فضیل احمد ناصری
بالآخر وہی ہوا جو ہونا تھا۔ دارالعلوم وقف دیوبند کے سابق مہتمم، پھر سابق صدر مہتمم خطیب الاسلام حضرت مولانا محمد سالم قاسمی صاحب آج دوپہر میں اللہ کو پیارے ہو گئے۔ اناللہ وانا الیہ راجعوندھڑکا تو پہلے ہی لگا تھا۔ بیماری اور طویل علالت کے بعد یوں بھی اچھی خبر کم ہی سننے میں آتی ہے۔ پھر یہاں تو طولِ عمری کے ساتھ طولِ نقاہت اور درازئ عدمِ صحت بھی دامن گیر تھی۔ میں کل ہی حضرت کی عیادت کر آیا تھا۔ کل دیکھ کر اوروں کی طرح مجھے بھی لگا تھا کہ چراغِ سحر آخری لو دینے کے قریب ہے۔ آکسیجن کے ذریعے سانس لیا جارہا تھا۔ خطرہ جس کا تھا وہ پیش آکر رہا۔ کل کے دام ظلہ آج مرحوم ہوگئے۔
جامعہ امام محمد انورشاہ، دیوبند میں ایصالِ ثواب
مولانا کا وصال دو بج کر 44 منٹ پر ہوا۔ سانحے کی خبر مجھے اسی وقت مل گئی۔ جامعہ میں شام کی تعلیم 3 بجے سے ہے۔ میں وہاں گیا۔ دیکھا کہ اساتذہ اور طلبہ کے چہروں پر مردنی چھائی ہے۔ ہر آنکھ نم اور ہر دل پرغم۔ طلبہ اور اساتذہ نے قرآن خوانی کے بعد ایصالِ ثواب کیا۔ یہ مجلس مسجدِ انور شاہ میں منعقد کی گئی۔ میں نے انتظامیہ سے صلاح و مشورے کے بعد تعلیم کے موقوف کرنے کا اعلان کر دیا۔
کاشانۂ قاسمی پر دیوانوں کا ہجوم
دعائے مغفرت کے بعد زیارت کے لیے نکلا تو عظیم ازدحام میرے سامنے تھا۔ سڑکیں بھری ہوئیں اور گلیاں عازمینِ زیارت سے مملو۔ پتہ چلا کہ جسدِ خاکی حضرت مولانا اسلم قاسمیؒ کے صحن میں ہے۔ دیوان گیٹ پر پہونچا تو آدمی پر آدمی چڑھ رہا تھا۔ طلبہ زیارت کے لیے بے چین۔ ہجومِ بے پناہ ایک جھلک دیکھنے کو بے تاب۔ اتنے ازخود رفتہ کہ اساتذہ کو پہچاننے سے بھی عاری۔ کافی دیر میں دروازے پر کھڑا رہا۔ ریلا نسبتاً کم ہوا تو میں اندر پہونچا۔ دیکھا کہ چارپائی پر مولانا لیٹے ہوئے ہیں۔ نورانی چہرہ موت کے بعد مزید منور تھا۔ مولانا بے حس و حرکت پڑے تھے۔ دیکھ کر رونا آگیا۔ دیکھا، بار بار دیکھا، وہاں سے ہٹنے سے طبیعت نہیں چاہ رہی تھی، تاہم زائرین کے لیے بادلِ ناخواستہ وہاں سے آنا پڑا۔ آہ کیسے کہیے کہ ایک چراغ بجھ گیا۔ علم کا چراغ۔ معرفت کا چراغ۔ اخلاص و وفا کا چراغ۔ ایسا چراغ جس نے اندھیروں کو ہمیشہ شکست دی۔
خانوادهٔ قاسمی کا گوہرِ شب تاب
مرحوم عظیم ترین شخصیت رکھتے تھے۔ عظیم نسبتوں کے ساتھ عظیم خدمات بھی ان سے منسوب۔ وہ حجۃ الاسلام حضرت مولانا قاسم نانوتویؒ کے پرپوتے، شمس العلماء حضرت مولانا حافظ احمد صاحبؒ کے حفید اور حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحبؒ کے فرزندِ اکبر تھے۔ خانوادهٔ قاسمی کے گوہرِ شب تاب اور قاسمی علوم و معارف کے وارث و امین۔ خاندانی روایات کے حامل اور پشتینی حلم و کرم کے پیکرِ صادق۔
سوانحی خد و خال
مولانا کی ولادت 8 جنوری 1926 میں ہوئی۔ آپ اپنے والدین کی اولاد میں سب سے بڑے تھے۔ ابتدائی اور مکتبی تعلیم کے ساتھ عربی و فارسی کی ساری تعلیم دارالعلوم دیوبند سے پائی۔ اساتذہ میں علامہ ابراہیم بلیاویؒ، شیخ الاسلام حضرت مدنیؒ، شیخ الادب مولانا اعزاز علی امروہویؒ اور حضرت مولانا فخرالدین صاحبؒ نمایاں تھے۔
حضرت تھانویؒ کے آخری شاگرد
مرحوم کی خاص بات یہ ہے کہ انہیں حکیم الامت مجددِ ملت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ سے بھی شرفِ تلمذ رہا ہے۔ انہوں نے اپنے والد کی ہدایت پر حضرت تھانویؒ سے درسِ نظامی کی بنیادی اور اہم کتاب میزان الصرف پڑھی۔ وہ اس وقت حضرت تھانویؒ کے براہِ راست آخری شاگرد تھے۔
میدانِ عمل میں
فراغت 1948میں پائی۔ صیغۂ طالب علمی سے نکلے تو اسی سال دارالعلوم میں مدرس ہو گئے۔ اختلافِ دارالعلوم تک یہیں استاذ رہے۔ اس دوران ابتدا سے لے کر انتہا تک تقریباً ساری کتابیں پڑھائیں۔ نور الایضاح، میبذی، سلم العلوم بھی آپ سے وابستہ رہیں۔ ان کا درسِ مشکوٰۃ بہت زیادہ مشہور تھا۔ احادیث کا یہ عظیم ذخیرہ سالوں ان سے وابستہ رہا۔ شرح عقائد کے دروس بھی کافی سرخیوں میں رہے۔ اخیر میں بخاری شریف جلد ثانی کے بھی چند حصے ان سے متعلق رہے۔ دم دار پڑھاتے۔ خوب تحقیق و تدقیق سے پڑھاتے۔ نفسِ مضمون تک رسائی اور تفہیمِ عبارت پر ان کے یہاں زیادہ زور تھا۔ ان کے اسباق دارالعلوم میں خاصی شہرت رکھتے۔
دارالعلوم وقف میں
دارالعلوم کے قضیۂ نامرضیہ کے بعد دارالعلوم وقف کے نام سے ایک نیا عالمی مرکز سامنے آیا تو اپنے نامور والد کے بعد مہتمم بنائے گئے۔ کم و بیش 35 سال اس کا اہتمام سنبھالا۔ دارالعلوم وقف میں منعقد پہلی مجلسِ شوریٰ میں ان کا اہتمام، صدر اہتمام میں بدل گیا۔ اب وہ تادمِ حیات صدر مہتمم تھے۔ بخاری شریف کے اسباق بھی متواتر ان سے متعلق رہے۔
تنظمیوں سے وابستگی
مرحوم دارالعلوم سے وابستگی کے ساتھ متعدد تعلیم گاہوں کے ذمے دار بھی تھے۔ جامعہ دینیات کے سرپرست اور مظاہرِ علوم وقف کی مجلسِ شوریٰ کے صدر بھی۔ دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کی شوریٰ کے رکن رہے۔ ملی تنظیموں سے بھی سرگرم وابستگی رہی۔ مسلم مجلسِ مشاورت کے صدر، مسلم پرسنل لا بورڈ، علما کونسل مصر، اور دیگر سرکردہ تنظیمات کے بھی فعال ممبر رہے۔ مسلم پرسنل لا بورڈ کے تاحیات نائب صدر رہے۔ سفر ان کی زندگی تھا۔ سفر در سفر میں ان کی مثال نادر تھی۔ آخر عمر میں بھی ان کا شوقِ سفر عروج پر تھا۔ یہ اسفار دعوتی تھے۔ ملک کا چپہ چپہ چھان ڈالا۔ بیرونِ ممالک میں بھی شاید کوئی ملک چھوٹا ہو۔
تقریر و خطابت
مولانا نے تدریس کے ساتھ تقریر میں بھی اپنا نام کمایا۔ قوتِ کلام اور زورِ بیان میں ان کا وہ مقام کہ خطیب الاسلام کے بڑے لقب سے سرفراز کیے گئے۔ تقریر بڑی شستہ اور شگفتہ ہوتی۔ زبان شیرینی و حلاوت سے لبریز۔ جو بات کرتے نقل کے ساتھ عقل سے بھی ہم آہنگ۔ طرزِ استدلال مقناطیسیت سے عبارت۔ آواز میں بلا کی کشش۔ جس تقریب میں جاتے، چھا جاتے۔ جس بزم میں شریک ہوتے صدر نشیں بن جاتے۔
حلم و تحمل، عفو و درگذر
مولانا کے اوصافِ جمیلہ میں حلم و تحمل کو ممتاز مقام حاصل ہے۔ اپنے مخالفین کے ساتھ بھی ان کا رویہ خیرخواہانہ، مخلصانہ، متواضعانہ رہتا۔ زبان غیبت سے پاک۔ مجلس بدگوئی سے منزہ۔ کفِّ لسان ان کا شعار تھا۔ دارالعلوم کا مشہورِ زمانہ ہنگامہ ہوا تو اپنا سب کچھ گنوا دینے کے باوجود ان کے لب حرفِ شکایت سے نا آشنا رہے۔ حیرت انگیز تو یہ کہ 2005 میں فدائے ملت حضرت مولانا اسعد مدنیؒ سعودی میں شدید بیمار پڑے تو پہلے ٹیلی فون سے عیادت کی اور پھر وہاں حاضری۔ حالانکہ دوریوں کا دامن کئی دہائیاں دراز ہو چکا تھا۔ مولانا کی ان اداؤں نے مولانا مدنیؒ کو بھی حیرت زدہ کردیا۔ بہت دنوں تک انہیں اپنی آنکھوں پر یقین ہی نہ آیا۔
تصنیفات و تالیفات اور شعر و سخن سے تعلق
مرحوم زبردست صاحبِ قلم بھی تھے۔ کئی نادر و نایاب تحریریں ان کے خامۂ گوہر بار سے نکلیں۔ چند کتابیں بھی ان کے قلم سے معرضِ وجود میں آئیں، جن میں مبادئ التربیۃ الاسلامیۃ، جائزہ تراجمِ قرآن، تاجدارِ ارضِ حرم کا پیغام، مردانِ غازی، ایک عظیم تاریخی خدمات اور سفرنامۂ برما خصوصیت سے قابلِ ذکر ہیں۔ وہ بہترین قلم کے حامل تھے۔ سطر سطر علم و عرفان اور وسعتِ مطالعہ کا غماز ہوتا۔ علمی اور گاڑھی زبان ان کی شناخت تھی۔ عام فہم زبان بولنے پر وہ قادر نہیں تھے۔ علما کے لیے ان کا لوح و قلم اور زبان و بیان نعمتِ عظمیٰ تھا۔ ان کے ساتھ وہ شعر و سخن کے بھی رمز آشنا تھے۔ ان کی یہ خوبی خدمات کے دوسرے ہجوموں میں کھو گئی۔ 1968 میں حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحبؒ مع اہلیہ سفرِ حج سے واپس آئے تو مولانا مرحوم نے ایک طویل نظم ان کے خیرمقدم میں لکھی۔ ان کی کچھ نظمیں محفوظ بھی ہیں۔
ایوارڈ و اعزازات
شخصیت عظیم ہو تو ایوارڈ و اعزازات بھی اس کے پیچھے دوڑتے ہیں۔ مولانا بھی ان اعزازات سے سرفراز ہوتے رہے۔ ایک بڑا ایوارڈ حضرت نانوتویؒ ایوارڈ ہے، جو انہیں ترکی میں متعدد ممالک کی باوقار موجودگی میں دیا گیا تھا۔ اس ایوارڈ سے حلقۂ دیوبند میں بے پناہ مسرت دیکھی گئی۔ تقریب کے بعد دیوبند آئے تو جگہ جگہ ان کو استقبالیہ دیا گیا۔ ایک استقبالیہ دیوبند کے شیخ الہند ہال میں بھی دیا گیا، جس میں مجھے بھی اظہارِ خیال کا موقع ملا تھا۔ اس کے علاوہ نہ جانے اور کتنے اعزازات ان کے تعاقب میں رہے۔
جامعہ امام محمد انور شاہ، دیوبند سے محبت
مرحوم، فخرالمحدثین حضرت مولانا سید انظر شاہ کشمیریؒ کے یارِ غار تھے۔ دارالعلوم سے لے کر دارالعلوم وقف تک ایک طویل رفاقت رہی۔ امام العصر علامہ محمد انور شاہ کشمیریؒ کی گود میں بھی کھیل چکے تھے۔ یہ قدیم ترین مراسم کا نتیجہ تھا کہ جامعہ امام محمد انور شاہ، دیوبند سے بھی محبت کرتے۔ یہاں آتے۔ مشورے دیتے۔ اس کی ترقیات سے خوش ہوتے۔ دعاؤں سے نوازتے۔ زبانِ دیوبند حضرت مولانا سید احمد خضر شاہ کشمیری دام ظلہم پر ان کی بڑی نظرِ عنایت رہی۔
ولکنہ بنیان قوم تھدما
حضرت ہمارے درمیان سے اٹھ گئے۔ عمرِ مبارک 92 ہوئی۔ ایسی طویل عمر اور صلاحیت و صالحیت کے ساتھ الا ماشاءاللہ ہی کسی کے نصیبے میں آتی ہے۔ وہ چلے گئے تو فضا سوگوار ہے۔ دیوبند پر موت کا سناٹا طاری ہے۔ رنج و غم. اور شدید الم ہر کسی کے چہرے سے ہویدا۔ کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ یہ ایک شخص نہیں، شخصیت بلکہ عالَم کی موت ہے۔ آج تو ہر رونے والی آنکھ اور ہر مغموم دل یہی کہہ رہا ہے:
وما کان قیس ھلکہ ھلک واحد
ولکنہ بنیان قوم تھدما
نماز جنازہ رات دس بجے ہوگی، اس کے بعد علومِ نانوتویؒ کا یہ امین اپنے آباء کے گہوارے میں سو جائے گا:
رہے نام اللہ کا