ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی *
جب سے دہلی مرکز اور ہندوستان کی بیشتر ریاستوں میں بی جے پی کی حکومتیں اقتدار میں آئی ہیں، ملک میں آئے دن مختلف بہانوں سے اقلیتوں میں خوف وہراس پھیلایا جارہا ہے۔ ایک مسئلہ کے بعد دوسرے مسئلہ میں اقلیتوں کو الجھاکر انہیں ترقی کی راہ پر گامزن ہونے سے روکا جارہا ہے۔ کانگریس نے بھی اپنے دورِ اقتدار میں مسلمانوں پر ظلم وزیادتی کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی لیکن پھر بھی مسلمانوں کا ووٹ حاصل کرنے کے لیے مسلمانوں کے بعض مسائل حل کرنا اور کسی درجہ میں ان کو خوش رکھنا کانگریس کی مجبوری تھی۔ بی جے پی کو مسلمانوں کے ووٹوں کی نہ تو ضرورت ہے اور نہ ہی وہ اسمبلی یاپارلیمنٹ میں مسلم نمائندگی کی خواہش رکھتی ہے، گزشتہ متعدد مرتبہ ایک بھی مسلمان کو اپنا امیدوار نہ بنانا اس بات کی واضح دلیل ہے۔ ملک کی ترقی وخوشحالی کے لیے اور بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور مہنگائی کو روکنے پر صلاحیت لگانے کے بجائے گؤ کشی، مذبح خانے، گوشت کی دکانیں، حکومت کے فنڈ سے چلنے والے بعض مدارس، مندر، مسجد، اذان، لاؤڈسپیکر اور طلاق جیسے غیر ضروری مسائل اٹھاکر ہندوستانی تہذیب وتمدن کے خلاف ہندؤوں اور مسلمانوں کے درمیان نفرت پھیلاکر حکمراں پارٹی صرف ہندؤوں کا ووٹ حاصل کرنا چاہتی ہے۔ گؤ کشی کے نام پر ہندوستانی قوانین کی دھجیاں اڑاکر نام چار کے گؤ رکشک ملک میں جگہ جگہ نوجوانوں کو قتل کررہے ہیں لیکن اُن کے خلاف کاروائی تو بہت دور کی بات ہے بلکہ اس کے برعکس اُن کو کھلے عام انعامات سے سرفراز کیا جارہا ہے۔
حال ہی میں دہلی میں واقع ہندوستان کے مشہور تعلیمی ادارہ ’’جواہر لال نہرو یونیورسٹی‘‘ میں طلبہ یونین کے انتخابات میں بری طرح شکست سے بوکھلاکر بی جے پی حکومت نے اسی سال راجستھان، مدھیہ پردیش اور گجرات جیسے اہم صوبوں میں ہونے والے الیکشن، نیز 2019 کے پارلیمنٹ کے الیکشن میں جیت کو یقینی بنانے کے لیے ملک کی امن وسلامتی کی فضا میں گھناؤنے بادلوں کو منڈلانے کی غرض سے ملک کے بڑے بڑے مسائل کو پس پشت ڈال کر ضرورت سے زیادہ تیزی دکھاکر ہندوستانی قوانین کے مطابق ملی مذہبی آزادی پر قدغن لگاکر ایک مجلس میں تین طلاق دینے والے شخص کو شہر میں دنگا وفساد برپا کرنے والے شخص سے بھی زیادہ سخت سزا دلانے کے لیے وہ بل جو پارلیمنٹ میں بی جے پی کی اکثریت ہونے کی وجہ سے تو پاس ہوگیا تھا لیکن راجیہ سبھا میں معلق تھا۔ راجیہ سبھا کے مانسون اجلاس کے دوران اس موضوع پر بحث کرنے کے بجائے صرف آخری دن اس پر گفتگو کی گئی جو ظاہر ہے کسی نتیجہ کے بغیر ختم ہوگئی تھی۔ آئندہ ہونے والے سردیوں کے اجلاس میں اس پر بحث کی جاسکتی تھی، مگر بی جے پی حکومت نے صرف اور صرف سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے لیے اس پر مزید بحث ومباحثہ کرنے کے بجائے اپنی من مانی کرتے ہوئے19 ستمبر کو مرکزی کابینہ کے ذریعہ تین طلاق بل کو نافذ کرنے کے لیے آرڈیننس کو منظوری دے دی جو صدر جمہوریہ کے دستخط کرنے کے بعدپورے ملک میں نافذ ہوجائے گا۔ یہ بل مسلم معاشرہ کے لیے انتہائی تباہ کن ثابت ہوگا کیونکہ یہ بل جس نام اور جن مقاصد کے تحت لایا جارہا ہے، نافذ ہونے کے بعد تین طلاق تک محدود نہیں رہے گا بلکہ خواتین کے حقوق کے نام سے ایک سے زیادہ نکاح اور بچوں کی تعداد کو محدود کرنے جیسے سینکڑوں مسائل ا س کی زد میں آئیں گے۔
اِس موقع پر امت مسلمہ کے قائدین کی سخت آزمائش ہوگی کہ اس بل کی مخالفت کے ساتھ انہیں ایسی تدابیر اختیار کرنی ہوں گی کہ بی جے پی اس سے سیاسی فائدہ نہ اٹھاسکے۔ جس کے لیے فوری طور پر سڑکوں پر آنے کے بجائے بہتر ہوگا کہ سب سے پہلے مسجدوں کے ممبروں ومحراب سے یہ پیغام عام کیا جائے کہ مسلمان تین طلاق ایک مجلس میں نہ دیں۔ بعض حالات میں یقیناًطلاق دی جاسکتی ہے لیکن انہیں بتایا جائے کہ طلاق دینے میں عجلت سے کام نہ لے کر پہلے میاں بیوی کے اختلافات کو آپس میں دور کرنے کی کوشش کریں۔ اور اگر طلاق دینی ہی پڑے تو صرف ایک طلاق دے دی جائے ،صرف ایک طلاق دینے پر عدت کے دوران رجعت بھی کی جاسکتی ہے، یعنی میاں بیوی والے تعلقات کسی نکاح کے بغیر دوبارہ بحال کئے جاسکتے ہیں۔عدت گزرنے کے بعد اگر میاں بیوی دوبارہ نکاح کرنا چاہیں تو نکاح بھی ہوسکتا ہے۔نیز عورت عدت کے بعد کسی دوسرے شخص سے نکاح بھی کرسکتی ہے۔ غرضیکہ اس طرح طلاق واقع ہونے کے بعد بھی ازدواجی سلسلہ کو بحال کرنا ممکن ہے اور عورت عدت کے بعد دوسرے شخص سے نکاح کرنے کا مکمل اختیار بھی رکھتی ہے۔ دوسرے نمبر پر سب کو یہ بتانے کی کوشش کی جائے کہ حکومت کا یہ قدم غیر جمہوری ہے، جمہوری ملک میں ہندوستانی قوانین کے مطابق ہر مسلمان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اسلامی تعلیمات کے مطابق اپنی زندگی گزارے۔ ایک ساتھ تین طلاق دینے کی صورت میں امت مسلمہ کا بڑا طبقہ تین ہی واقع ہونے، جبکہ ایک طبقہ ایک واقع ہونے کا قائل ہے لیکن مودی حکومت کے اس آرڈیننس کے ذریعہ نہ صرف یہ کہ ایک بھی واقع نہیں ہوئی بلکہ شوہر کو تین سال جیل میں جانا ہوگا ، جس کی ضمانت بھی آسان نہیں ہے، جو مذہبی امور میں مداخلت نہیں تو اور کیا ہے۔ موجودہ حکومت جب اس بل کو جمہوری اقدار سے نافذ کرنے میں ناکام ہوگئی تو پھر اُس نے آرڈیننس کا سہارا لیا، جس میں ایک ہی سوچ کے حامل چند حضرات بیٹھ کر ایک فیصلہ کردیتے ہیں، جو صدر جمہوریہ ہند کے دستخط ہونے کے بعد نافذ ہوجاتا ہے۔ تیسرے نمبر پر ہندوستانی قوانین کے ماہرین سے صلاح ومشورے کے بعد دیگر سیاسی جماعتوں سے اس مسئلہ کے حل کے لیے کوششیں کی جائیں۔
تین طلاق کے نام پر اس آرڈیننس کے چند نقصانات: آرڈیننسکے نقصانات جاننے سے پہلے سمجھیں کہ حکومت کے مجوزہ طلاقِ ثلاثہ بل کے تین اہم عناصر کیا ہیں: (1) ایک مجلس کی تین طلاق چاہے وہ کسی بھی طریقہ سے مسلم مرد کے ذریعہ دی جائے وہ کالعدم ہے۔ (2) تین طلاق دینے والے مسلم مرد کو مجرمانہ سزا (تین سال کی جیل) دی جائے گی۔ (3) یہ جرم ناقابلِ سماعت اور غیرِ ضمانتی بھی ہے۔ ضمانت کے لیے جو شرائط بعد میں بڑھائے گئے ہیں وہ عام آدمی کی وسعت سے باہر ہیں۔ یہ بات قابل غور ہے کہ یہ بل تین طلاق کے نام سے نہیں بلکہ ’’مسلم خواتین(ازدواجی زندگی کے حقوق کا تحفظ) بل‘‘ کے نام سے پیش کیا جارہا ہے۔
اس آرڈیننس کے چند نقصانات حسب ذیل ہیں:
(1) مذہبی امور میں دخل اندازی ۔ (2) مذہب پر عمل کرنے کی آزادی پر پابندی۔ ہندوستانی قوانین کے مطابق ہر شخص کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی اجازت ہے۔ (3) قرآن وحدیث کے علوم کے ماہرین یعنی علماء کرام سے رجوع کئے بغیر حکومت نے یہ بل تیار کیا ہے۔ (4) ہندوستانی قوانین کے ماہرین سے بھی کوئی رائے زنی نہیں کی گئی۔ (5) جب سپریم کورٹ نے ایک مرتبہ کی تین طلاق کو کالعدم قرار دیا تو پھر اس پر سزاکیوں؟ (6) اس بل کو پاس کرانے کے لیے اتنی جلدی کیوں؟ بے روزگاری، بجلی، پانی، تعلیم، کرپشن اور چیزوں میں ملاوٹ جیسے بے شمار ضروری مسائل چھوڑ کر صرف تین طلاق کے مسئلہ پر پورے ہندوستان کی طاقت لگانا کونسی عقلمندی ہے؟ آزادی کے بعد سے یعنی ستر سال میں مسلمانوں کے تین طلاق کے گنتی کے چند واقعات ہی عدالت میں پہنچے ہیں۔ (7) مسلم خواتین کے مقابلہ میں ہندو خواتین میں طلاق کے واقعات بہت زیادہ ہیں، حکومت کو مسلم خواتین کی اتنی فکر کیوں، ہندو خواتین کی فکر کیوں نہیں؟ (8) سپریم کورٹ کے فیصلہ کی رو سے ایک مرتبہ کی تین طلاق کو مجرمانہ عمل نہیں قرار دیا جاسکتا ۔ (9) سوال یہ ہے کہ جب طلاق نہیں ہوئی تو پھر شوہر جیل کیوں جارہا ہے؟ (10) دنگے فساد کرانے والے شخص کو دو سال کی جیل اور کرپشن اور چارسوبیسی کرنے والے شخص کو ایک سال کی جیل، لیکن تین طلاق دینے والے شخص کو تین سال کی جیل؟ دنیا کا کوئی امن پسند بشر اس فیصلہ کو کیا صحیح قرار دے سکتا ہے؟ (11) جب شوہر تین سال کے لیے جیل چلا گیا تو بیوی اور بچوں کے نان ونفقہ کون برداشت کرے گا؟ اپوزیشن پارٹیوں نے جب کہا کہ موجودہ حکومت برداشت کرے تو مسلم خواتین کے لیے مگرمچھ کے آنسو بہانے والی موجودہ حکومت اس کو بھی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ (12) موجودہ حکومت اس بل میں معمولی سی تبدیلی کرانے کے لیے بھی تیار نہیں ہے، جس سے اُس کے مذموم ارادے واضح ہوتے ہیں۔ بل فی الحال راجیہ سبھا میں معلق ہے، لیکن پھر بھی اس بل کو کسی بھی صورت سے نافذ کرنے پر موجودہ حکومت آخر کار کیوں مصر ہے؟ (13) شوہر کے جیل کاٹنے کے بعد کیا وہ اُس عورت کے ساتھ رہنا پسند کرے گا جس کی وجہ سے وہ تین سال جیل میں رہ کر آیا ہے۔ معلوم ہوا کہ یہ بل مسلم خواتین کے حقوق کی حفاظت کے لیے نہیں بلکہ اُن کو اور مسلم معاشرہ کو تباہ کرنے کے لیے ہے۔
1400سال میں آج تک کسی بھی مسلم حکومت نے تین طلاق دینے والے شخص کو ایسی سزا کی تجویز تک پیش نہیں کی اور نہ ہی آج بھی کسی بھی مسلم ملک بلکہ دنیا کے کسی بھی ملک میں ایک مرتبہ میں تین طلاق دینے والے شخص کو ایسا مجرم قرار دیا گیا ہے۔ اور یہ جو تاثر پیش کیا گیا ہے کہ مسلم ممالک میں تین طلاق پر پابند ی ہے، یہ بات حقائق پر مبنی نہیں ہے۔ اور جن حضرات نے ایک مجلس کی تین طلاق کو ایک تسلیم کیا ہے، انہوں نے بھی اس نوعیت کی کوئی سزا 1400 سالہ زندگی میں پیش نہیں کی ۔ ہندوستان میں کئی سو سال مسلمانوں کی حکومت رہی، تین طلاق کے واقعات بھی پیش آئے لیکن ایک مرتبہ میں تین طلاق دینے والے شخص کو کوئی سزا نہیں دی گئی بلکہ مغلیہ دور میں پورے ہندوستان (جس میں پاکستان اور بنگلادیش بھی شامل تھا)کے سینکڑوں مفتیان کرام اور علماء دین پر مشتمل بورڑ نے جو فتاوے تیار کیے جن کو پوری دنیا میں فتاوی عالمگیری کے نام سے جانا جاتا ہے، اس میں قرآن وحدیث کی روشنی میں یہ بات بھی متفقہ طور پر طے کی گئی کہ ایک مجلس کی تین طلاق تین ہی واقع ہوں گی۔ ہندوستان میں جب سے اسلام آیا ہے ہندوستانی مسلمان کی اکثریت جمہور علماء خاص کر چاروں ائمہ (حضرت امام ابوحنیفہ، حضرت امام شافعی، حضرت امام مالک اور حضرت امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ) کی طرح قرآن وحدیث کی روشنی میں یہی سمجھتی آئی ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاق تین ہی واقع ہوں گی تو موجودہ حکومت کو اچانک اِس وقت قرآن وحدیث سمجھنے کی ضرورت کیوں پیش آگئی؟