محمدتبریز عالم حلیمی قاسمی
خادم تدریس دارالعلوم حیدرآباد وسابق معین المدرسین دارالعلوم دیوبند
Email: mtalam800@gmail.com
Mob: 07207326739
حضرت حجة الاسلام مولانا محمدقاسم نانوتوی رحمة اللہ علیہ(م:۱۲۴۸-۱۲۹۷ھ) کی پوری زندگی دو نسبتوں کے گرد گھومتی نظر آتی ہے: تصوف وطریقت جس کی وجہ سے انسان کا قال، حال سے بدل جاتا ہے اور دین کے ہر شعبہ میں ”استقامت“ نصیب ہوتی ہے اور دوسری نسبت اشاعت ِ اسلام کے ساتھ دفاعِ اسلام کی ذمہ داری کا ا حساس، جس کی و جہ سے ”توحید کی امانت“ کو امت تک پہنچانے کا جذبہٴ وافر پیدا ہوتا ہے، دارالعلوم دیوبند کا قیام در حقیقت مذکورہ دونوں نسبتوں کو امت تک پہنچانے کا ایک عنوان ہے، اِسی لیے حکمت ِ قاسمیہ کے ترجمان حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب نور اللہ مرقدہ(م:۱۴۰۳ھ مطابق۱۹۸۳ء)نے لکھا ہے کہ ”شاملی کا میدان اور دیوبند کا دارالعلوم ایک ہی سکے کے دورخ تھے“ حضرت حجة الاسلام نے ا پنی حیاتِ مستعار کے نو سال والدین کے زیر سایہ گذارے، آٹھ سال تعلیم وتربیت میں، آٹھ سال ذکر وشغل میں اور چوبیس سال ترقی ٴاسلام، دفاعِ اسلام اور ہر فتنے کے سیلاب پر بند لگانے، بدعات وخرافات کا چراغ گل کرنے، اسلام دشمن تحریکیں: عیسائیت، شیعیت، ہندومت اور آریہ سماج کی ہر زہ سرائیوں، موشگافیوں اور بے ہودہ عقلی اعتراضات کے معقولی اور دندان شکن جوابات دینے میں گذارے۔
حضرت حجة الاسلام نے نقل کے ساتھ عقل سے اور روایت کے ساتھ درایت سے اور معقولات کے ساتھ محسوسات کے ذریعہ جو دین کا دفاع کیا ہے اور ان کے عقلی اعتراضات کی دھجیاں اڑائی ہیں اور بے جا اتہامات کے قلعہ کو نہ صرف مسمار کیا؛ بلکہ اس کی بنیادوں کے پرخچے اڑادئیے، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان جوابات پر تجزیاتی نگاہ ڈالنے سے پہلے منقولات سے معقولات اور معقولات سے محسوسات تک کی تاریخ اور پس منظر پر اختصار کے ساتھ روشنی ڈالی جائے؛ تاکہ حضرت حجة الاسلام کے تجدیدی طرز ِفکر اور ا نفرادی طریقہٴ استدلال کا ا ندازہ کیا جاسکے؛ اور ان کے جوابات کی اہمیت، ضرورت، نزاکت، افادیت اور قدروقیمت معلوم کی جاسکے، اِس کے ساتھ ساتھ اُن ا سباب وعناصر کا جاننا بھی ناگزیر ہے جن کی وجہ سے معقولات ومحسوسات میں قلوب کو مسخر کرنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے اور جن کی وجہ سے عقل کی ہربات دین کے موافق ہوجاتی ہے جو ایمانی بصیرت اور احسانی کیفیت میں پختگی کا ذریعہ ہے۔
منقولات سے معقولات تک
ایمان خواہ اجمالی ہو یا تفصیلی اس کی بنیاد بصیرت وتحقیق پر ہونی چاہیے؛اِسی لیے دین میں عقل وبصیرت اور تدبر کی عظمت وفضیلت بیان کرکے گویا اس کی دعوت دی گئی ہے؛ ایمان واسلام کے اولین مخاطب صحابہٴ کرام اپنے صفاء ذہن، سلامتیٴ عقل وفطرت، قربِ عہدِ نبوت، فیضانِ صحبت ِنبوی، قلت ِ اختلاف اور براہِ راست صاحب ِ نبوت سے کلامِ نبوت سننے کی وجہ سے ا ول مرحلہ ہی میں نورِ بصیرت کے بلند مقام پر پہنچ جاتے تھے جو سارے دلائل اور بصیر توں کا نچوڑ تھا، انھیں ضرورت ہی نہیں پڑتی تھی کہ وہ نقل کے ساتھ مستقلا عقلی دلائل کی تفتیش میں پڑ کر منقول کو معقول پر منطبق کرنے کی فکر میں پڑیں؛ بلکہ وہ نقل ووحی ہی ان پر عقل ومعرفت کے سارے دروازے کھول دیتی تھی، اور اس کے ساتھ ساتھ زمانہٴ نبوت کے انوار وبرکات کی وجہ سے فتنہٴ تشکیک نے اپنا سر بھی نہیں ا بھارا تھا کہ صحابہٴ کرام منقول کو معقول پر منطبق کرنے کی دفاعی فکر میں مشغول ہوتے۔
زمانہٴ نبوت کا بُعد اور فتنہٴ تشکیک
لیکن جب زمانہٴ نبوت سے جوں جوں بُعد بڑھتا گیا، شکوک وشبہات کے فتنہ نے عقلِ نارسا کو سامنے رکھ کر، نقل ووحی کے راستوں میں مداخلت شروع کی ا ور ابتداء ً اِس فتنہ نے عقائد اور اصول وکلیاتِ دین کو نشانہ بنایا، اللہ نے اس کی تردید کے لیے اربابِ کلام کا طبقہ پیدا فرمایا، شیخ ابو الحسن اشعری اور شیخ ابو منصور ماتریدی جیسے ائمہ کلام آگے آئے ا ور انھوں نے وحی ٴالٰہی کی روشنی میں عقائد ومسائل کو عقلی لباس میں دنیا کے سامنے رکھا، جس کی وجہ سے ایمان والوں کے ایمانوں میں مزید بصیرت پیدا ہوئی۔
لیکن فتنہٴ تشکیک کی جڑیں بہر حال قائم ہوچکی تھیں جو قائم رہیں اور اب دشمنانِ اسلام نے عقائد واصول چھوڑ کر، اسلام کے عمومی مسائل پر حملہ کیا، اللہ نے اِس موقع پر اربابِ حکمت ومعرفت کو پیدا فرمایا اور امام رازی، غزالی، خطابی اور ابن عربی جیسے دانش ورانِ حکمت ِ دین کھڑے ہوئے اور انھوں نے حقائق ومصالح کو عقلی براہین سے مزین کرکے دنیا کے سامنے پیش کیا۔
لیکن یہ فتنہٴ تشکیک اب بھی بالکلیہ ختم نہیں ہوا، اب اس نے فروعی مسائل میں اپنے وہم وشک کا گدلاپانی بہانا شروع کیا جس سے مسائل فقہیہ میں ا نکار وتشکیک کے فتنہ کا آغاز ہوگیا، اِس موقع پر اربابِ فقہ آگے بڑھے اور انھوں نے فقہی فروعات میں جہاں نقول کے مآخذ پیش کیے وہیں عقلی دلائل کو بھی ان کے دوش بدوش لاکھڑا کیا، ہدایہ اور بدائع الصنائع جیسی لطیف کتابیں وجود میں آئیں، جنھوں نے یہ ثابت کردیا کہ پورے دینِ فطرت میں ”عقلِ کلی“ بطور ِروح کے دوڑی ہوئی ہے۔
عقلی مصالح بحیثیت ِفن
ان سب کے باوجود ابھی تک عقلی براہین، اسرارِ دین یا حکمت ِ اسلام کو مستقل فن کی صورت میں لانے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی،اِ س لیے اسرارِ دین، موضوعِ دین تو بن گیا، مگر فن نہیں بنا، آخر کار متأخرین میں حضرت الامام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی قدس سرہ (۱۱۱۴ھ-۱۱۷۶ھ )کا ظہور ہوا؛ جبکہ ہندوستان کے لیل ونہار بدل رہے تھے، الحاد ودہریت کا سیلاب آیا ہی چاہتا تھا اور عقل پرستی کی گھٹائیں دلوں پر چھارہی تھیں، حضرت شاہ صاحب نے یہ نتیجہ اخذ کرلیا کہ اسلام پر شکوک وشبہات کے لیے یہ عقلی اعتراضات فن کی صورت اختیار کرتے جارہے ہیں؛ چناں چہ شاہ صاحب نے اس کے دفعیہ کے لیے، دین کے سلسلے میں عقلی دلائل وبراہین کو ایک فن کی صورت میں مدون فرمایا اور اِس فن میں ایک جلیل القدر کتاب”حجة اللہ ا لبالغہ“ تصنیف فرمائی اور عقلی دلائل وبراہین کا ایک عظیم ذخیرہ مہیا فرمایا، اِس کتاب نے حقیقت یہ ہے کہ بندگانِ عقل کی کمر توڑدی۔
معقولات سے محسوسات تک
تیرھویں صدی میں جب کہ انگریز ہندوستان میں برسرِ اقتدار آگئے اور اپنے ساتھ ساتھ فلسفہٴ جدید اور سائنس کی ترقیات لے کر نمایاں ہوئے، اور سائنس نے مادہ کی ہزارہا سربستہ راز دنیا کے سامنے کھول کر رکھ دیے، جس کی وجہ سے دنیا مخفی اور پنہاں چیزوں کا مشاہدہ کرنے کی عادی ہوگئی اور دنیا عقلی نظریات اور معقولات سے گذر کر محسوسات ومشاہدات کی گرفت میں آگئی تو قدرتی طور سے پرانے نظریات میں انقلاب رونما ہوا، اب اس کے یہاں کوئی شرعی دعوی اس وقت تک قابلِ سماعت نہیں رہا جب تک کہ وہ معقولات کے ساتھ محسوس شواہد سے محسوس کرکے نہ پیش کیا جائے اور اِس طرح سے اسلامی حصار پر عقلی نظریات کے بجائے حسی مشاہدات سے حملے شروع ہوئے۔
اِس ضرورت کی تکمیل کے لیے حق تعالیٰ کی فیاض قدرت نے شمس الاسلام حجة اللہ فی الارض حضرت مولانا محمدقاسم نانوتوی قدس سرہ بانی ٴدارالعلوم دیوبند کو اس دور کے طبعیاتی رنگ کے امراض اور جراثیم کے معالجہ کے لیے بطور طبیب اور مصلحِ امت کے نمایاں فرمایا اور آپ نے اپنی تقریر اور تحریر کے ذریعہ ان بندگانِ سائنس ومشاہدات کے دماغوں کو انھیں کے مسلمات سے جھنجھوڑا اور منکرینِ اسلام کے عقلی اعتراضات کے جہاں خالص عقلی دلائل کی روشنی میں جوابات دئیے وہیں ان جوابات کو آج کے محسوسات اور حسی شواہد ونظائر سے مدلل فرمایا جو اُس دورکا اہم تقاضاتھا۔(۱)
حضرت نانوتوی کا مشن
حضرت حجة الاسلام نے منکرینِ اسلام کے عقلی اعتراضات کے جو جوابات دئیے اور ان کا کامیاب تعاقب کیا، در حقیقت یہ آپ کی زندگی کا اصل مقصد تھا؛ بلکہ اگر یہ کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا کہ جب دینِ اسلام کا تقاضہ ہوتا تھا تو آپ کے فضل وکمال پر جتنے حجابات پڑے رہتے تھے وہ یک بیک اٹھ جاتے تھے پھر شرعی جوابات کی ضرورت ہو یا عقلی: سب حاضر وہ بھی اِس طرح کہ احساسِ فضل وکمال او رہمہ دانی کے غرور سے تنی ہوئی گردنیں بھی آپ کے سامنے خم ہوجاتی تھیں، تاریخ اس کی شاہد ہے، مختلف ادیان سے مناظرے کے بعد حضرت حجة الاسلام نانوتوی کے تئیں حضرت مولانا یعقوب نانوتوی (م:۱۳۰۲ھ مطابق۱۸۸۴ء) کاتأثر پڑھیے۔
اب مجھے مولانا کی وفات قریب معلوم ہوتی ہے؛ کیوں کہ حق تعالیٰ نے ان سے جو کام لینا تھا وہ پورا ہوچکا اور وہ یہ تھا کہ تمام مذاہب کے جتھے میں اسلام کی ایک منادی ہوجائے اور اللہ تعالیٰ کی حجت بندوں پر پوری ہوجائے۔(۲)
حضرت نانوتوی کی دور رس نگاہیں
اوپر کے اقتباس سے یہ بات واضح ہوچکی کہ حضرت حجة الاسلام کی زندگی کا مشن کیا تھا،اِس کے ساتھ ساتھ تاریخ شاہد ہے کہ ان عقلی اعتراضات کے جوابات سے حضرت حجة الاسلام کا مقصدایسے رجالِ کارپیدا کرنا بھی تھاجواِس ملک میں اسلام کو درپیش خطروں کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنے آپ کووقف کرسکیں، اسلام کے تحفظ وبقاء اور دفاع کا جوش اور ولولہ ان کے دلوں میں ہو اور دفاعِ اسلام کی راہ میں ہر طرح کی جانی ومالی قربانیاں دینے کے لیے تیار ہوں؛ چنانچہ حضرت حجة الاسلام کی تحریرات نے آنے والی نسلوں کے لیے کتنی راہیں کھول دیں اور عقلیات کے تعلق سے کتنے کام ہوئے اور ہورہے ہیں، سب اسی تحریک ِقاسمی کی کڑیاں ہیں،حضرت نانوتوی نے ایک چراغ جلایا، جس سے نہ جانے کتنے چراغ جلے، بڑھے اور عالمِ اسلام کو روشن رکھا ورنہ غدر ۱۸۵۷ءء نے ہندوستان میں ساری بساط ہی الٹ دی تھی۔(۳)
حضرت نانوتوی کا علمی مقام
حضرت نانوتوی نے منکرینِ اسلام کے عقلی اعتراضات کے جو جوابات دیے ہیں ان میں تحقیقی نکات، تجزیاتی معلومات اور استدلالی لطائف اور مسکت طرزِ استدلال اور عام فہم مثالوں کا جو حسین سنگم ملتا ہے وہ انھیں کا حصہ ہے، معقولات ومحسوسات کے ذریعہ گفتگو کرنے والوں کی تعداد کم نہیں ہے؛ لیکن ایسے لوگ جن کی معقولیت کا جادو سرچڑھ کر بولے بہت کم ہیں، حضرت حجة الاسلام کو اِس میدان میں ”بانی“ کی حیثیت حاصل ہے،یہ ایک یقینی امر ہے کہ عقلیات کے مسلمات کے لیے نقلیات پر گرفت از حد ضروری ہے؛ اِسی لیے حضرت حجة الاسلام کا نظریہ تھا کہ عقل کی کوئی بات قرآن وحدیث کے خلاف نہیں ہونی چاہیے، حضرت حجة الاسلام کو نقلیات پر کتنی گرفت تھی، آپ کے جوابات کے بنیادی عناصر کیا تھے، بہتر ہے کہ اِس پس منظر کے لیے چند اقتباسات نقل کردیئے جائیں۔
سفینہٴ رحمانی فارسی زبان میں نثر کا نہایت عمدہ شاہ کار ہے، کتاب کے مولف نے حجة الاسلام کے تئیں جو کچھ لکھا وہ مبنی برحقیقت ہے،
بیشہٴ فضل وکمال کے شیر، گلزارِ عشقِ الہٰی کی خوشبو، بستانِ طریقت وشریعت کی شمع،آسمانِ حقیقت ومعرفت کے خورشید، عالم کامل اور جودوسخامیں رشک ِ حاتم جناب حضرت مولوی محمد قاسم صاحب(اللہ ان کی قبر منور فرمائے) قصبہٴ نانوتہ کے برگزیدہ علماء وفضلاء میں سے تھے، طرح طرح کے علوم کی منزلیں اور قسم قسم کے فنون کے رموز کے نشیب وفراز انھوں نے اپنی خداداد ہمت واستعداد سے کامل طور پر طَے کیے تھے، انھیں کانِ علوم اور مخزنِ فنون کہنا چاہیے․․․․․․․(۴)
حدائق الحنفیہ: حضراتِ علماء وفقہاءِ حنفیہ کااردو زبان میں نہایت مستند ومشہور تذکرہ ہے، مولف ِ کتاب نے حجة ا لاسلام کا ذکر یوں کیا ہے:
علامہ عصر، فہامہٴ دہر، فاضلِ متبحر، مناظر، مباحث، حسن التقریر، ذہین، معقولات کے گویا پتلے تھے، آپ لڑکپن ہی سے ذہین، طباع، بلند ہمت، تیز، وسیع حوصلہ، جفاکش اورجری تھے، مکتب میں اپنے ساتھیوں سے ہمیشہ اول رہتے تھے․․․․
آگے لکھتے ہیں:
اور اِس طرح مضامین بیان فرماتے ہیں کہ نہ کسی نے سنے، نہ سمجھے اور عجائب وغرائب تحقیقات ہر فن میں کرتے جس سے تطبیق اختلافات اور تحقیق ہر مسئلہ کی بیخ وبُن تک ہو، ہوجاتی تھی۔(۵)
شیخ العرب والعجم قطب الاقطاب حضرت حاجی امداد اللہ نورہ اللہ مرقدہ (م:۱۳۱۷ھ) جو حضرت حجة الاسلام کے پیرومرشد ہیں ان کا قولِ فیصل پڑھیئے، وہ لکھتے ہیں:
اللہ تعالیٰ اپنے بعض بندوں کو ایک لسان عطا فرماتا ہے؛ چناں چہ حضرت شمس تبریز کے واسطے مولانا رومی کو لسان بنایا تھا اور مجھ کو، مولانا قاسم لسان عطا ہوئے ہیں اور جو میرے قلب میں آتا ہے، مولوی صاحب اس کو بیان کردیتے ہیں۔(۶)
حضرت نانوتوی کی تصانیف میں جا بجا آپ کے محدثانہ ذوق اور رسوخ فی العلم کی جھلکیاں ملتی ہیں، آخر کچھ تو بات تھی کہ تحشیہٴ بخاری کی خدمت آپ کے سپرد کی گئی، حضرت حجة الاسلام کے تئیں مذکورہ بالا شہادتوں اور ان کی علمی وتحریری خدمات کا ا گر تجزیہ کرکے نتیجہ نکالا جائے تو کچھ یوں خلاصہ نکلتا ہے کہ آپ کے علم میں وسعت سے کہیں زیادہ ”عمق“ اور کمیت سے زیادہ ”کیفیت“ ہے، اگر چہ ان کی تصانیف کے صفحات کی تعداد کم ہو؛ لیکن علوم ومعارف کا جو فیضان ہے ان کے لیے صفحات ناکافی ہیں، ان تصانیف کی زبان اگر چہ عربی نہیں ہے؛ لیکن انداز ایسا کہ علماء یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ ان کے علوم ومعارف کسبی کم، وہبی زیادہ تھے اور تواضع، کسرِنفسی اور للہیت وخلوص کے مثال آپ تھے، حضرت حجة الاسلام کی وفات پر سرسید(۱۸۱۷ء تا۱۸۹۸ء )نے جو تعزیتی تحریر لکھی تھی اس کا ایک پیراگراف بطور دلیل کے پڑھیئے:
اس زمانہ میں سب لوگ تسلیم کرتے ہیں اور شاید وہ لوگ بھی جو ان سے بعض مسائل میں اختلاف کرتے تھے، تسلیم کرتے ہوں گے کہ مولوی محمد قاسم اِس دنیا میں بے مثل تھے، ان کا پایہ اس زمانہ میں شاید معلوماتِ علمی میں شاہ عبد العزیز سے کچھ کم ہو؛ اِلا اور تمام باتوں میں ان سے بڑھ کر تھا، مسکینی ، نیکی اور سادہ مزاجی میں اگر ان کا پایہ مولوی محمد اسحاق سے بڑھ کر نہ تھا تو کم بھی نہ تھا، در حقیقت فرشتہ سیرت اور ملکوتی خصلت کے شخص تھے۔(۷)
یہ چند اقتباسات اِس لیے گوارہ کیے گئے؛تاکہ یہ اندازہ لگایا جاسکے کہ معقولات ومحسوسات کا فن ایسا بھی نہیں ہے کہ ہر کس وناکس اس میں طبع آزمائی کرسکتا ہے؛ بلکہ عقلیات کے فن کے لیے -سچی بات یہ ہے کہ -جملہ اسلامی علوم وفنون پر مکمل دسترس کا ہونا امرِ ناگزیر ہے ورنہ بجائے عقل کو دین کے تابع کرنے کے، انسان دین کو عقل کے تابع بنا سکتا ہے، جس میں گمراہی کے خطرات یقینی ہیں، حضرت حجة الاسلام سے قدرت نے اول الذکر کام لیا جس کی وجہ سے انھیں جملہ علوم وفنون سے نوازا گیا اور عقلی اعتراضات کے جو جوابات امت کے سامنے آئے وہ اِس بات کے غماز ہیں کہ ان کا علم خدادادتھا، حاضر جوابی آپ کی فطرت کا حصہ تھی، علمِ کلام تو جیسے آپ کا خانہ زاد تھا؛ اسی صلاحیت کی وجہ سے حضرت اپنا نقطہ نگاہ مثالوں سے اتنا واضح فرمادیتے تھے کہ اہلِ علم کے علاوہ عوام وخواص بھی جوابات کی اہمیت اور اس کے وزن کو سمجھ جاتے تھے؛ چوں کہ تمثیلات روز مرہ کی زندگی کے حالات وکوائف سے پیش کی جاتی تھیں؛ اِس لیے ہر شخص کو اسے تسلیم کیے بغیر کوئی چارہ کار نہیں رہ جاتا تھا۔
مولانا نظام الدین اسیر ادروی لکھتے ہیں:
دشمنانِ اسلام: عیسائی اور آریہ نے جو جارحانہ اندازِ بیان اختیار کررکھا تھا، ان کا جواب وہی عالم بہتر طور پر دے سکتا تھا جو علمِ کلام سے خوب واقف ہو، خود حضرت نانوتوی نے اِسی حربہ سے کام لے کر ا دیانِ باطلہ کے بڑے بڑے مدعیانِ علم وفن کے ایسے پرخچے اڑائے کہ دوبارہ آپ کا سامنا کرنے کی ان میں ہمت نہ تھی، واقعات اس کے شاہد ہیں۔(۸)
اعتراضات وجوابات کی جھلکیاں
مذکورہ تمہیدات وتفصیلات کے بعد چند عقلی اعتراضات اور حضرت حجة الاسلام کی طرف سے دیے گئے جوابات کا تذکرہ مناسب ہے؛ تاکہ بصیرت کے ساتھ ان جوابات کی اہمیت کا اندازہ کیا جاسکے۔
(۱) گوشت خوری سے متعلق اعتراضات
(الف) ہندوٴں کا بڑا اعتراض یہ تھا کہ جانوروں کو ذبح کرنا اور ان کو بوٹی بوٹی کاٹنا ظلم ہے وہ اسے ”جیوہتیا“(جان مارنا) کہتے تھے، حضرت حجة الاسلام نے اس کے جواب میں ”تحفہٴ لحمیہ“ نامی ایک مختصر مگر جامع رسالہ لکھا اور عام فہم زبان میں یہ ثابت کیا کہ اسلامی طریقہٴ ذبح ظلم نہیں ہے، اگر جانوروں کا ذبح کرناظلم ہوتا تو ساری دنیا میں گوشت خوری عام نہ ہوتی، صرف ایک ہندو قوم کے کہنے سے یہ ظلم نہیں ہوسکتا اور اگر ذبح کرکے گوشت کھانا ظلم ہے تو جانوروں کی کھال کا جوتا پہننا، ان کی ہڈیاں اور دیگر اجزاء کا استعمال کرنا، جانوروں کو باندھ کر رکھنا، ان پر سواری کرنا، بوجھ لادنا، سرکشی کرنے پر مارنا، اس سے بڑا ظلم ہے، پھر حضرت حجة الاسلام نے عوام کی زبان میں محسوس طریقہ پر سمجھایا:
ہم پوچھتے ہیں کہ اگر کوئی بادشاہ کسی ادنیٰ سے نوکر کو کچھ میٹھائی یا روٹی وغیرہ عنایت کرے اور فرمائے کہ کھاوٴ اور وہ بایں خیال کہ اگر کھاوٴں گا تو یہ بادشاہ کی چیز ہے اس کی ہیئت بگڑ جائے گی، ٹکڑے ٹکڑے اور پارہ پارہ ہوکر خراب ہوجائے گی اور پیٹ میں جاکر کچھ کا کچھ بن جائے گا، انکار کردے اور نہ کھائے او رغنیمت سمجھ کر سر وآنکھوں پر نہ دھرے بلکہ الٹا پھیردے تو اس بادشاہ کو کیا اچھا معلوم ہوگا؟(۹)
(ب) آریوں کاایک اعتراض جانوروں کی حلت وحرمت کے سلسلہ میں تھا کہ اگر جانور دعا پڑھنے سے حلال ہوجاتے ہیں تو سب جانور حلال ہوسکتے ہیں اور اگر دعا پڑھنے سے حلال نہیں ہوتے توخود مراہوا جانور کیوں حلال نہیں سمجھتے مردہ جانوروں کو بھی کھانا چاہیے؟
حضرت حجة الاسلام نے پہلے اعتراض کو ا نھیں پر پلٹ دیا اور فرمایا: خلاصہ درجِ ذیل ہے:
مہا بھارت کی فصل سوم میں جو مرقوم ہے کہ جن جانوروں کے قتل کے وقت وید پڑھاجائے تو ان کا گوشت پاک ہے اور وہ انھیں لوگوں میں داخل ہے جس نے حیوانات کو ترک کر دیااور جن حیوانات کے قتل کے وقت وید نہ پڑھا جائے تو وہ روانہیں، پنڈت جی بتائیں اگر وید کی وجہ سے یہ وصف ہے تو سب ہی جانور حلال ہوسکتے ہیں اور اگر وید کی وجہ سے یہ وصف نہیں تو مردار کو حلال کیوں نہیں سمجھتے؟
حضرت حجة الاسلام نے دوسری شق کا جواب یوں دیا، الفاظ کی تبدیلی کے ساتھ خلاصہ پڑھئیے:
ہماری شریعت میں ذبح کے وقت جو دعا پڑھی جاتی ہے وہ بالذات موٴثر ہے جیسے سورج آئینہ کو روشن کردیتا ہے، اگر آفتاب نہ ہو توآئینہ روشن نہیں ہوسکتا؛ اِس لیے سورج موٴثر اور آئینہ متأثر، اسی طرح اللہ کا ذکر بوقتِ ذبح موٴثر ہے اور جانور متأثر ہوتا ہے، اگر موٴثر نہ پایا جائے یا متأثر میں تاثُّر کی صلاحیت نہیں ہے تو جانور حلال نہیں ہوسکتا، مردار جانور حرام ہوتا ہے اور حرام جانوروں میں متأثر ہونے کی صلاحیت نہیں؛ اِس لیے وہ حرام ہی رہتا ہے، دعا پڑھنے سے حلال نہیں ہوسکتا۔(۱۰)
(ج) ایک مرتبہ دیانند سرسوتی نے یہ کہا کہ گوشت کے اعتبار سے سارے جانور برابر ہیں جیسے گائے کا گوشت حلال ہے ویسے ہی خنزیر کا گوشت بھی حلال ہونا چاہیے اور اس نے مسلمانوں کو ہراساں کرنے کے لیے ایک شعر پڑھا #
”ماس ماس برابر جیسی گائے ویسی سور“
اِس کے جواب میں عموماً یہ لکھا جاتا ہے اور خود حضرت حجة الاسلام نے تحفہٴ لحمیہ میں لکھا بھی ہے کہ ناپاک جانوروں میں ان کی جِبلی خصوصیات کا اثر ہوتا ہے، جو لوگ خنزیر کھاتے ہیں ان میں خنزیر ہی جیسی برائیاں پیدا ہوجاتی ہیں؛ لیکن حضرت حجة ا لاسلام نے مذکورہ شعر کا برجستہ شعر پڑھ کر جواب دیا اور سب کو لاجواب کردیا فرمایا:
”عورت عورت برابر جیسی بیوی ویسی مادر“
یعنی اگر یہی فلسفہ ہے تو گھر کی عورتوں میں ماں، بہن اور بیوی کا فرق کیوں ہے جبکہ سب برابر ہیں۔(۱۱)
(۲) کیا استقبالِ قبلہ، قبلہ کی پرستش ہے؟
آریوں کا مسلمانوں پر یہ الزام تھا کہ دنیا کی سب سے بڑی بت پرست قوم مسلمان ہیں، کیوں کہ دنیا کے سارے مسلمان خانہٴ کعبہ کی پرستش کرتے ہیں اور اسی کے سامنے سجدہ کرتے ہیں؟
حضرت حجة الاسلام نے اِس ا عتراض کے جواب میں ”قبلہ نما“ نامی پوری کتاب لکھی، مولانا اسیر ادروی نے اس کتاب کے تعلق سے لکھا ہے:
حقیقت یہ ہے کہ یہ پوری بحث عام کتابی علم کی محدود روشنی میں ممکن ہی نہیں، کچھ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ کے قلب پر فیضانِ علمِ الہٰی کا ترشح ہورہا ہے اور وہ آنکھیں بند کئے ہوئے سارے حقائق کو دیکھ رہے ہیں، قلم، الفاظ وحروف کے نقوش بنانے میں مصروف ہے، خود حضرت نانوتوی کو بھی اس کا احساس تھا کہ یہ بلند مضامین فہمِ ا نسانی کی قوت ِ گرفت سے کچھ زیادہ ہی بلند ہیں۔(۱۲)
مذکورہ کتاب سے چند جوابات نقل کیے جاتے ہیں:
۱- دنیا جانتی ہے کہ مسلمان کعبہ کو بیت اللہ یعنی خدا کا گھر کہتے ہیں، کعبہ کو خدا نہیں کہتے، جب کوئی کسی کے گھر جاتا ہے تو مکان سے ملنے نہیں جاتا؛ بلکہ مکین سے ملنے جاتا ہے، اسی سے سلام کلام کرتا ہے، بادشاہ کے دربار میں جاتے ہیں تو شاہی محل کو سلام نہیں کرتے، بادشاہ کے سامنے جھکتے ہیں، زمین پر سجدہ ریز ہوجاتے ہیں؛ کیوں کہ بادشاہ ہی کی خوشنودی مطلوب ہوتی ہے، مسلمان بھی کعبہ نہیں، ربِ کعبہ کے سامنے جھکتا ہے، اسی کو سجدہ کرتا ہے اور ہندو تو اپنے بتوں کو خانہٴ خدا کبھی نہیں کہتے اور نہ سمجھتے ہیں؛ بلکہ اسی بت کو خدا کہتے ہیں۔
۲- اگر مسلمانوں کی عبادتوں میں کعبہ پرستی ہوتی تو جیسے بت پرستی کے وقت بتوں کا سامنے ہونا ضروری ہے ویسے ہی دیوارِ کعبہ کا سامنے ہونا بھی ضروری ہوتا؛ حال آں کہ ادائے نماز وحج کے لیے دیواروں کا ہونا شرط نہیں ہے۔
۳- اہلِ اسلام کعبہ کو اپنے حق میں مختارِ نفع وضرر نہیں سمجھتے؛ بلکہ حضرت محمد رسو ل اللہ کو کعبہ سے افضل سمجھتے ہیں، آپﷺ کے برابر نہ کوئی انسان ہوسکتا ہے، نہ فرشتہ، نہ عرش اور نہ کرسی، اس کے باوجود مسلمان حضورﷺ کی پرستش نہیں کرتے، اگر اللہ کے سوا کسی کی عبادت روا ہوتی تو حضورﷺ کی ہوتی، جب مسلمانوں نے ان کو بھی عبد ہی مانا معبود نہیں مانا تو خانہٴ کعبہ کو اپنا معبود کیسے مان سکتے ہیں جب کہ وہ حضورﷺ سے افضل بھی نہیں ہے اور بت پرست تو اپنے معبودوں کو مختارِ نفع وضرر اور عابدوں سے افضل سمجھتے ہیں۔ (۱۳)
یہ چند جوابات بطور مثال کے تھے ورنہ حضرت نے استقبالِ قبلہ کے سلسلے میں جو متکلمانہ گفتگو کی ہے اور معبود اور تجلی گاہِ معبود کو سمجھایا ہے وہ آپ ہی کا حصہ ہے، مولانا اسیر ادروی نے لکھا ہے:
اِس جواب میں آپ کے بحرِ علم کی طغیانی وتموج کا مشاہدہ ہوتا ہے، سینکڑوں تمثیلات، مشاہدات وتجربات، حقائقِ زندگی، روزمرہ کے واقعات کے شواہد سے اس کی وضاحت پھر اس کے نتائج، پھر ان سے استدلالات کا ایک طوفان خیز سیلاب ہے جو ۶۰ صفحات تک پھیلتا چلا گیا ہے، اصل بحث کتاب ہی میں دیکھی جاسکتی ہے، اس کی تلخیص اس لیے مشکل ہے کہ ترتیب ِ مقدمات اگر کئی صفحات تک چلی گئی ہے تو اس سے نتائج کی تفصیل کے لیے بیسیوں صفحات ایک دوسرے سے اس طرح مربوط ہیں کہ ان کو ٹکڑوں میں تقسیم کرکے سمجھایا نہیں جاسکتا۔(۱۴)
(۳) مُردوں کی تدفین بہتر ہے یا جلانا بہتر ہے؟
آریوں کا ایک اعتراض یہ تھا کہ مسلمان مُردوں کو زمین میں دفن کرکے اس کو ناپاک کرتے ہیں، اِس لیے مُردوں کو جلانا بہتر ہے جیسا کہ ہندو مذہب میں ہے؟
حضرت حجة الاسلام نے اِس کے دو جواب دیے:
۱- ہندو مذہب میں مُردوں کو جلایا جاتا ہے،اِس کی و جہ سے تو ہوا خراب ہوجاتی ہے اور اس ہوا سے بیماریاں پھیلتی ہیں،اِس لیے مُردوں کو دفن کرنا بہتر ہے۔
۲- اگر بوجہ ِناپاکی مُردوں کا زمین میں دفن کرنا ممنوع اور بوجہ ِبدبو زمین کا بچانا ضروری ہوگا تو پاخانہ، پیشاب سے زمینِ خداوندی کا آلودہ کردینا کیوں کر جائز ہوجائے گا؟ اِس لیے لازم یوں ہے کہ پنڈت جی اور ان کے مرید پاخانہ پیشاب کو زمین پر نہ گرنے دیا کریں، پاخانہ کو پَلے میں باندھ لیا کریں اور پیشاب کو برتنوں میں رکھ لیا کریں۔
آگے لکھتے ہیں:
کوئی پنڈت جی سے پوچھے دفن کرنے سے تو زمین سڑتی ہے اور ناپاک ہوتی ہے، پاخانہ پیشاب سے کون سا عطرِ گلاب ومشک زمین پر برستا ہے، یہاں تو نکلتے ہی دماغ پھٹنے لگتا ہے، زمین ناپاک ہوجاتی ہے،ہوا سڑجاتی، گھر گھر اور کوچہ کوچہ یہ بلائے عام جاں گزا ہوتی ہے، مردوں میں یہ بات کہاں؟
آگے مثال سے وضاحت کی ہے کہ آدمی مٹی سے پیدا ہوا ہے تو مرنے کے بعد مٹی میں دفن ہونا مقتضائے فطرت ہے، علاوہ بریں والد ِخیر اندیش اگر سفر کو جاتا ہے تو فرزند دلبند کو اس کی مادرِ مہربان کے حوالہ کرتا ہے، اس کی والدہ کی سوکن کو نہیں دیتا، اگر یہ ہے تو پھر مناسب یوں ہے کہ تنِ خاکی، حوالہٴ خاک کیا جائے، آتش کو نہ دیا جائے۔(۱۵)
(۴) نیند ناقض وضو کیوں ہے؟
ایک عیسائی پادری نے اعتراض کیا تھا کہ نیند سے وضو کیوں ٹوٹ جاتا ہے؟
اِس کا جواب عموماً یہ دیا جاتا ہے کہ نیند کے وقت اعصاب ڈھیلے پڑجاتے ہیں، جس کی وجہ سے گمانِ غالب یہ ہے کہ ریح نکل جائے، حضرت حجة الاسلام نے یہ مذکورہ جواب لکھ کر، مزید یہ لکھا:
اصل میں یادِ خداوندی موجب ِ روشنی وصفائی قلب ہے اور غفلت موجب ِ کدورت اصلی، اور ظاہر ہے کہ نیند کے وقت سے ز یادہ غفلت متصور نہیں، مگر جب کدورت ہوئی تو اثر ِ طہارت جو صفائی باطن تھا، کہاں رہا؟ اِس لیے یوں ہی کہنا پڑے گا کہ طہارت بھی چلتی ہوئی۔
اس کے بعد انبیاء اور عام آدمی کی نیند کا فرق آسان فہم انداز میں سورج گرہن اور چاند گرہن کی مثالوں سے واضح کیا جیسے سورج گرہن اور چاند گرہن: دونوں کو گرہن کہا جاتا ہے؛ مگر حقیقت کا فرق ہے، چاند کو گرہن ہو تو روشنی ختم ہوتی ہے اور سورج کو گرہن ہو تو روشنی ہم سے چھُپ جاتی ہے، اِسی طرح ہماری نیند میں ہوش وحواس ختم ہوجاتے ہیں؛ جبکہ حضرات انبیاءِ کرام کی نیند میں ہوش وحواس چھُپ جاتے ہیں۔(۱۶)
(۵) ایک عورت کے لیے متعدد مرد کیوں نہیں؟
اہلِ اسلام کے نزدیک عورتوں کا تعدُّد ایک مرد کے لیے روا ہے اور مَردوں کا تعدد ایک عورت کے لیے روا نہیں ہے، اِسی طرح جنت میں مردوں کو ایک سے زائد حوریں ملیں گی اور عورتوں کو ایک خاوند کے علاوہ دوسرا خاوند نہیں ملے گا، آریوں نے اِس فرق پر اعتراض کیا تھا، حضرت نے جواب لکھا:
۱- عورت اولاد کے حق میں ایسی ہے جیسے زمین پیداوار کے حق میں یعنی دنیا میں عورت کی حیثیت کھیتی کی ہے اور مرد کی حیثیت کھیت کے مالک کی ہے، ایک مالک مختلف زمینوں میں تخم ریزی کرکے فصل اگاتا ہے، اِسی طرح مرد کئی بیویوں سے استفادہ کرسکتا ہے،اِس میں عقلاً کوئی دشواری نہیں، اگر ایک عورت چند مردوں میں مشترک ہو تو ہر کسی کو ایک و قت قضائے حاجت کی ضرورت پیش آئے تو اندیشہٴ فساد وعناد ہے، اِسی طرح ایک بیوی سے متعدد شوہروں کی مشترکہ اولاد ہو تو اولاد کی تقسیم بذات خود باعث ِفساد ہوگی، اِس سے سارا نظامِ عالم درہم برہم ہوجائے گا۔
۲- جنت انعام کی جگہ ہے اور انعام میں راحت کے سامان اور اعزاز واکرام کے اسباب دیے جاتے ہیں، رنج وکلفت کے اسباب نہیں دیے جاتے، مرد کے لیے تو تعددِ ازواج، اعزاز واکرام اور راحت وآرام کا باعث ہوگا اور عورت کو اگر متعدد خاوند دیے جائیں تو یہ نہ اعزاز واکرام ہے نہ باعث ِ راحت، اِس کے بعد حضرت نے مرد کو حاکم اور عورت کو محکوم ثابت کرکے عام فہم مثال سے مزید و ضاحت کی ہے:
اِس صورت میں اگر کسی عورت کے متعدد خاوند ہوں تو اول تو یہ ایسی صورت ہوگی جیسے فرض کرو تنِ واحد ایک شخص تو رعیت ہو اور بادشاہ اور حاکم کثیر، سب جانتے ہیں کہ یوں نہیں ہوا کرتا، ایک ملکہ وکٹوریہ کے کروڑوں آدمی رعیت ہیں، پر ایک ایک رعیت کے آدمی کے لیے کروڑوں ملکہ نہیں، غرض برابر کے درجہ کے متعدد حاکم نہیں ہوسکتے، دوسرے خاوند متعدد ہوں گے تو یوں کہو حاکم متعدد ہوئے اور حاکم متعدد ہوئے تو جتنے حاکم زیادہ ہوں گے اتنی ہی محکوم میں ذلت زیادہ ہوگی، سو یہ تحقیر اور تذلیل اورتوہین عورت کے حق میں اگر جائز ہوتی تو دنیا میں تو شاید کسی مذہب میں اس کی اجازت ہوتی؟ مگر بہشت میں جو جائے عزت وآرام ہے، یہ صورت ِتحقیر ہر گز ممکن الوقوع نہیں۔(۱۷)
(۶) دنیا میں شراب حرام اور جنت میں حلال ایسا کیوں؟
۱- شراب میں دو باتیں ہوتی ہیں: ایک نشہ، دوسر ا سُرور،نشہ بے ہوشی کا نام ہے، کم نشہ ہو تو کم بے ہوشی ہوتی ہے اور زیادہ ہوتا ہے تو زیادہ اورسرور کو ہوش لازم ہے اور یہ بات بھی یقینی ہے کہ نشہ کسی اور چیز کی خاصیت ہے اورسُرورکسی اور چیز کی تاثیر ہے، اگر شراب سے نشہ کی خاصیت نکال دی جائے اور اس کو سرکہ بنادیا جائے تو اس کا کھانا پینا جائز ہے؛ کیوں کہ یہی نشہ شراب کی حرمت کا باعث ہے، جنت کی شراب میں یہ وجہ ِ حرمت موجود نہیں ہوگی؛ بلکہ چھان پچھوڑ کر قدرت کی چھلنی سے اس کو جدا کردیا جائے گا، اب شراب میں فقط لذت اور سرور ہی رہ جائے گا اور یقینا ہر عاقل کے نزدیک ایسی شراب حلال ہوگی۔
۲- دنیا میں نشہ کی چیزوں کی ممانعت اس اندیشہ سے تھی کہ نشہ کے وقت احکامِ خداوندی ادا نہیں ہوسکتے، سو یہ ا ندیشہ زندگانی دنیا تک ہی ہے، بعد ِ مرگ، تمام احکام ساقط ہوجاتے ہیں، بہشت میں ہر کوئی فرائض وواجبات وغیرہ سے فارغ البال ہوگا، وہاں اگر شراب جائز ہوجائے تو کیا حرج ہے۔(۱۸)
(۷) اللہ نے انسان کو کیوں پیدا کیا ہے؟
آج بھی بہت سے لوگ یہ سوال پوچھتے ہیں کہ اللہ نے انسان کو کیوں پیدا کیا ہے؟ حضرت حجة الاسلام نے ما خلقت الجن والإنس إلا لیعبدون کی روشنی میں ثابت کیا ہے کہ ہر بنی آدم کا مطلب ِاصلی اپنے خالق کی اطاعت ہے، حضرت نے اِس پر نفیس گفتگو کی ہے جو اصل کتاب میں دیکھنے لائق ہے، بطور نمونہ کے ایک اقتباس پڑھیے:
زمین سے لے کر آسمان تک جس چیز پر سوائے انسان کے نظر پڑتی ہے وہ انسان کے کارآمد نظر آتی ہے، پر انسان اُن میں سے کسی کے کام کا نظر نہیں آتا، دیکھیے زمین، پانی، ہوا، آگ، چاند، سورج، ستارے اگر نہ ہوں تو ہم کو جینا محال یا دشوار ہوجائے اور ہم نہ ہوں تو اشیاء مذکورہ میں سے کسی کا کچھ نقصان نہیں۔علی ھذا القیاس درخت، جانور وغیرہ مخلوقات اگر نہ ہوتے تو ہمارا کچھ نہ کچھ حرج ضرور تھا؛ کیوں کہ اور بھی کچھ نہیں تو یہ اشیاء کبھی نہ کبھی کسی مرض ہی کی دوا ہوجاتی ہیں؛ پر ہم کو دیکھیے کہ ہم ان کے حق میں کسی مرض کی دوا بھی نہیں ہیں؛ مگر جب ہم مخلوقات میں سے کسی کے کام کے نہیں تو بالضرور ہم اپنے خالق کے کام کے ہوں گے؛ ورنہ ہماری پیدائش محض فضول اور بیہودہ ہوجائے، جس سے خالق کی طرف تو بیہودہ کاری کا ا لزام عائد ہو اور ہماری طرف نکمے ہونے کا عیب راجع ہو ا ور ظاہر ہے کہ یہ دونوں باتیں ایسی ہیں کہ کوئی عاقل ان کو تسلیم نہیں کرسکتا(۱۹)
(۸) حضرت عیسی کی اُلوہیَّت کی عقلی مثال او رجواب
میلہ خدا شناسی کے آخری اجلاس ۲۰/ مارچ ۱۸۷۷ءء کی سہ پہر کو تقریر کرتے ہوئے ایک یورپین پادری نے کہا کہ حضرت عیسی مجمع الجہتیَن ہیں یعنی انسان کامل بھی ہیں او رمعبود کامل بھی، حضرت عیسی کی الوہیت ایسی ہے جیسے لوہے کو آگ میں ڈالیے تو وہ لوہا بھی آگ بن جاتا ہے، حضرت نانوتوی نے اپنی تقریر میں کہا:
آپ کے پادری صاحب خود تثلیث کے عقیدے سے انکار کرگئے، یہ مثل سچ ہے کہ بے وقوف وکیل سچا مقدمہ بھی ہار جاتا ہے، یہاں تو باطل عقیدہ کو صحیح عقیدہ کہہ کر پیش کیا جارہا ہے؛ لیکن اس کو بھی ثابت کرنے کے بجائے خود ہی اپنے عقیدہ کی تردید کرگئے، پادری صاحب کی مثال سے ثابت ہوتا ہے کہ خداایک ہے، متعددنہیں، حضرت عیسی بندہ ہیں، خدا نہیں، آپ نے اپنے دعویٰ کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ لوہا دیکھنے میں ظاہر پرستوں کو ہم رنگ ِ آتش نظر آتا ہے، پر حقیقت میں لوہا اس وقت بھی لوہا ہی رہتا ہے، آگ نہیں ہوجاتا ہے، فقط پر تو آتش سے اس کا رنگ بدل جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ آگ سے علیحدہ کرلیجیے تو پھر وہ لوہا اپنی اصل حالت پر آجاتا ہے، اگر واقعی لوہا آگ ہوجاتا تو دونوں حالتوں میں وہ یکساں رہتا۔
یہ اتنی موٹی بات تھی کہ اَن پڑھ اور ناخواندہ عوام؛ بلکہ گنوار بھی سمجھ گئے اور مجمع پر خوشی کی ایک تیز لہر دوڑ گئی، پادریوں کے پاس اس بات کا کوئی جواب نہیں تھا، اِس لیے اُن پر خفت وذلت کی جھنجھلاہٹ سوار ہوگئی۔(۲۰)
حضرت حجة الاسلام کے جوابات عصرِ حاضرکے تناظر میں
منکرینِ اسلام کے عقلی اعتراضات کے حملے سے، عقائد واحکامِ اِسلام کی حفاظت ومدافعت کے حوالے سے حضرت حجة الاسلام کی جملہ تصنیفات میں یہی وہ ناقابلِ رد عقلی ومشاہداتی دلائل ہیں جن کی ہلکی سی جھلک دکھائی گئی،اور مقالہ میں یہی ممکن ومناسب بھی ہے،ان جوابات کو پڑھنے کے بعد حقیقت یہ ہے کہ کوئی سلیم الطبع اور منصف مزاج اور راہِ حق کا متلاشی انسان اسلام کی صداقت، حقانیت اور اس کے دینِ فطرت ہونے کو تسلیم کیے بغیر نہیں رہ سکتا؛ کیوں کہ جوابات وتحقیقات میں طریقہٴ استدلال اور اسلوب ِ بیان خیالی طرز پر نہیں ہے؛ بلکہ محسوساتی ومشاہداتی اصول کو سامنے رکھ کر عقل اور شریعت کا انطباق دکھایا گیا ہے اور ان جوابات نے دو دو چار کی طرح بالکل واضح کردیا کہ پورے دینِ فطرت میں ”عقلِ کلی“ بطور روح کے دوڑی ہوئی ہے، بقول حضرت حکیم الاسلام قاری طیب صاحب نور اللہ مرقدہ کے:
ذات وصفات ِ خداوندی، مبدأ ومعاد، توحید ورسالت، عقائد وشرائع، برزخ اور قیامت، سزاوجزا، حشرونشر، وزنِ اعمال، میزانِ عمل، جنت ونار، ملائکہ وجنات، عرش وکرسی، لوح وقلم وغیرہ، ان عقائد اور اُن سے متعلقہ اعمال کا صفات ِ خداوندی سے ربط وعلاقہ، کلیات ِ دین کے ساتھ فرعیات کا ارتباط پھر شرائع وعقائد کی عقلی اور طبعی مصالح، اِس طبیعاتی طرز ِ استدلال سے کچھ اِس طرح واشگاف فرمائے کہ یہ سب امور ِ فطرت اور طبیعت کا مقتضامحسوس ہونے لگے۔(۲۱)
ضرورت اِس بات کی ہے کہ حضرت حجة ا لاسلام کی تصنیفات کا مطالعہ کیا جائے، اِن تصنیفات میں موجودہ افکارِ اَغیاراور احوالِ زمانہ کے تعلق سے کافی مواد نہ صرف یہ کہ موجود ہے؛ بلکہ ان جوابات واستدلالات میں نئے اصول وکلیات کی وضع وتدوین کی شان اور تشکیل نو بھی ہے، مدارس میں -ہوسکے تو- حضرت حجة الاسلام کی تصانیف کو خارجی یا داخلی نصاب کا حصہ بنایاجائے، ان جوابات واستدلالات پر بحث کی جائے، تفصیلی مقالات لکھوائے جائیں اور خصوصاً مسائلِ کلامیہ میں حضرت کی تصنیفات سے استفادہ کا منہج اور طریقہٴ کار کے خدوخال متعین کیے جائیں، یقیناً اِس کے دور رس اور مثبت فوائد وثمرات ظاہر ہوں گے، نئی نسل کو حضرت حجة الاسلام کی دفاعی خدمات سے باخبرکرنا ہماری ذمہ داریوں کا حصہ ہونا چاہیے، حکمت ِ قاسمیہ کے شارح حضرت حکیم الاسلام کے فکر انگیز اقتباس کو بطور تکملہ نقل کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے جسے ”مسک الختام“ کہنا بجا ہے۔
اِس حقیر ناکارہ کو خود بھی بارہا اِس کاتجربہ ہوا کہ اِس قسم کی جس مجلس میں بھی قابل گریجویٹوں سے خطاب ہوا اور مناسب ِموقع حضرت و الا کے علوم کی ترجمانی کی نوبت آئی تو بارہا یہی اعتراف واقرار کا منظر دیکھنے میں آیا، اِس سے ہم اِس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ آج کے دور کے انکار واِلحاد اور دہریت وزندقہ کا قرارِ واقعی استیصال یا دفاع اگر ممکن ہے تو حکمت ِ قاسمیہ کی علمی روشنی سے ممکن ہے، جو آج کے فلسفہ وسائنس کے مسلمات اور نئے نئے انکشافات ہی کے اصول سامنے لاکر اسلام کی صداقت کا لوہا منوا سکتی ہے اور جس میں حقیقی طور پر اِتمامِ حجت کی شان موجود ہے۔(۲۲)
حوالہ جات
(۱) حکمت ِ قاسمیہ بحذف واضافة قاری محمد طیب صاحب، ص:۲۴-۱، شعبہٴ نشرواشاعت دارالعلوم دیوبند
(۲) حضرت نانوتوی اور خدماتِ ختمِ نبوت،مولانا محمد سیف الرحمن قاسم،ناشر:جامعة الطیبات للبنات الصالحات، گوجرانوالہ، ص:۲۵
(۳) مولانا محمد قاسم نانوتوی- حیات اور کارنامے،مولانا اسیر ادروی،شیخ الہند اکیڈمی دیوبند، ص:۱۵۹، سن ا شاعت:۱۹۹۵ء
(۴) سفینہٴ رحمانی،حافظ عبد الرحمن، ص:۱۱۹، مطبع نول کشور لکھنوٴ، سن ا شاعت:۱۸۸۴ء
(۵) حدائق الحنفیہ، مولانا فقیر محمد جہلمی، ص:۴۹۲، مطبع نول کشور لکھنوٴ، سن تالیف:۱۸۸۰ء
(۶) قاسم العلوم والخیرات،سید نفیس الحسینی، ص:۵، ناشر: سید احمد شہید اکادیمی لاہور بحوالہ انوار العاشقین، ص:۸۷
(۷) موجِ کوثر،شیخ محمداکرام، ص:۳۶۷، ادبی دنیا مٹیا محل دہلی(۱۹۹۱ء)
(۸) مولانا محمد قاسم نانوتوی- حیات اور کارنامے، ص:۱۵۹، شیخ الہند اکیڈمی دیوبند
(۹) تحفہ لحمیہ،مولانا محمد قاسم نانوتوی، ص: ۸، کتب خانہ اعزازیہ دیوبند
(۱۰) انتصارالاسلام،مولانا محمد قاسم نانوتوی، ص:۸۳، تسہیل:مولانا اشتیاق احمد، شعبہٴ نشرواشاعت دارالعلوم دیوبند ۱۹۸۸ء
(۱۱) الامام محمد قاسم نانوتوی، حیات، افکار، خدمات، ص:۸باہتمام: تنظیم ابنائے قدیم دارالعلوم دیوبند، نئی دہلی ۲۰۰۵ء
(۱۲) مولانا محمد قاسم نانوتوی- حیات اور کارنامے ص:۴۰۵
(۱۳) اختصار: قبلہ نما،مولانا محمد قاسم نانوتوی، ص:۲۴۶، تسہیل: مولانا اشتیاق احمد، مکتبہ دارالعلوم دیوبند ۲۰۱۳ء
(۱۴) مولانا محمد قاسم نانوتوی-حیات اور کارنامے ص:۴۰۴، شیخ الہند اکیڈمی دیوبند
(۱۵) انتصار ا لاسلام،مولانا محمد قاسم نانوتوی، ص:۱۰۱، تسہیل: مولانا اشتیاق احمد، مکتبہ دارالعلوم دیوبند ۱۹۸۸ء
(۱۶) حضرت نانوتوی اور خدماتِ ختمِ نبوت ص:۹۲، ناشر: جامعة الطیبات للبنات الصالحات، گوجرا نوالہ
(۱۷) انتصار الاسلام ص:۷۳، مکتبہ دارالعلوم دیوبند
(۱۸) انتصار الاسلام ص:۹۳،۹۴
(۱۹) حجة الاسلام،مولانا محمد قاسم نانوتوی، ص:۳۳، مجلس معارف القرآن دارالعلوم دیوبند(۱۹۶۷ء)
(۲۰) ماخوذ از: مولانا محمد قاسم نانوتوی- حیات اور کارنامے ص:۱۹۶، شیخ الہند اکیڈمی دارالعلوم دیوبند
(۲۱) حکمت قاسمیہ ص:۱۹
(۲۲) حکمت قاسمیہ ص:۲۹