اسلام اورجنسی تشدد کا سد باب

از :امداد الحق بختیار قاسمی
چیف ایڈیٹر عربی مجلہ ” الصحوة الاسلامیہ“
جامعہ اسلامیہ دارالعلوم حیدرآباد
ihbq1982@gmail.com_+91 9032528208
ذرائع ابلاغ کے صدقہ میں پوری دنیا سمٹ کر ایک بستی کی حیثیت اختیار کر چکی ہے ، یہاں ہر آن پورے عالم کی خبریں گردش کرتی رہتی ہیں اور ان خبروں میں سکون کا سامان کم اور رنج و غم اور تکلیف کا زیادہ ہوتا ہے ، ہمارے کانوں کو انسانیت پر ڈھائے جارہے مظالم کی کوئی نہ کوئی داستان روزانہ سننی پڑتی ہے ، کہیں بمباری ہورہی ہے ، تو کہیں کالجوں میں بندوقیں چل رہی ہیں ، کہیں سے جنسی تشدد کے بھیڑیوں کی خبر آتی ہے ، تو کہیں سے انسانی درندوں کی درندگی کی ۔ پوری انسانیت کشمکش میں ہے اور ان سب کے بیچ میں کچھ ادارے جان بوجھ کر انسانوں کو گمراہ کرنے کی اور خبر کے نام پر بے خبر کرنے کوشش کررہے ہیں ، جبکہ آج کا انسان ایک ایسے نظام کا متلاشی ہے ، جس میں اس کی مکمل حفاظت ہو ، اسے سکون میسر آئے ۔
اسلام صرف ایک مذہب نہیں ؛بلکہ مکمل نظام حیات کا نام ہے ، اسلام نے انسان کی فطرت کے مطابق ہی قوانین بنائے ہیں ، اسلام کا کوئی قانون انسانی فطرت کے خلاف نہیں ؛ کیوں کہ یہ کسی انسان کی پیداوار نہیں ؛بلکہ خالق ِکائنات کا نظام ہے ، لہذا اللہ تعالی نے جہاں انسان کے اندر جنسی خواہش رکھی ہے ، وہیں اس جنسی خواہش کی تکمیل کا بھی راستہ بتایا ہے ؛کیوں کہ اسلام انسان کی خواہشات کو دباتا نہیں ہے ، اسلام رہبانیت اور سنیاس کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا ؛بلکہ اس سے روکتا ہے ؛ کیوں کہ یہ فطرت سے بغاوت ہے ؛ جس کے نتائج کبھی اچھے نہیں ہوسکتے اور آج دنیا اس کا مشاہدہ بھی کررہی ہے ۔
اسی طرح اسلام انسان کے جان ومال ، عزت وآبرو کے تحفظ کو یقینی بناتاہے ، اور ہر اس سوراخ پر بند لگاتا ہے ، جہاں سے کسی انسان کی عزت وآبرو خطرہ میں پڑ سکتی ہے ، اسلام نے جتنی گہرائی اور باریک بینی سے انسانی تحفظ کا احاطہ کیا ہے، کوئی اور دین اور مذہب اس کی مثال پیش نہیں کرسکتا ، انسان کی عفت وعصمت اور عزت و آبرو کی حفاظت کے لیے اسلام نے زنا کو ناجائز اور حرام قرار دیا اور اسے ایک معاشرتی جرم گردانا ہے اوراس پر ایسی سنگین سزا تجویز کی ہے کہ مجرمانہ ذہنیت کے افراد کے لیے عبرت ہو اور وہ اپنے جرم پر اقدام کرنے سے بھی کانپ جائیں اور اس طرح معاشرہ ان کی ناپاک ذہنیت کا شکار ہونے سے محفوظ رہ سکے ، یہ بھی واضخ رہے کہ اسلام نے صرف زنا پر پاپندی نہیں لگائی ہے ؛ بلکہ وہ تمام کام جن کا راستہ زنا کی طرف جاتا ہے ، ان سب سے انسان کو سختی سے روکا ہے ، قرآن نے سب سے زیادہ زور اس پر دیا ہے کہ ایک انسان کو اپنے پیدا کرنے والے پروردگار سے ڈرنا چاہیے ؛ کیوں کہ اللہ کا خوف ہی ایک ایسی چیز ہے ، جس سے انسانی معاشرہ انفرادی اور اجتماعی طور پر جرائم سے پاک ہوسکتاہے ، تقوی ہی وہ عنصر ہے جو انسان کو اسلامی احکام پر عمل پیرا کراتا ہے اور اس کو گناہوں سے روکتا ہے ، تاریخ کے صفخات اپنے اندر ایسے سینکڑوں واقعات سمیٹے ہوئے ہیں ، کہ اللہ کے متقی اور پرہیز گار بندوں کے سامنے زنا کے تمام دروازے کھلے ہوئے تھے ؛ لیکن صرف اور صرف اللہ کے خوف کی وجہ سے وہ اس گناہ عظیم سے باز رہے ؛ حضرت یوسف علیہ السلام اور زلیخا کا واقعہ کون نہیں جانتا !
اس کامل اور مکمل نظام حیات نے زنا جیسی لعنت سے معاشرہ کو پاک وصاف رکھنے کے لیے بہت سے احکامات ، ہدایتیں اور قوانین انسانوں کے سامنے پیش کیے ہیں اور انہیں اس کا پابند بنایا ہے کہ وہ ان قوانین کو مضبوطی سے تھامیں : جیسے قرآن نے پیغام دیا ہے کہ اے انسان زنا کے قریب بھی مت جا۔ اور قرآن نے اسی پر اکتفا نہیں کیا؛ بلکہ زنا کے قریب جو چیزیں لے جاتی ہیں ، ان کی نشاندہی کی اور ان سے بھی محتاط رہنے کی تاکید کی ؛ چنانچہ اس کتاب مقدس نے انسانوں کو اس بات کا حکم دیا کہ مرد کا سامنا جب کسی غیر محرم خاتون سے ہو تو وہ نگاہیں نیچی کرلے اور اپنی جنسی خواہشات پر کنٹرول رکھے، دوسری طرف خواتین کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ جب کسی غیر محرم مرد کے سامنے آئیں یا گھر سے باہر نکلیں تو مکمل جسم کو ڈھانک کر نکلیں ؛ تاکہ شریر طبیعت کے لیے کوئی موقع نہ رہے ؛گویا خواتین کو ایک قیمتی چیز کا درجہ اور مقام دیا گیا ہے، اسی کے ساتھ یہ بھی ہدایت دی گئی ہے کہ غیر محرم مرد اور خاتون تنہائی اختیار نہ کریں ؛ کیوں کہ شیطان انہیں کسی ناکردنی پر آمادہ کرسکتاہے اور آج اس پر عمل نہ کرنے کے نقصانات چڑھتے سورج کی طرح دکھائی دے رہے ہیں ، عورت کا تنہا سفر نہ کرنا ؛ بلکہ اس کے ساتھ اس کی عصمت کے حفاظت کے لیے کسی محرم کا لازمی ہونا بھی اسی سے متعلق ہے۔
ان تمام احتیاطی تدابیر کے باوجود بھی اگر کوئی نہ مانے اور زنا جیسی بد کاری کو انجام دے ، تو پھر شریعت نے اس کے لیے عبرت ناک سزا تجویز کی ہے ، کہ اگر وہ غیر شادی شدہ ہے تو بھرے مجمع میں اسے سو کوڑے مارے جائیں اور مزید کچھ سزا ضروری ہو تو وہ بھی دی جائے اور اس کا فیصلہ ہر زمانہ کا جج یا حاکم کرے گا اور زناکار شادی شدہ ہے تو پھر اسے سنگار یعنی پتھروں سے ماردیا جائے ؛ مگر اسلام نے یہ سزا تجویز تو کی ہے؛ لیکن عمومی طور پر اس کو ثابت کرنا بہت مشکل ہوتا ہے ؛ کیوں کہ اس کے ثبوت کے لیے ایک بڑی شرط یہ لگادی ہے کہ چار ایسے افراد اس کی گواہی دیں ؛ جنہوں نے ان دونوں کو اس طرح زناکرتے ہوئے دیکھا ہو ؛ جیسے سرمہ دانی میں سلائی جاتی ہوئی دکھائی دیتی ہے اور یہ واضح ہے کہ کوئی چوراہے پر تو زنا کرتا نہیں کہ اتنے لوگ اسے دیکھ سکیں ؛ خلاصہ یہ کہ اس سزا کے ذریعہ اسلام کا مقصد لوگوں کے دلوں میں خوف اور ہیبت پیدا کرنا ہے تاکہ وہ اس گناہ کے بارے میں سوچیں بھی نہیں ۔
آج کل بہت سے نام نہاد انسانیت کے علمبردار واویلا مچاتے ہیں اور ہنگامہ برپا کرتے ہیں کہ اسلامی سزائیں انسانیت کے خلاف ہیں ، یہ سزائیں انسانی حقوق کو پامال کرتی ہیں ، یہ وحشیانہ اور ظالمانہ سزائیں ہیں اور یوروپی تہذیب سے متاثر لوگ بھی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں اور اعتراض کا کوئی موقع نہیں چھوڑتے ، ان کے حضور میں مودبانہ عرض ہے کہ خواتین ، جوان لڑکیوں اور کم سن بچیوں کے ساتھ روزانہ اور ہر منٹ میں ریپ کرنا ،ان کا اغوا کرنا ، ان کے ساتھ جنسی تشدد کرنا اور پھر ان کو موت کے گھات اتاردینا کونسی انسانیت کے مطابق ہے ؟جو ملک جتنا ترقی یافتہ اور جتنا ماڈرن ہے ، وہاں اسی کے تناسب سے اسی قدر زیادہ یہ وارداتیں ہورہی ہیں ،ایک واقعہ پڑھیں: لندن میں مٹنگ کے دوران شاہ فیصل  سے کسی نے کہا کہ آپ ہماری تہذیب کو اختیار کریں ، آپ ابھی تک اسی پرانی ریت کو گلے سے لگائے ہوئے ہیں ، ہم تجدد پسند اور زمانہ کے ساتھ کندھا ملاکر چلنے والی قوم ہیں تو شاہ فیصلنے کہا کہ مجھے اعداد شمار دکھائے جائیں کہ شہر لندن میں ایک سال میں کتنی دفعہ زنا اور مرڈر کے واقعات ہوئے ہیں ؛ چنانچہ سروے پیش کیا گیا جو کافی زیادہ تھا ، رپورٹ دیکھ کر شاہ فیصل نے کہا کہ تمہارے ایک شہر میں جتنے جرائم ایک دن میں ہوئے ہیں ، ہمارے پورے ملک میں پورے سال میں بھی اتنے جرائم نہیں ہوتے ؛ لہذا آئندہ کبھی اپنی تہذیب کی بات نہ کرنا ۔یہ چیز شاہ فیصل کے دور کے ساتھ چلی نہیں گئی، آج بھی ہمارے سروں پر منڈلا رہی ہے ،اور آج بھی دنیا یہی نمونہ پیش کررہی ہے ، آج کا سروے پہلے سے کہیں زیادہ چونکا دینے والا ہے تو اب سوال یہ ہے کہ اسلامی سزا کی وجہ سے مثا ل کے طور پر دس انسانوں کا اپنی جان گنوا دینا ، یہ انسانیت کے خلاف ہے یا اسلامی قانون پر عمل نہ کرنے کی صورت میں سینکڑوں جان اور انسان کا ہلاک ہوجانا ، یہ انسانیت کے خلاف ہے ؟ بربریت کہاں ہے ، وحشی پن کہاں ہے ، ظالمانہ طرز زندگی کونسی ہے ؟؟؟
ہمارا ملک عزیز انڈیا ، جو گنگا جمنی تہذیب کا علم بردار ہے ، جہاں پیارو محبت کی ایک تاریخ رہی ہے ، جو امن و آشتی کا گہوارا سمجھاجاتا رہا ہے ، جہاں ناری (عورت )کو دیوی کا درجہ یا گیا ہے ، آج وہی دیوی اپنے ہی گھر میں محفوظ نہیں ہے ، شاید ہی یہاں کوئی خوش قسمت دن گزرتا ہو ، جس میں کسی معصوم خاتون کے ساتھ زنا بالجبر یعنی ریپ نہ کیا جاتا ہو اور پھر رونگٹے کھڑے کرنے والے انجام تک اسے نہ پہنچادیا جاتا ہو ، فی الحال اس ملک کی تصویر کچھ اس طرح دکھائی دیتی ہے ،کہیں دنگا فساد ، آگ زنی اور توڑ پھوڑ ،تو کہیں جانور کے بہانے انسان کی خوں ریزی ، کمزوروں پر ظلم وزیادتی اور ہجومی تشدد ،کہیں ریپ ، مرڈر تو کہیں خودکشی ، ایک خاص طبقہ کے علاوہ پورا ملک ڈر اور خوف کے سایہ میں زندگی گزار رہا ہے ، ابھی حال ہی میں (یعنی جنوری میں)انسانیت ہی نہیں بلکہ حیوانیت کو بھی شرمسار کردینے والے ایک ایسے ہی حادثہ نے پورے ملک کو سکتہ میں ڈال دیا ہے ، انسانی دل رکھنے والا ہر فرد اس کی تکلیف محسوس کررہا ہے اور وہ ہے ایک صرف آٹھ سالہ معصوم آصفہ کے ساتھ اجتماعی عصمت دری اور مرڈر کا روح فرساں واقعہ اور تعجب اس بات پر ہے کہ یہ گھناونا جرم ایسی جگہ انجام دیا گیا ، جو بھگوان کا گھر ہے ، جہاں انسان اپنی زندگی کے سکھ مانگنے کے لیے جاتا ہے ، جہاں دعائیں کی جاتی ہیں ، جہاں منتیں مانگی جاتی ہیں ، ان حیوانوں کو اپنے بھگوان سے بھی شرم نہیں آئی ، اب انہیں کافر نہ کہا جائے تو کسے کہا جائے ؟اور مندر کے اس پنڈٹ کی نگرانی میں یہ انسانیت سوز حرکت کی گئی ، جسے لوگ اپنا گرو کہتے ہیں ، اور تعجب بھی اشکبار ہے کہ اس معصوم کی عصمت کو تارتار کرنے میں قانوں کے پاسدار پولیس اہلکار بھی شامل تھے ، اتنی چھوٹی سی بچی کے ساتھ پانچ چھ زانیوں اور ریپسٹوں نے ایک بار نہیں بلکہ کئی بار یہ دل دہلادینے والی مذموم حرکت کی اور ان جانوروں نے اسی پر بس نہیں کیا ؛بلکہ اس معصوم کا گلا گھونٹ کراور پتھروں سے اسے کچل کچل کر موت کے گھات اتار دیا اورملک کی پیشانی تب اور داغ دار ہوگئی جب ان مجرمین کی حمایت میں قومی جھنڈا لے کر ایک جلوس نکالا گیا ۔
ہر انسان، چاہے وہ کسی بھی دین اور مذہب سے تعلق رکھتا ہو ، اس دنیا میں امن و سکون کے ساتھ رہنا چاہتا ہے ، اپنے اور اپنی فیملی کے تحفظ کے احساس کے ساتھ رہنا چاہتاہے ، اب یہ حکومت اور ارباب اقتدار کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنی پبلک کے لیے ایسا ماحول بنائے ؛ لہذا اس ملک کا ہر باشندہ حکومت سے توقع رکھتا ہے کہ جرائم کی روک تھام میں موثر اقدامات اور کارروائیاں کی جائیں ؛میں یہ نہیں کہتا کہ اسلامی قوانین اور سزاوٴں کوہی اختیار کیا جائے ، حکومت جو بھی اختیار کرے؛ لیکن ایک ہندوستانی اپنے ملک کو ان جرائم سے پاک کرنا چاہے گا ؛ لہذا اس کے لیے بجائے جانور پر قانوں بنانے کے، پہلے انسان کے تحفظ کے لیے سخت ترین قوانین بنائے جائیں اور پوری دیانت داری کے ساتھ اس کو نافذ کیا جائے ، چاہے اس کی زد میں کوئی بھی آتاہو؛ لیکن اس ماحول کو بنانے کے لیے اور ملک کی سالمیت کے لیے اس ملک کے ہر انصاف پسند ذہن کو خودآگے آنا ہوگا ، جب تک ہمارے اندر شعور بیدار نہیں ہوگا ہمارا خواب ، خواب ہی رہے گا ، اسے تعبیر کا جامہ کبھی نہیں مل سکتا ۔

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے