موجودہ حالات میں ہندوستانی مسلمانوں کے لئے لائحہ عمل

خطاب حضرت مولانا محمود اسعد مدنی صاحب ،جنرل سکریٹری جمعیۃ علما ء ہند
بموقع چونتیسویں آل انڈیا مرکزی جمعیت اہل حدیث کانفرنس بعنوان’ قیام امن عالم و تحفظ انسانیت‘
بتاریخ 9- مارچ 2018 بمقام رام لیلا گراونڈ نئی دہلی- اس موقع پر جمعیت اہل حدیث ہند کے پوری ملک سے نمایندے موجود تھے-

نحمد ہ و نصلی علی رسولہ الکریم
(۱)
حق کی بالادستی اور امن کے قیام کے لیے سب سے موثر ہتھیار ہمارا مذہب ہے ، غالبا یہی سبب ہے کہ شیطانی قوتیں جو زمین پر فساد پھیلانا چاہتی ہیں یعنی آج کے قارون، فرعون اور ہامان کا براہ راست نشانہ ہمارا مذہب ہے ، کیوں کہ ہمارا مذہب امن کے قیام اور ساری انسانیت کی فلاح کا داعی اور علم بردار ہے ۔
(۲)
مذہب پر دوطرفہ حملہ ہورہا ہے ایک تو خود اس کے ماننے والے جو مذہب کے نام پر قتل و غارت گری اور خونریزی کرتے ہیں یا اسے روا سمجھتے ہیں ، وہ اپنے مذموم عمل اور گمراہ فکر کے باعث مذہب کی بدنامی کا سب سے بڑا سبب ہیں ، دوسرے دشمنان دین و مذہب جن کی ساری سرگرمی ہمارے وجود کو صفحہ ہستی سے مٹانے پر صرف ہو رہی ہے ۔ہمیں ان دونوں ہی طرح کے حملے کا مقابلہ کرنا ہو گا اور حق و باطل کی لڑائی میں اپنے اور پرائے کے فرق کو مٹانا ہو گا ۔
(۳)
میں یہ بات پورے اعتماد سے کہتا ہوں کہ شدت پسندی اور دہشت گردی کو کسی خاص مذہب بالخصوص اسلام سے وابستہ کرنے والے دہشت گردوں کے معاون اور اسلام دشمنوں کے آلہ کار ہیں ۔ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ اسلام اپنے نام ، اپنی تعریف،اپنے پیغا م او راپنے احکام ہر اعتبار سے امن و سلامتی کا علم بردار ہے ۔خود پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مسلمان کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ’’مومن وہ ہے جس کے ہاتھوں تمام انسانوں کی جانیں اور مال محفوظ رہیں‘‘۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ا یک دوسری جگہ فرمایا کہ’’مسلمان وہ ہے جس سے کسی انسان کو خطرہ پیدا نہ ہو‘‘
(۴)
آج دنیاکی بڑی طاقتیں دہشت گردی سے نمنٹے کے لیے نفرنسیں کر رہی ہیں ،لیکن دوسری طرف ان کی آنکھوں کے سامنے شام اور فلسطین میں بے قصور اور معصوم انسانوں کا قتل عام ہورہاہے ۔پچھلے پانچ سالوں میں شام میں پانچ لاکھ انسانوں کو مہلک ہتھیار سے قتل کردیا گیا ، لیکن اقوام متحدہ اور دیگر عالمی طاقتیں اس کے سدباب کے لیے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھا سکیں ۔

(۵)
میں یہ پوچھتا ہوں کہ اگر آپ ان ہاتھوں کو دہشت گردی اور قتل عام سے نہیں روک سکتے جو آپ کی پہنچ کے اندر ہیں بلکہ آپ کی مجلسوں کے ممبر ہیں تو بھلا ان دہشت گردوں سے کیسے نمٹ سکتے ہیں جن کے ساتھ آپ کا کوئی چینل نہیں ہے۔اس لیے اگر دنیا سے دہشت گردی اور نفرت کو مٹانا ہے تو پہلے اسٹیٹ ٹیررزم چاہے وہ میانمار میں ہو یا فلسطین میں یا شام میں اسے ختم کرنا ہوگا۔
بزرگو اور دوستو !
(۶)
ان دنوں ہمارے ملک میں بہت ہی پر آشوب حالات ہیں۔ ا یک خاص قسم کی مذہبی شدت پسندی ملک کے نظام اور اس کی جمہوریت پر حاوی ہونے کی کوشش کررہی ہے ۔یہ طاقتیں ملک کے وسائل اور اس کی شناخت پر اپنا لیبل لگاکر دوسروں کو محرو م اور مایوس کردینا چاہتی ہیں۔لیکن وہ نہیں جانتیں کہ وہ جتنی مشکلات پیدا کریں گی اتنے ہی ہمارے اندر زندگی اور بیداری پید ا ہو گی ،کیوں کہ آزمائشیں ہی قوموں کو زندگی بخشتی ہیں ۔ بس ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ اللہ ر ب العلمین نے ایسے موقع کے لیے کیا ہدایت فرمائی ہے ؟چنانچہ قرآن مجید میں مصیبت و آلام کے تاریک اوقات میں فاصبر کما صبر اولوالعزم من الرسل اور ان اللہ مع الصابرین جیسے عظیم الشان کردار اور اخلاق کی تلقین فرمائی ہے ۔ صبر و تحمل، ثابت قدمی اور توجہ الی اللہ یہ ایسی طاقتیں ہیں جن کے سامنے بالاخر ہر ایک طاقت سپر ڈال دیتی ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ صرف تھیوری ہے بلکہ ہمارے سامنے پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کا نمونہ موجودہے ۔

(۷)
میں مسلمانوں سے کہتا ہوں کہ ان کے پاس ایک وراثت ہے ، ایک شاندار تاریخ ہے ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کا ماڈ ل ہے اور یہ احساس فخر بھی ہے کہ انھوں نے محض وطن سے محبت کی بنیاد پر اس ملک میں رہنا پسند کیا ۔ہم بھارت کے مسلمان بائی چوائس ہندستانی ہیں، بائی چانس نہیں ۔ہمیں اسلام کے نام پر، نظام مصطفے کے نام پر قائم ہونے والے ملک کی طرف دعوت دی گئی ، مگر ہم نے رد کردیا اور اس کے بجائے اپنے اس وطن میں رہنے کا فیصلہ کیا ۔

ہم اسی گلی کی ہیں خاک سے ، یہیں خاک اپنی ملائیں گے
نہ بلائے آپ کے آئے ہیں نہ نکالے آ پ کے جائیں گے

برادران ملت!
(۸)
حوادث و مصائب ہمیں مایوس نہیں کرسکتے اور نہ ہی ہم اپنی ذمہ داری سے رک سکتے ہیں کیوں کہ ہم پروطن اور اہل وطن کا ایک حق ہے اور یہ اسی وقت پورا ہو سکتا ہے جب ہم کمز و ر طبقات دلتوں اورآدی واسیوں کے ساتھ کھڑ ے ہوں، نیز اسلام کے پیغام حق کو اپنے حسن اخلاق اور حسن کردار کے ذریعہ برادرا ن وطن تک پہنچائیں اوران کے اندر پیدا کردہ غلط فہمیوں کو دور کریں۔
(۹)
دنیا نے اسلام کے پیغام حق کو مسلم حکمرانوں کے رعب وجلال کی وجہ سے قبول نہیں کیا بلکہ اولیاء کرام کی روحانی فیوض و برکات اور خلق خدا سے بے لوث ہمدردی کی وجہ سے عوام ان کی طرف دوڑ پڑے ۔شہاب الدین غوری کی فاتحہ تلوار کسی ایک کے دل کو بھی صداقت اسلام کے اعتراف کے لیے نہیں جھکا سکی ، مگر اسی بادشاہ کا ایک معاصر فقیر غریب نواز حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری ؒ نے غوری کی دہلی میں نہیں بلکہ پرتھوی راج کے اجمیر میں اپنے حسن اخلاق اور حسن کردار کی وجہ سے ہزاروں دلوں کومسخر کیا۔
(۱۰)میںیہ بات بارہا کہتا ہوں کہ سرکاروں کے بدلنے سے حالات نہیں بدلتے بلکہ حالات خود کے بدلنے سے بدلیں گے ۔ اللہ تعالی نے قرآن مجید کے اندر واضح طور سے فرمادیا ہے ’’ ان اللہ لایغیر ما بقوم حتی یغیروا ما بانفسہم‘‘
(۱۱)
آج شریعت اسلامیہ میں کسی نہ کسی بہانے مداخلت کی کوشش کی جارہی ہے ، حالاں کہ دین وشریعت ایک مسلمان کے لیے اس کی جان ومال سے زیادہ عزیز ہے ، اس میں کسی قسم کی چھوٹی اور بڑی ترمیم مسلمانوں کے عقیدے کے لیے چیلنج ہے ۔ جمعےۃ علماء ہند کے سابق صدر اور شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی ؒ نے جمعےۃ علماء ہند کے اجلاس عام میں کہا تھا کہ مسلمان، ہندستان میں پوری مذہبی آزادی اورپوری تہذیب وثقافت کے ساتھ زندہ رہیں گے اور کسی غیر کی غلامی قبول کرنے سے وہ عزت کے ساتھ مرجانے کو ترجیح دیں گے ‘‘ (۱۳؍واں اجلاس عام ۱۹۴۲ء )
میں سرکار سے کہتا ہو ں کہ کتنا بھی قانون بنالو ، قانون بنانے سے حالات نہیں بدلیں گے ، یہاں سماجی اصلاح کی ضرورت ہے قانونی اصلاح کی نہیں اور سماجی اصلاح سماج کے اندر سے شروع ہوتی ہے ۔ میری مسلمانوں سے ہمدردانہ درخواست ہے کہ وہ شریعت اسلامیہ پرپابندی سے عمل پیرا ہوں ، اگر ہم شریعت پر عمل کریں گے تو یہ شریعت کی حفاظت کا بہترین طریقہ ہو گا۔
(۱۲)
میں آج کے اجلاس میں اس احساس امتنان کا اظہار کرنا چاہتا ہوں کہ اس کے باوجود کہ علماء اہل حدیث کے نزدیک ایک مجلس کی تین طلاق ایک ہی واقع ہوتی ہے ، آپ حضرات نے صرف شریعت کے تحفظ کے لیے ملی اتحاد کا نادر نمونہ پیش کیا اور بیک زبان ہو کر کہا کہ مسلم پرسنل لاء میں مداخلت مداخلت فی الدین ہے۔آپ حضرات نے جو مخلصانہ کردار کیا ہے ، بڑی ناسپاسی ہو گی اگر اس کو صرف محسوس کرکے چھوڑ دیا جائے اور اظہار تشکر نہ کیا جائے ۔
(۱۳)
میں سرکار سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ تمام شہریوں کے حق کی حفاظت کرنا یہ حکومت کی آئینی ذمہ داری ہے تاکہ ملک انکلوزیو(inclusive) ترقی کی شاہ راہ پر گامزن ہو ۔کسی خاص سیکشن کی غنڈہ گردی اور فرقہ پرستی سے چشم پوشی کرنااس راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے