ہمیں اپنے اعمال کا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے

محمد اللہ خلیلی قاسمی

۲۵/ دسمبر کوجزیرہٴ سماترا میں آنے والے زلزلے اور بحر ہند میں اس کی وجہ سے پیدا ہونے والی اتھل پتھل اور طغیانی (Tsunami) سے جنوبی انڈیا، سری لنکا ، انڈونیشیا اور جنوب مشرقی ایشیائی ممالک میں آنے والی بھیانک تباہی نے ایک بار انسان کی اعلی تکنیکی پیش رفت اور ترقی یافتہ آلات کا بھونڈا مذاق اڑایا ہے۔ ایک بار پھر انسان اپنے آپ کو قدرتی آفات اور حوادث کے سامنے خود کو لاچار اور بے بس پارہا ہے۔گذشتہ پانچ چھ برسوں کے عرصہ میں ترکی ، گجرات ، الجیریا اور ایران وغیرہ میں آنے والے زلزلوں اور طوفانوں میں لاکھوں انسانی جانیں تلف ہوئیں اور کھربوں کی دولت ملیا میٹ ہوگئی۔بستیاں کی بستیاں صفحہٴ ہستی سے مٹ گئیں اور لوگ اپنی آبادیاں قبرستان کا منظر پیش کرنے لگیں۔ گو انسان نے علم و تحقیق کے ذریعہ نئے نئے آلات تیار کر لیے ہیں اور خطرات کو بھانپنے والی تکنیک کا پتہ لگا لیا ہے لیکن بھاری انسانی تباہی سے انسان اب بھی آزاد نہیں ہوپایا ہے ۔ انسانوں کی اجتماعی تباہی کا سلسلہ تاہنوزنہ صرف جاری ہے بلکہ اس طرح کی قدرتی آفات میں مرنے والوں کا تناسب پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔
یوں توسائنس داں زیر زمین آنے والے زلزلوں کا سبب یہ بیان کرتے ہیں کہ زیر زمین پھوٹ پڑنے والے آتش فشاں یا زمین کے بڑے بڑے تودوں کی نقل و حرکت سے زلزلے پیدا ہوتے ہیں۔ اس طرح کی وجوہات کا انکار نہیں کیا جا سکتا ، لیکن تصویر کا دوسرا رخ وہ ہے جس سے عام طور پر بے توجہی برتی جاتی ہے اور اس کے قدرتی اسباب و نتائج کا پتہ لگانے کی چنداں ضرورت نہیں سمجھی جاتی۔ جب کہ حقیقت یہ ہے یہی وہ اصلی اسباب ہیں جو دنیا کے نظام میں تبدیلی پیدا کرتے ہیں۔لامذہب سائنس تو یہ کہہ کر خاموش ہوجاتی ہے کہ زیر زمین آتش فشاں اس زلزلہ کا سبب ہے ، لیکن اس آتش فشانی کا سبب اور پھر اس سبب کا سبب معلوم کرنے سے قاصر رہتی ہے۔اگر سائنس اسی سبب در سبب کے در پے ہوجائے تو اسے مالک الملک تک پہنچنے کے علاوہ اسے اور کوئی چارہ نہیں رہے گا۔آج جس طرح اس بات کا شدت سے احساس کیا جا رہا ہے کہ ملک میں سنامی الرٹ سسٹم، کرائسس مینجمنٹ اور دیگر احتیاطی تدابیر ہونی چاہئیں اسی طرح ان قدرتی آفات و مصائب سے بچنے کے لیے انسان کو اس قادر مطلق کی خوشنودی بھی طلب کرنی چاہیے جس نے ان کو پیدا کر کے آزاد نہیں چھوڑ دیا ہے بلکہ اخلاق و معاملات اور عبادات کے ایک مجموعہ قوانین کا پابند بنایا ہے۔
دنیا کی ہر چیز نظم و ضبط کے دھاگے سے بندھی ہوئی ہے۔ خود انسان کی خود ساختہ اشیاء میں جب نظم و ضبط کی خلاف ورزی پائی جاتی ہے تو وہ شیٴ ٹوٹ پھوٹ جاتی اور از کار رفتہ ہوجاتی ہے۔ خدا کی اس کائنات کا تکوینی نظام کہیں اس سے زیادہ منظم و منضبط ہے ۔ چناں چہ جب بھی انسان نے قوانین فطرت سے بغاوت اور خروج کیاہے سماوی آفات نے اسے آگھیرا ہے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالی نے حضرت نوح، لوط وغیرہ انبیاء علیہم السلام کی اقوام اور عاد و ثمود، اہل مدین ، فرعون اور دیگر قوموں کی سر کشی اور پھر ان پر آنے والے عذاب کا تذکرہ بار بار کیا ہے۔کسی قوم کو زلزلہ، کسی قوم کو طوفان اور کسی قوم کو سیلاب کے ذریعہ ہلاک و برباد کیا گیا۔تباہی و بربادی کی یہ شکلیں عذاب الہی کی شکلیں ہیں جو روئے زمین پراللہ کی نافرمانی، فسق و فجور اور ظلم و ستم بڑھ جانے کی وجہ سے رونما ہوتی ہیں۔ قرآن و حدیث میں جگہ جگہ اور بار بار پچھلی قوموں کی مثال دے کر اس دنیا ہی میں برے اعمال کے انجام کار سے ڈرایا گیا ہے۔قرآن پاک میں ہے کہ ’بحر و بر میں انسانوں کے اعمال کی وجہ سے خرابی پھیل گئی تاکہ ان کو ان کے اعمال کا مزہ چکھادیا جائے، اورشاید وہ راہ راست کی طرف لوٹ آئیں۔(روم ، ۴۱)
بہت سی احادیث میں قیامت کے قریب اس طرح کے زلزلوں، طوفانوں اور تباہیوں کی پیشین گوئی کی گئی ہے۔ فرمایا گیا کہ اس امت کے اخیر میں خسف (زمین میں دھنسانا)، مسخ(صورتیں مسخ کرنا) اور قذف (پتھروں کی بارش) کا عذاب آئے گا۔کسی نے پوچھا یا رسول اللہﷺ ایسا کب ہوگا ؟ آپﷺ نے فرمایا کہ جب گانے بجانے والیاں اور آلات لہو و لعب زیادہ ہوجائیں گے اور شراب کثرت سے پی جائے گی۔(ترمذی) نیز ایک حدیث میں ظلم کی حمایت پر اس طرح کی وعید آئی ہے۔(ابن ماجہ) ایک دسری حدیث میں ایک صحابی نے پوچھا کیا ہم میں سے اچھے لوگ بھی مارے جائیں گے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہاں جب برائی غالب آجائے گی۔(ترمذی)ایک حدیث میں ہے قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ علم کم ہوجائے گا ، جہالت بڑھ جائے گی ، زنا عام ہوجائے گا، شراب کثرت سے استعمال ہوگی۔(بخاری)
ایک اور حدیث میں ہے کہ جب مال غنیمت کو ذاتی مال، امانت کو مال غنیمت ، زکاة کو تاوان سمجھا جانے لگے، دین کے علاوہ مقاصد کے لیے علم حاصل کیا جانے لگے، شوہر بیوی کی فرمانبرداری اور ماں کی نافرمانی کرنے لگے، دوستوں کو قریب اور باپ کو دورکیا جانے لگے، مسجدوں میں شور ہونے لگے، قبیلہ کا سردار فاسق ہو، قوم کا لیڈر رذیل ترین شخص ہونے لگے، انسان کے شر کی وجہ سے اس کا اکرام کیا جائے ، گانے بجانے والیوں اور آلات لہو و لعب کی کثرت ہوجائے، شراب خوب استعمال کی جائے، امت کے اگلے لوگ پچھلوں کی برائی کریں تو اس وقت سرخ آندھی، زلزلہ، خسف اور مسخ کا انتظار کرو۔اس وقت تم پر آفات سماوی کا ایسا سلسلہ شروع گا جیسے کہ تسبیح کے دانے ٹوٹ کر ایک ایک کر کے گر رہے ہوں۔(ترمذی، مسلم)
دیگر اقوام جن کے پاس یہ الہی قوانین نہیں ہیں ان کو چھوڑ کر خود مسلمان ہی جو اس دنیا میں خلیفة اللہ اور خیر امت کا لقب دے کر بھیجے گئے ہیں آج اگراپنے اعمال کا جائزہ لیں تو معلوم ہوجائے گا ان آیات و احادیث میں جس زمانہ کا ذکر ہے ہمارا زمانہ اس سے کچھ مختلف نہیں ہے۔ زنا، شراب، ناچنے گانے والیوں اور آلات لہو ولعب کی کثرت پر کچھ کہنا بے سود ہے۔ ٹیلی ویزن،سینما ،فیشن شوز، نائٹ کلب،پورنوگرافی، شراب خانے،رنڈی خانے، مخرب اخلاق لٹریچر اور اس سے پھیلنے والی حد درجہ عریانیت و فحاشیت سے دینا کا کون سا ایسا گوشہ ہے جو خالی ہے۔آبادیوں، قدرتی مناظر گاہوں، سمندروں،پارکوں اور فضاؤں میں برپا ہوے والا طوفان بد تمیزی رکنے کا نام نہیں لیتا۔ظلم کی حمایت، مال حاصل کرنے میں حلال و حرام کی پرواہ نہ کرنا، زکاة و صدقات سے ہاتھ کھینچ لینا،والدین کی نافرمانی، بیوی اور دوستوں کی پذیرائی، اسلاف کی تحقیر و تذلیل کیا آج ہر جگہ عام نہیں ہے۔ کیا قوم کے رہنما فاسق اورہمارے لیڈر اخلاقا ، علما (اور نسبا بھی )ارذل القوم نہیں ہیں؟
مذکورہ بالاحدیث میں علم کی کمی،جہالت کی کثرت اور دین کے علاوہ مقاصد کے لیے حصول علم بھی عذاب کی ایک وجہ بتلائی گئی ہے۔ ہمیں اس سے دھوکہ نہیں ہونا چاہیے کہ ساری دنیامیں تعلیم یافتہ و خواندہ افراد کا تناسب پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔ حدیث شریف میں علم سے مراد وہ علم ہے جو انسان کو خدا کی معرفت ،اعلی اخلاق و اقدار ، قوانین فطرت کی پابندی، اور خالق کائنات کی اطاعت پر آمادہ کرتا ہو۔ لیکن ہمارا معاملہ یہ ہے کہ ہم آج اس علم سے کافی دور ہیں اورشب و روز ایسا علم حاصل کرنے میں صرف کرتے ہیں جو ہمیں خدا کی طرف نہیں لے جاتا۔ علم جدید کا ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ اس کی بنیاد خدا بیزاری اور مذہب سے بغاوت پر رکھی گئی ہے اسی لیے اس کے طالب علم کی تعلیم و تحقیق کا سفر جانب مخالف میں چلتا ہے حالاں کہ اسی علم سے اللہ تک پہنچنا کچھ مشکل نہیں ہے۔
اس وقت ہمیں اپنے اعمال کا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنے مقصد تخلیق کوپہچاننا اور اپنے خالق کے احکام کی اطاعت کرنا ضروری ہے جس کی پیداکی ہوئی دنیا میں ہم رہتے ہیں۔ جیساکہ مذکورہ بالا حدیث سے معلوم ہوتا ہے اللہ تعالی کا عذاب برے اور اچھے تمام افراد کو عام ہوسکتاہے۔ برا اگر برائی کرکے اللہ کے عذاب کو دعوت دیتا ہے اس برائی سے بچنے والا اپنے بھائی کو برائی سے نہ روک کر خود کو بھی اسی فہرست میں شامل کر رہاہے۔ آج جس طرح متاثرہ افراد کے ساتھ غمگساری اور ان کی باز آبادکاری کی ضرورت ہے اسی طرح بلکہ اس سے کہیں زیادہ ا س بات کی کوشش کی ضرورت ہے کہ انسان اپنے خالق کے بتائے ہوئے راستے پر چلے تاکہ اس کی رضا کا حق دار ٹھہرے اوراس کے غضب سے محفوظ رہے۔

شائع شدہ: ماہنامہ ندائے شاہی۲۰۰۵ء

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے