محمد اللہ خلیلی قاسمی
حضرت مولانا ریاست علی صاحب بجنوری رحمة اللہ علیہ ایک جید عالم دین، نکتہ رس محدث، باصلاحیت استاذ، بے مثال ادیب و شاعر اور گوناگوں خوبیوں کے مالک تھے۔ تقوی و دیانت داری ، رأفت و رحمت، ذکاوت و ذہانت، اصابت رائے و معاملہ سنجی ، مہمان نوازی و غریب پروری اور حسن اخلاق و تواضع آپ کی نمایاں خصوصیات تھیں۔ آپ کے انتقال سے دارالعلوم کی علمی و فکری تاریخ کا ایک باب بند ہوگیا۔
حضرت مولانا کی تدریسی زندگی پینتالیس برسوں پر محیط ہے۔ آپ نے ہزاروں طالبان علوم اسلامیہ کو علوم نبوت کی روشنی سے منور کیا۔ آپ کا درس بہت مربوط، عام فہم، سبک رفتار اور مقبول ہوتا تھا۔تدریس کے ساتھ ساتھ ماہنامہ دارالعلوم کی ادارت کی ذمہ داری بھی انجام دی اور شیخ الہند اکیڈمی کے ڈائریکٹر بھی مقرر کیے گئے۔ ۱۹۸۵ء میں آپ کو مجلس شوریٰ نے مجلس تعلیمی کا ناظم (ناظم تعلیمات ) مقرر کیا ، اس منصب پر آپ پانچ سال تک فائز رہے۔ دارالعلوم میں آپ کا دور نظامت بہت مثالی تھا۔نازک حالات میں دارالعلوم کے تعلیمی نظام کو سنبھالا دینا اور اسے ترقی کی بلندیوں پر پہنچانا آپ کا تاریخی کارنامہ ہے۔ حضرت مہتمم صاحب وغیرہ ذمہ داران کی غیر موجودگی میں اکثر آپ کو قائم مقامی یا نیابت اہتمام کے فرائض انجام دینے پڑتے۔ مجلس شوریٰ نے آپ کو مستقل طور پر نائب مہتمم کے عہدہ کی پیشکش کی لیکن انھوں نے معذرت ظاہر کی۔ گزشتہ چالیس سالوں کے دوران انھوں نے دارالعلوم کی انتظامیہ کو اپنے صائب مشوروں اور بر وقت رہ نمائی سے بڑی طاقت بخشی۔ اسی لیے بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ آپ جدید دارالعلوم کے معماروں میں تھے۔
حضرت مولانا ریاست علی بجنوری کا تصنیفی یادگاریں
تدریسی و انتظامی ذمہ داریوں کے ساتھ آپ نے اہم علمی و تصنیفی سرمایہ بھی چھوڑا ۔ ایضاح البخاری آپ کے اعلی علمی و ادبی ذوق کا شاہ کار ہے اور اردو کی شروح بخاری میں ممتاز حیثیت رکھتی ہے۔ آپ نے اصول فقہ کے موضوع پر حضرت مولانا نعمت اللہ اعظمی کے ساتھ مشترکہ طور پر ’تسہیل الاصول ‘ لکھی جو دارالعلوم میں سال چہارم میں داخل درس ہے۔ اسی طرح ’ مقدمہٴ تفہیم القرآن کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ‘ مکتبہ دارالعلوم سے شائع ہوچکی ہے۔
اخیر زمانے میں حضرت مولانا علامہ محمد اعلی التھانوی کی مشہور آفاق کتاب ’کشاف اصطلاحات الفنون‘ پر مولانا عارف جمیل صاحب مبارک پوری کے ساتھ تحقیقی کام بھی کیا جو پایہٴ تکمیل کو پہنچ چکا ہے ۔ اسی طرح ہونہار شاگردوں کی مدد سے خلاصة التفاسیر (موٴلفہ مولانا فتح محمد تائب لکھنوی،متوفی ۱۳۲۷ھ/ ۱۹۰۹ء ) کی تدوین و تحقیق کام انجام دیا۔ یہ دونوں اہم کتابیں عنقریب منظر عام پر آنے والی ہیں۔
آپ علم و عمل میں بلند مقام پر فائز ہونے کے ساتھ ساتھ شعر و ادب میں اعلیٰ ذوق کے حامل تھے جس کا زندہ ثبوت دارالعلوم دیوبند کا شہرہٴ آفاق ’ترانہ ‘ہے جو ایک لازوال ادبی شہہ پارہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ شاعری میں ظفر# تخلص فرماتے تھے۔ آپ کا مجموعہٴ کلام ’نغمہٴ سحر‘ کے نام سے شائع ہوچکا ہے ۔ آپ کا کلام ضخامت اور قامت میں کہتر ہونے کے باوجود قدر و قیمت کے اعتبار سے بہت ’بہتر‘ ہے ۔ کوثر و تسنیم سے دھلی ہوئی زبان اور سلیس و رواں کلام کا یہ مختصر مجموعہ بھی آپ کو مستند شعراء کی صف میں شمارکرانے کے لیے کافی ہے۔ اسی طرح مولانا محمد عثمان کاشف الہاشمی کا شعری مجموعہ بھی آپ کی کاوشوں سے منظرِ عام پر آیا۔
’شوریٰ کی شرعی حیثیت‘ شاندار تحقیقی کارنامہ
’شوریٰ کی شرعی حیثیت‘ حضرت مولانا کی نہایت اہم تصنیف ہے جو اپنے موضوع پر ایسی اچھوتی ،بسیط اورمدلل کتاب ہے جس سے کتاب خانے خالی ہیں۔ یہ کتاب اولاً ۱۴۰۸ھ مطابق ۱۹۸۷ء میں حضرات اکابر (حضرت مفتی محمود حسن گنگوہی، حضرت مولانا مرغوب الرحمن صاحب بجنوری سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند، حضرت مولانا معراج الحق صاحب سابق صدر المدرسین دارالعلوم دیوبند، حضرت مولانا نصیر احمد خان بلند شہری سابق شیخ الحدیث و صدر المدرسین دارالعلوم دیوبند، حضرت مولانا قاضی اطہر مبارک پوری رحمہم اللہ) کی تقریظات و تصدیقات کے ساتھ شائع ہوئی اور اب بھی مکتبہ دارالعلوم سے شائع ہورہی ہے۔ اس وقت میرے سامنے محرم الحرام ۱۴۳۵ھ مطابق نومبر ۲۰۱۳ء کا ایڈیشن موجود ہے جو چار سو آٹھ (صفحات) پر مشتمل ہے۔
حضرت مولانا کی یہ کتاب مدارس عربیہ کے نظام کار، ان کے دستور اساسی، رجسٹریشن ، وقف اور دیگر تمام امور و معاملات میں شوریٰ کی شرعی حیثیت کی تفصیلات پر مشتمل ہے۔ اس کتاب میں مدارس اسلامیہ کی مجالسِ شوریٰ ، اہتمام، مالیت اور جائیداد وغیرہ کے بارے میں شرعی احکام مفصل اور محقق طور پر بیان کیے گئے ہیں۔
دارالعلوم دیوبند میں ۱۹۸۰ء کے بعد مہتمم اور مجلس شوریٰ کے درمیان شدید اختلاف پیدا ہوا ، جس کی وجہ سے بعض حلقوں کی طرف سے ایک نیا مسئلہ بڑی شدت کے ساتھ اٹھایا گیا کہ ان مدارس کی مجلس ِ شوریٰ اور ان کے مہتمم کی باہمی حیثیت کیا ہے؟ نیز مدرسہ کے مہتمم اور مدرسہ کی مجلسِ شوریٰ کے درمیان کس نوع کا تعلق ہے، ان میں سے کون حاکم ہے اور کون محکوم، بعض جگہ تو شوریٰ نے مہتمم کو اتنا پابند کردیا ہے کہ وہ کوئی کام شوریٰ سے پوچھے بغیر نہیں کرسکتا، اور نہ شوریٰ اس کے لیے کوئی ضابطہ بناتی ہے کہ جس کے تحت مہتمم کام کرلیا کرے۔ چھوٹی چھوٹی چیزوں میں سخت دشواری پیش آتی ہے۔ بعض جگہ مہتمم نے شوریٰ کو بالکل ہی بے حیثیت کردیا ہے اور خود مختاری کا پورا پورا اعلان کردیا ہے کہ کسی کام میں شوریٰ سے پوچھنے اور معلوم کرنے کی ضرورت نہیں، بلکہ شوریٰ ہی بیکار اور کالعدم ہے۔ دارالعلوم کے اختلاف کے پس منظر میں حضرت مولانا مسیح اللہ خان جلال آبادی رحمة اللہ علیہ نے ایک رسالہ ’رسالہٴ اہتمام و شوریٰ‘ لکھا جس میں مہتمم کو اصل اور شوریٰ کو تابع قرار دیا گیااور دارالعلوم کے دستور اساسی کو غیر شرعی بتایا گیا۔
چناں چہ دارالعلوم دیوبند نے صورتِ حال کی نزاکت پیش نظر اس موضوع کی تحقیق و تنقیح کے لیے حضرت مولانا کا انتخاب کیا۔ حضرت مولانا نے نہایت تحقیق و تلاش سے ان مسائل پر کتاب و سنت ، فقہ و فتاویٰ اور علمائے کرام آراء و اقوال کے قدیم و جدید مآخذ کو کھنگال کر نہایت سنجیدہ اور باوقار کتاب مرتب کی۔مولانا نے موضوع کے متعلق تمام گوشوں کو فقہی عبارات سے مدلل کیا اور ہر جگہ ایسی دل نشیں گفتگو کی ہے کہ مسئلہ پر شرح صدر ہوجاتا ہے۔کتاب کے مطالعہ سے محسوس ہوتا ہے کہ حضرت موٴلف کو مضامین کی ترتیب اور بسط دلائل میں خصوصی درک حاصل تھا۔ پوری کتاب اتنی متانت اور سنجیدگی سے لکھی گئی ہے کہ کہیں مجادلانہ یا ادعائی حتی کہ مجیبانہ انداز بھی نہیں اپنایا گیا، بلکہ زیر بحث مسئلہ کا صرف معروضی جائزہ لیا گیا۔
اس کتاب میں اولاً مدارس عربیہ کے نظام کار کی تشریح کی گئی ہے اور اکابر کے ارشادات کی روشنی میں یہ واضح کیا گیا ہے مدارس عربیہ کے عہدہ داروں میں کس منصب کی کیا شرعی حیثیت ہے۔ پھر شوریٰ کا شرعی مقام واضح کیا گیا ہے۔ شوری کا مسئلہ چوں کہ اس تحریر کا بنیادی نقطہٴ بحث تھا اس لیے اس موضوع کے تمام پہلوٴوں کا مبسوط جائزہ لیا گیا ہے اور بتلایا گیا ہے کہ عہد رسالت اور خلافت راشدہ میں شوری کا طرز عمل اور دائرہٴ کار کیا تھا۔ پھر قرآن و حدیث اور فقہ اسلامی میں شوری کے لیے پائی جانے والی حقیقتوں کو پیش کیا گیا ہے اور یہ بات پوری طرح واضح اور ثابت کردی گئی ہے کہ مدارسِ عربیہ میں شوریٰ کی بالادستی شبہ سے بالاتر ہے۔ ان خالص علمی اور تحقیقی مضامین کے درمیان، شوری کی بالادستی کا انکار کرنے والے نقطہٴ نظر کے دلائل کا بھی پوری سنجیدگی سے جائزہ لیا گیا گیا ہے جس سے غلط فہمیوں کے ازالہ میں پوری مدد ملتی ہے۔ اسی کے ساتھ مدارس کے ستور اساسی اور سوسائٹی ایکٹ کے تحت رجسٹریشن کے مسئلہ کو بھی منقح کیا گیا ہے۔ رجسٹریشن پر کیے جانے والے اعتراضات جا ئزہ لیا گیا ہے۔
اسی سلسلہ کا دوسرا اہم مسئلہ یہ تھا کہ یہ مدارس فقہائے کرام کی اصطلاح کے مطابق وقف ہیں یا وقف نہیں ہیں۔حضرت مولانا نے اس کتاب میں مسئلہٴ وقف کو خوب وضاحت سے بیان کیا ہے کہ کن شرائط کے ساتھ وقف صحیح ہوتا ہے ؛ مدرسہ کی ہر چیز کو نہ وقف کہا جاسکتا ہے اور نہ ہر چیز کے وقف ہونے سے انکار کیا جاسکتا ہے۔ جو جائد اد وغیرہ فقہی ضابطہ کے تحت وقف ہے اس پر وقف کے احکام لاگو ہوں گے کہ بیع وغیرہ کے ذریعہ اس کی ملکیت کسی کو منتقل نہیں کی جاسکتی اور ان کی حفاظت پوری طرح واجب ہوگی۔ لیکن جو اشیاء فقہی قاعدہ کے تحت وقف نہیں ، بلکہ ملکِ مدرسہ میں داخل ہیں، ان پر وقف کے احکام نافذ نہیں ہوں گے،البتہ مدرسہ کی ضروریات ان سے پوری کی جائیں گی۔مہتمم یا شوریٰ ایسی کسی چیز کو اپنی ذاتی ملک قرار دینے کا مجاز نہیں۔ اس کتاب سے آپ کی فقیہانہ شان نمایاں ہوتی ہے جو عمومی طور پر لوگوں کو پر آشکارا نہیں تھی۔
اس کتاب کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ حضرت مولانا نے اس کتاب کو لکھنے کے بعد حضرت مولانا مفتی محمود حسن گنگوہی رحمة اللہ علیہ اور حضرت مولانا معراج الحق صاحب دیوبندی رحمة اللہ علیہ بالاستیعاب پڑھ کر سنائی اور ان حضرات اکابر کے مشوروں کے مطابق اس میں حک و فک کیا۔ اس کے بعد اس کتاب کی نقول کو متعدد اہل علم (حضرت مولانا منظور احمد نعمانی و حضرت مولانا قاضی زین العابدین میرٹھی رحمہما اللہ تعالیٰ اراکین مجلس شوری دارالعلوم دیوبند) اور اساتذہٴ دارالعلوم (حضرت مولانا نعمت اللہ اعظمی، حضرت مولانا مفتی سعید احمد پالن پوری اور حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمی قاسمی مد ظلہم العالی) کو پیش کی جس کو ان حضرات نے ملاحظہ فرماکر اپنے نوٹس لکھے۔ اس کے بعد مجلسِ مناقشہ منعقد کی گئی اور تبادلہٴ خیالات کے بعد اصلاحات کی گئیں۔ حضرت مولانا محمد عثمان کاشف الہاشمی اور حضرت مولانا حکیم عزیز الرحمن اعظمی رحمہما اللہ کو بھی اس کتاب کی کاپی پیش کی گئی اور انھوں نے بھی اس پر مکمل اعتماد کا اظہار فرمایا۔ حضرت مولانا ریاست علی بجنوری رحمة اللہ علیہ نے اس کتاب میں ان تمام حضرات کا ذکر کیا ہے جن سے انھوں نے اس کتاب کی ترتیب کے دوران استفادہ، تبادلہٴ خیالات یا اور کسی طرح کی مددلی، حتی کہ انھوں نے خوردوں کے تعاون کا بھی بہت فراخ دلی کے ساتھ کا اظہار کیا ہے جو آپ کے اعلیٰ اخلاق کی واضح دلیل ہے۔
اس کتاب کی تیاری میں حضرت نے جہاں تفسیر و حدیث اور فقہ اسلامی کے امہات کتب سے استفادہ کیا ہے وہیں کچھ معاصر اور ماضی قریب کے اہل علم کتابوں سے بھی استفادہ کیا ہے جیسے حضرت مولانا عبید اللہ سندھی رحمة اللہ علیہ کی ’التمہید لائمة التجدید‘ اور ’مواقف المسترشدین‘ ، شیخ عبد الوہاب خلاف کی ’اصول الفقہ‘، شیخ محمد خضری بک کی ’اصول الفقہ‘ اور ’تاریخ التشریع الاسلامی‘، شیخ ابو زہرہ مصری کی ’اصول الفقہ‘ اور ’تاریخ المذاھب الاسلامیة‘ اور قدیم مآخذ میں’الأحکام السلطانیة‘ (موٴلفہ شیخ ابو الحسن علی بن حبیب البصری المادروی متوفی ، ۴۵۰ھ )،’ الأحکام السلطانیة‘ (موٴلفہ قاضی ابو یعلیٰ الفراء ، متوفی۴۵۸ھ )، ’الموافقات‘ اور ’الاعتصام ‘(شیخ ابواسحاق الشاطبی الغرناطی المتوفی، ۷۹۰ھ) ، ’جامع الرموز‘ (موٴلفہ شیخ شمس الدین محمد خراسانی فہستانی متوفی ۹۶۹ھ) ، ’کشف الاسرار‘ (موٴلفہ علامہ عبد العزیز بخاری متوفی ۷۳۰ھ) وغیرہ ۔ مراجع کی فہرست میں ۹۵(پنچانوے) کتابوں کا ذکر موجود ہے۔
شوریٰ کے نظام کی اہمیت اور اس کی عصری معنویت
خیر القرون میں منصب خلافت سے لے کر ماتحت امارتوں تک مناصب کی تقسیم ، امور کی تنفیذ و تعمیل کا معاملہ وامرھم شوریٰ بینھم کی اساس پر قائم رہا۔ لیکن رفتہ رفتہ یہ بنیاد کمزور ہوتی چلی گئی اور اسلامی حکومت میں شورائیت اور اہلیت کی جگہ وراثت کا عمل جاری ہوگیا۔ خیار امت اور علمائے کرام نے روز اول ہی سے اس غلطی کا ادراک کرلیا تھا ، انھوں نے اس کی اصلاح کی کوششیں بھی کیں ، لیکن اسلامی حکومتیں وراثت کے اثرات سے محفوظ نہ رہ سکیں۔ بہرحال علمائے کرام سلاطین کے خلاف کام کرنے کے بجائے شورائیت کے واجبِ کفایہ کو اپنے علم و حکمت کے دبستانوں میں لاگو کیا اور شوریٰ کی بالادستی و سرپرستی کا عمل جاری کیا۔ حضرات علمائے کرام نے شوریٰ کی زیر سرکردگی میں علوم و فنون کی جو گراں قدر خدمات انجام دی ہیں وہ اسلامی کتب خانہ کی صورت میں موجود ہیں۔ جہاں جہاں اسلامی حکومتیں قائم رہیں علمائے کرام اپنی پسندیدہ روش پر قائم رہے ، انھوں نے سلاطین سے کوئی سروکار نہیں رکھا اور شوریٰ کے ذریعہ کتاب و سنت کی طرف مراجعت کرکے غیر منصوص مسائل کے شرعی احکام کو مدون کرتے گئے اور علوم اسلامیہ کا ایک قابل قدر ذخیرہ جمع کردیا۔
ہندوستان میں مسلم حکومت کی تحلیل کے بعد جب مدارس اور دینی مراکز سے اقتدار اسلامی کی سرپرستی ختم ہوگئی تو انھوں نے ملت اسلامیہ کی بقا و تحفظ کی خاطر مدارس اسلامیہ کا نظام مرتب کیا۔ اکابرین نے اس نظام کو شوریٰ کی بنیادوں پر استوار کیا ۔ یہ دیدہ ور اور ژرف نگاہ اکابر اسلامی تعلیمات ، اس کے مزاج و مذاق اور مقاصد شریعت کے سلسلہ میں خداداد بصیرت اور زہد و تقوی کی صفات سے مزین تھے۔ انھوں نے اس نظام میں شوریٰ کو وہی مقام دیا جس کی وہ مستحق تھی۔
یہی وجہ ہے کہ دارالعلوم کی تاریخ میں ایسا بھی نازک موقع آیا جب سرپرستِ دارالعلوم (حکیم الامت حضرت مولانا اشرف تھانوی رحمة اللہ علیہ) اور مجلسِ شوریٰ کے درمیان اس طرح کا مسئلہ پیش آیا اور دیانت و امانت کے اس عہد زریں میں اکابر نے عملی طور پر اس قضیہ کو اس طرح حل کردیا کہ سرپرست نے شوریٰ کے سامنے اپنا استعفا پیش کردیا جو شوریٰ کی بالادستی کے اعتراف کے ساتھ اختلاف کو ختم کرنے کا ایک نہایت کامیاب اور قابل تقلید حل تھا۔ کاش کہ اسی اعلی نمونہ کی دیگر مواقع پر بھی پیروی کی گئی ہوتی تو دارالعلوم بہت بڑی آزمائش سے بچ گیا ہوتا، لیکن ماشاء اللہ کان وما لم یشأ لم یکن وھو الحکیم الخبیر۔
دارالعلوم دیوبند کی تاریخ کے طالب علم کو صاف طور پر یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ دارالعلوم کی نمایاں خصوصیات میں دو چیزیں نہایت اہم ہیں؛ ایک دارالعلوم کا عوامی چندہ کا نظام قائم کرنا، اس کو مستحکم اور منظم کرنا، دوسرے مدرسہ کو مجلس شوریٰ کے تحت قائم کرنا ۔ حجة الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمة اللہ علیہ کے اصول ہشتگانہ میں بھی یہ دونوں خصوصیات بہت نمایاں طور پر نظر آتی ہیں۔ یہ دونوں عناصر دراصل تحریک مدارس ِکی روح ہیں اور ان بنیادوں میں کمزور ی سے یہ نظام کمزوری اور لاقانونیت کی نذر ہوجا ئے گا۔ ان خصوصیات سے بانیان دارالعلوم کی دور بینی و ژرف نگاہی کا بھی انکشاف ہوتا ہے کہ دنیا میں جمہوری دور کی آمد کی آہٹ انھوں نے کتنی پہلے محسوس کرلی تھی اور جمہوری بنیادوں پر اسلامی اداروں کو قائم کرکے دنیا کے سامنے بہترین نمونہ بھی پیش کردیا تھا۔
شوری کا یہ نظام ہندوستان جیسے ملک میں مسلمانوں کے لیے کسی نعمت ِ عظمی سے کم نہیں۔یہ کتاب اہل مدارس کے لیے بہت کام کی ہے ، اگر ارکانِ شوریٰ اور نظماء و مہتممین حضرات شرعی حدود میں رہ کر مدارس کے نظم و نسق کو چلائیں تو ان کے مابین ناگوار واقعات نہیں پیش آئیں گے ۔ آج کے پرفتن اور ہوائے نفسانی کے غلبہ کے دور میں اداروں اور جماعتوں کو شخص واحد کی امارت و قیادت میں دینے اور بڑی بڑی جماعتوں اور عظیم الشان اداروں میں عملی طور پر وراثت کی روایت پڑنے کی صورت میں بااختیار اور ہیئت حاکمہ کی حیثیت رکھنے والی مجلس شوریٰ قیام اور اس کے ذریعہ طے شدہ ہدایات پر عمل بہت سے فتنوں اور مکروہات سے حفاظت کی ضمانت ہے۔
اگرچہ یہ کتاب ایک وقتی ضرورت اور عارضی حالات کے پس منظر میں لکھی گئی، لیکن اس کے مضامین مین بڑی آفاقیت اور وسعت ہے۔ یہ موضوع اس وقت جتنا اہم اور ضروری تھا، آج اس کی ضرورت و اہمیت دو چند ہوگئی ہے؛ کیوں کہ ایک طرف مدارس کو خارجی فتنوں کا سامنا ہے اور دوسری طرف بہت سی داخلی کمزوریاں اس نظام میں در آئی ہیں:
فرد را ربطِ جماعت رحمت است
جوہرِ او را کمال از ملت است
تاتوانی با جماعت یار باش
رونقِ ہنگامہٴ احرار باش
حرز جان کن گفتہٴ خیر البشر
ہست شیطان از جماعت دور تر
فرد و قوم آئینہٴ یک دیگر ند
سلک و گوہر کہکشان و اخترند
فرد می گیرد ز ملت احترام
ملت از افراد می یابد نظام
(رموز بے خودی، علامہ اقبال)