حجۃ الاسلام امام محمد قاسم نانوتویؒ کی تصانیف
امام محمد قاسم نانوتویؒ نے مختلف موضوعات پر اپنا قلم اٹھایا ۔ آپ کی تصانیف نہایت علمی اور تحقیقی ہیں۔آپکی تصانیف علم کلام سے لبریز ہیں۔ اسکے علاوہ آپ نے اپنی تصانیف میں جدید فلسفۂ اسلامی کی بنیاد رکھی۔ علم کلام کی گہرائی اور فلسفۂ دین کے سبب حضرت الامامؒ کی تصانیف عام فہم نہیں ہیں۔ یہاں تک کہ علماء کا وہ طبقہ جو علمِ کلام پر گہری نظر نہیں رکھتا اس طبقے کے لئے بھی امام نانوتویؒ کی تصانیف کو سمجھنا آسان نہیں ہے۔ امام نانوتویؒ کی باقاعدہ تصانیف کی علمی نوعیت اور علمی حلقے میں انکے مقام کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ کے ذاتی مکتوبات گرامی ہی کس قدر علم کی گہرائی لئے ہوئے ہیں، اکثر مکتوبات گرامی ہی بعد میں تالیفات اور تصانیف کی شکل میں شائع بھی کئے گئے اور انکو شائع کرنے والے ان مکتوبات کے مکتوب الیہ ہی ہیں جو ان مکتوبات کے انتہائی اعلی علمی مندرجات سے بے پناہ متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔
مولانا نورالحسن راشد کاندھلوی کے الفاظ میں(قاسم العلوم حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ ،احوال و آثاروباقیات ومتعلقات ص۶۹۱):
’’علمی موضوعات پر جو گرامی نامے تحریر فرمائے ہیں انکے مباحث میں بڑا تنوع اور وسعت ہے، ان میں اسرار دین و شریعت کی گفتگوہے،تفسیر و حدیث کے نکات کی گرہ کشائی فرمائی گئی ہے،فقہی مسائل بھی زیر قلم آئے ہیں۔تراویح و قرأت ضاد(ض)،جمعہ اور اس دور میں موضوع بحث بنے ہوئے مسائل پر بھی توجہ فرمائی گئی ہے۔ہندوستان کی شرعی حیثیت اور اس کے دار الحرب ہونے نہ ہونے اور یہاں عقود فاسدہ پر بھی اظہار خیال فرمایا گیا ہے۔شرک و بدعت کے کلیدی مباحث کو بھی واضح کیا گیا ہے،مختلف دینی فرقوں کے نظریات کا بھی جائزہ لیا گیا ہے،امکان نظیر کے واضح دلائل تفصیل سے لکھے ہیں،امتناع نظیر کے ماننے والوں کے دلائل کا علمی تجزیہ فرمایا ہے۔ردشیعت پر بھی خاص توجہ ہے،خلافت وامامت اور باغ فدک وغیرہ کے مشہور اختلافی موضوعات کا بھی علمی،عقلی جائزہ لیاہے۔مسلمانوں کے بگاڑ و زوال کے اسباب کا ذکر ،اوراپنوں کی اندرونی کمزوریوں پر بھی کہیں کہیں احتساب کیا ہے۔غرض بیسیوں موضوعات و مباحث ہیں جو ان مکتوبات میں زیر قلم آئے ہیں، لیکن ہر ایک کی جامعیت، مضامین کی فراوانی اور دلائل کی گہرائی وگیرائی کا یہ عالم ہے کہ ہر تجزیہ منفرد اور ہر بحث حرف آخر معلوم ہوتی ہے۔‘‘
حضرت الامامؒ کی زیادہ تر تصانیف کتب و رسائل کی شکل میں شائع ہو چکی ہیں۔اور کچھ تصانیف مخطوطات کی شکل میں محفوظ ہیں۔ شائع ہو چکی تصانیف کا تذکرہ حسب ذیل ہے:
۱۔بخاری شریف تصحیح وحواشی(طباعت اول ۱۲۶۴ ھ): امام ؒ کے استاذمحترم حضرت مولانا احمد علی محد ث سہارنپوریؒ کے حکم پر الامام نانوتوی قدس سرہ العزیزنے بخاری شریف کے آخری ۳ پاروں کے حواشی کا تکملہ محض ۱۷ سال کی عمر میں فرمایا تھا۔
۲۔آب حیات(طباعت اول ۱۲۹۸ ھ)
۳۔اجوبۂ اربعین(طباعت اول ۱۲۹۱ ھ)
۴۔الاجوبۃ الکاملہ فی الاسولۃ الخاملۃ(طباعت اول ۱۳۲۲ ھ)
۵۔الدلیل المحکم علی قراۃ الفاتحۃ للمؤتم(طباعت اول۱۳۰۲ ھ)
۶۔توثیق الکلام فی الانصات خلف الامام(طباعت اول۱۳۰۲ ھ) اس اشاعت کے آخر میں ایک فتوی بھی شامل ہے کہ غیر مسلم کے ذبح کئے ہوئے گوشت کا کیا حکم ہے۔دارالعلوم دیوبندکے شیخ الحدیث مولانا سعید احمد پالنپوری صاحب مدظلہ العالی نے الدلیل المحکم اورتوثیق الکلام کی مشترک شرح ’’کیا مقتدی پر فاتحہ واجب ہے؟‘‘ لکھی ہے۔
۷۔اسرار قرآنی(طباعت اول۱۳۰۴ ھ)
۸۔انتباہ المومنین(طباعت اول۱۲۸۴ ھ)
۹۔انتصارالاسلام(طباعت اول۱۲۹۸ ھ)
۱۰۔تحذیر الناس (طباعت اول۱۲۹۱ ھ)یہ کتاب حضرت الامام قدس سرہ العزیز کی معرکۃ الآرا ء تصانیف میں سے ایک ہے جسکا موضوع ختم نبوت ﷺہے۔ مگر یہ کوئی باقاعدہ تالیف نہیں تھی۔ یہ ایک ذاتی مکتوب تھا جو امامؒ نے اپنے قریبی عزیز اور معاصرمولانا محمد احسن نانوتویؒ کے ایک سوال کے جواب میں لکھا تھا۔مولانا احسن صاحب کو معقولات اور علم کلام پردسترس حاصل تھا لہذاامام نانوتویؒ نے فلسفہ دین اور کلامیات کے امتزاج کے ساتھ یہ جواب لکھاتھا اور اس بات کا کوئی خدشہ نہیں تھا کہ مولانا محمد احسن صاحب کو اس کے عنوانات اور بلند پایہ علمی بحث کو سمجھنے میں کوئی دشواری ہوگی۔ اور ایسا ہوا بھی۔ اس مکتوب کی بلندپایہ علمی بحث مولانااحسن صاحب کے ہی شایا ن شان تھی۔مولانا اس مکتوب سے اتنے متاثر ہوئے کہ اسے امام نانوتویؒ کو مطلع کئے بغیرتحذیر الناس کے نام سے شائع کردیا۔
اس کے شائع ہونے کے بعد چند ممتاز علماء نے (اہل علم کے اصول کے مطابق) تحذیر الناس کے مندرجات کی تحقیق کے لئے خود بانئ دارالعلوم دیوبند امام محمد قاسم النانوتویؒ کو مکتوب لکھے۔جن کے تشفی بخش جواب لکھ کر امام نانوتویؒ نے ان کو مطمئن کیا اور ان جید علماء نے تحذیر الناس کے بلند پایہ علمی بحث کو سمجھنے میں ہوئی غلطی کے لئے معذرت بھی کی۔مگر ایک مختصر سا طبقہ جو مولوی عبدالقادربدایونی کی سرکردگی میں کام کر رہا تھااور ولی اللہی مکتب فکر اور اس حلقے کے علماء کی تردید و مخالفت میں سرگرم عمل تھا اس نے امام نانوتویؒ کے خلاف بھی اپنی روش پر چلتے ہوئے انتہائی خیانت ومنافقت کے ساتھ غیر ذمہ داری کا ثبوت پیش کیا۔امام نانوتویؒ کے خلاف فتوے اور رسالے شائع کئے ۔ان فتووں اور رسالوں کا علم اور دیانت سے دور کا بھی رشتہ نہیں ۔ بعد میں اسی مسئلے کو انتہائی خیانت کے ساتھ جاہل اور بدعتی فرقہ رضاخانیہ بریلویہ کے بانی مولوی احمدرضا خان بریلوی نے علماء دیوبند کے خلاف تکفیری مہم کے لئے استعمال کیا۔ حالانکہ تحذیر الناس ختم نبوت پر اب تک کی سب سے معرکۃ الآراء تصنیف ہے ،جس کے بعد تکمیل نبوت کے عنوان پر کسی بحث کی ضرورت پیش نہیں آتی۔لیکن مخالفین اور معاندین جو امام نانوتویؒ کے بلند پایہ علمی طریقۂ بحث سے بالکل ناواقف ہیں اور اس مقامِ علم سے کوسوں دور ہیں انہوں نے امام ؒ کی اس معرکۃ الآراء تصنیف کو بالکل الٹا معنی پہنا کر امامؒ پر نعوذ باللہ ختم نبوت کے انکار کا انتہائی غیر ذمہ دارانہ اور منافقانہ الزام عائد کیا ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
۱۱۔تحفہ لحمیہ(طباعت اول بلاسنہ،طباعت دوم۱۳۱۲ ھ)
۱۲۔تصفیۃ العقائد(طباعت اول۱۲۹۸ ھ)
۱۳۔تقریر دل پزیر(طباعت اول۲۹۹ ۱ھ)
۱۴۔تقریر ابطال جزو لایتجزیٰ: یہ جزء لایتجزیٰ کے ابطال پر حضرت الامامؒ کی اس تقریر کی ترجمانی ہے جو امامؒ نے رامپورمیں ایک جلسہ عام میں کی تھی۔حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ نے یہ تقریر اس جلسے میں حاضر کسی شخص سے سنی تھی اور اس کو اپنے الفاظ میں مرتب کر کے صدرا کے حاشیے پر شائع کر دیا تھا۔
۱۵۔جواب ترکی بہ ترکی(طباعت اول۱۲۹۶ ھ)
۱۶۔براہین قاسمیہ توضیح، جواب ترکی بہ ترکی(طباعت اول ۱۳۸۴ ھ)
۱۷۔حجۃ الاسلام(طباعت اول۱۳۰۰ ھ)
۱۸۔تتمہ حجۃ الاسلام(طباعت اول۱۲۸۹ ھ)
۱۹۔حق الصریح فی اثبات التراویح(طباعت اول بلا سنہ)
۲۰۔قبلہ نما(طباعت اول۱۲۹۸ ھ)
۲۱۔قصائد قاسمی(طباعت اول۱۳۰۹ ھ)
۲۲۔گفتگوئے مذہبی(طباعت اول۱۲۹۳ ھ)
۲۳۔مباحثہ شاہ جہاں پور(طباعت اول۱۲۹۹ ھ)
۲۴۔مصابیح التراویح(طباعت اول۱۲۹۰ ھ)
۲۵۔مناظرہ عجیبہ(طباعت اول بلاسنہ)
۲۶۔ہدیۃ الشیعہ(طباعت اول۱۲۸۴ ھ): اس معرکۃ الارا تصنیف میں حجۃ الاسلام امام محمد قاسم نانوتویؒ نے کتب حدیث کے مراتب و طبقات اور اصول تنقید کی تحقیق امام الہند شاہ ولی اللہ محد ث دہلویؒ کے نظریات کی روشنی میں فر مائی ہے۔