امداد الحق بختیار قاسمی*
ہمارے ملک ہندوستان اور پورے عالم اسلام کی موجودہ صورت حال انتہائی تکلیف دہ ہے ، تمام باطل اور طاغوتی طاقتیں مسلمانوں کو اور ان کے دین ومذہب کو صفحہٴ ہستی سے مٹانے کے لیے اپنی انتھک کوشش کر رہی ہیں ، اسلام اور مسلمانوں پر ہر چہار جانب سے زمین تنگ کی جارہی ہے ، خصوصاً ہندوستان میں ، جہاں مسلمانوں نے تقریباً ایک ہزار سال تک امن و امان کے ساتھ شاندار حکمرانی کی ہے اور جسے مسلمانوں نے اپنے خون جگر اور جان ومال کی بھاری قربانی دے کر انگریزوں کے ظالم پنجہ سے آزاد کرایا ، آج اسی سرزمین میں امت مسلمہ کی جان و مال ، عزت و آبر اور دینی و ملی تشخص داوٴ پر ہے ،مسلمانوں کے اقتصادی ذرائع بھی نشانہ پر ہیں ، جان بھی خطرے میں ہے ، عزت وآبرو بھی پامالی کی دہلیز پر ہے اور دین ومذہب تو اغیار کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح چبھ رہا ہے ۔
لیکن ان حالات سے مسلمانوں کو گھبرانے اور ہمت ہارنے کی بالکل ضرورت نہیں ، اسلام دشمن طاقتوں نے ہمیشہ اس طرح کی حرکتیں کی ہیں اور مسلمان ہر پیش آمدہ مصیبت سے سرخ رو ہوکر آگے بڑھے ہیں ، یاد رکھنا چاہیے کہ اسلام اور مسلمان اس دنیا کا مقدر ہیں ، جس دن اسلام نہ رہا، وہ دن اس دنیا کی زندگی کا آخری دن ہوگا ، اسی کے ساتھ یہ حقیقت بھی ہمارے ذہنوں سے غائب نہیں ہونی چاہیے کہ یہ دنیا مسلمانوں کی منزل نہیں؛ بلکہ منزل کا ایک پڑاوٴ ہے(This world is a station not the destination)ہماری منزل جنت ہے اور خدا کے دشمنوں کا ٹھکانہ جہنم ہے ۔
ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ شیطانیت اور انسانیت کی جنگ روز اول سے جاری ہے اور قیامت تک رہے گی ، اور حالات زندہ قوموں پر ہی آتے ہیں ، مردہ قوموں سے کوئی نبردآزما نہیں ہوتا اور ہمارے پاس ہر مصیبت سے نمٹنے کے لیے دو مضبوط ہتھیار موجود ہیں ایک قرآن کریم اور دوسری نبی پاک ﷺ کی سنت مبارکہ ؛ لہذا ہمیں ہر معاملہ میں ان دونوں کو پیش نظر رکھنا چاہیے،یہ حالات ہمیں ایک ہمہ گیر خود احتسابی کی دعوت دیتے ہیں ، مسلمانوں کو خود اپنا جائزہ لینے کی ضرورت ہے ، ایک ایسا جائزہ جو زندگی کے تمام شعبوں کو محیط ہو، ایک ایسا جائزہ جو رب کائنات سے رجوع اور اپنی کوتاہیوں کی اصلاح کرنے کے جذبے پر موقوف ہو۔ ہماری ناکامی نامرادی اور ذلت و رسوائی کا سبب قرآن وسنت کی تعلیمات سے دوری کے علاوہ کچھ نہیں ۔قرآن بتاتا ہے کہ انسانوں پر جو بھی مصیبت آتی ہے ، وہ خود اس کی شامت اعمال کا نتیجہ ہے:
وَمَا أَصَابَکُم مِّن مُّصِیْبَةٍ فَبِمَا کَسَبَتْ أَیْْدِیْکُمْ وَیَعْفُو عَن کَثِیْرٍ․شوری(30)
(ترجمہ)اور جو مصیبت تم پر آئی ہے ، تو وہ ہمارے ہاتھوں کے کرتوت کی وجہ سے ہے اور اللہ تعالی نے بہت سی کوتاہیں سے درگزر کردیا ہے ۔
موجودہ حالات کی پیشین گوئی قرآن میں
موجودہ حالات مسلمانوں پر کوئی اتفاقی حادثہ نہیں ہے ؛ بلکہ ان سنگین حالات کی خبر قرآن کریم نے ہمیں بہت پہلے دی ہے اور ان کے وجوہ و اسباب اور ان سے نکلنے کے راستے بھی بتائے ہیں ، اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے :
وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْْء ٍ مِّنَ الْخَوفْ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الأَمَوَالِ وَالأنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِیْنَ․
(ترجمہ)اور ہم تمہیں ضرور آزمائش میں مبتلا کریں گے:کچھ خوف اور بھوک کے ذریعہ ، مال ، اولاد اور رزق میں نقصان کے ذریعہ اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیجیے۔
ایک اور موقع پر اللہ تعالی فرماتے ہیں:
لَتُبْلَوُنَّ فِیْ أَمْوَالِکُمْ وَأَنفُسِکُمْ وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِیْنَ أُوتُواْ الْکِتَابَ مِن قَبْلِکُمْ وَمِنَ الَّذِیْنَ أَشْرَکُواْ أَذًی کَثِیْراً وَإِن تَصْبِرُواْ وَتَتَّقُواْ فَإِنَّ ذَلِکَ مِنْ عَزْمِ الأُمُورِ․ آل عمران(186)
(ترجمہ) یقینا تم آزمائش میں ڈالے جاوٴگے اپنے مال اور جانوں کے سلسلہ میں ، اور تم ضرور سنوگے یہود ونصاری اور مشرکین سے بہت سی تکلیف دہ باتیں، اور اگر تم صبر کرو اور تقوی اختیار کرو ، تو یقینا یہ تمام تدبیروں میں سب سے پختہ تدبیر ہے۔
اور اس آیت میں ہمارے لیے بڑی تسلی کا سامان ہے:
أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تَدْخُلُواْ الْجَنَّةَ وَلَمَّا یَأْتِکُم مَّثَلُ الَّذِیْنَ خَلَوْاْ مِن قَبْلِکُم مَّسَّتْہُمُ الْبَأْسَاء وَالضَّرَّاء وَزُلْزِلُواْ حَتَّی یَقُولَ الرَّسُولُ وَالَّذِیْنَ آمَنُواْ مَعَہُ مَتَی نَصْرُ اللّہِ أَلا إِنَّ نَصْرَ اللّہِ قَرِیْبٌ․ البقرہ (214)
(ترجمہ)کیا تم یہ سمجھ بیٹھے ہو کہ جنت میں یونہی داخل ہو جاوٴگے ؛حالاں کہ ابھی تک تمہارے پاس وہ حالات نہیں آئے ، جو تم سے پہلے لوگوں کے پاس آئے:انھیں دشمن سے جنگ اور بیماری کی مصیبتیں اتنی پہنچیں کہ ان کی بنیادیں ہل گئیں؛یہاں تک کہ وقت کے رسول اور ایمان والے کہنے لگے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی ؛سنو اللہ کی مدد قریب ہے۔
یہ شہادت گہِ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلمان
جب خود خالق کائنات اور کاتب تقدیر کی کتاب نے ان حالات کی پیشین گوئی کی ہے اور ہمیں خبر دار کیا ہے ، تو ہمیں مایوس ہونے اور خوف کھانے کی کوئی ضرورت نہیں ؛ بلکہ اسی کتاب کی روشنی میں ان حالات سے نمٹنے کے راستے اور تدبیریں تلاش کرنی چاہیے ۔
ہماری مقدس کتاب قوم مسلم سے مخاطب ہو کر کہتی ہے :
قرآنی بشارت
وَلاَ تَہِنُوْا وَلاَ تَحْزَنُوْا وَأَنْتُمُ الأَعْلَوْنَ إِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ․آل عمران(139)
(ترجمہ)نہ آئندہ کے لیے ہمت ہارو اور نہ موجودہ اور گزرے ہوئے تکلیف دہ حالات پر غم کرو ، تم ہی سر بلند رہو گے ؛ شرط یہ ہے کہ تم ایمان پر قائم رہو۔
اس آیت میں مسلمانوں کے لیے تسلی کا بڑا سامان ہے اور ساتھ ہی ایک سبق بھی ہے کہ ہر حال میں ایمان کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھیں تو دنیا کی تمام تر کامیابی مسلمانوں کے قدم چومے گی۔
قرآن وسنت کی تعلیمات سے ہمیں ان مصائب سے نجات کے لیے جو ہدایات اور راہنمائی ملتی ہیں، وہ درج ذیل ہیں :
(۱) اللہ کی طرف رجوع
سب سے پہلی چیز جو ہمارے لیے انتہائی ضروری ہے ، وہ یہ ہے کہ ہم دونوں جہان کے پروردگار کے ساتھ اپنا رشتہ استوار کریں ،بندوں کے حقوق کے ساتھ ساتھ اللہ کے حقوق بھی ادا کریں ، اپنی عبادتوں ،دینی اور رفاہی کاموں میں پہلے کے مقابلہ میں اضافہ کریں ؛ کیوں کہ ہر مشکل آسان کرنے والی ذات صرف اور صرف اللہ تعالی کی ہے ، اللہ کا پاک ارشاد ہے :
الَّذِیْنَ إِذَا أَصَابَتْہُم مُّصِیْبَةٌ قَالُواْ إِنَّا لِلّہِ وَإِنَّا إِلَیْْہِ رَاجِعونَ․البقرہ (156)
(ترجمہ)جنہیں جب بھی کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو کہتے ہیں :ہم اللہ کے لیے ہیں اور یقینا ہم اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔ایسے لوگوں پر ان کے رب کی جانب سے رحمتیں اور عنایتیں ہیں اور وہی راستے پر ہیں۔
نیز اللہ تعالی فرماتے ہیں:
یَاأَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ اسْتَعِیْنُواْ بِالصَّبْرِ وَالصَّلاَةِ إِنَّ اللّہَ مَعَ الصَّابِرِیْنَ․البقرہ (153)
(ترجمہ) اے ایمان والوں! صبر اور نماز کے ذریعہ اللہ کی مددچاہو، بے شک اللہ تعالی صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
اس آیت میں نماز سے مراد اللہ کی طرف رجوع ہونا ہے اور ہر معاملہ میں اللہ کی طرف متوجہ ہونا ؛ لہذا ہمیں زیادہ سے زیادہ اللہ تبارک وتعالی سے لو لگانا چاہیے اور عبادتوں کا خوب اہتمام کرنا چاہیے۔
(۲)صبر اور استقامت
اللہ تبارک وتعالی اور ہمارے نبیﷺنے کئی مقامات پر مصائب اور شدائد میں مضبوطی کے ساتھ صبر کا دامن تھامے رہنے کی تاکید وتلقین کی ہے ، اور صبر کا مطلب ہے کہ کسی بھی ناگفتہ بہ حالت سے نکلنے کے لیے کسی غلط راستہ کا انتخاب نہ کیا جائے ؛ صبر کے بڑے فوائدہیں اور یہ بہت مجرب اور قیمتی خدائی نسخہ ہے ؛ چناں چہ ایک مقام پر اللہ تعالی فرماتے ہیں :” بے شک اللہ تعالی صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔“ اور جس کے ساتھ اللہ تعالی ہو ، اسے بڑی سے بڑی مصیبت نقصان نہیں پہنچا سکتی ، دوسری جگہ اللہ کا ارشاد ہے :”اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیجیے۔“ خوش خبری اچھی خبر کو کہتے ہیں ، بری خبر کو نہیں ، یعنی اگر ہم صبر کریں گے تو آئندہ ہمارے لیے اچھی خبر ہوگی اور حالیہ برے حالات سے ان شاء اللہ نکل جائیں گے۔
(۳)توبہ و استغفار
ہمارے لیے موجودہ حالات میں تیسرا اہم کام یہ ہے کہ اپنے گناہوں سے توبہ کریں ، تقوی اختیار کریں اور استغفار کی کثرت رکھیں، آزمائش کے اوقات میں صبرکے ساتھ ساتھ اللہ تعالی نے تقوی اختیار کرنے کا بھی حکم عطا کیا ہے، چنانچہ ارشاد خداوندی ہے :” اور اگر تم صبر کرو اور تقوی اختیار کرو ، تو یقینا یہ تمام تدبیروں میں سب سے پختہ تدبیر ہے۔“اور تقوی کا مطلب اللہ کی فرمانبرداری کرنا اور گناہوں سے رکناہے ؛ اور اللہ تعالی نے سورہ طلاق میں تقوی کے کئی فائدے بیان فرمائے ہیں :(۱)” اور جو تقوی اختیار کرے گا ، اللہ تعالی اس کے لیے پریشانی سے نکلنے کی راہ بنادیں گے اور اسے روزی ایسی جگہ سے ملے گی ،جہاں سے وہم و گمان نہ ہوگا ۔“(۲)”اور جو تقوی اختیار کرے گا ، اللہ پاک اس کے معاملہ کو آسان کردیں گے۔“(۳) ” اور جو تقوی اختیار کرے گا ، اللہ تعالی اس کے گناہ معاف کردیں گے اور اسے بڑا اجر عطا کریں گے۔“لہذا ہمیں گناہوں سے سچے دل سے توبہ کرنی چاہیے اور تقوی شعار بننا چاہیے نیز استغفار کی کثرت رکھنی چاہیے ، استغفار کے تعلق سے نبی اکرمﷺ کا ارشاد گرامی ہے : من لزم الاستغفار جعل اللہ لہ من کل ضیق مخرجا ، ومن کل ہم فرجا، ورزقہ من حیث لایحتسب․ (ابوداوٴد:(۱۵۱۸)ابن ماجہ:۳۸۱۹)(ترجمہ) جو استغفار کو لازم پکڑ لے ، اللہ تعالی ہر تنگی سے اس کے لیے راستہ نکالیں گے اور ہر غم سے نجات عطا فرمائیں گے اور اسے روزی ایسی جگہ سے عطاکریں گے ،جہاں سے اس کو وہم وگمان بھی نہ ہوگا ۔
(۴)دعا وٴں کا زیادہ سے زیادہ اہتمام
جماعت کی نماز اور اپنی خصوصی نمازوں میں ہمیں خوب خشوع و خضوع کے ساتھ بارگاہ الہی میں دعاوٴں کا اہتمام کرنا چاہیے ، دعا موٴمن کا ہتھیار ہے اور دعا کی طاقت کا اندازہ حضورﷺکے اس فرمان سے لگایا جاسکتا ہے : ”لایرد القدر الا الدعاء“ یعنی دعا میں اتنی طاقت ہے کہ اس سے تقدیر بھی ٹل جاتی ہے۔
اور قرآن کریم دعا کے تعلق سے کہتا ہے :
أَمَّن یُجِیْبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاہُ وَیَکْشِفُ السُّوء َ وَیَجْعَلُکُمْ خُلَفَاء الْأَرْضِ أَإِلَہٌ مَّعَ اللَّہِ قَلِیْلاً مَّا تَذَکَّرُونَ․ نمل(62)
(ترجمہ) کون بے بس کی دعا قبول کرتا ہے اور مصیبت کو دور کرتا ہے اور تمہیں زمین میں نائب بناتا ہے ، کیا اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا معبود ہے ، تم بہت کم نصیحت قبول کرتے ہو۔
(۵)اسلام کی خوبیوں سے برادران وطن کو روشناس کرانا
اوران سب کاموں کے ساتھ نہایت اہم اور ضروری کام یہ ہے کہ ہم برادران وطن کو اسلام کی خوبیوں سے روشناس کرائیں ، اسلام کی تبلیغ اور اسلام کے پیغام کو پہنچانے کاکوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیں ، اسلام کے تعارف کے لیے قدیم وجدید تمام وسائل استعمال کیے جائیں اور یاد رکھیں کہ تاریکی مٹانے کا صرف ایک راستہ ہے کہ روشنی پھیلائی جائے،اور اگر ہم نے اپنا یہ فریضہ ادا نہیں کیا تو ہم خود بھی زندگی کے کسی موڑ پر اس تاریکی کے شکار ہوں گے، جیساکہ ابھی ہمیں ایسی ہی صورت حال کا سامنا ہے ، اپنی مقدس کتاب میں اللہ تعالی فرماتے ہیں:
کُنْتُمْ خَیْْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ․آل عمران(۱۱۰)
(ترجمہ) تم بہترین امت ہو ، تمہیں بھیجا گیا ہے، لوگوں کی بھلائی کے لیے ، تم اچھی باتیں پھیلاتے ہو اور برائی کی روک تھام کرتے ہو۔
(۶)نئی نسل کوتعلیم اور دینی تعلیم سے آرستہ کرنا
جیسے زندہ رہنے کے لیے کھانا ، پانی اور ہوا ضروری ہے ، ٹھیک اسی طرح” صحیح زندگی “کے لیے تعلیم کی اشد ضرورت ہے ، تعلیم کے بغیر انسان اپنی زندگی کے صحیح اور غلط فیصلے میں فرق نہیں کرسکتا اور اللہ تعالی نے ہمیں لوگوں کی بھلائی کے لیے پیدا کیا ہے اور بھلائی کی ذمہ داری سے ہم تعلیم کے بغیر سبکدوش نہیں ہوسکتے ؛لہذ مسلم نوجوانوں کو تعلیم کے ہر میدان میں نمایاں کار کردگی پیش کرنی چاہیے ، جب تک زندگی کے ہر شعبہ میں قوم وملت کی خدمت نہ کریں ، ہم وہ بہترین امت نہیں ہوسکتے ، جسے اللہ تعالی نے لوگوں کی بھلائی کے لیے بھیجا ہے ۔
نیز اس تعلیم سے بھی پہلے جس کی طرف سب سے زیادہ توجہ کی ضرورت ہے ، وہ ہے دینی تعلیم ، اسلامی تہذیب واخلاق، ہمیں اپنی اولاد کی دینی تعلیم کے لیے اسی طرح فکر مند ہونا پڑیگا ، جیسے ہم ان کی روٹی ، کپڑے اور بیماری کے اوقات میں علاج ومعالجہ کے لیے فکرمند ہوتے ہیں؛ تاکہ وہ ملک کے جس شعبہ میں بھی کام کریں ، اسلام کی اچھائیوں سے دوسروں کو متاثر کرسکیں اور الحادی تحریکوں کے شکار ہوکر ذہنی اور فکری ارتداد میں نہ پڑیں۔
(۷)قنوت نازلہ کا اہتمام
نبی پاکﷺ کی سنت ہے کہ جب بھی مسلمانوں پر کوئی مصیبت اور آفت عمومی شکل میں آئے تو فجر کی نماز میں قنوت نازلہ کا اہتمام کیا جائے ، خود آپﷺ نے ایک مہینہ تک فجر کی نماز میں قنوت نازلہ پڑھی ہے ، جس میں عرب کے بعض قبائل کے خلاف آپ نے بددعا کی ہے ، لہذا موجودہ حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے ہماری مساجد میں اس سنت کا اہتمام ہونا چاہیے ۔
(۸)انبیاء واسلاف کی آزمائش کے واقعات
نیزہمیں انبیاء علیہم الصلاة والسلام اور اسلاف کی آزمائشوں سبق لینا چاہیے کہ دین حق کے راستہ میں اللہ کے ان برگزیدہ بندوں نے کیسی کیسی تکلیفیں برداشت کی ہیں ، جضرت نوح علیہ السلام نے ساڑھے نو سو سال ابتلاوٴں کے ساتھ گزارے ہیں ، حضرت ابراہیم ، حضرت یوسف اور انبیاء بنی اسرائیل علیہم السلام نے بڑی بڑی تکلیفیں برداشت کی ہیں ؛ خود محبوب رب کائنات کو طائف میں ، صحن کعبہ میں ، تیرہ سالہ مکی زندگی میں ، ابتدائی مدنی زندگی میں غزوہ ٴ احد و احزاب اور دیگر غزاوات میں دشمنان اسلام نے کیا کیا تکلیفیں نہیں پہچائیں ، صحابہ کو دین کی خاطر کس کس طرح سے ستایا جاتا بزرگان دین نے حق کی راہ میں کیسی کیسی قربانیاں دیں ، ہماری مجلسوں میں ان کا تذکرہ ہونا چاہیے ؛ تاکہ ہمارے ایمان میں تازگی پیدا ہو اور ہمیں ان کی زندگی میں تسلی کا سامان ملے۔