۲۳؍ نومبر۱۹۱۹ مطابق یکم ربیع الاول ۱۳۳۸ھ یوم تاسیس جمعیۃ علماء ہند؛ ملت اسلامیہ ہند کے لیے عظیم تاریخی انقلاب کا دن ہے
محمد یاسین قاسمی جہازی، شعبہ دعوت اسلام جمعیۃ علماء ہند
چوں کہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ سمیت پورا عرب ترکوں کے زیر حکومت تھا، اس لییعالم اسلام کی نگاہوں میں ترکی حکومت کو ’حکومت اسلامیہ‘ اور اس کے خلیفہ کو ’خلیفۃ المسلمین‘ کہاجاتا تھا۔ پہلی جنگ عظیم (۲۸؍ جولائی ۱۹۱۴ء ، ۱۱؍ نومبر ۱۹۱۸ء)میں ترکی نے برطانیہ کے خلاف جرمنی کا ساتھ دیا تھا۔ترکی کے جنگ میں شامل ہونے کی وجہ سے بھارتی مسلمانوں کو تشویش ہوئی کہ اگر برطانیہ کامیاب ہو گیا تو ترکی کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا جائے گا۔ بھارتی مسلمانوں نے برطانیہ کے وزیر اعظم لائیڈ جارج سے وعدہ لیا کہ جنگ کے دوران مسلمانوں کے مقامات مقدسہ کی بے حرمتی نہیں کی جائے گی اور جنگ کے بعد مسلمانوں کی خلافت محفوظ رہے گی؛ لیکن برطانیہ نے فتح ملنے کے بعد وعدہ خلافی کرتے ہوئے عربوں کو ترکی کے خلاف جنگ پر اکسایا ، جس کے نتیجے میں بہت سے عرب مقبوضات ترک سلطان کے ہاتھ سے نکل گئے ، جس پر بعد میں انگریزوں نے قبضہ کرلیا اور پھر ترکی کو تقسیم کرکے خلافت اسلامیہ کا خاتمہ کردیا۔ انگریزوں کی اس بد عہدی نے پوری دنیا کے مسلمانوں کو غم و غصہ سے بھر دیا،جس کے نتیجے میں ’تحریک خلافت‘ رونمائی ۔ اسی تحریک کا پہلا اجلاس’’آل انڈیا خلافت کانفرنس‘‘ کے نام سے بروز اتوار، پیر، ۲۳؍ ۲۴؍ نومبر ۱۹۱۹ء مطابق ۲۹؍ صفر و یکم ربیع الاول ۱۳۳۸ھ کوبمقام کرشنا تھیٹر، پتھر والا کنواں دہلی میں ہورہا تھا ، جس میں بھارت کے کونے کونے سے مختلف مسلک و مشرب کے علمائے کرام شریک تھے۔
علمائے کرام کے باہمی مسلکی اختلاف سے امت مسلمہ کی جو نازک حالت بنی ہوئی تھی، اس نے انھیں یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ اگر ہم یوں ہی عقیدہ و فرقہ کا کھیل کھیلتے رہے ، تووہ دن دور نہیں، جب خلافت کی طرح ہمارا وجود بھی صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے گا۔ وقت کی اسی نزاکت و ضرورت کو سمجھتے ہوئے مولانا عبد الباری صاحب فرنگی محل، یا مفتی اعظم حضرت مفتی محمد کفایت اللہ صاحب نے علماء کو ایک متحدہ پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی کوشش کی۔ چنانچہ اس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ۲۲؍ نومبر ۱۹۱۹ء بروز سنیچرحضرت مفتی اعظم مفتی محمد کفایت اللہ صاحب نور اللہ مرقدہ کی ہدایت کے مطابق مولانا احمد سعید اور مولانا آزاد سبحانی صاحبان نے خلافت کانفرنس میں تشریف لائے علمائے کرام کی قیام گاہوں پر جاکر فردا فردا ملاقات کی اور بڑی راز داری کے ساتھ انھیں ایک تنظیم کی نیو رکھنے کی دعوت دی۔ حکومت برطانیہ چوں کہ علماء پر بہت زیادہ نظر رکھے ہوئے تھی ، اس لیے خطرہ تھا کہ اگر کہیں انگریزوں کو بھنک بھی پڑ گئی تو علماء پر حکومت کے قہر و جبر کی قیامت ٹوٹ پڑے گی، اس لیے ۲۳؍ نومبر ۱۹۱۹ بروز اتوار بعد نماز فجرپچ کوئیاں روڈ دہلی میں واقع سید حسن رسول نما کے مزار پرحاضر ہوکر سب نے مل کریہ قول و قرار لیا کہ
’’ہم سب دہلی کے مشہور ومقدس بزرگ کے مزار کے سامنے اللہ کو حاضر و ناظر جان کر یہ عہد کرتے ہیں کہ مشترک قومی و ملی مسائل میں ہم سب آپس میں متحد ومتفق رہیں گے اور فروعی و اختلافی مسائل کی وجہ سے اپنے درمیان کوئی اختلاف پیدا نہیں کریں گے، نیز قومی و ملکی جدوجہد کے سلسلے میں گورنمنٹ کی طرف سے جو سختی اور تشدد ہوگا، اس کو صبرو رضا کے ساتھ برداشت کریں گے اور ثابت قدم رہیں گے۔ جماعت کے معاملہ میں پوری پوری رازداری اورامانت سے کام لیں گے۔ (تحریک خلافت، ص؍۴۰: قاضی عدیل عباسی)
جو علمائے کرام فروعی اختلاف کی وجہ سے ایک دوسرے سے اس قدر دور ہوگئے تھے کہ ایک دوسرے کی تکفیر کرتے نہیں تھکتے تھے اور ایک دوسرے کو سلام تک کرنا گوارا نہیں کرتے تھے؛ حلف راز داری کے بعد اسی روز، یعنی ۲۳؍ نومبر ۱۹۱۹ء مطابق یکم ربیع الاول بروز پیر بعد نماز عشا مسجد درگاہ سید حسن رسول نما میں ایک ساتھ ایک دل اور ایک جان ہوکر بیٹھے اور پوری قوت کے ساتھ میدان عمل تیار کرنے کے لیے ایک پلیٹ فارم تشکیل دی، جس کو ایک خوبصورت نام دیا ، یعنی جمعیۃ علماء ہند۔ اس کے عارضی صدر حضرت مفتی کفایت اللہ صاحب اور مولانا احمد سعید صاحب کوعارضی ناظم بنایا گیا۔ اس تاسیسی اجلاس میں مختلف العقائد کے درج ذیل ۲۵؍علمائے کرام شریک تھے:
(۱) حضرات مولانا عبد الباری ،(۲) مولانا سلامت اللہ، (۳)مولانا ابو الوفاء ثناء اللہ، (۴) پیر محمد امام سندھی،(۵) مولانا اسد اللہ سندھی،(۶) مولانا سید محمد فاخر، (۷) مولانا محمد انیس، (۸)مولانا خواجہ غلام نظام الدین،(۹) مولانا محمد کفایت اللہ، (۱۰) مولانا محمد ابراہیم سیالکوٹی، (۱۱) مولانا احمد سعیددہلوی،(۱۲) مولانا سید کمال الدین،(۱۳) مولانا قدیر بخش، (۱۴)مولانا تاج محمود،(۱۵)مولانا محمد ابراہیم دربھنگوی،(۱۶) مولانا خدا بخش مظفر پوری، (۱۷)مولانا مولا بخش امرتسری،(۱۸) مولانا عبد الحکیم گیاوی،(۱۹) مولانا محمد اکرام،(۲۰) مولانا محمد منیرالزماں،(۲۱) مولانا محمد صادق،(۲۲) مولانا سید محمد داؤد،(۲۳) مولانا سید محمد اسماعیل،(۲۴) مولانا محمد عبداللہ ،(۲۵) مولانا آزاد سبحانی۔
شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی ؒ (اسیر مالٹا) کو مستقل صدر، اور حضرت مفتی محمد کفایت اللہ صاحب کو نائب صدراور مولانا احمد سعید صاحب کو مستقل ناظم اعلیٰ بنایاگیا ۔اس میٹنگ میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ دسمبر میں چوں کہ خلافت کانفرنس امرتسر میں ہونے والی ہے، اس لیے اسی موقع پر جمعیۃ علماء ہند کا بھی اجلاس کرلیا جائے۔
جمعیۃ علماء ہند کا پہلا اجلاس
جمعیۃ علماء ہند کے قیام کے محض ۳۵؍ دن بعد،۲۸، ۳۱؍ دسمبر۱۹۱۹ء اور یکم جنوری ۱۹۲۰ء کی الگ الگ تاریخوں میں تین نشستوں پر مشتمل اسلامیہ مسلم ہائی اسکول امرتسر میں جمعیۃ علماء ہند کا پہلا اجلاس منعقد ہوا۔ پہلی نشست میں باون علمائے کرام شریک ہوئے اور جمعیۃ علمائے ہند کے قیام کی ضرورت و اہمیت پر بحث و گفتگو ہوئی۔ ۳۱؍ دسمبر ۱۹۱۹ کو دوسری نشست ہوئی جس میں تیس علمائے کرام نے شرکت کی۔ اس میں کل تین تجویزیں منظور ہوئیں، جن میں خلافت اسلامیہ کے خلیفہ سلطان عبد الحمید کے نام کا خطبہ پڑھنے، صلح کانفرنس میں بھارتی مسلمانوں کے وفد کے بھیجنے اور اس تجویز کو ملک معظم کی خدمت میں بھیجنے کی تجاویز تھیں۔تیسری نشست یکم جنوری ۱۹۲۰ء کو ہوئی ، جس میں چوبیس علمائے کرام شریک ہوئے ۔اس میں بھی کئی تجاویز پاس ہوکر منظور ہوئیں اور سب سے پہلی مجلس منتظمہ کی تشکیل عمل میں آئی، اور تئیس درج ذیل اراکین منتخب کیے گئے:
(۱) مفتی محمد کفایت اللہ صاحب دہلوی، (۲) مولانا احمد سعید صاحب دہلوی، (۳)حکیم محمد اجمل خان صاحب دہلوی، (۴) مولانا عبد الماجد صاحب بدایونی،(۵) مولانا محمد فاخر صاحب الٰہ آبادی، (۶) مولانا محمد سلامت اللہ صاحب، (۷) مولانا حسرت موہانی صاحب، (۸) مولانا مظہر الدین صاحب، (۹) مولانا محمد اکرام خاں صاحب، (۱۰) مولانا منیر الزماں صاحب، (۱۱)مولانا محمد سجاد صاحب، (۱۲) مولانا رکن الدین صاحب دانا، (۱۳) مولانا خدا بخش صاحب، (۱۴) مولوی پیر تراب صاحب، (۱۵) مولانا عبد اللہ صاحب، (۱۶) مولانا محمد صادق صاحب، (۱۷) مولانا ثناء اللہ صاحب، (۱۸) مولانا سید داؤد صاحب، (۱۹) مولانا محمد ابراہیم صاحب، (۲۰) مولانا عبد اللہ صاحب، (۲۱) مولانا عبدالمنعم صاحب، (۲۲) مولانا سیف الدین صاحب، (۲۳) حکیم ابو یوسف اصفہانی صاحب۔
جمعیۃ علماء ہند کے پہلے دن، پہلی میٹنگ، پہلے اجلاس اور پہلی مجلس منتظمہ کی تفیصلات آ پ نے مطالعہ کرلیا، آئیے ایک نظر ڈالتے ہیں، اس کے اب تک کی دو اعلیٰ قیادت صدور و نظما کی فہرست پر:
صدور
(۱) حضرت مفتی محمد کفایت اللہ صاحب ؒ (پہلے عارضی صدر۲۳؍ نومبر ۱۹۱۹)
(۲) شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندؒ (پہلے مستقل صدر۲۳؍ نومبر ۱۹۱۹، تا ۲۰؍ نومبر ۱۹۲۰)
(۳) حضرت مفتی محمد کفایت اللہ صاحب ۔ (۷؍ ستمبر ۱۹۲۱، تا ۷؍ جون ۱۹۴۰ء)
(۴) شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ (جون ۱۹۴۰)
(۵)حضرت مولانا احمد سعید صاحبؒ (۱۹۵۷)
(۶) حضرت مولانا سید فخر الدین صاحبؒ (۱۹۵۹)
(۷) حضرت مولانا عبد الوہاب صاحب ؒ (عبوری صدر)(۱۹۷۲)
(۸) حضرت مولانا سید اسعد مدنی صاحبؒ (اگست ۱۹۷۳)
(۹) حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب (۲۰۰۶)
(۱۰) حضرت مولانا قاری سید محمد عثمان صاحب (۶؍ مارچ۲۰۰۸، تا حال)
نظما
(۱) حضرت مولانا احمد سعید صاحبؒ (پہلے عارضی ناظم۲۳؍ نومبر ۱۹۱۹ء)
(۲) حضرت مولانا احمد سعید صاحب ؒ (پہلے مستقل ناظم عمومی، نومبر ۱۹۲۰)
(۳) حضرت مولانا سجاد بہاری صاحبؒ (جولائی ۱۹۴۰ء )
(۴) حضرت مولانا حفظ الرحمان صاحبؒ (مارچ ۱۹۴۲)
(۵)حضرت مولانا محمد میاں صاحبؒ (اگست ۱۹۶۲)
(۶) حضرت مولانا سید اسعد مدنی صاحبؒ (جون ۱۹۶۳ء)
(۷) حضرت مولانا سید احمد ہاشمی صاحبؒ (اگست ۱۹۷۳ء)
(۸) حضرت مولانا اسرار الحق قاسمی صاحب (۱۹۸۱)
(۹) حضرت مفتی عبد الرزاق صاحب (۱۹۹۱)
(۱۰) حضرت مولانا عبد العلیم فاروقی صاحب (اپریل ۱۹۹۵)
(۱۱) حضرت مولانا سید محمود اسعد مدنی صاحب (۲۰۰۲)
(۱۲) حضرت مولانا حکیم الدین قاسمی صاحب (۹؍ مئی۲۰۰۸)
(۱۳) حضرت مولانا سید محمود اسعد مدنی صاحب (۲۰۱۱ء تاحال)
اس فہرست سے اندازہ لگاسکتے ہیں کہ جمعیۃ علماء ہند کی قیادت ہمیشہ وقت کی بزرگ اور معتبر شخصیات کی ہاتھوں میں رہی ہے، جنھوں نے اپنی ایمانی فراست اور سیاسی بصیرت سے ہمیشہ مسلمانوں کے لیے تعمیری اور مثبت کارنامے انجام دیے ہیں ، جو تاریخ عالم پر ثبت ہے۔
جمعیۃ علماء ہند کی خدمات کے جلی عنوانات
آج بتاریخ ۲۳؍ نومبر ۲۰۱۸ء اس جماعت کی تشکیل کو ننانوے سال پورے ہورہے ہیں ، اگر اس قدیم سالہ جماعت کی خدمات کو تفصیلی طورپر شمار کرایا جائے ، تو یہ اب ناممکن ہے ۔ ناممکن اس لیے نہیں ہے کہ کوئی لکھنے والا نہیں ہے؛ بلکہ ماضی میں جمعیۃ کی خدمات کا جتنا تذکرہ کتابوں میں ملتا ہے، اس سے کہیں زیادہ خدمات وہ ہیں جنھیں کبھی لکھا ہی نہیں گیا ہے۔ اور نہ لکھنے کی ایک لمبی کہانی ہے ۔ مختصرا یہ عرض ہے کہ سید الملت حضرت مولانا سید محمد میاں صاحب کے بقول جمعیۃ علماء ہند پر انگریزجاسوسوں کی گہری نظر رہتی تھی ، اس لیے جو فیصلے اور لائحۂ عمل طے کیے جاتے تھے ، وہ لکھنے کے بجائے زبانی ہوتے تھے اور یہ زبانی فیصلے بھی کوڈ میں ہوا کرتے تھے، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جمعیۃ علماء ہند کی تاریخ کا بڑا حصہ حیطۂ تحریر میں نہیں لایاجاسکا۔ اب موجودہ وقت میں ان کا ماخذ صرف اس زمانے سے وابستہ جمعیۃ علماء ہند کے خادمین اور مخدومین ہیں اور ان کے پاس بھی جو سرمایہ ملے گا، وہ زبانی روایتیں ہی ہوں گی اورویسے بھی اب ان کو زندوں میں تلاش کریں، تو ان کی تعداد آٹے میں نمککے برابر بھی نہیں ملے گی، اس لیے ہم پوری تفصیلات پیش کرنے سے عاجزی کے اظہار کے علاوہ کچھ نہیں کرسکتے؛تاہم جو خدمات تاریخ کے صفحات میں قید ہیں، اگر ہم ان کے صرف عنوانات کا جائزہ لیتے ہیں، تو وہ کچھ اس طرح ہیں:
(۱) ہندستان کی مکمل آزادی کے لیے بھرپور جدوجہد۔
(۲) تعلیمی اداروں کا قیام اور تمام مکاتب فکر کو ساتھ لے کر مکاتب کا نیٹ ورک پھیلانے کی کوششیں۔
(۳)جمہوری نظام حکومت میں برادران وطن کے ساتھ مل کر کام کرنے اور ان سے کام لینے کی حکمت عملی اپنانے پر زور۔
(۴)مسلمانوں کے شرعی مسائل میں کسی بھی طرح کی مداخلت کے خلاف انقلابی کوشش۔
(۵)مساجد، مدارس ، مکاتب، مقابر،خانقاہوں اور دیگر اسلامی اداروں کے تحفظات کے لیے لازوال جدوجہد۔
(۶) اردو کی بقا کے لیے مناسب اقدامات۔
(۷)مسلمانوں کی صلاح و اصلاح کے لیے اصلاح معاشرہ کے پروگرام۔
(۸)اوقاف کے تحفظ کی کوششیں۔
(۹)فرقہ وارانہ فسادات کے خلاف سخت جدوجہد۔
(۱۰)مسلمانوں کی ملی شناخت کو مٹانے کی سازشوں کو ناکام بنانے کی بھرپور جدوجہد۔
(۱۱) دستور میں مسلمانوں کو ان کے دینی ، ملی، سیاسی اور تعلیمی حقوق سے محروم کرنے یا نقصان پہچانے کی غرض سے کی جانے والی ترمیموں کے خلاف سخت ایکشن۔
(۱۲) پاکستان کے نام سے مسلمانوں کو ایک الگ ملک دینے کی شدید مخالفت اور اس کے بجائے متحدہ قومیت کی وکالت۔
(۱۳) تقسیم ہند کے نتیجے میں آبادی کی تبدیلی کی ہولناک تباہی و بربادی اور فرقہ وارانہ فسادات کو روکنے کی انتھک جدوجہد اور مسلمانوں کو اس ملک میں عزت کے ساتھ رہنے کی حوصلہ افزائی۔
(۱۴) انخلاکنندگان کی جائیدادوں کے سلسلے میں جاری مبہم آرڈی ننس کی وجہ سے مسلمانوں کی جائیدادوں کو درپیش خطرہ اور کسٹوڈین کے من مانی کے خلاف جنگی جدوجہد۔
(۱۵) فرقہ پرست تخریبی طاقتیں اور ایڈمنسٹریشن کے ایک مخصوص طبقہ کا مسلمانوں کے لیے ناقابل برداشت حالات پیدا کردینے کے پیش نظر تمام سنجیدہ اور بااثر حضرات سے مل بیٹھ کر غورو فکر کرنے کی دعوت۔
(۱۶) جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونی ورسیٹی علی گڑھ کے اقلیتی کردار کی بحالی کی کوشش۔
(۱۷)فلسطین اور پوری دنیا میں انسانیت پرہورہے مظالم کے خلاف سخت احتجاج۔
(۱۸)اکابر کی خدمات سے نئی نسل کو روشناس کرانے کے لیے سیمنار اور پروگراموں کا انعقاد۔
(۱۹)حرمین شریفین کے تحفظ کی کوشش۔
(۲۰) حجاج کرام کی پریشانیوں کو دور کرنے کی کوشش۔
(۲۱)ارتداتی سرگرمیوں پر روک لگانے کے لیے حالات کے تقاضے کے مطابق کمیٹیوں کی تشکیل اور عیسائی مشنریز کی سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے موثر اقدامات
(۲۲)توہین رسالت کے معاملے پر سخت ایکشن۔
(۲۳) مسلمانوں کے شرعی مسائل کے حل کے لیے مباحث فقہیہ اور امارت شرعیہ کا قیام۔
(۲۴)دہشت گردی مخالف کانفرنسوں کا انعقاد۔
(۲۵) قدرتی آفات اور فرقہ وارانہ فسادات میں اجڑے اور برباد ہوئے لوگوں کے لیے وسیع پیمانے پر ریلیف ورک اور باز آباکاری کی انتھک کوششیں۔
(۲۶)جیلوں میں بے قصور بند افراد کی رہائی کے لیے قانونی چارہ جوئی۔
(۲۷) عالم اسلام کے مسائل پر گہری نظر ۔
(۲۸) مسلمانوں کے سیاسی مفادات کا تحفظ۔
(۲۹) مسلمانوں کی ملی وحدت برقرار رکھنے کی کوشش۔
(۳۰) مسلمانوں اور برادران وطن کی سماجی اور اقتصادی خدمات۔
( ۳۱) علمی و اشاعتی کارنامے۔
(۳۲) حالات اور وقت کے تقاضے کے مد نظر کانفرنسوں اور جلسہ ہائے عام کا انعقاد۔
یہ وہ جلی عنوانات ہیں ، جن پر جمعیۃ علماء ہند نے اپنی خدمات سے ایک تاریخ رقم کی ہے۔اور جن سے آپ بہ خوبی اندازہ لگاسکتے ہیں کہ بھارتی مسلمانوں کے لیے جمعیۃ علماء ہند کا وجود کیا حیثیت رکھتا ہے ۔ تاریخ کی شہادت کی روشنی میں یہ دعویٰ کرنا نہ مبالغہ آرائی ہوگی اور نہ ہی خلاف واقعہ حکایت کہ ماضی میں جس قسم کی سیاست ہوئی ہے اور حال میں جس قسم کی سیاست ہورہی ہے، اگر جمعیۃ نہ ہوتی، تو بھارتی مسلمانوں کے لیے یہ ملک برما سے بھی زیادہ بدتر ہوتا ۔
موجودہ حالات میں بھی جب کہ ہر طرف خوف و ہراس اور دہشت گردی ناچ رہی ہے، کچھ لوگ بھیڑ کے مذہبی جذبات کو بھڑکاکر انسانیت کے چہرے کو نوچ رہے ہیں، اور بالخصوص مسلمانوں کے لیے عرصہ حیات کو تنگ کرنے کی ہر گھڑی سازشیں ہورہی ہیں، جن سے ہمہ وقت یہ خدشہ لگا رہتا ہے کہ مشترک قومی سماج میں نہ جانے کب ایک پڑوسی دوسرے کے لیے بھیڑیہ بن جائے اور انسان اپنے ہی بھائیوں کے خون کا پیاسا ہوجائے، ایسے حالات میں سیکولرازم اور جمہوریت کی فضا کو قائم رکھنا ،اکثریتی سماج میں اقلیت کی حفاظت کو یقینی بنانا ،ظلم و بربریت کے پہاڑ ٹوٹنے کے باوجود مایوسی سے بچائے رکھنااور حق داری کے دعویٰ کے ساتھ سر اٹھاکر جینے کاحوصلہ بخشنا ؛ یہ صرف اور صرف جمعیۃ علماء ہند کا کارنامہ ہے۔سردست حضرت مولانا قاری سید محمد عثمان صاحب منصور پوری صدر جمعیۃ علماء ہند اور قائد جمعیۃ حضرت مولانا سید محمود اسعد مدنی صاحب ناظم عمومی جمعیۃ علماء ہند کی بصیرت افروز قیادت کے تلے جمعیۃ علماء ہند ، ہند میں سرمایہ ملت کی نگہبانی کا فریضہ انجام دینے میں پیہم رواں دواں ہے۔