9 اگست 2017 کودارالعلوم دیوبندکی انتظامیہ نےتبلیغی جماعت میں حصہ لینےاوراس میں شریک ہونےسےتمام طلبہ پرپابندی عائدکردی اورجبتک جماعت کاآپس میں اندرونی اختلاف ختم نہیں ہوجاتاکوئی طالبعلم جماعت سےتغلق نہیں رکھ سکتا.دارالعلوم نےپابندی عائدکرتےہوے یہ وضاحت بھی کی ہے کہ ہمیں جماعت سے اختلاف نہیں ہےلیکن جماعت کےاختلاف سے ضروراختلاف ہے.اوراس اختلاف کےجونتائج ملک وبیرون ملک دیکھنےمیں آرہےہیں وہ بہت تشویش ناک ہیں.اندیشہ تھاکہ کہیں دارالعلوم کے طلباءمیں یہ اثرات نہ آجائیں اسلئےیہ پابندی لگانی پڑی.کیونکہ ادھر کچھ سالوں سےطلباءکا تعلق تبلیغی جماعت سے برابررہاہےاورہرسال امتحان کےموقع پرمرکز نظام الدین سےآنیوالا وفدطلباءکی تشکیل کرتاتھا.جماعت جب دودھڑےمیں تقسیم ہوگئی ایک امارت کی دعویدارہے دوسری شورائی نظام کی. تو صورت حال نازک اور پیچیدہ ہوگئی.اسی نزاکت کی وجہ سے دارالعلوم نےکسی فریق کی حمایت نہیں کی. البتہ مصالحت کی کوشش برابراسکی طرف سےہوتی رہی کہ کسی طرح معاملہ سلجھ جائے.مگرمعاملہ سلجھنے کےبجائےدن بدن الجھتا گیاتاآنکہ شورائی نظام کوترجیح دینےوالی جماعت مرکز نظام الدین سےعلحدہ ہوگئی جس میں بعض وہ اکابر جماعت بھی ہیں جنھوں نےحضرت مولانامحمد یوسف صاحب رح کے دورکودیکھااورکام کو سیکھاہے.انکی اس علحدگی اورنظام الدین کےبالمقابل دوسرانظام شروع کرنیکےبعدبیسوں سال سےاندرون مرکز کے اختلاف کی پوری کہانی سےپردہ اٹھ گیااور دارالعلوم دیوبندو جمعیت کےآپسی اختلاف پرتمسخرانہ وطنزیہ تبصرہ کرنے والوں کےزہدوتقوی کا بھرم کھل گیااورنزاع نےتشددکی صورت اختیارکرلی جسمیں گالم گلوج اورمارپیٹ کی بھی نوبت آئی تھانہ پولیس بھی ہوا.نزاع و اختلاف نےبڑھتےبڑھتے عالگیرپیمانےپرسب کو اپنی لپیٹ میں لےلیا.
ظاہرہےکہ یہ جماعت والوں کاآپسی اختلاف تھاجس سےدارالعلوم کا کوئی تعلق نہیں تھا.نہ ہی دارالعلوم ثالث کی حیثیت رکھتاتھاکہ انکے معاملےمیں دخل دے. اوردخل بھی دیتاتواسکا کچھ نتیجہ نکلنےوالا نہیں تھا.کیونکہ سمجھانےبجھانےاور مصالحت کرانےوالوں کو اسکابخوبی تجربہ ہو چکاتھاالبتہ الدین النصیحۃ کےپیش نظر دارالعلوم کی جوذمہ داری بنتی تھی اس نے اس میں کوتاہی نہیں کی اورذمہ داران کو متعددخطوط لکھکر انہیں متوجہ کیا. حضرت مولاناسیدارشد مدنی دامت برکاتہم تو اسی غرض سےبنفس نفیس مرکز بھی تشریف لیگئےکوئی اثرنہ ہوا.
اب دارالعلوم کےپیش نظریہ خطرہ تھاکہ جماعت میں ہونےوالے پرتشددواقعات کااثر کہیں طلباءپرنہ پڑجائے اورانکےدرمیان امارت و شوری کاجھگڑانہ کھڑا ہوجائےلہذاتمام طلباء پرپابندی لگادی گئی کہ دوران تعلیم انکاکسی جماعت سےتعلق نہ رہے گا.نہامارت والوں سے نہ شوری والوں سے.اوراب کوئی ان کی تشکیل بھی نہیں کرسکتا.اگراسکی خلاف ورزی کوئی کرتا ہےتواسکےخلاف سخت تادیبی کارروائی کی جائیگی
جنہیں پورےحالات کا علم نہیں وہ اس فیصلے پرناخوشگوارتبصرے کر رہےہیں بعض حضرات اپنےقیمتی مشوروں سے بھی نوازرہےہیں جسکو پڑھکریہ تاثرابھرتاہےکہ شایدطلباء کی "دینی تعلیم وتربیت” دعوت وتبلیغ” اورملی اتفاق واتحاد”کی فکرانہیں دارالعلوم سےزیادہ ہے. انکی دردمندی ودلسوزی برحق’ لیکن طلباءکی مصلحتیں انکی نظروں سےیقینااوجھل ہیں. پچھلےسال اسی مسئلے کولیکرطلباءمیں جو کشاکش ہوچکی تھی ذمہ داران دارالعلوم کے سامنےصورت حال پر قابو پانےکیلئےاسیطرح کےسخت فیصلےکی ضرورت ناگزیرہوگئی تھی.
یہ بھی ظاہرہےکہ یہ خالص انتظامی نوعیت کی پابندی ہے.دینی و شرعی نقطۂ نظرسےیہ پابندی نہیں لگائی گئی. اوردارالعلوم کواسکاحق حاصل ہےکہ وہ تعلیمی مصلحتوں کےپیش نظر ماحول کوبہتربنانےاور برےاثرات سےمحفوظ رکھنےکیلئےجوچاہےفیصلہ لے.کسی کواعتراض کی گنجائش نہیں.حالات و واقعات کی روشنی میں دیکھاجائےتویہ نہایت دانش مندانہ اورعلم وبصیرت وفہم وفراست پرمبنی فیصلہ ہےجس سےخارجی فتنےکی آگ کی روک تھام کی جا سکتی ہے.یہ دارالعلوم کو ناخوش گواروناپسندیدہ حالات سےمحفوظ رکھنےکی حتی الوسع ممکنہ تدبیرہے.کیونکہ جذبات وخواہشات جب بےلگام ہوجائیں توپہر دلائل ونصیحت کی اہمیت وافادیت ختم ہو جاتی ہے.
بلاشبہ دارالعلوم دیوبند نےنہایت دوراندیشی سے کام لیتےہوےبروقت ایک مناسب وتاریخی فیصلہ لیاہےجسکی تمام علماء کرام اورجملہ اہل مدارس کو تائید کرنی چاہئےتاکہ کسی قسم کاشروفتنہ اندرون دارالعلوم داخل نہ ہو سکےاورطلباءیکسوئی کےساتھ اپنی تعلیم پر توجہ دےسکیں
البتہ جماعت اوراس سے حسن ظن رکھنےمیں افراط وبےاعتدالی کا مزاج رکھنےوالوں کو یقینا خوشی نہ ہوئی ہوگی اورجیساکہ بعض تبصرہ نگاروں نےاپنی بے اطمیینانی کااظہاربھی کیاہےانہیں اس فیصلے کوانتظامی فیصلےکی نگاہ سےدیکھناچاہئے دینی وشرعی نقطۂ نظر سےنہیں.اگرچہ اکابر علماءدارالعلوم دینی وشرعی فیصلےکاحق بھی محفوظ
رکھتےہیں لیکن اسکاتعلق انتظامی امورسےہے.انہیں دارالعلوم کی مجبوری کوبھی سمجھناچاہئے کہ کل کےدن خدانخواستہ طلباء دوگروپوں میں بٹ جاتےاورباہم آویزش کاماحول بن جاتاتوملت اسلامیہ کایہ عظیم علمی مرکز اسیطرح کے نزاع کی زدمیں آجاتا جسطرح مختلف مقامات پرباہمی تشدد و نزاع کابازارگرم ہےاور پھراسکی عزت وعظمت پرکیسابدنماداغ لگتایہ بتانےکی ضرورت نہیں ہے.خاص طورسےایسے وقت میں جبکہ ملکی حالات قطعاایسےنزاع کی اجازت نہ دیتےہوں. اسلئےصرف ایک جانب یےحالات کودیکھکر فیصلہ نہ کریں بلکہ وقت کی نزاکت کوبھی سمجھیں اوردارالعلوم کےداخلی وانتظامی امورپرخودفیصلہ کرنے کے بجائےارباب حل و عقداورانتظامیہ کو فیصلہ کرنےدیں.انہوں نےنیک نیتی سےیہ فیصلہ کیاہےتواسکے اثرات ونتائج انشاءاللہ اچھےہونگےاورپس پردہ خدانخواستہ کوئی بدنیتی شامل ہےتووہ بھی ظاہرہوگی
دارالعلوم کےاساتذہ و مفتیان کرام اورحضرت مہتمم صاحب دامت برکاتہم جیسےصاحب ورع اورفرشتہ صفت عالم وبزرگ سےہم اسکا تصوربھی نہیں کرسکتے کہ وہ ملت اسلامیہ” طلباء” اوردارالعلوم” کی ترجیحات ومفادات کے خلاف کوئی فیصلہ لیں گےہمیں امیدہی نہیۓ یقین کامل ہےکہ اس فیصلےکےپیچھےانکی نیتوں کاخلوص شامل ہےجسکےاثرات وبرکات انشاءاللہ مستقبل میں ظاہرہونگےاوراسکے خلاف پروپیگنڈہ کرنے والےناکام ونامراد ہونگے
مگرجیساکہ پہلےبھی تجربہ ہوچکاہےکہ عقیدت میں غلووبے اعتدالی کرنےوالے دارالعلوم پرنازیباونا مناسب تبصرےکرچکے ہیں اس موقع پربھی انہوں نےوہی طرزعمل اپنایااوربارباراس وضاحت کےباوجود کہ جماعت کےجھگڑوں سے اسکاکوئی تعلق نہیں نہ ہی وہ امارت وشوری کی بحث میں کسی فریق کاحامی ومخالف ہےیہ انکاآپسی معاملہ ہےجسےحل کرنےکی ذمہ داری انہیں کی ہے’ دارالعلوم نہ انکی تائیدمیں ہے نہ تردید میں.اسکااپناالگ میدان ہےاورانکااپناالگ انداز ہے.یہ علمی درسگاہ ہے جہاں رات دن تعلیمی سلسلہ چلتارہتاہے اور قرآن وحدیث کےماہر اساتذہ کتاب وسنت کےعلوم کی تعلیم و تدریس میں منہمک رہتے ہیں.اگرطلباءمیں علمی کمزوری رہ گئی توبڑا نقصان ہوگااسلئےاس چہاردیواری میں رہتے ہوےطلباءکوصرف علم سےواسطہ رکھناضروری ہے.یہی وجہ ہےکہ اکابر علماءدیوبندنےدوران تعلیم کسی قسم کی غیر تعلیمی سرگرمی کو پسندنہیں فرمایا.امام ربانی حضرت گنگوہی وحکیم الامت حضرت تھانوی قدس سرہمانے پڑھنےپڑھانےکےزمانے میں بیعت ہونیکوبھی پسندنہیں کیاکیونکہ اس میں توجہ بٹتی ہے اورآدمی بیک وقت دو چیزوں پرپوری توجہ نہیں دےسکتا.اسی بات کاتذکرہ اپنےبیان میں حضرت مولاناارشد مدنی دامت برکاتہم نے بھی فرمایاکہ ہم طلباء کوجمعیت کاممبرنہیں بناتےاوراس شخص کی مخالفت کرتےہیں جو طلباءکیلئےجمعیت کی ممبرسازی کرتاہے.ہم نےکبھی طلباءکےدرمیان جمعیت کی ممبرسازی نہیں کی تاکہ وہ جس مقصدکیلئےیہاں آئےہیں اسی میں منہمک رہیں’ دیگرسرگرمیوں میں ملوث ہوکراپنی استعدادنہ خراب کرلیں
اتنی وضاحتوں کے با وجوداس فیصلےپریکے ازطالبان علوم نبوت صاحب تحریرکرتےہیں
( دعوت وتبلیغ میں پاکستان کی شوری کےنام پربرپاکیاگیافتنہ و اختلاف آخرکاربڑےبڑے علماءکےقابوسےبھی باہرنکل گیا.پہلے دار العلوم دیوبندکےمہتمم مفتی ابوالقاسم صاحب دامت برکاتہم نےمولانا سعدکےخلاف فتوی جاری کرکےامت مسلمہ کوپاکستانی شوری پر جمع کرنےکی کوشش کی جوبری طرح ناکام ہوگئی اورامت مسلمہ کےاذہان کونظام الدین جانےسےمتاثرنہ کرسکے پھرطلبہ دارالعلوم دیوبندکومرکزنظام الدین جانےسےروک دیاگیالیکن اس سےبھی پورےعالم تودورکی بات خوددارالعلوم دیوبندکے اندرونی نظام دعوت وتبلیغ کوبھی قابونہ کیا جاسکا………….پھرمہتمم دارالعلوم دیوبندنےکچھ نظام الدین سےوابستہ افرادکےمسجدچھتہ مشورہ میں آنےپرپابندی عائدکردی لیکن نتیجہ لا حاصل…… …شوری کی جانبداری میں کیاکچھ نہیں کرناپڑرہاہے……… چلےتھےمولاناسعد صاحب اورمرکزنظام الدین کےنظام کودرست کرنے’ خودکاحال بےقابو ہوگیااورمجبورایہ اعلان مولاناارشدمدنی دامت برکاتہم کےذریعہ مفتی ابوالقاسم صاحب دامت برکاتہم نےکروادیاکہ دارالعلوم دیوبندکےطلبہ کیلئے” گشت وملاقات” مشورہ کرنا” ایساہی قابل اخراج جرم ہوگا جیساکہ "فلم ” ٹی وی” اوردیگرجرائم پرہوتاہے خیرخوب اچھی طرح سے یہ بات واضح ہو گئی کہ پاکستان کی شوری کالگایاہوافتین درخت اتنامنحوس تھا کہ دارالعلوم دیوبندکی تاریخ میں وہ کام کروادیاجوکہ غیرمسلم بلکہ اسلام دشمن ممالک بھی نہ کرواسکے” تبلیغ پرپابندی” )
(یکےازطالبان علوم نبوت
مقیم جگردیوبند)
نقطوں کی جگہ والی تحریرحذف کردی گئی ہےاس کوپڑھکراندازہ ہوگیاہوگاکہ جماعت کی محبت میں الزام و بہتان اورجھوٹاپرو پیگنڈہ کرنےمیں بعض طلباءکاذہنی ارتقاء کتنی تیزی سےہورہاہے.
دارالعلوم دیوبندنےمولانا سعدصاحب کی فکری کجروی پرتنبیہ وگرفت کی تویہ مولاناسعدکے خلاف توہوسکتاہےلیکن یہ شوری کےنام پربرپا کیاگیافتنہ کیسےہوگیا؟ یاشوری پرجمع کرنےکی کوشش کیسےہوگئی؟ معلوم ہواکہ کچھ فاسد ذہنیت کےلوگ دارالعلوم کےا
صلاحی اقدام کو جماعت اوراسکےامیرکی مخالفت کی عینک سے دیکھتےہیں اسی لئےنہ انہیں دارالعلوم کااظہار موقف ہضم ہوسکانہ طلباء پرلگائی جانیوالی پابندی.اوروہ دل کے پھپھولےپھوڑکرغیظ قلب کوتسکین دےرہےہیں نیزتبلیغ پرپابندی کا جھوٹاپرچارکرکے ذخیرۂ آخرت جمع کررہےہیں
دارالعلوم میں تعلیمی سرگرمی کےساتھ کسی دوسری سرگرمی کوپہلے بھی کبھی بہ نظر استحسان نہیں دیکھاگیا یہ سلسلہ چندسالوں سے کچھ زیادہ ہی تیزی سے طلباءمیں مقبول ہونے لگاتھاجب انتظامیہ کو یہ محسوس ہواکہ اب یہ تعلیم کیلئے مضر ہوسکتاہےاورباہم عقیدتوں کاٹکراؤ کسی فتنہ کاسبب بن سکتاہے تواس نےاپنےقدیم طرز کےمطابق طلباء کو صرف تعلیمی سر گرمیوں تک محدودرہنے کیلئےپابندبنانےکافیصلہ کیاتویہ تبلیغ پرپابندی کسطرح ہوگئی؟کیا علماء دیوبندتبلیغ کے مخالف ہیں؟
یکےازطالبان علوم نبوت صاحب کویہ کشف تو ہوگیاکہ دارالعلوم کا اظہارموقف غلط نظریات کی تردیدنہیں بلکہ پاکستانی شوری پر سب کوجمع کرنےکی کوشش ہےلیکن وضاحتوں کےباوجود بالکل سامنےکی یہ چیزنہ دیکھ سکےکہ یہ پابندی طلبہ پرہےیاتبلیغ پر؟تبلیغ پرپابندی دارالعلوم کیونکر لگا سکتاہےجبکہ خودوہ تبلیغ کی سرپرستی کرتا ہے اوراسکےلئےعلماء تیارکرتاہے.باقاعدہ دارالعلوم میں ایک شعبہ دعوت وتبلیغ کابھی ہے یہ سراسراتہام وبہتان نہیں توکیاہے؟
یہ کہنابھی محتاج دلیل ہے کہ تبلیغی جماعت پرپابندی لگائی گئی ہے.پابندی توطلباءپر لگائی گئی ہےنہ کہ تبلیغی جماعت پر؟ اوراگربالفرض مان بھی لیاجائےکہ تبلیغی جماعت پرپابندی لگائی گئی ہےجبکہ ایساہے نہیں.توبھی یہ کہنا درست نہ ہوگاکہ تبلیغ پرپابندی لگادی گئی کیونکہ تبلیغ الگ ہےاور تبلیغی جماعت الگ ہے. آج یہی مفسدہ پیداہو گیاہےکہ تبلیغ کولوگ تبلیغی جماعت میں منحصرسمجھنےلگےہیں اوراچھےخاصےپڑھےلکھے لوگ اسی خربطہ میں مبتلاہیں کہ اگرتبلیغی جماعت نہ رہی توتبلیغ کاوجود ہی دنیاسےختم ہوجائیگا.اسکابطلان جاہل نہ سمجھ سکےتو حیرانی کی بات نہیں مگرپڑھےلکھےمولوی اورطلباءعلوم نبوت بھی اس بات کونہ سمجھ سکیں اس پرضرور حیرت وتعجب ہے.اسی طرح کیایہ امرباعث حیرت نہیں کہ دیوبندنے آجتک نہ شوری والوں کی تائیدکی نہ اسکےحق میں کوئی فتوی جاری کیابلکہ خودکوغیر جانب دارہی رکھامگر کس جزم ویقین کےساتھ اس پریہ الزام لگایا جا رہاہےکہ یہ شوری پر جمع کرنےکی کوشش ہے علم نبوت کےطالب علم سےیہ جھوٹ اوربہتان؟ استغفراللہ ولاحول ولاقوۃ الاباللہ.
یہ کہنابھی درست نہیں کہ غیراسلامی یااسلام دشمن ممالک میں تبلیغ پرپابندی نہیں. ہاں یہ کہہ سکتےہیں کہ کہ تبلیغی جماعت پرپابندی نہیں . اسلامی اورقرآن وحدیث کی صحیح تعلیمات پرمبنی تبلیغ پر آج بھی وہاں پابندی ہے. تبلیغی جماعت پرامریکہ واسرائیل میں پابندی کیوں نہیں؟یہ توخود تبلیغی جماعت پرسوالیہ نشان ہےاورجماعت کواحتسابی عمل سے گذارنےکی ضرورت کااحساس دلاتاہے کہ آخرایسی کیاوجہ ہےکہ اسلام کےدشمنوں کو اسلامی تبلیغ سےبڑی محبت ہوگئی ہےاور تبلیغی جماعت سےانہیں کوئی شکایت نہیں؟ انکی تبلیغ میں کتاب وسنت سےکہاں انحراف پایاجارہاہےجویہ اہل باطل کیلئے لقمۂ ترثابت ہورہےہیں؟بجائےاحتساب کےاسےحجت کے طور پرپیش کرناعلم وعقل کےدیوالیہ پن ہونےکی علامت ہے.فکری کجی کےبغیردشمنان اسلام کبھی بھی صحیح اسلامی تبلیغ پرراضی نہیں ہوسکتے.ولن ترضی عنک الیہود ولا النصاری حتی تتبع ملتھم نص قطعی ہےاس محکم اوراٹل فیصلۂ قرآنی کےخلاف اگریہود ونصاری ہم سےیاہمارے کام سےخوش ہیں تویہ لمحۂ فکریہ ہےنہ کہ خوش ہونیکی چیز؟ کار نبوت وکارصحابہ کا دعوی کرنیوالی تبلیغی جماعت کےامراءو خواص کوچلہ وگشت سےکبھی فرصت ملےتو انہیں اس پہلوپربھی ضرورغوروفکرکرنا چاہئے .
یکےازطالبان علوم نبوت صاحب کی تحریردوبارہ پڑھ لیں جسطرح کبھی کبھی جھوٹ سےکوئی سچ نکل آتاہےاسیطرح اس تحریرمیں شوری پرجمع کرنیکاجوبیجا الزام اوربہتان لگایاگیا ہےاس سےیہ سچائی ظاہرہوتی ہےکہ دارالعلوم دیوبندنے اچانک طلباء پریہ سخت پابندی نہیں لگادی بلکہ بتدریج اسکی نوبت آئی. پہلےوقتافوقتاطلباءکو تنبیہ کیجاتی رہی مگر ان تنبیہات کاطلباءنے کوئی اثرنہیں لیا تب مجبورادارالعلوم کو یہ سخت قدم اٹھاناپڑا.
حقیقت یہ ہےکہ دارالعلوم دیوبندماضی قریب وبعیدمیں طلباء کی کئی اسٹرائکوں کوجھیل چکاہےجسکے نتیجےمیں دارالعلوم کی ساکھ کوبہت نقصان پہونچ چکاہےآئندہ طلباءمیں کسی مسئلے کولیکرپھراختلاف وانتشارکی شکل نہ بن جائےاسلئےاسکاسدباب کیاجاناحددرجہ ضروری تھا.اس اعتبارسےبھی دیکھاجائےتودارالعلوم کا یہ فیصلہ نہایت مناسب اورحق بجانب ہے
بعض حضرات نے دارالعلوم کوبطور شکایت یہ مشورہ بھی دیاہےکہ
( کاش کہ دارالعلوم دیوبندنےاسیطرح کاسخت موقف جمعیت کےاختلاف کےوقت اختیارکیاہوتااوردارالعلوم میں جمعیت کے تذکرےتک پر پابندی عائدکردیتاتویہ دارالعلوم میں پڑھنے بھی والےطلباءکے لئے اورخودجمعیت کیلئے بھی مفیدہوتا)
اندازہ یہ ہےکہ مشورہ بڑے خلوص سےدیا گیا ہےہم انکی قدرکرتےہیں لیکن جمعیت
اورجماعت دونوں کےاختلاف کو یکساں سمجھ لینافکرو تدبرسےناشی نہیں.غور کیاجائےتودونوں میں واضح فرق نظرآئیگا. پہلی بات تویہ کہ طلباء میں جمعیت کی ممبر سازی نہیں کیجاتی نہ ہی اسکےمتعلق کوئی تحریک چلائی جاتی ہے اسلئےطلباءجمعیت کیلئےزیادہ حساس نہیں.دوسری بات یہ ہے کہ جمعیت دینی جماعت سےزیادہ سیاسی جماعت کےطورپر معروف ہے اسلئےاسکا ایساتقدس دلوں میں نہیں کہ اسکی مخالفت دین کی مخالفت سمجھی جائے.برخلاف تبلیغی جماعت کے.کہ باقاعدہ اسکی ممبر سازی طلبہ میں ہوتی ہے.تحریک بھی چلائی جاتی ہےاوراسےخالص دینی جماعت کےطورپر جاناجاتاہےاوربرملااس کےتقدس کاپرچاروپرو پیگنڈہ کیاجاتاہےاسے کارنبوت وکارصحابہ کہکراسکی اہمیت دلوں میں بٹھائی جاتی ہے جس کےسبب دینی اعتبارسےاسکی ایسی عظمت دلوں میں جمی ہوئی ہےاوراسطرح اسکاتقدس راسخ ہےکہ باوجودمرکزی امراء کی تحریفات معنوی فی الآیات والاحادیث پر علماءدیوبندکی نکیرکے عقیدتمندی میں کوئی فرق نہیں آیاجیساکہ یکےازطالبان علوم نبوت کی مندرجہ بالاتحریرسے ظاہروباہرہے.توجمعیت اورجماعت دونوں میں نمایاں اورواضح فرق ہےتبلیغی جماعت سے طلباءکاجذباتی تعلق ہے جہاں معمولی ٹھیس پہونچنےپربھی نزاع کااندیشہ رہتاہےجیساکہ دونوں جماعتوں میں دیکھنےکومل رہاہےکہ ایک دوسرےکےوجود سےنفرت کاماحول بنا ہواہےاورتمام دنیاکے مراکزمیں اختلاف و انتشارکی کیفیت ہے طلباء میں بھی اختلاف کی صورت پیداہوچلی تھی مگرانتظامیہ نےبر وقت فیصلہ لیکرفتنہ کی سرکوبی کردی.رہی جمعیت تواسکےحوالے سےدارالعلوم کےداخلی امورپرکوئی اثرنہیں. اسکاسارانزاع دارالعلوم کےباہرتھااندرنہیں اسلئے اسکےتذکرےپرپابندی لگانےکاکیاسوال؟ہاں اگرطلباءمیں اسکولیکر کوئی ہیجانی کیفیت کا امکان ہوتاتویقینااس پربھی پابندی لگائی جاتی
لہذایہ مشورہ برمحل نہیں۔
از
عالمی مجلس اصلاح امت