب ہوئے۔ وہاں سے نکل کر مدرسہ اسلامیہ فتح پور میں منصب تدریس پر فائز رہے۔ اس کے بعد جامع العلوم کان پور میں تدریس کے لیے چلے آئے۔ انداز تدریس و طریق تعلیم نہایت سہل و د ل نشیں تھا جس کی وجہ سے خاصے مقبول رہے۔بیرون وطن چند سال تدریس کے بعد اپنے مرشد مولانا اشرف علی تھانوی کے مشورہ سے ہردوئی میں شوال 1362 ہجری میں مدرسہ اشرف المدارس کی بنیاد رکھی اور خلوص کی برکت اور تعلیم و تربیت کے معیار کے سبب مدرسہ چند سالوں میں معیاری مدراس کی فہرست میں شامل ہو گیا۔ دوران طالب علمی میں ابرار الحق حقی نے مشہور زمانہ قاری عبد الخالق مکی سے سات آٹھ برس مسلسل فن تجوید کو حاصل کیا تھا۔ نیز اشرف علی تھانوی کے یہاں بھی اس کا نہایت اہتمام تھا۔ اس لیے انہوں نے بھی میدان عمل میں آکر قرآن کی خدمت کا بیڑا اٹھایا، اس کی اہمیت و عظمت اور ادائے حقوق کی مسلسل تحریک چلائی اور اسی کے مد نظر نورانی قاعدہ کو ترمیم و اضافہ کے ساتھ شائع کیا اور تادم آخر خدمت قرآن کی اس تحریک کے داعی رہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بڑے چھوٹے تمام مدارس نے اس نظام کی نقل کی یا کم از کم اس پر حساس ہوکر خود عمدہ نظام تجویز کرنے پر آمادہ ہوئے۔محی السنہ مولاناابرارالحق 8 ربیع الثانی 1426 ہجری مطابق 17 مئی 2005 شب 8 بجے ہردوئی میں انتقال کیا اور ہردوئی کے عام قبرستان میں ان کی تدفین عمل میں آئی۔
حضرت مولانا ابرار الحق حقی کے کیے گئے اضافوں کے بعد اس کی کل 28 تختیاں ہوگئیں۔ چونکہ یہ ترمیم و اضافہ جدید طرز اور بچوں کی نفسیات سے ہم آہنگ اور قریب تر تھا، اس لیے اب پورے ہندوستان میں انہی کا مرتب کردہ نورانی قاعدہ رائج ہے۔ بھارت میں اس کی افادیت و مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ دار العلوم دیوبند، مظاہر علوم سہارنپور، دار العلوم ندوة العلماء اور مجلس دعوة الحق ہردوئی جیسے بڑے تعلیمی اداروں اور اِن کے تمام ملحقہ مدارس میں یہی قاعدہ طلبہ میں رائج ہے۔نورانی قاعدہ کی افادیت کو محسوس کرتے ہوئے حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی اورحضرت عبد الرحیم رائے پوری نے اپنے متعلقین کو اسی نظام اور قاعدہ کو اپنے یہاں رائج کرنے کا پابند کیا اور اس طرح اس قاعدے کے مقبولیت میں مزید اضافہ ہو گیا۔
پاکستان کے دینی مدارس اور مساجد میں یہی قاعدہ ناظرہ قرآن کی بنیاد ہے ۔ متعدد مشاہیر نے نورانی قاعدہ سے ہی اپنی دینی تعلیم کا آغاز کیا۔ حال ہی میں شہید کیے گئے معذور اورمعروف عالم دین مولانا اسلم شیخوپوری شہید اپنی بچپن کی یادیں تازہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:” میں تین سال کا تھاجب مجھ پر فالج کا اٹیک ہوا اور میں ہمیشہ کے لیئے چلنے پھرنے سے معذور ہو گیا۔ سارا بچپن فالج سے مقابلہ کر تے ہو ئے گزر گیا ، حملہ بہت سخت تھا اور میں زندگی بھر کے لیئے وہیل چیئر پر منتقل ہو گیا۔پڑھنے لکھنے کا بہت شوق تھا، میں ہر لمحہ پڑھنے کے لیئے بے چین رہتا تھا ، اپنی فالج زدہ ٹانگوں کے ساتھ کئی کئی کلو میٹر دور اسکول پڑھنے کے لیئے جاتا تھا۔ میں اپنی معذوری کی بنا پر سب سے الگ تھلگ رہتا تھا ، دوست اور ساتھی اکثر اسے نظر انداز کر دیتے تھے مگر کبھی کسی سے گلہ شکوہ نہیں کرتا تھا۔ اپنی معذوری کامجھے احساس تھا لیکن میں نے کبھی اس احسا س کو اپنی ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننے دیا۔ میں ایک رسمی مسلمان گھرانے میں پیدا ہو اتھا ،اسکول کے ساتھ محلے کی مسجد میں نورانی قاعدہ بھی پڑھنا شروع کر دیاتھا۔اس نے چوتھی جماعت سے اسکول چھوڑ کر قرآن حفظ کر نا شروع کر دیا ،وہ اس میدان میں بھی سب سے آگے تھا ،وہ سب سے پہلے سبق،سبقی اور منزل سنا کر فارغ ہو جاتا تھا”۔
صحافی محمد شجاع الدین اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: نویں جماعت کے طالب علم کا اعتکاف میں بیٹھنا فی زمانہ کچھ عجیب لگتا ہے، لیکن بات آج سے قریباً چالیس پینتالیس برس پرانی ہے، جب مسجد کو محلے کا ایک حصہ گردانا جاتا تھا نہ کہ مقفل عبادت گاہ۔ میں زندگی میں پہلی مرتبہ اعتکاف بیٹھا تھا۔ عشرہ مبارک میں عبادتوں کی کثرت معمول رہی۔ روزے کے ساتھ گرمی کی دوپہر میں اینٹوں سے بنا مسجد کا فرش دھونا، اذان سے پہلے لاوڈ اسپیکر کے مائیک پر قبضہ جمالینا، تکبیر اولیٰ کے لیے عین امام صاحب کے پیچھے صف میں کھڑا ہونا بھی فرض سمجھ کر پورا کیا۔ عید کا چاند نظر آیا تو والد مرحوم کی خوشی دیدنی تھی۔ گلاب اور موتیے کے ہار لیے مسجد پہنچے، گلے لگایا، ماتھا چوما اور خوبصورت ریشمی رومال تحفے میں دیا۔ بزرگ ہستیوں کی نسبت ایمان کی حرارت کو جلا بخشتی ہے۔ حضرت مولانا احمد علی لاہوری کے خانوادے سے تعلق کی اثر پذیری تھی کہ گھر میں مذہبی ماحول غالب رہا۔ کلمہ اور قرآن کا اک اک حرف جیسے سانس کی لڑی کا جزولاینفک بن گیا۔ ددھیال اور ننھیال کے ہم عمر لڑکوں میں، مَیں مولوی سمجھا جاتا۔ اسکول کے زمانے میں ناشتہ چھوٹ جائے تو خیر لیکن ہر صبح نماز فجر کے بعد سورة یٰس، سورة رحمٰن، نوح، مزمل اور سورة التغابن کی قرأت ضروری تھی۔ آیت الکرسی میرا اوڑھنا بچھونا بن گئی۔ کوئی ناغہ نہ ہونے کے باعث سبق حفظ ہوگیا۔ سانس کی رفتار کے ساتھ زبان کا ورد جاری رہتا۔شعور کی پہلی منزل پر نظر دوڑائوں تو تین چار برس عمر ہوگی، جب ایک روز بادل جم کر برسے۔ والد صاحب گھر سے باہر تھے۔ میرے ننھے دل کو دھڑکا لگا کہ ابا جی واپس کیسے آئیں گے۔ اللہ کے نام والا نورانی قاعدہ ہاتھ میں لیے برآمدے میں آن کھڑا ہوا۔ آسمان کی طرف منہ کرکے کلمہ پڑھا اور پکارا۔ اللہ میاں جی بارش تھم جائے۔ اور پھر، آسمان سے برستا پانی دور فضا میں ہی کہیں تحلیل ہوگیا۔ کم سنی میں کہے کلمے کی طاقت دل کو تقویت بخشتی ہے۔
پاکستان کے سرکاری تعلیمی نظام میں ناظرہ قرآن کے لیے بھی نورانی قاعدہ کو ہی شامل نصاب کیا گیا ہے ۔ 29جون 2016 کی ایک خبر کے مطابق وزیرمملکت وفاقی تعلیم و تربیت بلیغ الرحمن نے پرائمری تعلیم تک ناظرہ قرآن کی تعلیم کو لازمی قرار دے دیا ہے اور چھٹی جماعت سے بارہویں جماعت تک قرآن پاک بمع ترجمہ لازمی قرار دے دیا۔ بلیغ الرحمن نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہبلیغ الرحمن نے کہا کہ پرائیویٹ سکولوں پر اس کی کوئی پابندی نہیں ہو گی لیکن ہم ایکٹ آف پارلیمنٹ بنا رہے ہیں جس میں تمام پرائیویٹ اور گورنمنٹ سکولوں میں قرآنی تعلیم لازمی کر دی جائے گی۔انہوں نے کہا کہ پہلی جماعت میں نورانی قاعدہ پڑھایا جائے گا۔ دوسری جماعت میں پہلے دو پارے پڑھائے جائیں گے، تیسری جماعت میں 6پارے چوتھی جماعت میں اگلے 10سپارے پانچویں جماعت میں آخری 12پارے پڑھائے جائیں گے اور اسطرح ایک طالب علم پرائمری تک ناظرہ قرآن مکمل پڑھ لے گا اور چھٹی جماعت سے طلبا کو قرآن پاک کا ترجمہ شروع کروایا جائے گا اور بارہویں جماعت تک مکمل کر لیا جائے گا اور یہ تعلیم امتحانات کا حصہ نہیں بنے گی۔
پاکستان میں متعدد غیر سرکاری ادارے بھی اپنے مکاتب اور مدارس میں نورانی قاعدہ کی تعلیم جاری رکھے ہوئے ہیں ۔پاکستان میں بھی متعدد ادارے نورانی قاعدے کی تدریس کے حوالے سے تربیتی کورسز کا انعقاد کرتے رہتے ہیں ۔ جمعیت تعلیم القرآن ٹرسٹ (کراچی )نے اس حوالے سے قابل قدر کام کیا ہے ۔ٹرسٹ جمعیت تعلیم القرآن کا بنیادی مقصد امت مسلمہ کے بچوں کو تجوید اور دست مخارج کے ساتھ ناظرہ حفظ القرآن پڑھانا اور ابتدائی دینی تعلیم و تربیت دینا ہے۔ ساتھ ہی اخلاق اور اصلاح پر بھی توجہ دی جاتی ہے۔ 1969ء سے ایک مکتب سے آغاز ہوا اور آج ا س کے صوبہ سندھ، بلوچستان، پنجاب، خیبر پختون خواہ، گلگت و بلتستان اور آزاد کشمیر کے علاوہ ملک کی 72جیلوں میں 2000سے زائد مدارس ہیں۔ ایک لاکھ سے زائد بچے، بچیاں، مرد، خواتین اور بچہ قیدی ٹرسٹ کے زیر اہتمام قرآن مجید کی تعلیم کے ساتھ ابتدائی تعلیم و تربیت حاصل کررہے ہیں۔ کراچی کی خواتین جیل میں ٹرسٹ کے شعبہ خواتین کے ذریعہ قیدی خواتین کو تعلیم القرآن دی جاتی اور ان کی اخلاقی تربیت کی جاتی ہے۔گزشتہ دنوں اڈیالہ جیل میں جمعیت تعلیم القرآن ٹرسٹ کے زیر اہتمام اسیران کا سالانہ امتحان ناظرہ قرآن پاک ، ترجمہ قرآن ، حفظ قرآن اور دیگر کورسزکے امتحان منعقد ہوئے جن میں 351 اسیران نے شرکت کی۔ سزائے موت کے چھ اسیران نے ترجمہ ، 15 نے ناظرہ کورس مکمل کیے۔ جمعیت کے زیر انتظام معلمین کے لئے طریقہ تدریس پر مبنی کورسز کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے ۔ مکتب تعلیم القرآن (کراچی)کے زیر انتظام تربیتی نشستوں میں اساتذہ کو بلیک بورڈ اپر نورانی قاعدہ کی تدریس کی تربیت دی جاتی ہے ۔ قاری محمد غفران(جہلم)بھی متعدد مدارس میں یہ تربیتی کورسز جاری رکھے ہوئے ہیں۔
بھارت کے بھی مشہور مدارس میں یہی قاعدہ نصاب کا حصہ ہے ۔ معروف عالم دین مولانا اسرار الحق( ایم پی اے) نے دارالعلوم اسراریہ، فقیر باڑہ میں خطاب کے دوران کہا کہ قرآن کریم سے دوری کی وجہ سے آج مسلمان ہر محاذ پر ناکامی سے دوچارہورہے ہیں ۔ریاستی وزیر و صدر جمعیة مولانا صدیق اللہ چودھری نے اپنے سبق آموز خطاب کے دوران کہا کہ اس مدرسہ کے کم عمر طلبہ نے علمائ، ائمہ اور ہزاروں کے مجمع میں ٹھوس یاد داشت اور صحت قواعد و مخارج کے ساتھ مختلف سوالا ت کے جوابات دیے ہیں جس سے قلبی خوشی ہوئی۔ انہوںنے کہا کہ شہر اور سہولتوں سے دور پس ماندہ آبادی میں قائم اس طرح کے اداروں پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ ٹیپو سلطان مسجد کے امام مفتی عبدالشکور مظاہری نے کہایہاں نورانی قاعدہ اور تجوید کی رعایت کے ساتھ حفظ قرآن کا ٹھوس نظام ہے ۔
قوم وملت کے ہر فرد کو تجوید کے ساتھ قرآن مجید سکھلانے اور دین کی ابتدائی بنیادی باتوں سے واقف کرانے کی غرض سے شہر نظام آباد میں جید مفتیان کرام اور علماء وحفاظ پر مشتمل جماعت نے گذشتہ دوسال قبل اس تنظیم کی بنیاد ڈالی اور ریاست وشہر کے اکابرعلماء کی نگرانی میں اپنے تمام امور انجام دیتے ہوئے آج پورے شہر کے مختلف علاقوں میں 14سنٹرز قائم کیے۔ روزآنہ ایک گھنٹہ بعد نماز مغرب تا عشاء 269طلبہ وطالبات کو تجوید کے ساتھ نورانی قاعدہ وناظرہ قرآن کے علاوہ اسلامی جنرل نالج کی ضروری تعلیم کا انتظام ماہر اساتذہ کے ذریعہ کررہی ہے واضح رہے کہ اس ادارہ میں یونیفام اور فیس کا لزوم ہے گھر گھر جاکر دینی تعلیم پڑھانے کو یہاں معیوب سمجھا جاتا ہے۔
نورانی قاعدہ اس وقت ہندستان ، پاکستان ، افغانستان ، بنگلا دیش ، سری لنکا اور جنوبی افریقا میں پڑھایا جارہا ہے۔ انٹر نیٹ پر یورپ کے طلبہ وطالبات کو بھی قران سکھانے کے لیے اسی قاعدے کی مدد لی جاتی ہے ۔دل چسپ حقیقت یہ ہے کہ انٹر نیٹ پر پڑھانے والے اساتذہ اکثر و بیشتر پاک و ہند سے تعلق رکھتے ہیں اس لیے قاعدہ کو پڑھایا بھی اردو میں جاتا ہے ۔ جیسے” بَ ”کو با زبر بَ پڑھا یا جاتا ہے چاہے طالب علم کی مادری زبان کوئی بھی ہو۔نورانی قاعدہ کو دیگر عالمی اور زندہ زبانوں میں بھی منتقل کیا گیا اوراس پر مزید کام بھی جاری ہے۔ ادارہ اشاعت دینیات (دہلی) نے اس کا انگریزی ترجمہ بھی شائع کیا ہے، جس سے انگریزی خواں طبقہ کو بہت سہولت ہو گئی ہے۔بھارت کے شہر چینائی میں ایک تنظیم نے اسے بریل کوڈ میں بھی شائع کیا ہے۔ اس کے علاوہ تامل، گجراتی اور بنگلہ زبانوں میں بھی اس کے تراجم ہو چکے ہیں۔اب تک اسے دو لوگوں نے معمولی فرق کے ساتھ عربی میں ترجمہ کیا ہے۔ پہلا عربی ترجمہ”قاعدة النور” کے نام سے 1415ھ میں مدرسہ صولتیہ مکہ مکرمہ کے استاد سعید احمد عنایت اللہ نے کیا جو مکتبہ امدادیہ مکہ سے شائع ہوا، اس کے اب تک متعدد ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔
دوسرا عربی ترجمہ”القاعدة النورانی” کے نام سے محمد فاروق الراعی ( پیدائش 1386ھ ) نے کیا ہے جو مصنف کے نواسے لگتے ہیں ۔ محمدفاروق کی والدہ ، قاری نور محمدکی پوتی ہیں ۔ انہوں نے 11سا ل کی عمر میں مدینہ میں حفظ قرآن کی سعاد ت حاصل کی ۔ محمدفاروق نورانی قاعدہ کی اہمیت سے آگاہ ہونے کا واقعہ اس طرح بیان کرتے ہیں : ”میں کچھ علماء سے ملا جو جدہ میں حفظ قرآن کے ایک مدرسہ کے مہتمم ہیں ۔ وہ کسی ایسی کتا ب کی تلاش میں تھے جو قرآن کریم ناظرہ سیکھنے میں معاون ثابت ہو ۔ دوسری جانب میں خود بھی دبئی میںایسے عرب افرادسے مل چکا تھا جو عرب ہوتے ہوئے بھی عربی کی بجائے انگریزی بولتے۔ وہ عربی پڑھ سکتے ہیں اور نہ ہی بول سکتے ہیں۔ میں نے اپنی والدہ سے مشاورت کی تو انہوںنے مجھے نورانی قاعدہ دیکھنے کا مشورہ دیا۔ جب میںنے اس کو دیکھا تو بہت ہی مسرور ہوا، یہ قاعدہ ہمارے بچوں کو عربی زبان میں ابتداکرنے میں بہت معاون ثابت ہوا۔ میں تب آج تک اس قاعدہ کی تدریس کررہا ہوں ۔ا س کے بعد میںنے اس قاعدہ کے بارہ میں شیخ ابراھیم الاخضر (مسجد نبوی) اور جدہ کے معروف قاری دکتور ایمن رشدی سوید سے بھی مشاورت کی ۔ انہوںنے بھی اس قاعدہ کو پسند کیاا ور اس کی تدریس جاری رکھنے کا حکم دیا۔ میں تب سے اپنے ادارے ”مرکز الفرقان لتعلیم القرآن” میں ا سں کی تدریس جاری رکھے ہوئے ہوں” ۔ محمد فاروق الراعی نے اس کا پہلا ایڈیشن 1419ھ میں طبع کیا، اس کے بھی اب تک متعدد ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔ محمد فاروق الراعی اس حوالے سے مختصر تربیتی ورکشاپ کا انعقاد بھی کرتے رہتے ہیں۔
قرآن مجید کو سیکھنے سکھانے کے لیے جو قاعدے مرتب کیے گئے ہیں، ان سب میں نورانی قاعدہ نہایت مقبول و معروف کتابچہ ہے ۔ کوئی شخص اگر اہل علم کو دین سکھلائے تو اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ مفتیان کرام کو بھی نورانی قاعدہ پڑھانے سے باز نہیں آتے۔قاعدے کی یہ مقبولیت متعدد وجوہ کی بناء پر ہے ۔ (1)نورانی قاعدے کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ ا س کے اسباق میں ایک تدریجی تسلسل موجود ہے ۔ سب سے پہلے الگ الگ حروف کی تختی ہے ۔ پھر حروف کو دوسرے کے ساتھ جوڑ کر ا س کی مختلف شکلیں واضح کی گئی ہیں۔ اس کے بعد اعراب والاحصہ شروع ہو جاتا ہے جس میں زیر ، زبر اور پیش شامل ہیں۔ اعراب والے حصے کو ہجے اور جوڑ والا حصہ کہا جاتا ہے ۔اس کے بعد جزم سکون ، شد اور مد کا حصہ شامل ہے ۔ آخر میں یہ تسلسل بڑھتا ہوا مشکل ترین الفاظ تک جا پہنچتا ہے ۔ان میں متعدد ایسے الفاظ بھی شامل ہیں جن کو جوڑ کر ہم اب تک ایک طریقے سے نہیں پڑھ سکتے ۔ ایک دفعہ ایک طریقے سے جوڑ کرتے ہیں اور دوسری دفعہ دوسرے طریقے سے۔ (2)مؤلف نے اس قاعدے میں تمام الفاظ قراٰن کریم سے لیے ہیں۔ اس کے برعکس بغدادی قاعدہ کے تما م الفاظ قرآن کریم سے نہیں لیے گئے بلکہ کچھ الفاظ تو ایسے بھی ہیں جو سرے سے عربی زبان میں ہی موجود نہیں ۔ (3) لیکن بغدادی قاعدہ کے مصنف کا نام وغیرہ معلوم نہیں تھا کہ یہ کس کی تصنیف ا ور کاوش ہے۔اہل علم کے ہاں اصول ہے کہ علم اہل اور معروف لوگوں سے حاصل کرنا چاہیے ۔(4)نیز اس کی خصوصیت ہے کہ یہ تجویدی احکام کو بھی جامع ہے ۔ تجوید کے اہم مسائل اس قاعدہ کو پڑھنے کے بعد خود بخود زبان پر جاری ہو جاتے ہیں ۔لاہور سے تعلق رکھنے والے قاری سید حبیب اللہ شاہ نے ادارہ سادات کے زیر اہتمام نورانی قاعدہ کو رنگوں میں شائع کیا ۔ انہوں نے پہلی مرتبہ تجویدی قوانین کو رنگوں سے واضح کیا ۔راقم سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتلایا کہ” ہمارے اسا تذہ مختلف رنگوں کے قلموں سے تجویدی قوانین کی تفہیم کے لیے نشان لگا کردیا کرتے تھے ۔ جب میں نے تدریس کا آغاز کیا تو سوچا کہ اب کمپیوٹر کا زمانہ ہے ، کیوں نہ اس طرز تدریس کو کمپیوٹر کے ذریعے واضح کیا جائے ۔ چنانچہ میں نے دوستوں سے اس موضوع پر مشاورت شروع کردی لیکن اکثر اکثر نے اس منصوبے کی کام یابی پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا۔ البتہ میں نے ہمت نہ ہاری اورمیں اس سلسلے کو آگے بڑھاتا رہا۔ پھر جب رنگین نورانی قاعدہ شائع ہو کر عوام کے سامنے آیا تو ہا تھوں ہاتھ لیاگیا”۔ اس کے بعد یہ اشاعت مروج ہوگئی اور شہری علاقوں میں آج کل یہی اشاعت رائج ہے ۔
طلبہ کو نورانی قاعدہ پڑھانے میں مدد و سہولت کے لیے متعدد کتب بھی تصنیف کی گئی ہیں، خود مولف نے ایک کتاب تحریر کی تھی جس کا نام ”نورانی قاعدہ مع طریقہ تعلیم” رکھا۔ علاوہ ازیں ”طریقہ تعلیم” کے نام سے محمد بلال میرٹھی نے ایک کتاب لکھی ہے جو اسے پڑھنے پڑھانے والوں کے لیے نہایت مفید ہے۔ نیز محمد عبد القادر جیلانی نے بھی ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام”نورانی قاعدہ کیسے پڑھیں اور پڑھائیں”ہے، یہ کتاب مکتبہ صدیقیہ (رائے ونڈ، لاہور) سے شائع ہوئی ہے۔