حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم
گزشتہ مہینے برصغیر، بلکہ عالمِ اِسلام کے دِینی حلقوں کے لیے سب سے بڑا سانحہ ،شیخ الکل حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب کا حادثہ وفات تھا، جس کی وجہ سے آج ایسا لگا ہے کہ اُمت کے ہراُس فرد کا دِل صدمہ و حسرت میں ڈُوبا ہوا ہے، جو حضرت سے کسی قسم کی نسبت رکھتا تھا، حضرت قدس سرہ کا وجود اس وقت خاص طور پر برصغیر کے علماء، دِینی حلقوں اور دِینی مدارس کے لیے ایک عظیم شامیانہ رحمت تھا، جس کے تصور ہی سے اِس پُرفتن دور میں دِل کو ڈَھارس ہوا کرتی تھی۔ اس مہینے ہم اس عظیم شامیانہ سے محروم ہو گئے۔اِنَّا لِلّہِ وَاِنَّا اِلَیہ رَاجِعُوْن!
اِس دُنیا میں کوئی ہمیشہ یہاں رہنے کے لیے نہیں آتا، یہاں ہر شخص کو موت سے سابقہ پیش آتا ہے، لیکن کچھ حضرات کی وفات ایسی ہوتی ہے کہ اس کا صدمہ اس کے اہلِ خانہ کی حد تک محدود نہیں ہوتا، بلکہ وہ ایک پورے جہان کا صدمہ ہوتا ہے:
وما کان قیس ھلکہ ھلک واحد
ولکنہ بنیان قوم تھدما
ہمارے اُستاذِ گرامی حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب رحمة اللہ علیہ بلاشبہ ایسے ہی حضرات میں شامل تھے، چناں چہ میں نے اُن کی تدفین کے وقت بڑے بڑے علماء کو دیکھا کہ وہ ایک دُوسرے کی تعزیت کر رہے ہیں اور بجا طور پر کر رہے ہیں، وہ اس روئے زمین پر بندہ کے آخری اُستاذ رہ گئے تھے، دُوسرے تمام اساتذہ ان سے پہلے رخصت ہو چکے تھے اور اسی طرح کسی اُستاذ کے سر پر موجود رہنے کی جو عظیم حلاوت ہوا کرتی ہے، آپ کی وفات پر آج اس حلاوت کا اِختتام ہو گیا۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت سے بڑے بڑے کام لیے اور ان کی خدمات کا عظیم ترین مظہر ”وفاق المدارس العربیہ“ کی صورت میں ہر شخص کے سامنے ہے، جو وقت کے فتنوں اور طوفانوں میں الحمدللہ! ثابت قدم رہ کر اہلِ علم کے لیے ایک تناور اور سایہ داردرخت کی صورت میں ہمارے سامنے ہے، جس کی چھاوٴں میں سب مل بیٹھ کر سکون اور راحت حاصل کرتے ہیں۔
اس موقع پر حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب کی شخصیت، ان کے کارناموں اور خدمات کا تذکرہ کسی مختصر مضمون میں ممکن نہیں ہے، اُمید ہے کہ اِن شاء اللہ اس موضوع پر مفصل او رتحقیقی کام ایسے حضرات کے قلم سے سامنے آئے گا جو اس کا حق اَدا کرسکیں، اَلبتہ اِس وقت چندمتفرق یادیں ذِکر کرنے کو دِل چاہ رہا ہے، جو ذیل میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتا ہوں۔
میں نے اَپنے اُستاذِ گرامی حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب کا اِسم گرامی سب ے پہلے1376ھ/1957ء میں ( جب کہ میری عمر چودہ سال تھی) اپنے بہنوئی اور سابق ناظم دارالعلوم حضرت مولانا نور احمد صاحب رحمة اللہ علیہ سے اُس وقت سنا جب ہمارا دارالعلوم نانک واڑے سے شرافی گوٹھ کے قریب نئی عمارت میں منتقل ہونے جارہا تھا۔ اِتفاق سے اس سال حضرت مولانا سیّد محمد یوسف بنوری صاحب رحمة اللہ علیہ نے جامع مسجد نیو ٹاوٴن میں ”مدرسہ عربیہ اِسلامیہ“ (حال جامعة العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاوٴن، کراچی) کے نام سے ایک نئے مدرسہ کی بنیاد ڈالی اور ہمارے بعض جلیل القدر اساتذہ کرام مثلاً حضرت مولانا مفتی ولی حسن خان ٹونکی صاحب رحمة اللہ علیہ اور حضرت مولانا فضل محمد صاحب رحمة اللہ علیہ، چوں کہ شہر سے باہر دارالعلوم کی نئی عمارت میں منتقل ہونے میں مشکلات محسوس فرماتے تھے، اس لیے حضرت بنوری رحمة اللہ علیہ کی دعوت پر وہ نیو ٹاوٴن جانے والے تھے اوران کے جانے کی وجہ سے دارالعلوم کے درجہ علیا کے اساتذہ میں بڑا خلا پیدا ہو نے والا تھا، حضرت والد ماجد رحمة اللہ علیہ کا مزاج اگرچہ ہمیشہ سے یہ تھا کہ اُستاذ کو کسی مدرسہ میں خدمت انجام دینے کے دوران وہاں سے چھوڑ کر اپنے یہاں آنے کی دعوت دینے سے پرہیز فرماتے تھے اور یہ اِرشاد فرمایا کرتے تھے کہ: ”ایک مدرسہ کو اُجاڑ کر دُوسرے مدرسہ کو آباد کرنا کسی طرح مناسب نہیں ہے۔“ لیکن حضرت مولانانور احمد صاحب کو اس موقع پر اِطلاع ملی کہ بعض حضرات اپنی جگہوں کو خود چھوڑنا چاہتے ہیں ،ان کو دعوت دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اس بنیاد پر انہو ں نے جن اساتذہ کرام کو دارالعلوم میں تدریس کی دعوت دی اْن میں حضرت مولانا مفتی رشید احمد صاحب، حضرت مولانا اکبر علی صاحب اورحضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب رحمة اللہ علیہم بطورِ خاص قابلِ ذِکر ہیں۔حضرت مولانا نور احمد صاحب نے یہ بھی بتایا کہ حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب تھانہ بھون کے قریب ایک قصبہ جلال آباد سے تعلق رکھتے ہیں اور ٹنڈوالہ یار کے مدرسہ سے مستعفی ہونے کے بعد دارالعلوم تشریف لائیں گے۔ شوال1376ھ میں دارالعلوم کی نئی عمارت میں تعلیم شروع ہونی تھی، اُس وقت دارالعلوم لق ودق صحرا میں واقع تھا، جس کے مغرب میں سمندر تک ریت کے ٹیلوں کے سوا کچھ نہیں تھا، جنوب میں جہاں آج کورنگی آباد ہے، وہاں بھی جنگلوں او رجانوروں کا بسیرا تھا، مشرق میں لانڈھی کی بستی تک کھیت اور باغات تھے اور صرف شمال مشرق میں چھوٹا سا گاوٴں شرافی آباد تھا۔ جن نئے حضرات اساتذ ہ کرام کو تعلیم کے آغاز میں دعوت دی گئی تھی ان کی رہائش کا اِنتظام بھی دارالعلوم کی زمین میں چھوٹے چھوٹے کچے پکے مکان تعمیر کرکے کیا گیا تھا، ان حضرات گرامی نے اس ویرانہ میں دارالعلوم کی خدمات کا آغاز فرمایا۔
اس سال میں اور میرے بڑے بھائی حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب دامت برکاتہم ہدایہ اخیرین، توضیح، میبذی، ملاحسن، سراجی اور تصریح کی جماعت میں شامل تھے۔ حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب رحمة اللہ علیہ سے سب سے پہلے اس تعلیمی سال کے آغاز میں ملاقات ہوئی، حضرت اُس وقت نوجوان تھے، حسین اور شگفتہ چہرہ، دِل کش اَندازِ گفت گو اور سادہ اور بے تکلف اَندازِ زِندگی، ان تمام باتوں نے بہت جلد حضرت سے اُنس پیدا کر دیا، اُس سال ہمارے دو سبق حضرت کے پاس تھے، ایک میبذی اور دوسرے ہدایہ اخیرین۔
اُستاذ الاساتذہ حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب رحمة اللہ علیہ اُس وقت عہد شباب میں تھے، شیخ الاسلام حضرت مولانا سیّد حسین اَحمد صاحب مدنی رحمة اللہ علیہ کے شاگر د تھے اور میرے شیخ ثانی حضرت مولانا مسیح اللہ خان صاحب قدس سرہ کے مدرسہ مفتاح العلوم جلال آباد میں طویل عرصہ تدریس کی خدمات اَنجام دے کر مستقل سکونت کی غرض سے پاکستان تشریف لائے تھے۔ اگرچہ اُس سال ہدایہ اخیرین اور میبذی ہماری دو کتابیں حضرت کے پاس تھیں، لیکن جہاں تک یاد ہے اسباق دن میں اِجتماعی طور پر شروع ہوئے اور شام کو اُن کے پاس میبذی کا گھنٹہ تھا، اس لیے اُن سے ہم نے پہلا سبق میبذی کا پڑھا تھا۔ مجھے طبعی طور پر منطق اور فلسفہ سے کوئی خاص دِلچسپی نہیں تھی، بس ضرورةً ہی منطق کی کتابیں پڑھتا آیا تھا، اَلبتہ فلسفہ کی یہ پہلی اور آخری کتا ب تھی۔ لیکن حضرت رحمة اللہ علیہ کو اللہ تبارک وتعالیٰ اَپنے فضل خاص سے نوازیں، اُنہوں نے پہلا سبق ہی اس شان سے پڑھایا کہ کتاب اور اُستاذ دونوں سے حد درجہ مناسبت پیدا ہو گئی او راَپنے سابق طرزِ عمل کے برعکس پورے سال میں نے میبذی بڑی محنت اور ذوق وشوق کے ساتھ پڑھی۔ ان کے پا س دوسرا سبق ہدایہ اخیرین کا تھا۔ وہ بھی ماشاء اللہ خوب ہوا، حضرت رحمة اللہ علیہ نے ہدایہ اخیرین حضرت شیخ الادب والفقہ مولانا اعزاز علی صاحب رحمة اللہ علیہ سے پڑھی تھی، اس لیے اُنہیں درس میں اپنے شیخ کی اِتباع کا بڑا ذوق تھا۔ چنا ں چہ صبح کے پہلے گھنٹے میں وہ ہمیشہ وقت پر درس کے لیے تشریف لاتے اور دو گھنٹے مسلسل درس دیتے ہوئے اپنے شگفتہ چہرے اور دِل کش اَندازِ گفت گو سے ہمیں اس طرح نہال کر دیتے تھے کہ تھکن کا احساس تک نہیں ہوتا تھا۔
ہمارے اگلے تعلیمی سال میں جسے موقوف علیہ کا سال کہا جاتا ہے، حضرت کے پاس ہمارا کوئی سبق نہیں تھا، لیکن گذشہ سال حضرت سے جو خصوصی تعلق قائم ہوگیا تھا اس کی وجہ سے سبق نہ ہونے کے باوجود حضرت سے رابطوں میں کوئی کمی نہیں رہی، حضرت مولانا شمس الحق صاحب رحمة اللہ علیہ حضرت کے خاص شاگرد تھے، لیکن حضرت کی بے تکلفی نے ان کے ساتھ دوستانہ جیسا تعلق قائم فرما دیا تھا اور حضرت مولانا شمس الحق صاحب رحمة اللہ علیہ سے ہمارا تعلق بھی کچھ اسی قسم کا تھا، اِس لیے ان دونوں بزرگوں کی پُرلطف صحبت سے ہم فیض یاب ہوتے رہتے تھے۔ پھر جب دورہٴ حدیث کا سال آیاتو دورے کا اہم ترین سبق جامع ترمذی آپ کے سپرد ہوا او رحضرت نے ہمیں یہ سبق بہت اہتمام اور تحقیق سے پڑھایا۔ چوں کہ جامع ترمذی میں فقہی اور حدیثی مباحث بڑی تفصیل سے حضرت بیان فرماتے تھے اور طلبہ کی رعایت سے حضرت اپنی درسی تقریر املاء کرایا کرتے تھے اور چوں کہ املاء کرانے میں کچھ وقفہ مل جاتا تھا، اس لیے ان کی تقریر ،میں عربی میں ضبط کرتا تھا او رحقیقت یہ ہے کہ حضرت کی یہ تقریر اتنی منضبط ہوتی تھی کہ اُس سے مسئلہ کے تمام پہلو بڑے حسن ترتیب کے ساتھ یکجا ہو جاتے تھے اور جو باتیں شروح میں منتشر ملتی ہیں، وہ یہاں نہایت منطقی ترتیب کے ساتھ چھنے چھنائے انداز میں مہیا ہو جاتی تھیں۔ اس تقریر کے مسودات میرے پاس اب بھی محفوظ ہیں۔ اُس وقت اس حسن انضباط کا اتنا اندازہ نہیں ہوا، لیکن جب خود شروح حدیث کو کھنگالنے کا موقع ملا تو پتہ چلا کہ حضرت والا نے کس طرح بکھرے ہوئے مباحث کو سمیٹ کر ہمیں لکھوایا ہے کہ ان کو سمجھنا اور یاد کرنا آسان ہو گیا۔ ظاہر ہے کہ حضرت استاذ کو املاء کرانے میں وقت لگتا تھا۔ اس لیے درس کی رفتار کم رہتی تھی۔ ہیاں تک کہ آخر سال تک کتاب ارکان اربعہ تک ہی ہو پائی تھی۔ دوسری طرف ترمذی جلد ثانی حضرت نے املاء کے بغیر شروع کرارکھی تھی جس کی مقدار نسبةً زیادہ ہو گئی تھی۔ لیکن جب سال ختم ہونے میں بہت کم وقت رہ گیا تو حضرت رحمة اللہ علیہ نے فرمایا کہ اب بیشتر احادیث ایسی ہیں جو صحیح بخاری یا صحیح مسلم یا ابوداوٴد وغیرہ میں گزر چکی ہیں اس لیے باقی کتاب روایةً پڑھ لینا بھی کافی ہو گا۔ اس کے لیے حضرت نے اضافی وقت دے کر کتاب مکمل کرانی شروع فرمائی۔ یہاں تک کہ جب تقریباً سو صفحات باقی رہ گئے ہوں گے، تو حضرت نے ایک پوری رات سبق پڑھایا۔ اس کے لیے درس گاہ ہی میں اسٹوومنگواکر وقفے وقفے سے چائے بنانے اور پلانے کا سلسلہ بھی جاری رہا، یہاں تک کہ شاید ایک یا دور اتوں میں کتاب مکمل ہو گئی۔
حضرت مولانا رحمة اللہ علیہ کے ذوقِ تدریس کا ہم نے دارالعلوم میں خوب مشاہدہ کیا او راس دوران یہ محسوس کیا تھا کہ حضرت کو نہ صرف تدریس، بلکہ مدرّسین کی تربیت کا خصوصی ذوق ہے ، لیکن اس ذوق کا ایک نمایاں مظاہرہ اَوّل تو جامعہ فاروقیہ کراچی کے ذریعہ ہوا، جس نے دیکھتے ہی دیکھتے ملک کے ممتاز مدار س میں ایک نمایاں مقام حاصل کر لیا، دوسرے ان کے اس ذوق کا ہمہ گیر اور مفید ترین مظاہرہ اس وقت ہوا جب وفاق المدارس العربیہ پاکستان کی نظامت یا سربراہی آپ کے سپرد کی گئی۔ وفاق المدار س العربیہ اگرچہ پہلے سے قائم تھا اور بڑے بڑے علماء اور بزرگوں نے اسے قائم کرنے اور چلانے میں اپنی خدمات صرف کیں، لیکن اس کی خدمات میں جو گہرائی اور گیرائی پیدا ہوئی اس کے بارے میں بلا خوف تردید یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ وہ حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب رحمة اللہ علیہ کی انتھک جدوجہد اور مدارس کے مزاج کی حقیقت پسندانہ فہم اور اِصلاح کی مسلسل تڑپ کا نتیجہ ہے، حضرت کی بلند ہمتی ہم جیسوں کے لیے ہمیشہ ایک قابل رشک مثال رہی، جس مقصد کو آپ لے کر چلے، کسی قسم کی مشقت او رمحنت آپ کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنی اور سخت سے سخت محنت اور مشقت کو آپ نے جس خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کیا وہ ہم جیسوں کو ہمیشہ شرم دلاتی رہی۔ وفاق کو منظم بنانے اور اس کے مقاصد کو موٴثر انداز میں حاصل کرنے کے لیے آپ نے بہ نفس نفیس ایسے گاوٴں گوٹھوں کے پُر مشقت سفر کیے جن میں آپ سے پہلے کوئی نہیں گیا تھا۔ اس محنت ومشقت میں اللہ تعالیٰ نے وہ برکت عطا فرمائی کہ الحمدللہ وفاق ایک تنومندادارہ بنا اور سازشوں او رمخالفتوں کے طوفان میں بفضلہ تعالیٰ اسے ثابت قدمی نصیب ہوئی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ حضرت کے ان فیوض کو قائم ودائم رکھیں۔ آمین!
حضرت رحمة اللہ علیہ اکابر علمائے دیوبند کے مسلک کے بارے میں بہت متصلّب تھے، لیکن مدارِسِ دِینیہ کے مشترکہ مقاصد کے لیے حضرت نے دُوسرے مکاتب فکر کے ساتھ مل کر کام کرنے میں اِس تصلّب کو رُکاوٹ بننے نہیں دیا اور یہ آپ ہی کی حکیمانہ تدبیر کا نتیجہ تھا کہ مختلف مکاتب فکر کے مدارس کا ایک اتحاد”اِتحاد تنظیماتِ مدارِسِ دِینیہ پاکستان“ کے نام سے نہ صرف وجود میں آیا، بلکہ اس نے مدارس کے خلاف ہونے والی سازشوں اور پروپیگنڈے کا موٴثر مقابلہ کیا اور الحمدللہ وہ تادمِ تحریر کام یابی کے ساتھ رو بعمل ہے۔
حضرت نے جن اکابر سے تعلیم وتربیت حاصل کی تھی، اس کا نتیجہ تھا کہ دِینی عقائد وافکار میں ان کا تصلّب کسی مداہنت کو گوارا نہیں کرتاتھا، چناں چہ انہوں نے جس بات کو حق سمجھا، اس کے اِظہار میں کبھی تساہل سے کام نہیں لیا۔ عمر کے آخری حصہ میں حضرت کے لیے نہ صرف نقل وحرکت، بلکہ گفت گو بھی سخت مشکل ہو گئی تھی ،لیکن دینی حلقوں میں پیش آنے والے واقعات پر اُن کی گہری نظر رہتی تھی اور ان کے بارے میں جہاں ضروری سمجھتے زبانی یا تحریری طور پر اپنی رائے ظاہر فرماتے تھے۔
الحمدللہ! ان معاملات میں بکثرت وہ مجھ ناکارہ شاگرد کو بھی شریک رہنے کی سعادت عطا فرماتے، اِجتماعی مسائل میں حضرت کی ہدایت بھی زبانی یا تحریری پہنچتی رہتی تھی اور حضرت ان میں مشورہ بھی فرماتے اور بندہ کی طرف سے کوئی طالب علمانہ مشورہ دیا جاتا، تو اسے قبول فرماکر بندہ کی قدر افزائی فرماتے تھے۔
حضرت کے ضعف وعلالت کی بنا پر حضرت کی زیارت بھی کم ہونے لگی تھی اور زیادہ رابطہ فون یا خط کے ذریعہ رہتا تھا، لیکن وفات سے کچھ ہی پہلے وفاق المدارس میں جو ایک بحرانی کیفیت پیدا ہوئی اس سلسلہ میں ایک ہی ہفتہ میں کئی بار حضرت کی زیارت کا شرف حاصل ہوا اور وفاق کے اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے حضرت نے اکابر وفاق کا جو اِجتماع طلب فرمایا۔ اس میں اس ناکارہ کو نہ صرف خصوصی دعوت دی، بلکہ اجلاس کی صدارت حضرت مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر صاحب مدظلہم کے سپر د فرماکر حکم دیا کہ ان کی نیابت ومعاونت میں کارروائی یہ ناکارہ چلائے۔ بالآخر الحمدللہ! حضرت والا اس اِجلاس کے نتائج سے مطمئن رہے اور اس وقت حضرت کی دست بوسی کی ایک بار پھر سعادت ملی۔ اس وقت یہ اندازہ نہ تھا کہ یہ حضرت کی آخری زیارت ہو گی، لیکن اس کے فوراً بعد حضرت کی علالت کی شدت کا علم ہوا۔ بندہ حضرتکے معالج اور صاحب زادگان سے رابطہ میں رہا، صحت میں اُتار چڑھاوٴ کی خبریں ملتی رہیں، اس دوران دو مرتبہ ہسپتال سے گھر بھی منتقل ہوئے، لیکن اتوار16 ربیع الثانی 1438ھ (15/ جنوری 2017ء ) کو طبیعت زیادہ خراب ہوئی، دِل کی تکلیف کی وجہ سے ٹبہ ہسپتال منتقل کیا گیا، وہیں 17/ربیع الثانی1438ھ پیرکی شب میں حضرت کا وقت معہودآگیا اور وہ مالک حقیقی سے جاملے۔
انا للّٰہ وانا الیہ راجعون اللھم اکرم نزلہ، ووسع مدخلہ، وابدلہ داراً خیر من دارہ، واھلا خیراً من اھلہ، ونقّہ من الخطایا کما ینقّی الثوب الابیض من الدّنس، واسکنہ بحْوة جنانک، یا ارحم الراحمین، ولا تحرمنا اٰجرہ ولا تفتنا بعدہ