مسلمانوں کی معاشی پسماندگی، اسباب اور تدارک

مولانامحمد اسرارالحق قاسمی

انسانی زندگی میں معیشت کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔معاشی استحکام کے بغیر نہ فرد ترقی یافتہ خیال کیاجاتاہے اور نہ قوم۔قدم قدم پر انسان کو مال اور پیسے کے ضرورت پڑتی ہے ۔معاش کی یہ اہمیت ہر دورمیں رہی ہے،لیکن عہد حاضر میں معاشی استحکام گزشتہ زمانوں کے مقابلے میں اورزیادہ ناگزیر نظرآرہاہے۔کیونکہ اس زمانے میں اخلاق وروحانیت کا دائرہ محدو د ہوا ہے اور مادیت نے ہر چہار جانب اپنی حکمرانی قائم کرلی ہے۔ہر شخص پُرتعین زندگی گزارنے کاخواہاں ہے۔اس کے لیے بہت سے لوگ تگ ودو بھی کررہے ہیں، وہ الگ بات ہے کہ کس کی کوششیں کتنی کامیاب ہیں اور کون اپنے اہداف کو کس حد تک پارہا ہے۔دولت کی بڑھتی خواہش اور دولت کے حصول کے نت نئے طریقوں نے انسان کو بہت زیادہ مفاد پرست بھی بنادیاہے ،اسی لیے اپنے مفادات کے لیے لوگ دوسروں کا استحصال کرنے یا دوسروں کو نقصان پہنچانے تک سے گریز نہیں کررہے ہیں۔ایسے میں لوگوں سے بھلائی کی توقعات و امکانات کم ہوگئے ہیں۔ اگر انسان کے پاس پیسہ ہے تو اس کی ضروریات پوری ہورہی ہیں، لیکن اگر پیسہ نہیں ہے تو اس کی زندگی نہایت کسمپرسی میں گزررہی ہے۔لوگ تعاون کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں یا معاشی اعتبار سے کمزور افراد اور طبقات کو آگے بڑھانے کے جذبے سے محرو م ہوگئے ہیں۔اس لیے اس دورمیں ضروری ہے کہ فرد بھی معاشی لحاظ سے مستحکم ہو اور قوم بھی اقتصادی طور پر مضبوط ہو۔

اسلام ایک ایسا دین ہے جو انسانی زندگی کے ہرشعبے پر زور دیتا ہے اور کسی کو بھی تشنہ لب نہیں چھوڑتا۔چونکہ معاشیات انسانی زندگی کا اہم شعبہ ہے، اس لیے اس بابت اسلام نے روشنی پیش کی ہے تاکہ اس میں چل کرلوگ اپنی معاشی زندگی کو بہتر بناسکیں۔ معاشیات کی طرف اسلام شروع سے ہی توجہ دیتا ہے۔کیونکہ اسلام میں معاشرتی زندگی بہت اہم ہے ۔اسلامی تعلیمات کے مطابق انسان کو سماج میں ہی رہنا ہے۔شادی بھی کرنی ہے، بیوی کے اخراجات بھی اٹھانے ہیں ، بچوں کی پرورش وپداخت بھی کرنی ہے ،ماں باپ کے حقوق اور سماج کے کمزور طبقات کی ضرورتوں کو بھی پورا کرنے میں حصہ لینا ہے ۔ظاہر ہے کہ ان سب تقاضوں کی تکمیل کے لیے مال ودولت کے کردار سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔اسلام میں اس بات کی گنجائش نہیں کہ کوئی جنگلوں اور پہاڑوں کا رخ کرلے اور سماج ومعاشرت سے کٹ جائے۔اپنی اور اپنے بیوی بچوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اگر کوئی محنت ومشقت کرکے کچھ کماتا ہے تو یہ بڑی سعادت کی بات ہے۔اسلام ایسے لوگوں کو سراہتاہے، ان کی ہمت افزائی کرتاہے۔

”حضرت انس بن مالک  سے مروی ہے ، وہ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک لڑائی میں شریک تھے۔ ہمارے پاس سے ایک پھرتیلا جوان گزرا، جو غنیمت میں حصے کے طورپر ملے مویشی کولیے جارہا تھا، تو ہم بول پڑے کہ اگر اس کی جوانی و سرگرمی اللہ کی راہ میں صرف ہوتی تو کیا ہی اچھا ہوتا۔ ہماری یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی تو آپ نے پوچھا: تم کیا کہہ رہے تھے؟ ہم نے بتایا کہ یہ اور یہ۔آپ نے فرمایا: اگر وہ اپنے والدین یا ان میں سے کسی ایک کے لیے بھاگ دوڑ کرے تو یہ بھی اللہ کی راہ میں شمار ہوگا، اور اگر وہ اپنے اہل وعیال کے لیے تگ ودو کررہا ہو،تاکہ ان کی کفالت کرسکے، تو یہ بھی اللہ کی راہ میں گنا جائے گا اور اگر اپنی ذات کے لیے کام کرے تو یہ بھی فی سبیل اللہ ہوگا۔“

ایک موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مانفعنی مال احد قط مانفعنی مال ابی ابکر ”مجھے ابوبکر کے مال کی طرح کسی کے مال نے فائدہ نہیں پہنچایا“(ترمذی، صحیح) ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خادم حضرت انس  کو دعادیتے ہوئے فرمایا تھا کہ اللہم اکثر مالہ ”اے اللہ ان کومالِ فراواں دے“ ان تمام روایات سے معلوم ہوتاہے کہ مال اگر صحیح طریقے سے حاصل ہو اور اسے صحیح جگہ پر استعمال کیا جائے تو برا نہیں ہے۔صحابہ کرام رضوان اللہ علیہ اجمعین میں کئی صحابی ایسے گزرے ہیں جو آج کے ارب پتیوں سے کم نہیں تھے۔جیساکہ حضرت عثمان غنی، حضرت عبدالرحمن بن عوف، زبیر بن العوام اور طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہم ۔

اسلامی تعلیمات کے مطالعہ یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اسلام اپنے ماننے والوں کو پیسے کمانے سے نہیں روکتاہے، بلکہ اگر کوئی اپنے بیوی بچوں کے اخراجات کی تکمیل کے لیے اور اپنے گھر بار کو درست طورپر چلانے کے لیے کاروبار وتجارت کرتاہے تو اس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے تجارت کی ۔ آپ کے صحابہ نے بھی تجارت کی ہے۔بعض اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کھیتوں میں بھی کام کرتے تھے اور بازاروں میں بھی خرید وفروخت کرتے تھے۔جیساکہ حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ وہ خود تو اصحابِ صفہ میں سے تھے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے فیضیاب ہوتے تھے لیکن مہاجرین بازاروں میں مشغول اور انصار کھیتوں میں کام کرتے تھے۔“صحابہ کرام نے صرف تجارت میں حصہ ہی نہیں لیا بلکہ تجارت کو الگ انداز میں فروغ بھی دیا۔مندرجہ ذیل واقعہ سے اندازہ کیا جاسکتاہے کہ کاروبار میں کس قدر برکت ہے اور اسلام نے کاروبار وتجارت کی کس طرح حوصلہ افزائی کی ہے۔

”انس بن مالک سے روایت ہے کہ ایک انصاری نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنی بے کاری کی شکایت کی۔آپ نے فرمایا: کیا تیرے گھر میں کچھ نہیں؟ اس نے عرض کیا۔کیوں نہیں، ایک چادر ہے، جسے ہم اوپر اوڑھتے ہیں اور نیچے بچھاتے ہیں اور ایک پیالہ ہے جس میں ہم پانی پیتے ہیں ۔ آپ نے فرمایا: جاؤ وہ دونوں چیزیں لے آؤ۔جب وہ شخص دونوں چیزیں لے آیا تو آپ نے انھیں لے کر حاضرینِ مجلس سے مخاطب ہوکر فرمایا: دونوں چیزوں کو کون خریدے گا؟ ایک آدمی نے کہا : میں ایک درہم میں خریدتا ہوں۔آپ نے فرمایا: دویا تین درہم میں کون خریدے گا؟ ایک دوسرے آدمی نے کہا : میں دودرہم میں خریدتاہوں۔ آپ نے پلان او رپیالہ آدمی کو دے کر دو درہم لے لیے۔انصاری کو دے کرفرمایا: ایک درہم کا کھانا خریدکر اپنے گھروالوں کو دے آؤ اور دوسرے درہم کی ایک کلہاڑی خرید کر میرے پاس لے آؤ۔پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے دستِ مبارک سے دستہ لگایا اور فرمایا: یہ کلہاڑی لے کر جاؤ اور جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر لایاکرو اور انھیں بیچا کرو اور پندرہ دن تک میرے پاس مت آنا۔“

”وہ شخض چلاگیا اور لکڑیاں کاٹ کر فروخت کرتا رہا۔جب پندرہ دن کے بعد آیا تو وہ دس درہم کماچکا تھا،جن میں سے کچھ درہم کا اس نے کپڑا اور کھانا خریدا ،پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: یوں کماکر کھانا تمھارے لیے بہتر ہے اس سے کہ لوگوں سے مانگتے پھرو ، اور اس کے سبب قیامت کے روز تمہاراچہرہ داغ دارہو۔“(ماہنامہ اعتدال ، مئی 2017، ص 83)

اسلام نے تجارت کے لیے اصول وضوابط بیان کیے اور تجارت کے باب میں اصلاحات کیں تاکہ تجارت کا عمل صاف ستھرے انداز میں کیاجائے۔اس سے تاجر کا بھی فائدہ ہو اور دوسرے لوگوں کا بھی ۔اسلام میں ایسی تجارت کے لیے گنجائش نہیں ملتی جس کے ذریعہ تاجر تو خوشحال ہو، اور دوسرے لوگوں کا تاجر کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے نقصان ہو۔تجارت کو باضابطہ فروغ دینے اور اسے بہترین سانچے میں ڈھالنے کے لیے عملاً رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد ِنبوی کی تعمیر کے بعد ”سوق المدینہ“ قائم کیا۔

معلو م یہ ہوا کہ اسلام معیشت واقتصادیات کو نظر انداز نہیں کرتا ہے بلکہ معیشت واقتصادیات کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور اپنے ماننے والوں کو اس سلسلے میں رہنمائی بھی کرتا ہے کہ انھیں کس طرح اپنی معیشت کو مضبوط کرنا ہے۔ اسلام نے جو طریقے معیشت و اقتصادیات کے لیے بیان کیے ہیں ،وہ نفع بخش اور عوام الناس کے لیے مفید ہیں۔ اسلام کے بیان کردہ ضابطے انسان کے حسن اخلاق کو بھی متاثر نہیں کرتے اور نہ ہی اس کی تہذیبی ومذہبی زندگی کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ جب کہ دنیا میں رائج معیشت کے دوسرے بہت سے نظام ونظریات سے انسانی زندگی کو اتنا فائدہ پہنچتا نظر نہیںآ تاہے اور وہ کسی نہ کسی حد تک انسانی زندگی کے دوسرے شعبوں کو متاثر کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج جب کہ تمام قومیں اور افراد اپنی معیشت کو مضبوط کرنے میں مصروف ہیں، انسانی زندگی متاثر ہورہی ہے اور زندگی کے دوسرے تقاضے کنارے ہوتے جارہے ہیں۔جیساکہ بہت سے لوگ اپنی شب وروز کی تگ ودو کے بعد اپنی معیشت کو مضبوط کرنے میں کامیاب تو ہوئے ہیں لیکن اخلاقی سطح پران کے طوروطریقے اچھے نہیں رہے ۔کئی لوگوں نے جائز طریقوں کو استعمال کرکے دولت نہیں کمائی بلکہ انھوں نے ہر طرح کے طریقے استعمال کیے خواہ وہ جائز تھے یا ناجائز ۔بہت سے لوگ جھوٹ بول کر پیسے کماتے ہیں۔ اپنی چیز کی وہ خوبیاں بیان کرتے ہیں ،جو فی الواقع اس میں نہیں ہوتیں۔اس کو دھوکہ دہی کہا جائے گا۔ اس طرح حاصل کی ہی ہوئی کمائی کے کوئی معنی نہیں ہیں۔ بعض لوگ دوسروں کا استحصال کرکے اپنی تجوریوں کو بھرتے ہیں ۔ وہ فیکٹریاں ، کارخانے لگاتے ہیں، ان میں مزدور اور ملازمین کو رکھتے ہیں، کام تو ان سے خوب لیتے ہیں لیکن ان کی محنت کے مطابق اجرت نہیں دیتے ، بعض لوگوں کی غربت وافلاس یا کسی اور مجبوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کم اجرت پر کام کراتے ہیں۔ بعض اپنے ملازمین اورکام کرنے والوں کے پیسے وقت پر نہیں دیتے ،اورلوگوں کے پیسے اپنے پاس رکھ کر اس سے مزید کمائی کرتے ہیں۔کچھ لوگ ایسی چیزیں فروخت کرتے ہیں جو فی نفسہ جائز ہی نہیں۔مثال کے طورپر نشہ آور اشیا کا استعمال ۔بعض لوگ اچھے مال میں خراب مال کو ملاکربیچتے ہیں، بعض لوگ کم تولتے اور کم ناپتے ہیں،بعض لوگ اپنی چیز کومارکیٹ ریٹ سے زیادہ پیسوں میں باتیں بناکر اور گراہکوں کو پھنساکر فروخت کرتے ہیں۔ بعض لوگ سودی کاروبار کرتے ہیں۔ یہ سب طریقے غلط ہیں ،لیکن یہ افسوسناک بات ہے کہ ان طریقوں کو لوگ خوب اختیارکررہے ہیں۔ غیر مسلماقوام میں تو اس طرح کے طریقے رائج ہیں ہی لیکن دکھ کی بات یہ ہے کہ مسلمان بھی دولت کمانے کے لیے اس طرح کے راستے اپنانے سے گریز نہیں کررہے ہیں۔ظاہرہے کہ اگر اس طرح کسی کے پاس بہت سی دولت بھی اکٹھی ہوجائے اور اس کی معیشت مضبوط بھی ہوجائے تب بھی اس کے وہ فوائد حاصل نہ ہوسکیں گے ۔ یہ الگ بات ہے کہ بظاہر اس کی زندگی پُرتعیش گزرنے لگے، وہ اچھے کپڑے پہننے لگے، اچھے مکان بنالے ، انواع واقسام کے کھانے کھالے ، لیکن اس کے دوررس نتائج صحیح ظاہر نہ ہوں گے۔اسلام نے حرام کھانے سے منع کیا ہے۔کیونکہ حرام کھانے کی وجہ سے عبادت بھی قبول نہیں ہوتی، انسان کا دل نیکیوں کی طرف مائل بھی نہیں ہوتا ، اولادبھی اچھے راستے پر نہیں چلتی۔ جب کہ حلال رزق کے بہترین نتائج ظاہر ہوتے ہیں۔ گویاکہ اگر آج کی دنیا میں رائج بہت سے طریقوں کو برؤکار لایاجائے گا تو انسان کی مذہبی زندگی بھی متاثر ہوگی اور اخلاقی زندگی بھی ۔کیونکہ اس کے غلط طریقوں سے دوسرے لوگوں کے جو حقوق سلب ہوئے ہیں اور جو نقان پہنچاہے ، اس کا روزِ قیامت حساب دینا ہوگا۔

اس کے برعکس اگر اسلامی طریقوں سے انسان اپنی معیشت کو مضبوط کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس سے اچھے ہی اثرات ظاہر ہوں گے ، برے نتائج نہ سامنے آئیں گے۔ مثال کے طورپر اسلام کہتا ہے کہ سچ بولا جائے ۔اس سچائی کو خریدوفروخت میں بھی نافذ کر نا پڑے گا۔یعنی سچ بولنا دوسرے تمام معاملات میں ضروری ہے ، اسی طرح سچ بولنا خرید وفروخت اور کاروبار میں بھی لازمی ہے۔ اس اعتبار سے کوئی شخص اپنی چیز کو فروخت کرتے ہوئے اپنی چیز کی ایسی خوبیا ں نہ بیان کرے جو اس میں نہ ہوں۔کسی گراہک کو دھوکہ نہ دینے کی کوشش کرے۔کسی گراہک کودھوکہ دے کر روپیہ کا مال دس روپے میں فروخت کرنے کی کوشش نہ کرے۔ اسلام نے ناپ تول میں کمی کرنے سے منع کیا ہے ، اس لیے کہ اس صورت میں گراہک کو نقصان پہنچتا ہے اور اس کی حق تلفی ہوتی ہے، اس لیے اگرکوئی شخص ایسا کرتا ہے تو اس طرح اس کے ذریعہ کمائی ہوئی دولت حرام ہوگی۔ یعنی اسلامی تعلیمات کے مطابق اگر ناپ تو ل میں کمی نہیں کی جاتی ہے تو اس سے گراہک کو نقصان نہ ہوگا۔ ملاوٹ کرنے کو بھی منع کیا گیا ہے ، اگر کوئی شخص خالص چیز بیچتا ہے اور اس میں ملاوٹ نہیں کرتا ہے تو اس میں بیچنے والے کوتو فائدہ ہوگا ہی ، لیکن خریدنے والے کو بھی فائدہ ہوگا۔کیوں کہ اسے خالص چیز مل گئی ۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق اگر کوئی شخص نشہ آور اشیا جیسے شراب ، چرس ، گانجہ اور دیگر نشہ آور اشیا کا کاروبار نہیں کرتا ہے تو وہ ایسی چیزوں کو فروخت کرنے سے بچ جائے گا جو لوگوں کی زندگیوں کے لیے مہلک اور خطرناک ہوتی ہیں۔

سچائی کے ساتھ تجارت کرنے کے فائدے کل بھی تھے اور آج بھی ہیں۔آج جھوٹ کی وجہ سے لوگوں کا دوکانداروں ، کمپنیوں وغیرہ سے اعتبار اٹھ گیا ہے، اگر گراہکوں کو یہ معلوم ہوکہ فلاں شخص اپنی چیزوں کو سچائی کے ساتھ بیچتا ہے، کسی سے ناجائز نفع نہیں کماتا ، اشیا میں ملاوٹ نہیں کرتا ، کم ناپ تول نہیں کرتا ، تو یقینالوگ اس کے پاس سے چیزیں خریدیں گے۔ ایسے شخص کا کاروبار بہت تیزی کے ساتھ بڑھے گا اور اس کی معیشت مضبوط ہوگی ۔چنانچہ تجارت کرنے کے لیے تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ تجارت میں اسلامی طریقوں کو اختیار کریں۔

روزگار کے لیے فی زمانہ ملازمت کا راستہ بھی ہے۔اگرچہ ملازمتیں پہلے بھی ہوتی تھیں،لیکن عہدِ حاضرمیں ملازمتوں کا رواج زیادہ بڑھا ہے۔آج ملازمین کی تعداد ہر ملک میں بہت زیادہ ہے۔بلکہ بہت سے لوگ تو تجارت نہیں کرتے ، وہ ملازمت کرتے ہیں اور وہی کرنا چاہتے ہیں۔ان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ انھیں اچھی سی ملازمت مل جائے۔ ملازمتوں کی گنجائش پرائیویٹ سیکٹر میں بھی ہوتی ہے اورسرکاری دفاتر اور شعبوں میں بھی۔اگر ملازمت کے ذریعہ کوئی شخص اپنے اور اپنے بچوں کے اخراجات کو پورا کرتا ہے ، تو اس میں کوئی قباحت کی بات نہیں ہے۔ آج بہت سے مسلمان ملازمتیں کررہے ہیں اور بہت سے تلاش میں لگے ہوئے ہیں۔بہت سے مسلمانوں کو اس بات کی شکایت ہے کہ انھیں ملازمتیں نہیں ملتیں یا کم ملتی ہیں۔

جو لوگ ملازمتیں حاصل کرنا چاہتے ہیں انھیں چاہئے کہ وہ ملازمتوں کے اعتبار سے اپنی صلاحیتوں کو نکھاریں۔ یعنی جس سیکٹر اور شعبے میں جانا ہے ، اس سے متعلق اپنے اندر مہارت پیدا کریں۔ اگردفاتر میں ملازمت کرنی ہے تو اسی حساب سے اپنے اندر وہ تعلیمی لیاقت پیدا کی جائے۔اور اگر کوئی شخص تدریس میں ملازمت حاصل کرنے چاہتا ہے تو اسی نوع کی تیاری کرے ،اور اگر انتظامی امور میں ملازمت حاصل کرنا چاہتا ہے تو اس طرح کی تعلیم بھی حاصل کرے اور تربیت بھی۔ یہ مقابلے کا زمانہ ہے ، اس میں صلاحیتوں اور مہارتوں کو ترجیح دی جاتی ہے۔پرائیویٹ سیکٹروں میں اچھی تعلیم اورصلاحیت کو فوقیت دی جاتی ہے۔ اگر اپنے کاموں اور میدانوں میں مہارت حاصل کرلی جائے ،تو ملازمت ملنا آسان ہوتا ہے ۔

ملازمت کرکے روزی روٹی کمانا درست ہے ،مگر اس کا یہ مطلب ہر گزنہیں کہ اگر ملازمت مل گئی تو بس اب ایمانداری اور دیانتداری کو بالائے طاق رکھ دیاجائے اور بس ڈیوٹی کرکے ، ہلکا پھلکا کام کرکے ہر ماہ تنخواہ حاصل کرلی جائے۔ عام طورپر سرکاری دفاتر میں پرمستقل ملازمین بہت کم دیانت داری کا پاس ولحاظ کرپاتے ہیں۔اپنی ملازمت اور منصب کے لحاظ سے پورا کام کرنے سے گریز کرتے ہیں ۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ بہت سے سرکاری مسلم ملازمین بھی یہی رویہ اختیار کرتے ہیں اور ایمانداری ودیانت داری کو پس پشت ڈال دیتے ہیں۔اپنی ڈیوٹی کو پورے طورپر انجام نہ دے کر اور اپنے فرائضِ منصبی کو ایمانداری اور دیانت داری سے نہ کرنے کامطلب ہے اپنی روزی ناجائز وحرام بنانا۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ جہاں بھی رہیں ، جس ڈپارٹمنٹ ،دفتریا شعبے میں ملازمت کریں ۔ ایمانداری اور دیانت داری سے کام کریں۔ تاکہ ان کی روزی خالص ہو، جس سے انھیں بھی فائدہ پہنچے اور ان کے بچوں کو بھی حقیقی فائدہ پہنچے اورکسی کی حق تلفی نہ ہو۔ معیشت کو اسلامی اصولوں پر استوار کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔اگر مسلمان اسلامی طورطریق کو اپنے کاروبار ، ملازمت اور اقتصادیات میں اختیارکریں گے تویقینا ان کی معیشت مضبوط بھی ہوگی اور اس کے بہتر نتائج بھی سامنے آئیں گے۔

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے