بسم اللہ الرحمن الرحیم
محمد ابراہیم شولاپوری
’’یوگا‘‘ورزش کے نام پر شرک وکفر کو فروغ دینے کی سازش ہے، اہل ایمان اپنے ایمان کی فکر کریں۔
یوگا کی مذہبی حقیقت کو چھپا کر ورزش کے نام سے متعارف کرایا جارہا ہے ، یہ ہندوازم کو فروغ دینے کی ناپاک سازش کا حصہ اور مسلمانوں کے عقائد پر فکری یلغار ہے۔
جنگ دو طرح کی ہوتی ہے، ایک عسکری جس میں ہتھیاراورمادی قوت کا استعمال ہوتا ہے، اپنے مد مقابل کے جان مال اور آبرو کو پامال کیا جاتا ہے، جسمانی اذیت پہنچائی جاتی ہے،املاک لوٹے جاتے ہیں یا تباہ کردئے جاتے ہیں،جنگ کی دوسری قسم فکری جنگ ہے جوانجام اور نتیجہ کے اعتبار سے پہلی سے زیادہ خطرناک اور نقصان دہ ہوتی ہے۔اس میں قوم کا ایمان لوٹا جاتا ہے، اس کے نظریات بدل دیئے جاتے ہیں،قوم دشمن کی آلہء کار بنتی ہے،دشمن کے نظریات کو کچلنے کے بجائے لا شعوری میں اسکے نظریات کی تبلیغ واشاعت کرتی ہے، اس پر خوشی سے اپناجان مال نچھاور کرتی ہے،اس جنگ میں متاع کارواں تو جاتا ہی ہے احساس زیاں بھی ختم ہوجاتاہے،قوم کی اکثریت کو اس بات کا بھی احساس نہیں ہوتا کہ ہم جنگ کی صورت حال سے گزررہے ہیں، اس وقت مسلمانان ہندکو اسی فکری جنگ سے واسطہ ہے۔لیکن قوم کا حال یہ ہے کہ آج تک اسے پتہ ہی نہیں کہ اس سے کیا چھیناجارہا ہے اور اس کو کیا دیا جارہا ہے۔ قوم کا دانشورطبقہ بھی خواب غفلت میں پڑا ہوا ہے اور اس بات کا احساس کرنے کو تیار نہیں کہ کفر وایمان کی جنگ اس کے گھرکے اندر تک داخل ہوچکی ہے،اور اس کی نسلیں ایمانی اور فکری طور پر تباہی کے دہانے پر کھڑی ہیں۔
فکری جنگ میں دشمن کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ مختلف طریقوں سے مد مقابل کے افکار و عقائد میں شکوک اور اعمال میں تذبذب پیدا کرے،اس کے دل ودماغ کی اس طرح تربیت کی جائے کہ اس کی فکر اس کے دشمن کی فکر سے ہم آہنگ ہو اور وہ بغیر احساس کئے اپنے دشمن کا متبع اس کی تہذیب وتمدن پر فخر کرنے لگے۔ ہندواحیاء کی تحریکیں موجودہ حکو مت کی مددسے جہاں ایک طرف مسلمانوں کے عقائد، عائلی قوانین ،اسلامی طریقہائے زندگی کے بارے میں طرح طرح کے شکوک وشبہات پیدا کررہی ہیں تو دوسری طرف سرسوتی کی پوجا، وندے ماترم،سوریہ نمسکار اور یوگا کے نام پر ہندوازم کے عقائد کو مسلمانوں پر تھوپنے میں لگی ہوئی ہیں۔ اگر بروقت اس کا نوٹس نہیں لیا گیا تو آنے والی نسلوں کا ایمان پر برقرار رہنا مشکل ہوگا۔
یوگا کو ورزش کے نام پر متعارف کراکر پہلے اکیس جون کو یوگا دن منانے کا اعلان کیا گیا ، اب ہر ماہ کی ۲۱تاریخ کو یوگا دن منانے کا فیصلہ لیا گیا ہے۔
ہمارے بعض روشن خیال تعلیم یافتہ اور نیم پڑھے لکھے لوگوں کو یوگا کے بارے میں کچھ بھی علم نہیں یا پھر سطحی علم ہے، وہ بغیر مطالعہ اور تجزیہ کے یوگا کو صرف ورزش کا طریقہ قراردیتے ہیں جو سراسر لا علمی کا نتیجہ ہے۔انہیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ یوگا کی تمام باتیں اسلامی عقائد سے ٹکراتی ہیں،یوگا میں توحید، رسالت اور قیامت کے دن کا انکار ہوتا ہے،اسی طرح مخلوق کا خالق میں حلول کرنے کا عقیدہ پایاجاتا ہے، نیز اس میں مشرکین کے ساتھ مشابہت بھی پائی جاتی ہے۔
مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ کسی نظریہ کو لینے یا کسی تحریک سے وابستہ ہونے سے پہلے اس بات کی تحقیق کرے کہ اس کا بانی کون ہے، اس کے عقائداور نظریات کیا ہیں، اس کے ماننے والے اس کو کیا درجہ دیتے ہیں، یہ تحریک قائم کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی، اس کے اغراض ومقاصد کیا ہیں، وہ اپنے ماننے والوں میں کیا تبدیلی دیکھنا چاہتے ہیں، اس تنظیم یا تحریک میں بااثر لوگوں کے نظریات مذہب اور طریقہء فکر کیا ہے، اور متبعین پر کیا اثر پڑرہا ہے۔نیز خاص طور سے ایک مسلمان ہونے کے ناطے ہمارے لئے یہ بھی از حد ضروری ہے کہ ہم یہ بھی دیکھیں کہ وہ شریعت کی روشنی میں صحیح بھی ہے یا نہیں۔
ہمارے اطراف میں یوگا کے لئے ہندئوں کی تین تنظیمیں متحرک ہیں،ان کا سرسری جائزہ پیش ہے۔(تفصیل کے لئے دیکھیں احقر کی انگریزی کتاب Raja yoga and the art of living an Islamic appraisal)
آرٹ آف لِونگ: یہ تنظیم بہت سے ممالک میں اپنے یوگا کے کلاسیس چلاتی ہے ،اس کا بانی شری شری روی شنکر ہے، یہ ایک ہندو اسکالر ہیں اور ان کے عقائد وہی ہیں جو ایک عام ہندو کے ہوتے ہیں،ایک جگہ ہندوازم اور عیسائیت پر بات کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’اگر تم چاہتے کہ رکاوٹیں دور ہوں تو گنیش کی پوجا کرو، اگر تمہیں خوشحالی چاہئے تو شیوا کی پوجا کرو، اگر تمہیں مال چاہئے تو لکشمی کی پوجا کرو او رعلم کے لئے سرسوتی کی پوجا کرو (induism and Christianity by Sri Sri Ravi Shankar Page 4)
اور ان کے متبعین ان کے بارے میں مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہیں، symposium on human values presented by art of living کے صفحہ سات میں کہتے ہیں کہ تمام دنیا کی آسمانی کتابوں سے زیادہ حکمت ان سے جاری ہوتی ہے۔اوروہ انہیں خدا کے برابر درجہ دیتے ہیں۔
راج یوگا: یہ بھی ایک تحریک ہے جس کا مرکزراجستھان میں مائونٹ ابو پر قائم ہے،ہمارے شہر شولاپورمیں سید بخاری درگاہ سے نیچے اترنے پر چوک سے داہنے طرف تقریبا سو میٹر کے فاصلے پر ان کا مرکز بنا ہوا ہے، روڑ کے قریب ایک بڑا بورڈ لگا ہوا جس پر خانہ کعبہ کی تصویر بھی بنی ہوئی ہے، اس طرح عام مسلمانوں کو گمراہ کیا جاتا ہے اور یہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ حجر اسود ان کے تصور میں قائم خدا کی علامت ہے۔اس تحریک کا بانی دادا لیکھ راج تھا جس نے دعوی کیا کہ ہندئوں کا دیوتا شیوا اس پر نازل ہوکر اس کو اپنے علم کے فروغ کے لئے چنا۔ ان کے عقائد پوری طرح سے اسلامی تعلیمات کے خلاف کفر وشرک پر منحصرہیں، اس میں شرکت کرنے سے آدمی اسلام سے فوری خارج ہوجاتا ہے۔
پتانجلی یوگپیٹھ:یہ اس وقت زیادہ معروف ہے اور بابا رامدیو کی طرف سے اس کی تشہیر ہوتی ہے، حکومت کی پشت پناہی میں اس وقت یوگا کی خوب پزیرائی ہورہی ہے اور اسکولوں میں اس کا اہتمام کرایا جارہا ہے۔
اس وقت بابا رام دیو کے یوگا پر ایک انگریزی کتاب میرے سامنے ہے جس کے ٹائٹل پیج پرلکھا ہے (oga, a divine tree of life)اس کے سرورق پر ہندئوں کی مذہبی علامت اور ان کے یہاں سب سے مقدس سمجھا جانے والا منتر اوم لکھا ہوا ہے، جس سے خود ہندوازم کی تقدیس ظاہر ہورہی ہے، اسی طرح کتاب بابا رام دیو کی ستر کھلی ہوئی تصویروں سے پُر ہے،اور طریقہء یوگا اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ پہلے مراقبہ کی صورت میں بیٹھا جائے، پھر آنکھ بند کرکے ناک سے سانس لی جائے،تین مرتبہ کھینچ کر اوم کہا جائے،پھر گایتری منتر اور دوسرے منتروں کا ذکر ہے، گایتری کو ہندو سرسوتی کا اوتار مانتے ہیں اور اس کو طاقت کی دیوی بتاتے ہیں،اس کا جب نام لیا جاتا ہے تو کنول کے پھول پر بیٹھی ہوئی پانچ سر اور دس ہاتھوں کی عورت ان کے تصور میں آتی ہے،نیز ہندئووں کا عقیدہ ہے کہ اس منتر کو پڑھنے سے آدمی کو خداکی ماورا ئی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ہندئووں کا عقیدہ ہے کہ شیواہندوستان کے جنگلوں میں یوگی کی حیثیت میں رہا کرتا تھا، وہ یوگا کی مشق کرتے کرتے کائنات کا عظیم خدا بن گیا۔ (تانتریکا صفحہ ۵)
یوگی لوگ زعفرانی کپڑے پہنتے ہیں، تربیت کا آغاز اوم نمسکار سے کرتے ہیں، مختلف منتر اور دیوی دیوتائوں کے ورد پڑھتے ہیں۔بہر حال یوگا سے متعلق سنجیدگی سے تین سوال پوچھے جائیں۔
یوگا کی تعلیمات اور سند کس مذہب کی ہیں؟
یوگا کو سکھانے والے اور اس کی دعوت دینے والے کون لوگ ہیں؟
یوگا کی تحریک کے علمبردار اور اصل محرک کون ہیں،؟اوپر کی تفصیل سے اب کیا شک رہ جاتا ہے کہ یوگا ایک ہندو مذہب کی عبادت کی شکل ہے جو اسلام کی بنیادی اور اصولی تعلیمات سے براہ راست ٹکراتی ہے۔صرف نام بدلنے سے شئی کی حقیقت ختم نہیں ہوتی۔ ہندو مذہب میں کوئی اعلی تعلیمات نہیں ہیں اور نا ہی آج کی ترقی یافتہ دور میں اس کی تعلیمات میں کوئی کشش ہے، بلکہ کچھ مسائل تو ایسے ہیں جن سے انسانیت بھی شرمندہ ہوتی ہے، خود تراشیدہ چیزوں کو پوجنا، ستی طبقاتی اونچ نیچ وغیرہ۔ ہندو احیا کی تحریکوں کے لئے اپنے مذہب کو پیش کرنے کے لئے یہ باتیں بڑی رکاوٹ بنتی ہیں، اس لئے وہ یوگا کو ورزش کا نام دیکر اپنے افکار کی اشاعت میں لگے ہوئے ہیں۔
اسی طرح ہماری اسکولوں کے نام یوگا کے لئے جو سرکیولر جاری کیا گیا اس میں بھی ہندئووں کی مذہبی کتاب رگ وید کی آیتوں کا ورد کرنے کی ہدایت دی گئی تھی، سرکیولر میں یوگا کرنے کے آداب مذکور تھے۔ ابتدا میں میں تھا کہ بچوں کو خاص ہیئت میں بٹھاکر ان کو پڑھایا جائے
سنگچھ دھوم سنودھوم سو مناسی جناتھم دیوابھاگم یتھا پروے سنجانانا اپاستے
یہ رگ وید کی آیت ہے، جس میں آگ کے دیوتا ،جس کے بارے میں ہندئوں کا یہ عقیدہ ہے کہ ہردم جوان معبود ہے جس کا کام لوگوں کے نذرانوں کو تمام دیوی دیوتائوں کو تقسیم کرنا ہے۔ اس آگ کے دیوتا سے دعا کی گئی ہے۔چاہے وہ گایتری منتر ہو یا پھر اس رگ وید کی آیت ہمارے توحید ورسالت کے عقیدے کے بالکل خلاف ہے۔
اللہ تعالی قرآن کریم میں ارشاد فرماتے ہیں:
اے ایمان والو اگر تم ان لوگوں کی پیروی کروگے جنہوں نے اللہ کے ساتھ کفر کیا، تو وہ لوگ تمہیں ایمان لانے کے بعد کفر میں وا پس ڈالدیں گے پھر تم خسارہ اٹھانے والے ہو کر لوٹوگے(سورہ آل عمران آیت ۹۴۱)
مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ کفر وشرک کے مسئلہ میں ہر گز سمجھوتہ نا کریں اور ہر حال میں اپنے ایمان کی حفاظت کی فکر کریں۔اللہ تعالی قرآن کریم میں ارشاد فرماتے ہیں۔
اے ایمان والو اسلام میں پوری طرح سے داخل ہوجائو اور شیطان کی پیروی مت کرو، بیشک شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔(سورہ بقرہ آیت ۸۰۲)
بعض لوگ مسلمانوں کو مشورہ دیتے ہیں کہ ہندو منتر سے اگر پریشانی ہے تو آپ لوگ اللہ کہو ، ظاہر سی بات ہے کہ اس طرح سے دین سے دور اور دینی علم سے ناواقف شخص دھیرے دھیرے شرک کے دلدل میں پھنس ہی جائے گا۔ قرآن کریم میں ہمیں ایسے لوگوں کے ساتھ بیٹھنے سے بھی منع کیا گیا ہے جو کفر وشرک میں ملوث ہیں، اور حدیث میں ہے کہ جو شخص جس قوم کی تعداد بڑھائے گا اس کا شمار انہیں میں ہوگا۔لہذا یوگا کے لئے مندروں، مٹھوں، آشرم اور کیندروں میں خاموش یا اللہ کا ذکر کرتے ہوئے بیٹھنا بھی جائز نہیں ہوگا اس سے شرکیہ چیزوں کی خاموش حمایت ہوتی ہے اور ایمانی غیرت کے بھی خلاف ہے۔ورزش کے بہت سے طریقے ہیں، پھر عبادات میں نماز، روزہ، اعتکاف، اللہ کے قدرت میں غوروفکر، قرآن کی تلاوت، تسبیحات کی پابندی سے جہاں ایک طرف ذہنی سکون حاصل ہوتا ہے وہیں جسم کو صحت مند رکھنے میں بھی مدد ملتی ہے۔
اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے اور زندگی کے ہر شعبہ میں انسانوں کی مکمل رہنمائی کرتا ہے، اس کی تعلیمات چھوڑکر دوسروں کے پیچھے چلنا خود اسلام کی توہین کرنے کے مترادف ہے۔اوراسلام کی ہدایت ملنے کے بعد کفر کی چیزوں کو اپنانادر حقیقت نعمت اسلام کی ناقدری ہوگی۔قوم کے ارباب علم وفکر ، اسکول کے غیرتمند اساتذہ کرام اور عامۃ المسلمین سے دردمندانہ درخواست ہے کہ وہ سلسلہ میں بیدار مغزی سے کام لیں اور بروقت اس فتنہ کا سد باب کرنے کے لئے لائحہء عمل طے کریں ورنہ نسلوں کے گمراہ ہونے کا وبال ہمارے سر پر ہوگا۔ اللہ تعالی ہمارے اور ہماری نسلوں کی دین کی حفاظت فرمائے آمین۔