شیخ اکرم،ناندیڑ(مہاراشٹرا
Cell:9028167307
شخصیت کی ایک جامع تعریف کرنا بہت مشکل ہے۔ سادہ الفاظ میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ کسی انسان کی شخصیت اس کی ظاہری و باطنی اور اکتسابی و غیر اکتسابی خصوصیات کا مجموعہ ہے۔ ان میں سے بہت سی خصوصیات مستقل ہوتی ہیں لیکن طویل عرصے کے دوران ان میں تبدیلیاں بھی پیدا ہوتی رہتی ہیں اور انہی خصوصیات کی بنیاد پر ایک شخص دوسرے سے الگ نظر آتا ہے اور ہر معاملے میں دوسروں سے مختلف رویے اور کردار کا مظاہرہ کرتا ہے۔ ان میں بعض صفات عارضی حالات کی پیداوار بھی ہوتی ہیں۔ انسان کی خصوصیات بنیادی طور پر دو قسم کی ہیں۔ ایک تو وہ ہیں جو اسے براہ راست اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملی ہیں، یہ غیر اکتسابی یا فطری صفات کہلاتی ہیں۔ دوسری وہ خصوصیات ہیں جنہیں انسان اپنے اندر یا تو خود پیدا کرسکتا ہے یا پھر اپنی فطری صفات میں کچھ تبدیلیاں پیدا کرکے انہیں حاصل کرسکتا ہے یا پھر یہ اس کے ماحول کی پیداوار ہوتی ہیں۔ یہ اکتسابی صفات کہلاتی ہیں۔فطری صفات میں ہمارا رنگ، نسل، شکل و صورت، جسمانی ساخت، ذہنی صلاحتیں وغیرہ شامل ہیں۔ اکتسابی صفات میں انسان کی علمی سطح، اس کا پیشہ ، اس کی فکر وغیرہ شامل ہیں۔ شخصیت کی تعمیر ان دونوں طرز کی صفات کو مناسب حد تک ترقی دینے کا نام ہے۔
ظاہری و باطنی طور پر کامل و مکمل ترین شخصیت کے باب میں ہمارے نزدیک سب سے اعلیٰ و ارفع اور آئیڈیل ترین شخصیت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت ہے۔ اعلیٰ ترین صفات کا اتنا حسین امتزاج ہمیں کسی اور شخصیت میں نظر نہیں آتا۔ آپ ﷺبحیثیت ایک انسان اس قدر عظیم و غیر معمولی شخصیت رکھتے ہیں کہ آ پﷺ کی عظمت کا اعتراف آپﷺ کے مخالفین نے بھی کیا۔ دور جدید کے متعصب مغربی مفکرین نے بھی آپ کی شخصیت اور کردار کی عظمت کو کھلے لفظوں میں بیان کیا ہیں۔مندرجہ ذیل 20/نکات آپ کی شخصیت کو سنوارنے میں اہم ثابت ہوں گے۔
مقصدیت:جس آدمی نے اپنی زندگی کا ایک مقصد بنا رکھا ہو، اس کی ساری توجہ اپنے مقصد پر لگ جاتی ہے۔ بامقصد آدمی کی زندگی ایک بھٹکے ہوئے آدمی کی مانند نہیں ہوتی جو سمت سفر متعین نہ ہونے کی وجہ سے کبھی ایک طرف چلنے لگتا ہے اور کبھی دوسری طرف۔ بلکہ اس کے ذہن میں راستہ اور منزل کا واضح شعور ہوتا ہے۔ اس کے سامنے ایک متعین نشانہ ہوتا ہے۔ وہ ادھر اُدھر کے مسائل میں اپنا وقت ضائع نہیں کرتا۔ وہ یکسوئی کے ساتھ اپنے مقررہ نشانے پر چلتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ منزل مقصود تک پہنچ جاتا ہے۔ انسان کے اندر مقصد کا شعور اُس کی چھپی ہوئی قوتوں کو جگادیتا ہے۔ بیشتر لوگوں کا حال یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی قوت کو تقسیم کئے ہوئے ہوتے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو ایک مرکز مقصد پر یکسو نہیں کرتے۔ اس لیے وہ کوئی بھی اہم مقام حاصل نہیں کرپاتے۔ ہر کام آدمی سے اس کی پوری قوت مانگتا ہے۔ وہی شخص بڑی کامیابی حاصل کرتا ہے جو اپنی پوری قوت کو اپنے مقصد کے حصول میں لگادے۔ آدمی کے سامنے اگر کوئی واضح مقصد نہ ہو تو اس کی قوت تقسیم ہوجاتی ہے اور وہ کسی بڑی منزل کو حاصل نہیں کرپاتا۔زندگی میں کسی بھی مقصد کو حاصل کرنے کے لیے خدا پر یقین اور بھروسہ رکھتے ہوئے مسلسل جدوجہد کی ضرورت ہوتی ہے۔
منصوبہ بندی:انسان کی ناکامی کا راز بیشتر حالات میں یہ نہیں ہوتا کہ اس کے پاس وسائل نہ تھے، بلکہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے ممکن وسائل کو صحیح طور پر استعمال نہ کرسکا۔ اس بات کو آپ اس سادہ مثال سے سمجھ سکتے ہیں کہ کسی دیہات میں ایک صاحب نے پختہ گھر بنانے کا ارادہ کیا۔ ان کے وسائل محدود تھے۔ مگر انہوں نے اپنے تعمیری منصوبے میں اس کا لحاظ نہیں کیا۔ انہوں نے پورے مکان کی نہایت گہری بنیاد کھدوائی، اتنی گہری جیسے وہ قلعہ تیار کرنے جارہے ہوں۔ ایک شخص نے دیکھ کر کہا ” مجھے امید نہیں کہ ان کا گھر مکمل ہوسکے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ ان کی بیشتر اینٹیں اور مسالہ بنیاد میں کھپ گیا اور اوپر کی تعمیر کے لیے ان کے پاس بہت کم سامان رہ گیا۔ بمشکل دیواریں کھڑی ہوسکیں اور ان پر چھت نہ ڈالی جاسکی۔ صرف ایک کمرے پر کسی طرح چھت ڈال کر انہوں نے اپنے رہنے کا انتظام کیا۔ غیر ضروری طور پر گہری بنیادوں میں اگر وہ اینٹ اور مسالہ ضائع نہ کرتے تو ان کے پاس اتنا سامان تھا کہ مکان پوری طرح مکمل ہوجاتا۔ مگر غلط منصوبہ بندی کی وجہ سے ان کا مکان زمین کے اندر تو پورا بن گیا، مگر زمین کے اوپر صرف ادھورا ڈھانچہ کھڑا ہوکر رہ گیا۔
شوق اور ولولہ:ترقی کرنے والے اور ناکام رہنے والے انسانوں میں مہارت، قابلیت اور فہم وفراست کے اعتبار سے کچھ زیادہ فرق نہیں ہوا کرتا، صرف شوق اور ولولے کی کمی بیشی کا فرق ہوتا ہے۔شوق اور ولولے کی اہمیت حصول کامیابی کے ضمن میں اتنی زیادہ ہے کہ اگر دو ایسے افراد جو ایک ہی میدان میں ترقی کی دوڑ لگارہے ہوں باقی سب باتوں کے لحاظ سے ایک دوسرے کے مساوی یا ہم پلہ ہوں تو ان میں سے وہ فرد ترقی کی منزل پر پہلے پہنچے گا جس میں مقصد کے حصول کے تئیں زیادہ شوق اور ولولہ ہوگا۔ شوق کا مطلب صرف چاؤ نہیں ہے ، اس کا حقیقی مطلب ترقی کے ضمن میں یہ ہے کہ ایک شخص کو اپنے کام سے گہرا دلی لگاؤ ہو، خواہ یہ کام مٹی کھودنا ہو یا کسی بڑے کاروباری ادارے کی سربراہی کرنا وغیرہ۔ وہ انسان جو اپنا کام کرنے کا شوق رکھتا ہو، اس کے لیے کٹھن سے کٹھن کام بھی ایک کھیل بن جاتا ہے اور یہ کام انتہائی محنت طلب ہونے کے باوجود اس کے لیے آسان ہوجاتا ہے۔ اس مزاج اور افتاد کے انسان کے لیے کامیابی ہمیشہ چشمِ براہ رہے گی اور وہ ضرور ترقی کرلے گا۔ تمام کامیاب انسانوں میں خواہ انہوں نے صابن سازی کے ذریعے ترقی کی ہو یا کوئی شاہکار تخلیق کرکے کامیابی حاصل کی ہو، ایک صفت مشترک ہے، وہ شوق (مقصد یا کام کے تئیں دلی لگاؤ) رکھتے تھے اور انہوں نے ولولے سے کام کیا۔ تجربہ شاہد ہے کہ وہ شخص جو ولولے اور شوق سے کام کرتا ہے اپنی کارگزاری میں جان ڈال دیتا ہے۔آپ خود کو ہر لمحہ یہ حقیقت محسوس کراتے رہئے کہ شوق اور ولولہ ہر اس انسان کے سامان سفر کا ایک لازمی حصہ ہے جو عزائم رکھتا ہو ایسے آدمی کے لیے کٹھن سے کٹھن کام بھی آسان ہوجاتا ہے۔جوش اور ولولہ کا ایک منفی پہلو بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ بعض لوگ جوش میں تمام حدود کو پار کرجاتے ہیں اور کسی چیز کی پرواہ نہیں کرتے، جب بھی ہم پر کسی کام کو جوش سوار ہوتو اسے شروع کرنے سے قبل اس کے تمام مثبت و منفی پہلوؤں کا جائزہ لینا چاہئے اور جب اسے شروع کرلیں تو پھر اس پر استقامت کے ساتھ عمل کرنا چاہئے۔
ٹائم مینجمنٹ :زندگی کیا ہے؟ صرف ”وقت“! پس اگر ہم اس کو ضائع کرتے ہیں تو گویا زندگی برباد کرتے ہیں۔وقت کسی آدمی کا سب سے قیمتی سرمایہ ہے۔ وقت اس لیے ہے کہ آدمی اس کو استعمال کرکے اپنے کو کامیابی کا اہل بنائے۔ جو وقت آپ کو ملا ہے اس کو یا تو اپنی تیاری میں استعمال کیجئے یا اپنے مقصد کے حصول کے لیے جدوجہد میں۔ یہی وقت کا صحیح استعمال ہے۔ اگر ایسا ہے کہ آپ نہ تیاری میں لگے ہوئے ہیں اور نہ حصول مقصد کی جدوجہد میں ، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنے وقت کو ضائع کررہے ہیں۔ وقت بھاگ رہا ہے وقت کو پکڑیئے، کیونکہ وقت آپ کو نہیں پکڑے گا۔ اگر آپ اپنے منٹ کو ضائع نہ کریں تو گھنٹہ اپنے آپ ضائع ہونے سے بچ جائے گا،کیونکہ منٹ منٹ کے ملنے ہی سے گھنٹہ بنتا ہے۔جس آدمی نے جزء کا خیال رکھا، اس نے گویا کُل کا بھی خیال رکھا،کیونکہ جب بہت سا جزء اکٹھاہوتاہے تو وہی کُل بن جاتا ہے۔ اگر آپ روزانہ اپنے ایک گھنٹے کا صرف پانچ منٹ کھوتے ہوں تو رات دن کے درمیان آپ نے روزانہ دو گھنٹے کھو دیا۔ مہینے میں 60گھنٹے اور سال میں 720 گھنٹے۔ اسی طرح ہر آدمی اپنے ملے ہوئے وقت کا بہت سا حصہ بیکار ضائع کردیتاہے۔ وقت آپ کا سرمایہ ہے، وقت کو ضائع ہونے سے بچایئے۔
اُمید:اُمیدانسان کے بنیادی جذبوں میں سب سے طاقتور ہے، کہتے ہیں دنیا کے تمام بڑے مذاہب امید کا درس دیتے ہیں۔ فتوحات اور ایجادات اُمید کے زیر اثر ہی ممکن ہوتی ہیں۔ پُرامید لوگ زیادہ مطمئن ہوتے ہیں۔ ان کے اندر بردباری آتی ہے۔ امید کا جذبہ چونکہ مستقبل سے متعلق ہوتا ہے اس لیے پُرامید لوگ نہ تو حال سے خائف رہتے ہیں نہ ماضی کے غم انہیں ڈستے ہیں۔ وہ ماضی اور حال کو فقط مستقبل میں حالات کو اپنے رخ پر موڑنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اُمید کی یہی خصوصیات اُسے دوسرے جذبات سے ممیز کرتی ہے۔ امید مستقبل بین ہے۔ وہ ہمیں آگے کی طرف دیکھنا سکھاتی ہے۔ امید ہمیں عمل پر کمربستہ کرتی ہے جبکہ ناامید شخص کی زندگی میں حقیقی سکون نہیں ملتا۔ بدقسمتی، مایوسی اور بے چینی اُن کے گرد منڈلاتی رہتی ہے۔ اسلام میں پُرامید رہنے کی تعلیم دی گئی ہے اور ناامیدی کو کفر سے تعبیر کیا گیا ہے۔ جب ایک پُرامید فرد کے کام کی مخالفت ہوتی ہے تو اُسے امید ہی سہارا دیتی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ہر نبی نے ایک مدت تک پُرامید جذبے کے ساتھ اپنی قوم کو راہِ راست پر لانے کی جدوجہد کی۔ طائف میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبرئیل علیہ السلام کو شہر تباہ کرنے سے روک دیا تھا، اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو امید تھی کہ طائف والوں کی آئندہ نسل ضرور اسلام قبول کرے گی۔ اور ایسا ہی ہوا۔ ناامیدی انسان کی قوت عمل کو مفلوج کردیتی ہے۔ امید انسان کو کم مائیگی اور محرومی کے احساس سے نجات دلاتی ہے۔ امید انسان کو تنزل سے نکال کر ترقی کی راہ پر گامزن کردیتی ہے۔ اللہ کے نبی ﷺ نے مسلمانوں کو پُرامید رہنے کی سب سے زیادہ تلقین کی ہے۔ امید انسان پر اتنے مثبت اثرات مرتب کرتی ہے کہ وہ انسان بھرپور طور پر اپنے دماغ کا استعمال کرنے کے قابل ہوجاتا ہے۔ بدقسمتی سے آج مسلمانوں میں مایوسی اور ناامیدی پھیلانے کی کوشش کی جارہی ہے جس کا سادہ لوح مسلمان شکار ہوکر قوت عمل سے مفلوج ہورہے ہیں۔ یاد رکھئے حالات کتنے ہی ناموافق ہوں ، بحیثیت مسلمان ہمیں اُمید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہئے اور اللہ کی ذات سے اُمید رکھنا چاہئے وہ یقینا ہر چیز پر قادر ہے۔ امید کا سب سے بڑا سرچشمہ اللہ کی ذات ہے، ہر دوسری چیز جس سے امید قائم کی جائے کہیں نہ کہیں اس کی حد آجاتی ہے، کسی نہ کسی وقت وہ آدمی کا ساتھ چھوڑ دیتی ہے، مگر جو شخص اللہ سے اپنی امیدیں وابستہ کرلے، اس کے لیے کوئی حد نہیں۔ وہ امید کا ایسا سرا پالیتا ہے جو کسی بھی حال میں اس سے جدا نہیں ہوتا۔ شاعر مشرق علامہ اقبال فرماتے ہیں #
نہ ہو نااُمید ‘نا اُمیدی زوال علم و عرفاں ہے
اُمید مردِ مومن ہے خدا کے راز دانوں میں
مطالعہ:خوشحال زندگی کے اسباب میں ایک یہ ہے کہ تنہائی میں کتابوں کا مطالعہ کیا جائے، پڑھنے پر توجہ دی جائے اور عقل کو فائدے پہنچائے جائیں۔ مطالعہ سے تجربہ میں اضافہ اور عقل و فہم میں بڑھوتری ہوتی ہے۔ یہ آبرو کی حفاظت اور خود کی اصلاح کا اچھا ذریعہ ہے۔ گفتگو اور بات چیت کا طریقہ آجاتا ہے۔ زبان فصیح ہوتی ہے اور غلطیاں نہیں ہوتیں۔ فہم کو جلا ملتی اور معلومات کا ذخیرہ بڑھ جاتا ہے۔ عقل بڑھتی ہے، دل کی صفائی ہوتی ہے اور ذہن کھلتا ہے۔ لوگوں کے تجربوں، حکیموں کی حکمت اور علماء کے استنباط سے فائدہ ہوتا ہے۔ اچھی کتاب ذہن کو انتشار سے، دل کو شکست و ریخت سے اور وقت کو زیاں سے بچاتی ہے۔ ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔ نیز دینی و دنیوی ترقی کی راہیں کھل جاتی ہیں۔ اچھی کتاب بہترین رفیق ہوتی ہے۔کوشش یہ کریں کہ گھر کے ایک کونے یا گھر میں کسی مناسب جگہ پر ایک لائبریری بنالی جائے جس میں چند ایسی مفید کتابیں موجود ہوں جس سے آپ اور آپ کے گھر والے سب فائدہ اٹھائیں۔ دانشمندوں کے نزدیک کتابوں کی قدر و قیمت جواہرات سے بھی زیادہ ہے۔ انسانی شخصیت کی تعمیر میں سب سے زیادہ حصہ علم کا ہے، علم کے ذریعے یہ ممکن ہوتا ہے کہ آدمی اپنی شخصیت کی توسیع کرسکے۔
ظاہری شکل و شباہت اور جسمانی صحت:دین اسلام نے جہاں انسان کی باطنی شخصیت کے تزکیے اور تطہیر کے لیے بہت سے احکامات دئے ہیں وہاں اس کی ظاہری شخصیت کو بھی بڑی اہمیت دی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کا ایک بڑا حصہ اسی پہلو سے متعلق ہے۔ چنانچہ روزانہ کم از کم پانچ مرتبہ وضو کرنا، جنسی عمل کے بعد لازماً غسل کرنا، بالوں اور ناخنوں کی تراش خراش کرنا، منہ ، ناک اور کان کی صفائی کرنا، صاف ستھرا لباس پہننا، کھانے سے پہلے اور بعد ہاتھ دھونا، یہ سب وہ چیزیں ہیں جو ہزاروں سالوں سے ہمارے دین کا لازمی تقاضہ ہیں۔” حضرت جابر نے فرمایا (ایک دن) نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے ملنے کے لیے ہمارے یہاں رونق افروز ہوئے۔ آپﷺ نے دیکھا کہ ایک آدمی گرد و غبار میں اٹا ہوا ہے اور اس کے بال بکھرے ہوئے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا ” کیا اس کے پاس کوئی کنگھا نہیں ہے کہ یہ اپنے بالوں کو بنا سنوار لے۔ “ اور ایک دوسرے آدمی پر آپﷺ کی نظر پڑی، جس کے کپڑے انتہائی گندے تھے۔ آپﷺ نے فرمایا ” کیا اس کو وہ چیز بھی میسر نہیں ہے جس سے یہ اپنے کپڑے دھوکر صاف کرلے۔ “ جسم کی صفائی کے لیے وضو اور غسل کا اہتمام کیجئے۔ جسم اور لباس اور ضرورت کی ساری چیزوں کی صفائی اور پاکیزگی سے روح کو بھی سرور ونشاط حاصل ہوتا ہے اور جسم کو بھی فرحت اور تازگی ملتی ہے اور بحیثیت مجموعی انسانی صحت پر اس کا نہایت ہی خوشگوار اثر پڑتا ہے۔”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” اللہ تعالیٰ کے نزدیک مومن کی تمام خوبیوں میں لباس کا ستھرا رکھنا اور کم پر راضی ہونا پسند ہے۔“ حضور نبی کریم ﷺ میلے اور گندے کپڑوں کو مکروہ اور ناپسند جانتے تھے۔ ظاہری شکل و شباہت کے علاوہ جسمانی صحت بھی شخصیت کا اہم ترین پہلو ہے۔ اگر انسان صحت مند نہ ہو تو وہ کسی کام کو بھی صحیح طور پر انجام نہیں دے سکتا۔ اسلام نے اپنی صحت کی حفاظت کو بڑی اہمیت دی ہے اور ایسی تمام چیزوں سے روکا ہے جو صحت کے لیے نقصان دہ ہوں۔ اپنی جسمانی صحت کو بہتر رکھنے کے لیے بہترین طریقہ یہ ہے کہ حفظان صحت کے اصولوں پر سختی سے عمل کیا جائے، خوراک کے معاملے میں افراط و تفریط سے بچا جائے۔ بیماری کی صورت میں فوراً اپنا علاج کروایا جائے۔ روزانہ ہلکی پھلکی ورزش آپ کو ذہنی و جسمانی طور پرچاق و چوبند رکھتی ہے۔ صحت خدا کی عظیم نعمت بھی ہے اور عظیم نعمت بھی۔ صحت کی قدر کیجئے اور اس کی حفاظت میں کبھی لاپرواہی نہ برتئے۔ صحت کے تقاضوں سے غفلت برتنا اور اس کی حفاظت میں کوتاہی کرنا بے حسی بھی ہے اور خدا کی ناشکری بھی۔
خوش اخلاقی:اخلاق سے مراد باہمی سلوک ہے۔ اخلاق اس برتاؤ کا نام ہے جو روزمرہ کی زندگی میں ایک آدمی دوسرے آدمی کے ساتھ کرتا ہے۔ خوش اخلاقی دوسروں کی رعایت کرنے کا نام ہے۔ اس اخلاق کا سادہ اصول یہ ہے کہ تم دوسروں کے لیے وہی چاہو جو تم اپنے لیے چاہتے ہو، تم دوسروں کے ساتھ ویسا ہی برتاؤ کروجیسا برتاؤ تم اپنے لیے پسند کرتے ہو۔ خوش اخلاقی ہی انسان کی وہ صفت ہے جو اسے اپنے معاشرے میں مقبول بناتی ہے۔ جس طرح چمک کے بغیر موتی کسی کام کا نہیں ہوتا اسی طرح خوش خلقی کے بغیر انسان کسی کام کا نہیں رہتا۔جو خوش خلق نہیں اس سے کوئی بھی محبت نہیں کرسکتا۔ ہم یہ بارہا دیکھتے ہیں کہ بداخلاق شخص کے کوئی قریب جانا بھی پسند نہیں کرنا، اور اس سے ملتے وقت کراہت محسوس کرتا ہے۔ یہ رویہ ہی ہے جو دوست اور دشمن بناتا ہے۔بات بات پر بھڑک اٹھنا اور سخت لب و لہجہ اختیار کرنا کسی بھی معاشرے میں اچھا نہیں سمجھا جاتا۔انسان کی زندگی اور اس کے نتائج میں اخلاق کی بڑی اہمیت ہے، اگر انسان کے اخلاق اچھے ہوں تو اس کی اپنی زندگی بھی قلبی سکون اور خوشگواری کے ساتھ گزرے گی اور دوسروں کے لیے بھی اس کا وجود رحمت اور چین کا سامان ہوگا اور اس کے برعکس اگر آدمی کے اخلاق برے ہوں تو خود بھی وہ زندگی کے لطف و مسرت سے محروم رہے گا اور جن سے اس کا واسطہ اور تعلق ہوگا ان کی زندگیاں بھی بے مزہ اور تلخ ہوں گی۔ بڑوں کا ادب اور چھوٹوں سے شفقت کرنا خیر و بھلائی اور سعادت کے دروازے کو کھول دیتا ہے۔ خود میں خوش اخلاقی پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اپنے ذہن میں مثبت خیالات کو فروغ دیجئے۔ ہر وقت معاشرے کی خامیوں پر کڑھتے رہنا اور دوسروں کو دیکھ دیکھ کر جلنا انسان میں چڑچڑاپن اور غصہ پیدا کرتا ہے۔ اگر کسی کی کوئی خامی سامنے آبھی جائے تو اسے نظر انداز کرکے اس کی خوبیوں پر نظر ڈالئے۔ اسی طرح معاشرے کی خامیوں کے ساتھ ساتھ اس کی خوبیوں کو بھی مدنظر رکھئے اور احسن طریقے سے اصلاح کی کوشش کریں۔دریا کا حسن اس کی روانی میں ہے۔ پھول کا حسن اس کی خوشبو میں ہے۔ باغ کا حسن اس کی ہریالی اور تروتازگی میں ہے۔ اسی طرح انسان کا حسن یہ ہے کہ وہ جب لوگوں سے معاملے کرے تو اس کے ہر معاملہ میں بہتر اخلاق کی شان موجود ہو۔ ”حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھروالوں اور خادموں کے ساتھ بہت خوش اخلاقی کا سلوک فرماتے اور کبھی کسی سے سرزنش اور سختی سے پیش نہ آتے، اور اس کا بڑا اہتمام فرماتے کہ کسی کو کسی قسم کی ناگواری نہ ہو، اور جب ازواج مطہرات کے پاس ہوتے تو بہت نرمی اور خاطر داری کرتے اور بہت اچھی طرح ہنستے بولتے۔ “ حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” مسلمانوں میں زیادہ کامل ایمان اُس کا ہے جس کے اخلاق زیادہ اچھے ہیں۔ “
خوش مزاجی:ماضی میں جینا، اس کے غموں اور المیوں کو یاد کرتے رہنا اور ان پر رنج کرنا ارادہ کو مضمحل اور موجودہ زندگی کو مکدر بنادیتا ہے۔ جو گزر گیا وہ گزر گیا، نہ اس کی یاد اُسے لوٹائے گی نہ کوئی غم یا رنج و فکر اسے زندہ کرسکتی ہے۔ کیونکہ آپ دریا کو اصل کی طرف، سورج کو مطلع کی طرف اور آنسو کو آنکھ میں واپس نہیں لاسکتے۔ کھوئے ہوئے مواقع کا افسوس، گزرے ہوئے حادثات کی تلخیاں، لوگوں کی طرف سے پیش آنے والے برے سلوک کی یاد، اپنی کمیوں اور تنگی کی شکایت، غرض بے شمار چیزیں ہیں جو آدمی کی سوچ کو منفی رخ کی طرف لے جاتی ہیں۔ آدمی اگر ان باتوں کا اثر لے تو اس کی زندگی ٹھٹھر کر رہ جائے گی۔ ماضی کے سایہ میں رہنا، اسے یاد کرتے رہنا، اس کی آگ میں جلنا ایک افسوسناک اور المناک بات ہے۔ اس سے حال کی بربادی اور وقت کا زیاں ہوتا ہے۔ ماضی کو واپس لانے پر تو جن و انس جمع ہوکر بھی قادر نہیں ہوسکتے۔ پھر ماضی کی تلخیوں کو یاد کرکے کڑنا، افسردہ رہناانسان کو مایوس کردیتا ہے۔زندگی ناخوشگواریوں سے خالی نہیں ہوسکتی، اگر آدمی یہ جان لے کہ اس دنیا میں غم ناگزیر ہے تو وہ غم کے ساتھ رہنا سیکھ جائے گا۔ اس کو نقصان لاحق ہوگا تو وہ فریاد و ماتم نہیں کرے گا بلکہ اس سے اپنے لیے سبق کی غذا حاصل کرے گا۔ اس کی امیدیں پوری نہ ہوں گی تو وہ مایوسی میں مبتلا نہیں ہوگا۔ اس کا شعور اس کے لیے سہارا بن جائے گا کہ اس دنیا میں کسی بھی شخص کی ہر امیدیں پوری نہیں ہوتیں، چاہے وہ امیر ہو یاغریب، بادشاہ ہو یا کوئی معمولی آدمی۔ زندگی کی تلخیاں آدمی کے لیے وہی حیثیت رکھتی ہیں جو سونے چاندی کے لیے تپانے کی حیثیت ہے، تپانے کا عمل سونے چاندی کو نکھارتا ہے، اسی طرح تلخ تجربات آدمی کی اصلاح کرتے ہیں۔ تاہم غم اور ناکامی کو اپنے اوپر سوار کرلینا دانشمندی نہیں، آپ صرف ناخوشگواریوں کو بھلاکر اپنی زندگی کو خوش گوار بنانے کی کوشش کرسکتے ہیں۔ زندگی میں اصل اہمیت یہ نہیں ہے کہ کس نے کیا پایا، اصل اہمیت کی بات یہ ہے کہ وہ کیسے جیا۔
مسکراہٹ:اعتدال کے ساتھ ہنسنا مسکرانا تفکرات کے لیے تریاق اور مرہم ہے۔ قلبی شادمانی میں اس کا بڑا کردار ہے۔ چہرہ سکیڑنا اور ترش روئی اس بات کی علامت ہے کہ مزاج میں صفائی نہیں، دل میں تنگی ہے۔مایوسی قلب اور روح کو سب سے زیادہ ترش رو بناتی ہے، لہٰذا مسکرانا چاہتے ہیں تو مایوسی سے لڑیئے، اپنے مسلمان بھائی کے سامنے مسکرانا بھی صدقہ ہے۔ مسکراہٹ میں کشش ہوتی ہے جس سے آپ کی شخصیت میں چار چاند لگ جاتے ہیں اور لوگوں کے قلوب آپ کی طرف کھینچے چلے آتے ہیں۔ آپس میں محبت کی فضاء قائم ہوتی ہے، چہرہ نکھر جاتا ہے۔ ہشاس بشاش رہنے اور مسکراتے چہرے میں نہ آپ کا کچھ بگڑے گا اور نہ ہی کچھ خرچ کرنا پڑے گا، بلکہ اسی وقت آپ دوسروں کو متوجہ بھی کرسکیں گے اور بات بھی بااثر رہے گی، اس طرح اس میں عزت بھی ہے اور اجر و ثواب بھی۔ہنسی کے موقع پر ہنسنا یا مسکرانا بھی انسانی فطرت کا تقاضہ ہے اور اس میں قطعاً کوئی خیر نہیں ہے کہ آدمی کے لبوں پر کبھی مسکراہٹ بھی نہ آئے۔ رسول اللہ ﷺ کی عادتِ شریفہ اللہ کے بندوں اور اپنے مخلصوں سے ہمیشہ مسکراکر ملنے کی تھی۔ ظاہر ہے حضور ﷺ کا یہ رویہ ان لوگوں کے لیے کیسی قلبی و روحانی مسرت کا باعث ہوتا ہوگا اور اس کی وجہہ سے ان کے اخلاص و محبت میں کتنی ترقی ہوتی ہوگی۔ ”حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ تبسم کرنے والا نہیں دیکھا۔ “
سماجی روابط:انسان اپنی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے سماج پر انحصار کرتا ہے۔ وہ لوگوں سے تعلقات قائم کرتا ہے۔ مختلف افراد کا طرز عمل مختلف ہوتا ہے۔ بعض افراد سماج میں اچھے تعلقات قائم کرتے ہیں، ایسے لوگ جو سماج میں آپسی تعلقات قائم کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں ان کی ایک علیحدہ پہچان ہوتی ہے۔ اپنے طرز عمل، اخلاق، صلاحیتوں اور دوسروں کے تئیں ہمدردی اور احساس اپنائیت جیسی خوبیوں کی وجہ سے ایسے افراد سماج میں ایک منفرد مقام بنالیتے ہیں۔ سماجی روابط کا خاص مقصد ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر کام کرنا اور اس کام کو تکمیل کرنا اور اپنے مقصد کو حاصل کرنا ہوتا ہے۔ سماجی روابط میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون اور آپسی عزت نفس کا خیال رکھنا از حد ضروری ہے۔ سماجی روابط مثبت سرگرمیوں کے ساتھ ہو تو انسان کی صلاحیتوں اور شخصی ارتقاء کا بہترین ذریعہ ہے۔ جن لوگوں کے ساتھ آپ رہتے ہو ان کا آپ کی شخصیت پر اثر پڑتا ہے۔
مشورہ:مشورہ انسان کی ایک فطری ضرورت ہے۔ کسی ایک انسان کا علم ہمیشہ محدود ہوتاہے۔ وہ ساری باتوں کو یا کسی بات کے تمام پہلوؤں کو نہیں جان سکتا۔کوئی صحیح فیصلہ لینے کے لیے ضروری ہے کہ اس میں تمام متعلق پہلوؤں کی رعایت شامل ہو۔ مشورہ اسی مسئلہ کا حل ہے۔ وہ افراد کی انفرادی کمیوں کی تلافی ہے۔ مختلف لوگوں کے درمیان معاملہ زیر مشورہ ہوتو معاملہ کے تمام پہلو سامنے آجاتے ہیں۔ مشورہ کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اپنی سمجھ کے ساتھ دوسروں کی سمجھ کو بھی اپنے فیصلہ میں شامل کرلے۔ مشورہ شرمندگی سے محفوظ رکھنے کا قلعہ ہے اور ملامت کے مقابلہ میں امان ہے۔ ایک مقولہ ہے ” تمہاری رائے کا آدھا تمہارے بھائی کے پاس ہے۔ تم اس سے مشورہ کرو تاکہ تمہاری رائے مکمل ہوجائے۔ “ اسلام میں مشورہ کی تکریم اور تاکید فرمانے کا یہی منشاء ہے کہ معاملہ کے متعلق مختلف پہلو اور آراء سامنے آجائیں تو فیصلہ بصیرت کے ساتھ کیا جاسکے۔ کسی بھی معاملہ میں متعلقہ تجربہ کار افراد سے مشورہ کرنا چاہئے۔
خدمت انسانیت:لوگوں کی خدمت کرنا ان کا دل جیتنا ہے۔ خدمت اپنے اندر معجزاتی تاثیر رکھتی ہے۔ انسان کے اندر جو اعلیٰ جذبات ہونے چاہئیں ان میں سے ایک خدمت انسانیت ہے۔ دوسروں کے کام آنا دراصل اپنے حق میں خدائی نعمت کا اعتراف کرنا ہے۔ وہی شخص دوسروں کے کام آتا ہے جس کے اندر دوسروں کے مقابلہ میں کچھ زیادہ صفات پائی جارہی ہوں، مثلاً آنکھ والے آدمی کا ایک بے آنکھ والے کے کام آنا، ایک تندرست آدمی کا کسی معذور کے کام آنا، ایک صاحب مال کا بے مال آدمی کے کام آنا، ایک صاحب حیثیت آدمی کا کسی بے حیثیت آدمی کے کام آنا، وغیرہ۔ جب انسان کسی کی مدد کرتا ہے تو وہ ایسا کرکے خدا کے احسان کا اعتراف کرتا ہے۔ سچا انسان نفع بخش بن کر جیتا ہے، وہ یک طرفہ طور پر دوسروں کو فائدہ پہنچاتا ہے، خواہ دوسروں کی طرف سے اس کو کچھ بھی ملنے والا نہ ہو۔ دنیا میں صرف اس فرد یا قوم کو بقا و ثبات حاصل ہوتا ہے جو اپنے آپ کو دوسروں کے لیے نفع بخش ثابت کرے۔ خدا نے خدمت اور نفع بخشی میں بے پناہ کشش رکھی ہے۔اس میں یہ طاقت ہے کہ وہ لوگوں کے دلوں کو مسخر کرسکے۔ جو دوسروں کی خدمت میں لگا رہتاہے لوگ اس کی خدمت آپ ہی آپ کرنے لگتے ہیں۔ اس دنیا میں بڑی کامیابیاں صرف ان لوگوں کے لیے مقدر ہیں جو براہِ راست فائدے سے اوپر اٹھ کر بالواسطہ فائدوں کو دیکھنے والی نگاہ رکھتے ہو۔ ایک اچھا کام کبھی رائیگاں نہیں جاتا۔
خوش کلامی :انسان کی زندگی کے جن پہلوؤں سے اس کے بنائے جنس کا سب سے زیادہ واسطہ پڑتا ہے اور جن کے اثرات اور نتائج بھی بہت دوررس ہوتے ہیں، ان میں سے اس کی زبان کی شیرینی یا تلخی اور نرمی یا سختی بھی ہے۔ زندگی میں اکثر بگاڑ کسی غلط بول کا نتیجہ ہوتا ہے اسی طرح زندگی میں اکثر خیر کسی اچھے بول کا نتیجہ ہوتاہے۔ ایک بول سے لوگوں میں محبت بڑھتی ہے اور دوسرا بول لوگوں میں نفرت پھیلانے کا سبب بن جاتا ہے۔ ایسی حالت میں آدمی کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی زبان وقلم کو استعمال کرنے میں بے حد احتیاط کرے۔ ذمہ دار انسان وہ ہے جو بولنے سے پہلے سوچے اور جب بولے تو وہی بات بولے جو سوچنے اور سمجھنے کے بعد اس کو بولنے کے قابل نظر آئی ہو۔ اسی کے ساتھ یہ بھی انتہائی ضروری ہے کہ آدمی بولنے سے پہلے اس کے نتیجہ کے بارے میں سوچے۔ ”حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مومن بندہ نہ زبان سے حملہ کرنے والا ہوتا ہے، نہ لعنت کرنے والا اور نہ بدگو اور نہ گالی بکنے والا۔ “
غصہ پر کنٹرول:انسان کی قوت برداشت بھی اس کی شخصیت کا ایک اہم پہلو ہے۔ اس دنیا میں بارہا ایسا ہوتا ہے کہ حالات ہمارے لیے خوشگوار نہیں ہوتے یا پھر دوسرے لوگ ہماری مرضی کے مطابق رویہ اختیار نہیں کرتے، ایسے موقعوں پر جو لوگ آپے سے باہر ہوجاتے ہیں انہیں کمزور شخصیت کا مالک سمجھا جاتا ہے۔ اس کے برعکس جو لوگ تحمل اور بردباری سے مسائل کا سامنا کرتے ہیں وہ اپنے قریبی لوگوں کی نظر میں اہم مقام حاصل کرلیتے ہیں۔ انسان کا سب سے بڑا دشمن غصہ ہوتا ہے۔ غصہ کی وجہہ سے بہت سے گھر تباہ ہوگئے ہیں۔طاقتور وہ نہیں ہے جو کشتی میں پچھاڑ دے،طاقتور وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے آپ کو قابو میں رکھے۔ نرمی بہت ساری خوبیوں کا سرچشمہ ہے۔ نرمی کے ذریعے لوگوں کے دل جیتے جاسکتے ہیں ۔ نرمی بہت سی مشکلیں آسان کردیتی ہیں ۔ آپ جب دوسروں سے نرمی کا معاملہ کریں تو اس کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ لوگوں کے دلوں میں آپ کے لیے ہمدردی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں، وہ آپ کی عزت کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح ماحول کے اندر ایک ایسی فضا بنتی ہے جو ہر لحاظ سے آپ کے حق میں ہوتی ہے، آپ کسی خارج رکاوٹ کے بغیر اپنا کام انجام دینے میں کامیاب رہتے ہیں۔اس کے برعکس جب آپ لوگوں سے معاملہ کرنے میں سختی کا رویہ اپنائیں تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ آپ جو کام بھی کرنا چاہیں گے اس میں آپ کے لیے خارجی رکاوٹیں کھڑی ہوجائیں گی۔ ماحول کے غیر ہمدردانہ رویہ کی وجہ سے آپ کا آسان کام بھی مشکل کام بن جائے گا۔ نرم سلوک والا آدمی اپنے ماحول میں اس طرح رہتا ہے کہ لوگ اس کے ساتھ پھول جیسا سلوک کرتے ہیں اور سخت آدمی اپنے ماحول میں اس طرح رہنے پر مجبور ہوجاتا ہے جیسے کہ وہ کانٹوں کے درمیان رہ رہا ہو۔ایک آدمی زیادہ امید پر پورا نہیں اترتا تو اس سے اپنی امید کو کم کردیجئے۔ ایک آدمی آپ کی پابندی کو قبول نہیں کرتا تو اس سے پابندی کا مطالبہ کرنا چھوڑ دیجئے۔ ایک آدمی اس خانہ کا اہل نظر نہیں آیا جہاں آپ نے اس کو رکھا تھا تو آپ سادہ طور پر صرف یہ کیجئے کہ ایک خانہ سے نکال کر اس کو دوسرے خانے میں ڈال دیجئے۔ آپ انسانوں سے موافقت کے اصول پر معاملہ کیجئے ۔ ایک لفظ میں اس کا خلاصہ یہ ہے کہ لوگوں سے خود ان کے لحاظ سے معاملہ کرو نہ کہ اپنے لحاظ سے۔ جذبات یا اشتعال کے موقع پر اپنے آپ کو تھاما جائے۔ جب ناگوار بات پیش آئے اور غصہ آئے تو اس وقت اپنے آپ پر قابو رکھے کہ غصہ کے تقاضے پر عمل نہ کرے، جو کہے خوب اس کے انجام کو سوچ لے کہ میرے لیے اس موقع پر صحیح رد عمل کیا ہے اور زیادہ نتیجہ خیز کارروائی کیا ہوسکتی ہے۔ ”حضرت انس راوی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اس وقت سے کی جبکہ میں آٹھ برس کا تھا۔ میں نے آپﷺ کی خدمت دس برس تک کی، آپﷺ نے کسی بات یا غلطی پر جو میرے ہاتھ سے ہوئی مجھے ملامت نہیں کی۔ “ کسی چیز کے ٹوٹ جانے ، بگڑ جانے پر مثلاً کوئی چیز کسی نے توڑ دی یا کام بگاڑ دیا تو آپﷺ کو غصہ نہ آتا تھا البتہ اگر کوئی بات دین کے خلاف ہوتی تو آپﷺ کو سخت غصہ آتا تھا۔ لیکن کبھی آپﷺ نے ذاتی معاملے میں غصہ نہیں کیا۔“
سخاوت:سخاوت اور دریا دلی اس کا نام ہے کہ جہاں خرچ کرنا چاہئے وہاں انسان خرچ کرنے سے نہ گھبرائے، بلکہ دل کھول کر خرچ کرے۔انسانیت کی اجتماعی فلاح کا راز یہ ہے کہ لوگوں میں سخاوت کا مزاج ہو، وہ بخل اور لالچ سے بچے ہوئے ہوں۔ بخل دراصل بڑھی ہوئی خودغرضی کا دوسرا نام ہے۔ بخیل آدمی کا حال یہ ہوتاہے کہ وہ صرف اپنے فائدے کی بات سوچتا ہے، اسے دوسرے کے فائدے سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی، وہ سماجی مواقع کو استعمال کرکے مادی فائدے سمیٹتا ہے لیکن اس ملے ہوئے فائدے میں سماج کا حصہ ادا کرنا اسے گوارہ نہیں ہوتا۔ اس مزاج کا انسان خود بھی گھاٹے میں رہتا ہے اور وہ دوسرے کے لیے بھی گھاٹے کا سبب بنتا ہے۔ لالچ اور بخل کا یہ مزاج آدمی کے دل کو تنگ کردیتا ہے۔ انسان کی فلاح کشادہ دلی میں ہے نہ کہ بخل میں۔ اس دنیا کا قانون یہ ہے کہ جتنا بڑا دل اتنی بڑی کامیابی۔ ”حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ مانگا گیا ہو اور آپﷺ نے فرمایا ہو میں نہیں دیتا۔ “
تحمل و رواداری :اختلاف زندگی کا ایک حصہ ہے۔ مختلف اسباب سے لوگوں کے درمیان اختلاف ہوتا رہتا ہے۔ اختلاف کے ہونے کو روکا نہیں جاسکتا۔ البتہ یہ ہوسکتا ہے کہ اختلاف کے باوجود آدمی اپنے آپ کو صحیح رویہ پر قائم رکھے۔ اختلاف پیش آنے کے وقت تعلقات ختم کرنا صحیح نہیں۔ اختلافی مسئلہ پر سنجیدہ بحث جاری رکھتے ہوئے باہمی تعلقات کو بدستور قائم رکھنا چاہئے۔ اختلاف والے شخص سے سلام و کلام بند کرنا یا اس کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا چھوڑ دینا کسی بھی حال میں درست نہیں۔اختلاف کے وقت انصاف پر قائم رہنا بلاشبہ ایک مشکل کام ہے۔ آدمی کو چاہئے کہ وہ اختلاف کے وقت سخت محتاط رہے۔ وہ مسلسل کوشش کرے کہ اس سے کوئی ایسا غلط رد عمل ظاہر نہ ہو جو اللہ کو پسند نہیں۔نزاع کی صورت پیش آنے کے باوجود آدمی اپنے دل کو دشمنی اور انتقام کی نفسیات سے بچائے، اختلاف کے باوجود وہ انصاف کی روش پر قائم رہے۔ اختلاف رائے ایک فطری جذبہ ہے۔ اس جذبہ کی مذمت نہیں کی جاسکتی، کیونکہ اختلاف رائے ایک صحت مند رائے کو استوار کرتی ہے۔ نظریوں کا اختلاف فکری اختلاف کو جنم دیتا ہے اور فکری اختلاف انسان کو تحقیق کے میدان میں عرق ریزی پر ابھارتا ہے۔ تحقیق انسان کو ایک صحت مند نظریہ کی طرف لے جاتی ہے۔ دنیا کا کوئی ایک مسئلہ بھی ایسا نہیں ہے جس میں تمام لوگ ایک نقطہ نظر پر متفق ہوں، ہم صرف یہ کرسکتے ہیں کہ کسی بھی موضوع کے دلائل صاف صاف بیان کرکے لوگوں کی عقل پر چھوڑ دیں، خواہ وہ اسے قبول کریں یا نہ کریں۔ آدمی جب اختلاف کو اختلاف کے دائرے میں رکھے تو اس کا امکان رہتاہے کہ تبادلہ خیال کے دوران دونوں میں سے کسی کے اوپر سچائی کھل جائے اور وہ حقیقت سے واقف ہوجائے۔ مگر جب آدمی اختلاف کو تخریب کاری تک پہنچادے تو اسکا دماغ منفی سوچ کا کارخانہ بن جاتا ہے۔
خیر خواہی :ا س دنیا میں عافیت کی زندگی حاصل کرنے کی سب سے آسان تدبیر یہ ہے کہ آدمی دوسروں کو عافیت میں رکھے۔ جو آدمی دوسروں کو تکلیف نہ دے وہ اپنے آپ کو تکلیف میں پڑنے سے بچاتا ہے۔ جو آدمی دوسروں کو تنگی میں مبتلا نہ کرے وہ خود بھی اس دنیا میں تنگی اور مشقت سے محفوظ رہے گا۔ حدیث میں آیا ہے کہ ”پیغمبر اسلامﷺ نے فرمایا کہ جو شخص کسی کو تکلیف پہنچائے تو اللہ تعالیٰ اس کو تکلیف پہنچائے گا اور جو شخص کسی کو مشقت میں مبتلا کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کو مشقت میں مبتلا کرے گا۔“خدا نے اس دنیا کا نظام اس طرح بنایا ہے کہ یہاں کوئی عمل یک طرفہ نہیں،یہاں ہر عمل اپنا دو طرفہ انجام رکھتا ہے۔ کوئی شخص جب کسی کے خلاف ایک عمل کرے تو اس کو جاننا چاہئے کہ فریق ثانی جس طرح اس عمل کا شکار ہوگا اسی طرح خود عمل کرنے والے کو بھی کسی نہ کسی صورت میں اس کا انجام بھگتنا پڑے گا۔ اس سنگین حقیقت کا تعلق ہر انسان سے ہے، کوئی بھی شخص کسی بھی حال میں اس سے بچنے پر قادر نہیں۔ درحقیقت دوسروں کے ساتھ خیر خواہی خود اپنے ساتھ خیر خواہی ہے اور دوسروں کے ساتھ بدخواہی خود اپنے ساتھ بدخواہی ہے۔
حوصلہ مندی:ہمت اور استقلال کامیابی کے بہترین ذرائع ہیں۔ آپ جو بھی کرنا چاہتے ہیں اس کے لیے حوصلہ کی ضرورت ہوتی ہے اور حوصلہ سے کامیابی کی راہ کھلتی ہے۔ سب کچھ کھونے کے بعد بھی اگر آپ کے اندر حوصلہ باقی ہے تو سمجھ لیجئے کہ ابھی آپ نے کچھ نہیں کھویا۔ حوصلہ بلاشبہ سب سے قیمتی چیز ہے۔ آدمی حوصلے کی بنیاد پر ہی بڑی بڑی بات سوچتا ہے۔ حوصلہ ہی کے ذریعے وہ اقدام کرتا ہے۔ حوصلے ہی کے بل پر وہ جوکھم میں کودتا ہے۔ حوصلے ہی کے سہارے وہ مشکلات پر قابو پاتا ہے۔ حوصلہ ہی کی مدد سے وہ زندگی کے اتار چڑھاؤ میں ثابت قدم رہتا ہے۔ حوصلہ ہی آدمی کے اندر اعلیٰ کردار پیدا کرتا ہے جو تمام ترقیوں اور کامیابیوں کو پانے کا ذریعہ ہے۔ حوصلہ مند انسان وہ ہے جسے نقصانات دل شکستہ نہ کرسکیں۔ بے حوصلگی سب سے بڑی کمزوری ہے اور حوصلہ سب سے بڑی طاقت۔ آدمی اگر بے حوصلہ ہوجائے تو 99 چیز رکھتے ہوئے بھی وہ ایک چیز کھونے کی خاطر اپنا خاتمہ کرلے گا۔ اور اگر وہ اپنے حوصلے کو باقی رکھ سکے تو وہ 99 چیزیں کھوکر ایک چیز کے بل پر دوبارہ اٹھ کر کھڑا ہوجائے گا۔ زندگی کی جدوجہد میں جو آدمی بے حوصلہ ہوجائے وہ اپنی موجودہ صلاحیتوں کو بھی کھو دے گا اور جو آدمی ہر حال میں اپنے حوصلے کو بھرپور رکھے وہ اپنی صلاحیتوں میں مزید اضافہ کرلے گا۔
احساس ذمہ داری:انسان کی شخصیت کا یہ وہ پہلو ہے جو دوسروں کی نظر میں اس کا مقام بنانے میں سب سے زیادہ اہم کردار ادا کرتا ہے۔ جب انسان کوئی ذمہ داری اپنے سر پر لے لے تو اسے نبھانے کی ہر ممکن کوشش کرنا اس کا فرض ہے۔ اپنی دنیاوی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ ہر شخص کو یہ جان لینا چاہئے کہ اس پر کچھ ذمہ داریاں اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی عائد ہیں جن کا حساب اسے مرنے کے بعد دینا ہوگا۔ ہر انسان پر یہ لازم ہے کہ وہ ان ذمہ داریوں کو جانے اور انہیں پورا کرنے کی کوشش کرے۔ جو لوگ اس سے غفلت برتتے ہیں، وہ دنیا میں کتنے ہی بڑے ذمہ دار عہدوں پر فائز کیوں نہ ہوں، خدا کے پاس ان کی کوئی حیثیت نہ ہوگی۔
حوالہ جات: اپنی شخصیت اور کردار کی تعمیر کیسے کی جائے؟ ( محمد مبشر نذیر)، رازِ حیات / تعمیر حیات / اسلام ایک تعارف/ ڈائری، جنوری 1990 ( مولانا وحید الدین خاں)، ترقی کیسے کریں؟ (ڈیل کارینگی)، المیزان، شخصیت کے عناصر اور ان کا توازن ( رائد افضل) ، لاتحزن /غم نہ کریں( ڈاکٹر عائض القرنی/ترجمہ: غطریف شہباز ندوی )، نصیحتوں کے 50 پھول ( فضیلة الشیخ عبدالعزیز ابن عبداللہ المقبل/ ترجمہ : شیخ فضل الرحمن عنایت اللہ)، شخصیت کی ترقی و مراسلتی انگلش (بشیر احمد)،آداب زندگی( مولانا یوسف اصلاحی )، اُسوہٴ رسول اکرمﷺ( ڈاکٹر محمد عبدالحئی ) ، مخزن الاخلاق( سید قطب الدین حسن صابری) ، آداب الاختلاف ( افادات: حضرت اقدس محمود الحسن صاحب گنگوہی ، مرتب: مولانا محمد فاروق ) ،دی بک آف سیکریٹس( محمد بشیر الدین علی خان)،معارف الحدیث: جلد (۱)(۲)(۶) ( مولانا محمد منظور نعمانی )۔