ڈھونڈوگے اگر ملکوں ملکوں، ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم“ حضرت مولانا محمد یونس جونپوری

ڈھونڈوگے اگر ملکوں ملکوں، ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم“

طه جون پوري
9004797907

اِس عالمِ ناپائیدار میں اَزل سے تا اِمروز کتنی ہستیوں نے آنکھیں کھولیں اور بند کر لیں، لیکن کچھ ہستیوں نے اپنے وجودِ مسعود سے، اس سینہ گیتی پر ایسے نقوش چھوڑے جو تابندہ و پائیندہ رہینگے. اِنھیں میں سے متقی و صالح، صاحب نسبت عالمِ دین، شیخ العرب والعجم، امیر المؤمنین فی الحدیث، حضرت مولانا یونس صاحب جون پوری رح، شیخ الحدیث مدرسہ مظاھر علوم سہارن پور تھے، جو آج 2017-07-111 ہزاروں اور لاکھوں لوگوں کو نمدیدہ کرکے اس دارِ فانی سے دارِ باقی کی طرف کوچ کر گئے.

”کڑے سفر کا تھکا مسافر، تھکا ہے ایسا کہ سو گیا ہے۔

خود اپنی آنکھیں تو بند کر لیں، ہر آنکھ لیکن بھگو گیا ہے“

إنا لله وإنا إليه راجعون.

آپ کا علمی مقام اور علمی حیثیت کیا تھی؟ فنِّ اَسمآءُ الرِّجال میں کس کمال کو پہونچے ہو ئے تھے؟ حدیث کی صحت و سقم پر حکم لگانے میں کتنی اعلی دسترس حاصل تھی؟ متنِ حدیث اور سندِ حدیث پر کتنی عمیق نظر تھی؟ دوسرے مذاھب کا کتنا وسیع مطالعہ تھا؟ یہ تو صحیح معنوں میں ایک علمی شخص ہی زیر قرطاس لاسکتا ہے۔ ویسے بھی

« کس قلم سے میں لکھوں، آپ کی تعریف یاں،

آپ کی شخصیت تو خود ہی، ہے زمانے پر عیاں ».

ریاض العلوم گورینی، کے زمانہ طالب علمی میں، حضرت شیخ کا نام تو سنا تھا، لیکن دیدار نہ ہوسکا. در اصل حضرت مولانایونس صاحب جون پوری رح شیخ الحدیث مدرسہ مظاھر علوم نے اپنے وطن (چوکیہ، گورینی، اللہ کا شکر ہے کہ یہی نا چیز کا بھی وطن ہے) کو گویا خیر آباد کہہ دیا تھا اور علمی مشغولی کی وجہ سے بہت کم تشریف لاتے تھے اور زبان حال سے یہ پیغام دے گئے تھے کہ

”ہمیں دنیا سے کیا مطلب، مدرسہ ہے وطن اپنا،

مرینگے ہم کتابوں پر، ورق ہوگا کفن اپنا“

حضرت شیخ رح بعض مرتبہ وطن آئے بھی، لیکن بدقسمتی کہ زیارت سے محروم رہا.

دار العلوم دیوبند کے زمانہ طالب علمی 2011ء میں ،مدرسہ مظاھر علوم بھی جانا ہوا. جہاں اللہ تبارک و تعالی نے حضرت شیخ الحدیث رح کا دیدار نصیب فرمایا. مسلسلات کے درس میں بھی حاضری نصیب ہوئی. چونکہ حضرت شیخ نے ناچیز کے دادا مولانا محمد عمر صاحب جون پوری حفظہ اللہ (جو حافظ جی کے نام سے مشہور ہیں. اللہ دادا کے سایہ کو دراز کرے) سے ”شرح تہذیب “وغیرہ پڑھی ہے، اِس لیے اس نسبت کا واسطہ دیکر بھی حاضر ہوا. چنانچہ ایک مرتبہ ملاقات کے لیے گیا، خادم سے اندر جانے کی اجازت چاہی تو اِس بندہ خدا نے کہا: ابھی مشغول ہیں، ملاقات نہیں ہو پائیگی” میں نے کہا: آپ بتادو گورینی جون پور سے آئیں ہیں“۔ حضرت کو جب خادم نے اطلاع دی تو فرمایا: گاؤں والا آیا ہے، چائے پلاؤ“۔ اللہ جزائے خیر دے حضرت والا کو، یہ آپ کا حد درجہ بڑکپن تھا، کہ آپ نے اِس ناچیز کی ضیافت فرمائی۔

آپ کے نزدیک دنیا کی حقیقت کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے، کہ میں آپ کے پاس بیٹھا ہوا تھا. صوبہ گجرات کے چند احباب نےقطار میں لگ کر ملاقات کی اورمصافحہ کرکے نذرانہ پیش کیا، اِس میں ایک صاحب نے دوبارہ قطار میں لگ کر نذرانہ پیش کرنا چاہا تو گرفت فرمالی اور اِن سب کے جانے کے بعد نذرانے کو الگ الگ لفافے میں رکھدیا، بعد میں معلوم ہوا کی حضرت اپنے خدام کو تقسیم کر دیتے ہین. اللہ اکبر کیا عجیب نرالی شان ہے۔

یہ واقعہ اب بھی میرے رگ و پے میں گردش کر رہا ہے اور ایک سبق بھی ہے، کہ ایک مرتبہ ایک شخص نے پھلوں کا تحفہ پیش کرنا چاہا، تو اُس کو حضرت نے داخل ہونے سے منع کردیا. اُس شخص نے بڑی عاجزانہ التجا کی، کہ حضرت آپ بس اِس کو استعمال کرلیں، میں آہ کے پاس نہیں آونگا اور وہ پھل رکھکر چل نکلا.

” شیخ کے قدموں میں دنیا، ہے پڑی دیکھو مگر،

پھر بھی حضرت شیخ یونس، دنیا سے ہیں بے خبر “

در حقیقت یہ اللہ کا وعدہ ہے ”ومن يتق الله يجعل له مخرجا- ويرزقه من حيث لا يحتسب “ کہ جو شخص تقوی اختیار کرتا ہے، اللہ اس کے لیے راستے کھول دیتا ہے اور اس کو ایسی جگہ سے رزق فراہم کرتا ہے، کہ اس کے وہم و گمان میں نہیں ہوتا. حدیث میں بھی ہے کہ ” مَن كانت همَّه الآخرةُ ، جَمَع اللهُ له شَمْلَه ، وجعل غِناه في قلبِه ، وأَتَتْه الدنيا راغمةً “ کہ جس کا مقصد زندگی آخرت ہو جاتا ہے، اللہ اس کی شیرازہ بندی کر دیتا ہے، دل میں غنا پیدا کردیتا ہے اور دنیا اُس کے پاس ذلیل ہو کر آتی ہے۔

سچائی تو یہ ہے کہ آپ بے مثال و باکمال تھے۔ اب آپ کو پانا ناممکن ہے

”ڈھونڈوگے اگر ملکوں ملکوں، ملنے کے نہیں نایا ب ہیں ہم،

تعبیر ہے جس کی حسرت و غم، اے ہم نفسو وہ خواب ہیں ہم“

جنازہ میں لاکھوں لوگوں کی شرکت عند اللہ قبولیت کی کھلی دلیل ہے. قرآن و حدیث اِس پر شاھد عدل ہیں ”عنِ ابنِ عبَّاسٍ قال نزَلَتْ في علِيٍّ {إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُواالصَّالِحَاتِ سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمَنُ وُدًّا} [مريم: 966] قال: محبَّةً في قلوبِ المُؤمِنينَ“

رب کریم سے دعا ہے کہ آپ کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے۔ آپ کی قبر کو جنت کی کیاریوں میں سے ایک کیاری بنائے. آپ کی نسبت ہم سب کی مغفرت فرمائے۔

آمین یا رب العالمین

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے