محمد اللہ خلیلی قاسمی
گذشتہ دنوں جولائی کے پہلے ہفتے میں وزیر انسانی وسائل ارجن سنگھ نے ملک کے ممتاز ماہرین تعلیم، دانشوران اور سماجی کارکنوں کی نئی دہلی میں ایک کانفرنس بلائی تاکہ اقلیتوں کی تعلیمی پس ماندگی کے اسباب و علل پر غور کیاجاسکے اور اس سلسلے میں ضروری اقدامات کیے جاسکیں۔ یہ کانفرنس مرکزمیں برسراقتدار متحدہ ترقی پسنداتحاد کی پالیسیوں کا ایک حصہ تھی جس کا اظہار وزیر اعظم منموہن سنگھ نے اپنے پہلے قومی خطاب میں کیا تھا۔ وزیر اعظم نے ،جو خود بھی ایک اقلیتی فرقے کے ایک فرد ہیں ، اس کانفرنس کا افتتاح کیا۔ انھوں نے اقلیتی تعلیمی اداروں کی تعلیمی صلاحیت کو بڑھانے اور انھیں مرکزی اداروں سے جوڑنے کے لیے اقلیتی تعلیمی کمیشن قائم کرنے کا وعدہ کیا۔ نیز انھوں نے اقلیتی اداروں کو فنڈ دینے اور خصوصاََ اردو کے تئیں اپنی ذاتی دلچسپی کا اظہار کیا۔اس دو روزہ کانفرنس میں وزیر انسانی وسائل نے اقلیتوں کی تعلیمی، معاشی اور سماجی ترقی کے لیے کام کرنے کا وعدہ کیا۔
مرکز میں نئی حکومت کی طرف سے اٹھایا جانے والا یہ قدم بلا شبہ اقلیتوں خصوصاََ مسلمانوں کے لیے خوش آئند ہونا چاہیے۔ اقلیتوں میں خاص طور پر مسلمانوں کی تعلیمی و معاشی حالت ابتر ہے۔مسلمان اجتماعی طور پر ملک میں دلت و قبائلی اقوام سے زیادہ پس ماندہ شمار ہونے لگے ہیں۔تعلیم کا سیدھا تعلق معیشت سے ہے ؛تعلیمی پستی ہی کی وجہ سے مسلمان زندگی کے ہر میدان میں دوسروں سے پیچھے ہیں ۔ ۵۰ ٪ سے زیادہ مسلم آبادی خط افلاس سے نیچے زندگی گذار رہی ہے۔ ہندوستان میں مسلم آبادی ۱۲٪ سے ۱۵٪ کے درمیان ہے لیکن سرکاری شعبوں میں ان کی نمائند گی صرف ۲٪ سے ۵ء۲٪ ہے۔
گذشتہ کچھ سالوں سے مسلمانوں میں تعلیمی بیداری اور ان کی شرح خواندگی کچھ حد تک بڑھی ہے لیکن دوسری مذہبی اکائیوں کے مقابلے میں مسلمانوں کی شرح خواندگی کافی کم ہے ۔مسلمانوں میں مجموعی طور پر ناخواندگی کی شرح ۵۰ ٪ سے بھی زیادہ ہے ۔ دیہی علاقوں میں جہاں مسلمانوں کا اکثر حصہ آباد ہے وہاں مردوں میں ناخواندگی کا تناسب اب بھی۴۰ ٪ ہے ۔خواندہ اور پرائمری سطح تک تعلیم یافتہ مردوں کا تناسب ۳۱٪، مڈل سطح تک تعلیم یافتہ مردوں کا تناسب ۱۵٪ ، سکنڈری سطح تک تعلیم یافتہ مسلم مردوں کا۸٪ ، ہائر سکنڈری سطح تک مسلم مردوں کا کا تناسب صرف ۳٪، گریجویشن اور اعلی سطح تک تعلیم کی شرح صرف ۲٪ ہے ۔ دیہی علاقوں میں مسلم خواتین میں ناخواندگی کی شرح ۷۴٪ ، خواندہ یا پرائمری سطح تک تعلیم یافتہ خواتین کا تناسب۱۶٪ ، مڈل پاس کرنے والی خواتین کا تناسب ۳ء۸٪، سکنڈری لیول تک رسائی حاصل کرنے والی عورتوں کی شرح ۵ء۱٪، سینئر سکنڈری سطح تک پہنچنے والی خواتین کا تناسب ۵ء٪ہے جب کہ گریجویٹ سطح تک اکا دکا دیہی عورتیں پہنچ پاتی ہیں۔شہری علاقوں میں بھی صورت حال کچھ زیادہ اچھی نہیں ہے۔ مسلم مردوں کی شرح ناخواندگی۳۷٪ہے۔ خواندہ یا پرائمری سطح تک۲۵٪ ، مڈ ل سطح تک۱۷٪، سکنڈری لیول تک ۹٪، سینئر سکنڈری سطح تک۳ء۷٪ ، گریجویٹ سطح تک۷ء۴٪ مسلم مرد تعلیم حاصل کرتے ہیں ۔ شہری علاقوں میں مسلم خواتین میں ناخواندگی کی شرح ۷۷٪ہے ۔ خواندہ یا پرائمری سطح تک تعلیم یافتہ خواتین۱۵٪ ،مڈل پاس کرنے والی خواتین ۶ء۲٪، سکنڈری لیول تک تعلیم یافتہ خواتین ۳ء۳٪،سینئر سکنڈری سطح تک پٹھنے والی خواتین۸ء۱٪ اورگریجویٹ سطح تک رسائی حاصل کرنے والی عورتوں کا تناسب ایک فی صد بھی نہیں ہے۔
اعداد و شمار کے مطالعہ سے واضح ہوتا ہے کہ اعلی تعلیم حاصل کرنے والے مسلمانوں کا تناسب دیگر معاشروں کے مقابلے میں تشویشناک حد تک کم ہے۔مسلمانوں میں دوران تعلیم تعلیم چھوڑنے کا رجحان بھی کافی زیادہے۔ داخلہ لینے والے مسلم بچوں میں ۷۰ ٪ سے زیادہ پرائمری یا مڈل سطح تک تعلیم کے تسلسل کو باقی نہیں رکھتے۔ دوسرے معاشرے تعلیم کے تئیں جو بیداری دکھا رہے ہیں مسلمان اس میں ابھی ان سے پیچھے ہیں۔سوال یہ ہے کہ آخر مسلمانوں کی تعلیمی پس ماندگی کا حل کیا ہے ۔ اولا یہ بات سمجھ میں آتی تھی کہ مسلمانوں میں تعلیمی میدان میں ترقی کے لیے اپنے ادارے قائم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مسلم طلبہ کو پھلنے پھولنے کا مناسب موقع فراہم کیا جاسکے۔ چنانچہ گذشتہ دہائیوں میں بہت سے مسلم انجینیرنگ، ٹیکنیکل، مینجمنٹ، سائنس، آرٹس، کامرس اور آرکیٹکچر کے ادارے قائم ہوئے ہیں۔ لیکن اس کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ان اداروں سے استفادہ کرنے والے اکثر طلبہ غیر مسلم ہوتے ہیں۔ حتی کہ وہ یونیورسٹیاں اور ادارے جوخالص مسلمانوں کے لیے قائم ہوئی ہیں ان میں غیر مسلم طلبہ کا تناسب مسلمانوں سے زیادہ ہی ہے۔پرائمری اور سکنڈری اسکولوں وغیرہ کا حال بھی اس سے کچھ مختلف نہیں ہے۔
اس لیے انصاف کی بات یہ ہے کہ مسلمانوں میں اصل مسئلہ تعلیم گاہوں کے قیام کا نہیں بلکہ بنیادی مسئلہ تعلیم کی اہمیت کو سمجھنے اور عملی زندگی میں اس کو برتنے کا ہے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ تعلیمی ادارے نہ قائم کیے جائیں بلکہ مقصد یہ ہے کہ تعلیم گاہوں کے قیام کے ساتھ ساتھ مسلمانوں میں تعلیمی بیداری عام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہر علاقے کے لوگ خود اپنے اپنے علاقے میں تعلیمی بیداری و ترقی کا بیڑا اٹھائیں۔ کوشش یہ ہو کہ اپنے گھر یا پڑوس کا کوئی بھی پانچ سالہ بچہ مدرسہ و اسکول جانے سے نہ رہ جائے۔کوئی بھی بچہ معاشی و دیگر حالات کی بنیاد پر درمیان میں تعلیم ترک نہ کرے۔اس کی ہمت افزائی اورتعاون و امدادمیں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا جائے۔علماء، ائمہ، سماجی کارکنان، دانشوران اور اصحاب ثروت غرضیکہ معاشرے میں جو افراد بھی اثر و نفوذ رکھتے ہوں ان کا یہ قومی فریضہ ہے کہ وہ مسلمانوں میں تعلیم کے تئیں بیدار ی پیدا کریں۔ملک کی پارلیمنٹ اور ریاستوں کی اسمبلیوں میں مسلمان نمائندے اس سلسلے میں انقلابی کردار ادا کر سکتے ہیں۔موجودہ مرکزی حکومت کی اقلیت موافق پالیسیوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس جانب زبردست پیش رفت کے امکانات ہیں۔
سرکاری اعداد و شمار میں بھی مسلمانوں کی شرح خواندگی بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اس سے کم از کم دیگو اقوام میں مسلمانوں کی شبیہ اچھی قائم ہوگی اور خود مسلم قوم کو اس سے حوصلہ ملے گا۔ اس سلسلے میں یہ کوشش بھی ہونی چاہیے کہ سرکار مدارس اسلامیہ میں پڑھائے جانے والے کورسس کو تسلیم کرے۔ آج مسلمان بچوں کا ایک بڑا طبقہ مدرسوں کا رخ کر تا ہے جہاں وہ سالہا سال اصولی، عقلی، مذہبی اور عصری تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ ان میں اخذ و تفہیم، تحقیق و تصنیف اور تدریس وتقریر کی اچھی صلاحیت ہوتی ہے ۔ مگر اس کے باوجود بھی وہ سرکاری اعداد و شمار میں جاہل یا صرف خواندہ سمجھے جاتے ہیں ۔ سرکاری اعداد و شمار بڑھانے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم اپنی شرح خواندگی بڑھا کر اطمینان کر لیں بلکہ مسلم قوم کی تعلیمی و معاشی ترقی کے لیے مستقل اور دور رس لائحہٴ عمل تیار کرنے کی ضرورت ہے۔
جدید اعلی تعلیم کا ایک افسوسناک پہلو یہ ہے کہ وہ طلبہ کو ہمارے اعداد و شمار میں مسلمان ہیں ان میں اکثریت مسلمان ہونے کے باوجود مسلم معاشرے کے لیے کسی کام نہیں آتے۔ مسلم قوم کی خد مت و ترقی اور فلاح و بہبود کے حوالے سے ان کا کوئی قابل ذکر کردار نہیں ہوتا۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے ان کو جدید تعلیم سے تو آراستہ کیا جاتا ہے لیکن ان کی مذہبی تربیت اور معاشرتی شناخت پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی ہے جس کا حاصل یہ نکلتا ہے کہ وہ ترقی کرنے کے بعد مسلمان ہونے کے باوجودبھی مسلمانوں کے لیے مفید نہیں ثابت ہوتے۔اس لیے یہ نہایت ضروری ہے کہ جس طرح مسلمان بچوں کی تعلیم و ترقی کی فکر کی جائے اسی طرح ان کی صحیح روحانی نشو و نما اور اسلامی پرورش و پرداخت میں بھی کوئی کوتاہی نہ برتی جائے۔