مفتی محمد ساجد کھجناوری
مدرس جامعہ اشرف العلوم رشیدی گنگوہ
۱۳/ فروری ۲۰۱۸ء بروز منگل کی علی الصبح آفتابِ دنیا کے نمودار ہونے سے پیشتر ہی عارف باللہ حضرت مولانا مفتی عبدالقیوم رائے پوری کی صورت میں وہ ٹمٹما تا چراغِ سحری بھی آخر ش گل ہوگیا جس کی لَو کسی قیامت سے کم نہ تھی، یقین ومعرفت اور اصلاح وتربیت کا یہ ایک ایسا گوہرِ شب چراغ تھا جس کی ضو فشانی سے تزکیہ وتصوف کی کتنی ہی بستیاں روشن تھیں، اخلاق وکردار اور علم وذکر کی ایسی شمع جہاں دینِ محمدی کے پروانے فی کل احیان جمع رہتے ، وہ ایسی دکانِ معرفت کے امین تھے جہاں روحانی مریضوں کیلئے دوائے دل کے نسخے تجویز کئے جاتے ، جہاں ماسوی اللہ سے کچھ بھی نہ ہونے کا عقیدہ اور حقیقی ذات باری سے سب کچھ ہونے کا یقین شرک وبدعت زدہ ذہنوں میں راسخ کیا جاتا، انہیں شرح وبست کے ساتھ بعثتِ انبیاء کے مقاصد سے روشناس اور فی سبیل اللہ کے حقیقی وتوسیعی مفہوم سے بھی مطلع ہونے کی تلقین کی جاتی، الغرض ہر کسی کو ا س کے حسبِ حال صلاح وصالحیت کی طرف سبقت کرنے کی ترغیب دی جاتی کہ یہی اہل دل بزرگوں کا طریق رہا ہے #
دیتے ہیں بادہ ظرف بھی قدح خوار دیکھ کر
حضرت مفتی عبدالقیوم رائے پوری اپنی سیرت وصورت ، علم ومعرفت کی جامعیت اور کارِ نبوت پر عامل رہنے کی حیثیت سے اُن عالی قدر قدسی صفات مشائخِ رائے پور کی آخری یاد گار تھے جنہوں نے پورے بر صغیر میں خصوصاً اور جنوبی ایشیا میں عموماً تعمیر انسانیت، تہذیب نفوس اور جادہٴ مستقیم پر ثابت قدم رہنے کی طرح ڈالی ، اتباعِ سنت وشریعت کا عمومی ذوق پیدا کرنے کے ساتھ مستیٴ توحید کے میخانے آباد کئے جہاں شام وسحر عشقِ الٰہی کے جام ومینا لنڈھائے جاتے، سالکین وطالبین آتے اور بقدر ظرف استفادہ کرکے کامران ہوتے ۔
ابھی تک صرف کتابوں میں پڑھا اور اپنے بزرگوں سے سنا تھا کہ اللہ کے عاشقین اس کی رضا کا پروانہ ملنے کے بعد عام انسانوں کیلئے بھی محبوب بن جاتے ہیں۔ من کان للّٰہ کان اللہ لہ کی تفسیر ۱۳/ فروری ۲۰۱۸ء کو اس وقت سازِ دل کو چھیڑ رہی تھی جب لاکھوں انسان جن میں بچے ، جوان اور بوڑھے بھی تھے نماز جنازہ میں شرکت کیلئے افتاں وخیزاں خانقاہ رائے پور کی طرف رواں دواں تھے تاکہ وہ یہاں کے آخری تاج دار کو آخری سلامی دے سکیں ، اللہ اللہ عاشق کا جنازہ تھا بڑی دھوم سے نکلا، ہر طرف سر ہی سر نظر آتے تھے، تمام چھوٹے بڑے مدارس وجامعات اور دینی وتبلیغی مراکز کے ذمے داران ووابستگان رشک بھرے انداز میں یہاں جمع تھے۔ عالم عربی کی ممتاز دینی شخصیت شیخ محمد یوسف القرضاوی نے کہیں لکھا ہے کہ بعض جنازے استصواب رائے کی حیثیت رکھتے ہیں جو میت کے عنداللہ مقبول ہونے کی شہادت بن جاتے ہیں، حضرت امام احمد ابن حنبل علیہ الرحمہ کے جنازہ کی تو اس بابت مثال دی جاتی ہے جو تاریخ کے سینہ پر ہمیشہ محفوظ رہے گی ، حضرت مفتی صاحب کے جنازہ میں لکھو کھا افراد کی شرکت نے ماضی قریب کے سبھی ریکارڈ توڑ دئے ، ذمے دار اور محتاط شخصیتوں کی زبانی بھی یہی سنا گیا کہ مشاہدہ کی دنیا میں اتنا بڑا مجمع کسی جنازہ میں نہیں دیکھا گیا ، بلا شبہ یہ اژدحام کبیر خانقاہِ رائے پور کی ہر دل عزیزی اور مرحوم والا صفات کی عنداللہ محبوبیت کا نتیجہ تھا، اللہ آپ کے درجات بلند تر فرمائے آمین۔
مفتی عبدالقیوم رائے پوری نے یکم جنوری ۱۹۳۳ء کو حافظ راوٴ محمد ایوب کے یہاں آنکھیں کھولیں جو قطب زماں حضرت مولانا شاہ عبدالقادر رائے پوری کی مجالسِ ذکرواصلاح کے حاضر باش اور دہرادون میں امامت کے فرائض سے وابستہ تھے، عہد طفولیت گھر پر ہی گذرا یہیں مدرسہ فیض ہدایت میں نورانی قاعدہ سے آپ کی بسم اللہ ہوئی ، مکتبی تعلیم اور حفظ وغیرہ اپنے والد کی نگرانی میں مکمل فرمائی ، بعدازا ں جامعہ اسلامیہ ریڑھی میں عربی درجات اور درس نظامی کے بعض زینے طے کرکے جامعہ مظاہر علوم سہارنپور میں داخل ہوئے، جہاں چند سال رہ کر آپ نے ۱۹۵۶ء میں سند فراغ پائی ، اس زمانہ میں دورہٴ حدیث کے اندر کل ۴۷/ طلبہ تھے ، آپ نے امتیازی نمبرات سے کامیابی حاصل کرکے اکابر مظاہر علوم سے خصوصی انعام بھی حاصل کیا ، دریں اثنا فقہ وفتاویٰ کی نکتہ داں شخصیت حضرت مولانا مفتی سعید احمد اجراڑوی سے یہیں افتاء کی تکمیل وتمرین کی۔ شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلوی اور فقیہ الاسلام حضرت مفتی مظفرحسین قدس سرہ آپ کی نیک نہادی اوررائے پور سے انتساب کی وجہ سے آپ کے بڑے قدر دان تھے بلکہ شیخ الحدیث مولانا زکریا کاندھلوی تو آپ کو اسی وقت پیار میں حضرت رائے پوری کہہ کر مخاطب ہوتے تھے۔
مظاہر علوم سے فاتحہٴ فراغ پڑھنے کے بعد برائے تدریس آپ خادم العلوم باغوں والی چلے گئے جہاں آپ نے قدوری، نورالایضاح ، کنز الدقائق ، شرح وقایہ ، علم الصیغہ اور کافیہ کی مثالی تدریس کا وظیفہ نبھایا ، اس وقت آپ کی عمر محض ۲۶/ سال تھی ، لیکن تقویٰ وپاک بازی جیسے اوصاف پہلے دن سے خمیر میں شامل تھے، مزید برآں صالح والدین کی تربیت وتاثیر اور رائے پور کے اس وقت کے روحانی اثرات آپ پر سایہ فگن ہوچلے تھے جو گردش روز وشب کے ساتھ ترقی پذیر تھے ، اسی لئے نگاہ شناس عارفین نے بھی آپ کے اندر آثارِ ولایت کو بخوبی تاڑ لیا تھا ، مظاہر علوم کے زمانہٴ طالب علمی میں آپ کا اصلاحی تعلق اگرچہ جنیدِ زماں حضرت مولانا شاہ محمد اسعد اللہ رام پوری سے قائم ہوگیاتھا، لیکن یہ سوزش عشق مسلسل بے چین کئے رکھتی تاآں کہ قطب دوراں حضرت مولانا شاہ عبدالقادر رائے پوری ، مفکر اسلام حضرت مولاناسید ابو الحسن علی میاںاور دوسرے بزرگوں نے رائے پور کی نسبت کو دوسروں تک منتقل کرنے کا آپ کو مجاز بنایا ، حضرت شاہ صاحب کی کیمیا اثر نظر آپ پر بچپن ہی سے پڑی ہوئی تھی ، چنانچہ جس سال حضرت مولانا شاہ عبدالقادر رائے پوری نے رمضان منصوری میں گذارنے کا منصوبہ بنایا تو تراویح پڑھانے اور اس میں قرآن سنانے کا شرف مفتی عبدالقیوم ہی کو بخشا ، جبکہ سماعتِ قرآن کیلئے مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی اور فقیہ الامت حضرت مفتی محمود حسن گنگوہی قدس اللہ اسرارہما کو مامور فرمایا تھا، یہاں کے ریاضات ومجاہدات اور ذکر اللہ کی ضربوں نے آپ کے اندر ون پر کیا نقوش ثبت کئے ہوں گے اسے بآسانی سمجھا جاسکتا ہے، مظاہر علوم کے اہل انتظام وکبار اساتذہ اپنے اس ہونہار فاضل کی علمی استعداد تام سے چونکہ پہلے ہی واقف تھے جبکہ مزید شہرت ان کے ابتدائی تدریسی تجربات کی نیک نامی سے ہوگئی تھی ، جیسے ہی آپ نے باغونوالی کو خیر باد کہا مظاہرعلوم کے دیوار ودر آپ کے منتظر تھے ، چنانچہ دسمبر ۱۹۶۲ء میں ناقلِ فتاویٰ کی حیثیت سے آپ کا تقرر مظاہر علوم میں کرلیا گیا ، فقہ وفتاویٰ میں آپ نہایت متصلب اور زمانہ شناس واقع ہوئے تھے، فقہ کی جزئیات وکلیات کا استحضار رکھنے کے ساتھ مستفتی کے ظروف واحوال اور مقتضیات رخصت وعزیمت سے اغماض ان کا شیوہ نہ تھا، مع ہذا اتباع نفس اورشائبہٴ تلفیق کو ان کے یہاں گذرنہ تھا ، فتاویٰ نویسی کے ساتھ اس کی تدریس بھی حضرت مفتی صاحب کے ذمے سالہا سال رہی ، وہ اعلیٰ درجہ کے کامیاب مدرس اور مقبول استاذ تھے، آپ ہی سے مظاہر علوم میں ہدایہ پڑھ چکے جامعہ اشرف العلوم رشیدی کے شیخ الحدیث حضرت مولانا وسیم احمد سنسار پوری بتاتے ہیں کہ حضرت مفتی صاحب کی تدریس وتفہیم کا نوں کو بھلی معلوم ہوتی تھی وہ دھیمی مگر رسیلی آواز میں گویا ہوتے لیکن اس کا جادو ہر قریب وبعید کے سر چڑھ کر بولتا تھا۔
آپ کی ذات گرامی مجموعہٴ حسنات تھی ، حق کی حمایت اور ہلٹربازیوں کی ناروا طرف داری میں وہ بے حد حساس واقع ہوئے تھے ، جب مظاہر علوم میں سوسائیٹی رجسٹریشن اور وقف ایکٹ کا معرکة الآراء بحران در آیا تو اپنی سادگی وبے نفسی اور فریق نہ بننے والی طبیعت سے پریشان ومنقبض سے رہنے لگے تھے، احقاقِ حق کی سنت پر عمل کرنے کے باوجود بالآخر انہوں نے اس سنامی طوفان کے در آنے سے پہلے ہی مظاہر علوم سے علیحدگی اختیار کرلی جس نے مظاہرعلوم کو دو لخت کردیا تھا ، مظاہر علوم کی ۲۲/ سالہ تدریسی کامیاب زندگی کے بعد بالآخر ۱۹۸۵ء میں آپ اسی خانقاہ عالیہ رائے پور میں مسند نشیں ہوگئے جس کے انتظامی امور کی دیکھ ریکھ اس سے پیشتر ہی آپ کو حاصل تھی، حضرت مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوری کے پاکستان منتقل ہونے کے بعد روح وروحانیت کی فضا ماند پڑرہی تھی لیکن اس مرشدِ کامل نے یقین ومعرفت کے ایسے چراغ جلائے کہ ایک مرتبہ پھر خدامستوں کو یہاں قرار میسّرآنے لگا،فقیہ النفس حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی کے خلیفہٴ باصفا اور خانقاہ رائے پور کے مرشد اول حضرت مولانا شاہ عبدالرحیم رائے پوری نے شریعت وطریقت کے سنگم کا جو رول ماڈل مخلصینِ امت کو دیا تھا حضرت مفتی صاحب نے اسی کے تعارف وابلاغ پر اپنی حیات طیبہ تج وفنا کردی اور اپنی مستجاب خدمات کا صلہ پانے کیلئے اللہ کے دربار عالی میں پہنچ گئے، تغمدہ اللہ بغفرانہ وادخلہ فسیح جناتہ۔ اللہ ان کے نسبی وروحانی وارثین کو صبر جمیل کی توفیق دے اور اس چمنستانِ معرفت ویقین کو تاابد شاداب رکھے آمین۔
آمین آمین لا ارضی بواحدة حتی اضیف الیہا الف آمینا