الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی سید المرسلین۔ أما بعد:
محمد اللہ خلیلی قاسمی*
مغرب کی خداناآشنا اور اخلاق بیزار قوموں کی قیادت میں دنیا میں جو سائنسی ترقیات وجود میں آئی ہیں ان کی وجہ سے جہاں بہت سی سہولیات پیدا ہوئی ہیں وہیں اس کی وجہ سے بہت سے امور میں پیچیدگیاں اور مشکلات بھی وجود میں آئی ہیں۔افسوس کہ موجودہ مغربی تہذیب اس تصور پر منبی ہے کہ انسانی معاشرہ میں مذہب اور اخلاق کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ فطرت سے بغاوت کی راہ چل پڑی ہے۔ ہم جنسی کی اجازت، ہم جنس جوڑوں کی شادی، بے نکاحی ماؤں کی کثرت، عریانیت کی کھلی آزادی، نسل انسانی کی افزائش پر پابندی وغیرہ بے شمار مسائل ہیں جن میں وہ قادر مطلق کی بنائی ہوئی فطرت سے آمادۂ جنگ ہے۔ ان امور کا ارتکاب نہ صرف اخلاقی نقطۂ نظر سے غلط ہے بلکہ اس کی وجہ سے بہت سے طبی اور معاشرتی مسائل اور پیچیدگیاں پیدا ہوگئی ہیں۔ شیطان نے اپنے وعدہ کے مطابق انسانوں کو تباہی کے راستے پر ڈال دیا ہے جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد باری ہے:
وَلَأُضِلَّنَّهُمْ وَلَأُمَنِّيَنَّهُمْ وَلَآَمُرَنَّهُمْ فَلَيُبَتِّكُنَّ آَذَانَ الْأَنْعَامِ وَلَآَمُرَنَّهُمْ فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلْقَ اللَّهِ وَمَنْ يَتَّخِذِ الشَّيْطَانَ وَلِيًّا مِنْ دُونِ اللَّهِ فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَانًا مُبِينًا (4:119)
میڈیکل سائنس کی غیر معمولی ترقی کے نتیجے میں کچھ ایسے مسائل پیدا ہوگئے ہیں جس میں انسانیت کا احترام اور فطرت کے اقدار داؤ پر لگ گئے ہیں۔ انہیں طرح کے غیر انسانی اور خلاف فطرت امور میں سے مصنوعی طریقۂ تولید بھی ہے جس میں عموماً کسی اخلاقی پابندی یا مذہبی قید وبند کا پاس ولحاظ نہیں رکھا جاتا ، بلکہ سروگیسی جیسے انسانیت سوز طریقہائے کار کو بروئے کار لایا جاتا ہے۔ سروگیسی میں عورت کی رحم کرایہ پر لی جاتی ہے اور بچوں کے خواہشمند جوڑے اپنے من پسند بچے حاصل کرنے کے لیے اس حد تک گرجاتے ہیں کہ دنیا کے مختلف علاقوں ، مختلف رنگ و نسل کے مردوں اور بسا اوقات مشاہیر کے نطفے حاصل کرکے کرایہ کی عورت (سروگیٹ مدر) کے رحم کے ذریعہ بچے پیدا کرتے ہیں اور اس عورت اور اس کو لانے والے ایجنٹ کو اس کے بدلے رقم فراہم کرتے ہیں۔ یہ یقیناً انسانی شرافت کے خلاف ہے کہ اس کسی عورت یا مرد کے صنفی اعضاء یا مادہ منویہ سامان تجارت بن جائیں۔ سروگیسی سے مادریت کا تقدس مجروح ہوتا ہے اور اس سے یہ محترم رشتہ بھی ایک تجارتی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ ہمارے وطن عزیز میں سروگیسی کا انسانیت سوز کاروبار کافی پھل پھول رہا ہے۔
اسلام میں نسب کی اہمیت اور مصنوعی طریقہٴ تولید
شریعت اسلامیہ میں نسب کی بڑی اہمیت ہے ۔ قرآن کریم میں نسب کو انسانوں کی بڑی نعمت اور خصوصیت کے طور پر ذکر کیا گیا ہے۔ ارشاد خداوندی ہے:
وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْمَاءِ بَشَرًا فَجَعَلَهُ نَسَبًا وَصِهْرًا وَكَانَ رَبُّكَ قَدِيرًا [الفرقان/54]
دوسری طرف احادیث شریفہ میں نسب کی اہمیت اور اس کی حفاظت پر زور دیا گیا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
لَا يَحِلُّ لِامْرِئٍ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ يَسْقِيَ مَاءَهُ زَرْعَ غَيْرِهِ. (سنن أبي داود ج 6 / ص 62)
أَيُّمَا امْرَأَةٍ أَدْخَلَتْ عَلَى قَوْمٍ مَنْ لَيْسَ مِنْهُمْ فَلَيْسَتْ مِنْ اللَّهِ فِي شَيْءٍ وَلَنْ يُدْخِلَهَا اللَّهُ جَنَّتَهُ وَأَيُّمَا رَجُلٍ جَحَدَ وَلَدَهُ وَهُوَ يَنْظُرُ إِلَيْهِ احْتَجَبَ اللَّهُ مِنْهُ وَفَضَحَهُ عَلَى رُءُوسِ الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ. (سنن أبي داود ج 6 / ص 182)
نسب نسل انسانی کی خصوصیات اور امتیازات میں سے ہے اور اسی کی وجہ سے وہ دیگر جانوروں سے ممتاز ہے۔ نسل انسانی کی تاریخ شاہد ہے کہ نسب کی حفاظت انسانی فطرت ہے اور دنیا کے ہرخطے اور ہر نسل کے انسانوں کا اس پر اتفاق رہا ہے جیساکہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
فان النّسَب أحد مَا يتشاح بِهِ، ويطلبه الْعُقَلَاء، وَهُوَ من خَواص نوع الانسان، وَمِمَّا امتاز بِهِ من سَائِر الْحَيَوَان (حجۃ اللہ البالغۃ، باب العدۃ 2/220)
اعْلَم أَن النّسَب أحد الْأُمُور الَّتِي جبل على محافظتها الْبشر، فَلَنْ ترى إنْسَانا فِي إقليم من الأقاليم الصَّالِحَة لنشء النَّاس إِلَّا وَهُوَ يحب أَن ينْسب إِلَى أَبِيه وجده، وَيكرهُ أَن يقْدَح فِي نسبته إِلَيْهِمَا، اللَّهُمَّ إِلَّا لعَارض من دناءة النّسَب أَو غَرَض من دفع ضرّ أَو جلب نفع وَنَحْو ذَلِك، وَيجب أَيْضا أَن يكون لَهُ أَوْلَاد ينسبون إِلَيْهِ ويقومون بعده مقَامه، فَرُبمَا اجتهدوا اشد الِاجْتِهَاد، وبذلوا طاقاتهم فِي طلب الْوَلَد، فَمَا اتّفق طوائف النَّاس على هَذِه الْخصْلَة إِلَّا لِمَعْنى فِي جبلتهم”(حجۃ اللہ البالغۃ، تربية الْأَوْلَاد والمماليك 2/222)
نسب کی حفاظت سے صنفی اعتبار سے شوہر اور بیوی کی وفاداری قائم ہوتی ہے اور ان دونوں کی باہمی تعلق سے توالد و تناسل کا سلسلہ آگے بڑھتا ہے۔ اسی سے خاندان وجود میں آتے ہیں، والدین اور اولاد کی شناخت قائم ہوتی ہے، ایک دوسرے کے حقوق اور ذمہ داریوں کا تعین ہوتا ہے۔ نسب کے ساتھ حق پرورش، نان و نفقہ، حرمت ازدواج، حرمت مصاہرت اور میراث وغیرہ کے مسائل بھی اسی سے جڑے ہوئے ہیں۔
اسلام اصولی طور پر مصنوعی طریقہٴ تولید کی ہرگز حوصلہ افزائی نہیں کرتا کیوں کہ اس میں اختلاط نسب کے امکانات بہت زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔ مصنوعی طریقہٴ تولید کی اکثر شکلیں بلا شبہ ناجائز اور حرام ہیں جن میں اجنبی مرد کا نطفہ یا اجنبی عورت کا بویضہ استعمال کیا جاتاہے یا اجنبی عورت کے کوکھ کو کرایہ پر لیا جاتاہو۔ البتہ اگر کوئی مسلمان جوڑا لاولد ہو اور انھیں اولاد کی شدید خواہش ہو اور تو معتبر دین دار ماہر ڈاکٹر کی تشخیص ہو کہ اس کے علاوہ کوئی علاج نہیں ، نیز مصنوعی بارآوری کے ذریعہ بچہ ہونے کا قوی امکان موجود ہو تو ایسی صورت میں نطفوں یا ٹیوب کی تبدیلی یا اختلاط کے تمام خدشات کی عدم موجودگی کی صورت میں ایسا کرنے کی گنجائش ہوسکتی ہے گو اس کے لیے کچھ مکروہ اور ناپسندیدہ امور کا ارتکاب کرنا پڑے گا، لیکن چوں کہ انسان میں اولاد کی خواہش فطری ہوتی ہے اور اولاد نہ ہونے کی وجہ سے بہت سی معاشرتی اور طبی مسائل پیدا ہوجاتے ہیں؛ اس لیے بدرجہ شدید مجبوری اس کی اجازت دی جاسکتی ہے۔
اس کے علاوہ تمام طریقے نا جائز اور حرام ہیں۔ لیکن اگر کوئی ان طریقوں کو اپنا لے اور اس سے اولاد وجود میں آجائے تو اس اولاد کا پر کیا احکام جاری ہوں گے؟اس کا نسب کس سے ثابت ہوگا ؟ اس سلسلہ میں سوالات کے جوابات حسب ذیل ہیں:
پہلی صورت
زوجین اپنے نطفوں کو مصنوعی ٹیوب میں رکھوائیں اور ٹیوب ہی میں بچے کی نشو و نما ہو، اس کو بالکل بھی رحم میں نہ رکھا جائے اور مصنوعی رحم ہی سے بچہ پیدا ہوا۔
اس سلسلہ میں قابل ذکر بات یہ ہے کہ مرد کے مادہٴ منویہ کو لے کر عورت کے بویضہ سے ملاکر مصنوعی بارآوری ٹیوب کے اندر کی جاتی ہے اور پھر اسے عورت کے رحم میں منتقل کرکے بچے کی پیدائش ہوتی ہے ، یہی شکل عملاً اب تک رائج رہی ہے، لیکن ابھی تک عملی طور پر ایسی کوئی شکل وجود میں نہیں آئی ہے کہ ٹیوب میں کو مصنوعی بارآوری کے بعد مصنوعی رحم میں رکھ کر پیدائش کرائی جائے۔ جانوروں کے بچوں کو مصنوعی رحم میں رکھ کر ولادت کے مرحلہ سے کامیابی کے ساتھ گزارا جاچکا ہے ، لیکن کسی انسانی جنین کو پورے طور پر مشین کے ذریعہ ولادت کا تجربہ ابھی تک نہیں کیا گیا ہے۔ گو سائنسی ترقی نے اس عمل کو ممکن بنادیا ہے لیکن بہت سی اخلاقی اور قانونی پاپندیوں کی وجہ سے ایسا نہیں ہوسکا ہے۔ خدا کرے کے ایسا اخلاق باختہ اور انسانیت سوز عمل کبھی ظہور میں بھی نہ آئے کیوں کہ انسانیت کی بے انتہا توہین اور تذلیل کے مرادف ہوگا۔
بہر حال اگر ایسی صورت پیش آتی ہے تو شرعی اصولوں کی روشنی میں بظاہر وہ بچہ نہ عورت کی طرف منسوب ہوگا اور نہ ہی مرد کی طرف منسوب ہوگا؛ کیوں کہ ماں کی طرف نسب ونسبت حمل و دلادت سے ثابت ہوتی ہے اور اس صورت میں اس عورت کو نہ حمل ہوا اور نہ ہی اس نے بچہ کو جنم دیا، جیسا کہ قرآن میں ماں طرف حمل وولادت کو منسوب کیا گیا ہے:
إِنْ أُمَّهَاتُهُمْ إِلَّا اللَّائِي وَلَدْنَهُمْ [المجادلة/2] حَمَلَتْهُ أُمُّهُ كُرْهًا وَوَضَعَتْهُ كُرْهًا [الأحقاف/15]
وَإِذْ أَنْتُمْ أَجِنَّةٌ فِي بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ [النجم/32] وَاللَّهُ أَخْرَجَكُمْ مِنْ بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ [النحل/78]
يَخْلُقُكُمْ فِي بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ [الزمر/6]
اسی طرح وہ بچہ شوہر کی طرف بھی منسوب نہیں ہونا چاہیے کیوں کہ نسب فراش کے واسطے سے کسی مرد کے لیے ثابت ہوتا ہے اور اس صورت میں یہ بچہ مصنوعی رحم اور مشین سے تولد ہوا ہے جو مرد کا فراش بننے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ اس طرح وہ بچہ صاحب نطفہ مرد کی طرف بھی منسوب نہیں ہونا چاہیے:
أَنَّ النَّسَبَ فِي جَانِبِ الرِّجَالِ يَثْبُتُ بِالْفِرَاشِ وَفِي جَانِبِ النِّسَاءِ يَثْبُتُ بِالْوِلَادَةِ (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع – (ج 14 / ص 262)
اسی لیے یہ بچہ لقیط کے حکم میں ہوگا۔لیکن اس سلسلہ میں ایک دوسرا قابل غور پہلو یہ ہے کہ شریعت اسلامیہ میں نسب کی حفاظت پر زور دیا گیا ہے اور کسی بچے کے نسب کو ضائع ہونے سےحتی الامکان روکنے کی کوشش کی گئی ہے، اس لیے زوجین کے دعوی کی صورت میں استحساناً وہ بچہ ثابت النسب مانا جاسکتا ہے اور اسے انھیں زوجین سے ملحق کیا جائے گا ؛ کیوں کہ اس سے ایک طرف بچہ کے ضیاع نسب سے حفاظت ہے اور دوسری طرف کسی غیر کا حق باطل نہیں ہوتا اور کوئی منازعت بھی نہیں پائی جاتی۔ جیسا کہ اس فقہی جزئیہ سے اس کی تائید ہوتی ہے:
(وَلَوْ ادَّعَاهُ الْمُلْتَقِطُ ) أَيْ وَلَوْ ادَّعَى الْمُلْتَقِطُ نَسَبَ اللَّقِيطِ وَقَالَ هُوَ ابْنِي بَعْدَمَا قَالَ إنَّهُ لَقِيطٌ ، قِيلَ يَصِحُّ قِيَاسًا وَاسْتِحْسَانًا لِأَنَّهُ لَمْ يَبْطُلْ بِدَعْوَاهُ حَقُّ أَحَدٍ وَلَا مُنَازِعَ لَهُ فِي ذَلِكَ ( وَالْأَصَحُّ أَنَّهُ عَلَى الْقِيَاسِ وَالِاسْتِحْسَانِ ) أَيْ عَلَى اخْتِلَافِ حُكْمِ الْقِيَاسِ مَعَ حُكْمِ الِاسْتِحْسَانِ : يَعْنِي فِي الْقِيَاسِ لَا يَصِحُّ وَفِي الِاسْتِحْسَانِ يَصِحُّ كَمَا فِي دَعْوَى غَيْرِ الْمُلْتَقِطِ ، لَكِنَّ وَجْهَ الْقِيَاسِ هَاهُنَا غَيْرُ وَجْهِ الْقِيَاسِ فِي دَعْوَى غَيْرِ الْمُلْتَقِطِ . (العناية شرح الهداية ج 8 / ص 187)
دوسری صورت
میاں بیوی کے اجزائے منویہ کو خارجی ٹیوب میں رکھ کر افزائش کی جائے اور کچھ وقت کے بعد اس کو بیوی کے رحم میں منتقل کیا جائے اور وہیں سے بچے کی پیدائش ہو۔ خارجی تلقیح (بارآوری) کی یہ شکل محتاط علماء کے یہاں ممنوع ہے ۔ لیکن دیگر بہت سے علماء نے انسان کے اندر اولاد کی شدید فطری خواہش اور اولاد کی ضرورت کی بنیاد پر کچھ شرائط کے ساتھ اس کی اجازت دی ہے، مثلاً: (الف) کسی واقعی طبی ضرورت کی وجہ سے اس کو اختیار کیا جائے جیسے میاں یا بیوی میں سے کسی کو کسی نقص کی وجہ سے معتاد طریقہ پر تولید ممکن نہ ہو۔ (ب) کسی طبیب حاذق نے یہ تشخیص کی ہو کہ اس کے بغیر بچہ حاصل کرنے کی اور کوئی صورت نہیں ہے۔ (ج) قطعی طور پر یقینی ہو کہ میاں کا نطفہ اور بیوی کا بویضہ استعمال کیا جائے گا اور کسی اور کے مادہ تولید سے اس کے بدلنے اور مخلتط ہونے کا شبہ نہ ہو۔(د) اس کا بھی یقین ہو کہ تلقیح کے بعد جس ٹیوب میں میاں بیوی کے مادہائے تولید ہوں اس کی تبدیلی نہ ہو۔
جہاں تک ثبوت نسب کا معاملہ ہے تو اس صورت میں وہ بچہ ثابت النسب مانا جائے گا کیوں کہ اصولی طور پر بیوی کے فراش ہونے کی وجہ سے وہ بچہ مرد کی طرف منسوب ہوگا اور حمل وولادت کی وجہ سے اس عورت کی طرف بھی منسوب ہوگا:
أَنَّ النَّسَبَ فِي جَانِبِ الرِّجَالِ يَثْبُتُ بِالْفِرَاشِ وَفِي جَانِبِ النِّسَاءِ يَثْبُتُ بِالْوِلَادَةِ. (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع ج 14 / ص 262)
دوسری طرف ثبوت نسب کے لیے بیوی کا شوہر کے نطفہ سے حاملہ ہوجانا کافی ہے، یہ ضروری نہیں کہ وہ جسمانی طور پر اس کے ساتھ مباشرت کرے۔ فقہ کی کتابوں میں ایسی جزئیات موجود ہیں جن میں وطی کے بغیر استقرار حمل کو ممکن تسلیم کیا گیا ہے اور نسب بھی ثابت مانا گیا ہے:
لِمَا فِي الْمُحِيطِ عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ إذَا عَالَجَ الرَّجُلُ جَارِيَتَهُ فِيمَا دُونَ الْفَرْجِ فَأَنْزَلَ فَأَخَذَتْ الْجَارِيَةُ مَاءَهُ فِي شَيْءٍ فَاسْتَدْخَلَتْهُ فَرْجَهَا فِي حَدَثَانِ ذَلِكَ فَعَلِقَتْ الْجَارِيَةُ وَوَلَدَتْ فَالْوَلَدُ وَلَدُهُ وَالْجَارِيَةُ أُمُّ وَلَدٍ لَهُ ا هـ البحر الرائق شرح كنز الدقائق – (ج 12 / ص 96)
تیسری صورت
کوئی شوہر یہ عمل کرے کہ اپنے نطفہ اور کسی اجنبی عورت کے انڈے کو ٹیوب میں بار آور کرائے اور پھر اس لقیحہ یا آمیزہ کو ایک مدت کے بعد اپنی بیوی کے رحم میں ڈلوادے اور بیوی کے رحم ہی سے اس کی ولادت ہو۔ یہ صورت قطعاً ناجائز اور حرام ہے کہ کسی مرد کے مادہ منویہ کو کسی اجنبی عورت کے بویضہ سے آبیدہ اور بارآور کیا جائے۔
جہاں تک اس نومولود بچہ کا نسب کا تعلق ہے وہ بچہ ثابت النسب مانا جائے گا کیوں کہ جس عورت کے رحم سے وہ پیدا ہوا ہے وہی عورت در اصل اس کی ماں ہےبقاعدہ إِنْ أُمَّهَاتُهُمْ إِلَّا اللَّائِي وَلَدْنَهُمْ [58:2] اور حَمَلَتْهُ أُمُّهُ كُرْهًا وَوَضَعَتْهُ كُرْهًا [46:15] اوروہ عورت اس مرد کی فراش ہے ، لہذا یہ بچہ زوجین کا مانا جائے گا:
أَنَّ النَّسَبَ فِي جَانِبِ الرِّجَالِ يَثْبُتُ بِالْفِرَاشِ وَفِي جَانِبِ النِّسَاءِ يَثْبُتُ بِالْوِلَادَةِ. (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع ج 14 / ص 262)
چوتھی صورت
شوہر کسی دوسرے شخص کے مادہٴ منویہ کو اپنی بیوی کے انڈوں سے ملاکر خارجی ٹیوب میں بارآور کرائے اور پھر اپنی بیوی کے رحم میں منتقل کرادے، اور بیوی کے رحم ہی سے بچہ کی پیدا ئش ہو۔یہ صورت بھی زنا کی طرح بے حیائی اور حرام امور پر مشتمل ہونے کی وجہ سے سخت ناجائز ہے۔ اس عمل میں اور زنا وبدکاری میں سوائے اس کے کوئی فرق نہیں کہ اس کام کے طبعی طریقے کے بجائے انجکشن یا کسی دوسرے آلہ کا استعمال ہوتا ہے، شرعی حکم دونوں کا یکساں ہے۔
جہاں تک نسب کا تعلق ہے تو بچہ کا نسب زوجین سے ہی ثابت مانا جائے گاکیوں کہ ثبوت نسب کے باب میں فقہی اصول یہی ہے کہ عقد نکاح کا قیام ہی ثبوت نسب کے لیے کافی مانا گیا ہے، عورت جس مرد کی فراش ہوگی بچہ اسی مرد کی طرف منسوب ہوگا بشرطیکہ نکاح پر کم از کم مدت حمل یعنی چھ ماہ کی مدت گذری ہو اور شوہر اس بچہ کا انکار نہ کرے، حتی کہ اگر حقیقت میں وطی وغیرہ نہ پائی گئی ہو تب بھی یہی حکم ہے:
( فَصْلٌ ) : وَمِنْهَا ثُبُوتُ النَّسَبِ ، وَإِنْ كَانَ ذَلِكَ حُكْمَ الدُّخُولِ حَقِيقَةً لَكِنَّ سَبَبَهُ الظَّاهِرَ هُوَ النِّكَاحُ لِكَوْنِ الدُّخُولِ أَمْرًا بَاطِنًا ، فَيُقَامُ النِّكَاحُ مَقَامَهُ فِي إثْبَاتِ النَّسَبِ ، وَلِهَذَا قَالَ النَّبِيُّ : صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ { الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ ، وَلِلْعَاهِرِ الْحَجَرُ } وَكَذَا لَوْ تَزَوَّجَ الْمَشْرِقِيُّ بِمَغْرِبِيَّةٍ ، فَجَاءَتْ بِوَلَدٍ يَثْبُتُ النَّسَبُ ، وَإِنْ لَمْ يُوجَدْ الدُّخُولُ حَقِيقَةً لِوُجُودِ سَبَبِهِ ، وَهُوَ النِّكَاحُ. (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع ج 6 / ص 162)
إذَا زَنَى رَجُلٌ بِامْرَأَةٍ فَجَاءَتْ بِوَلَدٍ فَادَّعَاهُ الزَّانِي لَمْ يَثْبُتْ نَسَبُهُ مِنْهُ لِانْعِدَامِ الْفِرَاشِ وَأَمَّا الْمَرْأَةُ فَيَثْبُتُ نَسَبُهُ مِنْهَا لِأَنَّ الْحُكْمَ فِي جَانِبِهَا يَتْبَعُ الْوِلَادَة . (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع – (ج 14 / ص 226)
(قَوْلُهُ وَيُشْتَرَطُ أَنْ تَلِدَ إلَخْ ) قَالَ الْأَتْقَانِيُّ وَإِنَّمَا يَثْبُتُ النَّسَبُ فِيمَا إذَا جَاءَتْ بِالْوَلَدِ لِتَمَامِ سِتَّةٍ أَشْهُرٍ مِنْ وَقْتِ النِّكَاحِ لِأَنَّ قِيَامَ النِّكَاحِ مِمَّنْ يَحْتَمِلُ الْعُلُوقُ مِنْهُ قَائِمٌ مَقَامَ الْوَطْءِ فِي حَقِّ ثُبُوتِ النَّسَبِ لِأَنَّ النَّسَبَ مِمَّا يُحْتَاطُ فِي إثْبَاتِهِ ، وَقَدْ قَالَ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ { الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ وَلِلْعَاهِرِ الْحَجْرُ } أَيْ لِصَاحِبِ الْفِرَاشِ عَلَى حَذْفِ الْمُضَافِ كَذَا قَالَ الْمُطَرِّزِيُّ وَالْفِرَاشُ الْعَقْدُ كَذَا فَسَّرَ الْكَرْخِيُّ فِي إمْلَائِهِ لِشَرْحِ الْجَامِعِ الصَّغِيرِ ، وَقَدْ ذَكَرْنَا نَحْنُ فِي فَصْلِ الْمُحَرَّمَاتِ أَنَّ الْفِرَاشَ كَوْنُ الْمَرْأَةِ بِحَالٍ لَوْ جَاءَتْ بِوَلَدٍ يَثْبُتُ نَسَبُهُ مِنْهُ فَيَكُونُ الْوَطْءُ زَمَانَ التَّزَوُّجِ ثَابِتًا حُكْمًا ، وَإِنْ لَمْ يُوجَدْ حَقِيقَةً ، وَالْعِبْرَةُ بِالْفِرَاشِ لَا بِالْمَاءِ لِلْحَدِيثِ ، وَلِهَذَا لَوْ كَانَ مِنْ مَائِهِ ، وَلَمْ يَكُنْ لَهُ فِرَاشٌ لَا يَثْبُتُ النَّسَبُ .ا هـ . (تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق ج 7 / ص 253)
پانچویں صورت
میاں بیوی کا مادہٴ منویہ ٹیوب میں بارآور کرکے لقیحہ کو کسی اجنبی عورت کے رحم میں پہنچادیا جائے اور اسی عورت کے رحم سے اس بچہ کی پیدائش ہو ۔ یہ شکل بھی ناجائز اور حرام ہے۔
جہاں تک بچہ کے نسب کا تعلق ہے وہ زوجین سے ثابت نہیں ہوگا کیوں کہ جس اجنبی عورت نے رحم میں بچے کی پرورش کی ہے اور بچہ کو جنم دیا ہے وہ اس مرد کی فراش نہیں ہے، لہذا بچہ کا نسب زوجین سے ثابت نہیں مانا جائے گا۔
إذَا زَنَى رَجُلٌ بِامْرَأَةٍ فَجَاءَتْ بِوَلَدٍ فَادَّعَاهُ الزَّانِي لَمْ يَثْبُتْ نَسَبُهُ مِنْهُ لِانْعِدَامِ الْفِرَاشِ وَأَمَّا الْمَرْأَةُ فَيَثْبُتُ نَسَبُهُ مِنْهَا لِأَنَّ الْحُكْمَ فِي جَانِبِهَا يَتْبَعُ الْوِلَادَة . (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع ج 14 / ص 226)
اس صورت میں اگر وہ اجنبی عورت شادی شدہ ہے تو اس بچہ کا نسب اس کے شوہر سے ثابت ہوگا۔ اور اگر وہ غیرشادی شدہ ہے تو وہ بچہ صرف اسی کی طرف منسوب ہوگا۔
أَنَّ الْفِرَاشَ كَوْنُ الْمَرْأَةِ بِحَالٍ لَوْ جَاءَتْ بِوَلَدٍ يَثْبُتُ نَسَبُهُ مِنْهُ فَيَكُونُ الْوَطْءُ زَمَانَ التَّزَوُّجِ ثَابِتًا حُكْمًا ، وَإِنْ لَمْ يُوجَدْ حَقِيقَةً ، وَالْعِبْرَةُ بِالْفِرَاشِ لَا بِالْمَاءِ لِلْحَدِيثِ ، وَلِهَذَا لَوْ كَانَ مِنْ مَائِهِ، وَلَمْ يَكُنْ لَهُ فِرَاشٌ لَا يَثْبُتُ النَّسَبُ .ا هـ . (تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق ج 7 / ص 253)
چھٹی صورت
کوئی شوہر کسی اجنبی مرد اور اجنبی عورت کے نطفوں کو بارآور کرکے آمیزہ کو اپنی منکوحہ بیوی کے رحم میں منتقل کرکے دلادت کرائے ۔ یہ شکل بھی قطعاً حرام اور ناجائز ہے۔
جہاں تک نسب کا تعلق ہے فقہی اصولوں کی روشنی میں وہ بچہ ثابت النسب مانا جائے گا اور اس کا نسب میاں بیوی سے ثابت تسلیم کیا جائے گا؛ کیوں کہ بقاعدہ إِنْ أُمَّهَاتُهُمْ إِلَّا اللَّائِي وَلَدْنَهُمْ [58:2] اور حَمَلَتْهُ أُمُّهُ كُرْهًا وَوَضَعَتْهُ كُرْهًا [46:15] وہ بیوی حمل اور ولادت کی وجہ سے اس بچے کی ماں ہے اور فراش کے توسط سے وہ بچہ اس کے شوہر سے ملحق کیا جائے گا:
أَنَّ النَّسَبَ فِي جَانِبِ الرِّجَالِ يَثْبُتُ بِالْفِرَاشِ وَفِي جَانِبِ النِّسَاءِ يَثْبُتُ بِالْوِلَادَةِ. (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع ج 14 / ص 262)
ساتویں صورت
ایک شخص کی دو بیویاں ہیں جن میں سے ایک بیوی حمل کی متحمل نہیں ہے، جب کہ دوسری بیوی متحمل ہے، اب اس شخص نے غیر متحمل بیوی کے انڈے اور اپنے نطفہ کو لے کر خارج میں بار آور کرایا اور پھر اس لقیحہ کو دوسری بیوی (جو متحمل ہے) کے رحم میں ڈلواکر بچہ حاصل کیا۔ یہ صورت بھی شدید حاجت کے وقت اور تمام ضروری احتیاطی تدابیر کے ساتھ ہی جائز ہوسکتی ہے۔
اس صورت میں بچہ کا نسب باپ سے ہر حال میں ثابت مانا جائے گا کیوں کہ دونوں عورتیں اس کی فراش ہیں اور وہ بچہ اسی کے مادۂ منویہ سے پیدا ہوا ہے۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ ان دو میں سے کون سی عورت سے بچہ کا نسب ثابت ہوگاتو اس صورت میں بھی بقاعدہ إِنْ أُمَّهَاتُهُمْ إِلَّا اللَّائِي وَلَدْنَهُمْ [58:2] اور حَمَلَتْهُ أُمُّهُ كُرْهًا وَوَضَعَتْهُ كُرْهًا [46:15] اس عورت سے ثابت ہوگا جس کے ذریعہ حمل اور ولادت انجام پائی ہے۔
جہاںتک دوسری بیوی کا تعلق ہے جس کے بویضہ سے بارآوری عمل میں آئی ہے اس عورت سے جزئیت کی بنیاد پر مصاہرت اور حرمت نکاح کے احکامات متفرع ہوں گے، جیسا کہ اگلے عنوان کے تحت اس امر کو کچھ مزید تفصیل کے ساتھ عرض کیا جا رہا ہے۔
حرمت مصاہرت کا احتیاطی پہلو
اوپر ذکر کردہ تمام شکلوں میں جس میں کسی اجنبی مرد یا اجنبی عورت یا سوکن کا مادۂ تولید استعمال کیا گیا ہے اس کے نسب کا حکم تو اصولی طور پر مرد کی طرف سے فراش کی بنیاد پر اور عورت کی طرف سے حمل وولادت کی بنیاد پر ثابت مانا جائے گا۔ لیکن جس اجنبی مرد اور جس اجنبی عورت کا مادۂ تولید استعمال ہوا ہے اس سے بچہ کا نسب کا تو کوئی تعلق نہیں ہوگا، لیکن نسب کے علاوہ اس نومولود بچہ یا بچی کے ساتھ ان کا کوئی تعلق قائم ہوگا یا نہیں؟
اس سلسلہ میں یہ بات قابل غور ہے کہ طبی اور حیاتیاتی تجربات کی روشنی میں یہ بات یقینی ہے کہ مرد کا نطفہ یا عورت کا بویضہ کسی جنین کی اصل اور بنیاد ہوتاہے اور اس سے مولود کی نہ صرف جزئیت ثابت ہوتی ہے بلکہ وہ شباہت اور تمام خصوصیات واوصاف انھیں سے حاصل کرتا ہے۔ لہٰذا اس تعلق کو بلکلیہ نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے کیوں حرمت نکاح میں غایت درجہ احتیاط برتی گئی ہے ۔ اسی وجہ سے حرمت مصاہرت کے باب میں جزئیت کو بنیاد بناکر مس اور نظر کے بعید اور دورازکار احتمالات کو مؤثر مانا گیا ہے اور حرمت مصاہرت ثابت کی گئی ہے:
وَلَنَا : أَنَّ الْوَطْءَ سَبَبُ الْجُزْئِيَّةِ بِوَاسِطَةِ الْوَلَدِ حَتَّى يُضَافَ إلَى كُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا كَمُلًا فَيَصِيرُ أُصُولُهَا وَفُرُوعُهَا كَأُصُولِهِ وَفُرُوعِهِ ، وَكَذَلِكَ عَلَى الْعَكْسِ وَالِاسْتِمْتَاعُ بِالْجُزْءِ حَرَامٌ إلَّا فِي مَوْضِعِ الضَّرُورَةِ وَهِيَ الْمَوْطُوءَةُ وَالْوَطْءُ مُحَرَّمٌ مِنْ حَيْثُ إنَّهُ سَبَبُ الْوَلَدِ لَا مِنْ حَيْثُ إنَّهُ زِنًا وَاللَّمْسُ وَالنَّظَرُ سَبَبٌ دَاعٍ إلَى الْوَطْءِ فَيُقَامُ مَقَامَهُ فِي مَوْضِعِ الِاحْتِيَاطِ. (البحر الرائق شرح كنز الدقائق ج 8 / ص 36)
تو اس باب میں جنین کی اصل ہونے کی وجہ سے جزئیت کو ثابت کیوں نہیں مانا جائے گا جس کی جزئیت مس اور نظر سےپیدا شدہ محتمل جزئیت سے بدرجہا بڑھ کر ہے۔ اس لیے محتاط بات یہی ہے کہ حرمت مصاہرت ثابت مانی جائے ۔ اس لیے ان شکلوں میں مولود کے لیے اس مرد کے خاندان اصول وفروع سے بھی حرمت قائم ہوگی جس کا مادۂ منویہ اس کی تخلیق میں استعمال ہوا ہے، اسی طرح اس عورت کے اصول وفروع سے بھی حرمت مصاہرت ثابت ہوگی جس کے رحم سے اس بچہ کے لیے بویضہ المنی حاصل کیا گیا ہے۔
اس معاملہ کی نزاکت کو ایک مثال کے ذریعہ سے اچھی طرح سمجھا جاسکتا ہے۔ مثلاً ایک بیوی کے بویضہ کو ملقح کرکے دوسری بیوی کے رحم کے ذریعہ بیٹا حاصل کیا گیا۔ بچہ جننے والی بیوی کا مانا جائے گا۔ اب اگر بویضہ دینے والی بیوی کے یہاں سابق شوہر سے کوئی بیٹی ہے، تو اصولاً دونوں کا نکاح ہوسکتا ہے۔ لیکن نکاح اور مصاہرت کے باب میں فقہ حنفی میں جو احتیاطی پہلو اختیار کیے گئے ہیں کیا یہ صورتِ جواز اس سے میل کھاتی ہے؟
ھذا ما ظھر لي واللہ تعالی أعلم وعلمه أتم وأحكم
محمد اللہ خلیلی قاسمی، دارالعلوم دیوبند
خلاصۂ مقالہ:
مصنوعی طریقہٴ تولید کی مختلف شکلیں اور ان میں ثبوت نسب کا حکم
پہلی صورت یعنی میاں بیوی کے مادۂ تولید کو لے کر مصنوعی رحم کے ذریعہ بچہ حاصل کرنا۔ یہ شکل ابھی وجود میں نہیں آئی، البتہ حیوانات پر اس کا تجربہ کیا جاچکا ہے۔ بہر حال اگر ایسی صورت پیش آتی ہے تو شرعی اصولوں کی روشنی میں بظاہر وہ بچہ نہ عورت کی طرف منسوب ہوگا اور نہ ہی مرد کی طرف منسوب ہوگا؛ کیوں کہ ماں کی طرف نسب ونسبت حمل و دلادت سے ثابت ہوتی ہے اور اس صورت میں اس عورت کو نہ حمل ہوا اور نہ ہی اس نے بچہ کو جنم دیا۔ اسی طرح وہ بچہ شوہر کی طرف بھی منسوب نہیں ہونا چاہیے کیوں کہ نسب فراش کے واسطے سے کسی مرد کے لیے ثابت ہوتا ہے اور اس صورت میں یہ بچہ مصنوعی رحم اور مشین سے تولد ہوا ہے جو مرد کا فراش بننے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ اس طرح وہ بچہ لقیط کے حکم میں ہوگا۔لیکن اس سلسلہ میں ایک دوسرا قابل غور پہلو یہ ہے کہ شریعت اسلامیہ میں نسب کی حفاظت پر زور دیا گیا ہے اور کسی بچے کے نسب کو ضائع ہونے سےحتی الامکان روکنے کی کوشش کی گئی ہے، اس لیے زوجین کے دعوی کی صورت میں استحساناً وہ بچہ ثابت النسب مانا جاسکتا ہے اور اسے انھیں زوجین سے ملحق کیا جائے گا ؛ کیوں کہ اس سے ایک طرف بچہ کے ضیاع نسب سے حفاظت ہے اور دوسری طرف کسی غیر کا حق باطل نہیں ہوتا اور کوئی منازعت بھی نہیں پائی جاتی۔
دوسری صورت میں میاں بیوی کے اجزائے منویہ کو خارجی ٹیوب میں رکھ کر افزائش کی جائے اور کچھ وقت کے بعد اس کو بیوی کے رحم میں منتقل کیا جائے اور وہیں سے بچے کی پیدائش ہو۔ اس صورت میں وہ بچہ ثابت النسب مانا جائے گا کیوں کہ اصولی طور پر بیوی کے فراش ہونے کی وجہ سے وہ بچہ مرد کی طرف منسوب ہوگا اور حمل وولادت کی وجہ سے اس عورت کی طرف بھی منسوب ہوگا۔
تیسری صورت میں جب کوئی شوہر یہ عمل کرے کہ اپنے نطفہ اور کسی اجنبی عورت کے انڈے کو ٹیوب میں بار آور کرائے اور پھر اس لقیحہ یا آمیزہ کو ایک مدت کے بعد اپنی بیوی کے رحم میں ڈلوادے اور بیوی کے رحم ہی سے اس کی ولادت ہو، اس میں وہ بچہ ثابت النسب مانا جائے گا کیوں کہ جس عورت کے رحم سے وہ پیدا ہوا ہے وہی عورت حمل اور ولادت کی بنیاد پر اس کی ماں ہے اوروہ عورت اس مرد کی فراش ہے ، لہذا یہ بچہ زوجین کا مانا جائے گا۔
چوتھی صورت میں کہ شوہر کسی دوسرے شخص کے مادہٴ منویہ کو اپنی بیوی کے انڈوں سے ملاکر خارجی ٹیوب میں بارآور کرائے اور پھر اپنی بیوی کے رحم میں منتقل کرادے، اور بیوی کے رحم ہی سے بچہ کی پیدا ئش ہو، اس بچہ کا نسب زوجین سے ہی ثابت مانا جائے گاکیوں کہ ثبوت نسب کے باب میں فقہی اصول یہی ہے کہ عقد نکاح کا قیام ہی ثبوت نسب کے لیے کافی مانا گیا ہے، عورت جس مرد کی فراش ہوگی بچہ اسی مرد کی طرف منسوب ہوگا ۔
پانچویں صورت میں کہ میاں بیوی کا مادہٴ منویہ ٹیوب میں بارآور کرکے لقیحہ کو کسی اجنبی عورت کے رحم میں پہنچادیا جائے اور اسی عورت کے رحم سے اس بچہ کی پیدائش ہو ، اس بچہ کا نسب زوجین سے ثابت نہیں ہوگا کیوں کہ جس اجنبی عورت نے رحم میں بچے کی پرورش کی ہے اور بچہ کو جنم دیا ہے وہ اس مرد کی فراش نہیں ہے، لہذا بچہ کا نسب زوجین سے ثابت نہیں مانا جائے گا۔ اس صورت میں اگر وہ اجنبی عورت شادی شدہ ہے تو اس بچہ کا نسب اس کے شوہر سے ثابت ہوگا۔ اور اگر وہ غیرشادی شدہ ہے تو وہ بچہ صرف اسی کی طرف منسوب ہوگا۔
چھٹی صورت میں کہ شوہر کسی اجنبی مرد اور اجنبی عورت کے نطفوں کو بارآور کرکے آمیزہ کو اپنی منکوحہ بیوی کے رحم میں منتقل کرکے دلادت کرائے ، اس میں فقہی اصولوں کی روشنی میں وہ بچہ ثابت النسب مانا جائے گا اور اس کا نسب میاں بیوی سے ثابت تسلیم کیا جائے گا؛ کیوں کہ وہ بیوی حمل اور ولادت کی وجہ سے اس بچے کی ماں ہے اور فراش کے توسط سے وہ بچہ اس کے شوہر سے ملحق کیا جائے گا۔
ساتویں صورت یہ ہے کہ ایک شخص کی دو بیویاں ہیں جن میں سے ایک بیوی حمل کی متحمل نہیں ہے، جب کہ دوسری بیوی متحمل ہے، اب اس شخص نے غیر متحمل بیوی کے انڈے اور اپنے نطفہ کو لے کر خارج میں بار آور کرایا اور پھر اس لقیحہ کو دوسری بیوی (جو متحمل ہے) کے رحم میں ڈلواکر بچہ حاصل کیا۔ اس صورت میں بچہ کا نسب باپ سے ہر حال میں ثابت مانا جائے گا کیوں کہ دونوں عورتیں اس کی فراش ہیں اور وہ بچہ اسی کے مادۂ منویہ سے پیدا ہوا ہے۔ اسی طرح ان دو میں سے بچہ کا نسب اس بیوی سے ثابت ہوگا جس کے ذریعہ حمل اور ولادت انجام پائی ہے۔جہاں تک دوسری بیوی کا تعلق ہے جس کے بویضہ سے بارآوری عمل میں آئی ہے اس عورت سے جزئیت کی بنیاد پر مصاہرت اور حرمت نکاح کے احکامات متفرع ہوں گے، جیسا کہ اگلے عنوان کے تحت مزید تفصیل ہے۔
حرمت مصاہرت کا احتیاطی پہلو
اوپر ذکر کردہ تمام شکلوں میں جس میں کسی اجنبی مرد یا اجنبی عورت یا سوکن کا مادۂ تولید استعمال کیا گیا ہے اس کے نسب کا حکم تو اصولی طور پر مرد کی طرف سے فراش کی بنیاد پر اور عورت کی طرف سے حمل وولادت کی بنیاد پر ثابت مانا جائے گا۔ لیکن جس اجنبی مرد اور جس اجنبی عورت کا مادۂ تولید استعمال ہوا ہے اس سے بچہ کا نسب کا تو کوئی تعلق نہیں ہوگا، لیکن نسب کے علاوہ اس نومولود بچہ یا بچی کے ساتھ ان کا کوئی تعلق قائم ہوگا یا نہیں؟
اس سلسلہ میں یہ بات قابل غور ہے کہ طبی اور حیاتیاتی تجربات کی روشنی میں یہ بات یقینی ہے کہ مرد کا نطفہ یا عورت کا بویضہ کسی جنین کی اصل اور بنیاد ہوتاہے اور اس سے مولود کی نہ صرف جزئیت ثابت ہوتی ہے بلکہ وہ شباہت اور تمام خصوصیات واوصاف انھیں سے حاصل کرتا ہے۔ لہٰذا اس تعلق کو بلکلیہ نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے کیوں حرمت نکاح میں غایت درجہ احتیاط برتی گئی ہے ۔ اسی وجہ سے حرمت مصاہرت کے باب میں جزئیت کو بنیاد بناکر مس اور نظر کے بعید اور دورازکار احتمالات کو مؤثر مانا گیا ہے اور حرمت مصاہرت ثابت کی گئی ہے۔ تو اس باب میں جنین کی اصل ہونے کی وجہ سے جزئیت کو ثابت کیوں نہیں مانا جائے گا جس کی جزئیت مس اور نظر سےپیدا شدہ محتمل جزئیت سے بدرجہا بڑھ کر ہے۔ اس لیے محتاط بات یہی ہے کہ حرمت مصاہرت ثابت مانی جائے ۔ اس لیے ان شکلوں میں مولود کے لیے اس مرد کے خاندان اصول وفروع سے بھی حرمت قائم ہوگی جس کا مادۂ منویہ اس کی تخلیق میں استعمال ہوا ہے، اسی طرح اس عورت کے اصول وفروع سے بھی حرمت مصاہرت ثابت ہوگی جس کے رحم سے اس بچہ کے لیے بویضہ حاصل کیا گیا ہے۔
*دارالعلوم دیوبند
۲؍ جمادی الاولی ۱۴۳۹ھ