آئین ہند یا منوسمرتی: بھارت میں کس کی حکمرانی؟

عظیم اللہ صدیقی قاسمی

90 سال پہلے 25 دسمبر 1927کو کمزورطبقات ، دلت و خواتین کی عزت نفس اور تحفظ کے لیے خالق دستور ہند بابا صاحب بھیم راؤ امبیڈ کرنے مہاراشٹر کے ساحلی علاقہ مہاڑ (کوکن) میں منوسمرتی دہن(نذرآتش) اور اسے باضابطہ دفن کرتے وقت جس دکھ کا اظہار کیا تھا، کیا وہ دکھ ختم ہو گیا اور کیا بھارت سے وہ سوچ مٹ گئی ؟ کیا بھارت اب ایک بار پھر ایسی سوچ کی گرفت میں نہیں آئے گا اور کیا بھارت کے لوگ اس تفریق اور جات پات کی لعنت سے پاک ہو گئے یا زخم ابھی بھی تازہ ہے ؟ یہ ایسے سوالات ہیں جن کو 26؍ نومبر کو یوم دستور کے موقع پر ایک دوسرے سے پوچھنے کی ضرورت ہے ۔یہ سوال پوچھنے کی ضرورت اس لیے بھی ہے کیوں کہ موجودہ حالات میں لوگ بری طرح کنفیوژن کے شکار ہیں ، وہ بدلنے منظر نامہ میں اپنے سیاسی رہ نماؤں کے بیانات کا کبھی مطلب سمجھ پاتے ہیں اور کبھی نہیں ۔ کبھی ان کی میٹھی باتیں سن کر خوش ہو جاتے ہیں او ر کبھی ان کی تیکھی باتیں غم زدہ کردیتی ہیں ۔

26؍نومبر کو بھارت میں یوم دستور منانے کی روایت بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے تقریبا تین سال قبل شروع کی تھی ،اس موقع پر خالق دستور بھیم راؤ امبیڈکر کو بھی یاد کیا جاتا ہے جنھوں نے تمام طبقات کے یکسا ں حق کے لیے دستور ہند کا معتدل اور معیاری نسخہ پیش کیا ۔انھوں نے ایسا کرکے بظاہر ملک میں منوسمرتی نظام لانے والوں سے جنگ جیت لی اور لوگوں نے یہ مان لیا کہ اب ملک میں دستور کی ہی حکمرانی رہے گی، لیکن ایسا سمجھنے والے دستور پر گوریلا حملہ آوروں سے ناواقف رہے جو دور موجود میں اوپن فائر کرر ہے ہیں ۔ایک طبقہ تو عوامی سطح پر منوسمرتی کی دوبارہ نمائش کرنے لگاہے ،خاص طور سے اکھل بھارتیہ ہندو مہاسبھا نے منوسمرتی کو اپنی بنائی گئی عدالت کا حصہ بنانے کا اعلان کردیا ہے۔ اسی طرح سوامی ویویکانند کی تقریر کے ایک سو پچیسویں سالگرہ کے موقع پر شکاگو میں منعقد ورلڈ ہندو کانگریس میں ڈاکٹر ناگاسوامی جیسی دانشور شخصیت نے منو دھرما شاستر ( منوسمرتی) کی تعریف میں پندرہ منٹ تک رطب اللسان رہ کر بہتوں کو چونکاد یا ، انھوں نے غیر منطقی طریقے سے ان تمام برائیوں کو درست ٹھہرانے کوشش کی اور اس کتاب کو دنیا کے لیے مثالی قرار دیا ۔
اگر ہم ماضی کی طرف لوٹتے ہیں جب ڈاکٹر امبیڈکر نے مہاڑ میں منوسمرتی دہن تقریب منعقد کی تھی ، تویہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ اس وقت دلتوں کے حالات کافی ابتر تھے، حالت یہاں تک خراب تھی کہ دلت عوام وہاں واٹر ٹینک سے پانی نہیں لے سکتے تھے ،حالاں کہ سرکاری طور سے یہ اجازت سب کو حاصل تھی مگر برہمن وادیوں کی جانب سے اس پر سخت بندش تھی ۔جس دن ڈاکٹر امبیڈکر یہ پروگرام کرنا چاہتے تھے ، اس دن اعلی ذات کے ہندوؤں نے ہر طرح کی رکاوٹ کھڑی کی ، کسی نے بھی پروگرام کے لیے جگہ نہیں دی ، مگر ایک باہمت مسلمان ’فتح خاں‘ نے تمام رکاوٹوں کے باو جود اپنا میدان پیش کیااور پھر لاکھوں کا مجمع جمع ہو گیا ۔

اس دن انسانوں کے جم غفیر میں امبیڈکر نے عہد لیا کہ (۱) ہم پیدائش کی بنیاد پر قائم ورنا سسٹم میں یقین نہیں رکھتے (۲) جات پات کی تفریق کو نہیں مانتے(۳)چھواچھوت کو ہم ہندوازم کے خلاف سمجھتے ہیں اور اس نظام کو ہم تباہ کرنے کی پوری کوشش کریں گے (۴)ہمارا ماننا ہے کہ ہر آدمی کو مندر ، پانی اور اسکول سمیت دیگر سہولیات میں برابر کا حق ہے وغیرہ وغیرہ۔
منوسمرتی کو نذر آتش کرنا بھارت میں ایک نئے انقلاب کی بنیاد تھی،جب سب سے کمزور لوگوں نے طاقتوروں سے لڑنے کا عزم ظاہر کیاتھا۔ اس واقعہ سے برہمن وادی طبقہ چراغ پا ہوگیا اور اس نے ڈاکٹر امبیڈکر کو’بھیماسور‘ قرار دیا ، مگر ڈاکٹر امبیڈکر بھی قلم کے ہیرو تھے ، انھوں اپنے متعدد مضامین میں موثر استدلالی پیرایہ میں یہ ثابت کیا کہ آخرمنوسمرتی جلانے کی ضرورت کیوں پڑی ؟انھوں نے بتلایا کہ منوسمرتی کے مطالعے سے یہ نتیجہ اخذکرنے پر مجبور ہوں کہ اس کتاب نے دور دور تک سماجی مساوات کی حمایت نہیں کی ہے۔انھوں نے اس کے جلانے کو مہاتما گاندھی کے ذریعے بیرونی کپڑے جلانے کے مماثل قراردیا ۔

اب اس احتجاج کو 9دہائی گزرگئے ، اس بار پھر 26؍نومبر کو بھارت میں یوم دستور منایا جارہا ہے ۔مگر آج بھی حالات کا جائزہ لیا جائے تو حالات دلتوں کے لیے کچھ بہتر نہیں ہیں۔ ملک کا ایک طبقہ بالخصوص فرقہ پرست افراد منوسمرتی کو آج بھی اپنی فکر کی اہم بنیاد مانتے ہیں۔ یہ یک طرفہ تماشا ہے کہ وہ دوسری طرف دلتوں کو اپنا دوست بنانے کی بھی کوشش کررہے ہیں،اپنے ماضی کے گدلے چہرے پر اسنو پاؤڈر لگانے کے لیے چند سال قبل جے پی ترجمان وجے سونکر شاستری نے پہ درپہ تین کتابیں بھی لکھ ڈالیں : (۱) ہندو چرم کار جاتی (۲) ہندو کھٹک جاتی (۳)ہندو والمیکی جاتی جن میں ا نھوں نے بڑی بے شرمی سے ذات کی بنیاد پر تفریق کا الزام مسلم عہد کے حکمرانوں پر ڈال دیا۔ حالاں کہ یہ ایک مذاق سے کم نہیں ہے، کیوں کہ منوسمرتی کسی مسلم حملہ آور کے دور میں نہیں لکھی گئی۔ اس کتاب میں کھلے بندے دلت اور خواتین کی توہین کی گئی ہے،عورت کو شودر اور کتا کی طرح ذلیل اور محض ذریعہ خواہش نفسانی قراردیا گیا ہے ۔

منوسمرتی ایک ایسی کتاب ہے جس سے فرقہ پرست طاقتیں اپنا دامن نہیں چھڑاسکتیں، وہ آج بھی اسے اپنی قسمت کے لیے نیک فال سمجھتی ہیں، آرایس ایس کے نظریہ ساز ویر ساورکر منوسمرتی کو اپنی تہذیب کی بنیاد مانتے ہیں: چنانچہ ان کا کہنا ہے کہ ’’ منوسمرتی ایک ایسی کتاب ہے جو ویدوں کے بعد ہندو قوم کے لیے سب سے زیادہ قابل پرستش ہے ،یہ کتاب ہماری تہذیب کے لیے صدیوں سے بنیاد رہی ہے ، دہائیوں سے یہ کتاب ہماری قوم کی روحانی اور مذہبی قیادت کررہی ہے ،یہاں تک کہ آج بھی ہندو منوسمرتی کی بنیاد پر اپنی زندگی گزارتے ہیں، آج منوسمرتی ہندو قانون ہے ۔‘‘ ( ساورکر وی۔دی وومن ان منوسمرتی ، جلد4نیو دہلی :پربھات ) یہی وجہ ہے کہ امبیڈکر اور نہرو نے 40کی دہائی کے آخر میں جب عورتوں کے لیے وراثت میں محدود حق کے لیے ہندو کوڈ بل کو منظوری دلائی تو آرایس ایس کے نظریہ ساز گولوالکر اور ان کے ساتھیوں نے اس کے خلاف تحریک چھیڑدی-

دستور ہند کے قیام و نفاذ کے بعد بھی ایسی تحریکیں مسلسل چھیڑی گئیں جن میں ا کثریت کے مذہب کو دستور سے اوپر بتانے کی کوشش کی گئی ۔۱۹۹۲ء میں بابری مسجد کا انہدام اور اب باضابطہ دستور کی قسم کھانے والی سرکاروں کے ذریعہ ایک مذہب اور نظریہ کی کھلم کھلا حمایت بھی اسی زمرے میں آ تی ہے ۔ اترپردیش کی یوگی سرکارکھلے عام بابری مسجد کے مقابلے رام مندر کی طرف داری کرر ہی ہے ، غالبا اس کے اشارے پر ایودھیا میں ایک بار پھر انسانوں کا مجمع جمع ہو چکا ہے اور وہ بھی اس وقت جب ملک میں یوم دستور منانے کی تیاری ہو رہی ہے ۔ یعنی بات صاف ہے کہ دستورڈے کے موقع پر دستور کی مخالفت کی تیاری ہورہی ہے ۔اس لیے ایسے حالات میں اگر کوئی یہ سوال کرتا ہے کہ کیا ملک میں منوسمرتی کی سرکار چلے گی یا دستور کی،تو اس کا سوال بے جانہیں ہے اور یوں ہی اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔یہ اس لیے بھی کیوں کہ منوسمرتی ، درحقیقت دستور کی روح کی مقابل ہے ، اس کی حمایت کا مطلب آئین ہند کی تذلیل و تحقیرہے۔اس وقت یہ سوال اٹھنا فطری ہے کہ کیا دستور صرف منانے کے لیے رہ جائے گا یا اس پر عمل بھی ہو گا ؟ کیا اس کے مقابل کتاب پیش کرنے والوں کی گرفت ہوگی یا صرف اسے نادانوں کا ٹولہ سمجھ کر نظر انداز کیا جاتا رہے گا ؟میرے خیال سے دستور پر حملہ کرنے والوں کو نادان دوست سمجھ کر نظر انداز کرنا مہنگا بھی پڑ سکتا ہے۔

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے