دینی مدارس- ملک کے محافظ

رفیع الدین حنیف قاسمی، وادیٴ مصطفی ، شاہین نگر ، حیدرآباد۔
rafihaneef90@gmail.com
ہندوستان کے دینی مدراس کے تعلق سے وقتا فوقتا یہ افواہیں پھیلائی جاتی رہیں کہ دینی مدارس دہشت گردی کے اڈے ہیں اور خصوصا اس سے قبل ممبر آف پارلیمنٹ شاکشی مہاراج نے دینی مدارس کے حوالے سے جو زہر افشانی کی تھی اور دینی مدارس کے پسِ پردہ فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کا جو کارڈ کھیلا تھا، مذہبی درسگاہوں کو دہشت گردی کے اڈے قرار دیا تھااور اسی طرح لوجہاد کی اصطلاح گڑھ کر دینی مدارس کو بدنام کرنے کی جوسازش میرٹھ میں رچی گئی تھی، یا بردوان بم دھماکے آڑ میں دینی مدارس کو بدنام کرنے جو ہوا کھڑا کیا تھا، اسی طرح اس وقت ننگ دین، ننگ قوم، ، ننگ ملت ، بے ضمیر شیعہ وقف بورڈ چیرمین وسیم رضوی نے مودی کو خط لکھ کر یہ باورکرانے کی کوشش کی ہے کہ دینی مدارس دہشت گرد پیدا کرتے ہیں، مدرسے سے فارغ طلباء معاشرے میں کوئی فعال کردار ادا نہیں کررہے ہیں، ایسے میں یہ پوری کمیونٹی سماج کے لئے نقصاندہ ہیں، رضوی نے اس خط میں ستائیس نکتے دیئے ہیں، اور کہا ہے کہ زیادہ تر مدارس بیرونی ممالک کے فنڈنگ سے چلتے ہیں، ان تمام بیانات وواقعات کی کڑیوں کو جوڑ کر اسے موجودہ حکومت کے مدارس کے تعلق خفیہ سروے رپورٹ کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے جو دو سال قبل اس وقت کے وزیر داخلہ راج ناتھ سیکھ کی طرف سے آئی تھی، جس میں انہوں نے ہندوستانی مدارس کو اپنی خفیہ رپورٹ کی بنیاد پر دہشت گردی سے بری قرار دیا تھا، جس میں یہ کہاں گیا ہے کہ ہندوستانی مدارس جہادی سرگرمیوں میں ملوث نہیں، ہمیں اس سے کوئی مطلب نہیں بنگلہ دیشی مسلمان یا پاکستانی مسلمان جہادی سر گرمیوں میں ملوث ہیں یا نہیں؟،یا ان کے جہادی سرگرمیوں یا دہشت گردی میں ملوث ہونے کی اسباب وعوامل کیا ہوسکتے ہیں ؟ ہمیں تو بس اس سے سروکار ہے کہ ہندوستانی مدارس اسلامیہ نہ صرف یہ کہ جہادی سرگرمیوں میں ملوث نہیں اورنہ ہی وہاں دہشت گردی کی تعلیم دی جاتی ہے ؛ بلکہ یہ بھی حقیقت نہیں ؛ رضوی جیسے لوگ اس طرح بے تکی اور نکمی باتیں کرکے آر یس یس اور موجودہ حکومت کی قربت حاصل کرنا چاہتی ہیں، کتنے ہی دفعہ مدارس کے طلباء پر الزام لگایا گیا، لیکن ان پر الزام ثابت نہیں ہوسکا؛ ابھی ایک سال قبل دو دیوبند میں مقیم طلباء پر الزام لگایا گیا اورانہیں بری قرار دیا گیا، بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ مدارس اسلامیہ توپ وتفنگ اور رائفل اور ہتھیار کیا یہاں پربقول ایک مولانا کے ترکاری کاٹنے کے لئے صحیح سے چھری تک نہیں ہوتی ، ان پر اس طرح کا الزام میاں منہ مٹھو بننے کی بات ہے ، یہ مدارس نہ صرف دین ،اسلام کے محافظ ہیں؛بلکہ وطن اور ملک کے بھی محافظ ہیں ، مدارس دینیہ کے لئے صرف اس سرٹیفیکٹ کی ضرورت نہیں کہ وہاں جہادی سرگرمیاں انجام نہیں دی جاتیں ، وہاں دہشت گردی کی تعلیم نہیں دی جاتی ؛ بلکہ خفیہ رپورٹ کے نتیجہ اور جنگ آزادی میں مسلمانوں کے رول کے تناظر میں مدارس اسلامیہ حقیقی شبیہ کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے کہ مدارس اسلامیہ ملک کے محافظ ہیں ، یہی سے جنگِ آزادی کی لہریں چلیں، یہی بوریہ نشیں اور بقدر کفاف پر اکتفا کرنے والے علماء دین نے انگریزوں کا سینہ سپر ہو کر مقابلہ کیا، جانیں گنوائیں ، بندوق اور پستول اور توپ وتفنگ کی گھن گرج کے سامنے سینہ سپر کھڑے رہے ، جس میں سینکڑوں علماء کو سزائے موت دی گئی ، یا انہیں ملک سے جلاوطن کیاگیایا انہیں ملک دور جزیزوں میں ان کی ملک کی آزادی کی سرگرمیوں پر پابندی لگانے کے لئے قید وبند کی صعوبیتں جھیلنی پڑیں۔لیکن انہوں نے انگریزوں کے سامنے سرنگوں ہونا گوارہ نہیں کیا، ان علماء کی فہرست طویل ہے جنہوں نے انہیں مدارس سے فارغ ہو کر جنگِ آزادی میں بڑا رول ادا کیا تھامولانا محمد جعفر تھانیسری ،مولانا فضل حق خیر آبادی ،حاجی امداد اللہ ، شیخ الہند مولانا محمود الحسن ،مفتی کفایت اللہ ، شیخ الہند مولانا محمود الحسن ، مولاناحسین احمد مدنی ، مولانا عبید اللہ سندھی ، مولانا احمد علی لاہوری ،مولانا سعید احمد دہلوی ،عطا ء اللہ شاہ بخاری ، مولانا عبد الحلیم صدیقی ،مولانا شاہ عبد الرحیم رائپوری ، مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی ،مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی ، مولانا محمد علی جوہرمولانا شوکت علی، مولانا محمد میاں ،اور مولانا ابو الکلام وغیرہ ، ان میں اکثر مدارس کے فارغین ہی تھے ۔لیکن افسوس کی بات ہے کہ ابھی کچھ دن قبل مسلمان رہنماوٴں میں خصوصا جن کا ذکر آتا ہے ، مولانا ابو الکلام آزاد اور ذاکر حسین سابق صدر جمہوریہ کو ہندوستانی لیڈر شب سے ہٹانے کی کوشش کی گئی۔
لیکن افسوس اس وقت ہوتا ہے جب اہلِ وطن کی جانب سے انہیں مدارس اور انہیں مسلمانوں کو ملک دشمن یا ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا بے جا الزام لگایا جاتا ہے ، ایک طرف تو صورتِ حال یہ ہے کہ خود بی جے پی سے منسلک لیڈران اور ممبر انِ پارلمینٹ مسلمانوں پر طرح طرح کے الزام لگاتے ہیں ، مدارس میں لو جہاد کی تعلیم دینے کی بات کہی جاتی ہے ، یا انہیں دہشت گردی کے اڈے قرار دیا جاتا ہے اور دوسرے طرف صورتحال یہ ہوتی ہے کہ ملک کے وزیر داخلہ سے جب ”لوجہاد“ کے تعلق سے دریافت کیا جاتا ہے تو اس سے لاعلمی ظاہر کرتے ہیں ، پورے ملک میں ”لوجہاد“ کی اصطلاح گھڑ کر مسلمانوں کو ہراساں کیاجارہا ہے اور دوسری طرف وزیر داخلہ اس اصطلاح سے ہی نابلد ہیں ، ملک کے وزیر اعظم ہندوستانی مسلمانوں کے تعلق یہ کہتے ہیں کہ :ملک کامسلمان ملک کے لئے جیتا ہے اور ملک کے لئے مرتاہے او رددوسری طرف اسی پارٹی کے زعفرانی ذہنیت کے حامل لیڈران مسلمانوں کے تعلق سے زہر افشانی کرتے ہیں ، ان کو ملک دشمن قرار دیتے ہیں ، جب وزیراعظم اور وزیر داخلہ کی رپورٹ کے مطابق جو دو سال قبل جاری ہوئی تھی، اس میں ملک کے مسلمان ملک کا محافظ ، ملک کا وفادار ہے ، مداس اسلامیہ کسی قسم کی دہشت گردی میں ملوث نہیں تو پھر ان غلط بیان بازی کرنے والوں پر روک کیوں نہیں لگائی جاتی ؟ ان کی زبان کَسی کیوں نہیں جاتی؟ ان کی ان غلط بیان بازیوں کا نوٹس نہیں لیاجاتا؟ یا انہیں آئندہ اس طرح کی غلط بیان بازیوں میں ملوث ہونے سے متنبہ کیوں نہیں کیاجاتا؟ ۔
اس سے قبل بھی جب ہندوستان میں القاعدہ کی شاخ کی قیام کی بات کہی گئی تھی تو ملک کے تمام سربرآوردہ علماء اور قائدین نے اس کا سختی سے رد کیا تھاجن میں دہلی کے شاہی امام، کیرلا کے مولانا ابوبکر اور دیگر لوگ شامل تھے جنہوں نے یوں کہاتھا :ملک کا مسلمان یہ اچھی طرح جانتا ہے کہ ہمیں اس ملک میں کس طرح اپنے حقوق کی حفاظت کے ساتھ رہاجاسکتا ہے ، کسی بھی باہر کی القاعدہ یا دیگر تنظیموں کو ہمیں سبق دینے کی ضرورت نہیں ؟ ہمارا ملک ایک سیکولر ملک ہے ،جہاں ہر شخص کو اپنے مذہب پر عمل آواری کے تعلق سے آزادی حاصل ہے ،یہاں تمام مذاہب اور ذات پات کے لوگوں کو یکساں حقوق حاصل ہیں ، ہندوستان کے اپنے قوانین ہیں جن کی روشنی میں یہاں کے مسلمانوں کو اپنے مذہبی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے اور اس کے فروغ کے لئے کوشش کرنے کے تمام مواقع حاصل ہیں ، پھر کیوں کر ہندوستان کا مسلمان دہشت گردانہ کاروایوں میں ملوث ہوگا؟جب جان ، مال ، عزت وآبرو ہر قسم کے تحفظ ہمیں حاصل ہے، اگر کوئی جان ومال یا عزت وآبرو پر حملہ کرتا ہے تو اسے قانونی چارہ جوئی کا حق حاصل ہے کیوں دہشت گردانہ کاروایوں میں ملوث ہو کر جس میں بے جا جان واملاک اور بے قصوراور نہتے لوگوں کا خون خرابہ ہوتا ہے ملوث ہوجائے اور خود اپنی جان کو جوکھم میں ڈالنا ہے تو کیوں کر اس طرح کی غیر اسلامی سرگرمیوں میں ملوث ہویاجاسکتا ہے۔
اگر اس وقت حکومتِ وقت سنجیدہ ہے تو ان غلط بیان بازیوں پر روک لگانے کی ضرورت ہے جو ملک کے مختلف گوشوں میں آر یس یس ، بجرنگ دل یا ویشو ہند پریشد کے کارکنان پر جو اپنے منافرانہ بیان بازیوں کے ذریعہ ملک کی فضا کو زہر آلود کرنا چاہتے ہیں ، ملک کا چین وسکون غارت کرنا چاہتے ہیں ، آئے دن یوپی ، دہلی ، گجرات مہاراشٹر ، ہریانہ وغیرہ کے فساد زدہ علاقے اس کے منہ بولتا ثبوت ہیں ، حکومت ملک کے تئیں مخلص ہے تو ان واقعات کی صحیح تحقیق وچھان بین کے ذریعہ ان فسادات کے اصل رول ادا کرنے والوں کو کیفر دار تک پہنچانا چاہئے ، اگر فرقہ واریت اور مذہبی منافرت کا یہی حال رہتا ہے ، ہندو انتہا پسند تنظیموں کو ایسی چھوٹ دی جاتی ہے کہ وہ ہر جگہ فرقہ واریت اور منافرت کو ہوادیں تو پھر ملک کا مسلمان احساسِ عدمِ تحفظ میں مبتلا ہوجائے گا، اس لئے حکومت وقت کی ذمہ داری ہے فسادات زدہ علاقوں میں فساد میں ملوث لوگوں کو صحیح شواہد کی روشنی میں مخلصانہ اور سنجیدہ ذہنیت کے ان کا سخت نوٹس لے تو یہ چیز ملک کے حق میں اور ملک کی عوام کے حق میں بہتر ہوگی۔
آر یس یس، بجرنگ دل وغیرہ کے کارکنان جو ملک میں ”لوجہاد“ اور ”گاوٴ ہتھیا“ کے نام پر ہر طرف قتل وخون کا بازار گرم کئے ہیں، اخلاق سے لے افراز الاسلام اور راجمنڈری میں موٴذن فاروق پر مسجد میں حملہ کر کے شہید کرنا، یہ ہندو دہشت گردی کی طویل داستان ہے جس کی وجہ سے کئی لوگوں کو اپنے بچوں ، شوہر وں اور بھائیوں سے ہاتھ دھونا پڑا، اس قتل وغارت گردی کی طویل داستان جس کو وقتا فوقتا انجام دیا گیا جس میں محمد اخلاق، پہلو خان، حافظ جنید، عمر خان، پھر افروز الاسلام اور اخیر محمد فاروق موٴذن مسجد شامل ہیں، ان واقعات پر غور کرنے کی ضرورت ہے ، ہندو توا دہشت گرد کس قدر ملک کے امن وامان کو غارت کرنے پر تلے ہوئے ہیں، ان کا نوٹس لینے اور ان کے ہتھیار اور غیر قانونی نیزہ اور لاٹھی بازای ، تلوار بازی وغیرہ کا جائز ہ لینا ہے ، اگر ملک کے امن وامان کو باقی وبرقرار رکھنا ہے ۔
بہر حال مسلمانوں کے تعلق سے یا مدارس اسلامیہ کے تعلق سے جو غلط پروپیگنڈے پھیلائے جاتے ہیں ، اس کا سخت نوٹس لینے کی ضرورت ہے ، ہمیں ملک کی وفاداری کا سرٹیفکٹ دینے کی ضرورت نہیں ہے ، اس ملک کے ساتھ ہماری وفاداری کی گواہی ملک کے در ودیوار دیں گے ، آج بھی ، دہلی کا لال قلعہ ، آگرہ کا تاج محل، حیدرآباد کا چار مینار ، جگہ جگہ پھیلی عظیم تاریخی عمارتیں جس پر آج ساری دنیا کو فخر ہے ، ہمیں بھی فخر ہے ، یہ اس ملک کے باسی مسلمانوں کی دین ہیں ،جس ملک کی تعمیر میں ہم نے ہزاروں سال جتن کئے ، اس ملک کی بربادی کی نسبت مسلمانوں کی جانب کرنا یہ احسان فراموشی کی آخری حد ہوگی۔
سو بار سنوار ہے ہم نے اس ملک کے گیسوئے برہم کو
یہ اہلِ جنون کیا بتلائیں گے کیا ہم نے دیا ہے عالم کو

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے