مولانا محمد اسرارالحق قاسمی
ذرائع ابلاغ کی یوں تو ہر دورمیں بڑی اہمیت رہی ہے،لیکن عہدِ حاضر میں اس کی اہمیت نسبتاً زیادہ دکھائی دیتی ہے۔ کیونکہ موجودہ زمانے میں ذرائع ابلاغ کا دائرہ وسیع ہوگیا ہے۔اخبارات ، رسائل وجرائد، ریڈیو، ٹی وی ،انٹرنیٹ ، موبائل وغیرہ کا اس دورمیں بہت زیادہ رواج ہے۔کچھ صدیوں پہلے ان آلات ووسائل کاوجود نہ تھا۔ اس لیے لوگ اپنی بات کو دوسروں تک پہنچانے کے لیے دوسرے ذرائع کا استعمال کرتے تھے، لیکن جن ذرائع کا بھی چند صدیوں قبل استعمال کیا جاتا تھا ، ان کی رفتار آج کے مقابلے میں بہت سست تھی۔مثال کے طورپر اپنی بات کہیں دور پہنچانے کے لیے خطو ط لکھے جاتے تھے، مگروہ کئی مہینوں میں پہنچتے تھے۔کتابوں کی اشاعت کی بھی موجودہ شکل نہ تھی۔مخطوطات سے کام چلا یاجاتاتھا۔ لیکن اب جیسے جیسے ٹیکنالوجی کے شعبے میں ترقی ہورہی ہے، ذرائع ابلاغ کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے اور رفتار بھی۔ چھاپے اگرچہ کئی صدی قبل وجود میں آچکے تھے، لیکن جو تکنیک فی زمانہ کتابوں کی اشاعت کے لیے استعمال کی جاتی ہے ،اس وقت اس کا تصور نہیں کیا جاسکتا تھا، اس لیے بڑی تیزی کے ساتھ کتابوں کی اشاعت بھی سامنے آرہی ہے۔ ماہانہ رسائل اور ہفت روزہ اخبارات کے علاوہ یومیہ اخبارات بڑی تعداد میں شائع ہوتے ہیں ۔ اور صبح سویرے لوگوں کے ہاتھوں تک پہنچ جاتے ہیں جب کہ ان میں رات کے نو بجے تک کی خبریں شائع کی جاتی ہیں۔کبھی دس بجے تک کی بھی خبریں شامل کرلی جاتی ہیں۔رات بھر میں اخبار چھپ بھی جاتا ہے، ٹرینوں ، گاڑیوں وغیرہ کے ذریعہ شہروں ، قصبوں اور گاؤں میں صبح ہوتے ہوتے لوگوں کے ہاتھوں تک پہنچ بھی جاتا ہے۔اتنی آسانی اور برق رفتاری کی ہی وجہ ہے کہ بڑی تعداد میں اخبارات مختلف زبانوں میں شائع ہورہے ہیں۔اپنی بات کو دوسروں تک پہنچانے کا اس سے بھی تیز ذریعہ ریڈیو ہے۔ جس پر براہ ِراست خبریں ، تقریریں نشر کی جاتی ہیں اور قرب و جوار اور دوردراز کے لوگ اپنے اپنے مقام سے انھیں سن لیتے ہیں۔ ریڈیوسے بھی زیادہ ٹی وی نے فی زمانہ شہرت ومقبولیت حاصل کی ہے۔آج گھر گھر ٹی وی ہے اور ٹی وی پر سینکڑوں بلکہ ہزاروں چینلز آتے ہیں ۔یہ چینل صرف اپنے علاقے یا ملک کے ہی نہیں ہوتے بلکہ دوسرے ملکوں اور علاقوں کے بھی ہوتے ہیں۔ٹی وی کے ذریعہ پوری دنیا کی خبریں سنی جاسکتی ہیں، مختلف قوموں کے حالات جانے جاسکتے ہیں۔ ریڈیو اور ٹی وی سے آگے انٹرنیٹ ہے ۔جس کے ذریعہ اپنے موضوع یا دلچسپی سے متعلق گھربیٹھے ہی ڈھیر سارا مواد حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اس کے ذریعہ بات بھی کی جاسکتی ہے ،اپنے پیغامات کو دوسروں تک بھی پہنچایا جاسکتا ہے۔موبائل نے آکر رابطہ کی رفتار کو بہت زیادہ آسان اور تیز کردیا ہے۔آج دنیا میں بیٹھے ہوئے کسی بھی شخص سے کہیں بھی رابطہ کرنے میں وقت نہیں لگتا ۔نہ ہی کمپیوٹر کے پاس جاکر انٹرنیٹ کے استعمال کی ضرورت ہے بلکہ موبائل میں موجود انٹرنیٹ کے توسط سے بآسانی لوگوں سے رابطہ کیا جاسکتاہے۔آناً فاناً لوگوں تک اپنی بات کو پہنچایاجاسکتاہے۔سوشل ویب سائٹوں نے لوگوں کے رابطے کے دائرے کو بہت زیادہ وسیع کردیا ہے۔موبائل میں واٹس ایپ نے ایک تہلکہ مچادیا ہے، آج کے دورمیں دوچار فیصد ہی لوگ ایسے نظرآتے ہیں جو واٹس ایپ کااستعمال نہ کررہے ہوں ، باقی سب واٹس ایپ استعمال کررہے ہیں۔اس ایپ کے ذریعہ اپنی بات کو دوسروں تک آناً فاناً پہنچانے کا سلسلہ جاری ہے ، اتنا ہی نہیں بلکہ اس کے ذریعہ فوٹوز اور ویڈیوزکا تبادلہ بھی کیا جارہاہے ۔ لوگوں نے واٹس ایپ پر اپنے گروپ بنائے ہوئے ہیں جن کے ذریعہ وہ اپنی بات کو دوسروں تک بہت جلد پہنچادیتے ہیں۔ ویڈیو ز کے ذریعہ اپنی بات کو پھیلانے کے لیے یوٹیو ب کا استعمال بڑے پیمانہ پر کیا جاتاہے ، جسے انٹرنیٹ کنیکٹڈ کمپیوٹر پر بھی دیکھا جاتاہے اور موبائل پر بھی ۔موبائل میں انٹرنیٹ کی سہولت کے بعد گویا انٹرنیٹ کی دنیا میں انقلاب آگیا ہے اور صارفین کی تعداد میں حیرت انگیز اضافہ ہوا ہے۔ چنانچہ اب لوگ جو ویڈیو ز یوٹیوب پراَپ لوڈ کرتے ہیں ، دیکھتے ہی دیکھتے اس کو ہزاروں لاکھوں لوگ دیکھ لیتے ہیں۔اگر ویڈیو عوام کی دلچسپی کی ہے تو پھر اسے دیکھنے والوں کی تعداد ملین اور بلین میں پہنچ جاتی ہے۔ مثال کے طورپر مشاعرے کی ویڈیوز کو اٹھاکر دیکھئے ۔ادھر مشاعرہ ختم ہوا اور ادھر اسے یوٹیوب پر اَ پ لوڈ کیا ، پھر دیکھنے والوں کا جو ہجوم لگا تو معلوم یہ ہوا کہ چند دنوں میں یوٹیوب کے ذریعہ مشاعرہ دوردراز کے لاکھوں لوگوں نے سن لیا ۔
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ موجودہ عہد ذرائع ابلاغ کا ہے ۔چنانچہ ذرائع ابلاغ پر جس کی جتنی گرفت ہے ، وہ اپنی بات ، نظریہ ، پیغام وغیرہ کو زیادہ دور اورزیادہ لوگوں تک پہنچانے میں کامیاب ہورہا ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ موجودہ عہد میں مسلمان ذرائع ابلاغ پر کتنی گرفت رکھتے ہیں اور کس قدر وہ اس کا استعمال دین کی اشاعت میں کر رہے ہیں؟حقیقت یہ ہے کہ مسلمان اس میدان میں دوسروں کے مقابلے میں بہت زیادہ پیچھے ہیں۔ذرائع ابلاغ کے تناظر میں مسلمانوں کی صورت حال کو جاننے کے لیے تین پہلومتعین کیے جاسکتے ہیں۔ایک یہ کہ فی زمانہ جو ذرائع ابلاغ ہیں ، مثلا اخبارات، ریڈیو، ٹیلی ویژن، انٹرنیٹ ، موبائل وغیرہ ، وہ مسلمانوں کی کس قدر گرفت میں ہیں یعنی مسلمان کس حد تک ا ن کے مالکان ہیں یا ان کی جڑوں تک رسائی رکھتے ہیں؟ دوسرے یہ کہ مسلمان ذرائع ابلاغ کا استعمال کن کاموں کے لیے کررہے ہیں، اور تیسرے یہ کہ آیا وہ دین اسلام کی اشاعت وتبلیغ کے لیے ذرائع ابلاغ کو استعمال کررہے ہیں یا نہیں؟
جہاں تک تعلق اس بات کا ہے کہ ذرائع ابلاغ کی جڑوں تک مسلمانوں کی کس قدر رسائی ہے ؟ تو اس سلسلے میں مسلمان نہایت پیچھے ہیں۔مسلمانوں کے پاس بڑے اخبارات نہیں ہیں، اخبارات کو مواد فراہم کرنے والی ایجنسیاں بھی نہیں ہیں ۔ یہاں وہ اخبار جو مسلمان شائع کررہے ہیں، ان کو نکالنے کے لیے انھیں دوسروں کی ایجنسیوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ تمام بین الاقوامی ایجنسیاں یہودیوں اور عیسائیوں کے قبضے میں ہیں۔ جو اخبارات بڑی تعداد میں شائع ہوتے ہیں ، ان کے مالکان دوسری قومیں کے افراد ہیں۔مثال کے طورپر ہندوستان سے نکلنے والے اخبارات میں زیادہ پڑھے جانے والے اخبارات ہندی اور انگریزی کے ہیں ،جن کے مالکان مسلمان نہیں ہیں۔پورے ہندوستان میں مسلمانوں کے پاس انگریزی کا کوئی بھی ایسا اخبار نظر نہیں آتا جو ٹائمز آف انڈیا، ہندوستان ٹائمز، ایشین ایج، دی ہندوکے مقابلے میں پیش کیاجاسکے ۔ایسے ہی ہندی اخباروں میں مسلمانوں کے پاس کوئی ایسا اخبار نہیں ہے جو نوبھارت ، ہندوستان، امر اجالا اور دینک جاگرن کی برابری کرتاہو، مسلمانوں کے پاس اردوکے اخبارات ہیں ، اور ان کا سرکولیشن بھی بہت محدود ہے۔ اس پر مزید ستم یہ کہ اردوکے یہ اخبارات ان ایجنسیوں کی خبروں پر منحصر ہیں جو مسلمانوں کی نہیں ہیں۔
اگر بات ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی کیجائے تو اس میدان میں بھی مسلمانوں کے پاس کچھ خاص قابلِ ذکر نظر نہیں آتا۔ان دنوں لوگ اخبارات ورسائل اور کتابوں سے زیادہ ٹی وی دیکھتے ہیں۔ گزشتہ دوتین دہائیوں میں ٹی وی نے بڑی ترقی کی ہے۔ پہلے بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی ہوتی تھی ، لیکن اب کلر ٹی وی ، پھر ایل سی ڈی اور اس کے بعد ایل ای ڈی، اگر چینلوں کی بات کی جائے تو چینلوں کی تعداد میں حیرت انگیز اضافہ ہوا ہے۔ یہ چینل ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی تگ ودوکرتے ہیں، مسلمانوں کے اول تو چینل دکھائی نہیں دیتے ، اور دوچار نظر بھی آتے ہیں تووہ غیر مقبول ہیں۔ انٹرنیٹ کی باگ ڈور وقت کے یہود ونصاری کے ہاتھوں میں ہے۔ بھلے ہی مسلمان انٹرنیٹ استعمال کرتے ہوں لیکن اس کی جڑوں تک مسلمانوں کی رسائی نہیں ہے۔ اسی طرح انٹرنیٹ پر بڑی بڑی ویب سائٹیں بھی مسلمانوں کی نہیں ہیں۔
اگر یہ سوال اٹھایا جائے کہ مسلمان ذرائع ابلاغ کا استعمال کرتے ہیں یا نہیں تو اس کا جواب اثبات میں دیا جاسکتا ہے ، مگر ان کا استعمال محدود ہے۔ جیساکہ ذرائع ابلاغ کے استعمال میں اخبارات ورسائل کا پڑھنا آتا ہے، کتابوں کا پڑھنا ، شائع کرنا وغیرہ آتا ہے۔ تجزیے بتاتے ہیں کہ مسلمان اخبارات دوسروں کے مقابلے میں کم ہی پڑھتے ہیں۔ایسے ہی کتابیں پڑھنے کا معاملہ ہے۔ کتابوں کے قارئین بھی مسلمانوں میں اتنے نہیں ہیں جتنا کہ وقت کا تقاضہ ہے۔ ہاں ٹی وی دیکھنے میں مسلمان کسی سے پیچھے نہیں ہیں ،لیکن ٹی وی چینلوں میں وہ کونسے چینلز دیکھتے ہیں، یہ ایک دوسرا سوال ہے اور اہم بھی ہے۔اگر محض تفریحی چینل دیکھے جارہے ہیں یا منفی تاثردینے والے چینلز دیکھے جارہے ہیں تو ان کے دیکھنے سے نہ دیکھنا بہتر ہے۔ مسلمانوں کی بڑی تعداد ایسے ہی چینل دیکھتی نظرآتی ہے۔اب رہی بات انٹرنیٹ اور موبائل کی تو مسلمان ان دونوں کے استعمال میں کسی سے پیچھے دکھائی نہیں دے رہے ہیں ، خوب موبائل کا استعمال کررہے ہیں ،خوب انٹرنیٹ کااستعمال کررہے ہیں لیکن یہاں بھی یہ سوال قائم ہوتا ہے کہ آیا وہ استعمال مفید کاموں کے لیے کیا جارہا ہے یا غیر مفید کاموں کے لیے کیا جارہا ہے ، تو اس بارے میں یہ بات تقریباً جگ ظاہر ہے کہ اس وقت انٹرنیٹ اور موبائل کازیادہ استعمال لایعنی باتوں اور چیزوں میں استعمال کیا جارہا ہے، اور مسلمان اس میں پیش پیش ہیں۔
سب سے اہم سوال یہ ہے کہ مسلمان ذرائع ابلاغ کا استعمال اسلام کی اشاعت وتبلیغ کے لیے کتنا کررہے ہیں ؟ یہ سوال اس لیے اہم ہے کہ آج جب کہ ایسے ذرائع موجود ہیں جن کے ذریعہ اپنی بات کو آناً فاناً دور تک پہنچا یاجاسکتا ہے تو پھر ان کا استعمال کرکے اسلام کی باتوں کو کیوں نہ پھیلا یاجائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حق کی بات کو لوگوں تک پہنچا یا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے تمام انبیانے تبلیغ کا کام کیا۔ آپ کے صحابہ نے تبلیغ دین کی ذمہ داری کو بخوبی نبھا یا۔
اسلام میں تبلیغِ دین کو بہت ہی اہم قرار دیا گیاہے اور اس کابڑا ثو اب بتایا گیا ہے۔ مسلمانوں کو اس دنیا میں مثبت کردار ادا کرنا ہے، لوگوں کو بتانا ہے کہ صحیح راستہ کیا ہے،کس طرح وہ حقیقی کامیابی سے ہمکنا ر ہوسکتے ہیں۔ قرآن میں مسلمانوں کے بارے میں کہا گیا : ”کنتم خیر امة اخرجت للناس تامرون بالمعروف وتنہون عن المنکر ۔اس آیت سے پتہ چلتا ہے کہ مسلمانوں کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ لوگوں کی رہبری کا کام انجام دیں ، لوگوں کو صحیح راستہ دکھائیں ۔آج پوری دنیا کے جوحالات ہیں ، جس طرح دنیا بدامنی کی شکار ہے اور جرائم کی آماجگاہ بنی ہوئی ہے،اس کا تقاضہ یہ ہے کہ امت مسلمہ اپنامثبت کردار اداکرتے ہوئے دنیا ئے انسانیت کوتباہی وبربادی سے بچانے کی کوشش کرے۔
اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتاکہ عہدِ حاضر میں برائیاں بہت زیادہ ہیں،بے شمار فتنے ہیں لیکن لوگوں تک اچھی بات کو پہنچانے کے لیے ذرائع بھی بہت زیادہ ہیں۔ بشرطیکہ ان کا استعمال اسی طرح کیا جائے ۔کیا ہی بہتر ہوتا کہ مسلمان ذرائع ابلاغ کا استعمال کرکے دین کی صحیح بات کو عوام الناس تک پہنچاتے ، ان مسلمانوں تک بھی جو دین سے دور ہوکر اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں مارتے پھر رہے ہیں، اور ان غیر مسلموں تک بھی جو ناواقفیت کی وجہ سے گناہوں اور جرائم کی دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں۔آج جب کہ ذرائع ابلاغ کا دور دورہ ہے، دنیا میں بے شمار انسان ایسے ہیں جو اسلام سے صحیح طورپر واقف ہی نہیں۔بہت سے لوگ اسلام کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے اور بہت سے لوگ جانتے ہیں تووہ باتیں جو معاندین اسلام نے اسلام کے خلاف بتائی ہیں۔سوال یہ ہے کہ اسلام کے بارے میں غیرمسلمین کو کون بتائے گا ؟ کون اسلام کی صحیح باتوں کو دنیا کے کونے کونے تک لے کر جائے گا ؟ظاہر سی بات ہے کہ یہ ذمہ داری مسلمانوں پر عائد ہوتی ہے۔یہ مسلمانوں کے لیے بہترین موقع ہے کہ وہ جدیدذرائع ابلاغ کا استعمال کرتے ہوئے دنیا کے گوشے گوشے تک اسلام کی بات کو پہنچادیں اور اس بات کی کوشش کریں کہ اسلام کی صحیح بات دنیا کے ایک ایک فرد تک پہنچ جائے۔یہ الگ بات ہے کہ کون اس کو قبول کرتا ہے اور کون قبول نہیں کرتا ہے۔ ہدایت دینا اللہ کا کام ہے ، بندوں کا کام صرف پہنچانا ہے۔مسلمانوں کو صرف دین کی بات پہنچانے کامکلف بنایا گیا ہے، کسی کو ہدایت دینے کا نہیں۔ ہاں یہ ضرور امید کی جاسکتی ہے کہ اگر اسلام کی صحیح باتیں لوگوں تک پہنچائی جائیں گی تو اس کا ضرور فائدہ ہوگا۔بہرکیف موجودہ دنیا کے موجودہ منظرنامہ میں مسلمانوں کو ذرائع ابلاغ کامثبت استعمال کرنا چاہئے اور ذرائع ابلاغ میں اپنا اثرورسوخ قائم کرنا چاہئے ۔ اس کے لیے جو مثبت طریقے ہوسکتے ہیں وہ اختیار کیے جائیں۔ ذرائع ابلاغ کے استعمال میں غیر اسلامی طریقوں کو اختیار نہ کیا جائے اور نہ ہی ایسی باتوں کی تشہیر کی جائے جو غیر اسلامی ہوں اور نہ ایسی چیزوں کو دیکھا اور دکھایاجائے جن کی اسلام اجازت نہیں دیتا۔