مجنوں جو مر گیا ہے تو جنگل اداس ہے: شیخ یونس کے انتقال پر

*مجنوں جو مر گیا ہے تو جنگل اداس ہے*

✏ فضیل احمد ناصری

تاریخ 11 جولائی روز منگل 2017 کو عالمِ اسلام کے عظیم ترین محدث، امیرالمؤمنین فی الحدیث حضرت مولانا یونس صاحب جون پوری کا سانحہ پیش آیا تھا، وفات کے بعد متعلقین کی تعزیت کرنا پیغمبر علیہ السلام کی سنت ہے، اسی سنت کی ادائیگی کے لیے جامعہ امام محمد انور شاہ، دیوبند نے اپنے چند اساتذہ پر مشتمل ایک وفد مظاہر علوم روانہ کیا، جس میں اساتذۂ حدیث محترم مولانا عبدالرشید بستوی، مولانا صغیر احمد پرتاپگڈھی، مفتی نوید احمد دیوبندی زیدمجدہم اور احقر فضیل احمد ناصری شامل تھے، وفد نو بجے روانہ ہوا اور ٹھیک ایک گھنٹے کے بعد جامعہ مظاہر علوم جدید پہونچ گیا-

*اداس اداس فضائیں*

مظاہر علوم پہلے بھی جا چکا تھا، طالب علمی کے دور میں تو بارہا، تدریسی دور میں بھی متعدد مرتبہ، جب آیا، ایک مسرت، ایک سکون اور ایک کیف محسوس کیا، یہاں کا نظام بہت زوردار ہے، ہر شعبہ منظم اور ہر دفتر متحرک، میرے کئی احباب یہاں مدرس ہیں، پھر دیوبند اور سہارن پور کا جو روحانی رشتہ ہے، اس نے کبھی بھی اجنبیت محسوس ہونے نہیں دی، ہر بار ایک "بہار آفریں احساس " لے کر واپس لوٹا، لیکن آج حالت دگر گوں تھی، اداس اداس ہوائیں، رنجیدہ فضائیں، سڑکیں روتی ہوئیں، گلیاں نوحہ کرتی ہوئیں، درودیوار ماتم کناں، درس گاہیں سنسان دارالاقامے ویران، دارالحدیث سینہ کوبی اور گریباں چاکی میں مبتلا، حالاں کہ بھیڑ بھاڑ تھی، تعزیت کرنے والوں کا ہجوم تھا، مہمان لگاتار آرہے تھے، ہر طرف گفتگو تھی، اظہارِ خیال تھا، مگر اس کے باوجود لگتا یہی تھا کہ ایک خوفناک سناٹا ہے، روش روش نالش، کوچہ کوچہ نالہ-

*ناظم صاحب سے ملاقات*

وفد کا منصوبہ یہ تھا کہ تعزیتی ملاقات حضرت مولانا سلمان صاحب سہارن پوری کے علاوہ حضرت مولانا سید شاھد سہارن پوری سے بھی کی جاے، مگر جوں ہی قدیم عمارت کے احاطے میں داخل ہوے تو پتہ چلا کہ امینِ عام حضرت مولانا شاھد صاحب یہاں تشریف نہیں رکھتے، ابھی راستے میں ہیں، گجرات کے سفر سے واپسی کر رہے ہیں، چناں چہ ہم نے دارالاہتمام کا رخ کیا، یہاں ناظمِِ جامعہ حضرت مولانا سلمان صاحب تشریف فرما تھے، دیکھا کہ آبدیدہ ہیں، پلکیں بھیگی ہوئیں، رنج و غم چہرے بشرے سے عیاں- وفد نے انہیں سے تعزیتی کلمات کہے اور رئیس الجامعہ حضرت مولانا سید احمد خضرشاہ کشمیری دامت برکاتہم کا تعزیتی مکتوب پیش کیا، یہ مکتوب شیخ مرحوم کے لیے زبردست خراجِ تحسین پر مشتمل تھا-

*مولانا شاھد سہارن پوری اور مولانا سلمان صاحب کا اشارتی تعارف*

ناآشنا قارئین کے لیے عرض ہے کہ حضرت مولانا شاھد صاحب سہارنپوری دام ظلہ حکیم محمد الیاس صاحب (جو پرسوں ہی اللہ کو پیارے ہوگئے) کے صاحب زادے اور شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا کاندھلوی صاحب کے نواسے ہیں، جامعہ مظاہرعلوم جدید کے امینِ عام (جنرل سکریٹری) اور کرتا دھرتا، حضرت شیخ الحدیث کی کئی کتابوں پر انہوں نے کام کیا ہے-

حضرت مولانا سید سلمان سہارن پوری دام ظلہ حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ کے داماد اور مظاہر علوم کے ناظم ہیں، دورۂ حدیث کی بعض اہم کتابیں بھی ان سے متعلق، مجھے ان کی دست بوسی کا بارہا موقع ملا ہے، حافظہ بلا کا، جسے ایک بار ذہن میں بٹھالیں تو بیس برس بعد بھی تازہ، حاضر دماغی اور برق طبعی بے مثال، وقت پر اپنے فرائض انجام دینے میں مثالی، شیخ یونس صاحب کے انتقال کے اگلے دن بھی سارے دفاتر کھلے ہوے، اساتذہ اور ملازمین سارے کے سارے مستعد، خود وہ بھی کاموں کے نمٹارے میں مصروف و مگن، تعزیت والوں سے ملاقاتیں بھی ہیں اور دفتری امور کی انجام دہی بھی، لمبے تڑنگے، بڑا سا سر، بیضوی چہرہ، بھاری بھرکم جسم، سادگی اور بے تکلفی، کہنے لگے کہ شیخ یونس مجھ سے پانچ سال بڑے تھے، عمر پچھتر سے نکلنے کو مائل، صحت قابلِ رشک، گھٹنوں سے معذور ہیں، خود ہی کہنے لگے کہ کہیں کوئی نقاہت نہیں، بس چلنا پھرنا دشوار ہے، جہاں بیٹھ گئے، بیٹھ گئے-

*شیخ صاحب بیمار تھے، مگر اتنے بھی نہیں*

ناظم صاحب نے ہمیں بتایا کہ شیخ یونس صاحب مرحوم بیمار تو ضرور تھے، مگر بیماری قطعی ایسی نہیں تھی کہ کھٹکا سا لگ جاے، اس سے زیادہ سنگین حالت تو مدینہ منورہ میں تھی، جب وہ وینٹی لیٹر پر تھے، چناں چہ موت کی افواہ بھی اڑا دی گئی تھی، یہاں تو ایسا کچھ بھی نہیں تھا، ہاں اتنا ضرور تھا کہ دانے پانی سے بے رغبتی کے سبب نقاہت غالب تھی، اسی نقاہت کے باعث ایک دو دنوں سے کچھ غنودگی کی کیفیت رہتی، حالت ایسی نہیں تھی کہ آدمی گھبرا جاے، لیکن اچانک حالت بگڑی، اور بگڑی تو ایسی کہ ہسپتال تک جاتے جاتے راہ میں ہی دم توڑ دیا، ان کی رخصتی بے شان و گمان رہی-

*مظاہر علوم کے بعض اساتذہ سے ملاقات*

صبح کے گیارہ بج چکے تھے، میرِ کارواں محترم مولانا عبدالرشید بستوی صاحب کا مشورہ ہوا کہ اب مولانا خالد سعید مبارکپوری صاحب سے ملاقات کر دیوبند روانگی کی جاے، مولانا خالد سعید صاحب مجھ سے ایک سال سابق ہیں، پتلے دبلے اور "طالب علم نما "، دیکھ کر کوئی بھی انہیں "مدرس " نہیں کہہ سکتا، حددرجہ متواضع اور خلیق و مہماں نواز، 1997 میں دارالعلوم سے فراغت پائی، مظاہر سے انہوں نے تخصص فی الحدیث بھی کیا، اب وہ مظاہر میں کامیاب مدرس ہیں، تخصص فی الحدیث کے بطور خاص ذمہ دار ہیں، وہیں مولانا قمر الہدیٰ خلیل آبادی سے بھی علیک سلیک ہوا، یہ بھی دارالعلوم کے فاضل اور مجھ سے ایک سال پہلے ہی دارالعلوم سے فراغت یافتہ، عربی شستہ اور رواں لکھتے ہیں، عربی ماہنامہ "المظاہر " کے نائب مدیر اور عملاً سبھی کچھ، اردو ماہنامہ "مظاہرعلوم " کے مدیر مولانا عبداللہ خالد صاحب خیرآبادی بھی ٹکرا گئے، دو چار باتیں ان سے بھی ہوئیں-

*شیخ یونس صاحب کی تحریری خدمات*

میرا مزاج استفسارانہ ہے، میں کہیں بھی جاؤں، معلومات کی تحصیل کے لیے سوالات زیادہ کرتا ہوں اور بولنے کی کوشش کم سے کم، حضرت مرحوم کی تصنیفات سے متعلق کچھ معلومات پہلے سے میرے پاس تھی، میں چاہ رہا تھا کہ ان میں اضافہ ہو جاے، لیکن بس براے نام ہی اضافہ ہوا، شیخ تصنیف و تالیف کے آدمی ہی نہیں تھے، مطالعہ اور صرف مطالعہ، اس سے آگے بڑھے تو تدریس، بس اللہ اللہ خیر سلا، اپنی یاد داشت کے لیے حواشی کے عنوان سے قلم ضرور چلا کرتا، ان کی دو تالیفات میرے علم میں تھیں، ایک تو "الیواقیت الغالیہ فی الاحادیث العالیہ " اور دوسری "نبراس الساری الی ریاض البخاری "…الیواقیت کی چار جلدیں منظرعام پر آچکی ہیں، جنہیں گجرات کے مولانا ایوب سورتی نے مرتب کیا ہے، یہ چاروں جلدیں علمِ حدیث سے شغف رکھنے والوں کے لیے بیش بہا خزانہ ہیں، انہیں پڑھ کر حضرت کی دقیقہ رسی اور علومِ حدیث میں یکتائی پر حیران ہو جانا پڑتا ہے، نبراس کی ایک ہی جلد آئی ہے، یہ عربی میں ہے، بخاری پر وقیع اور جامع تعلیق، حضرت کی عادت تھی کہ وہ بخاری پر اپنے حواشی چڑھایا کرتے، بہت سا حصہ مکمل کر چکے تھے، کچھ رہ گیا تھا، اس کی تکمیل کے لیے ان کی خواہش تھی کہ موت ایک دو سال کے لیے مزید ٹل جاے، مگر کیا کہا جاے:

اے بسا آرزو کہ خاک شدہ

*عرب و عجم کے مسلمہ امام الحدیث*

دنیا بڑی بے رحم اور زود فراموش ہے، یہاں سست رووں، کم عیاروں، بے استعدادوں کو خاطر میں نہیں لایا جاتا، دنیا کو منوانے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ خوشنودئ رب کے ساتھ کتب بینی کو اپنی زندگی بنالی جاے، شیخ نے وہی کیا، طالب علمی سے لے کر مدرسی اور پھر شیخ الحدیثی تک اس روش پر قائم رہے، روحانیت کی ترقی کے ساتھ علمیت بھی بڑھتی رہی، بڑے بڑے نوابغ اور جبال العلم کی کیمیا اثر نگاہیں ان پر پڑتی رہیں، نتیجہ یہ کہ تدریس کی ابتدا میں ہی ان کی اہمیت مانی جانے لگی، شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا صاحب کی طرف سے ان کی جانشینی ان کی علمیت اور اعترافِ کمال کی برہانِ قاطع ہے، حضرت شیخ الحدیث کو اپنے اس شاگرد کی علمی نظر پر ایسا اعتماد تھا کہ اپنی کتاب "الابواب والتراجم " میں ان کی راے بھی درج کی گئی، غور کیجیے! جن کی کتابوں میں ابن حجر جیسے امامِ فن کی آرا شامل ہوں، وہاں شیخ یونس صاحب کی آرا کا درج ہونا کتنی بڑی بات ہو سکتی ہے، سچ کہیے تو شیخ کو حضرت شیخ الحدیث نے ہی پہچانا، بنایا، سنوارا اور امامتِ حدیث کی راہ چلائی، آج کل ان کا ایک خط گردش میں ہے کہ چالیس سال بعد اسے کھول کر پڑھنا، جتنا وقت میں نے بخاری پڑھائی، اگر تم وہاں تک پہونچوگے تو مجھ سے آگے ہوگے، قلندر ہر چہ گوید، دیدہ گوید، شیخ الحدیث صاحب کی پیش گوئی درست نکلی، شیخ صاحب نے پچاس سال نہ صرف یہ کہ بخاری پڑھائی، بلکہ علم حدیث کے مسلمہ امام بن گئے، احادیث پر اطلاع، رجال کے احوال سے واقفیت، درجاتِ احادیث پر شاہانہ نگاہ ان کی وجہِ امتیاز بنی رہی، روایتِ حدیث میں اس دور میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا، علومِ اسلامیہ کے ماہرین جانتے ہیں کہ علم حدیث کتنا پیچیدہ اور نازک فن ہے، یہ بھول بھلیاں کی ایک لامحدود دنیا ہے، علمِ حدیث کا مشکل ترین موضوع "فنِ اسماء الرجال "ہے، راویوں کی اتنی بڑی تعداد یہاں خیمہ زن ہے کہ درست تعداد کوئی بتا بھی نہیں سکتا، ان کے ذاتی احوال، ان کی حدیثی شان، ان کے کے معیارات پر جچا تلا تبصرہ وہی کرسکتا ہے، جس نے اس دنیا میں خود کو گم کردیا ہو اور اس کی رگ و پے میں خون کی طرح دوڑا ہو، شیخ صاحب کی کہانی کچھ اس سے جدا نہیں ہے –
ان کی وفات پر عجم نے جو کہا، وہ کوئی تعجب انگیز نہیں، عرب کا تبصرہ زیادہ مسرت بخش ہے، عرب نے انہیں "شیخ الھند " جیسا عظیم خطاب دیا، یہ ایسا خطاب ہے جو اس سے قبل حضرت مولانا محمود الحسن صاحب دیوبندی ہی کو ملا تھا- افسوس کہ وہ "کوہِ نور " بھی ہمارے ہاتھوں سے نکل گیا-

*حق گوئی اور ایثار*

شیخ صاحب کے مزاج میں اکابر کا رنگ تھا، حق گوئی و بے باکی میں اپنی مثال آپ تھے، بڑے سے بڑے مالدار سے بھی مرعوب تو کیا ہوتے، انہیں ڈانٹ پھٹکار کر شرمندہ ہی کر دیتے، حق گوئی اور ایثار کی ایک مثال پیش کرنا چاہوں گا، شریکِ وفد محترم مولانا صغیر احمد پرتاپ گڑھی زیدمجدہم نے بتایا کہ اختلافِ مظاہرِ علوم کے دوران شیخ صاحب کے کمرے پر تالہ چڑھا دیا گیا، یہ اس بات کی علامت تھی کہ اس پر "مظاہرِ علوم وقف "کا قبضہ ہو چکا ہے، یہ کمرہ گراں بہا کتابوں اور نادر و کم یاب علمی ذخائر سے بھرا پرا تھا، اس میں کچھ ڈالر بھی تھے، شیخ صاحب پر اس قبضے کا برا اثر تھا، بڑے مایوس اور ملول تھے، اس مایوسی پر اس وقت مزید دوبالا ہو جاتی، جب کوئی بتانے والا انہیں بتاتا کہ اس کمرے کے ساتھ کافی چھیڑ چھاڑ ہو رہی ہے، کتابیں اٹھا اٹھا کر مظاہر وقف کے کتب خانے میں منتقل ہو رہی ہیں، لیکن تقریباً ڈیڑھ دہائی کے بعد ان کے پاس اس کمرے کی چابی ان کے سپرد کر دی گئی تو ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا، کمرے کی جانب بڑھے بلکہ لپکے اور تپاک سے اسے کھولا تو چونک کر رہ گئے، دیکھا کہ ساری کتابیں اسی ترتیب پر ہیں، جس پر میں نے رکھا تھا، ڈالر بھی جوں کے توں موجود، پھر طلبہ سے کہا: بچو! گواہ رہنا! مجھے غلط اطلاعات مل رہی تھیں، اسی لیے بدگمان تھا، اب کوئی بدگمانی نہیں ہے، پھر شیخ نے اپنے کمرے کی آدھی کتابیں مظاہر قدیم کو وقف کردیں-

*جنازے کی عرفاتی بھیڑ*

یہ میری بڑی محرومی ہے کہ میں ان کے جنازے میں حاضر نہ ہو سکا، اس کی قدرے تلافی تعزیت والے دن ان کے مقبرے پر حاضری سے بھی ہو سکتی تھی، مگر برساتی ماحول نے سرِدست اس کی بھی اجازت نہیں دی، ہاں دعاے مغفرت اور ایصالِ ثواب گھر بیٹھے بٹھاے بھی ہو سکتا ہے، فی الحال اسی پر اکتفا کرنا پڑا، بعضوں کی ولایت اور خدا سے خصوصی رابطہ بعد از مرگ ظاہر ہوتا ہے، حضرت بھی انہیں میں سے تھے، ان کی علمی عظمت اور حدیثی تفوق کے تو سبھی قائل تھے، عرب و عجم، حل و حرم سب ان کی نکتہ دانی کے معترف بلکہ فدائی تھے، بڑے بڑے مسند نشینوں کو ان کے سامنے دو زانو بیٹھے ہم نے دیکھا ہے، سوشل میڈیا کے دور میں ان کی نادر و نایاب تصویریں اور ویڈیو ہر مداح تک پہونچ چکی ہیں، حقیقت یہ ہے کہ ذاتی طور پر حضرت کے تعلق سے بڑا تاثر اپنے اندر پاتا تھا، ان کی وفات کے وہ تاثر ان مٹ سا ہو گیا ہے، اس قدر بھیڑ کہ آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں، سر ہی سر، درمیان والوں کو نہ ابتدا معلوم، نہ انتہا کی خبر، بعض اخبارات نے دس لاکھ تک کی خبر شائع کی، اگرچہ یہ خالص مبالغہ اور بلاوجہ کا اطراء مادح ہے، صحیح بات یہ ہے کہ سوا یا ڈیڑھ لاکھ کے آس پاس کا مجمع موجود تھا، کسی عالم و محدث کی وفات پر اتنے بڑے مجمع کا جٹ جانا اپنے آپ میں تاریخی لمحہ ہے-

پچھلی تین دہائیوں میں بڑی شخصیات اٹھیں، جو اپنے وقت کے عظیم محدث، فخرِ روزگار مصنف، مایۂ ناز انشا پرداز، علومِ اسلامیہ کے گلِ سرسبد اور لغتِ حجازی کے قارون تھے، سب کے جنازے پر عوام و خواص کا ایک سیلاب امڈا، مگر حضرت شیخ کے جنازے کی تعداد ان سب پر حاوی رہی، ایسا لگتا ہے کہ فرشتوں کی بڑی تعداد بھی جنازہ پڑھنے اتر آئی ہے- اتنی بڑی تعداد کی جنازے میں شرکت قدرت کی طرف سے گویا ان کی عظمت و عنداللہ مقبولیت کا اشتہار تھی-

جانے والے پر رونا دھونا عام سی بات ہے، لیکن یہی جانے والا بڑا ہو تو خلا محسوس ہونا فطری ہے، اور جب جانے والا عبقری ہو تو اس کا خلا صدیوں تک محسوس ہوتا ہے، شیخ کی رحلت ایک ایسا ہی سانحہ ہے کہ علمی دنیا ان کی کمی محسوس کرتی رہے گی، شیخ صحراے علوم اسلامیہ کے ایسے قیس تھے، جن کی روانگی نے سب کو رلا دیا ہے، اب تو ہر طرف ویرانی ہے، گریہ ہے، آہ و نالہ ہے، بقول غالب دہلوی:

ہر اک مکان کو ہے مکیں سے شرف اسد
مجنوں جو مر گیا ہے تو جنگل اداس ہے

*برد اللہ مضجعہ*

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے