از: خورشید عالم داؤد قاسمی٭
Email: qasmikhursheed@yahoo.co.in
26/اکتوبر 2018 کو غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کا وزیر اعظم، بنجامن نیتن یاہو نے سلطنت عمان کے سلطان قابوس بن سعید کی دعوت پر عمان کا دورہ کرکے، اپنی سیاسی طاقت مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی قوم کا ہیرو اور مسیحا بن گیا۔ نیتن یاہو کے اس دورے میں، اس کی اہلیہ، اسرائیل کی جاسوسی ایجینسی "موساد” کا ڈائرکٹر، وزارت امور خارجہ وقومی دفاعی کونسل کے اعلی ذمے داران اور فوج کے سکریٹری وغیرہ بھی شامل تھے۔ نیتن یاہو کے اس دورے کے بعد، اسرائیل کے حوالے سے خلیجی ممالک کے نرم گوشے اور والہانہ استقبال کو دیکھ کر، دنیا کے طول وعرض میں جی رہے کروڑوں مسلمانوں کے ذہنوں میں سوالات پیدا ہونے لگے ہیں کہ کیا اب ایک غاصب صہیونی ریاست، "عظیم تر اسرائیل” میں تبدیل ہونے والی ہے؟ کیا مسلمانوں کا "قبلۂ اوّل” صہیونیوں کے قبضے میں ہی رہے گا؟ کیا اب "مسجد اقصی” کی جگہ آج یا کل "ہیکل سلیمانی” کی تعمیر ہوکر رہے گی؟ کیا "بیت المقدس” سچ مچ "عظیم تر اسرائیل” کا دار الخلافہ بن کر رہے گا؟ کیا فلسطین نام کی ریاست صفحۂ ہستی سے مٹ کر، تاریخ کا حصہ بن جائی گی؟ فلسطین کے مسلمان شہریوں کی جان کی قدر وحیثیت صہیونی افواج کے سامنے کتے بلی کی جانوں سے بھی بدتر اور کمتر ہوجائے گی اور وہ اپنے معمول کے مطابق آتشی اسلحے سے فلسطینیوں کو بھونتی رہے گی؟ "غزہ کی پٹی” میں تنگ دستی ومفلوک الحالی کی زندگی گزار رہے مسلمان، اسرائيلی آہنی فصیل کے محاصرہ میں ہی دم توڑ کر، دنیا سے رخصت ہوجائیں گے؟ موجودہ حالات سے تو یہی پتہ چلتا ہے کہ اب عن قریب یہ سب کچھ ہوکر رہے گا؛ الا یہ کہ اللہ تعالی ایک عدد صلاح الدین پیدا کردے جو مکمل طور پر ایّوبی صفات کا حامل ہو۔
اس طرح کے سوالات ذہن میں اس لیے جنم لے رہے ہیں کہ غاصب صہیونی ریاست کے وزیر اعظم نیتن یاہو کی عمان میں ضیافت کے اگلے دن، سنیچر 27/اکتوبر کو عمان نے کھلے طور پر یہ بیان دیا کہ اسرائیل کو مشرق وسطی کی ایک ریاست کے طور پر قبول کرنے کا وقت آگیا ہے۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی ہے؛ بلکہ ایک سیریز کے طور پر، خلیجی ممالک کے قائدین سب کے سب ایک ہی سر میں بات کر رہے ہیں اور ان کی باتوں پر عمل ہوتا بھی دکھائی دے رہا ہے۔ چناں چہ بحرین میں سیکوریٹی کانفرنس کے دوران عمانی وزیر برائے امور خارجہ، جناب یوسف بن علاوی بن عبد اللہ نے کہا کہ "ہم سب اس بات کو سمجھتے ہیں کہ اسرائیل ایک ریاست ہے جو ہمارے خطے میں واقع ہے۔” انھوں نے مزید کہا کہ "دنیا بھی اس بات سے واقف ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ وہی سلوک کیا جائے جو سلوک دوسرے ممالک کے ساتھ اپنایا جارہا ہے۔” واضح رہے کہ وزیر موصوف کا یہ بیان بحرین میں منعقدہ سہ روزہ سیکوریٹی کانفرنس کے دوران 27/اکتوبر 2018 کو آیا ہے۔ بحرین کے وزیر خارجہ خالد بن احمد الخلیفہ نے عمانی موقف کی تائید کی۔ اس کانفرنس میں سعودی عربیہ، بحرین، امریکہ، اٹلی اور جرمنی کے نمائندوں نے بھی شرکت کی تھی۔
نیتن یاہو کے اس دورہ پر تبصرہ کرتے ہوئے 26/اکتوبر 2018 کو امریکی اخبار "نیو یارک ٹائمز” کے ایک قلم کار نے اپنے مضمون میں، اس دورہ کی پوری خبر رکھنے والے ایک اعلی اسرائیلی عہدیدار کے حوالے سے یہ صراحت کے ساتھ لکھا ہے کہ عمان کا اسرائیل سے کھلے عام تعلقات ہوجانے کے بعد، عمان کی ایماندارانہ ثالثی کی وجہ سے، یہ بھی ممکن ہے کہ اب اسرائیل کے لیے مزید دروازے کھلیں۔ اس عہدیدار نے مزید کہا ہے کہ یہ بات اب خارج از امکان نہیں کہ عمان اسرائیل کے لیے نہ صرف ایران؛ بل کہ شام کے ساتھ بھی (تعلقات قائم کرنے کا) خفیہ واسطہ اور ذریعہ کا کردار ادا کرسکتا ہے۔
نیتن یاہو کا دورہ صرف عمان کے حدود میں ہی محدود نہیں ہے؛ بل کہ اس کے فورا بعد، عرب اور مسلمانوں کے خلاف متنازع بیان دے کر سرخی میں رہنے والی اسرائیل کی وزیر ثقافت اور کھیل، میری رگیو نے اپنی اسرائیلی جوڈو ٹیم کا مقابلہ دیکھنے کے لیے متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کا دورہ کیا ہے، جہاں اس کا پرجوش استقبال کیا گیا اور اس نے ذمے داروں سے بھی ملاقات کیا۔ اس سفر کے دوران، یو اے ای کے عہدیداروں نے 29/اکتوبر 2018 کو، وزیر موصوفہ کو ابو ظہبی کی مشہور "شیخ زائد مسجد” کا دورہ بھی کرایا۔ یہ بات بھی نوٹ کیے جانے کے قابل ہے کہ یہ پہلا موقع ہے جب اسرائیلی جوڈو ٹیم نے کسی خلیجی عرب ملک میں اپنے قومی جھنڈے کے ساتھ کھیل میں حصّہ لیا ہے۔
اس خاتون وزیر کے دورے کے بعد، اسرائیل کے کمیونیکیشن منسٹر ایوب کارا نے 30/اکتوبر کو دبی کا دورہ کیا۔ انھوں نے دبی میں ٹیلی کمیونیکیشن کانفرنس کو خطاب کرتے ہوئے”امن اور تحفظ” کے موضوع پر بات کی۔ پوری دنیا جانتی ہے مسٹر ایوب جس غاصب صہیونی ریاست کے وزیر ہیں، اس ریاست میں فلسطینیوں کی زمین کو غصب کرنا، قبضہ کرنا اور فلسطینیوں کے خون سے ہولی کھیلنا، ان کی ریاست کا صبح وشام کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ پھر "امن اور سیکوریٹی” کے حوالےسے اس کے بیان کی نفاق سے زیادہ اور کیا حیثیت ہوسکتی ہے!
چند دنوں کے دوران خلیجی ممالک میں اسرائیلی انتظامیہ اور وزراء کا کھلے عام باضابطہ دورہ اور خلیجی ممالک کا ان کا والہانہ استقبال کرنے سے پیشتر، سعودی عرب کے ولی عہد، محمد بن سلمان نے 2/اپریل 2018 کو، دبے لفظوں میں اسرائیل کو بحیثیت ایک ریاست تسلیم کرتے ہوئے، "دی اٹلانٹک” کے چیف ایڈیٹر: جیفری گولڈبرگ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ "اسرائیل کو اس بات کا حق ہے کہ وہ اپنے وطن میں امن کے ساتھ رہیں۔” محمد بن سلمان کے اس بیان کو مغربی میڈیا نے "کسی عرب رہنما کی طرف سے ایک بے نظیر بیان” سے تعبیر کیا تھا۔
بہر حال، فلسطینی انتظامیہ نے نیتن یاہو کے اس دورہ پر، عمان کی پرزور مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ان فلسطینی عوام کے ساتھ دھوکہ دہی اور بے وفائی ہے جو اب بھی وحشی وبے رحم اسرائیل کی ماتحتی میں غزہ اور مغربی کنارے میں زندگی گزار رہے ہیں۔
حماس نے عمان کے خلاف اپنے غم وغصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ باقاعدہ تعلقات قائم کرنے میں جلدی کرنا، فلسطینیوں کے پیٹھ میں چھری گھونپنا ہے۔ حماس کے سیاسی دفتر کے رکن، جناب موسی ابو مرزوق نے کہا ہے کہ یہ بالکل بے جوڑ اور عجیب سی بات لگ رہی ہے کہ کچھ ممالک فلسطینیوں کو اپنے ملک میں داخل ہونے اور کام کرنے سے روکتے ہیں، مگر جب وہ ہمارے اسرائیلی دشمن سے اپنے تعلقات استوار کرنا چاہتے ہیں؛ تو اپنے عمل کو اس طرح بجا ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ اسرائیل سے تعلقات قائم کرکے فلسطینیوں کی مدد کرنا چاہیے ہیں اور ان کی اذیت وپریشانی کا خاتمہ چاہتے ہیں۔” انھوں نے مزید کہا کہ ہم فلسطینی یہ نہیں چاہتے ہیں کہ کوئی عرب ملک ہماری مدد کے بہانے اسرائیل سے تعلقات قائم کرے۔”
مسلم ممالک کے حکام وقائدین اس بات کو کیوں نہیں سمجھتے ہیں کہ غاصب صہیونی ریاست کسی بھی صورت میں ان کا دوست نہیں ہو سکتی ہے۔ یہ وہی صہیونی ریاست ہے جس نے کئی مسجدوں پر تالا لگا کر، فلسطینیوں کو نماز ادا کرنے سے روک رکھا ہے۔ اس ریاست کے گھناؤنے کرتوتوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس نےکئی مسجدوں کو اولا میوزیم پھر مے خانہ میں تبدیل کردیاہے۔ یہ وہی ریاست ہے جس کی افواج اور پولیس صہیونیوں کو ہر چند دنوں کے بعد، "قبلۂ اول” میں داخل ہوکر، کھلے عام "قبلۂ اول” کی بے ادبی وبے حرمتی کی کھلی اجازت دیتی ہے اور اگر کوئی مسلمان ان صہیونیوں سے مزاحمت کی کوشش کرتا ہے؛ تو اس کو زد وکوب کرتی ہے۔ اگر اسرائیلی حکمراں دوستی کا ہاتھ بڑھاتے بھی ہیں؛ تو یہ ان کی وقتی ضرورت ہے۔ اگر وہ اپنی دوستی اور تعلقات میں مخلص ہیں؛ تو سب سے پہلے ان لاکھوں فلسطینیوں کی اراضی واپس کریں، جن کو انھوں نےان کے گھروں سے نکال کر در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور کر رکھا ہے۔ پھر ان کو اپنے وطن میں سکون واطمینان کی زندگی گزارنے دیں، جن پر ظلم وجبر کرنے کی وجہ سے وہ بظاہر مشرق وسطی میں اچھوت ہیں۔ اگر ایسا نہیں ہوتا ہے؛ تو غیرت ایمانی ہرگز اس بات کی اجازت نہیں دے سکتی کہ اس ریاست کو دوست بنایا جائے، جس کےحکمرانوں کی آستینیں مظلوم فلسطینیوں کے خون سے لال ہوں۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: "جو کوئی کسی کو قتل کرے؛ جب کہ یہ قتل نہ کسی اور جان کا بدلہ لینے کے لیے ہو اور نہ کسی کے زمین میں فساد پھیلانے کی وجہ سے ہو؛ تو یہ ایسا ہے جیسے اس نے تمام انسانوں کو قتل کردیا اور جو شخص کسی کی جان بچالے؛ تو یہ ایسا ہے جیسے اس نے تمام انسانوں کی جان بچا لی۔” (سورہ مائدہ، آیت: 32)
٭ ہیڈ اسلامک ڈپارٹمنٹ، مون ریز ٹرسٹ اسکول، زامبیا، افریقہ