خانوادۂ پُھولپوری کے چشم وچراغ کا سانحۂ اِرتحال

از: محمد ارمغان ارمانؔ، فیصل آباد

خانوادۂ پُھولپوری کے چشم وچراغ کا سانحۂ اِرتحال

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ، نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْم، اَمَّا بَعْدُ!

۱۱؍ربیع الاوّل ١٤٣٩ھ؁ مطابق ٣٠؍نومبر ٢٠١٧ء؁ بروز جمعرات علی الصبح سات بجے سُلطان العارفین حضرت مولانا شاہ عبدالغنی پُھولپوری رحمہ اللہ تعالیٰ کے نبیرہ، مُجدِّدِزمانہ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اخترؔ رحمہ اللہ تعالیٰ کے برادر زادہ، حلیم الاُمّت حضرت مولانا شاہ حکیم محمد مظہر صاحب دامت برکاتہم کے عمّ زادہ، محی السُّنّہ حضرت مولانا شاہ ابرار الحق ہردوئی رحمہ اللہ تعالیٰ کے خلیفہ ومُجازِ بیعت، مدرسہ اسلامیہ عربیہ بیت العلوم‘ سرائے مِیر‘ اعظم گڑھ (یوپی، انڈیا) کے سرپرست وشیخ الحدیث، ہِندوستان کے مشہور ومعروف جَیّد عالمِ دین وشیخِ طریقت، محبوب العلماء والصلحاء، عارِف باللہ حضرت مولانا مفتی شاہ محمد عبداللہ پُھولپوری رحمہ اللہ تعالیٰ مکۃ المکرّمہ میں ساڑھے اٹھاون سال (باعتبار ہجری) کی عُمر میں انتقال فرما گئے، اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

نمازِ جنازہ بعد نمازِ عشاء مسجد الحرام میں امام وخطیبِ حرم الشیخ خالد الغامدی حفظہٗ اللہ کی امامت میں ادا کی گئی اور تدفین جنّت المعلّٰی (بلاک نمبر١، لائن نمبر٢٠٧، قبر نمبر٨) میں ہوئی۔ بعض لوگ جو وفات کی تاریخ دس ربیع الاوّل بیان کر رہے ہیں؛ تو یاد رہے یہ تاریخ سعودی عرب کے اعتبار سے ہے، ہمارے یہاں پاکستان وہندوستان میں اِس دِن گیارہ تاریخ تھی۔

اِس دَورِ قحط الرّجال میں پے درپے اور وقفہ بَہ وقفہ عُلمائے ربّانیّین ومشائخِ کاملین کی رِحلت قُربِ قیامت کی بڑی علامتوں میں سے ایک علامت ہے، اللہ تعالیٰ ہم سب کی حفاظت فرمائے۔ ایسے ہی بندوں کے دارِ فانی سے کُوچ کر جانے پر کہا جاتا ہے: ’’مَوْتُ الْعَالِمْ، مَوْتُ الْعَالَمْ‘‘۔

اِس رُوح فَرسا خبر سے احقر پر بہت اثر ہوا، کافی دیر تک قلب پر عجیب کیفیت طاری اور زباں پر کلمۂ اِستِرجاع جاری رہا۔ حضرت مفتی صاحب کی علالت کچھ پہلے سے ہی چل رہی تھی۔ اس وقت آپ اپنی اہلیہ محترمہ اور تین صاحب زادگانوغیرہ کے ہمراہ عُمرہ کے مبارک سفر پر تھے، اِسی دوران تین چار دِن قبل اچانک طبیعت بِگڑنے پر النّور ہسپتال (مکۃ المکرّمہ) لے جایا گیا، بالآخر دَورانِ علاج خانوادۂ پُھولپوری کا یہ چراغِ علم وعرفاں گُل ہو گیا، مگر کئی اور چراغ جلا کر اِک جہاں کو روشن کر گیا۔ زیارت وطوافِ بیت اللہ کے لیے آئے تھے، مگر رَبُّ البیت کی طرف سے مُلاقات کا بُلاوا آ گیا۔ اُن کاحال یقیناً ایسا ہیتھا بزبانِ مُرشدی قدس سرّہٗ ؎

دل ہمی خواہد کہ زیں عالم روم

جسم بگذارم سوئے جاناں روم

یعنی ’’دِل چاہتا ہے کہ اس عالَمِ فانی سے جلد رُخصت ہوں، جسم سے رُوح کو مجرّد کر کے محبوبِ حقیقی کی طرف پرواز کروں‘‘۔ (معارفِ مثنوی:٧٣٦، ٧٣٧، مثنوی اختر)

کفن کی سفید چادر میں لپٹے آپ کے چہرۂ مُبارک پر مُسکراہٹ،نورانیت اور طَمانیت کے اثرات بالکل عَیاں تھے، سِجنِ مومناں سے باغِ جِناں کو روانگی ہوتے وقت اللہ والوں کی شان ایسی ہی ہوا کرتی ہے۔ آپ کے جدِّ اَمجد حضرت پُھولپوری قدس سرّہٗ کا انتقال بھی ماہِ ربیع الاوّل میں ہوا تھا۔

شاہ عبدالغنی پُھولپوری اور شاہ حکیم محمد اختر کے مابین رشتہ داری:

سیّدی ومُرشدی حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اخترؔ رحمہ اللہ تعالیٰ (م١٤٣٤ھ)آپ کے عَمِّ محترم تھے۔ آپ کے دادا محترم حضرت شاہ عبدالغنی پُھولپوری (م١٣٨٣ھ) (خلیفۂ مجاز حکیم الاُمّت حضرت تھانوی، م١٣٦٢ھ)اور حضرت شاہ حکیم محمد اخترؔ رحمہم اللہ تعالیٰ کے درمیان رِشتہ داری کیسے قائم ہوئی؟ خود حضرت مُرشدی کی ہی زبانی مُلاحظہ ہو،اپنی خودنوشت سوانح میں لکھتے ہیں کہ:

’’تعلقِ شیخ کے تقریباً چار سال بعد حضرتِ اقدس [پُھولپوری] کی اہلیہ صاحبہ کا انتقال ہو گیا۔ [اور تقریباً چار سال قبل حضرت والا مُرشدی
کے والدِمحترم کا بھی انتقال ہو چکا تھا]ایک عرصہ بعد ایک دِن فرمایا کہ بغیر بیوی کے بہت تکلیف ہوتی ہے، بعض بیماری ایسی آ جاتی ہے کہ پیشاب‘ پاخانہ کی خدمت بیوی ہی کر سکتی ہے۔

احقر نے والدہ صاحبہ سے نکاح کے متعلق مشورہ کیا، پھر حضرتِ اقدس سے درخواست کی؛ بہت مَسرور ہوئے اور عَقد فرما کر اِرشاد فرمایا کہ امام محمد رحمۃ اللہ علیہ [م١٨٩ھ]کی والدہ صاحبہ سے حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ [م١٥٠ھ]نے عَقد فرمایا تھا۔

اخترؔ اُس وقت ٢١؍سال کا تھا اور توفیقِ الٰہی سے اپنا عالمِ شباب ایک بوڑھے شیخ کی خدمت وصحبتِ دائمہ پر نذر وفِدا کر رہا تھا۔ خانقاہ شریف قصبہ [پُھولپور] سے باہر تھی، عجیب تنہائی کا عالَم رہتا تھا۔ ایک دِن والدہ صاحبہ سے حضرت مُرشد رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اخترؔ میرے ساتھ ایسے پیچھے پیچھے لگا رہتا ہے، جیسے کہ دُودھ پیتا بچہ ماں کے پیچھے پیچھے لگا رہتا ہے‘‘۔(ترجمۃ المصنّف:١٧، ١٨، ومعرفتِ الٰہیہ)

نیز حضرت والا مُرشدی رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مکمل دینی تعلیم بھی اپنے شیخ ومُربّی حضرت پُھولپوری رحمہ اللہ تعالیٰ کے مدرسہ بیت العلوم سرائے میر میں ہی حاصل کی تھی۔

عمِّ محترم کے ساتھ قلبی تعلق اور اُن کے متعلق تاثرات:

حضرت والا مُرشدی رحمہ اللہ تعالیٰ کا اتّباعِ سُنّت کی اہمیت پر ایک شعر‘ جسے عالمگیر مقبولیت حاصل ہوئی؛اکابر عُلما،فُقہا، عُرَفا،صُلحا اور ہر طبقہ کا پسندیدہ ہے، وہ یہ ہے ؎

نقشِ قدم نبی کے ہیں جنّت کے راستے

اللہ سے ملاتے ہیں سُنّت کے راستے

حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ نے اِس شعر کو بڑے سائز کا فریم کروا کر اپنے کمرے کی دیوار پر لگایا، جس کے پسِ منظر میں مسجدِ نبوی علیٰ صاحبھا الصلوٰۃ والسلام کی رات کا خوب صُورت منظر ہے۔آپ کا یہ عمل سُنّت سے مَحبّت اور عمِّ محترم سے قلبی عقیدت ووابستگی پر دالّ کرتا ہے۔

جب عمِّ محترم قدس سرّہٗکا وصال ہوا، تو حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ نے بھی مضمون رقم فرمایا؛ مختصر مگر جامع۔ اِس میں حضرت والا رحمہ اللہ تعالیٰ کے متعلق فرماتے ہیں کہ:

’’حضرت والا شاہ حکیم محمد اخترؔ صاحب‘ حضرت شاہ عبدالغنی صاحب پُھولپوری علیہ الرحمۃ کے خادمِ خاص کے عُنوان سے مشتہر تھے، بزرگوں کے بقول حضرت پُھولپوری علیہ الرحمۃ کے فیض سے سرشار تھے۔ ہمارے حضرت والا شاہ ہردوئی قدس سرّہٗ نے بھی ان کے لیے فرمایا تھا کہ ’’خدمتِ شیخ از ابتداء تا انتہاء مُبارک ہو‘‘۔ کسی انسان کا سب سے بڑا سرمایہ یہی ہوتا ہے کہ اُس کے مُربّی وبڑے اعتماد فرمائیں، جس طرح صحابہ کے پاس یہی بڑی سند تھی کہ اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اُن سے راضی رہے۔ چُناں چہ حضرت عمر رضی اللہ عنہٗ نے جب خلافت ساز کمیٹی مقرر فرمائی، تو یہی فرمایا کہ یہ وہ چھ صحابہ ہیں‘ جو عشرہ مبشرہ کے افراد ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اِن سے تاحینِ حیات خوش رہے۔ بہرحال بڑوں کا خوش رہنا اور پُر اعتماد ہونا‘ چھوٹوں کے لیے بڑا سرمایہ ہے۔ ہمارے حضرت والا حکیم صاحب قدس سرّہٗ کو اپنے بزرگوں کا اعتماد اور اُن کی خوشیاں حاصل رہیں، جو بعد میں اُن کے عالمی اِفادات کا ذریعہ بنیں۔ یقیناً وہ فناء فی الشیخ، فناء فی اللہ کے اعلیٰ مقام پر فائز تھے‘‘۔

اور ایک مقام پر فرماتے ہیں کہ:

’’ایک صاحب نے فون پر مجھ سے کہا کہ حضرت پُھولپوری علیہ الرحمۃ کی پُھلواری کا ایک پُھول مُرجھا کر گِر گیا، تو میں نے بَرجستہ کہا کہ ’’پُھول کی مَہک اِنْ شَآءَ اللّٰہ باقی رہے گی‘‘۔

اب ذیل میں حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کے مختصر سوانحی حالات مُلاحظہ ہوں۔

مختصر سوانحی حالات

آپ کی پیدائش ٣؍مارچ ١٩٦١ء؁مطابق١٥؍رمضان المبارک ١٣٨٠ھ؁بروز جمعہ بوقت صبح ننھیال گاؤں ’’آنوک‘‘ضلع اعظم گڑھ میں ہوئی، آپ اپنے والدین کے اکلوتے فرزندِ اَرجمند تھے۔

والدِ ماجد الحاج ابوالبرکات عُرف چھوٹے بابُو رَحمہ اللہ تعالیٰ ہیں، جو حضرت پُھولپوری رحمہ اللہ تعالیٰ کے چھوٹے وچہیتے صاحب زادے اوراَلْوَلَدُ سِرٌّ لِاَبِیْہِ کا مِصداق تھے۔ قصبہ پُھولپور میں ہی ١٩٣٧ء؁مطابق ١٣٥٥ھ؁ کو پیدا ہوئے۔ قانِع وشاکر، فیّاض ومہمان نواز، رحم دِل و خوش دِل، متواضع وصالح، ذاکر وشاغل اور کثرتِ تلاوت کے پابند تھے۔ اپنے والدِ محترم سے بیعت تھے، ان کے بعد محی السُّنّہ حضرت ہردوئی رحمہ اللہ تعالیٰ سے باضابطہ اصلاحی تعلق قائم فرما لیا، والدِ محترم کی نسبت سے اپنے شیخِ ثانی کے بہت قریب ومحبوب رہے۔ مسجد ومدرسہ روضۃ العلوم پُھولپور کا نظم ونسق بھی بہت حُسن وخوبی سے انجام دیا، نیز مدرسہ بیت العلوم سرائے میر کی مجلسِ عاملہ کے بھی رُکن تھے۔ دس سال صاحبِ فراش رہے، تقریباً ٧٨ سال (باعتبار ہجری)کی عُمر میں ٣؍محرم الحرام ١٤٣٤ھ؁ مطابق ١٧؍نومبر ٢٠١٢ء؁اتوار کی شب پُھولپور میں انتقال فرمایا اور متّصل عیدگاہ قبرستان میں تدفین ہوئی۔

کہا جاتا ہے کہ دادا محترم حضرت پُھولپوری رحمہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مفتی صاحب کے پیدا ہونے پر فرمایا تھا کہ:

’’یہ بچہ بڑا ہو کر بہت بڑا عالِم اور میرا جانشین ہو گا‘‘۔

چُناں چہ خلقِ خدا نے اس پیشین گوئی کو نہ صرف سچ ثابت ہوتے اپنی آنکھوں سے دیکھا، بلکہ اکابر ومُعاصر نے بھی آپ کے عالمِ ربّانی اور عارفِ حقّانی ہونے کا کُھلا اعتراف فرمایا۔

دادا محترم حضرت پُھولپوری رحمہ اللہ تعالیٰ ضلع اعظم گڑھ کے گاؤں ’’چھاؤں‘‘کے رہنے والے تھے، لیکن پھر قصبہ ’’پُھولپور‘‘ میں سکونت اختیار کر لی اورپورا خاندان بھی یہیں آ کر مقیم ہو گیا، عُمر کا بیشتر حِصّہ یہیں گزرا؛پھر ١٩٦٠ء؁میں حضرت پُھولپوری رحمہ اللہ تعالیٰ اپنے خادمِ خاص حضرت شاہ حکیم محمد اخترؔ رحمہ اللہ تعالیٰ کے ہمراہ پاکستان ہجرت کر گئے اور باقی خاندان یہیں ہندوستان میں ہی مقیم رہا، پھر تین سال بعد ہی(٢١؍ربیع الاوّل ١٣٨٣ھ؁ مطابق ١٢؍اگست ١٩٦٣ء؁بروز پیر)حضرت پُھولپوری رحمہ اللہ تعالیٰ کا کراچی میں وصال ہو گیا۔

آپ نے حفظ واِبتدائی دینی تعلیم مدرسہ بیت العلوم سرائے میر میں حاصل کی، دَرسِ نظامی اور اِفتاء کی تکمیل عالمِ اسلام کی عظیم دینی درس گاہ مظاہر علوم سہارن پور میں فرمائی۔

آپ کے نمایاں اساتذہ کرام میں‘ بیت العلوم میں؛عارِف باللہ حضرت مولانا مفتی سجاد احمد جونپوری (م١٤٠٥ھ) (خلیفۂ مجاز شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلوی، م١٤٠٢ھ)، استاذالاساتذہ حضرت مولانا عبدالقیوم بکھراوی(م١٤١٥ھ)، حضرت مولانا عبدالرشید مظاہری سلطانپوری، حضرت مولانا محفوظ الرحمٰن مظاہری سلطانپوری اور مظاہر علوم سہارن پور میں؛فقیہ الاسلام حضرت مولانا مفتی مظفر حسینمظاہری اجراڑوی(م١٤٢٤ھ) (خلیفۂ مجاز مناظرِ اسلام حضرت مولانا شاہ اسعد اللہ رامپوری، م١٣٩٩ھ؛ خلیفہ حضرت تھانوی)، مُحدِّثِ کبیر حضرت مولانا محمد یونس جونپوری (م١٤٣٨ھ) (خلیفۂ مجاز حضرت شیخ الحدیث) رحمہم اللہ تعالیٰ وغیرہ ہیں، جن کے سامنے آپ نے زانوئے تلمذ طے کیے۔

فراغت کے بعد آپ مستقلاً درس وتدریس میں لگ گئے۔ سب سے پہلے غالباً ١٩٨٥ء؁ میں مدرسہ بیت العلوم سرائے میر میں درجاتِ علیا میں استاذ مقرر، پھر مسندِ افتاء پر بِراجمان ہوئے۔ رفتہ رفتہ آپ کی علمی وعملی وانتظامی صلاحیتوں میں بھی نکھار آتا گیا۔ مدرسہ کے شیخ الحدیث اوّل حضرت مولانا مفتی محمد حنیف جونپوری رحمہ اللہ تعالیٰ اور آپ شیخِ ثانی مقرر ہوئے تھے، پھر ان کی علالت کے دوران آپ ہی کو شیخ الحدیث اور صدر مفتی بنا دیا گیا۔ آپ کے تلامذہ کی کثیر تعداد مُلک وبیرون ملک میں پھیلی ہوئی علمِ دین کی شمع فروزاں کیے ہوئے ہے۔

جدِّ اَمجد حضرت پُھولپوری رحمہ اللہ تعالیٰ نے١٣٣٣ھ؁ مطابق ١٩١٤ء؁میں اپنے شیخ حکیم الاُمّت حضرت تھانوی قدس سرّہٗ کے مشورے سےقصبہ پُھولپور میں ایک دینی مدرسہ ’’روضۃ العلوم‘‘ قائم فرمایا تھا؛ جس کی بنیاد بھی حضرت تھانوی قدس سرّہٗ نے اپنے دستِ مبارک سے ڈالی اور مدرسہ کا نام بھی پُھولپور کی مناسبت سے ’’روضۃ العلوم‘‘ تجویز فرمایا۔

پھر٤؍ربیع الاوّل ۱۳۴۹ء؁مطابق٣٠؍جولائی ١٩٣٠ء؁بروز بدھ پُھولپور سے کچھ فاصلے پر قصبہ ’’سرائے مِیر‘‘ (ضلع اعظم گڑھ) میں متّصل عیدگاہ ایک دینی مدرسہقائم فرمایا‘ جس میں پورا دَرسِ نظامی پڑھایا جاتا۔ اِس کی سرپرستی بھی حضرت تھانوی قدس سرّہٗ نے قبول فرمائی اور اِس کا نام ’’بیت العلوم‘‘ رکھا، اور ارشاد فرمایا کہ سرائے کی مناسبت سے اس کا نام ’’بیت العلوم‘‘ یا ’’دارُالعلوم‘‘ رکھنا چاہتا ہوں؛ لیکن بیت العلوم میں چُوں کہ اِنکسار زیادہ ہے، اس لیے اس کا نام ’’بیت العلوم‘‘ رکھتا ہوں ؎

’’ ہر کُجا پستی است آب آنجارُود‘‘

[’’پانی نشیب
ہی کی طرف جاتا ہے‘‘۔(مثنوی مولانا رُوم)]

اللہ تعالیٰ اِس کو دارُالعلوم بنا دیں۔ (مستفاد اَز معرفتِ الٰہیہ)

چُناں چہ اللہ تعالیٰ نے اکابر کی دُعاؤں اور آہِ نیم شب کو قبول فرمایا۔ آج یہ مدرسہ ہندوستان میں ایک دارُالعلوم کی حیثیت سے مانا جاتا اور’’مدرسہ اسلامیہ عربیہ بیت العلوم‘‘ کے نام سے معروف ہے۔ محی السُّنّہ حضرت ہردوئی رحمہ اللہ تعالیٰ بھی اس مدرسہ کے سولہ سال تک ناظمِ اعلیٰ رہے، اِس دَورِ اہتمام میں ٢٥؍ذی قعدہ ١٤١١ھ؁ کو حضرت مفتی صاحب نائب ناظم منتخب ہوئے تھے۔ پھر حضرت ہردوئی رحمہ اللہ تعالیٰ کے وصال کے بعد آپ ١٣؍ربیع الثانی ١٤٢٦ھ؁ مطابق مئی ٢٠٠٥ء؁کو مجلسِ شوریٰ کی اتفاقِ رائے سے ناظمِ اعلیٰ چہارم منتخب ہوئے۔اب وفات سے چند ماہ قبل آپ کی صدارت میں مجلسِ شوریٰ کا انعقاد ہوا، جس میں آپ کی علالت وغیرہ کے پیشِ نظر مجلسِ شوریٰ کی اتفاقِ رائے سے مدرسہ کی نظامت صاحب زادگان کے سُپرد اور آپ کو مدرسہ کا سرپرست منتخب کر لیا گیا تھا۔

آپ کے دَورِ اہتمام میں مدرسہ نے تعلیمی وتعمیری اعتبار سے مثالی ترقی کی، کئی نئے شعبہ جات کا آغاز فرمایا، طلبہ کی کثرت اور جگہ کی تنگی کے سبب جدید دارُالتحفیظ، دارُالحدیث اور دارُالاقامہ (رُواقِ پُھولپوری)وغیرہ کی پُرشکوہ عمارات کی تعمیر کا سلسلہ شروع کروایا۔ اس وقت آپ کی زیرِ سرپرستی وحُسنِ انتظام کئی مدارس ترقی کی شاہراہ پر گامزن تھے۔

آپ کا اصلاحی تعلق محی السُّنّہ حضرت مولانا شاہ ابرار الحق ہردوئی رحمہ اللہ تعالیٰ (م١٤٢٦ھ)سے تھا ؛ چند سالوں میں ہی اوّلاً مجازِ صحبت، پھر مکۃ المکرمۃ میں خلافت واجازتِ بیعت سے سرفراز ہوئے۔آپ نے پُھولپور میں واقع اپنے گھر کے متّصل ’’مرکزی خانقاہ شاہِ ابرار‘‘ کے نام سے اصلاحی سلسلہ شروع فرما رکھا تھا، جو پوری آب وتاب سے جاری ہے؛ مُریدین ومتعلقین اصلاح وتزکیہ کے لیے خانقاہ میں قیام بھی فرماتے ہیں۔ بعدنمازِ عصر آپ کی اصلاحی مجلس بھی مدرسہ بیت العلوم کی مسجد نذیر یا دارُالحدیث کے سامنے لان میں ہوتی، جس میں متعلقین ومستفیدین ذوق وشوق سے حاضر ہوتے، اذانِ مغرب سے کچھ قبل اختتام کو پہنچتی۔ اندرون وبیرون ملک دینی واصلاحی سفر بھی کرتے رہے،آپ کے متعلقین ومتوسلین ومحبین ومستفیدین کا حلقہ بہت وسیع تھا، جابجا خانقاہیں قائم فرمائیں۔

مجلس دعوۃ الحق‘جو حکیم الاُمّت حضرت تھانوی قدس سرّہٗنے قائم فرمائی تھی،پھر حضرت ہردوئی رحمہ اللہ تعالیٰ نے ١٩٥٠ء؁ میں ہردوئی میں نَشاۃِ ثانیہ فرما کر اس کی آبیاری فرمائی، اَلْحَمْدُ لِلّٰہ! اب بھی یہ مجلس سلسلۂ اشرفیہ کے مشائخ کی زیرِ نگرانی جاری وساری ہے۔ حضرت مفتی صاحب نے بھی اپنی مرکزی خانقاہ پُھولپور وبیت العلوم میں اس کام کو جاری فرمایا اور اس کے لیے جابجا سفر کیے؛اپنے مقام پر ماہانہ ایک روزہ پروگرام بھی ہوتا، جس میں بعد نمازِ مغرب آپ کا بیان خاص اہمیت رکھتا تھا۔

آپ کے زیرِ ادارت ایک دینی مجلّہ ماہنامہ ’’فیضانِ اشرف‘‘ بھی جاری ہوا، جو تاحال کامیابی سے شائع ہو رہا ہے۔آپ اس میں باقاعدگی کے ساتھ اداریے تحریر فرماتے تھے؛ جو نہایت فکر انگیز پیغام اور اِنفرادی واجتماعی اصلاح پر مشتمل ہوتے۔آپ کی مِلّی وسماجی اور رِفاہی کاموں میں بھی بہت دِل چسپی رہی؛جب بھی کوئی سانحہ یا قدرتی آفات پیش آتی، تو بڑھ چڑھ کر متاثرہ لوگوں کی امداد فرماتے۔ عامۃ النّاس کے لیے قائم کیے گئے بہت سے رِفاہی اداروں کی آپ سرپرستی بھی فرما رہے تھے۔

آپ بے شمار اَوصاف وکمالات سے مُتّصِف اور حُسنِ صورت وسیرتسے مُزیَّن تھے۔بیک وقت مفسر، مُحدِّث، فقیہ، مفکر، مُدرِّس، منتظم، داعی ومبلغاور مصلح تھے۔ احیائے سُنّت کی ترویج کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہے۔بہت سے اکابر کی صحبتوں سے فیض یاب اور اُن کی خدمتوںسے راہ یاب ہوئے، آپ بھی مگر اُن کے منظورِ نظر تھے۔حق تعالیٰ نے آپ کو سوز وگداز اور مَحبّت ومعرفت سے معمور قلب عطا فرمایا تھا؛اپنے اکابر کے حالات وواقعات اور اُن کے ملفوظات سُناتے، تو اشک بار ہو جاتے؛دُعا مانگتے، تو گِریہ طاری ہو جاتا؛ وعظ وتقریر فرماتے، تو عارِفانہ نِکات کے خوب صُورت موتی لڑی میں پَرو کر لاتے۔ راسخ فی العلم، متبعِ سُنّت اور ولیِ کامل تھے۔ محبّت وعشق کا یہ عالَم تھا کہ ہر سال حج وعُمرہ اور زیارتِ حرمین شریفین کے لیے تشریف لے جا کر اپنی تشنگی کا کچھ سامان کرتے، بالآخر مَولائے کریم نے آپ کو اپنے مقربین ومحبین ومحبوبین کے ساتھ ہی مستقل آرام گاہ عطا فرما دی۔ آپ کو سفید رنگ بہت مَرغوب تھا، اپنے شیخ کی طرح آپ کی ہر چیز لباس، بستر، جُوتا، دَر ودیوار اور فرش وغیرہ میں سفیدی ہی ہوتی تھی۔ عُمدہ اخلاق وکردار کے مالک اور متواضع وملنسار تھے؛ جس سے بھی ملتے، بہت مَحبّت واَپنائیت سے متبسّم ہو کر ملتے، طلبہ اور مُریدین پر بہت شفقت فرماتے تھے۔

آپ کے پس ماندگان میں اہلیہ محترمہ، پانچ صاحب زادے اور تین صاحب زادیاں ہیں، مَاشَآءَ اللّٰہ سب کو علمِ دین پڑھایا اور ان کی اچھی تربیت فرمائی، سب خدمتِ دین میں مصروف ہیں۔

احقر اس مضمون کی وَساطت سے اپنے شیخ حضرت شاہ حکیم محمد مظہر صاحب دامت برکاتہم مع اہل خانہ اور حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کے نسبی وصلبی وارثین اور جملہ متعلقین، مُریدین، محبین، متوسلین اور تلامذہ سے تعزیت کرتا ہے، درحقیقت احقر خود بھی مستحقِ تعزیت ہے۔ اللہ تعالیٰ حضرت مفتی صاحب کی بے حساب مغفرت وبخشش فرما کر جنّت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے، اُن کے علمی ورُوحانی فیض کو جاری وساری رکھے، ورثا کو صبرِ جمیل عطا فرمائے۔ رَبّا کریم ہمیں اپنے اکابر عُلما ومشائخ کی قدردانی کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور خاتمہ ایمان پر فرمائے، آمین۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے