حضرت مولانا اعجاز احمد صاحب اعظمی علیہ الرحمہ
اب کچھ باتیں حضرات اساتذہ سے متعلق عرض کرنی ہیں ، ہمارے دور میں ہر کام تجارت بن گیا ہے ، جب تک مادی منفعت دکھائی نہیں دیتی ، آدمی حوصلہ اور شوق اپنے اندر نہیں پاتا ۔ انگریزوں کے دنیا میں پھیلاؤ کے جہاں اور بہت نقصانات ہوئے ہیں ، ایک بڑا نقصان یہ بھی ہوا ہے کہ ہرکام دنیاوی سود وزیاں کی ترازو پر تولاجانے لگا ہے ۔ تعلیم ہمارے نقطہ نظر سے ایک عظیم عبادت ہے ، یہ صاحب علم کے ذمہ ایک فریضہ ہے ، رسول اﷲ انے حسبةً ﷲ اپنی امت کو تعلیم دی ہے ، آپ نے اور تمام انبیاء نے بیک زبان یہ اعلان فرمایا تھا کہ:لَا اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْراً ِنْ أَجْرِیَ ِلَّا عَلَی اﷲِ میں تم سے کسی معاوضہ کا سوال نہیں کرتا ، میرا معاوضہ تو محض اﷲ کے اوپر ہے ، چنانچہ پوری اسلامی تاریخ گواہ ہے ، انگریزوں کے دورِ عروج سے پہلے کی تمام صدیاں گواہ ہیں کہ اساتذہ نے تعلیم کو کبھی تجارت نہیں سمجھا ، اسے عبادت ہی سمجھتے رہے ، اور عبادت کے طور پر یہ کام انجام دیتے رہے ، اس لئے اس عمل میں وہی تقدس پایا جاتا رہا جو عبادت میں ہوتا ہے ۔
پھر جب انگریزوں کے اثر سے یہ رجحان بدلا ، اور انھوں نے اس کو ایک تجارتی مشغلہ بنالیا تو یہ زہریلی ہوا مدرسوں میں بھی آئی ۔ اب اساتذہ اسے بجائے عبادت کے ذریعہ معاش سمجھنے لگے ہیں ۔ اور ظاہر ہے کہ عبادت کے تقاضے اور اس کے آثار کچھ اور ہوتے ہیں ، اور ذریعہ معاش اور تجارت کے تقاضے اور اثرات دوسرے ہوتے ہیں ۔ اس رجحان کا لازمی اثر یہ ہوا کہ علم دین کی حرمت وعظمت دلوں سے کم ہوگئی ۔ اب لوگوں میں بقدر تنخواہ پڑھانے کا رجحان پرورش پانے لگا ہے تنخواہ کم ہے ، تو کم پڑھاؤ ۔ اس رجحان کے پیدا ہونے سے طلبہ کے قلوب میں بھی اساتذہ کا وہ احترام اور وہ ادب باقی نہیں رہا جو فیضان علم کے لئے ناگزیر ہے ، تاہم اب بھی بعض اساتذہ ایسے مل جاتے ہیں جو خالص عبادت کے نقطۂ نظر سے معلمی کرتے ہیں ، تنخواہ کے بیش وکم پر اور اس کے جزئی حسابات پر ان کی نظر نہیں ہوتی ، اور علم دین کی رونق ایسے ہی برگزیدہ اساتذہ کے طفیل باقی ہے ، لیکن عام حال اس کے خلاف ہوگیا ہے ۔
اساتذہ معلم خیر ہیں ، ان کادرجہ اﷲکے نزدیک بھی اور بندوں کے نزدیک بھی بہت اونچا ہے،انھیں دنیاوی اغراض کی آلائشوں سے پاک ہونا چاہئے ۔ روزی عطا فرمانے والی ہستی اﷲ تعالیٰ کی ہے ، ان پر توکل کا سرمایہ ، ہر معاوضہ اور قیمت سے بڑھ کر ہے ۔ اساتذہ تعلیم کے میدان میں قدم رکھیں تو اپنی نیت کا احتساب ضرور کریں۔ اس سے کام مین عمدگی اور برکت ہوگی ۔ مدرسہ سے جو کچھ بصورت تنخواہ ملے ، اسے اپنے کام کا معاوضہ نہیں ، بلکہ حق تعالیٰ کی طرف سے عطیہ اور نوازش سمجھیں ، یہ مسلّم ہے کہ عربی مدارس کی تنخواہ آج کے متوسط معیار زندگی بلکہ ادنیٰ معیارِ زندگی کو بھی پورا کرنے والی نہیں ہے ، لیکن تنخواہ حاجت روا نہیں ہے ۔ اﷲ تعالیٰ سے بالحاحِ تمام ہمیشہ دعا میں مشغول رہیں ۔ سب ضرورتیں غیب سے پوری ہوتی رہیں گی ۔
میں تو اپنے عزیزوں سے کہتا ہوں کہ تنخواہ بڑھانے کی درخواست کبھی مت دو جو کچھ درخواست کرنی ہواﷲکے حضور کرو ، یہی در وہ در ہے جہاں سوال کرنے سے آبرو نہیں جاتی ، بلکہ بڑھ جاتی ہے ۔
پھر تعلیم دینے میں اس کا خاص لحاظ رکھیں کہ مدرسہ کی جانب سے جو اوقات درس کے لئے مقرر ہیں اور جو نصاب متعین ہے ، اس میں کوئی کمی نہ کی جائے سبق میں ناغہ نہ ہونے دیں ۔ سبق کا مطالعہ اہتمام سے کریں اور اس طرح اسباق کی مقدار متعین کریں کہ وقت مقررہ میں نصاب پورا ہوجائے ۔ نہ تعلیمی وقت سے خارج میں پڑھانے کی نوبت آئے اور نہ سبق کی مقدار ناقابل برداشت حد تک بڑھانی پڑے ۔ بعض اساتذہ شروع میں اسباق کا ناغہ کرتے ہیں یا لمبی لمبی تقریریں کرکے سبق کی مقدار گھٹادیتے ہیں ، پھر آخرمیں خارجی اوقات میں پڑھاتے ہیں ۔ اس سے طلبہ کو تکرار ومذاکرہ کا موقع نہیں ملتا ، اور ان کی استعداد فاسد ہوکررہ جاتی ہے ۔
اساتذہ کرام اپنے طالب علموں اور تلامذہ کیلئے معیار ہوتے ہیں ، ان کی صحبت میں دن او ررات یہ رہتے ہیں اور انھیں کے اثرات یہ قبول کرتے ہیں ، اس لئے اساتذہ ہی وہ نمونہ قائم کریں ، جو قابل تقلید ہو ، اساتذہ اگر حرص مال اورجب جاہ میں گرفتار ہوں گے ، تو طلبہ بھی اس میں ملوث ہوں گے ، مدرسوں میں بعض اوقات یہ منظر دیکھنے میں آتا ہے کہ اساتذہ باہم حسد میں مبتلا ہوتے ہیں ، جس کی وجہ سے ایک دوسرے کی تحقیر کرتے ہیں ، باہم تنقیدیں کرتے ہیں ، طلبہ کی نگاہ میں ان کی وقعت کم کرتے ہیں ، اس سے مدرسہ کا ماحول عجیب تشویش انگیز ہوجاتا ہے ، اور جذبۂ حصول علم سرد پڑجاتا ہے ۔ جذبۂ تحاسد بڑھتا چلاجاتا ہے ، اﷲ ہی جانتا ہے کہ حسدکی وجہ سے کتنی تباہیاں آتی ہیں ۔
طلبہ کو علم کا فیض پہونچانے کیلئے ضروری ہے کہ ان سے اتنا تعلق رکھا جائے کہ وہ اپنے سوالات کو اساتذہ سے حل کراسکیں ، لیکن انھیں اتنا بے تکلف نہ بنایا جائے کہ وہ جو چاہیں بے تکلف کہتے چلے جائیں ، اتنی بے تکلفی اور مقربیت کے بعد شکوہ شکایت کا دروازہ کھلتا ہے ، بے تحاشا بدگمانیاں پھیلتی ہیں ، حکایت وشکایت کا دروزہ اپنے اوپر بند رکھنا چاہئے ، اور کان اور دل کو مضبوط رکھنا چاہئے کہ ہر کس وناکس کی زبان سے حکایت وشکایت سن کر اسے باور نہ کرلیں اور نہ بدگمانی میں مبتلا ہوں ۔
استاذ طالب علم پر شفیق ومہربان ہوتا ہے ، اس شفقت ومہربانی کا تقاضا یہ ہے کہ اس کی استعداد اور صلاحیت قلبی کی ترقی میں کوشاں رہے ، استاذ اگر طالب علم سے صرف درس گاہ تک واسطہ رکھتا ہے تو وہ اس کا حق نہیں ادا کرتا ، تمام اساتذہ پر حق ہے کہ وہ طلبہ کی خیر خواہی میں ان پر روک ٹوک کرتے رہیں ، کسی نامناسب حالت میں دیکھیں تو انھیں مشفقانہ تنبیہ ونصیحت ضرور کریں ، یہ سوچ کر اعراض نہ کریں کہ یہ فلاں کی ذمہ داری ہے ، اساتذہ مناسب انداز میں تنبیہ ونصیحت کرتے رہیں تو اس کے دو فائدے نقد طاہر ہوتے ہیں ، اور وہ دونوں فوائد ایسے ہیں کہ براہ ِراست مدرسہ کے ماحول کو متاثر کرتے ہیں ۔ ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ طلبہ کو کسی نامناسب حرکت کی جرأت نہیں ہوتی ، اور اس طرح ماحول میں بھلائی پھیلتی اور برائی سمٹتی ہے ، دوسرا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اساتذہ کی وقعت وعظمت دل میں بیٹھ جاتی ہے ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر جو ایک خاص امر خدا وندی ہے ، اس کی یہ دونوں برکتیں بروقت ظاہر ہوتی ہیں ، البتہ یہ ضرور خیال رہے کہ تنبیہ ونصیحت میں خیر خواہی کے علاوہ اور کوئی جذبہ نہ ہو ، رسول اﷲ ا نے طالب علموں کے ساتھ خیر خواہی ومہربانی کی وصیت فرمائی ہے ۔
صحبت کی تاثیر ساری دنیا کو تسلیم ہے ، آدمی جس کی صحبت میں رہتا ہے ، شعوری اور غیر شعوری دونوں طرح اس سے متاثر ہوتا ہے ، بالخصوص جب عظمت وعقیدت کے ساتھ یہ صحبت ہو توتاثیر دو آتشہ ہوکاتی ہے ، طلبہ میں صرف اساتذہ کے اعمال ونظریات ہی موثر نہیں ہوتے ۔ ان کے احوال وکیفیات بھی موثر ہوتے ہیں ۔ اگر استاذ طالب علم کو علم کی راہ پر لگا نا چاہتا ہے تو وہ خود بھی اسی راہ پر لگا رہے ۔ اساتذہ جب محنت ومشقت سے مطالعۂ کتب اور تحریر وتصنیف میں لگے رہتے ہیں تو یہی ذوق طلبہ میں بھی عام ہونے لگتا ہے ، اور اساتذہ جب سیاست کرنے لگتے ہیں تو طلبہ کا رجحان بھی تعلیم سے برگشتہ ہونے لگتا ہے ۔
ایک خاص بات یہاں اور بھی ضروری ہے ، وہ یہ کہ عموماً مدرسوں میں اساتذہ ، اربابِ انتظام کے مقابلے میں ایک گروہ کی حیثیت اختیار کرلیتے ہیں ، کچھ تو واقعی غلطیاں ہوتی ہیں اور کچھ بدگمانیاں ہوتی ہیں۔ حضرات اہل انتطام کے لئے عرض کرچکا ہوں ، اساتذہ وملازمین سے یہ عرض کرنا ہے کہ وہ حتی الامکان اربابِ انتظام سے موافقت کا معاملہ رکھیں ، ان کے اقدامات پر اعتراض نہ کریں ۔ خواہ وہ ان کے نزدیک قابل اعتراض ہی ہوں ، کتنے مسائل ومعاملات ایسے ہوتے ہیں کہ ان کی نوک پلک کو انتظام کرنے والا ہی سمجھتا ہے ۔ ایسا بہت تجربہ ہوا کہ کسی انتظامی امر پر اعتراض کرنے والوں کو جب وہی انتظام سپرد کیا گیا تو انھوںنے بھی وہی کیا جس پر ان کو پہلے اعتراض تھا ۔ اساتذہ تعلیم میں لگیں ، انتظامی امور پر تنقید وتبصرہ بالکل نہ کریں ، یا بہت کم کریں ، آپس کی رائے زنی بسا اوقات مضر ثابت ہوتی ہے ، تنقید وتبصرہ جس کو شریعت کی ا صطلاح میں غیبت کہا جاتا ہے کوئی اچھی چیز نہیں ہے ، جس سے خیر کا ظہور ہو ، اساتذہ اورر منتظمین میں موافقت ہوگی ، تو باہم اعتماد ہوگا ، اور تعلیمی ماحول خوشگوار اور پُرسکون ہوگا ،
ہمارے زمانے میں مدارس کے اندر یہ بڑا روگ ہے کہ انتظام ایک الگ پارٹی ہے اور تعلیم ایک الگ پارٹی ہے ، اور دونوں ایک دوسرے سے بدگمان ہیں ، ایک دوسرے کی شکایت میں مبتلا ہیں ، نہ اس پارٹی کی ذہنیت اور زبان صاف ہے ، اور نہ اس پارٹی کی ، دونوں پارٹیاں گنہ گار ہوتی ہیں ، اور مدرسہ کاماحول بھی متعفن ہوتا ہے ۔ حضرات اساتذہ کرام بالخصوص درجاتِ عربی کے اساتذہ حضرات علماء ہوتے ہیں ، علماء کیلئے یہ بات ہرگز زیب نہیں دیتی کہ وہ قلب وزبان کے گناہ میں مسلسل مبتلارہیں ۔ اﷲ نے انھیں ایک بڑا منصب عطا فرمایا ہے ، اس کے حقوق کی رعایت بڑی ذمہ داری ہے ۔
غرض یہ ہے کہ مدرسہ کا ایسا ماحول بننا چاہئے جو اسلامی تعلیم کی عملی تفسیر ہو ،