دینیات کے ساتھ عصری تعلیم ضروری گزارشات

از- محمد اعظم قاسمی سیتاپوری

ہم جس زمانے میں زندگی گزار رہے ہیں، تعلیمی اور تکنیکی ترقی کا زمانہ ہے، اس میں اسی کو تعلیم یافتہ سمجھا جاتا ہے جو عصری تقاضوں اور ضروریات کو اپنے علم و آگہی کی روشنی میں پورا کر سکے.
اس حقیقت سے نظر پوشی نہیں کی جا سکتی کہ ہماری مسلم قوم تعلیمی لحاظ سے بہت ہی پس ماندہ ہے، جس کی وجہ سے ہر میدان عمل میں دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور یہ بات بھی مسلّم ہے کہ ان پڑھ شخص کا شعور بیدار نہیں ہوتا اور اس کی بات پر توجہ بھی نہیں دی جاتی، لہذا وہ اقتصادی اعتبار سے بھی زیادہ ترقی نہیں کر پاتا اور سماج میں بھی اس کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہوتی؛ اس لیے کہ وہ سماجی اقدار سے ناواقف ہوتا ہے.
اچھے عہدوں پر تعلیم یافتہ حضرات ہی پہنچ پاتے ہیں، حکومت سازی اور حکومتوں کی تبدیلی میں بھی پڑھے لکھے ہی اچھا کردار ادا کر پاتے ہیں. کشور ہندوستان میں تو اب پاسپورٹ بنوانے کے لیے ہائی اسکول کا سرٹیفکیٹ لازمی ہے ورنہ ان پڑھ شمار کیا جائے گا، اندیشہ یہ ہے کہ کہیں آئندہ یہ قانون نہ پاس کر دیا جائے کہ ووٹ صرف وہی دے سکیں گے جن کے پاس کم از کم ہائی اسکول یا انٹر کی سند ہو.
رہی یہ بات کہ اسکولوں اور کالجوں میں تعلیم پانے والا طبقہ عموماً دین سے نابلد یا انتہائی غافل ہوتا ہے، بعض تو بد دین اور دین کے دشمن تک ہو جاتے ہیں، جس کے بارے میں علماء اور دین کی فکر رکھنے والے حضرات اندیشے بھی ظاہر کرتے رہتے ہیں، اور یہ اندیشے حقیقت پر مبنی ہوا کرتے ہیں. تو کیا ان حقائق کے پیشِ نظر کوئی ایسی صورت ہو سکتی ہے کہ مسلمان اپنے دین سے بھی بالکل ناواقف نہ رہے اور ہم عصر کارواں سے پچھڑنے بھی نہ پائے؟ یہ وہ سوال ہے جس پر ہمارے مفکرین کو سر جوڑ کر بیٹھنا، سوچنا اور کوئی مناسب عملی فیصلہ لینا چاہیے.
یہ بات تو ہر مسلمان جانتا ہے کہ بقدر ضرورت دینی علم حاصل کرنا فرض ہے، اس کے بعد جو جتنا حاصل کر لے اتنا ہی بہتر ہے، اس کے لیے مدارس و مکاتب قائم ہیں اور الحمد للہ یہ ضرورت ایک حد تک پوری بھی ہو رہی ہے، اگرچہ مزید عملی وسعت، سنجیدگی، فعالیت اور مقصدیت کی ضرورت ہے؛ لیکن مدارس میں آئے ہوئے طلبہ کے علاوہ جو بچّے خارج میں رہ جاتے ہیں، جن کا رہ جانا بھی ناگزیر ہے ان کے بارے میں بھی قابل نفاذ لائحہ عمل درکار ہے. افسوس کی بات ہے کہ ان بچوں میں سے ایک کثیر تعداد ان پڑھ رہ جاتی ہے، کبھی وسائل کی کمی کی وجہ سے، کبھی تعلیمی اداروں کی قلت اور کبھی ادارے کی نا اہلی کی وجہ سے، جیسا کہ بہت سے حکومتی اسکولوں کا حال ہے، یا تو اساتذہ نہیں ہیں یا لا پروا ہیں یا طلبہ صرف مڈ ڈے میل کے لیے آتے ہیں اور مقصد پورا کر کے چلے جاتے ہیں. اب اگر ان بچوں کی دینی تعلیم کا نظم نہیں کیا گیا تو دین میں پچھڑ جائیں گے اور دنیوی تعلیم سے محرومی دنیا میں پستی و ذلت کا باعث بنے گی.
ایسے میں دین کو برقرار رکھتے ہوئے عصری تعلیم کیسے دی جائے اس سلسلے میں میرے ذہن میں جو باتیں آ رہی ہیں وہ درج ذیل ہیں.
١- جو طلبہ کسی ایسے اسکول میں جا رہے ہیں جہاں دینی تعلیم کا نظم نہیں ہے ان کو اگر کوئی مناسب متبادل اسکول بھی میسر نہ ہو تو وہیں تعلیم حاصل کرتے رہنے کے ساتھ ساتھ روزانہ ایک گھنٹہ کسی بھی طریقے سے دینی تعلیم بھی حاصل کرتے رہنا چاہیے، اس کے لیے یا تو مکتب جائیں یا ٹیوشن لگا لیں، اگر روزانہ وقت نکال پانا دشوار ہو تو کم سے کم ہفتے میں تین دن تو ضرور ہی نکالیں ورنہ ضروری دینی تعلیم سے بھی محروم رہنا پڑے گا.
٢- جن اسکولوں کے ذمہ داران مسلم ہوں ان کو سمجھا بجھا کر دینیات کا بھی نظم کرانا چاہیے، اس مقصد کے لیے ہر جماعت میں ایک گھنٹہ متعین کیا جائے.
٣- سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہمارے فکر مند حضرات یا تو خود یا دوسروں کے واسطے سے ایسے اسکول قائم کریں جہاں عصری علوم اس انداز سے پڑھائے جائیں کہ معیارِ تعلیم میں وہ کسی دوسرے اسکول سے کسی اعتبار سے کم نہ ہوں اور دینیات کا بھی مضبوط انتظام ہو، صرف خانہ پری نہ ہو؛ تاکہ ہائی اسکول پاس کرنے کے بعد کچھ طلبہ اگر ڈاکٹر اور انجینئر وغیرہ بننا چاہیں اور اس رخ پر آگے بڑھیں تو کچھ طلبہ مدارس کا بھی رخ کریں اور عالم و فاضل اور مفتی وغیرہ بھی بنیں. اگر عزم مصمم ہو تو یہ کام مشکل نہیں ہے، بعض حضرات الحمد للہ کر بھی رہے ہیں. اس تعمیری اور انتہائی ضروری کام کے لیے سوسائٹیز اور تنظیمات کو بھی دیگر کاموں کے مقابلے میں زیادہ متحرک ہونا چاہیے.
٤- طلبہ مدارس کی پختہ دینی ذہن سازی کرنے کے بعد ان میں سے بعض کو عصری علوم کی تحصیل پر آمادہ کرنا چاہیے تاکہ ان کے اندر سے جھجھک ختم ہو، ہر ایک سے بات کرنے کے لائق ہو سکیں اور حکومت کے نزدیک بھی تعلیم یافتہ شمار ہوں. ایسے طلبہ سے زیادہ دینی نفع کی توقع کی جا سکتی ہے.
٥- پِلَس ٹو، بیچلر، ماسٹر اور پوسٹ ماسٹر کی ڈگری رکھنے والوں کے لیے عالمیت کا قصیر المدتی نصاب ہونا چاہیے، تاکہ کم وقت رکھنے والے شائقینِ علوم دینیہ بھی محروم نہ رہیں.
٦- فضلاء مدارس کے لیے مرکز المعارف کے طرز کے مزید ادارے قائم کیے جانے چاہئیں جن میں اچھے اساتذہ انگلش زبان کی عمدہ تعلیم دیں، اسی طرح دعوتی و تربیتی ادارے بھی قائم کیے جائیں جن میں مقصود دعوت و تربیت ہو اور ساتھ ساتھ انگلش و ہندی کی بھی تعلیم ہو تاکہ فضلاء کے سامنے دینی دعوت کا میدان کشادہ تر ہو سکے.
٧- مذکورہ باتوں کے علاوہ ایک کام یہ بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ لمبی چھٹیوں میں اسکول کے طلبہ کے لیے سَمَر کیمپ کا نظم کیا جائے جس میں مختلف موضوعات پر دین کی اہم باتوں کے ساتھ ساتھ نماز اور کچھ ضروری دعائیں بھی یاد کرائی جائیں اور ممکن ہو تو کچھ وقت کسی خانقاہ یا اچھی جماعت میں بھیجا جائے یا مقامی علماء متقین کی مجالس میں شریک کیا جائے. اسی طرح اساتذہ کی بھی دینی ذہن سازی کی کوشش کی جائے.
٨- ان بچوں پر خاص توجہ رکھی جائے جو پڑھنے میں اچھے ہیں یا پڑھنے کا شوق رکھتے ہیں اور ان کے اہل خانہ کے پاس اتنی وسعت نہیں کہ پڑھا سکیں، ایسے بچوں کی تعلیم کا نظم قوم کے درد مند متمول حضرات یا تنظیمات کو کرنا چاہیے.
٩- جو بچے اسکول یا مدرسہ نہیں جا رہے ہیں ان کو اور ان کے سرپرستوں کو تعلیم کی اہمیت و ضرورت بتانی چاہیے، اگر مالی حالت کمزور ہو تو ان کی مدد بھی کرنی چاہیے، تاکہ وہ کسی طرح پڑھ کر اپنے مستقبل کو تابناک بنا سکیں.
خلاصہ یہ ہے کہ تعلیم پر انتہائی زور دینے کی ضرورت ہے اور اس کی اہمیت کو نظر انداز کرنا قوم کو پستی کی گہری کھائیوں میں گرانے کے ہم معنی ہے. کوئی قوم تعلیم کے بغیر ترقی کے مدارج طے کر سکی ہے نہ کر سکے گی. رب ذو الجلال ہم سب کو فروغِ تعلیم کے لیے سعیِ مسلسل کی توفیق عنایت فرمائے.

21/12/2017

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے