حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب قاسمی
سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند
موضوع سخن
حضرات اکابر دیوبند کی زریں تاریخ شاہد عدل ہے کہ ان کا مقصد حیات، دین صحیح کی تفہیم و تشریح و اصلاح امت رہا ہے جس کے لیے ان حضرات نے کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں فرمایا، اور بفضلہ تعالیٰ ان کے مخلصانہ مجاہدات کی برکات سے نہ صرف برصغیر بلکہ دنیا کے گوشہ گوشہ میں مسلمان عقائد حقہ پر قائم ہیں اور اپنے اسلامی تشخص کی حفاظت میں کوشاں رہتے ہیں۔
مگر سوئے اتفاق کہ مولانا احمد رضا خاں صاحب بریلوی اور ان کے متبعین نے عرصہٴ دراز سے اکابر دیوبند کی ان خدمات پر پانی پھیرنے کے لیے مخالفانہ پروپیگنڈہ کررکھا ہے، حتی کہ ان کی محققانہ تصانیف وفتاویٰ کی عبارتوں میں کتربیونت کرکے اور اپنی طرف سے ان کے معانی و مطالب نکال کرکے اکابر دیوبند کی تکفیر کو اپنا محبوب مشغلہ بنا رکھا ہے اسی طرح کی ایک مذموم کوشش مولانا احمد رضا خاں صاحب نے ۱۳۲۴ھ میں حسام الحرمین کتاب لکھ کی کی تھی۔ اور اس میں خاص طور پر حجة الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی (م ۱۲۹۷ھ) امام ربانی حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی قدس سرہ (م ۱۳۲۳ھ) اورحضرت مولانا خلیل احمد صاحب سہارنپوری قدس سرہ (م۱۳۴۶ھ) کو نشانہ بنایا تھا اور عرب علماء کو مغالطہ دیکر کفر کے فتاویٰ حاصل کیے تھے۔
علمائے دیوبند کی جانب سے اکابر رحمہم اللہ کے دفاع میں ان مغالطُوں کے ازالوں کی بارہا کوشش کی جاچکی ہے۔زیر نظر رسالہ بھی اسی سلسلہ کی ایک قیمتی کڑی ہے اس رسالہ میں حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند نے انتہائی سنجیدہ وہمدردانہ انداز میں غلط فہمیوں کے ازالہ کی بھرپور کوشش فرمائی ہے، جو دارالافتاء دارالعلوم دیوبند میں آئے ہوئے ایک استفتاء کے جواب میں حضرت قاری صاحب رحمة اللہ علیہ نے تحریر فرمایا تھا۔ امید ہے کہ یہ رسالہ بریلوی طبقہ کی پھیلائی ہوئی غلط فہمیوں کو ختم کرنے کا بہترین ذریعہ ثابت ہوگا۔ واللّٰہ ولی التوفیق۔
سوالات
قبلہٴ محترم مفتی صاحب بعد ما وجب آنکہ :
مجھے میرے ایک مہربان دوست نے ایک کتاب دی ہے جس کا نام ”حسام الحرمین“ ہے ،میں نے اس کا مطالعہ کیا اس میں دارالعلوم کے کئی مشہور علماء کے متعلق ایسی باتیں لکھی ہیں جن کو پڑھ کر میرا خون کھولنے لگا اور میں سمجھا ہوں کہ جس کے دل میں ذراسا بھی ایمان ہوگا اور سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ہوگی اس کا خون کھول ہی جائے گا اور اس کتاب پر بہت سے علمائے عرب کے دستخط ہیں، مکہ اور مدینہ کے علماء نے اس کی تائید کی ہے ،آپ برائے خدا میرے سوالا ت کے جوابات دیں اور یہ بھی بتائیں کہ اگر اس کتاب میں لکھی ہوئی باتیں غلط ہیں تو علمائے عرب نے اس پر دستخط کیوں کیے اور علمائے دیوبند کی طرف سے اس کتاب کا اب تک جواب کیوں نہیں دیا گیا، میں بے چینی سے جواب کا منتظر ہوں۔
سوالات حسب ذیل ہیں:
(۱) سوال:- ”حسام الحرمین“ میں ہے کہ حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی (چشتی نقشبندی سہروردی، قادری) نے تحذیر الناس میں لکھا ہے کہ سرکارِ دوعالم آخری نبی نہیں ہیں اور آپ کے زمانے کو سب انبیاء کے اخیر میں تسلیم کرنا عوام (ان پڑھ جاہلوں) کا خیال ہے۔
(۲) سوال:- حسام الحرمین میں ہے کہ ”حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی (چشتی نقشبندی، سہروردی، قادری) نے لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ جھوٹ بولتا ہے۔
(۳) سوال :- ”حسام الحرمین“ میں ہے کہ حضرت مولانا خلیل احمد صاحب انبیٹھوی (چشتی، نقشبندی، سہروردی، قادری) نے ”براہین قاطعہ“ میں لکھا ہے کہ سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے علم سے زیادہ شیطان کا علم ہے۔
(۴) سوال:- ”حسام الحرمین“ میں ہے کہ حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی (چشتی، نقشبندی، سہروردی، قادری) نے ”حفظ الایمان“ میں لکھا ہے کہ غیب کی باتوں کا جیسا علم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہے ایسا تو ہربچہ اور ہرپاگل بلکہ ہرجانور کو اور ہر چارپائے کو حاصل ہے۔
ان علماء کی طرف یہ عقیدے منسوب کرکے ان پر ”حسام الحرمین“ میں کفر کا فتویٰ لگایا گیا ہے اور عرب علماء کے اس پر دستخط ہیں۔ کیا واقعی علمائے دیوبند نے ایسا لکھا ہے اور ان کا عقیدہ ہے اصل حقیقت واضح فرمادیں۔ فقط
عبدالحی پرتاپ گڑھی
جوابا ت
مکرم و محترم ! زید مجدکم
سلام مسنون، نیاز مشحون
گرامی نامہ دارالافتاء ہوتا ہوا بندہ کے پاس پہنچا ،مسائل چوں کہ مسلک سے متعلق تھے جن کی ذمہ داری اصولاً احقر پر عائد ہوتی ہے اس لیے مناسب سمجھا کہ اس کے بارے میں احقر ہی چند سطور لکھ کر خدمتِ گرامی میں ارسال کرے۔
جناب مولانا احمد رضا خاں صاحب بریلوی نے ۱۳۲۴ھ میں یہ کتاب ”حسام الحرمین“ لکھی اور اسے لے کر عرب تشریف لے گئے ،وہاں کے علماء کو ”تحذیر الناس، براہین قاطعہ، فتاویٰ رشیدیہ، حفظ الایمان“ کا نام لے کر بتایا کہ یہ فلاں فلاں حضرات کی تصانیف ہیں اور ان میں یہ مسائل درج ہیں (وہی جو آپ نے اس خط میں بطورِ سوال تحریر فرمائے ہیں) اور ان کی عبارات کو اپنے انداز میں بیان کرکے وہاں کے علما ء کو غلط مطلب سمجھایا اور یہ کہ ان کی وجہ سے ہندوستان میں گمراہی پھیل رہی ہے، اب ہند کے مسلمانوں کا سنبھلنا اور دین برحق پر قائم رہنا اس پر موقوف ہے کہ آپ بھی ان کی تکفیر کریں تاکہ پھر ان کی بات کوئی نہ سنے، علمائے عرب اردو نہیں جانتے تھے اس لیے اصل کتابوں کو جو اردو میں تھیں خود سمجھ نہیں سکتے تھے، جو کچھ مطلب مولانا نے بتایا اس پر اعتماد کیا اور دستخط کردئے اور اعلیٰ حضرت نے اس کتاب کو چھپواکر شائع کردیا جس سے زبردست فتنہ برپا ہوا۔ ہندوستان کے بعض علماء سے جب علمائے حرمین کی ملاقات ہوئی اور اس کتاب کا تذکرہ ہوا تو انھیں پتہ چلا کہ اعلیٰ حضرت بریلوی نے غلط مطلب بتلاکر اور بقول ان کے دھوکہ دے کر عبارات اور ان کے مفہوم میں خیانت کی اور علمائے دیوبند کی طرف ایسی باتیں عقیدہ کے طور پر منسوب کی ہیں، جو ان حضرات کے حاشیہٴ خیال میں بھی نہیں تھیں اس پر علمائے حرمین بہت نادم ہوئے کہ افسوس! دھوکہ دے کر ہم سے ایسے حضرات کے کفر پر دستخط کرائے جو بڑے محقق ہی نہیں بلکہ وقت کے اولیاء اللہ میں سے ہیں اور سلاسلِ اولیاء اللہ، چشتی، قادری، سہروردی، نقشبندی سے منسلک ہیں، صاحبِ ارشاد وتلقین ہیں اور ساتھ ہی پورے طور پر متبع سنت ہیں، اس کے بعد عرب سے ان مسائل کی تحقیق کے لیے مستقل سوالات آئے کہ کیا علمائے دیوبند اور ان حضرات نے ایسا لکھا ہے؟ اور آپ حضرات کا عقیدہ کیا ہے؟
ان کے جوابات یہاں سے عربی میں لکھ کر روانہ کیے گئے جن پر ہندوستان کے اونچے طبقہ کے چوبیس علماء کے دستخط ہیں، عرب پہنچنے کے بعد ان جوابات کو دیکھ کر ان کی تائید و تصدیق فرمائی اور مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ، مصر، طرابلس، دمشق، بخارا، تونس، الجزائر، نابلس، وغیرہ کے چھیالیس علماء نے دستخط کیے جن میں حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی، سب شریک ہیں اور ان میں سے ہرایک اپنے اپنے مسلک کے بلند پایہ مفتی اور بلند پایہ عالم ہیں، بعض خود حرم شریف کے اعلیٰ مدرسین بھی ہیں۔
ان سوالات و جوابات کے مجموعہ کا نام ”التّصدیقات لدفع التّلبیسات“ ہے، جن علمائے عرب نے ان جوابات کو دیکھا اور وہ پہلے ”حسام الحَرَمین“ پر ناواقفیت کی بناء پر دستخط کرچکے تھے انھوں نے اپنے دستخط سے رجوع کیا اور اعلان کیا کہ ہم کودھوکہ دے کر ”اعلیٰ حضرت“ بریلوی نے دستخط کرائے ،چوں کہ یہ کتاب ”حسام الحرمین“ ہندوستان آچکی تھی اور چھپ کر شائع ہوچکی تھی، اس لیے علمائے حرمین کا اپنے دستخط سے زبانی رجوع کرلینا کافی نہیں تھا اور نہ ہندوستان والوں کو عمومی طور پر اس کا علم ہوسکتا تھا ؛اس لیے ”علمائے مدینہ منورہ“ نے مستقل رسائل بھی اس ذیل میں تصنیف فرمائے ،ایک رسالہ کا نام ”غایة المعمول“ ہے، اس میں اعلیٰ حضرت بریلوی کی اور ان کے عقائد باطلہ کی پورے دلائل کے ساتھ زبردست تردید کی گئی ہے اور ان کی تلبیس کاری کا پردہ چاک کرکے حقیقتِ حال واضح کی گئی ہے۔ دوسرے رسالہ کا نام ”تثقیف الکلام“ ہے تیسرے رسالہ کا نام ”رجوع المذنبین علی روٴس الشیاطین“ ہے۔
عوام کے نفع کے لیے ”التصدیقات لدفع التّلبیسات“ کا مستقل اردو ترجمہ بھی شائع کردیا گیا ہے جس کا نام ”عقائد علمائے دیوبند“ ہے ؛ان تمام مسائل کی ان میں پوری وضاحت موجود ہے۔
اعلیٰ حضرت بریلوی نے ”حسام الحرمین“ پر کس طرح علمائے حرمین کے دستخط کرائے؟ نیز اس میں لکھے ہوئے اعتراضات کے جوابات کیا ہیں؟ اگر بالتفصیل مطلوب ہوں تو ”الشہاب الثّاقب علی المستشرق الکاذب“ کامطالعہ کرلیا جائے۔ اگر کسی کو یہ معلوم کرنا ہو کہ اکابر کی عبارات میں کس طرح خیانت و تحریف کی گئی ہے تو وہ ”السحاب المدرار فی توضیح الاخیار“ دیکھے، اس کتاب میں صاحبِ براہینِ قاطعہ، اور حفظ الایمان سے براہ راست ان کی عبارات کے متعلق خطوط لکھ کر دریافت کیا گیا اور خودان حضرات نے ان کے جوابات تحریر فرمائے یہ تمام خطوط مع جوابات اس میں شائع کردیے گئے ہیں۔
حفظ الایمان کی شرح خود اس کے مصنف حضرت مولانا محمد اشرف علی صاحب تھانوی رحمة اللہ علیہ ہی نے تحریر فرمائی اس کا نام ”بسط البنان“ ہے پھر ایک اور شرح تحریر فرمائی ہے جس کا نام ”توضیح البیان“ ہے پھر مزید ایک اور شرح تحریر فرمائی ہے جس کا نام ”تکمیل العرفان“ ہے۔
نیز اکابر دیوبند کی عبارات اور ان تمام مسائل سے متعلق ایک مستقل کتاب شائع کی جاچکی ہے جس کا نام ”الجنة لاہل السنة“ ہے، علاوہ ازیں اعلیٰ حضرت بریلوی اور حضرت تھانوی سے متعلق کئی کتابیں راہِ سنت، رضاخانی مذہب، اعلیٰ حضرت کا دین و مذہب، تکفیری افسانے وغیرہ شائع ہوچکی ہیں جن میں ان تمام مسائل سے متعلق شکوک و شبہات کے شافی جوابات اور نفسِ مسائل سے متعلق واضح بیانات موجود ہیں ،تعجب ہے کہ جناب کی نظر ان میں سے کسی ایک کتاب پر بھی نہیں پڑی جو کافی عرصہ سے منظر عام پر آئی ہوئی ہیں، جناب کے جس مہربان دوست نے آپ کو ”حسام الحرمین“ عنایت فرمائی ہے اگر وہ ان کتابوں کی نشاندہی فرمادیتے تو آپ کو ان سوالات کی زحمت نہ ہوتی اور جناب کے ذہن میں یہ خلجان نہ گزرتا اور خون کھولنے کی نوبت نہ آتی کہ علمائے دیوبند کی طرف سے اس کا کوئی جوابِ تردیدی نہیں دیا گیا اور ”حسام الحرمین“ میں جو کچھ لکھا گیا ہے وہ حرف بحرف صحیح ہے ۔بہرحال اگر یہ کتابیں جناب کی نظر سے نہیں گذریں تو میں ان کا خلاصہ عرض کیے دیتا ہوں تاکہ تصویر کا دوسرا رخ بھی جناب کے سامنے آجائے اور آپ کو صحیح رائے قائم کرنے کا موقع ملے۔ جناب کے سوالات کے سلسلے میں حسبِ ذیل جوابات امید ہے کہ انشاء اللہ شافی اور کافی ثابت ہوں گے۔
(۱) جواب:
حضرت اقدس مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی نے ”تحذیر الناس“ میں مسئلہ ختم نبوت پر عالمانہ و حکیمانہ تقریر فرمائی جو تقریباً چالیس صفحات پر پھیلی ہوئی ہے، قرآن کریم میں خاتم النّبیین آیا ہے ؛اس کی تشریح کرتے ہوئے ختمِ نبوت کے تین درجے لکھے ہیں ایک ختم نبوت زمانی (جس کو عام طور پر سبھی جانتے ہیں) ،دوسرے ختم نبوت مکانی کہ اس کرہٴ زمین کے لحاظ سے بھی آپ ﷺخاتم ہیں کوئی دوسرا نبی نہیں آسکتا۔ تیسرا ختم نبوت مرتبی کہ آپ ﷺذاتی کمالات کے لحاظ سے بھی خاتم ہیں کہ ان میں نہ صرف یہ کہ آپ ﷺ کا کوئی ہمسر نہیں بلکہ سارے انبیاء کی نبوت آپ کی نبوت کا فیض ہے۔
حضرت مولانا نے تینوں درجوں کے اعتبار سے حضرت نبی اکرم ﷺکو خاتم النّبیین ثابت کیا ہے یعنی آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا اور مرتبہ کے اعتبار سے بھی آپ ﷺ آخری نبی ہیں کہ اس زمین پر آپ ﷺنبی ہیں کہ یہ مرتبہٴ ختمِ نبوت اور کسی کو حاصل نہیں ہوسکتا اور اس پر فقہی اور عقلی دلائل قائم فرمائے ہیں اور واضح کیا ہے کہ جو آپ کے آخری نبی ہونے کا انکار کرے وہ بلاشبہ اسلام سے خارج اور قطعی کافر ہے ؛اس لئے کہ قرآنِ عزیز کی آیت ”خاتم النبیین“ کا اور حدیث شریف ”لا نبیّ بعدی“ (میرے بعد کوئی نبی نہیں) کا منکر ہے ،دراں حال کہ یہ حدیث معنیٰ کے اعتبار سے متواتر ہے اور اس پر اجماع ہے کہ جیسے کہ ظہر کی نماز فرض ہے اور اس کی چار رکعت کا ثبوت حدیث شریف سے ہے، جو معنیٰ کے اعتبار سے متواتر ہے، جس طرح اس کا منکر ہے وہ بھی کافر ہے ”تحذیر الناس“ بغور مطالعہ فرمائیں۔
اس دعوے پر جن حضرات نے اشکالات کئے ان کے جواب میں حضرت مولانا نے ایک دوسرا رسالہ بھی تحریر فرمایا جس کا نام ”مناظرہٴ عجیبہ“ ہے یہ رسالہ درحقیقت ”تحذیر الناس“ کے لئے بمنزلہ شرح کے ہے اس کے صفحہ ۳ پر حضرت فرماتے ہیں: ”حضرت خاتم المرسلین ﷺکی نبوتِ خاتمیت زمانی تو سب کے نزدیک مسلم ہے“۔ صفحہ ۳۷ پر یہ لکھا ہے کہ: ”خاتمیتِ زمانی کی میں نے تو توجیہ و تائید کی ہے (معاذ اللہ) تغلیط نہیں کی“۔
پھر اسی صفحہ پر چار سطر کے بعد صاف صاف خاتمیتِ مرتبی، خاتمیتِ زمانی، خاتمیتِ مکانی، تینوں کو حضرت رسول اکرم ﷺ کے لیے ثابت کیا ہے۔ صفحہ ۳۹ پر لکھا ہے کہ: ”خاتمیتِ زمانی اپنا دین و ایمان ہے“۔صفحہ ۵۰ پر لکھا ہے کہ: ”اس سے بھی بڑھ کر لیجیے (صفحہ نہم سطر دہم سے لے کر صفحہ یازدہم کی سطر ہفتم تک تحذیر الناس میں) وہ تقریر تحریر فرمائی ہے جس سے خاتمیت زمانی اور خاتمیت مکانی اور خاتمیت مرتبی تینوں مرتبے آیت خاتم النّبیین سے بدلالتِ مطابقی ثابت ہوجائیں“۔پھر اسی صفحہ پر لکھا ہے کہ : ”حاصل مطلب یہ ہے کہ خاتمیت زمانی سے (ہی نہیں کہ) مجھ کو انکار نہیں بلکہ یوں کہیے کہ منکروں کے لیے گنجائش انکار نہ چھوڑی“۔
ان تصریحات کے باوجود یہ کہنا کہ حضرت مولانا رحمہ اللہ حضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النّبیین (آخری نبی) نہیں مانتے ؛کتنا صریح بہتان اور ظلمِ عظیم ہے اور اس بہتان کی بنیاد پر کفر کا فتویٰ دینا ظلم بر ظلم اور آخرت کے لحاظ سے انتہائی خطرناک ہے، جس کی فکر ”اعلیٰ حضرت“ کو سب سے زیادہ ہونی چاہیے تھی۔ آخر انھیں بھی تو حق تعالیٰ کے سامنے ایک دن پیش ہونا ہے اور اس کی جواب دہی فرمانی ہے، ان کی نظر سے حدیثِ نبوی کا یہ مضمون بھی تو گذرا ہوگا کہ جو شخص کسی کو کافر کہے اور وہ واقعةً کافر نہ ہو، یعنی شرعی دلائل سے اس کا کفر ثابت نہ ہوتو یہ کفر خود اسی پر لوٹ کر آتا ہے جس نے کافر کہا ہے، الفاظ حدیث یہ ہیں ”عن ابی ذر رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لا یرمی رجل رجلا بالفسوق ولا یرمیہ بالکفر الا ارتدت علیہ ان لم یکم صاحبہ کذلک“ (رواہ البخاری، مشکوٰة شریف ص۴۱۱)
اور پھر ایسا بے بنیاد فتویٰ دینے کی وجہ سے جو مخلوق اس فتوے کو صحیح سمجھ کر گمراہ ہوگی اس کی ذمہ داری بھی آخر کار انھیں کے سر آتی ہے۔
حضرت اقدس مولانا محمد قاسم نانوتوی قدس سرہ کی بلند پایہ شخصیت کا جہاں تک تعلق ہے سب جانتے ہیں کہ حضرت ممدوح حدیث شریف میں حضرت مولانا شاہ عبدالغنی مجددی محدث دہلوی کے شاگرد ہیں اور شیخ العرب والعجم حضرت حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر مکی کے دست مبارک پر بیعت پر چاروں خانوادوں( چشتی، قادری، نقشبندی، سہروردی) میں مجازِ طریقت ہیں۔ آپ نے اپنے شیخ کی رہنمائی میں گذشتہ صدی ۱۸۵۷ء میں انگریزوں سے جہاد فرمایا اور ا س کے بعد ہمیشہ دشمنانِ اسلام کے ساتھ قلم سے جہاد فرماتے رہے۔
اس دوران مشرق و مغرب میں آپ کا فیض پھیلا اوردارالعلوم دیوبند سے ہزارہا علماء، مشائخ طریقت، اربابِ تدریس و افتاء اور مجاہد پیدا ہوئے اور بالآخر قادیانی فرقہ نے جب ختم نبوت کا انکار کیا تو ان کے تلامذہ و متوسلین آگے بڑھے اور منکرین ختم نبوت کے ہرطرف سے راستے بند کیے۔
نیز آج بھی ہندو پاکستان میں ختم نبوت کے عنوان سے انھیں کی جماعت منکرین ختم نبوت، منکرین حدیث اور منکرین قرآن سے جنگ آزما ہے، پھر بھی حیرت ہے کہ وہ منکرین ختم نبوت کہے جائیں۔
۱۲۹۷ھ میں وفات پائی اور آج بھی اہل دل حضرات آپ کی قبر مبارک سے فیض حاصل کرتے ہیں اور خاص انشراح و سکون لے کر واپس ہوتے ہیں۔
(۲) جواب:
حضرت اقدس مولانا رشید احمد صاحب محدث گنگوہی قدس اللہ سرہ العزیز کے فتاویٰ تین حصوں میں چھپے ہوئے ہیں اور کئی بار چھپ چکے ہیں اور ان سب فتاویٰ کی تبویب کے بعد یکجا کرکے ”فتاویٰ رشیدیہ“ کے نام سے شائع کردیا گیا ہے، جناب ملاحظہ فرماسکتے ہیں، اس میں ذیل کا فتویٰ مندرجہ ذیل سوال پر دیا گیا ہے۔
سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں ،کہ ذاتِ باری تعالیٰ عز اسمہ موصوف بصفتِ کذب ہے یا نہیں؟ اور خدائے تعالیٰ جھوٹ بولتا ہے یا نہیں؟ اور جو شخص خدائے تعالیٰ کو یہ سمجھے کہ وہ جھوٹ بولتا ہے وہ کیسا ہے؟
جواب: ذاتِ پاک حق تعالیٰ جل جلالہ کی پاک و منزہ ہے اس سے کہ اس کو متصف بصفتِ کذب کیا جائے (معاذ اللہ) ا س کے کلام میں ہرگز ہرگز شائبہٴ کذب کا نہیں ۔ قال اللّہ تعالیٰ:وَمَنْ اَصْدَقُ مِنَ اللّٰہِ قِیْلاً۔ جو شخص حق تعالیٰ کی نسبت یہ عقیدہ رکھے یا زبان سے کہے کہ وہ کذب بولتا ہے وہ قطعا کافر ہے ،ملعون ہے اور مخالف قرآن و حدیث و اجماع امت کا ہے۔ وہ ہرگز مومن نہیں، تعالی اللہ عما یقول الظالمون علوا کبیرا۔ (فتاویٰ رشیدیہ ص: ۹۰)
اصل بات یہ ہے کہ حضرت مولانا رحمة اللہ علیہ نے یہ تحریر فرمایا ہے کہ جس کا نام لے کر اللہ تعالیٰ نے فرمادیا کہ یہ جہنم میں جائے گا وہ اس کو وہ ضرور جہنم میں بھیجے گا مگر اس کو اس بات کی بھی قدرت ہے کہ جنت میں بھیج دے مگر وہ عاجز نہیں کہ جہنم میں بھیجنے پر مجبور ہوجائے، یہ مسئلہ اِسی طرح قرآن کریم سے ثابت ہے، یہی علمائے امت کا عقیدہ ہے۔ تفسیر بیضاوی کی عبارت میں حضرت مولانا نے نقل فرمائی ہے، علمائے مکہ مکرمہ نے بھی اس کو صحیح فرمایا ہے، حضرت حاجی امداد اللہ صاحب نور اللہ مرقدہ نے بھی اس کو صحیح فرمایا ہے، اور اس کے لیے آیات و احادیث سے ثبوت پیش کیا ہے، یہ سب فتاویٰ رشیدیہ میں موجود ہے۔
”اعلیٰ حضرت بریلوی“ دلائل کی روشنی میں ان سچی باتوں کو جھٹلا نہ سکتے تھے، انھوں نے ا لبتہ اس ”وسعتِ قدرت“ کے عنوان کو جھوٹ بولنے کا عنوان دے کر یہ تشہیر کی کہ حضرت گنگوہی معاذ اللہ خدا کے جھوٹ بولنے کے قائل ہیں (نعوذ باللہ منہ) تاکہ عوام کو اس کے خلاف مشتعل کرسکیں۔ اور حضرت مولانا گنگوہی پر بہتان لگادیا ، حضرت گنگوہی کے سامنے جب یہ بہتان طرازی کا معاملہ آیا تو حضرت نے اس افترا سے اپنی تبرّی کرتے ہوئے لکھا جو فتاویٰ رشیدیہ( ص:۸۴) میں ہے : ”اوریہی مسئلہ مبحوث اس وقت بھی ہے ،بندہ کے جملہ احباب یہی کہتے ہیں اس کو اعداء نے دوسری طرح پر بیان کیا ہوگا“۔
(۳) جواب:
حضرت مولانا خلیل احمد صاحب (انبیٹھوی) سہارنپوری پر مبتدعین کا یہ اعتراض کہ انہوں نے اپنی کتاب ”براہین قاطعہ“ میں لکھا ہے کہ شیطان کا علم حضرت سرورِ کائنات ﷺ کے علم سے زیادہ ہے؟ یہ سراسر افتراوبہتان ہے ، حقیقت یہ ہے کہ مجلسِ میلاد شریف میں جو لوگ قیام کرتے ہیں ان سے دریافت کیا گیا کہ یہ قیام کس مقصد(کس کی تعظیم)کے لئے ہے انہوں نے جواب دیا کہ ایسی مجلس میں رسولِ اکرم ﷺ تشریف لاتے ہیں۔
پھر ان سے کہاگیا کہ حضور ﷺ کی تشریف آوری کا ثبوت کیا ہے؟ کیا آقائے نامدار فخر کائنات ﷺ نے خود یہ ارشاد فرمایا ہے کہ جہاں بھی اور جب بھی مجلسِ میلاد منعقد ہوتی ہے میں اس میں جاتاہوں ،اگر ایسی کوئی حدیث پاک ہو تو حوالہ دیا جائے،سند بتائی جائے ورنہ ایک غلط بات (یعنی مجلس میلاد میں تشریف آوری) کو حضور اقدس ﷺ کی طرف منسوب کرنا شریعت پر اضافہ اور ذاتِ مقدسہ ﷺ پر بہتان ہے ۔
حدیث پاک میں ارشاد ہے ”من کذِبَ عَلیَّ متعمِّداًفلیتبوَّا مَقعدَہ منَ النَّارِ“ جو شخص جان بوجھ کر مجھ پر بہتان باندھے اس کا ٹھکانہ جہنم ہے لہذا ایسی بے اصل بات سے توبہ کی جانی چاہئے ۔
نیز اگر تشریف آوری مان بھی لی جائے تو ایک وقت میں خدا جانے کس کس جگہ مجلس ہورہی ہوگی ،تو حضور ﷺ کہاں کہاں تشریف لے جاتے ہوں گے، وہ لوگ (رضاخانی حضرات) حدیث شریف تو پیش نہ کرسکے ،کیوں کہ اس مضمون کی کوئی حدیث ہی موجود نہیں، البتہ دوسری بات کا جواب بھی دیا تو ایسا کہ کوئی سمجھ دار بلکہ دیندار آدمی ایسا جواب نہیں دے سکتا ،بلکہ جس کو حضرت اقدس ﷺ سے تھوڑا سا بھی تعلق ہوگا اس کا ذہن اس جواب کے تصور سے بھی لرزاں ہوجائے گا جسے لکھتے ہوئے بھی قلم کانپتا اور دل تھراتا ہے ،جواب یہ تھا کہ: ”شیطان تو مجلس میں پہونچ جاتا ہے کیا حضرت رسولِ مقبول ﷺ نہیں پہنچ سکتے“۔
بجائے حدیثِ پاک سے ثبوت پیش کرنے کے ان حضرات نے معاذاللہ حضور ﷺ کو شیطان پر قیاس کرکے جان چھڑائی کہ جب جب اور جہاں جہاں شیطان پہنچ جاتا ہے ،گویا اسی طرح حضور اکرم ﷺ بھی پہنچ جاتے ہیں ”استغفراللہ“ ۔جس کے سینے میں غیرت مند دل ہوگا ایسی بے ہنگم اور توہین رسول کی بات کو کیسے برداشت کرسکے گا۔
حضرت مولانا خلیل احمد صاحب نے جو کچھ اس کا جواب دیا، اس کا حاصل یہ ہے کہ شیطان تو گمراہ کرنے کے لئے پیدا کیا گیا ہے وہ ہر گندی جگہ ، شراب خانہ میں ، فحش خانہ میں، بت خانہ میں پہنچ جاتا ہے ،بیت الخلا میں ہر آدمی کے ساتھ جاتا ہے ،البتہ ”اللّہمَّ اِنی اعوذبکَ منَ الخبثِ والخبائث“ پڑھ کر جانے والا اس کے شر سے محفوظ رہتا ہے، انسان کی رگوں میں خون کی طرح سرایت کرجاتا ہے ،سمندر پر اپنا تخت بچھا کر بیٹھتا ہے اور اس کے لشکر کے کارندے آ آکر اپنی کارگذاری سناتے ہیں، دوسرے عالم میں جہنم میں جائیگا اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے عذاب میں وہیں رہیگا وغیرہ وغیرہ۔
ان جملہ امور کے لئے احادیث موجود ہیں،لیکن اس ناپاک قیاس کے سوا حضرت رسولِ خدا ﷺ کے لئے ہر مجلس میں تشریف لے جانے کیلئے بھی کوئی حدیث موجود ہے؟ جس کا خلاصہ ہوا کہ جہاں جہاں شیطان کا جانا احادیث میں موجود ہے، شیطان پر قیاس کرکے حضرت رسولِ اکرم ﷺ کے لیے وہاں آنا جانا ثابت کرنا افترا علی الرسول کی بھی انتہائی گھناوٴنی صورت ہے ،اللہ پاک اس بیہودہ عقیدہ سے ہم سب کو محفوظ رکھے۔
تعجب ہے کہ مولانا احمد رضاخان صاحب نے حضور ﷺ کی جگہ جگہ حاضری کی یہ انوکھی دلیل کہاں سے فراہم کی؟ عقیدہ کے لئے اول تو نصوصِ قطعیہ کی ضرورت ہے وہ نہ ہو تو کم سے کم کوئی صریح حدیث تو ہو اور وہ بھی نہ ہو تو قیاسِ تمثیلی کسی مثلِ اعلی کے ساتھ تو ہو؛ مولانا کو قیاس کے لئے بھی ملا تو شیطان ہی ملا ”نعوذ باللہ منہ“ سوائے اس کے کہ اس پر ” إنّا للہ وإنا إلیہ راجعون“ پڑھا جائے اور کیا عرض کیا جائے ۔
جہاں تک قیام کے مسئلے کا تعلق ہے ،تو حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک حرکتِ وجدی ہے، جو صاحبِ حال سے سرزد ہوسکتی ہے اور ہوتی ہے۔ صاحبِ حال اس میں معذور بھی ہے، جس پر کوئی نکیر وملامت نہیں کی جاسکتی ، لیکن وہ قانون عام نہیں کہ بطورِ حکم عام ، اسے انجام دیا جائے جب وہ مسئلہ شرعی کے طور پر پیش کیا جائے گا تو حجتِ شرعیہ کا مطالبہ قدرتی طور پر کیا جانا ناگزیر ہے ،سو اس بارہ میں جہاں تک حجت و قانون کا تعلق ہے وہ ہمیں یہ ملتی ہے کہ حضور ﷺ نے اسے نہ پسند فرمایا ،نہ اس کی اجازت دی ۔حضرت انس فرماتے ہیں کہ صحابہ کو حضور اکرم ﷺ سے زیادہ کوئی بھی محبوب نہ تھا ،مگر ان کا حال یہ تھا کہ جب آپ ﷺ کو دیکھتے تو قیام نہیں کرتے تھے ،کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ قیام کرنے سے آپ کو ناگواری ہوتی ہے۔ حدیث شریف کے الفاظ یہ ہیں:”عن انس لم یکن شخص احبَّ إِلیہم من رسولِ اللہِ ﷺ وکانوا إذا رأَوہ لم یقوموا لما یعلمونَ من کراہیتہ لذلکَ“ (رواہ الترمذی وقال ہذا حدیث حسن صحیح)
صحابہ کرام کو آپ کی ناگواری کا علم اس طرح ہواکہ ایک دفعہ صحابہ بیٹھے ہوئے تھے کہ حضور ﷺ اپنے حجرئہ مبارکہ سے نکل کر لاٹھی پر سہارا لیتے ہوئے باہر تشریف لائے، آپ کو دیکھتے ہی جذبہ محبت میں سب کھڑے ہوگئے ،اس پر آپ نے قیام سے منع فرمایا کہ یہ قیامِ تعظیمی تو عجمیوں کا طریقہ ہے ،تم اس کو اختیار مت کرو ،حدیث شریف کے الفاظ یہ ہیں:عن ابی امامة قال خرج رسول اللہ ﷺ متَّکئا علی عصاً فقمنالہ فقال لاتقوموا لی کما تقوم الاعاجم یعظِّم بعضہم بعضا“ (رواہ ابوداد)
ایک دوسری حدیث میں ارشاد ہے کہ جو شخص یہ پسند کر ے کہ لوگ اس کے لئے قیام کریں وہ جہنم میں اپنا ٹھکانہ ڈھونڈ لے ،حدیث شریف کے الفاظ یہ ہیں : ”عن معاویة قال قال رسول اللہ ﷺ من سرَّہ ان یتمثل لہ الرجال قیاما فلیتبوَّا مقعدہ من النار “ (رواہ الترمذی و أبوداوٴد)
قیام سے متعلق یہ تینوں حدیثیں مشکوةشریف ص (۴۰۳) میں ہیں ؛یہ ساری بحث قیامِ مروجہ کے بارے میں ہے، اندازہ فرمایا جائے کہ جس چیز کو حضور ﷺ نے اپنی مجلس پاک میں گوارہ نہیں فرمایا،کیا وفات کے بعد آپ حضرات کی مجالس میں اس مزعومہ تشریف آوری پر اسے گوارا فرماتے؟
لیکن اگر ایسی کوئی روایت ہوتی تو وہ بہر جال سرآنکھوں پر رکھی جاتی ،مگر جب ہے ہی نہیں تو فرضیات اور قیاسات، اور وہ بھی نامناسب اور مکروہ قیاسات پر آخر اس کی اجازت دینے کا اور وہ بھی بطور عقیدہ کے ،کسی کو کیا حق ہے؟
(۴) جواب:
حضرت اقدس حکیم الامت مولانا تھانوی قدس سرہ العزیز سے کسی شخص نے دریافت کیا تھا کہ (زید) کہتا ہے کہ علم غیب کی دو قسمیں ہیں (۱) بالذات اس معنی کر عالم الغیب خدا کے سوا کوئی نہیں (۲) بواسطہ اس معنی کر رسول اللہ ﷺ عالم الغیب تھے۔زیدکا عقیدہ اور استدلال کیسا ہے؟ زید کا مقصد یہ تھا کہ جس طرح وحی کا آنا ،میدانِ حشر میں شفاعت کرنا،حوضِ کوثر پر پانی پلانا وغیرہ، حضرت سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے کمالاتِ نبوت میں سے ہے ،کیا اسی طرح عالم الغیب ہونا بھی کمالات نبوت میں سے ہے؟
اس کا جواب حضرت مولانا تھانوی نے دیا جس کا حاصل یہ ہے کہ جب کتبِ شریعت میں ”عالم الغیب“ بولاجاتا ہے تو اس سے مراد عالم الغیب بلاواسطہ ہی ہوتا ہے ؛اور زید کے نزدیک بھی ”عالم الغیب“ بلا واسطہ خدا تعالیٰ کے سوا کوئی دوسرا نہیں ہے ؛لہٰذا حضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اگر لفظِ ”عالم الغیب“ بولا جائے گا تو زید کی نیت کا تو کسی کو علم نہیں ہوگا، دیکھنے والے اور سننے والے اور پڑھنے والے، یہی سمجھیں گے کہ اس سے مراد ”عالم الغیب“ بلاواسطہ ہے ؛تو جو لفظ اور صفت اللہ کے لئے مخصوص ہے اس کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ماننے سے شرک کا شبہ ہوگا ؛لہٰذا یہ لفظ نہیں بولنا چاہئے۔
اس کے بعد مولانا تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: زید جو عالم الغیب کہتا ہے تو اس میں دوصورتیں ہیں :ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ اور حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا علم برابر مانتا ہے ،جس طرح کوئی ذرہ اللہ تعالیٰ سے مخفی نہیں وہ ہروقت ہرجگہ حاضرو ناظر رہتا ہے، اسی طرح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حال ہے (فرق صرف بواسطہ اور بلاواسطہ کا ہے) تب تو زید کا ایسا کہنا قرآن کریم کے بھی خلاف ہے ۔حدیث شریف کے بھی مخالف ہے اور واقعات کے بھی خلاف ہے۔ ﴿وَعِنْدَہُ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لاَ یَعْلَمُہَا اِلاَّ ہُوْ﴾ اور اسی (اللہ ہی) کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں ،اللہ کے سوا، انھیں کوئی نہیں جانتا۔
﴿قُلْ لاَ یَعْلَمُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ الْغَیْبَ اِلاَّ اللّٰہُ﴾ آپ فرمادیجئے کہ زمین اور آسمان میں رہنے والوں میں سے خدا کے سوا غیب نہیں جانتا۔
بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو صاف امر ہے کہ: اعلان فرمادیجئے کہ مجھے علم غیب نہیں: ﴿قُلْ لاَّ اَقُوْلُ لَکُمْ عِنْدِیْ خَزَائِنُ اللّٰہِ وَ لاَ اَعْلَمُ الْغَیْبَ﴾ بئرِ معونہ، تابیر نخل وغیرہ واقعاتِ حدیثی سے بھی صاف ثابت ہے کہ کتنی چیزوں کا علم حضور سے مخفی رہا ہے۔واقعہٴ ”افک“ میں کتنی پریشانی اٹھانی پڑی، جب اللہ تعالیٰ نے وحی نازل کی، تبھی بات صاف ہوکر پریشانی دفع ہوئی۔ حدیث شریف میں ہے،نبی کریم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں کہ میں حوضِ کوثر پر ہوں گا، میری امت کے کچھ لوگ آئیں گے ،میں ان کو دیکھ کر پہچان لوں گا پھر وہ میری نظر سے اوجھل ہوجائیں گے یعنی بجائے حوضِ کوثر پر لانے کے ان کو جہنم کی طرف لے جائیں گے ،تب میں کہوں گا کہ یہ تو میرے آدمی ہیں، وہاں سے جواب ملے گا کہ آپ کو علم نہیں کہ آپ کے بعد انھوں نے کیا کیابدعات ایجاد کیں؟ اس پر ارشاد فرمائیں گے کہ ان کو جہنم میں دھکیل دو۔
(حضرت تھانوی فرماتے ہیں کہ) یہ خرابی تو اس وقت ہے کہ زید ”عالم الغیب“ سے یہ مراد لے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو پورا پورا علمِ غیب تھا اور اگر زید کی نیت یہ ہے کہ علمِ غیب پورا پورا نہیں تھا یعنی بعض چیزوں کا علم تھا بعض کا نہیں تھا ،اس بناء پر ”عالم الغیب“ کہتا ہے تو یہ مراد لے کر بھی ”عالم الغیب“ کہنا جائز نہیں ؛اس واسطے کہ بعض چیزوں کا علم ہونا بعض کا نہ ہونا یہ کمالاتِ نبوت میں سے نہیں، کیوں کہ ہرایک کو کسی نہ کسی چیز کا علم ہوتا ہے جس کا دوسرے کو علم نہیں ہوتا ؛پس دوسرے کے اعتبار سے وہ علم غیب ہے ۔زید، عمرو، بکر بلکہ مومن ، کافر بلکہ جانوروں کو بھی کسی ایسی چیز کا علم ہوتا ہے جو دوسروں کو نہیں، بعض جوگی کشف کے ذریعہ کوئی بات معلوم کرلیتے ہیں جو دوسروں کو معلوم نہیں۔
ہدہد کا واقعہ قرآن کریم میں مذکور ہے کہ اس نے آکر بلقیس# کی سلطنت اور تخت کی خبر حضرت سلیمان علیہ السلام کو دی جو ان کے اعتبار سے غیب کی خبر تھی اور ان کے علم میں نہ تھی۔ڈاک خانے کی اصطلاحات کا جس قدر علم پوسٹ مین اور ڈاک خانے کے ملازمین کو حاصل ہوتا ہے وہ ایک بڑے سے بڑے بیرسٹر کو نہیں ہوتا، تو کیا زید ان سب کو بھی اس جزئی علمِ غیب کی وجہ سے ”عالم الغیب“ کہے گا؟ ایسا علم کمالاتِ نبوت میں سے نہیں جس علم کے لیے ایمان بھی شرط نہ ہو بلکہ کافر کو بھی حاصل ہوسکتا ہے اور جس کے لیے انسانیت بھی شرط نہ ہو بلکہ جانوروں کو بھی حاصل ہوسکتا ہو ؛جیسا کہ قرآن کریم شاہد ہے ،وہ کمالاتِ نبوت میں سے کیسے ہوسکتا ہے؟ اور نہ ہی اس کو افضلیت اور مقبولیت کا معیار قرار دیا جاسکتا ہے، جیسا کہ خود ”اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خاں صاحب“ نے بھی اپنے ملفوظ حصہ چہارم ص۱۰،۱۱ /میں تحریر فرمایا ہے کہ وہ صفت جو غیر انسان کے لئے ہوسکتی ہے انسان کے لیے کمال نہیں؛ جو غیر مسلم کے لیے ہوسکتی ہے وہ مسلم کے لیے کمال نہیں ۔کم سے کم اسی ملفوظ کی روشنی میں غور کیا جائے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام منصبِ نبوت پر فائز ہیں، ان کے سامنے ہدہد# کی کوئی حیثیت ہی نہیں، وہ بیچارہ علمی کمالاتِ نبوت میں سے کسی کمال کا تو کیا مقابلہ کرسکتا، انسانیت میں سامنے نہیں آسکتا؛ حالانکہ اسے ایک ایسے جزئیہ کا علم ہوگیا جو سلیمان علیہ السلام کو اسی کے بتانے سے ہوا۔لہٰذا زید کا بعض علمِ غیب مراد لے کر سید الکونین صلی اللہ علیہ وسلم کو عالم الغیب کہنا درست نہ ہوگا، کیوں کہ اس صورت میں زید حضرتِ فخر دوعالم سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ایسی چیز ثابت کرتا ہے جو درحقیقت کمالاتِ نبوت میں سے نہیں، بلکہ اس کے لیے ایمان یا انسانیت بھی شرط نہیں ،تو کیا اس صورت میں زید اپنے عقیدہٴ ”علم غیب“ کی وجہ سے حضرت رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کا مرتکب نہیں ہوگا، درآں حالے کہ وہ اپنے ذہن میں اسے مدح ومنقبت خیال کیے ہوئے ہے ؛پس ایک صورت میں (علمِ غیب کلی مان کر) تو اس نے حضور کو خدائے تعالیٰ وحدہ لاشریک لہ کے برابر قرار دیدیا ،جو شرک ہے۔ اور دوسری صورت میں وہ (علم غیب جزئی مان کر) حضرت فخر کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح و ثنا نہیں بلکہ تنقیص و توہین کررہا ہے؛ لہٰذا زید کو ایسے عقیدے اور قول سے توبہ لازم ہے۔
علاوہ ازیں اگر زید حضور کو بایں معنی عالم الغیب کہے اور تاویل کرے کہ اس سے مراد عالم الغیب با لواسطہ ہے ؛لہٰذا حضورحق تعالیٰ کے ساتھ شریک نہ ہوئے ،تو اس لحاظ سے اللہ تعالیٰ سے علم غیب بالواسطہ کی نفی بھی صحیح ہوجائے گی اور یہ کہنا بھی درست ہوگا کہ اللہ تعالیٰ بالواسطہ عالم الغیب نہیں اور حضور بالواسطہ عالم الغیب ہیں تو یہ تاویل بھی رکیک تاویل ہوگی جس سے بات کی غلطی نہیں چھپائی جاسکتی اور نہ ایسی غلط بات کہنے کی کسی کو اجازت دی جاسکتی ہے ،کیوں کہ اس صورت میں (قطع نظر اصولی غلط کاری کے)دین ایک کھلونا بن کر رہ جائے گا ،کہ اللہ تعالیٰ کی جس صفت الوہیت کو چاہا کسی تاویل اور واسطہ بلاواسطہ کے فرق سے حضرت رسول اکرم ﷺ کے لئے ثابت کردیا اللہ تعالیٰ سے بالواسطہ کی نفی کردی اور حضور کے لئے وہی صفت بالواسطہ ثابت کردی ۔یہ حاصل ہے حضرت مولاناتھانوی کے جواب کا؛ اس میں حضرت مولانا نے کہیں بھی اپنا خود کا یہ عقیدہ بیان نہیں فرمایا کہ غیب کی باتوں کا جیسا علم حضرت رسول اکرم ﷺ کو ہے ایسا تو ہر بچہ اورہر پاگل بلکہ ہر جانور اور ہر چارپائے کو حاصل ہے ،بلکہ یہ جوکچھ لازم آیا زید کے عقیدہ پر لازم آیا ہے کہ وہ عالم الغیب مانتا ہے نہ کہ حضرت تھانوی کے عقیدہ پر ۔چنانچہ حضرت تھانوی ان تشبیہات کے بارہ میں اپنے رسالہ ”بسط البیان“ صفحہ(۱۰،۱۱) پر فرماتے ہیں۔
میں نے یہ خبیث مضمون کسی کتاب میں نہیں لکھا اور لکھنا تو درکنار میرے قلب میں بھی اس مضمون کا کبھی خطرہ نہیں گذرا ۔میری کسی عبارت سے یہ مضمون لازم بھی نہیں آتا ۔جو شخص ایسا اعتقاد رکھے یابلا اعتقاد صراحةً یا اشارةً یہ بات کہے ؛میں اس شخص کو خارج از اسلام سمجھتا ہوں کہ وہ تکذیب کرتا ہے نصوص قطعیہ کی اور تنقیص کرتا ہے حضور ﷺ کی “۔
پھر حفظ الایمان صفحہ۹/ میں یہ عبارت بھی موجود ہے کہ :”نبوت کے لئے جو علوم لازمی و ضروری ہیں وہ آپ کو بتمامہا حاصل ہوگئے تھے“۔
اپنی اس عبارت کے پیش نظر حضرت تھانوی نے اعلیٰ حضرت بریلوی کے اعتراض و اتہام کا جواب دیاہے ۔چنانچہ ”حفظ الایمان“ کی شرح ”بسط البنان“(ص۱۲)میں اس عبارت کو نقل کرکے فرمایا ہے کہ :”انصاف شرط ہے، جو شخص اس کو جمیع علو م عالیہ شریفہ متعلقہٴ نبوت کا جامع کہہ رہا ہے کیا وہ نعوذباللہ زید،عمرو، صبی،مجنون اور حیوانات کے علم مماثل آپ کے علم کے بتلادے گا ؟ کیا زید،عمرووغیرہ کو یہ علوم حاصل ہیں ؟یہ علوم تو آپ کے مثل دوسرے انبیاء و ملائکہ علیہم السلام کو بھی حاصل نہیں “۔
اس تقریر سے معلوم ہوگیا ہوگا کہ عبارت مذکورہ میں رسول اللہ ﷺ کے علم کے مشابہ معاذاللہ زید ،عمرو ،بکر وغیر ہ کے علم کو کہا کب گیا ہے ؟ کہ اپنے مفروضات سے ان پر بوچھار کی جائے۔ پھر آگے کی سطروں میں تحریر فرمایا ہے :”اس شق پر جو محذور لازم کیا گیا ہے اس میں غور کرنے سے تو معلوم ہوسکتا ہے کہ مشابہت کی نفی کی گئی ہے ۔چنانچہ بعض مطلق علوم غیبیہ کے مراد لینے پر تویہ خرابی بتلائی ہے کہ اس میں حضور ﷺ کی کیا تخصیص ہے؟“الخ
یعنی اس صورت میں آپ کی تخصیص نہ رہے گی ؛بلکہ زید،عمر و،بکر وغیرہ بھی اس صفت میں آپ کے شریک ہوجائیں گے۔ حالاں کہ آپ کی صفات خاصہ کمالیہ میں آپ کا کوئی شریک و مشابہ نہیں ؛اس لئے یہ شق باطل ہوئی ۔الخ
اخیر میں حضرت تھانوی نے ان کلمات پر اپنی کتاب کو ختم فرمادیا ہے :” میرااور میرے سب بزرگوں کا عقیدہ ہمیشہ سے آپ کے افضل المخلوقا ت فی جمیع الکمالات العلمیة و العملیةہونے کے باب میں یہ ہے ۔
ع بعد ازخدا بزرگ توئی قصہ مختصر
حضرت مولاناتھانوی کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ اعلیٰ حضرت بریلوی نے آپ کی عبارت کا ایسا مطلب گھڑا ہے جو نہ آپ کا مقصود ہے اورنہ آپ کا عقیدہ ۔نہ واقع میں صحیح ہے بلکہ وہ غلط اور کفر ہے اور مخلوق خدا کو وہ مطلب بتا کر اعلیٰ حضرت اور ان کی ذریات نے گمراہ کیا اور فتنہ برپا کر رکھا ہے اگر آپ اس کے الفاظ اس طرح بدل دیں جس سے مطلب اصلی تو اپنی جگہ پر وہ رہے کیوں کہ وہ بالکل صحیح ہے البتہ اس سے غلط مطلب نکالنے اور گمراہ کرنے کا موقع ہی ختم ہوجائے ،تو بہتر ہے ۔حضرت مولانا نے ارشاد فرمایا:
”جزاکم اللہ تعالیٰ !بہت ہی اچھی رائے ہے ؛کیوں کہ اس کے قبل کوئی واقعی بناء ظاہر نہیں کی گئی تھی؛اس لیے ترمیم کو دلالت علی خلاف المقصود کے اقرار کے لیے مستلزم سمجھا اور اقرار بالکفر کفر ہے اس لیے ترمیم کو ضروری تو کیا جائز بھی نہیں سمجھا ۔اب سوالِ ہذا میں جو بناء بیان کی گئی ہے ایک امر واقعی ہے لہٰذا قبولاً للمشورةاس کو لفظ ”اگر“ کے بعد سے ”عالم الغیب کہا جائے“ تک اس طرح بدلتا ہوں۔ اب حفظ الایمان کی اس عبارت کو جوکہ اس سوال کے بالکل شروع ہی میں مذکور ہے ،اس طرح پڑھاجاوے“۔
”اگر بعض علومِ غیبیہ مراد ہیں تو اس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی کیا تخصیص ہے، مطلق بعض علوم غیبیہ تو غیر انبیاء علیہم السلام کو بھی حاصل ہیں تو چاہئے کہ سب کو عالم الغیب کہا جائے الخ ۔اور ایسی عبارت بعینہا شرح مواقف کے موقف سادس، مرصد اول ،مقصد اول میں فلاسفہ کے جواب میں ہے: ”والبعض أی الاطلاع علی البعض لا یختص بہ ای بالنبیّ“ اور اس کے مثل ”مطالع الانظار شرح طوالع الانوار“ للبیضاویمیں ہے: ”وإن أرادوا بہ الاطلاع علیٰ بعضہا فلا یکون خاصّة النّبی إذ ما من أحد إلا ویجوز أن یطّلع علیٰ بعض الغائبات الخ۔
الغرض جب مصنف نے ۱۳۴۲ھ میں عبارت میں توضیح کرکے جڑہی کاٹ دی ،تو پھر اس پر انی عبارت کو کہ اس میں بھی عقلاء کے لیے ان تحریفات کی گنجائش نہ تھی ،مخلوق کے سامنے پیش کرکے مصنّفین سے نفرتیں دلاتے رہنا ،نہ مصنف کی تبرّی و تحاشی کو دیکھنا ،نہ جوابات دیکھنا، نہ توضیح کردہ عبارت کو دیکھنا آخر دیانت کا کونسا عمل ہے، جسے شب و روز کا مشغلہ بناکر رکھا جائے۔
(۵) سوال :
حضرت مولانا اسماعیل صاحب شہید دہلوی کی کتاب مسمیٰ بہ ”صراطِ مستقیم“ موجود ہے ؛اس کی بھی ایک عبارت نے ذہن کو خلجان میں ڈال دیا ہے، ذہن میں ایک قسم کا تذبذب پیدا ہوگیا ہے کہ واقعی بریلوی لوگ جو کہا کرتے ہیں وہ سچ ہے یا غلط ۔اب میں پریشا ن ہوں کہ کیا کروں عبارت ”صراطِ مستقیم“ کی یہ ہے:
”صرفِ ہمت بسوئے شیخ و امثالِ آں از معظمین گو کہ جنابِ رسالت مآب باشند ،بچندیں مرتبہ بدتر از استغراق درصورتِ گاوٴ خر خود است کہ خیالِ آں بتعظیم و جلال بسویدائے دلِ انسان می چسپد بخلاف گاوٴ خر“ (صراطِ مستقیم مطبوعہ مجتبائی۹۵)۔
یعنی ہمہ تن متوجہ ہوجانا پیر و مرشد یا ان کے مثل بزرگوں کی طرف ،گوکہ حضرت رسالت مآب ہوں، اپنے گائے اور گدھے کے خیال میں ڈوب جانے سے بھی بدتر ہے، کیونکہ ان کا خیال انسان کے دل میں تعظیم اور بزرگی کے ساتھ آتا ہے، بخلاف گائے اور گدھے کے خیال کے۔
نوٹ: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خیال نماز میں آنا بدتر ہوا گائے اورگدھے کے خیال کے آنے سے ؛تو کیا نماز میں تشہد پڑھا جائے یا نہیں ،جب کہ تشہد میں ”السلام علیک ایہا النبی“ موجود ہے ؛اس موقع پر کیا کیا جائے ،تشہد پڑھاجائے اور ”السلام علیک ایہا النبی“کو الگ کردیا جائے یا کیا کیا جائے ؟کیوں کہ جب تشہد پڑھا جائے گا تو تعظیم کا خیال فوراً ذہن میں آئیگا؛ جیسا کہ احیاء العلوم ج۱/ص۱۰۷/ میں حضرت امام غزالی نے فرمایا کہ پہلے اپنے دل میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حاضر کرو اور آپ کی شخصیتِ گرامی کا تصور باندھ کر کہو ”السلام علیک ایہا النبی“ کس قدر تضاد ہے ۔امید کہ ہماری دماغی الجھن دور فرمائیں گے۔
جواب: جو کتاب جس فن میں ہوگی اس میں مجموعی طور پر اسی فن کے اصطلاحی الفاظ ہوں گے اور ان کے وہی معنیٰ لیے جائیں گے جو اس فن میں اس لفظ کے ہوں گے۔ ان الفاظ کو لغوی معنیٰ یا کسی دوسرے فن کے اصطلاحی معنیٰ میں سمجھنے سے مفہوم خبط ہوجائے گا، مثلاً لفظ ”موضوع“ کا ترجمہ ”معنیٰ دار لفظ“ ہے جو مقابلے میں ”مہمل“ (بے معنیٰ لفظ) کے ہے ۔اب اگر اس لفظ ”موضوع“ کو منطق کی کتاب میں کوئی شخص دیکھے کہ زید قائم میں زید موضوع ہے اور قائم محمول ہے، اور اس کا مطلب سمجھنے لگے معنیٰ دار لفظ؛ تو وہ پریشان ہوگا۔ اسی طرح یہ لفظ فلسفہ میں مستعمل ہو، مثلاً جدار موضوع ہے بیاض کے لیے تو وہاں بھی اس کا مطلب اگر معنیٰ دار لفظ کا لیا جائے گا تو سارا مطلب خبط ہوجائے گا۔ اسی طرح اگر فنِ حدیث میں لفظ موضوع آئے کہ مثلاً فلاں حدیث موضوع ہے“ تو اس کا مطلب اگر معنیٰ دار لفظ لیا جائے گا تو معنیٰ غلط ہی نہیں ہوں گے بلکہ مضحکہ انگیز بن جائیں گے۔
بطور تمہید یہ مقدمہ ذہن نشین رکھئے اور اس کی روشنی میں سمجھئے کہ صراطِ مستقیم ”فن تصوف“ کی کتاب ہے جس میں تزکیہٴ باطن اور اصلاحِ نفس کے طریق بیان کیے گئے ہیں۔ جس شخص پر خیالات و وساوس کا ہجوم رہتا ہے اور وہ ان کو دور کرنے سے عاجز آجاتا ہے تو صوفیائے کرام قدس اللہ اسرارہم نے اس کے لیے ایک علاج تجویز فرمایا ہے اور وہ یہ کہ یہ شخص اپنے دل میں کسی چیز کا تصور اس طرح جمائے کہ دوسری کسی شیٴ کی اس میں گنجائش نہ رہے ؛جیسے قدِ آدم آئینہ بازار میں کسی دوکان پر لگاہوا ہو اوراس میں ہرگزرنے والے کا عکس آتا ہو ؛کبھی آدمی، کبھی گھوڑا، کبھی موٹر، غرض جو چیز بھی سڑک پر گذرے اس کا عکس آتا ہو اور مالکِ آئینہ یہ چاہے کہ مختلف چیزوں کا عکس اس میں نہ آئے تو اس کی صورت یہ ہے کہ سڑک کی جانب اس آئینہ کے رخ پر ایک موٹا کپڑا ڈال دیا جائے جو اس کو پوری طرح گھیرلے کہ کسی دوسری چیز کے عکس کی اس میں گنجائش اور جگہ ہی باقی نہ رہے، ٹھیک اسی طرح جب دل میں کسی ایک چیز کا تصور پوری طرح جمالیا جائے کہ دوسری شئ کا تصور اور خیال کی جگہ ہی نہ رہے تو قدرتی طور پر خیالات و وساوس کا سلسلہ بالکل ختم ہوجائے گا، اس کو صوفیاء کی اصطلاح میں ”صرف ہمت“ کہتے ہیں۔حضرت مولانا محمد اسماعیل شہید اپنے شیخ طریقت حضرت مولانا سید احمد بریلوی سے نقل فرماتے ہیں کہ اگر نماز میں یہ صرفِ ہمت حضرت رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کیا جائے تو ظاہر ہے کہ پھر کسی دوسری چیز کی گنجائش طبعاً باقی نہیں رہ سکتی ؛حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ کا دھیان بھی نہیں آسکے گا ؛کیوں کہ ”صرف ہمت“ کا مطلب ہی یہ ہے کہ جس چیز کے لیے ”صرف ہمت“ کیاجارہا ہے وہی چیز پورے قلب کو گھیرلے گی حتیٰ کہ اگر نماز میں ﴿اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ﴾ کہیں گے تو یہ بھی حضور کے لیے ہوگا۔ رکوع، سجدہ، قعدہ، حتیٰ کہ اذکار: ”سبحان ربی العظیم، سبحان ربی الاعلی“ وغیرہ بھی حضور ہی کے لیے ہوجائیں گے۔
خلاصہ یہ کہ پوری نماز سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہوجائے گی اللہ تعالیٰ کے لیے نہیں رہے گی، ورنہ وہ صرفِ ہمت نہ ہوگا۔ حالاں کہ نماز عبادت ہے جو اللہ ہی کے لیے مخصوص ہے۔اور جب رکوع، سجدہ، اور ذکر وغیرہ سب ہی حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہوگئے ، جو صرفِ ہمت کے معنیٰ ہیں اور اس صرفِ ہمت کی وجہ سے اللہ کے لیے نہ رہے۔ تو ظاہر ہے کہ اس بندہ کی یہ نماز مشرکانہ عبادت ہوجائے گی۔ دوسرے یہ کہ عبادت کے واسطے انتہائی محبت اور انتہائی عظمت و جلالت کا قلب میں ہونا ضروری ہے اور سب جانتے ہیں کہ ذاتِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مسلمانوں کو ایسا ہی تعلق ہے کہ تصورِ مبارک آپ کی انتہائی عظمت و جلالت کے ساتھ قلب میں آتا ہے ،اس تعلق کے ساتھ جب یہ صرفِ ہمت بسوئے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم ہوگا تو ظاہر ہے کہ عظمتِ نبوی تو قلب میں پہلے ہی سے تھی ،صرفِ ہمت کی وجہ سے آپ کے سوا ہر ایک کا دھیان قلب سے خارج ہوگیا تو قدرتاً صرفِ ہمت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی طرف دھیان باقی رہ ہی نہیں سکتا، اس صورت میں یہ پوری عبادت صرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہوگئی۔
پس جو نماز صرف اللہ تعالیٰ اور اس کے قرب کے لیے تھی اور اسی لیے ”معراج المومنین“ تھی۔ اس صرفِ ہمت کی وجہ سے وہ شرک ہوکر ”بعد عن الحق“ کا موجب اور موجبِ نار ہوکر رہ گئی، اور اگر بالفرض آدمی کو نماز میں اپنے کھیت، گھوڑے، گدھے، گائے وغیرہ کا خیال آجائے اور وہ اس خیال میں مستغرق بھی ہوجائے تو چوں کہ اسے ان چیزوں کے ساتھ عظمت و جلالت کا تعلق نہیں ہوتا، اس لیے یہاں یہ احتمال ہی نہیں کہ ان اشیاء کے خیال کی وجہ سے یہ نماز ان اشیاء کے لیے ہوجائے گی ۔اور جب کہ انسان ان اشیاء کے تصور سے خود شرمندہ ہوتا ہے کہ افسوس نماز جیسی عبادت میں بھی مجھے ان حقیر و خسیس اشیاء کا خیال آگیا جس سے میری نماز کی حیثیت ہی جاتی رہی تو یہ شرمندگی موضوعِ صلوٰة کے منافی نہیں بلکہ ”نفی غیر اللہ“ کے لیے معین ہوگی؛ اس لیے ان اشیاء کے تصور سے نماز میں کوئی ادنیٰ خلل نہیں پڑے گا کہ اس تصور کی حقیقت وسوسے سے زائد نہیں ۔یہ حاصل ہے ”صراطِ مستقیم“ کی عبارت کا۔
پس مولانا حضور کے بارے میں صرفِ ہمت سے روک رہے ہیں نہ کہ خیال و تصور سے ۔پس کہاں ”صرف ہمت“ اور کہاں خیال و تصور؛ اس لیے مولانا شہید کی طرف یہ منسوب کرنا کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا خیالِ مبارک قلب میں آنے سے نماز فاسد ہوجاتی ہے، یا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا خیال نماز میں آنا ”معاذ اللہ“ ان حقیر و ذلیل چیزوں کے خیال آجانے سے بدرجہا برا ہے۔ مولانا پر افترا ہے یا انتہائی غلط فہمی پر مبنی ہے جو تصوف کی اس اصطلاح ”صرف ہمت“ کے نہ سمجھنے کی بناء پر ہوئی ہے۔
مولانا کی ذات تو بہت اونچی ذات ہے؛ یہ نظریہ تو کسی ادنیٰ درجہ کے مسلمان بلکہ کسی شریف الطبع غیر مسلم کا بھی نہیں ہوسکتا ؛ورنہ اتنی بات تو سب ہی جانتے ہیں کہ نماز کو تو سمجھ کر پڑھنے کا حکم ہے ۔جب نماز میں ایک نمازی ”مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ مَعَہُ اَشِدَّاءُ عَلَی الْکُفَّارِ“ پڑھے گا تو لامحالہ خیالِ مبارک آئے گا۔ جب وہ ” وَمَا مُحَمَّدٌ اِلاَّ رَسُوْلٌ“ پڑھے گا تولامحالہ خیالِ مبارک آئے گا ،تشہد میں ”السّلامُ عَلیک ایہا النبی“ کہے گا اور پھر درود شریف میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اسم مبارک لے گا تو ان میں سے ہرموقعہ پر خیال مبارک ضرور آئے گا۔ اور آآکر ایمان کو تازہ کرتا رہے گا؛ اس لیے نامِ پاک پر خیالِ پاک کا روکنا تو فطرت کے خلاف ہے جس کی جرأت کوئی غبی آدمی بھی نہیں کرسکتا ؛چہ جائے کہ کوئی عالم، اور علماء میں بھی مولانا شہید جیسا ذکی و جامع عالم اور عارف باللہ مبصر؛اس لیے یہ دعویٰ کرنا کہ مولانا نے نماز میں حضور کے خیا ل کو منع کردیا ہے ،یا خیال مبارک آنے پر نماز کے فساد کا حکم لگایاہے ،یا خیالِ سرکار کو ”معاذ اللہ“ جانوروں کے خیال سے بدتر کہا ہے محض افتراء ہے ؛نہ مولانا نے خیالِ نبوی سے منع کیا ،نہ اس کو مفسدِ نماز کہا ،بلکہ ”صرفِ ہمت“ کو منع کیا ہے ۔جس کی تشریح ابھی بیان کی جاچکی ہے۔
کس قدر جسارت کی بات ہے کہ کسی کے بھی کلام کو اورخصوصاً اہل علم و فضل و اہل اللہ کے کلام کو لفظاً یا معنیً بگاڑ کر عوام کو ان کے خلاف نفرت دلائی جائے اور بدظن بناکر مشتعل کیا جائے ۔انھیں یہ حدیث پیشِ نظر رکھنی چاہیے کہ ”مَنْ عَادیٰ لِیْ وَلِیًّا فَقَدْ آذَنْتُہُ بِالحَرْبِ“ ترجمہ: جو شخص میرے کسی ولی سے عداوت کرتا ہے میری طرف سے اس کو اعلانِ جنگ ہے۔ حق تعالیٰ ہدایت دے اور صراطِ مستقیم پر چلائے۔ آمین!
موجبِ حیرت یہ ہے کہ ان علماءِ حق نے اپنی عبارتوں سے اپنی مراد بار بار واضح کردی اور کسی نجی گفتگو یا شخصی مراسلت اور خط وکتابت سے نہیں بلکہ مطبوعہ کتابوں اور رسالوں سے اور بصورتِ اعلان و اشتہار اسے منظر عام پر بھی لاتے رہے ،ساتھ ہی یہ بھی کھول دیا کہ جو غلط مطلب ان کی عبارتوں سے لیا جارہا ہے وہ کبھی ان کے حاشیہٴ خیال میں بھی نہیں آیا، نہ وہ ان کا عقیدہ ہے نہ ان کے بزرگوں کا ہے بلکہ بعض اکابر نے عنوان بھی تبدیل کردیا کہ ابہام توہین یا تحریفِ مضمون کا شائبہ بھی باقی نہ رہے ،پھر بھی ان کی عبارتوں کو توڑ موڑ کر ان میں اپنا مطلب ڈالنا اور ڈالتے رہنااور اس پر مبنی کرکے باربار تکفیروں کی تجدید کرتے رہنا آخر کس طرح سنجیدہ قلوب میں جگہ پائے ہوئے ہے ،دیانت کا تقاضا تو یہ تھا کہ مراد واضح ہوجانے پر کھلا اعلان کیا جاتا کہ جہاں تک ان عبارتوں کا تعلق ہے مراد اور منشاء واضح ہوجانے کے بعد ہمیں مراد پر کوئی اعتراض باقی نہیں رہا ؛اس لیے ہم تکفیرسے رجوع کرتے ہیں ؛زیادہ سے زیادہ عنوان کے بارے میں یہ کہا جاسکتا تھا کہ اس مراد کے لیے یہ عنوان ہمارے نزدیک غلط اختیار کیا گیا ہے۔
سو جن حضرات نے عنوان بھی بدل دیا ان کے بارہ میں تو صاف دلی سے کہا جاتا کہ ان کے بارہ میں کوئی خلجان نہیں رہا ؛اس لیے اس مسئلہ کی حد تک اختلاف ختم ہوگیا۔
حیرت پر حیرت یہ ہے کہ ان بزرگوں نے اپنی جو مراد واضح فرمائی بریلوی حضرات ہی کے عقیدہ کے مطابق تھی، اس اتفاقِ مقصد کو تو کم سے کم سراہا جاتا اور کسی خلش کی بناء پر اس کا اظہار اطمینان کی گنجائش نہ تھی تو کم سے کم سکوت ہی اختیار کیا جاتا اور سوچا جاتا کہ جو بات ان حضرات نے ایضاحِ مراد کرتے ہوئے کہی ہے وہی جب ہمارا بھی عقیدہ ہے تو ہم کم سے کم خود اپنے عقیدہ کے خلاف زبان کیسے کھولیں؟ یا پھر اس اعلان کا ہلکے سے ہلکا درجہ اور وسعتِ صدر کا ایک اچھا مقام یہ تھا کہ ہمارا اور مسائل میں حضراتِ دیوبند سے اختلاف قائم ہے ؛مگر ان عبارتوں کی مراد کے بارے میں اب کوئی اشکال نہیں رہا؛ جب کہ ان کی مراد وہی واضح ہوئی جو خود ہمارا بھی عقیدہ ہے یا اس عقیدہ سے قریب تر ہے کہ یہ خود انھیں کے مسلک کی تائید ہوتی ؛لیکن نہ تو بیانِ مراد کو وقعت دی گئی، جب کہ متکلم کے کسی بھی کلام کا مطلب عقلاً و نقلاً وہی لیا جاتا ہے جس کی متکلم خود صراحت کرے، نہ توافقِ مسلک ہی کی کوئی قدر کی گئی جس میں خود ان کی بھی تقویت تھی اور نہ ہی اس وحدتِ مقصد سے وحدتِ ملت ہی کو کوئی اہمیت دی گئی ؛جب کہ اسلافِ ملت اور اتحاد ذات البین کے بارہ میں بکثرت شرعی تاکیدیں وارد شدہ ہیں۔ اور افتراق و تفرقہ کو حالقہ فرماکر اس سے ڈرایا گیا ہے؛ اس لیے اس کے سوا کوئی اور کیا سمجھے کہ ان حضرات کے یہاں اختلاف برائے اختلاف اور اس کی تجدید و تاسیس ہی پیش نظر ہے اور جان بوجھ کر ایک جماعت سے لوگوں کو بدظن بناکر اسے بدنام اور رسوا کرنا یا آزار پہنچانا ہی مطمحِ نظر ہے ۔اس سے اگر قلوب دکھ اور درد محسوس کریں تو کرسکتے ہیں ،لیکن ہم لوگ اگر یہ دکھ درد محسوس کریں تو اپنی کسی بدنامی یا رسوائی کے خیال سے نہیں ۔ہم چیز ہی کیا ہیں کہ اپنی کسی رسوائی یا بدنامی کا غم لے کر بیٹھیں اور خواہ مخواہ مدعی بنیں۔ مگر یہ خداساز واقعہ ہے کہ ان کی کوئی بدنامی اور رسوائی واقع بھی نہیں ہوئی اور نہ ہی انھیں کوئی آزار پہنچا؛ کیوں کہ اس پون صدی کے عرصہ میں جب سے یہ تکفیرو توہین کا بازار گرم ہوا، دیکھنے میں یہ آرہا ہے کہ یہ حضرات اربابِ عبارات ”لا یضرّہم من خالفہم ولا من خاذلہم“ کے صحیح مصداق ثابت ہوتے رہے اور ہوا یہ کہ انھیں کاتعلیمی سلسلہ عالم گیر ہوا اور مشرق و مغرب کے لوگوں نے ان سے کتاب و سنت کی سندیں لینے میں اپنی عزت محسوس کی۔انھوں نے ہی تبلیغی نظام قائم کیے اور یورپ، ایشیا، افریقہ اور امریکہ تک ان کی تبلیغی صدائیں پہنچیں؛ جن سے ہزاراں ہزار افراد دیندار اور تہجد گزار بنے۔ انھیں سے طریق اور بیع و ارشاد کے سلسلے ہند و بیرونِ ہند میں ہمہ گیر طریق پر پھیلے ؛جن سے ہزاروں کے نفوس کی اصلاح ہوئی اور لوگ چشتیت، قادریت، سہروردیت، اور نقشبندیت سے آشنا ہوئے۔ نہ انھوں نے کسی کو کافر بناکر اپنا مقام پیدا کرنے کی کوشش کی اور نہ ہی کسی کی تخریب پر اپنی تعمیر کا سنگِ بنیاد رکھا؛ اس لیے بدنامی کا حرف ان کے حق میں اپنا کوئی معنیٰ بھی پیدا نہ کرسکا، بلکہ ہر طرف حق تعالیٰ نے انھیں اپنے فضل و کرم سے نیک نام ہی رکھا اور اس نیک نامی کو مختلف دینی راستوں سے عالم گیر بنادیا۔
اس لیے ان تکفیروں اور زبردستی کے اتہامات سے نہ وہ اس لیے دل گیر ہیں کہ وہ رسوا ہوگئے، نہ اس لیے کہ انھیں کوئی آزار پہنچا؛ بلکہ یہ رنج و قلق مسلمانوں کے تفرقہ اور شیرازہ بکھرجانے اور بہت سے مسلم عوام اور سادہ لوح افراد کے صحیح علم اور سلفِ صالحین کے مسلک سے محروم کردیئے جانے پر ہے، جو درحقیقت پوری قوم کا ضرر ہے ،نیز اس بناء پر ہے کہ ہرجماعت میں کچھ نہ کچھ خوبیاں بھی ہوتی ہیں اور کم و بیش مخلصین بھی ہوتے ہیں؛لیکن افتراق کی نحوست سے ہرایک کی خوبی سے دوسرا محروم ہے ۔ساتھ ہی اس بناء پر بھی ہے کہ بریلوی ہوں یا دیوبندی ؛تمام بنیادی باتوں: اقرارِ توحید، عظمتِ نبوت، عظمتِ صحابہ، حنفیت، طریقت، سلاسل طریقت، اولیاء اللہ سے انسلاک ،سلسلہٴ بیعت و ارشاد، عقیدت و محبتِ اہل اللہ وغیرہ میں اشتراک کے باوجود اس قسم کے مزعومہ؛ بلکہ بتکلف آوردہ جزئیات کے ذریعہ افتراق بلکہ عناد آمیز فرقت اور بکرات ومرات اس کا احیاء و تجدید جہاں پوری قوم کا ضعف اور آزار ہے، وہیں وہ اعداء اللہ اور اعداءِ دین کے لیے سببِ تضحیک و استہزاء بھی بنا ہوا ہے، جس سے پوری قوم کے وقار او رعزت پر اثر پڑ رہا ہے۔
آج عوامی مناظروں کے چیلنج تو دیے جاتے ہیں اور دوسرے لفظوں میں عوام کو خواص پر مسلط تو کیا جارہا ہے، جس سے عوامی سطح پر فتنہ ابھرتا اور نکھرتا جارہا ہے اور نتیجہ میں عوام دین سے بیزار ہی ہوتے چلے جارہے ہیں، جنھیں اہل دین کے خلاف اشتعال دلاکر اکسایا جاتا ہے؛ لیکن یہ نہیں ہوتا جو ہونا چاہیے تھا کہ قوم کی مجموعی عزت و آبرو کی خاطر چند سنجیدہ علماء ان لوگوں کو بلائیں جن پر اعتراضات ہیں اور خودانھیں سے پوچھیں کہ وہ کس حد تک ان سے الگ ہیں اور کس حد تک شریکِ عقیدہ و عمل ہیں۔ مشترک حصے کو ”اساس“ قرار دے کر بقیہ کے لیے اگر اس میں کسی حجت کے سبب توافق نہ ہوسکے، حدود متعین کی جائیں جس سے کم سے کم منافرتِ باہمی اور تعصبات کی آگ تو دھیمی پڑچائے اور عوامی سطح کی اشتعال انگیزیاں کسی حد تک اعتدال پر آجائیں اور ایک دوسرے سے قریب ہوکر کسی باحجت گفت و شنید کا راستہ پڑجائے۔ تجربہ ہے کہ بہت سی بدظنیاں اور غلط فہمیاں جو بُعد سے پیدا ہوتی ہیں، قرب سے خود بخود ختم ہوجاتی ہیں۔ او روہ منافرت جاتی رہتی ہے جو افہام و تفہیم اور خیرجوئی سے ہمیشہ مانع رہی ہے، پھر بھی اگر اختلاف باقی رہتا ہے تو وہ حجت کا ہوتا ہے جو مضر نہیں۔
یہ چند سطریں ان مسائل کی نوعیت کے پیش نظر بے ساختہ زیر قلم آگئیں جو ممکن ہے کہ رفتارِ زمانہ کو دیکھتے ہوئے اس مضمون سے جوڑ نہ کھائیں۔ تاہم اس مضمون میں بسلسلہٴ مسائل جو کچھ عرض کیا گیا ہے اس کا مقصد بیانِ مسلک کے ساتھ ان اکابرِ مرحومین کی طرف سے دفاع ہے جو بے وجہ مطعون اور متہم کیے گئے ہیں۔ اور ان کی عبارتوں میں انھیں مجروح کرنے کے لیے ان کے خلاف مرادِ مطلب ان کے سرتھوپ دیا گیا ہے ،گویا ان کی مقدس علمی و عملی زندگیوں میں حرف زنی کے لیے جب کچھ نہ مل سکا، تو ان کی چند عبارتیں سامنے رکھ لی گئیں ہیں اور ان میں اپنا مفروضہ مطلب ڈال کر زبردستی ان کے سر تھوپاگیا ہے، جس سے وہ براء ت کا بار بار اعلان کرچکے ہیں؛ اس لیے وہ مظلوم ہیں او ران کی مدافعت قطعِ نظر اور وجوہِ خیر کے مظلوم کی حمایت اور ظلم کی مدافعت ہے۔
اس مضمون کے مقدمہ میں جو کچھ عرض کیا گیا ہے وہ بیانِ واقعہ اور پس منظر کے اظہار کے طور پر ہے کہ ا س کے بغیر ان مسائل کے نشو ونما کی تاریخ سامنے نہیں آسکتی تھی او ر رسائل کی تشفی بھی نہیں ہوسکتی تھی،جس نے سوال ہی تاریخی انداز پر کیا تھا۔
مضمون کے خاتمہ میں جو کچھ عرض کیا گیا ہے وہ دل سوزی اور اظہارِ درد کے طور پر عرض کیا گیا ہے، نہ طعن و تشنیع مقصود ہے نہ الجھنا یا الجھانا، اور نہ ہی مناظرانہ بحثوں یا ”رد و قدح“ کا سلسلہ چھیڑنا پیش نظر ہے، بلکہ نتیجہٴ بحث کے ساتھ صرف اپنے دل کی دردمندانہ آواز سنانا ہے۔ واللّٰہ علی ما نقول وکیل“
اس پر بھی اگر کوئی لفظ یا عنوان حضراتِ بریلی یا ان کے بزرگوں کے خلافِ شان آگیا ہو تو میں بصدق دل اس کی معافی چاہتا ہوں، نیت میں اس طرح کی کوئی آمیزش نہیں ہے۔ وباللّٰہ التوفیق!
محمد طیب غفرلہ
مہتمم دارالعلوم دیوبند