معتدل و غیر معتدل اسلام: ایک مغربی سازش

مولانا شمس الھدی قاسمی بستوی*

آج پوری دنیا میں ہر طرف یہود ونصاری کا بول بالا ہے۔ بہت سے ممالک کی باگ وڈور ان کے ہاتھوں میں ہے اور جن ممالک میں وہ بظاہر حکمرانی سے محروم ہیں، ان ممالک کے حکمرانوں کو، اپنے سازشی ذہن کو استعمال کرکے، ہمیشہ اپنے دام فریب میں رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرتے رہتے ہیں۔ ان کے دام فریب میں کچھ مسلم ممالک کے حکمراں اور بڑے بڑے عہدے پر فائز افسران بھی ہیں جو ان کے اشارے پر ناچتے ہیں۔ ان حکمرانوں اور افسرانوں سے وہ جب جو چاہیں کروالیں اور جب جو چاہیں کہلوالیں، ان کے لیے یہ کوئی مشکل امر نہیں ہے۔ تعجب تو اس پر ہے کہ مسلم ممالک کے حکمراں ان کے دام فریب میں کیسے آجاتے ہیں اور ان کو اپنا دوست کیسے سمجھ بیٹھتے ہیں؛ جب کہ قرآن کریم کی واضح ہدایت موجود ہے کہ وہ لوگ محسن انسانیت، پیارے نبی محمد –صلی اللہ علیہ وسلم– سے کبھی خوش نہیں رہے، تو آج ان کی آل واولاد ہم سے کیسے خوش رہے گی اور ان سے ہمیں بھلائی کی کیا امید؟ قرآن کریم میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
"اور کبھی خوش نہ ہوں گے آپ سے یہ یہود اور نہ نصاری، جب تک کہ آپ (نعوذ باللہ) ان کے مذہب کے(بالکل) پیرو نہ ہوجائیں۔ آپ (صاف) کہہ دیجیے کہ (بھائی) حقیقت میں تو ہدایت کا تو وہی رستہ ہے جس کو اللہ نے بتلا دیا ہے اور اگر آپ اتباع کرنے لگیں ان کے غلط خیالات کا، علم (قطعی ثابت بالوحی) آچکنے کے بعد، تو آپ کا کوئی اللہ سے بچانے والا نہ یار نکلے گا نہ مدد گار۔” (سورہ بقرہ، آیت: 120)
اللہ تعالی نے قرآن کریم میں یہ پوری وضاحت کے ساتھ بیان کردیا ہے کہ یہود ونصاری کبھی بھی نبی محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) سے خوش نہیں ہوں گے؛ تا آں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے مذاہب کے متبع نہ ہوجائیں؛ جب کہ یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کبھی بھی ممکن نہیں تھی؛ اس لیے کہ اللہ تعالی نے جو حق تھا، اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر نازل کرکے حق وباطل کا فرق حضور پرنور محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں دو دو چار کی طرح واضح کردیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل ودماغ کو اس سے منشرح کردیا۔ مذکورہ آیت اس بات کی بھی رہنمائی کرتی ہے کہ حق وباطل کی جنگ اسلام کے ابتدائی دور سے ہی شروع ہوگئی تھی اور اسلام کے ماننے والوں نے ہر موڑ پر، بڑی خوبی کے ساتھ، اس کا بھرپور دفاع کیا۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد، صحابہ کرام، تابعین عظام، ائمہ مجتہدین، اسلامی اہل زبان وقلم اور پھر اسلام کے جیالوں نے باطل قوتوں کی طرف سے، اسلام کی راہ میں، خطرات وخدشات کی شکل میں آنے والے ہرچیلنج کو قبول کیا اور اپنے مسکت جوابوں سے معاندین اسلام کا ناطقہ بند کردیا۔ اہل باطل اپنی پوری ظاہری چمک دمک اور نمائش کے ساتھ، بہت سے خطرات لےکر، آج پھر دنیا کے کونے کونے میں زندگی بسر کررہے مسلمانوں کے ایمان کو، ان کو خدائی دین؛ اسلام کے حوالے سے کمزور کرنے کی سازش رچ رہے ہیں۔ پوری دنیا مکمل طور پر مغرب کی چمک دمک، جادوگری اور مادی ترقیات سے مسحور لگ رہی ہے۔ بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ مغربی دنیا سے جو کچھ بھی آرہا ہے، اسے لوگ خوشی خوشی قبول کرنے کے لیے ذہنی طور پر تیار بیٹھے ہیں، چاہے وہ مفید ہوں یا مضر، سود مند ہو یا ضرر رساں!
آج مسلمانوں کو پوری دنیا میں نشانہ بنایا جارہا ہے اور ان کو پوری قوت کے ساتھ بدنام کیا جارہا ہے۔ اسلام مخالف عناصر، مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لیے تمام تر توانائی صرف کررہے ہیں۔ اسلامی تعلیمات جو اپنی ساری خوبیوں کے ساتھ "امن عالم” کی ضمانت دیتا ہے، اسے کچھ مفاد پرست مغربی قوتیں اپنے خیال کے مطابق امن پسند دنیا کے لیے "بڑے خطرے” کی شکل میں منوانے اور قائل کرانے پر مصر ہیں۔ مغربی طاقتیں اور ان کے زر خرید بین الاقوامی ذرائع ابلاغ، ان کی اس سعی لاحاصل کو کامیابی میں بدلنے کے لیے شب وروز اسلام کو کھلے عام دہشت گردی سے جوڑنے کی ہر ممکن سازش کررہے ہیں۔ جب بھی کوئی حادثہ پیش آتا ہے، تو اس کی تحقیق سے پہلے ہی اسلام مخالف عناصر اس کا تار مسلمانوں سے جوڑ کر، ان کو بلا تاخیر دہشت گرد بنا دیتے ہیں۔ بلا شبہ، پورے یقین واعتماد کے ساتھ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ اسلام کی سچی اور امن پسند شبیہ کو مسخ کرنے اور مسلمانوں کے دلوں سے دین اسلام کی تیز شعاعوں کو مدھم کرنے کا یہ ایک مغربی حربہ ہے۔ یہ حق وباطل کے درمیان ایک فکری اور نفسیاتی جنگ ہے۔ اسی جنگ کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے اہل مغرب نے "معتدل اسلام” اور "بنیاد پرست اسلام” کی اصطلاحیں گھڑ ڈالیں؛ تاکہ اس بہانے سے وہ مسلم قوموں کو اعتدال پسند اور شدت پسند اسلام میں تقسیم کرسکیں اور ان کے ایمان ویقین کو متزلزل کرسکیں۔ اب المیہ یہ ہے کہ آج کل کے کچھ نام نہاد مسلمان بغیرکسی سوجھ بوجھ، اور ایسی اصطلاحوں کی ایجاد کے پیچھے دین اسلام اور مسلمانوں کو مجروح کرنے کے خفیہ ایجنڈوں سے عدم واقفیت کے سبب، معتدل اور شدت پسند اسلام کی اصطلاحوں کو استعمال کرکے خود کو مغربی طاقتوں کے سایے میں محفوظ محسوس کرتے ہیں۔ حال ہی میں جزیرۃ العرب (سعودیہ عربیہ) کے ناتجربہ کار، جوش وجذبہ سے مغلوب اور مستقبل کے بادشاہ، ولی عہد محمد بن سلمان نے ایک بڑی "انویسمنٹ کانفرنس” کے اسٹیج سے اپنی تقریر میں یہ وعدہ کیا کہ "ملک (سعودیہ عربیہ) معتدل اسلام کی طرف لوٹے گا اور شدت پسندوں کے نظریات کے ساتھ معاملہ کرکے زندگیوں کے سالہا سال کو ضائع نہیں کرے گا۔”
ہمیں ایسے موقع پر، ٹھنڈے دل سے سوچنا چاہیے کہ "معتدل اسلام” اور "شدت پسند اسلام” نام کی کوئی چیز ہی نہیں ہے۔ یہ سب اصطلاحیں اہل مغرب کی گھڑی ہوئی ہیں اور اس طرح کا اسلام صرف انھیں کی پیداوار ہے؛ جب کہ اسلام کی تقریبا ساڑھے چودہ سالہ تاریخ میں، اس طرح کی کوئی اصطلاح نہیں پائی جاتی ہے۔ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے "معتدل اسلام” والے بیان کے جواب میں، عالم اسلام کے مرد آہن اور ترکی کے عزت مآب صدر محترم، رجب طیب اردگان نے بہت ہی درست کہا کہ "معتدل اسلام” کی اصطلاح اسلام کو شدت پسندوں سے دور کرنے کے بجائے دین اسلام کو کمزور کرنا ہے۔ مغربی ممالک کے حکمراں اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ پوری دنیا کو کنٹرول کرنا اور اس کے مال ودولت کو ہتھیانا، عالم اسلام کو کمزور کیے بغیر آسانی سے ممکن نہیں ہے۔ اس لیے اپنے اہداف کو بروئے کار لانے کے لیے، انھوں نے شدت پسندی، دہشت گردی، رجعیت پسندی اور عدم برداشت کا الزام لگا کر اور اسلام کے اثر ورسوخ کو کالعدم کرنے کے لیے اور بھی دوسری من گھڑت باتوں کو اسلام کی طرف منسوب کرکے، انھوں نے اسلام کے خلاف جارحانہ حملے مزید تیز کر دیے ہیں۔ جب کہ اسلامی تعلیمات کے منصفانہ مطالعہ سے، پڑھے لکھے افراد کے لیے یہ جاننا نہایت ہی آسان ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کا شدت پسندی اور دہشت گردی سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، جیسا کہ خود قرآن کریم میں، مسلمانوں کے تعلق سے رحمن ورحیم اللہ کا فرمان ہے: "اور ہم نے تم کو ایک ایسی ہی جماعت بنا دی ہے جو (ہر پہلو) سے "اعتدال” پر ہے۔” (سورہ بقرہ، آیت: 143)
ہمیں بحیثیت مسلمان مغربی سازشوں اور ان کے جعلی نعروں کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ اسلام ایک کامل ومکمل دین ہے، جو کائنات انسانی کو مکمل کتاب یعنی قرآن کریم کی کی شکل میں، من جانب اللہ عطا کیا گیا ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث شریفہ، اس مقدس کتاب کی مکمل تشریح وتوضیح ہے۔ قرآن کریم اور احادیث شریفہ میں کہیں بھی کوئی ایسی بات نہیں در آئی ہےکہ ہم کچھ دنیادار منافقوں کو خوش کرنے کےلیے، ان کو نکالنے کی جرأت بیجا کا ارتکاب کریں۔ قرآن کریم میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے: "آج کے دن تمھارے لیے تمھارے دین کو میں نے کامل کردیا اور میں نے تم پر اپنا انعام تام کردیا اور میں نے اسلام کو تمھارا دین بننے کے لیے پسند کرلیا۔” (سورہ مائدہ، آیت: 3)
بہ حیثت مسلمان ہمیں دین اسلام کی شکل میں ایک مکمل نظام حیات ملا ہوا ہے، اس کے مطابق ہم بہ سہولت اپنی زندگی گزارنے کے اہل ہیں۔ ہمیں کسی بھی ایسے مشورے اور آراء کی قطعی ضرورت نہیں جو ہمیں ہمارے دین کو، منافق اور اور دنیادار لوگوں کی نظروں میں زیادہ لچکدار اور قابل قبول بنانے کی رہنمائی کرے۔ ہم نے ماضی میں بھی اس طرح کے مشوروں کو ردّی کی ٹوکری میں ڈالا ہے اور اگر مستقبل میں بھی دور جدید کے "معتدل منافق”، ہم سے اس طرح کی کوئی امید رکھتے ہیں؛ تو انھیں یاس وناامیدی کے سوا کچھ ہاتھ نہ لگے گا؛ کیوں کسی بھی باطل کے لیے چاہے وہ رتی برابر ہی کیوں نہ ہو، اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے، جیسا کہ قرآن کریم میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔ مسلم ممالک کے وہ حکمراں جو اس طرح کی سازشوں کے شکار ہورہے ہیں، انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ تہذیب وثقافت اور مادیت کی جنگ ہے جسے مغربی حکمراں ان کی ذہنی تطہیر کرکے اور عالم اسلام کو شکست فاش سے دو چار کرکے، اپنی برتری ظاہر کرنا چاہتے ہیں۔ ہمیں عوامی سطح پراپنے سچے پکے مسلم بھائیوں اور بہنوں سے پوری امید ہی نہیں؛ بل کہ یقین ہے کہ وہ صراط مستقیم سے ایک انچ بھی نہیں ہٹیں گے؛ کیوں کہ آخرت کے ساتھ ساتھ دنیا کی بھی حقیقی کامیابی صراط مستقیم پر گامزن رہنے اور اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے میں ہی پنہاں ہے۔ اللہ تعالی ہمیں سچا پکا مسلمان بننے اور پیارے نبی جناب محمد رّسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات کے مطابق دین پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے! آمین! (((

٭ چیف ایڈیٹر "دی لائٹ” انگلش میگزن، ہیڈ انگلش ڈپارٹمنٹ، جامہ اکل کوا، مہاراشٹرا

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے