مولانا محمد اسرارالحق قاسمی
اسلام میں”صبر“ کو بڑی اہمیت دی گئی ہے۔قرآن میں متعدد مقامات پر صبرکا حکم موجودہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بھی صبر کی بے شمار مثالیں ملتی ہیں۔قرآن میں کہا گیاہے کہ صبر کرنے والوں کے ساتھ اللہ ہوتاہے۔ان اللہ مع الصابرین۔ ایک جگہ فرمایاگیا: واستعینوا بالصبر والصلوة ۔صبر اور نمازکے ساتھ مدد چاہو۔مذکورہ آیات اور متعدد احادیث واسوہٴ نبی سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ صبر نہایت ہی اہم شے ہے اور اسے نظرانداز نہیں کیاجاسکتا۔اس لیے مسلمانوں کوچاہئے کہ وہ صبر کی حقیقت ، اہمیت اور افادیت سے واقف ہوں تاکہ صبر ان کے ذہنوں میں پیوست ہوجائے اور اپنی کامیابی کے لیے وہ اسلام کے اس عظیم ہتھیار کو استعمال کرسکیں۔جب انسان کسی مصیبت میں گرفتار ہوتواسے سب سے پہلے صبرکی طرف متوجہ ہونا چاہئے،اُسے غصہ آئے تو صبر سے کام لے۔اگردشمن اس پر حملہ کرے تو وہ صبر کے پہلوپر ضرورغوروفکر کرے۔کیونکہ کئی مرتبہ صبر کرکے دشمن کو زیر کیاجاسکتاہے۔کئی بار غصہ کی حالت میں صبرکرکے شیطان کے حربوں کو ناکارہ بنایاجاسکتاہے۔
”صبر“ ایک وسیع مفہوم کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے۔چنانچہ صبر کامطلب یہ ہی نہیں کہ لوگ ناکام ہوکر یا پریشانی میں گرفتار ہوکر ہمیشہ کے لیے حالات سے سمجھوتہ کرلیں اور اپنے دل میں یہ سوچ لیں کہ وہ کامیاب نہیں ہوسکتے بلکہ صبر تو یہ ہے کہ اگر کسی معاملہ میں کسی شخص کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑے تو وہ جذباتی نہ ہو،غور وفکر کرے۔جوکچھ وہ کرتا رہا ہے ، اس کا محاسبہ کرے،اپنی کمیوں کو تلاش کرے اور اسباب وعوامل کا پتہ لگاکر جدوجہد کرے اور استقلال قائم رکھے۔کئی بار انسان اپنی منزل کی طرف رواں دواں رہتاہے مگر کافی وقت گزرنے اور لمبی مسافت طے کرنے کے بعد بھی وہ منزل تک نہیں پہنچتا تو اس کا ذہن پریشان ہونے لگتاہے اور مایوسی اسے چاروں طرف سے گھیرنے لگتی ہے۔وساوس اسے مایوس کرنے لگتے ہیں اور وہ یہ خیال کرنے لگتاہے کہ وہ اپنی منزل تک کبھی نہیں پہنچ پائے گا۔یہ وقت اس کے لیے بڑا صبر آزما ہوتا ہے۔اگر وہ صبر کرتاہے اور منزل کی طرف اپنے سفر کو جاری رکھتاہے تو ایک نا ایک دن منزل تک پہنچ جاتا ہے اور اگر وہ صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیتا ہے اور راہ سے ہٹ جاتا ہے تو پھر کبھی اپنی منزل تک نہیں پہنچتاحالاں کہ بعض اوقات منزل بہت نزدیک ہوتی ہے۔
عام طورسے دیکھاجاتاہے کہ جب انسان کو غصہ آتا ہے تو وہ بے قابو ہوجاتاہے اور اس حالت میں الٹے سیدھے فیصلے لیتا ہے ، کئی بار غصہ کی حالت میں لیے ہوئے فیصلے اتنے نقصاندہ ہوتے ہیں کہ مدت طویل گزرنے کے بعد بھی ان کی تلافی نہیں ہوپاتی اور زندگی بھر پریشانی اس کا تعاقب کرتی رہتی ہے۔ایسے کتنے واقعات آئے دن رونما ہوتے ہیں کہ لوگوں کے درمیان معمولی بات پر جھگڑا ہوا ، دونوں کو غصہ آیا ، گالی گلوچ ہوئی ، مارپیٹ تک نوبت آگئی۔ایسا بھی ہوتا ہے کہ قتل تک ہوجاتاہے۔ اس کے بعد دیکھا جاتا ہے کہ لوگ پچھتاتے ہیں ۔ایک تو اس لیے کہ ان کے ہاتھوں کسی کی جان چلی گئی اور وہ بڑے گناہ کے مرتکب ہوگئے ، اس لیے بھی کہ قتل کے بعد جیل بھی جانا پڑتا ہے ، ان کے خلاف مقدمات قائم ہوتے ہیں، عدالتوں کے چکر کاٹنے پڑتے ہیں، پیسے خرچ ہوتے ہیں ، بہت سے قاتلوں کو ضمانت تک نہیں مل پاتی، اور بعض کو عمر قید ہوجاتی ہے۔اب ان کی زندگی جیل کی چہار دیواری کے اندر کٹتی ہے۔دنیا سے ان کا تعلق تقریباً ختم سا ہوجاتاہے ، ان کا سارا کریر تباہ ہوجاتاہے۔بچوں کو پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتاہے،رسوائی الگ ہوتی ہے۔جن ممالک میں قتل کی سزا قتل ہے ، وہاں قاتل کو سزا کے طورپر قتل کردیا جاتاہے۔ جو لوگ عدالت سے بری کردیے جاتے ہیں ان کی پریشانیاں بھی کم نہیں ہوتیں، ایک تو اس لیے کہ وہ مقدمات میں اپنی جمع پونجی خرچ کرچکے ہوتے ہیں ،د وسرے اس لیے کہ وہ سماج میں بدنام ہوجاتے ہیں، تیسرے اس لیے کہ ان کی جانوں کو اس بات کا خطرہ لاحق رہتا ہے کہ کہیں مقتول کے ورثاء ان کا قتل نہ کردیں۔ایسی بہت سی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ اگر لڑائی کے وقت صبر سے کام لے لیا جاتا، غصے کو پی لیا جاتا، تو یہ نوبت نہ آتی، ان کی زندگی سکون کے ساتھ گزرتی اور ان کا مستقبل تابناک ہوتا۔
میاں بیوی کے درمیان ہونے والے تنازعات میں صبر سے کام لینا بہت ضروری اور اہم ہے۔شوہر اور بیوی دونوں کو چاہئے کہ وہ لڑائی کو آگے نہ بڑھائیں۔شوہر کو غصہ آئے تو وہ وہاں سے ٹل جائے یا اپنے غصہ کو ضبط کرلے ۔ایسے مواقع پر جو لوگ صبر اختیار کرتے ہیں، وہ آنے والی پریشانیوں سے بچ جاتے ہیں اور میاں بیوی کے مابین دوچار دن میں حالات پھر سازگار ہوجاتے ہیں اور دونوں ہنسی وخوشی اور پیار ومحبت سے زندگی گزارنے لگتے ہیں، لیکن بعض لوگ اپنے غصے پر قابو نہیں رکھ پاتے اور بیوی کی سخت پٹائی کردیتے ہیں، اگر بیوی اس کی شکایت پولس میں کردیتی ہے تو ان کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسے ہی کئی بار دونوں کے مابین مستقل جھگڑے کے حالات بن جاتے ہیں اور پھر گھر کا سکون جاتا رہتا ہے ، کئی شوہر تو بیوی سے لڑائی جھگڑے کی صو رت میں اپنی بیویوں کو طلاق دے ڈالتے ہیں، تین طلاقیں یا ان سے بھی زیادہ۔اب ان کے درمیان ازدواجی رشتہ ختم ہوجاتا ہے، شوہر کو جب ہوش آتا ہے تو اسے محسوس ہوتا ہے کہ اس کی زندگی لٹ چکی ہے، اس کا گھر تباہ ہوچکا ہے، جس بیوی کو وہ چاہتا تھا، وہ اس کی زندگی سے دور جاچکی ہے،ا س کے بچوں کی زندگی بھی خراب ہوگئی ہے،ایسے حالات میں وہ نہایت پشیمان ہوتا ہے، روتا ہے، اپنے آپ کو کوستا ہے، لیکن جب تیر کمان سے نکل گیا تو واپس آنے والا نہیں ہوتا۔غصہ اور معمولی جھگڑوں کے نتیجے میں دی جانے والی طلاقوں نے کتنی ہی زندگیوں کو اجاڑ دیا ہے، کتنے ہی گھروں کو تباہ کردیا ہے۔اگر لڑائی کے وقت صبر سے کام لے لیا جاتا تو سب کچھ ٹھیک ٹھاک رہتا اور نوبت یہاں تک نہ پہنچتی۔ ایسے مواقع پر بیوی کوبھی صبر اختیار کرنا چاہئے، اسے خاموش ہوجانا چاہئے، اسے اپنے شوہر کو اتنا زیادہ غصہ نہ دلانا چاہئے کہ وہ آپے سے باہر ہوکر کوئی الٹا سیدھا قدم اٹھالے۔
بہت سے لوگ اپنے اوپر آنے والے حالات میں صبر نہیں پاتے اور مایوسی کے شکار ہوکر خود کشی کر بیٹھتے ہیں، جب کہ دنیا میں ایسے کتنے واقعات رونماہونئے کہ لوگوں کو سخت حالات وہزیمت کا سامنا کرنا پڑا اور انھوں نے سوچا کہ اب ان کی زندگی بے کار ہے مگر پھر بھی صبر سے کام لیتے رہے، نتیجہ یہ سامنے آیاکہ آگے چل کر ان کے حق میں حالات سازگار ہوگئے اور وہ پھر خوشگوار زندگی گزارنے لگے۔گویاکہ سخت اور مایوس کن حالات میں بھی صبر سے کام لینا چاہئے ۔بہت سی مرتبہ مشکل کے بعد آسانی آتی ہے، تنگی کے بعد کشادگی پیدا کردی جاتی ہے۔غربت کے بعد مالداری آجاتی ہے، اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا: فان مع العسر یسرا۔کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ انسان اپنے اوپر آنے والے حالات کو بہت غلط سمجھتاہے جب کہ وہ حالات آگے چل کر اس کے لیے مفید ثابت ہوتے ہیں اور ان سے کوئی آسانی نکل آتی ہے جس سے ان کا کریر روشن ہوجاتاہے۔مثال کے طورپر کوئی طالب علم امتحان میں ناکام قرار دیا جاتا ہے کہ تو وہ اس کو اپنے لیے ناکامی نہیں خیال کرتا ہے بلکہ اس کو اپنے لیے چیلنج بنالیتا ہے اور اگلی باروہ بھرپور تیاری کرتاہے۔اس تیاری اور محنت کی وجہ سے اگلے سال کے امتحان میں وہ اعلیٰ یا امتیازی نمبروں سے پاس ہوجاتاہے، اب اس کے لیے آگے کے کورسوں میں داخلہ آسان ہوجاتاہے، محنت کی وجہ سے اسے معلومات بھی اچھی ہوجاتی ہے ،صلاحیت بھی بن جاتی ہے اور اعلیٰ نمبروں کی وجہ سے آگے کے کورسوں میں اچھے کالجوں کے اندر اس کا داخلہ ہوجاتا ہے، پھر وہ وقت کے ساتھ ترقی کرتا چلاجاتاہے ، ڈگریاں حاصل کرتا ہے، اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوتاہے اور ملازمت یا مستقبل کو روشن بنانے کے بہت سے مواقع اس کا استقبال کرتے ہیں ۔اگر وہ فیل نہ ہوتا تھرڈ یا سیکنڈ ڈیویژن سے پاس ہوجاتا تو اس وقت اس کو بھلے ہی خوشی ہوتی لیکن بعد میں اس کے لیے آگے بڑھنے کے اتنے امکانات روش نہ ہوتے۔لہذا ہر شخص کو مشکل حالات میں یا عارضی ناکامی کی صورت میں اپنی تیاری، محنت ولگن کو اور زیادہ بڑھادینی چاہئے اور وقت کا انتظار کرنا چاہئے۔
صبر کا تقاضہ ہے کہ مشکل حالات میں بھی انسان ثابت قدم رہے، صحیح راستوں سے نہ ہٹے اور غلط طریقوں یا راستوں کا انتخاب نہ کرے۔ بہت سے لوگ مشکلات میں صحیح راستوں سے ہٹ جاتے ہیں اور غلط طریقوں کو اختیار کرلیتے ہیں۔اس زمانے میں لوگ دولتِ کثیر حال کرنا چاہتے ہیں ، اس کے لیے تگ ودو کرتے ہیں، منصوبے بناتے ہیں، ان پر عمل کرتے ہیں، لیکن ان میں سے کچھ لوگ کامیاب ہوجاتے ہیں اور کچھ ناکام۔ناکام لوگوں میں دوطرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ایک وہ جو ناکامی کے باوجود بھی صبر کرتے ہیں، دولت نہ آنے ، کسمپرسی میں زندگی گزارنے کی صوت میں صحیح اور حلال راستوں کو نہیں چھوڑتے ، دوسرے وہ لوگ ہوتے ہیں جو حلال طریقے سے زیادہ دولت نہ جمع کرنے کے بعد غلط اور ناجائز راستوں پر چل پڑتے ہیں اور حرام طریقوں سے دولت اکٹھی کرنے میں لگ جاتے ہیں۔یعنی وہ ”صبر“ نہیں رکھ پاتے۔ناجائزاور حرام طرقیوں کو اختیار کرکے بھلے ہی وہ دولت حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں، عمارتیں بنالیں اور پُر تعیش زندگی گزارنے لگیں مگر فی الواقع یہ ان کی ناکامی ہوتی ہے۔اس لیے کہ ناجائز وحرام کام کرنا گناہ کی بات ہے، پھر حرام روزی کے نتائج خطرناک ہوتے ہیں۔اس کے اثرات اس کے آنے والی نسلوں تک پڑتے ہیں۔موت کے بعد جب اسے حساب کتاب سے گزرنا پڑے گا تب اس پر کیا گزرے گی ، تصور کیاجاسکتاہے۔
اجتماعی اعتبار سے مسلمان اس وقت ساری دنیا میں سخت حالات سے دوچار ہیں۔اسلام دشمن طاقتیں ان پرعرصہٴ حیات تنگ کرنے کے لیے سازشیں رچ رہی ہیں اور ان پر حملہ آور ہورہی ہیں۔ مسلمانوں کے پاس وسائل کی کمی ہے، ٹکنالوجی کے میدان میں بھی وہ پیچھے ہیں۔اسلحے وسازو سامان کی بات کریں تو مسلمانوں کے پاس دوسری قوموں کے مقابلے میں نا کی برابر ہے۔ایسے ہی مسلمانوں کے پاس اتحاد کا بھی فقدان ہے۔وہ مسالک کے درمیان تقسیم ہیں، کہیں برادریوں کے نام پر بنٹے ہوئے ہیں، اور کہیں خاندانوں وعلاقوں کے نام پر جب کہ اسلام مخالف جماعتیں باہم متحد ہوچکی ہیں اور انھیں اس بات کے لیے اکسارہی ہیں کہ وہ میدان میں آئیں، مقابلہ کریں۔ یہ وقت مسلمانوں کے لیے بڑاصبر آزما ہے۔ان کے پاس اس کے علاوہ بظاہر کوئی راستہ نظرنہیں آتا کہ ”صبر“ سے کام لیں۔تصادم کے راستے پر نہ جائیں اور نہ مقابلے کے لیے آگے بڑھیں ۔اس اثنا میں اس سوال پرغوروکفر کریں کہ ان کی یہ درگت کیوں بن گئی کہ مخالفینِ اسلام انھیں للکار رہے ہیں ،انھیں مقابلہ کی دعوت دے رہے ہیں ، ان پر حملے کررہے ہیں، ان کے دین کے خلاف ہتک آمیز باتیں کررہے ہیں اور ان کے پاس اتنی قوت نہیں کہ ان کا جواب دے سکیں۔اسباب کو تلاش کریں اور اس کا تدارک کریں۔صبر کے ساتھ اسباب وتدارک کی جستجو وکوشش کے نتائج مستقبل میں مثبت آئیں گے۔اسلام مخالف گروہوں کا اتحاد خود بخود ٹوٹ جائے گا، لیکن صبر نہ کرنے اور مقابلہ آرائی کی صورت میں ان کا اتحاد برقرار رہے گا۔مسلمان منظم ومنصوبہ بند نہ ہونے کی وجہ سے خسارے میں مبتلا ہوسکتے ہیں۔اس لیے موجودہ حالات میں صبراوراتحاد کا دامن انھیں ہر گز نہ چھوڑنا چاہئے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہمیں صبر کے اعلیٰ نمونے ملتے ہیں۔صلح حدیبیہ اس کی واضح مثال ہے۔آپ نے حدیبیہ میں کفار کی بعض ایسی شرائط کو قبول کیا جن سے بظاہر یہ لگتا تھا کہ اس میں مسلمانوں کی ناکامی اور کفار ومشرکین کی کامیابی ہے۔مشرکین نے یہ شرط لگائی کہ اس سال بغیر عمرہ کیے ہوئے واپس جانا ہوگا، چنانچہ یہ شرط بھی منظور کرلی گئی۔بعض صحابہ کو پس و پیش ہوا مگر اتباعِ رسول کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا ۔ بعد میں پتہ چلا کہ صلح حدیبیہ مسلمانوں کی فتح ثابت ہوئی اور مسلمانوں کو مستحکم ہونے کا موقع مل گیا۔یہ معاہدہ دس سال کے لیے تھا۔گویا مسلمانوں کو دس سال کا وقت مل گیا کہ وہ مشرکین مکہ کی طرف سے مطمئن ہوکر دوسری جوانب متوجہ ہوسکتے تھے اور ایسا ہوابھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی تبلیغ کا کام اور زوروشور کے ساتھ کرنا شروع کردیا۔مختلف علاقوں میں اپنے نمائندے بھیجے، مختلف بادشاہوں کو خطوط روانہ کیے۔ صلح حدیبیہ کے بعد بہت سے لوگ اسلام لے آئے ، بہت سے لوگوں نے اسلام کے بارے میں جانا اور وہ کافی حد تک اسلام کے قریب آگئے۔ موجودہ حالات میں مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ صبر وثبات سے کام لیں۔اپنا محاسبہ کریں، اسلام کے ساتھ اپنے رشتے کو مضبوط بنائیں، دینی تقاضوں ومطالبوں پر عمل پیرا ہوں، تبلیغ واشاعتِ دین کا کام جاری رکھیں، تعلیم کی طرف بڑھیں، اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں، زیادہ سے زیادہ ایماندار بنیں، دنیا کے سامنے مثبت اور تعمیری کردار پیش کریں اور صبر کے ساتھ وقت کا انتظار کریں، یقینا اگلے کچھ سالوں یا دہائیوں میں حالات کافی حد تک تبدیل ہوجائیں گے۔جاپان کی کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ دوسری جنگ عظیم میں امریکہ نے جاپان کے دوشہروں پر ایٹم بم گرائے، وہ دوونوں شہر تباہ ہوگئے، جاپان کی اینٹ سے ایٹ بجادی گئی، اپنے ابترحالات کو دیکھتے ہوئے جاپان نے تشدد ومقابلے کے راستے کو چھوڑکر اپنا ذہن ٹیکنالوجی کی طرف منتقل کردیا۔یہ کام جاپان کے لوگوں نے بڑی خاموشی سے کیا، کچھ ہی سالوں کے بعد جاپان کا سامان ساری دنیا کی مارکیٹوں میں پھیل گیا۔سامانوں کے معیار کی وجہ سے اقوام عالم جاپان کے تیار کردہ سامانوں کی طرف متوجہ ہوئیں جس کے سبب جاپان کی معیشت کو فروغ حاصل ہونے لگا اور وہ بتدریج آگے بڑھتا گیا اور ترقی یافتہ ممالک میں سے ایک ہوگیا۔اگر جاپان اپنی تباہی کے اتنقام میں لگ جاتا اور پُر تشدد کارروائیاں انجام دیتا، تو اس کے لیے اتنی ترقی کرنا ممکن نہ ہوتا۔
موجودہ حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے مسلمانوں کو بھی تعمیری ومثبت کاموں کی طرف آنا پڑے گا اور فی الوقت اپنے حالات پر صبر سے کام لینا ہوگا۔انھیں زندگی کے تمام شعبوں میں حرکت وبیداری کا ثبوت دینا ہوگا، خود کفیل بننے کی کوشش کرنا ہوگی اور ہر معاملے میں صبر وثات کو قائم رکھنا ہوگا۔امید کی جاسکتی ہے کہ آنے والی دہائیوں میں ان کی حالت بہتر ہوجائے گی اور ان کے دشمنوں کے حملے بے اثر ثبات ہوجائیں گے۔یہ بھی ممکن ہے کہ مسلمانوں کے خلاف حملے کرنے والوں کے حملوں میں شدت باقی نہ رہے، تجربات و شواہد بتاتے ہیں کہ Attackکی پوزیشن زیادہ وقت تک برقرار نہیں رہ پاتی اگر مد مقابل حملہ کرنے والوں کی اٹیک پوزیشن کو سنجیدگی اور ہوشیاری سے ضائع کردے تو پھر حملہ آوروں کے حوصلے دھیرے دھیرے پست ہونے لگتے ہیں اور مغلوب ہوجاتے ہیں۔مثال کے طورپر کرکٹ کے میدان میں بالنگ کرنے والی ٹیم بلے بازوں پر سخت دباؤ بنانے کی کوشش کرتی ہے جب دوتین بلے باز آؤٹ ہوچکے ہوتے ہیں، بالنگ کرنے والی ٹیم چاہتی ہے کہ وہ جلدی سے دو ٹ اور جھٹک لے۔اس کے لیے بالرس بلے بازوں پر Attackکرتے ہیں اور وکٹ لینے کی کوشش کرتے ہیں، کبھی وہ تیز گیندیں پھینکتے ہیں، ، کبھی ہلکی ، کبھی بلے باز کو لالچ دیتے ہیں ،تاکہ وہ چھکے کے لیے بلّہ اٹھائیں اور فیلڈنگ کرنے والے کیچ پکڑکرانھیں پویلوین بھجوادیں، کبھی وہ زور دار آواز میں اپیلیں کرتے ہیں تاکہ بلّے بازوں پر دباؤ بنے اور غلطی کریں ۔یہ وقت بلے بازوں کے لیے صبر آزما ہوتاہے۔ اگر وہ اس موقع پر جذباتی ہوجاتے ہیں تو جلد ہی آؤٹ ہوکر ہار کی کگار تک پہنچ جاتے ہیں اور اگر وہ اس موقع پر صبر کا مظاہرہ کرتے ہیں اور ان کی حملہ کی پوزیشن کو ضائع کردیتے ہیں تو دوچار اووَروں کے بعد بالرس اٹیک کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہتے اور ان کی بالنگ معمول پر آجاتی ہے۔اب بلے بازوں کے لیے موقع ہوتا ہے کہ وہ اپنے حساب سے جم کر کھیل کھیلتے رہیں ۔فی زمانہ مسلمانوں کو بھی اپنی حکمتِ عملی سے میدانِ عمل کی پچ پر حملہ آور قوموں کی اٹیک پوزیشن کو سنجیدگی سے بے اثر کرنا ہوگا،اس کے بعد وہ معمول کی زندگی کی طرف جلدہی لوٹ آئیں گے۔