مفتی امانت علی قاسمی استاذ دار العلوم حیدرآباد
E-mail: aaliqasmi1985@gmail.com
Mob: 07207326738
ہندوستان میں جن تحریکات اور تنظیموں نے مسلمانوں کے ایمان و عقائد ، اسلامی قوانین اور اسلامی تہذیب و تمدن کی حفاظت کی ہے اور نازک حالات میں مسلمانوں میں جوش و ہمت ،عزم و استقامت اور فکر وتدبر پیدا کرنے کا فریضہ انجام دیا ہے اس میں ایک اہم نام مسلم پرسنل لا بورڈکا ہے ،جس نے مشکل حالات میں امت کی رہبری کی ، مسلمانوں کے عائلی مسائل کے تحفظ میں اپنا ذمہ دارانہ کردار ادا کیا اور مسلم قوم کی گرتی دیوار کو سنبھالا دے کر ان میں استحکام کی مضبوط کوشش کی ہے ،اس وقت جب کہ اسلام دشمن طاقتیں مسلم پرسنل لا کو ختم کرکے یکساں سول کوڈ نافذ کرنا چاہتی ہیں اور مسلمانوں کے ایمان و عمل اور عقیدہ و ضمیر کے درمیان سنگ گراں حائل کرنا چاہتی ہیں ،یہ ادارہ امت مسلمہ کی آبرو اور آرزوہے ،یہ سرمایہ ملت کا نگہبان اور بھنور میں پھنسی کشتی کا کھیون ہار ہے ،اس کی خدمات آزاد ہندوستان میں ناقابل فراموش ہیں ، ذیل میں مسلم پرسنل لا کے قیام ،پس منظر،تعارف اور خدمات کا سرسری جائزہ پیش کیا جاتا ہے ۔
قیام اور پس منظر
ہندوستان میں قدیم زمانے سے مسلمانوں کی حکومت قائم تھی اور اسلام اور مسلمانوں کو کسی قسم کے خطرات لاحق نہیں تھے ،مسلم حکمراں اگرچہ اسلام اور اسلامی احکام پر بہت زیادہ عمل پیرا نہیں تھے ؛لیکن ان کے مسلمان ہونے کی وجہ سے اسلامی قوانین کوتحفظ ضرور حاصل تھا ،برٹش گورنمنٹ کے قیام و استحکام کے بعد انہوں نے دھیرے دھیرے اسلامی قانون کو ختم کرنے کی کوشش کی چنانچہ ۱۸۶۶ءء میں اسلام کا قانون فوجداری ختم کیا گیا اس کے بعد قانون شہادت اور قانون معاہدات منسوخ کئے گئے اور نوبت معاشرتی وعائلی قوانین نکاح ،خلع ،طلاق ،میراث وغیرہ میں غور و فکر تک پہونچ گئی اس کے لئے حکومت برطانیہ نے رائل کمیشن (royal commission)مقرر کی اور اس کمیشن نے یہ رپورٹ پیش کی کہ معاشرتی قوانین میں تبدیلی براہ راست مذہبی امور میں مداخلت کے مترادف ہے جسے مسلمان کبھی برداشت نہیں کریں گے اور حکومت کے استحکام کو خطرہ لاحق ہوجائیگا ، چنانچہ انگریزوں نے یہ فیصلہ کیا کہ ان مسائل میں مسلمان قانون شریعت پر اور ہندو شاستر پر عمل کریں گے ۔
شریعت اپلیکیشن ایکٹ
اسی دوران ایک واقعہ یہ پیش آیا کہ ایک لڑکی نے اپنے باپ کی میراث کے لئے عدالت میں مقدمہ دائر کیا کہ میرے بھائی نے مجھے باپ کی میراث سے محروم کر دیا ہے جبکہ اسلام میں بہن کو بھائی کا نصف حصہ ملتا ہے اس پر بھائی نے عدالت میں بیان دیا کہ ہم نسلی طور پر فلاں ہندو قوم سے ہیں جس میں لڑکیوں کو باپ کی میراث میں حصہ نہیں ملتا ہے یہی رواج ہمارے خاندان میں چلا آرہا ہے ،برطانوی قانون میں رواج کو بڑی اہمیت حاصل تھی اس لئے لڑکے کے حق میں فیصلہ کر دیا گیا یہ فیصلہ اسلامی نقطہ نظر سے عورتوں کے ساتھ ظلم اور شریعت اسلامی میں بے جا ترمیم تھا اس لئے علماء اور دانشوروں نے مشترکہ جد و جہد کی اور اس فیصلے کے خلاف آواز بلند کیا ،قوم وملت کی سر آوردہ شخصیات کی متحدہ آواز کے سامنے حکومت کو جھکنا پڑا اور علما ومشائخ اور مفکرین قوم وملت کی مشترکہ کو ششوں سے ۱۹۳۷ءء میں شریعت ایپلیکیشن ایکٹ بنا جس کا حاصل یہ تھا کہ نکاح ،طلاق ،خلع ،ظہار ،مباراة،فسخ نکاح ،حق پرورش ،ولایت ،حق میراث ، وصیت ،ہبہ ، اور شفعہ سے متعلق معاملات میں اگر دونوں فریق مسلمان ہوں تو شریعت محمدی کے مطابق ان کا فیصلہ ہوگا خواہ عرف و رواج کچھ بھی ہو(قاضی مجاہد الاسلام قاسمی،مسلم پرسنل لا کا مسئلہ -تعارف و تجزیہ ،آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ ،نئی دہلی ،طبع اول ۱۹۹۳ء ،ص ۷)۔
آزاد ہندوستان میں پرسنل لا پر پہلا حملہ
شریعت اپلیکیشن ایکٹ ایک اہم اور دور رس نتائج کا حامل قانون تھا ،جو ہندوستان میں مسلمانوں کو پرسنل لا کا تحفظ فراہم کرتا تھا ،ملک کے آزاد ہونے کے بعد اس ملک کا دستور جمہوری قرار پایا اور دستور کے دفعہ ۲۵میں اس بات کی آزادی دی گئی کہ ہر شخص اورہر قوم و طبقہ کو مذہبی و تہذیبی آزادی ہوگی جب کہ د فعہ۲۶میں مذہبی و خیراتی ادارہ قائم کرنے اور چلانے کی آزادی دی گئی (بھارت کا آئین ، دفعہ ۲۵،۲۶،قومی قونسل برائے فروغ اردو زبان ، ص۵۲) ہندوستان کے دستور میں عقیدہ و ضمیر کی آزادی مسلم پرسنل لا کے تحفظ کی ضمانت دیتی ہے ،لیکن بد قسمتی سے ہندوستان کے رہنما اصول میں ایک دفعہ (دفعہ۴۴) یکساں سول کوڈ سے متعلق رکھی گئی اور دستور کے نفاذ کے کچھ ہی سالوں بعد یکساں سول کوڈ کی بات اٹھنے لگی ، چنانچہ ۱۹۵۰ءء میں ہندو کوڈ بل پیش کرتے ہوئے مرکزی وز یر مسٹر یائسکر نے کہا تھا کہ ہندو قوانین میں جو اصلا حات کی جارہی ہیں وہ مستقبل قریب میں ہندوستان کی تمام آبادی پر نافذ ہوں گی ، پھر ۱۹۶۳ء میں مرکزی حکومت نے باضابطہ ایک کمیشن مقرر کی جس کا مقصد یہ تھا کہ مسلم پرسنل لا میں سماجی اور معاشرتی حالات کے تحت مناسب اصلاح کی جائے بالفاظ دیگر یکساں سول کوڈ نافذ کیا جائے ، اس صورت حال نے علماء امت کو بے چین اور مضطرب کردیا تھا۔
متبنی بل
بالآخر ۱۹۷۲ء ئمیں متبنی بل پاس ہوا جس کے رو سے بلا تفریق مذہب وملت ،ملک کی تمام قوموں کے لئے متبنی کو اولاد کا درجہ دے دیا گیا اور منھ بولے بیٹے کو مرد و عورت کے ترکہ میں حقیقی بیٹے کی طرح وارث قرار دیا گیا، ظاہر ہے کہ یہ قانون نہ صرف اسلام کے خلاف تھا ؛بلکہ عقل وخرد کے بھی مغائر تھا ،کیوں کہ اولاد کا رشتہ ایسا نہیں ہے جو صرف زبان سے وجود میں آجائے ؛بلکہ یہ رشتہ خون اور نسب کی بنیاد پر وجود میں آتا ہے چنانچہ اس بل نے پورے ہندوستانی مسلمانوں کو بے چین کر دیا ۔یہ پرسنل لاپر پہلا حملاتھا اور یہیں سے یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی ابتدائی کوشش شروع ہوتی ہے، اس نازک اور مشکل حالات میں جس ادارہ اور تحریک نے سب سے پہلے قدم اٹھایا اور ہند وستان کی جس درد مند اور ہوش مند شخصیت نے سب سے آگے بڑھ کر اپنا رہنمائی کا فریضہ انجام دیاوہ امارت شرعیہ کے میر کارواں مولانا منت اللہ رحمانی تھے انہوں نے ۲۸ /جولائی ۱۹۶۳ئئکو انجمن اسلامیہ ہال پٹنہ میں ایک کنونشن منعقد کیا اور حکومت کو مسلم پرسنلا میں تبدیلی نہ کرنے کا سخت انتباہ دیا، اس سلسلے کی دوسری بڑی کوشش بر صغیر کی مشہور دینی درسگاہ اور ملت اسلامیہ کی بھر پور قیادت کرنے والی دینی تعلیم گاہ دارالعلوم دیوبند نے اپنے خداترس مہتمم حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب کی سرپرستی میں انجام دیا اور ایک موٴثر اجلاس دارالعلوم کے احاطے میں منعقد کیا گیا، اس اجلاس میں مولانا منت اللہ رحمانی نے حکومت کے بدلتے تیور اور مستقبل کے خطرات سے لوگوں کو واقف کرایا، اس اجلاس میں کئی اہم فیصلے بھی کئے گئے اس میں ایک فیصلہ یہ تھا کہ بمبئی میں ایک عظیم الشان کنونشن منعقد کیا جائے اس لئے کہ مسلم پرسنل لا کے خلاف مہاراشٹر کی اسمبلی میں کئ مرتبہ بل پاس کرانے کی کوشش کی گئی تھی وہاں کی اسمبلی میں تعدد ازداج کا بل بھی کئی مرتبہ پیش کیا جا چکا تھا اس لئے یہ طے ہوا کہ کعبہ بت خانہ میں ہی تعمیر کی جائے ،چنانچہ ۲۸ /دسمبر ۱۹۷۲ئئکو بمبئی کے مہارشٹر کالج میں ایک زبردست اور موٴثر کنونشن کا انعقاد ہوا جس میں ملک کے تمام مکاتب فکر کے علماء اور ملی دانشوروں ، سماجی کارکنوں اور ملک کے دستوراور قانون پر نظر رکھنے والے وکلاء اور ججوں نے ملی غیرت وحمیت اور عظیم اتحاد کا ثبوت دے کر اس اجلاس کو کامیاب بنایا، اسی اجلاس میں مسلم پرسنل لا بورڈ قیام کا فیصلہ کیا گیا اور حکومت سے متبنی بل سے مسلمانوں کو مستثنی کرنے کا مطالبہ کیا گیا ۔
مسلم پرسنل لا اور یکساں سول کوڈ کا مطلب
یہاں ضروری معلوم ہوتا ہے کہ مسلم پرسنل لا اور یکساں سول کوڈ کا مفہوم واضح کر دیا جائے تاکہ دونوں کے درمیان فرق اور پرسنل لا کی اہمیت اور یکساں سول کوڈکے نقصانات معلوم ہوجائیں مفکراسلام حضرت مولانا علی میاں ندوی صاحب مسلم پرسنل لا اور یکساں سول کوڈ کا تعارف کراتے ہوئے لکھتے
ملکی دستور سے تھوڑے بہت واقفیت رکھنے والے جانتے ہیں کہ ملک میں رائج قوانین کی دو اہم قسمیں ہیں سول کوڈ(CIVIL CODE)اور کریمنل کوڈ (CRIMINAL CODE)دوسری قسم کے اندر جرائم کی سزائیں اور بعض انتظامی امور آتے ہیں ،ظاہر ہے کہ اس قسم کے قوانین تمام اہل ملک کے لئے یکساں ہیں اس میں کسی نوعیت کی تفریق نسل اور مذہب کی بنیاد پر از روئے دستور نہیں کی گئی ہے پہلی قسم کے دائرے میں وہ قوانین آتے ہیں جن کا تعلق معاشرتی ،تمدنی اور معاملاتی مسائل سے ہیں اس قسم کے بیشتر قوانین بھی تمام اہل ملک کے لئے یکساں ہیں ،البتہ اس قسم کا ایک حصہ جسے پرسنل لا کہتے ہیں ملک کی بعض اقلیتوں کو جن میں مسلمان بھی ہیں ان کے مذاہب کے لحاظ سے کچھ خصوصی شعبوں میں الگ مذہبی قوانین پر عمل کرنے کا اختیار دیا گیا ہے اسی کو پرسنل لا کی آزادی کا نام دیا جاتا ہے اسی کے تحت مسلمانوں کو بھی یہ اختیار دیا گیا ہے کہ نکاح، طلاق ، ایلاء، ظہار، لعان ، خلع مبارات ،فسخ نکاح ،عدت ، نفقہ ، وراثت ، وصیت ، ہبہ ، ولایت ، رضاعت ، حضانت ،اور وقف سے متعلق مقدمات اگر سرکاری عدالت میں دائر کئے جائیں اور دونوں فریق مسلمان ہوں تو سرکاری عدالتیں اسلامی شریعت کے مطابق ہی مذکورہ معاملات میں فیصلہ کریں گی ،ان ہی قوانین کا مجموعہ مسلم پرسنل لا کہلاتا ہے ۔(مقدمہ مجموعہ قوانین اسلامی ص:۲۳)
مختصر الفاظ میں قاضی مجاہد الاسلام صاحب نے مسلم پرسنل لا کی یہ تعریف کی ہے
اللہ تعالی نے اپنی کتاب قرآن مجید اور اپنے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ جو قانون ہمیں عطا فرمایا ہے اس کے مختلف شعبے ہیں ان میں سے ایک شعبہ اس قانون کا ہے جو انسانی سماج اور معاشرہ سے متعلق ہے جس پر خاندانی نظام کی بنیاد ہے جو سماجی تعلقات کے اصول بتاتا ہے ،جس میں خاندان کے مختلف افراد کے حقوق اور انکی ذمہ داریوں کو متعین کیا ہے انہی قوانین کو آج عرب علماء قوانین احوال شخصیة یا اردو میں عائلی قوانین اور انگریزی میں پرسنل لا کہتے ہیں( مسلم پرسنل لا کا مسئلہ :تعارف و تجزیہ ص:۱۲)
مسلم پرسنل لا جس کا ذکر قرآن میں ہے اسے ختم کرکے ملک کے تمام شہریوں کے لئے ایک ہی معاشرتی قانون نافذ کرنا یکساں سول کوڈکہلاتا ہے ظاہر ہے کہ اگر یکساں سول کوڈ پر عمل ہوتا ہے تو قرآن کریم کی بہت سی آیتوں اور احادیث کے ایک ذخیرہ سے جبرا مسلمانوں کو محروم ہونا پڑے گا،مولانا علی میاں ندوینے لکھا ہے ایسی چالیس آیتیں اور سینکڑوں احادیث ہیں جس سے مسلمانوں کو دست بردار ہونا پڑ ے گا جب کہ مسلمان ایک آیت سے بھی دست بردار نہیں ہوسکتے ہیں اس لئے کہ یہ قانون خدائے وحدہ لاشریک لہ کا عطا کردہ تحفہ ہے اور خدائی قانون میں تبدیلی کا اختیار کسی انسانی گروہ کو نہیں دیا گیا ہے ۔
مسلم پرسنل لا کی اہمیت
یہیں سے مسلم پرسنل لا کی اہمیت بھی معلوم ہوجاتی ہے کہ مسلم پرسنل لا کا تحفظ در حقیقت قرآن کریم اور احادیث مبارکہ کا تحفظ ہے اور ادنی سے ادنی مسلمان ہر طرح کی تکلیف برداشت کرسکتا ہے، اپنی جان کا نذرانہ پیش کرسکتا ہے، لیکن قرآن کریم کی کسی آیت سے دستبردار نہیں ہو سکتا ہے ،مولانا قاضی مجاہد الاسلام صاحب مسلم پرسنل لاکی اہمیت کے تعلق سے لکھتے ہیں
آج مسلمانوں سے جس یونیفارم سول کوڈکا مطالبہ کیا جارہا ہے یہ قانون کس طرح کا ہوگا ؟اسپیشل میرج ایکٹ اور انڈین سیکشین ایکٹ کے تحت اس کی تصویر دیکھی جاسکتی ہے جس کے تحت بین المذاہب شادیاں ہوسکتی ہیں، اسپیشل میرج ایکٹ کے تحت نکاح کرنے والوں پر شریعت کا قانون میراث لاگونہیں ہوگا اسی طرح انڈین سیکشین ایکٹ کی پہلی دفعہ میں یہ بات کہی گئی ہے کہ ہر شخص کو وصیت کرنے کا حق ہوگا چاہے جس کے لئے وصیت کرے اور جتنی مقدار میں کرے ،لے پالک کے قانون سے مسلمانوں کو مستثنی کیا گیا ہے لیکن دوسری قوموں کے لئے یہی قانون نافذ ہے کہ متبنی کی حیثیت اصل اولاد کی ہوگی تو ظاہر ہے یکساں سول کوڈ میں بھی اسی طرح کی بات آئے گی ،ظاہر ہے کہ یہ تمام احکام قرآن کے صریح احکام کے خلاف ہیں اس لئے یکساں سول کوڈ ایک مسلمان کے لئے قطعا نا قابل قبول ہے ۔اور اس سے ان قوانین کا مطالبہ کرنا نہ صرف مذہب پرعمل کرنے کی آزادی میں مداخلت ہے، بلکہ ان کو عقیدہ و ضمیر کی آزادی سے بھی محروم کرنے کے مرادف ہے اور درحقیقت جمہوریت کا قتل اور ملک کے سیکولر کردار کو مسخ کردینے کی نہایت مذموم اور ناپسندیدہ کوشش ہے۔ ان سطور سے یہ بات سمجھی جاسکتی ہے کہ مسلم پرسنل لا کی کیا اہمیت ہے (مسلم پرسنل لا کا مسئلہ ،تعارف و تجزیہ ص۴۸)
مسلم پرسنل لا بورڈ کے اہداف و مقاصد
مسلم پرسنل لا کا تحفظ اور شریعت ایکٹ کے نفاذ کو باقی رکھنا اور اس کے لئے موٴثر تدابیر اختیار کرنا بورڈ کے اہم مقاصد میں شامل ہے، جو عدالتی فیصلے مسلم پرسنل لا کے خلاف ہیں انہیں ختم کرانا یا متابادل کے طور پر مسلمانوں کو ان سے مستثنی قرار دئے جانے کی جد جہد کرنا ، مسلم پرسنل لا میں نحفظ کے لئے بوقت ضرورت” مجلس عمل “بناناجس کے ذریعہ بورڈکے فیصلے پر عمل درآمد کرنے کی خاطر پورے ملک میں حکومت کے قواعدکے حدود کے اندر منظم مہم چلانا بورڈکے مقاصد میں سے ہے ،اس کے علاوہ مسلمانوں میں اصلاح معاشرہ کی کوششوں کو فروغ دینا اور مسلمانوں کے تمام فقہی مسلکوں اور تمام مکاتب فکر کے درمیان خیر سگالی اخوت اور باہمی اشتراک و تعاون کو فروغ دینا اور پرسنل لا کے بقاء و تحفظ کے مشترکہ مقاصدکو حاصل کرنے کے لئے ان کے درمیان ربط و اتحاد کو پروان چڑھانا بورڈ کے اہداف میں شامل ہے ۔(دستوراساسی ،آل انڈیامسلم پرسنل لا بورڈ نئی دہلی ، مرکزی دفتر مسلم پرسنل لا بورڈ ص:۷)
بورڈکے ارکان
مسلم پرسنل لا بورڈ کے ارکان کی تعداد ۲۵۱ ہوتی ہے جس میں تیس (۳۰)خواتین کو نمائندگی دی جاتی ہے اور اس بات کی کوشش کی جاتی ہے کہ مسلمانوں کے مختلف فقہی مسلکوں ، گروہوں اور فرقوں کے لوگوں کو شامل کیا جائے ، بورڈ کے ارکان تین قسم کے ہوتے ہیں ایک ارکان عاملہ جن کے ہاتھوں میں بورڈ کا پورا نظام تفویض ہوتا ہے ، یہی ارکان درحقیقت تمام قسم کے اختیارات کے مالک ہوتے ہیں ان کی تعداد بشمول عہدیداران کے اکیاون(۵۱)ہوتی ہے ان میں پینتیس (۳۵)بورڈ کے ارکان کے منتخب کردہ اور پندرہ (۱۵)صدر کے نامزد کردہ ہوتے ہیں ۔دوسری قسم ارکان تاسیسی کی ہے، ۱۹۷۲ء میں ممبئی اجلاس کے لئے جو اسٹیرنگ کمیٹی ((steering commiteeبنائی گئی تھی اس کے تمام ارکان ،ارکان تاسیسی ہیں اور ان کی خالی نشستوں پر جن کو مقرر کیا جاتا ہے ان کی حیثیت بھی ارکان تاسیسی کی طرح دوامی ہوتی ہے اور انہیں بھی وہی اختیارات ہوتے ہیں جو ارکان تاسیسی کو ہوتے ہیں،ان کی تعداد ایک سو دو(۱۰۲)ہے، تیسری قسم ارکان میقاتی کی ہے جن کا انتخاب ارکان تاسیسی کی میٹنگ میں ہوتا ہے ، بورڈ کی ویب سائٹ کے مطابق اس وقت ان کی تعداد ایک سو انچاس (۱۴۹)ہے اس کے علاوہ ملک کی نمائندہ شخصیات کی مدعو خصوصی کی حیثیت سے شرکت ہوتی ہے ۔
بورڈکے نظماء اور صدور
۱۹۷۳ئئمیں جب پرسنل لا کا قیام عمل میں آیا تو بااتفاق رائے حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحبکو پرسنل لا کا پہلا صدر اور حضرت مولانا منت اللہ صاحب رحمانی کو جنرل سکریٹری منتخب کیا گیا ۱۹۸۳ئئمیں حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب کی وفات ہوگئی اور ۲۸دسمبر ۱۹۸۳ئئکو چنئی کے اجلاس میں مفکر اسلام حضرت مولانا ابو الحسن علی ندوی صاحب کو بورڈ کی قیادت سپرد کردی گئی اور جب ۲۰۰۰ئئمیں مولانا علی میاں راہی دار البقاء ہو گئے تو ۲۳اپریل ۲۰۰۰ئئکو لکھنوء کے خصوصی اجلاس میں قاضی مجاہد الاسلام صاحب کو بورڈ کاتیسرا صدر منتخب کرلیا گیا اورقاضی صاحب کے انتقال کے بعد ۲۰۰۲ءء میں مولانا محمد رابع صاحب کا بورڈ کے چوتھے صدر کی حیثیت سے انتخاب عمل میں آیا جو اب تک اس منصب پر فائز ہیں ،۱۹۹۱ئئمیں بورڈ کے پہلے جنرل سکریٹری مولانا منت اللہ رحمانی کا انتقال ہوگیا اور ۸ /مئی۱۹۹۱ئئکو بورڈ کی عاملہ نے مولانا نظام الدین صاحب کو جنرل سکریٹری نامزد کیا جنہوں نے ایک طویل عرصے تک بورڈ کی خدمت کی اور اکتوبر ۲۰۱۵ئئمیں ان کا انتقال ہوگیا، ان کی جگہ۱۶/ اپریل ۲۰۱۶ئئکو دارالعلوم ندوة العلماء لکھنوء میں منعقد اجلاس عاملہ میں مفکر ملت مولاناسید ولی رحمانی صاحب کے کاندھوں پر یہ ذمہ داری ڈالی گئی ہے۔
بورڈ میں چوں کہ مختلف مکاتب فکر کو نمائندگی دی گئی ہے اس لئے مختلف حالات میں اور اوقات میں دیوبندی حلقے سے حضرت مولانا ابوالسعود صاحب ، بریلوی مکتب فکر سے مفتی برہان الحق جبل پوری ، مولانا مظفر حسین کچھوچھوی ، شیعہ مکتب فکر سے مولانا کلب عابد مجتہدی ، اہل حدیث مکتب فکر سے ڈاکٹر عبد الحفیظ سلفی ، مولانا مختار احمد ندوی ، جماعت اسلامی سے مولانا ابوللیث اصلاحی ، مولانا یوسف ، اور مولانا سراج الحسن صاحب بورڈ کے نائب صدر رہ چکے ہیں اس وقت حضرت مولانا سالم صاحب ، مولانا سید شاہ فخر الدین اشرف صاحب ، مولانا کلب صادق صاحب ، مولانا جلال الدین عمری صاحب اور مولانا کاکا سعید عمری صاحب بورڈ کے نائب صدر ہیں اس وقت جنرل سکریٹری کے ساتھ چار سکریٹر یز خدمات انجام دے رہے ہیں ، مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب ، مولانا فضل الرحیم مجددی صاحب ، مولانا عمرین محفوظ رحمانی صاحب اور جناب ظفر یاب جیلانی صاحب ۔
مسلم پرسنل لا بورڈکی خدمات
مسلم پرسنلا بورڈ نے مختلف جہتوں سے ملی و قومی خدمت کا فریضہ انجام دیا ہے بالخصوص پرسنل لاکے تحفظ و بقا ء کی جد و جہد میں ان کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے اسی طرح اصلاح معاشرہ کے سلسلے میں بورڈ کی خدمات لائق تحسین ہیں، ذیل میں بورڈ کی بعض اہم خدمات کامختصر تذکرہ کیا جاتا ہے ۔
۱۹۷۲ئئمیں راجیہ سبھا میں متبنی بل پاس ہوا اور وزیر قانون گوکھلے نے اعلان کیا کہ یہ یکساں شہری قانون کی حیثیت سے تمام شہریوں پر نافذ ہوگا ،اس مسودہ کو انہوں نے یکساں سول کوڈ کی طرف پہلا قدم قرار دیا ،یہ قانون اسلامی قانون وراثت اور نکاح کو بے اثر کردینے والاتھا بورڈنے حکومت سے مطالبہ کیا کہ مسلمانوں کو اس قانون سے مستثنی قرار دیا جائے اس بل کے خلاف بورڈ کی جد و جہد نے حکومت کو مجبور کیا کہ وہ اس قانون پر رائے عامہ حاصل کرنے کے لئے پارلیمنٹ کی جوائنٹ سلیکٹ کمیٹی کے حوالے کر دے بالآخر ۱۹/جولائی ۱۹۷۸ئئکو جنتا حکومت نے مسلمانوں کے متفقہ مطالبہ کو تسلیم کرتے ہوئے بل واپس لے لیا اور وزیرقانون نے پارلیمنٹ میں یہ اعلان کیا کہ اسلامی فقہ متبنی کو وراثتی حقوق نہیں دیتی ہے اس لئے اس بل کو واپس لیا جاتا ہے ،بعد میں ۱۹۸۰ئئمیں کانگریس نے دوبارہ اس بل کو پارلینٹ میں پیش کیا ،لیکن بورڈکی جد و حہد سے مسلمانوں کو قانون تبنیت سے مستثنی کر دیا گیا ۔
جون ۱۹۷۵ئئمیں وزیراعظم محترمہ اندرا گاندھی نے ایمرجنسی نافذ کردی ،اسی دوران سنجے گاندھی نے جبری نس بندی کی مہم چلائی ، اس تحریک کا خاص نشانہ مسلمان تھے ، ظلم و بربریت کا بازار گرم تھا کسی کو زبان کھولنے کی اجازت نہیں تھی ان حالات میں مولانا منت اللہ صاحب رحمانی نے دہلی میں مجلس عاملہ کا اجلاس بلایا اور جبری نس بندی کے خلاف تجویز منظور کی گئی ، پریس نے ان تجاویز کو شائع کرنے سے انکار کردیا تو بورڈنے پمفلٹ اور کتابچہ کی شکل میں شائع کرکے پورے ملک میں پہنچایا ۔
اکتوبر ۱۹۷۸ئئمیں الہ آباد ہائی کورٹ نے مساجد و مقابر کے سلسلے میں ایک فیصلہ سنایا اس کے تحت لکھنوٴ کی دو مسجدوں اور قبرستان نیز جے پور کی ایک مسجد کو وہاں کی کارپوریشن نے ایکوائر کر لیا اور مساجد و مقابر کی حرمت ختم کر دی بورڈ نے اس فیصلے سے ملک کو آگاہ کیا اور حکومت کے ذمہ داروں کو اس کے خلاف تجاویز او رٹیلی گرام بھیجنے کا مشورہ دیا، چنانچہ پورے ملک میں اس فیصلے کے خلاف اجتماعات ہوئے بالآخر یوپی اور راجستھان کے وزراء اعلی نے بورڈ کو لکھا کہ ضروری کاروائی کا حکم دے دیا گیا ہے اور سرکار کا مسجد ایکوائر کر نے کا کوئی ارادہ نہیں ہے بالآخرمسجدیں مسلمانوں کو واپس مل گئیں اور آئندہ کے لئے مداخلت کا دروازہ بند ہو گیا ۔
۱۹۸۵ئئمیں سپریم کورٹ کے جسٹس محمد احمد خان نے شاہ بانو کیس میں مطلقہ کے لئے تا حیات یا تا نکاح ثانی شوہر پرنفقہ لازم قرار دیا، بورڈ نے اس کا سخت نوٹس لیا اور پورے ملک میں تاریخ ساز تحریک چلائی اور ۳۰ /جولائی ۱۹۸۵ئئکو بورڈ کے صدر کی قیادت میں ایک وفد وزیر اعظم سے ملا ،بلکہ بورڈ نے اس سلسلے میں کئی بار نمائندگی کی او روزیر اعظم کو مطمئن کرنے کی کوشش کی بالآخر ۶/مئی ۱۹۸۶ئئکو حکومت نے مسلم مطلقہ قانون پاس کر کے سپریم کورٹ کے فیصلے کو رد کر دیا ،یہ بورڈ کی بڑی کامیابی تھی مگرافسوس کہ تعبیر کے نقائص کی وجہ سے یہ قانون سازی بے فائدہ رہی جس کی وجہ سے آج بھی عدالتوں سے مطلقہ کے نفقہ کا فیصلہ کیا جارہا ہے بورڈ کو موٴثر پیروی کے ذریعہ اس کو ختم کرنے کی کوشش کرنی چاہئے ۔
۱۹۸۰ئئمیں حکومت نے ایک بل پاس کیا جس کی رو سے اوقاف کی آمدنی پر بھی انکم ٹیکس کو لازم قرار دیا گیا ،مولانا منت اللہ رحمانی اور ڈاکٹر یوسف نجم الدین نے دہلی آکر فضا ہموار کی اور اندرا گاندھی سے مل کر اس بل کو ختم کرانے میں کامیابی حاصل کی ،اس کے علاوہ اوقاف کے سلسلے میں مسلم پرسنل لانے کافی جد وجہد کی ہے لیکن ابھی تک اوقاف کا مسئلہ مسلمانوں کے لئے بہت زیادہ مفید اور موٴثر نہیں ہوا ہے جس کے لئے بورڈ کو موٴثر نمائندگی کرنی ہوگی ۔
۱۹۸۶ئئمیں بابری مسجد کا تالا غلط طریقے سے کھولنے کے نتیجے میں مسجد میں کھلے عام پوجاپاٹ ہونے لگی اس وقت بورڈ نے ۳/دسمبر ۱۹۹۰ءء کو دہلی میں اپنی مجلس اعلی کا ایک اجلاس منعقد کیا اور یہ اعلان کیا کہ بابری مسجد نہ تو غصب شدہ زمین پر واقع ہے اور نہ ہی مندر توڑ کر اس کی جگہ مسجد بنائی گئی ہے ،یہ مسجد ہی ہے اس لئے نہ اسے منتقل کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی فروخت کیا جاسکتا ہے اورنہ منہدم کیا جا سکتا ہے اور آج تک بورڈ اپنے اس موقف پر قائم ہے اور اس کا مقدمہ سپریم کورٹ میں زیر بحث ہے ۔
۲۰۱۲ئئمیں انکم ٹیکس کی جگہ ”ڈائریکٹ ٹکسیز کوڈ بل “پیش کیا گیا جس میں یہ کہا گیا تھا کہ نان پروفٹ آرگنائزیشن پر ٹیکس نہیں لگے گا ظاہر ہے کہ مساجد و مدارس وغیر ہ اسی زمرہ میں آتے ہیں لیکن نان پروفٹ آرگنائزیشن کی تعریف یہ کی گئی کہ وہ ایک ذات اور ایک مذہب کے ماننے والوں کے لئے نہ بنایا گیا ہو اس لحاظ سے مدارس اور مساجد کو ٹیکس ادا کرنا پڑ سکتا تھا اور وہ بھی تیس (۳۰)فیصد لیکن بورڈ کی کوششوں سے یہ مجوزہ قانون نہیں بن سکا ۔یہاں یہ کہنا مناسب ہوگا کہ اگر چہ تنہابورڈ کی کوششوں سے اس طرح کے مسائل حل نہیں ہوتے ہیں بلکہ اس میں دوسری مسلم تنظیمیں اور بعض مسائل میں غیر مسلم تنظیموں کا بھی تعاون رہتا ہے اور سب کی مشترکہ کوشش سے کامیابی ملتی ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ بورڈ اس کے لئے جدو جہد کرتا ہے اور رائے عامہ ہموار کرتا ہے اس لئے بلا شبہ بورڈ ان خدمات کو اپنی کارکردگی میں شمار کرسکتاہے ۔
موجودہ حکومت میں اسکولوں میں سوریہ نمسکار اور یوگا کو لازم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور بعض صوبوں میں اس پر سختی بھی کی جارہی ہے کہیں تو اسے قانون کی شکل دینے کی کوشش کی جارہی ہے اور بعض جگہ تو لازم بھی کرددیا گیا تھا لیکن بورڈنے اس کا بروقت نوٹس لیا ، تحریک چلائی اور دوسری مذہبی اقلیتوں کو بھی اس جانب متوجہ کیا جس کا نتیجہ ہواکہ خود حکومت کو معذرت خواہانہ لہجہ اختیار کرنا پڑااور صوبا ئی حکومتوں نے اسکول سے لزوم کو ختم کرکے اسے اختیاری عمل قرار دیا ، جب کہ اس عمل کااختیاری طورپر سرکاری اسکولوں میں ہونا بھی مسلم بچوں کے لئے سم قاتل ہوسکتا ہے، اس لئے کہ بچے نقل کرنے کے عادی ہوتے ہیں اور اسکولی عمر میں بچوں میں عقائد کی پختگی نہیں ہوتی ہے اس لئے اسکول سے اس عمل کو مطلقا ختم کرانے کی جد و جہد کرانی چاہئے ۔
گزشتہ یوپی اے حکومت کے دور میں رائٹ ٹو ایجوکیشن قانون پاس ہوا جس کے تحت ہر بچے کو اسکول کی تعلیم دلانا ضروری قرار دیا گیا تھا اس قانون کی وجہ سے تمام دینی مدارس بند ہوجاتے اور غیر قانونی قرار پاتے اور مدارس کے ذمہ داران او ربچوں کے سرپر ستوں کی تعزیر ہوتی ان کو جیل بھی جانا پڑسکتا تھا ، بورڈ نے اس سلسلے میں بھی ملک گیر تحریک چلائی آخر کار حکومت نے قانون میں ترمیم کرکے دینی مدارس کو اس سے مستثنی قرار دیا ۔
اس کے علاوہ بورڈ نے مختلف مقامات میں اسلام کی صحیح ترجمانی کی ہے ،بورڈنے مختلف کمیٹی قائم کرکے اپنے دارئہ کار کو بہت وسیع کردیا ہے ، اصلاح معاشرہ کے لئے باقاعدہ ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جس کے تحت پورے ہندوستان میں پروگرام کرائے جاتے ہیں ،دارالقضاء کا نظام قائم کرکے مسلمانوں کو اپنے مسائل شرعی عدالتوں میں حل کرانے کی سفارش کی ہے ، مسلم اور غیر مسلم وکلاء او رقانون دانوں کو شریعت کے احکام اوراس کی حکمتوں سے واقف کرانے کے لئے تفہیم شریعت کمیٹی بنائی گئی ہے ۲۰۱۶ئئکے اجلاس کلکتہ میں خواتین ونگ قائم کیا گیا ہے ، ایک لیگل سیل کمیٹی ہے جس کا کام خلاف شریعت بننے والے قانون پر نظر رکھنا ہے ،اس کے علاوہ آثار قدیمہ کمیٹی ،بابری مسجد کمیٹی ،لازمی نکاح رجسٹریشن کمیٹی ، دین بچاوٴ دستور بچاوٴکمیٹی ، دارالاقضاء کمیٹی قابل ذکر ہے، بورڈ کے یہ خدمات واقعی قابل قدر اوربڑی اہمیت کے حامل ہیں ۔
مسلم پرسنلا کی مطبوعات
مسلم پرسنلا نے مختلف مواقع پر متعدد کتابوں او رکتابچوں کے ذریعہ مسئلہ کی صحیح نوعیت کو لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کی ہے مسلم پرسنلا بورڈ کی مطبوعات کی تعداد اکیاون(۵۱)ہیں بعض اہم مطبوعات کا یہاں تذکرہ کیا جاتا ہے
(۱)مسلم پرسنل لا/مولانا منت اللہ رحمانی (۲)متبنی بل ۱۹۷۲ء ایک جائزہ /مولانا منت اللہ رحمانی (۳)خاندانی منصوبہ بندی /مولانا منت اللہ رحمانی(۴)یونیفارم سول کوڈ /مولانا منت اللہ رحمانی(۵)مسلم پرسنلا کا مسئلہ: تعارف و تجزیہ /قاضی مجاہد الاسلام صاحب (۶)اسلامی پردہ کیا اور کیوں /ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی (۷)اسلام کا نظام میراث /مولانا عتیق الرحمان صاحب (۸)طلاق کے استعمال کا طریقہ /صغیر احمد رحمانی (۹)اصلاح معاشرہ /مولانا برہان الدین سنبھلی (۱۰) تعددازدواج حقیقت کے آئینہ میں /نورالحق رحمانی (۱۱)اسلام نے عورت کو کیا دیا ہے /مفتی فضیل الرحمن ہلال عثمانی (۱۲)امت مسلمہ کی دو امتیازی خصوصیات /مولانا سیدمحمد رابع حسنی صاحب ۔
حیدرآباد میں مسلم پرسنل لا بورڈ کا اجلاس
مسلم پرسنل لا بورڈ کے قیام و استحکام میں حید رآباد اور یہاں کے بزرگوں کی عظیم خدمات شامل ہیں ،حیدرآباد میں بورڈکے کئی کامیاب اجلاس ہو چکے ہیں، ۱۹۷۳ئئمیں بورڈ کا پہلااجلاس حید رآباد میں ہوا جس میں بورڈ کی تشکیل عمل میں آئی او رباقاعدہ دستور مرتب کیا گیا ، اس کے بعد بورڈ کا دوسرا اجلاس عام ۱۹۸۱ئئمیں ہو ا پھر تیسرا اجلاس ۲۰۰۲ئئمیں منعقد ہوا او ریہ چوتھا اجلاس اس وقت ۲۰۱۸ئئمیں منعقد ہورہا ہے اس کے علاوہ ۲۰۱۱ئئمیں عاملہ کا ایک کامیاب اجلاس دارالعلوم حید رآباد میں منعقد ہوچکا ہے،گویا کل پانچ اجلاس اب تک یہاں منعقد ہو چکے ہیں ،حیدرآباد کی جن شخصیات نے بورڈ کی بھر پور خدمت اور پرزور ترجمانی کا فریضہ انجام دیا ہے ان میں سے چند قابل ذکر نام یہ ہیں ،امیر ملت اسلامیہ حضرت مولاناحمید الدین عاقل حسامی ،مولانا رحیم الدین انصاری، ناظم دارالعلوم حیدرآباد ، مولانا سلیمان سکندر صاحب ، جناب بیرسٹر اسد الدین اویسی صاحب، ایم پی ، مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب، ناظم المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد ، اور عالی جناب عبد الرحیم قریشی صاحب ،موٴخر الذکر شخصیت بورڈ کے زبان اور ترجمان کہلاتے تھے آپ امیر شریعت مولانا منت اللہ صاحب رحمانی اور قاضی مجاہد الاسلام صاحب کے معتمد خاص تھے ، قانون میں مہارت کے ساتھ ساتھ ملی جذبہ بھی آپ کے اندر کوٹ کوٹ کر بھر ا ہوا تھا، آپ بورڈ کے سکریٹری او راسسٹنٹ جنرل سکریٹر ی کے عہدہ پر بھی فائز رہ چکے تھے ، خواتین میں ایک اہم نام ڈاکٹر اسماء زھرہ صاحبہ کا ہے جو بورڈ کی فعال اور متحرک رکن ہیں او راس وقت خواتین ونگ کی ذمہ دار بھی ہیں او رخواتین کی موٴثر نمائندگی کرتی ہیں ۔
اخیر میں دعا ہے کہ خدا ملت کے اس عظیم سرمایہ کی حفاظت فرمائے ، نظر بد سے بچائے ، اسے مزید فعال او رکارکرد بنائے ،اس شجرسایہ دار کو اور مضبوط او رتناور بنائے، اس کے ذریعہ مسلمانوں میں مسلکی تعصب کا خاتمہ ہو اس پلیٹ فارم کے ذریعہ پوری امت سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائے، خدا ان کے ذمہ داروں میں حوصلہ اور قوت عطاکرے اور یہ ادارہ ملت کی قیادت کا فریضہ یوں ہی انجام دیتا رہے۔