اظہارالحق قاسمی بستوی
صدرشعبہ اسلامیات اذان انٹر نیشنل اسکول ٹولی چوکی حیدرآباد
۸ ؍مارچ یعنی عالمی یوم خواتین(International Women’s Day)ایک بارپھر دھوم دھام سے منانے کی تیاریاں زورں پر ہیں۔قومی اور بین الاقوامی سطح پر ایک بار پھر عورتوں کے حقوق کی چیخ چیخ کر دہائی دی جائے گی،عورتیں اپناعالمی دن منانے کے لیے ازحد گذرناچاہیں گی اور پھررونارویاجائے گاعورت کی آزادی کا،اس کے تحفظ کا،اس کی مساوات کا، اس کے مردوں کے شانہ بشانہ چلنے کا، نوکریوں اور ملازمتوں میں حقوق کا اور عورتوں کو ایک بار پھر باور کرایاجائے گا کہ تم مظلوم ہو،پوری انسانی تاریخ میں تمہارے اوپر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے گئے اورالزام عائد کیاجائے گا مذاہب کی ان تعلیمات پر جن میں عورت کو باحیا رہنے کی ترغیب دی گئی ہے،مردو ں کی طرف سے صنف نازک کے ساتھ ہورہے ظلم وزیادتی پر بے پناہ چیخ پکار کی جائے گی اور بس عالمی یوم خواتین رخصت!
حقو ق نسواں اور مساوات مردوزن کے نعرے ہ دراصل مغرب سے ا ٹھے۔یہ اس ظلم اور تعصب کارد عمل تھاجوصدیوں تک اہل کلیسا نے اپنے معاشروں پر ڈھایا۔چناں چہ اس یوم نسواں کا آغاز سن ۱۹۰۹ سے ہوا جس کا پس منظر یہ تھا کہ سن ۱۹۰۸ میں نیویارک کی سڑکوں پر پندرہ سو خواتین اپنے اوقات کار کو کم کرنے اور حق الخدمت میں اضافے کے لیے مارچ کے لیے نکلیں جس کے نتیجے میں عورتوں پر لاٹھی چارج کیے جانے کے ساتھ کئی ایک کو جیل بھیج دیاگیا،پھرسوشلٹ پارٹی آف امریکانے ۱۹۰۹ میں عورتوں کادن منانے کی قرار داد منظور کی اور پھر مختلف ممالک میں عورتوں کے عالمی دن کے حوالے سے مطالبات بڑھتے رہے بالآخر۸؍مارچ ۱۹۱۳ میں پہلی بار باقاعدہ طور پرروس کے اندر عورتوں کاعالمی دن پورے تزک واحتشام سے منایاگیا۔ اب چوں کہ اس دن کا آغازعورت کے حقوق کو لے کر ہواتھالہذااس سلسلے میں کئی ایک سوال ذہن میں ابھرتے ہیں۔جیسے کہ اقوام وملل میں عورت کی اصل حیثیت کیاہے؟ عورت کا اصل حق کیاہے؟کیاعورتوں کو آج تک ان کے حقوق مل پائے؟وغیرہ وغیرہ۔
قوموں کی تاریخ میں عورت ہمیشہ ہی قابل نفر ت اور بے حیثیت سمجھی جاتی رہی ہے ،سوائے اسلام کے ہر قوم وملت میں عورت تفریح کا سامان یا چھوت چھات کے لائق سمجھی جاتی رہی ہے چناں چہ یہودیوں اور عیسائیوں نے عورت کو گناہ کا ازلی سرچشمہ قرار دیا،ہندومذہب نے عورت کے پہلے شوہر کے مرجانے کے بعد عورت سے اس کے جینے کا حق چھین لیااور اسے ستی کی بھینٹ چڑھادیا،رومی اور فارسی تہذیبوں نے عورت کو قابل نفرت چیز قراردیامشرکین نے اسے ذلت کا باعث گردانااور دیگراقوام نے اسے قابل فروخت چیز جانااور اسے ہر طرح کے تمدنی اور قانونی حقوق سے محروم رکھا لیکن مذہب اسلام عورتوں کا مسیحابن کر اس دنیامیں نازل ہوا،اس نے عورت کو اس کے جائز حقوق عطاکئے،عورت کو عزت وعظمت کی آخری منزل پرپہونچادیا۔اسلام نے نہ صرف عورتوں کو جینے کا حق دیابل کہ؛جنت ماؤوں کے قدموں کے نیچے ہے کے اعلان کے ساتھ عورت کو مردوں سے اونچامقام عطاکردیا۔مذہب اسلام نے عورت کوزندگی دی،انسانیت کے شرف سے آراستہ کیا،وہ سارے حقو ق دیے اور بن مانگے دیے جن کے لیے وہ آج ماری ماری پھررہی ہے۔میراث میں حصہ عطاکیا،ماں کو باپ سے تین درجہ بلند مرتبہ عطاکیا،عورت کے رہنے کی جگہ کو حرم قراردیا،اپنی بیویوں کے ساتھ مارپیٹ کرنے والے مردوں کو برے مرد کہا،قصاص ودیت میں برابری عطاکی،عورت کے اپنے مال پراس کا مکمل تصرف دیا،آخرت میں اجرت برابر رکھی،شادی میں عورت کی مرضی کا خیال رکھا،ہرلحاظ سے مساوات رکھا لیکن دائرہ کار کافرق رکھا،کیوں کہ دونوں کی جسمانی ساخت یکساں نہیں لہذاکاموں کی تقسیم بھی ہر ایک کے حساب سے الگ ہوئی۔غرض اسلام نے زندگی کے ہر ہر موڑپر عورت کا خاص خیال رکھا۔
اب بات آتی ہے حقو ق کی تو سب سے پہلے یہ سمجھ لینے کی ضرورت ہے کہ عورت کا اصل حق کیاہے اور کن حالات اور کن پروپیگنڈوں کے تحت گھرکی عورت کو ’ بازاری عورت‘ بنادیاگیا۔عورت کی نسوانیت ،اس کی حیا، اس کی عزت ، آزادی ،اس کو عورت بن کر جینے کا مکمل اختیار عورت کے بنیادی حقوق ہیں جو ہرعورت کو ملنے چاہئیں لیکن اہل مغرب نے عورت کویہ باورکرانے کی کوشش کی کہ عورت مردوں سے کم نہیں، عورتوں کو مردوں کے شانہ بشانہ کا م کرنا چاہیے،عورت مردوں جیسی ہے،پردہ اور حجاب عورت کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑاحائل ہے، گھروں کی چہاردیواری عورت کے لیے قیدخانہ ہے۔عورت بھی کماکر آزادانہ زندگی گذارسکتی ہے لیکن اس نعرے کا مقصداس کے پس پردہ عزائم کی تکمیل تھی،مغرب میں خاندانی نظام کے بکھراو کی وجہ سے معاشرتی اقدار برباد ہوچکی تھیں ،عورتوں اور مردوں کا باہمی میل جول بڑھنے لگاتھامعیشت میں چارچاند لگانے کے لیے عورتوں کوسامنے لانے سے فائد ہ کی توقع زیادہ تھی اور ان سب سے زیادہ یہ تھی کی کسی طرح اس ماحول میں عورتوں اور مردوں کے اختلاط سے پیداشدہ جذبات کی تسکین دیں لہذاضرورت تھی کہ عورتوں کوکسی حسین نعرے سے پھانساجائے،چناں چہ انھوں نے آزادی نسواں کا نعرہ لگایااور عورتوں کو ان کے نام نہاد حقو ق سمجھائے۔عورت بے چاری معصوم ذات، بھولی مخلوق،اس کو یہ نعرے بہت پسندآئے اور اس نے آو دیکھا نہ تاو اورزندگی کے میدان میں کود پڑی،اپنی آزادی اور حقو ق کے لیے چیخنے لگی ،شرم وحیاکی چادر کو ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہوئے اس نے اسے اتارپھینکا،حالانکہ وہ ترقی کرسکتی تھی اور پردہ میں رہتے ہوئے بھی کرسکتی تھی، اس کے ذہن میں یہ بات بٹھادی گئی کہ مردوں کے شانہ بشانہ چلنے کے لیے دوپٹے کو سرمیں نہیں گلے میں ڈال کر چلناضروری ہے بل کہ اس کو اتارپھینکناہی بہترہے۔وہ عورت جس کاحق تھاکہ وہ شوہرکی فرمانبردای کرتی وہ شوہر سے چیخ چیخ کر بولنے کو اپناحق سمجھنے لگی،بالآخر عورت خودسری کی آخری دہلیز پر پہونچ گئی۔عورت کے ذمے کے کام دہرے ہوگئے باہر بھی وہ کام کرے اور گھریلوکام بھی اس کے ذمے میں باقی رہے۔
سوال یہ ہے کہ مغرب عورت کی آزادی کے اس نعرے اور اس کو مقام دینے میں کتناکامیاب ہوا؟ ایک طرف ریستورانوں ،بارہوٹلوں اور کلبوں میں نیم برہنہ اداکاری کو’اسٹیٹس‘ کے خوشنما غلاف کی شکل میں تہذیب بد کا نوآغاز کیا،دوسری طرف بچوں کو گھر میں تعلیم وتربیت سے اور خاندانی نظام سے محروم کرکے ،خود غرض اور غیرمربوط نظام معیشت وحیات کی بنیاد ڈالی۔جس کی وجہ سے جو تعلیم بچوں کو ماں کی گود میں ملنی چاہئے تھی وہ اسکولوں میں اخلاقی تعلیم کے نام سے ملنے لگی اور ظاہر ہے کہ اس تعلیم کا حال کیاہوگاجوغیرفطری ہو۔المیہ یہ ہے کہ آج سائنس اور ٹکنالوجی کی بدولت انسانیت ترقی کی اعلی مدارج طے کرتی جارہی ہے کائنات کی تسخیر کی پوری کوشش جاری ہے لیکن زمینی زندگی حالت کرب واضطراب میں ہے۔مردبے روزگاری کی مارجھیل رہے ہیں تو خواتین میدان حیات میں زورآزمائی میں سرگرداں ہیں۔
عورت کا سب سے بڑا حق محبت اور عزت ہے،مغرب نے کہا نہیں!آزادی اور نوکری ہے نتیجہ اولڈایج ہومز،سیکس مارکیٹ اورگھریلوتشد د،بڑھتی ہوئی طلاق کی شرح اور اوپن میریجزکی صورت میں ظاہرہوا۔آج عورت عزت اور محبت دونوں سے یکسرمحروم ہے۔عورتوں کو بازا میں لانے کا جو سب سے بڑا نقصان ہوا وہ یہ ہواکہ عورت بے عزت ہوگئی ،فیشن کے نام پرشرافت کاآنچل نوچ کر پھینک دیا گیا،اس کو ٹی وی اسکرینوں اورفلموں میں گانے ،لہرانے اور تھرتھرانے کے لیے کام دیے گئے،شاپنگ سنٹرز وغیرہ میں اسے استقبال کے لیے رکھاگیا،لب سڑک قد آدم اشتہارات میں دعوت نظارہ بنی اور اس طرح وہ پریشان ہوگئی ، جس قیمتی حسن کو اسے چھپاکے رکھناتھا اس نے اسے بے پردہ کردیااور لوگوں کی ہوس کا شکارہوگئی۔
ان سب کا جونتیجہ ظاہر ہوا وہ یہ ہے کہ عورتوں کی عزتیں اب محفو ظ نہیں رہیں، دہلی کے اند رپیش آمدہ ریپ اور قتل کا کیس اس کا بین ثبوت ہے ،ہر آئے دن حواکی بیٹی کی عزت سربازار نیلام کی جارہی ہے ،لیکن ان کے حقو ق کی دہائی دینے والے اب تک اس پر لگا م لگانے میں نہ صرف ناکام بل کہ بری طرح ناکام ہیں۔بدبختی یہ ہے کہ برائی کے ذرائع کو فروغ دے کریہ کوشش کی جارہی ہے کہ برائی وجود پذ یر نہ ہو،آج دنیاکی ہرعورت اپنے آپ کو خوبصور ت بناکرپیش کرنے کے فراق میں ازحد گذ رجانے پر تلی ہوئی ہے۔ہر شہر،ہرگلی ہرمحلے میں عورت چور اچکوں کی نظروں میں اچھابننے کے لیے بنتی اور سنورتی ہے اور پھر اس کے ساتھ کوئی حادثہ ہوجاتاہے تو پھرواویلابپاکیاجاتا ہے اور بس ۔
اس عالمی یوم خواتین پر عورتوں کو چاہئے کہ وہ خود کا احتساب کریں اور لوگوں کی منصوبہ بندسازش کو سمجھیں ورنہ یہ عالمی دن آتا رہے گااور انھیں ان کے اصلی حقوق نسائیت اور عزت ومحبت سے ہمیشہ کے لیے محرم کردے گا ۔
بقول اقبال
پہلے ہی خفامجھ سے ہیں تہذیب کے فرزند
اس راز کو عورت کی بصیرت ہی کرے فاش