از: محمد مشاہد حسینکرناٹک ،(گلبرگہ)7411740292
آج سے کئی صدیوں پہلے یورپ کی نشاة ثانیہ میں مسلمان اپنے عہد عروج میں یورپ کو علم وثقافت کے چشموں سے سیراب کیا ۔اندلس (اسپین ) جسے یورپ کا استاد کہا جاتا ہے جنہوں نے اندلس میں اعلیٰ درجہ کی جامعات قائم کی اور پھر علم ودانش کی ان یونیورسٹیوں سے یورپ فیضیاب ہوا اور انہوں نے مسلمانوں کی علمی کتابوں سے استفادہ حاصل کیا۔یورپ کے روشن دماغ،دانشور اور فضلاء تھے جنہوں نے تاریکی میں ڈوبے ہوئے یورپ کو روشن کرنے کیلئے مسلمانوں کے چراغ سے اپنا چراغ جلایا ۔آج یورپ کی تہذیب ہماری اقدار کو نظرانداز کرتی ہے لیکن مغربی تہذیب اور وہاں کی تمدنی ورثہ کا سہرا مسلمانوں کے سربند ھاجاسکتا ہے ۔اُس زمانہ میں مسلمان ہی علم کے قافلہ کے سالار اورتہذیب وتمدن کے سرمایہ دار تھے۔علم کی روشنی اندلس ،اٹلی سے ہوتے ہوئی یوروپ تک پہونچی اسپین میں بہت سے علمی مراکز قائم تھے۔ان علمی اداروں میں مسلمانوں کی مشہور تصنیفات کا لاطینی زبان میں ترجمعہ کیا جانے لگا ۔صرف مسلمانوں کے مشہور اسکالر کی کتابوں کے ترجمے نہیں ہوئے۔بلکہ یونا ن کی معروف ومشہور کتابوں کے ترجمے بھی ہوئے جن کو عربوں نے اپنی زبان میں منتقل کیاتھا۔مسلمانوں نے نہ صرف قدیم یونانی ورثہ کی حفاظت کی بلکہ اس میں قابل ذکر اضافے کئے پورے یوروپ پر عربوں کا احسان ہے اورپانچ صدیاں یوروپ میں ایسی گذری ہیں کہ وہاں کی یونیورسٹیاں عربوں کی تصانیف کے سواد وسرے علمی تراجم سے واقف ہی نہ تھیں ۔گویا یہ مسلمان عرب تھے جنہوں نے یوروپ کو علمی ترقی کار استہ دکھا یا۔
اسلامی تہذیب وتمدن کے بارے میں یورپی دانشور نے لکھا ہے کہ ”عربوں نے صدیوں تک عیسائی قوم کی رہنما ئی کی اوریہ عربوں کا احسان ہے کہ ہم روم اور یونان کے قدیم علوم سے واقف ہوئے۔یہی وجہ ہے کہ ہماری یونیورسٹیاں تعلیم کے میدان میں عربوں کی تصنیفات کواپنی زبان میں منتقل کر کے۔اس سے فائدہ اٹھایا۔اور ایک یورپین جس نے اپنی کتاب تاریخ سائنس میں یہ اعتراف کیا ہے کہ گیارہویں صدی عیسویں میں علم وحکمت کاحقیقی ارتقاء مسلمانوں کے کارہنِ منت ہے۔اسی طرح سے رابر بریفولٹ نے اپنی کتاب میکنگ آف ہیومینٹی میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ موجودہ دنیا پر اسلامی علوم وفنون کا بڑا احسان ہے۔عربوں نے علم کے تمام چشموں سے علم سے ہم کو فیضیاب کیا۔
آج سے کئی صدیوں پہلے یوروپ ایک پس ماندہ ملک تھا لیکن آج پوری دنیا کا سب سے طاقتور ملک بن گیا ہے ۔اگر ہم یورپ کی تاریخ کواُٹھا کر دیکھیں گے تو ہم کوپتہ چلے گا کہ اصل میں یورپ کی ترقی کے پیچھے چھپے ہوئے ہم ہی ہیں جب اندلس(اسپین) کو ایک مردِ مجاہد طارق بن ضیاد نے فتح کیا تو مسلمان علماء ،دانشور،سائنسدانوں نے یہاں پر اشاعت اسلام کا مرکز قائم کیاا ور علم کاچراغ روشن ہونے لگا تو دنیا بھر سے لوگ تعلیم حاصل کرنے کیلئے آیاکرتے تھے۔اوریہاں یوروپ سے بھی طالبِ علم تعلیم حاصل کرنے کیلئے آیا کرتے تھے۔ہم معلم تھے اور سب طالبِ علم تھے ۔
اور جب اندلس(اسپین) میں زوال کا وقت آپہنچا تو جب تک یورپ ایک معاشی قوت بن کے اُبھرنے لگا۔اوراندلس میں مسلمانوں کو شکست ہونے کے بعد یورپ کا ایک حصہ بنا اور آج بھی اندلس میں ہماری تعمیرات مساجد(خاص کر کے مسجد قرطبہ) ایک شاندار اور دلچسپ تعمیر کردہ آج بھی موجود ہے۔
لیکن افسوس درافسوس ہم ہماری تاریخ کے بارے میں ہم کو کچھ بھی نہیں معلوم کسی شاعر نے کیاخوب کہا ہے کہ
کس دور پہ نازاں تھی دنیا اب ہم وہ زمانہ بھول گئے
غیروں کی کہانی یاد رہی ہم اپنا فسانہ بھول گئے
اصل میں ہم اپنی تاریخی واقعات کو بھلا بیٹھے ہیں اسلئے درد ر کی ٹھوکر یں کھارہے ہیں۔لیکن یوروپ نے ہمارے سائنس دانوں کے ذریعہ ٹیکنالوجی کے میدان میں وہ کارنامہ انجام دیا جو مسلمان سائنسدانوں نے اُس کی بنیاد ڈالی تھی ۔
ہمارے مسلمان سائنسدانوں کی بیشمار کتابیں کابہت سالوں پہلے ا یورپ کی زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے۔آج بھی یوروپ کی یونیورسٹیوں میں وہ کتابیں پڑھائی جاتی ہیں۔مسلمان سائنس دانوں کے وہ ایجادات آج بھی موجود ہے۔
”ابن الہیشم نے آج سے تقریباً ایک ہزار سال پہلے کیمرہ ایجاد کیا اور انہوں نے سائنسی دنیا میں ایک ایسی کتاب لکھی جو پورے سائنس کے میدان میں ایک نیا انقلاب برپا کیا۔ان کی کتاب المناظر یورپ میں بھی اس کا ترجمہ کیاگیا ہے ۔اورایسے کئی مسلمان سائنسدانوں کی کتابوں کایورپ میں ترجمہ ہواہے۔اور ان کتابوں سے یورپ آج تک فیضیاب ہورہا ہے۔لیکن آج کے مسلمانوں کی بڑی محرومی ہے کہ وہ اس ۔سے فائدہ نہیں اٹھا پارہے ہیں۔
سائنس مرہُونِ منت ہے ،تہذہبِ حجاز کی
قُرونِ وسطیٰ میں مسلمان سائنسدانوں نے جن سائنسی علوم کی فصل بوئی تھی وہ فصل اب تیار ہوچکی ہے ۔ اورموجودہ دور اُس فصل کی کاشت کرتے ہوئے اُس کے گوناگوں فوائدے فائدہ اُٹھا رہا ہے۔مسلمان جب تک علم کی روِش پر قائم رہے سارے جہاں کے امام اور مقتداء رہے جو انہیں علم سے غفلت برتی ثریات سے ز مین پر آسمان نے ہم کو دے مارا،آج ہم اس کا خمیازہ بُھگت رہے ہیں اورآج ہمارے اسلاف کا سرمایہٴ علمی وفکری اغیار کا اوڑھنا بچھونا ہے۔
آج مغرب اس بات کا مسلمہ طور پر اقرار کرچکا ہے کہ جدید سائنس کی تمام تر ترقی کا انحصار قرونِ وسطیٰ کے مسلماں سائنسدانوں کی فراہم کردہ بنیادوں پر قائم ہے ۔مسلمان سائنسدانوں کو سائنسی نہج پر کام کرنے کی ترغیب قرآن وسنت کی تعلیمات سے حاصل ہوئی تھی۔یہی منشائے ربانی تھا جس کی تکمیل میں مسلمانوں نے ہر شعبہٴ علم کو ترقی دی۔آج اغیار کے ہاتھوں ہی علوم نکتہ کمال کو پہنچ چکے ہیں۔آج ہم اپنے اجداد کے سائنس کا رہائے نمایاں کی پیررو کرنے یا کم از کم فخر کرنے کے بجائے اس سے لاتعلق ہوئے ہیں۔
مذہب اور سائنس دونوں میں کوئی تضاد نہیں ہے۔اسلام کی پیروی سے مذہب اور سائنس دونوں دینِ مبین کا حصہ ہیں ۔
سائنس کا دائر کار مشاہداتی اورتجرباتی علوم پر منحصر ہے۔جبکہ مذہب اخلاقی وروحانی اور مابعد الطیبعیاتی اُمور سے متعلق ہے سائنس انسانی غور وفکر اور استعداد سے تشکیل پانے والا علم ہے جبکہ مذہب خدا کی طرف سے عطاکردہ علم ہے ۔اس لئے سائنس کا سارا علم امکانات پر مبنی ہے۔جبکہ مذہب کا سارا علم سراسر قطعی ہے اورمذہب کی ہر بات حتمی اوراَمر واجب ہے ۔
خالقِ کائنات نے اس کائنات میں کئی نظام بنائے ہیں اور کائناتی نظام کے حقائق جمع کرنا سائنس کا مطمع نظر ہے ۔اورمذہب یہ بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ساری کائنات کو انسان کے لئے پیدا کیا ہے۔سائنس کی ذمہ داری ہے کہ اللہ تعالیٰ کے پیدا کردہ عوالم اوراُن کے اندر جاری وساری عوامل کا مطالعہ کرے اورکائنات میں پوشیدہ مختلف سائنسی حقائق کو بنی نوعِ انسان کی فلاح وبہبودی کے لئے استعمال کرے۔
سائنس ،مشاہدے اور تجربے کا دوسرا نا م ہے۔سائنسی طریقِ کار کے بانی معروف مسلمان سائنس دان ابو البرکات صبغت اللہ بغدادی ہیں۔جنہوں نے اسلام کی آفاقی تعلیمات اوراُن کے سائنسی شواہد کے ساتھ مطابقت پر گہرے غور وفکر کے بعد اسلام قبول کیا تھا۔خدائے بزرگ وبر ترنے اپنے محبوب نبی اکرمﷺ کے ذریعہ اپنے بندوں کو کائنات کے اسرار ورموز پر غور خوض کا جا بجا حکم دیا ہے۔
حضرت محمد ﷺ نے اسلام کو معجزات ہی کے دائرے میں رکھنے کے بجائے اُسے غور وفکر اور تجربہ اور تجزیہ کرنے کی نمایاں عقلی وفکری چھاپ عطا کی ہے ۔مذہب خالقِ Creatorسے بحث کرتی ہے اور سائنس اللہ تعالیٰ کی پیداکردہ خلق سے (Creatim)اگر انسان ساری کائنات پرغور وفکر اورسوچ وبچارمثبت اورصحیح انداز ے کرتا ہے تو اس تحقیق کے کمال پر پہنچنا انسان کو اللہ تعالیٰ یعنی خالق کی معرفت نصیب ہوگی اور بے اختیار پکار اُٹھے گا۔رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ھٰذا بَا طِلَا،(اے ہمارے رب !تونے یہ (سب کچھ) بے حکمت اور بے تدبیر نہیں بنایا ہے )۔(ماخوذ:یوسف حسین )
سائنس سے دور مسلمانوں کی بڑی محرومی
مسلمانون کے عروج وزوال پر دنیا کے متعدد انشور وں نے اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔اور بیشتر کاخیال ہے کہ سائنس اور ٹکنالوجی سے قربت اورپھر دوری ہی ان کے عروج وزوال کاسبب بنی۔ہندوستان کے مختلف علمائے کرام اور دانشور حضرت نے بھی زوال اسلامی کے کیاسباب پرروشنی ڈالنے کی سعی بھی کی ہے ۔
مولانا ابو الحسن علی ندوی :مسلمانوں نے وقت کی قدر نہ کی اور صدیاں ضائع کردیں برخلاف اس کے یورپی قوموں نے وقت کی قدر کی اورصدیوں کی مسافت برسوں میں لگایا۔مسلمان اپنی علمی روشن بھول گیا او ر مقلدانہ اورروایتی ذہینت کا شکار ہوگیا اور اس طرح سائنس اورٹکنالوجی میں پیچھے رہ گیا اورمغرب نے اسے غلام بنادیا۔
مولانا ابو الکلام آزاد:غفلت اور سرشاری کی بہت سی راتیں بسر ہوچکی ہیں ۔اب خدا کے لئے بستر ہوشی سے سراٹھا کردیکھئے کہ آفتاب کہاں پہنچ چکا ہے آپ کے ہمسفر کہاں تک پہنچ گئے ہیں اورآپ کہا پڑے ہوئے ہیں۔(غبار طاظر،ابو الکلام آزاد)۔اگر تعلیم انسان کے لئے ہے اور اس لئے ہے کہ زمین پر بسنے والے اس پر عمل کریں تو اسی حالت میں اسی صورت میں پیش کرو کہ وہ اسے دیکھ کر گھبرانہ جائیں اور اس لئے ہے کہ اس چیز کو محسوس کیا ہوتا اور اس حقیقت کو تسلیم کیا ہوتا کہ اب دنیا کہاں سے کہاں آگئی ہے اور اس کے بارے میں کہاں تبدیلی ہمیں کرنا ہے لیکن اگر سو برس پہلے ہم نے تبدیلی نہیں کی تو کم از کم یہ تبدیلی اب ہم کو کرلینی چاہئے۔
مولانا شبلی نعمانی :آج(1909)ہندوستان میں موجودہ سلطنت اورپوروپین علوم وفنون کے اثر سے قوم کے خیالات میں معلومات میں عظیم الشان انقلاب پیدا کیاہے ۔ایسی حالت میں کیا وہ علماء قوم کی رہبری کرسکتے ہیں جوآج کل کی تحقیقات آج کل کے خیالات اورآج کل کے حالات میں محض ناآشنا ہوں
مولانا سلیمان ندوی:جدید علوم سے بے خبر علماء اسلام کی سچی خدمت انجام نہیں دے سکتے ہیں ،آج ہم ایک تماشائی بن کرزندہ نہیں رہ سکتے ہیں ۔
سرسید : فلسفہ ہمارے دائیں ہاتھ میں ہوگا اور نیچرل سائنس بائیں میں اور کلمہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ﷺ کا تاج سر پر ۔
حضرت شاہ عبد القادر رائے پوری:اسلام باتوں سے نہیں قائم ہوسکتا ہے۔اگر دنیا کے بڑے ملکوں کے دوش بدوش کھڑا ہونا ہے تو جدید علوم سیکھنے ہوں گے۔جب کوئی ملک اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہوتا تو وہ نہ دین کی خدمت کرسکتا ہے اور نہ دنیا کی ۔
سید وقار حسینی :مسلمانوں نے اٹھا رویں صدی علم کو دو حصوں بانت دیا ۔ایک علوم شریعہ اور دوسرے علوم عقیلہ ،عقلی علوم میں اقتصادیات اور سائنس کو شامل کرکے اسے نچلا درجہ دیاگیا۔وہ بھول گئے کہ قرآن کی روح سے عقلی علوم کو معنویت (Legitimacy)اہمیت اورفرضیت حاصل ہے ۔مزید یہ کہ تمام شرعی علوم بھی عقلی علوم ہیں کیونکہ جب سے مسلمانوں نے اس علمی روشن کو ترک کیا اور غزالی ،ابن رشد اور ابن خلدون وغیرہ کی واضح تحریروں سے منہ موڑ ا سائنس ان کی سرزمین سے منہ موڑ گئی اور خودان کا مذہب بھی زوال اورانحطاط پذیر ہوگیا۔