عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم

مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید
۱۲/ ربیع الاول کو آنحضرت سرورِ عالم صلی الله علیہ وسلم کا ”جشن عید“ منایا جاتا ہے اور آج کل اسے اہل سنت کا خاص شعار سمجھا جانے لگا ہے۔ اس کے بارے میں بھی چند ضروری نکات عرض کرتا ہوں:
(۱)… آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کا ذکرِ خیر ایک اعلیٰ ترین عبادت بلکہ روح ایمان ہے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کی زندگی کا ایک ایک واقعہ سرمہٴ چشمِ بصیرت ہے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کی ولادت، آپ صلی الله علیہ وسلم کی صغرسنی، آپ صلی الله علیہ وسلم کا شباب، آپ صلی الله علیہ وسلم کی بعثت، آپ صلی الله علیہ وسلم کی دعوت، آپ صلی الله علیہ وسلم کا جہاد، آپ صلی الله علیہ وسلم کی قربانی، آپ صلی الله علیہ وسلم کا ذکر و فکر، آپ صلی الله علیہ وسلم کی عبادت و نماز، آپ صلی الله علیہ وسلم کااخلاق و شمائل، آپ صلی الله علیہ وسلم کی صورت وسیرت، آپ صلی الله علیہ وسلم کا زہد و تقویٰ، آپ صلی الله علیہ وسلم کا علم و خشیت، آپ صلی الله علیہ وسلم کا اٹھنا بیٹھا، چلنا پھرنا، سونا جاگنا، آپ صلی الله علیہ وسلم کی صلح و جنگ، خفگی و غصہ، رحمت و شفقت، تبسم و مسکراہٹ، الغرض آپ صلی الله علیہ وسلم کی ایک ایک ادا اور ایک ایک حرکت و سکون امت کے لیے اسوہٴ حسنہ اور اکسیر ہدایت ہے اور اس کا سیکھنا سکھانا، اس کا مذاکرہ کرنا، دعوت دینا امت کا فرض ہے۔ صلی الله علیہ وسلم
اسی طرح آپ صلی الله علیہ وسلم سے نسبت رکھنے والی شخصیات اور چیزوں کا تذکرہ بھی عبادت ہے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کے احباب و اصحاب، ازواج و اولاد، خدام و عمال، آپ صلی الله علیہ وسلم کا لباس و پوشاک، آپ صلی الله علیہ وسلم کے ہتھیاروں، آپ صلی الله علیہ وسلم کے گھوڑوں ، خچروں اور ناقہ کا تذکرہ بھی عین عبادت ہے، کیوں کہ یہ دراصل ان چیزوں کا تذکرہ نہیں، بلکہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی نسبت کا تذکرہ ہے۔ صلی الله علیہ وسلم
۲)… آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی حیات طیبہ کے دو حصے ہیں، ایک ولادت شریفہ سے لے کر قبل از نبوت تک کااور دوسرا بعثت سے لے کر وصال شریف تک کا، پہلے حصہ کے جستہ جستہ بہت سے واقعات حدیث و سیرت کی کتابوں میں موجود ہیں اور حیات طیبہ کا دوسرا حصہ۔ جسے قرآن کریم نے امت کے لیے ”اسوہ حسنہ“ فرمایا ہے۔ اس کا مکمل ریکارڈ حدیث و سیرت کی شکل میں محفوظ ہے اور اس کو دیکھنے سے ایسا لگتا ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم باہمہ خوبی و زیبائی گویا ہماری آنکھوں کے سامنے چل پھر رہے ہیں، اور آپ صلی الله علیہ وسلم کے جمالِ جہاں آراء کی ایک ایک ادا اس میں صاف جھلک رہی ہے۔ صلی الله علیہ وسلم۔
بلامبالغہ یہ اسلام کا عظیم ترین اعجاز اور اس امت مرحومہ کی بلند ترین سعادت ہے کہ اس کے پاس ان کے محبوب صلی الله علیہ وسلم کی زندگی کا پورا ریکارڈ موجود ہے۔ اور وہ ایک ایک واقعہ کے بارے میں دلیل و ثبوت کے ساتھ نشاندہی کرسکتی ہے کہ یہ واقعہ کہاں تک صحیح ہے؟ اس کے برعکس آج دنیا کی کوئی قوم ایسی نہیں جن کے پاس ان کے ہادی کی زندگی کا صحیح اور مستند ریکارڈ موجود ہو۔ یہ نکتہ ایک مستقل مقالے کا مضمون ہے، اس لیے یہاں صرف اسی قدر اشارے پر اکتفا کرتا ہوں۔
آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کو بیان کرنے کے دو طریقے کے ہیں۔ ایک یہ کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کے ایک ایک نقشے کو اپنی زندگی کے ظاہر و باطن پر اس طرح آویزاں کیا جائے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے ہر امتی کی صورت و سیرت، چال ڈھال، رفتار گفتار، اخلاق و کردار آپ صلی الله علیہ وسلم کی سیرت کا مرقع بن جائے اور دیکھنے والے کو نظر آئے کہ یہ محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا غلام ہے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ جہاں بھی موقع ملے آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے ذکرخیر سے ہر مجلس و محفل کو معمور و معطر کیا جائے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کے فضائل و کمالات اور آپ صلی الله علیہ وسلم کے بابرکت اعمال و اخلاق اور طریقوں کا تذکرہ کیا جائے اور آپ صلی الله علیہ وسلم کی زندگی کے ہر نقشِ قدم پر مرمٹنے کی کوشش کی جائے۔ سلف صالحین، صحابہ و تابعین اور ائمہ ہدیٰ ان دونوں طریقوں پر عامل تھے۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی ایک ایک سنت کو اپنے عمل سے زندہ کرتے تھے اور ہر محفل و مجلس میں آپ صلی الله علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا تذکرہ کرتے تھے۔ آپ نے سیدنا عمر فاروق رضی الله تعالیٰ عنہ کا یہ واقعہ سنا ہوگا کہ ان کے آخری لمحات حیات میں ایک نوجوان ان کی عیادت کے لیے آیا۔ واپس جانے لگا تو حضرت نے فرمایا: ”برخوردار! تمہاری چادر ٹخنوں سے نیچی ہے اور یہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی سنت کے خلاف ہے“۔ ان کے صاحبزادے سیدنا عبدالله بن عمر رضی الله عنہما کو آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کو اپنانے کا اس قدر شوق تھا کہ جب حج پر تشریف لے جاتے تو جہاں آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے اپنے سفر حج میں پڑاؤ کیا تھا، وہاں اترتے، جس درخت کے نیچے آرام فرمایا تھا، اس درخت کے نیچے آرام کرتے۔ اور جہاں آنحضرت صلی الله علیہ وسلم فطری ضرورت کے لیے اترے تھے، خواہ تقاضا نہ ہوتا تب بھی وہاں اترے اور جس طرح آنحضرت صلی الله علیہ وسلم بیٹھے تھے اس کی نقل اتارتے۔ رضی الله عنہ۔ یہی عاشقان رسول صلی الله علیہ وسلم تھے جن کے دم قدم سے آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی سیرت طیبہ صرف اوراق و کتب کی زینت نہیں رہی، بلکہ جیتی جاگتی زندگی میں جلوہ گر ہوئی اور اس کی بوئے عنبرین نے مشامِ عالم کو معطر کیا۔ صحابہ کرام اور تابعین بہت سے ایسے ممالک میں پہنچے جن کی زباں نہیں جانتے تھے، نہ وہ ان کی لغت سے آشنا تھے، مگر ان کی شکل و صورت، اخلاق و کردار اور اعمال و معاملات کو دیکھ کر علاقوں کے علاقے اسلام کے حلقہٴ بگوش اور جمالِ محمدی صلی الله علیہ وسلم کے غلام بے دام بن گئے۔ یہ سیرت نبوی صلی الله علیہ وسلم کی کشش تھی، جس کا پیغام ہر مسلمان اپنے عمل سے دیتا تھا۔ صلی الله علیہ وسلم
سلف صالحین نے کبھی سیرت النبی صلی الله علیہ وسلم کے جلسے نہیں کیے اور نہ میلاد کی محفلیں سجائیں، اس لیے کہ وہاں ”ہر روز روزِ عید“ اور ”ہر شب شبِ برأت“ کا قصہ تھا۔ ظاہر ہے کہ جب ان کی پوری زندگی ”سیرت النبی صلی الله علیہ وسلم“ کے سانچے میں ڈھلی ہوئی تھی، جب ان کی ہر محفل و مجلس کا موضوع ہی سیرت طیبہ تھا اور جب ان کا ہر قول و عمل سیرت النبی صلی الله علیہ وسلم کا مدرسہ تھا، تو ان کو اس نام کے جلسوں کی نوبت کب آسکتی تھی۔ لیکن جوں جوں زمانہ کو آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے مبارک دور سے بُعد ہوتا گیا، عمل کے بجائے قول کا اور کردار کے بجائے گفتار کا سکہ چلنے لگا۔ الحمدلله! یہ امت کبھی بانجھ نہیں ہوئی۔ آج اس گئے گزرے دور میں بھی الله تعالیٰ کے ایسے بندے موجود ہیں جو آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کا آئینہ سامنے رکھ کر اپنی زندگی کے گیسوو کاکل سنوارتے ہیں اور ان کے لیے محبوب صلی الله علیہ وسلم کی ایک ایک سنت ملکِ سلیمان اور گنج قارون سے زیادہ قیمتی ہے۔ لیکن مجھے شرمساری کے ساتھ یہ اعتراف کرنا چاہیے کہ ایسے لوگ کم ہیں، جب کہ ہم سے اکثریت مجھ جیسے بدنام کنند ہ، گپوڑوں اور نعرہ بازوں کی ہے جو سال میں ایک دو بار سیرت النبی صلی الله علیہ وسلم کے نعرے لگا کر یہ سمجھ لیتے ہیں کہ ان کے ذمہ ان کے محبوب نبی صلی الله علیہ وسلم کا جو حق تھا، وہ قرض انہوں نے پورا ادا کردیا، اور اب ان کے لیے شفاعت واجب ہوچکی ہے۔ مگر ان کی زندگی کے کسی گوشے میں دور دور تک سیرت طیبہ کی کوئی جھلک دکھائی نہیں دیتی۔ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی پاک سیرت کے ایک ایک نشان کو انہوں نے اپنی زندگی کے دامن سے کھرچ کھرچ کر صاف کرڈالا ہے، اور روزمرہ نہیں بلکہ ہر لمحہ اس کی مشق جاری رہتی ہے، مگر ان کے پتھردل کو کبھی احساس تک نہیں ہوا کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کو اپنی سنتوں اور اپنے طریقوں کے مٹنے سے کتنی تکلیف اور اذیت ہوتی ہوگی۔ وہ اس خوش فہمی میں ہیں کہ بس قوالی کے دوچار نغمے سننے، نعت شریف کے دوچار شعر پڑھنے سے آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کا حق ادا ہوجاتا ہے۔
میلاد کی محفلوں کے وجود سے امت کی چھ صدیاں خالی گزرتی ہیں اور ان چھ صدیوں میں جیسا کہ میں ابھی عرض کرچکا ہوں، مسلمانوں نے کبھی ”سیرت النبی صلی الله علیہ وسلم“ کے نام سے کوئی جلسہ یا ”میلاد“ کے نام سے کوئی محفل نہیں سجائی۔ ”محفل میلاد“ کا آغاز سب سے پہلے ۶۰۴ھ میں سلطان ابو سعید مظفر اور ابوالخطاب ابن دحیہ نے کیا، جس میں تین چیزیں بطور خاص ملحوظ تھیں:
۱)… بارہ ربیع الاول کی تاریخ کا تعیین۔
۲)… علماء و صلحاء کا اجتماع۔
۳)… اور ختم محفل پر طعام کے ذریعہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی روح پُرفتوح کوایصال ثواب۔
ان دونوں صاحبوں کے بارے میں اختلاف ہے کہ یہ کس قماش کے آدمی تھے؟ بعض مورخین نے ان کو فاسق و کذاب لکھا ہے اور بعض نے عادل و ثقہ۔ والله اعلم۔ جب یہ نئی رسم نکلی تو علمائے امت کے درمیان اس کے جواز و عدم جواز کی بحث چلی، علامہ فاکہانی اور ان کے رفقاء نے ان خود ساختہ قیود کی بناء پر اس میں شرکت سے عذر کیا اور اسے ”بدعت سیّئہ“ قرار دیا۔ اور دیگر علماء نے سلطان کی ہم نوائی کی۔ او ان قیود کو مباح سمجھ کر اس کے جواز و استحسان کا فتویٰ دیا۔ پھر جب ایک بار یہ رسم چل نکلی تو یہ صرف ”علماء و صلحاء کے اجتماع“ تک محدود نہ رہی، بلکہ عوام کے دائرے میں آکر ان کی نئی نئی اختراعات کا تختہٴ مشق بنتی چلی گئی۔ آج ہمارے سامنے عید میلاد النبی صلی الله علیہ وسلم کی جو ترقی یافتہ شکل موجود ہے (اور ابھی خدا بہتر جانتا ہے کہ اس میں مزید کتنی ترقی مقدر ہے) اب ہمیں اس کا جائزہ لینا ہے۔
سب سے پہلے دیکھنے کی بات تو یہ ہے کہ جو فعل صحابہ و تابعین کے زمانے میں کبھی نہیں ہوا، بلکہ جس کے وجود سے اسلام کی چھ صدیاں خالی چلی آئی ہیں۔ آج وہ ”اسلام کا شعار“ کہلاتا ہے۔ اس شعار اسلام کو زندہ کرنے والے ”عاشقانِ رسول صلی الله علیہ وسلم“ کہلاتے ہیں، اور جو لوگ اس نوایجاد شعارِ اسلام سے نا آشنا ہوں،ان کو دشمنان رسول صلی الله علیہ وسلم تصور کیا جاتا ہے۔ انا لله و انا الیہ راجعون۔
کاش! ان حضرات نے کبھی یہ سوچا ہوتا کہ چھ صدیوں کے جو مسلمان ان کے اس خود تراشیدہ شعارِ اسلام سے محروم رہے ہیں، ان کے بارے میں کیا کہا جائے گا؟ کیا وہ سب نعوذ بالله! دشمنان رسول صلی الله علیہ وسلم تھے؟ اور پھر انہوں نے اس بات پر کبھی غور کیا ہوتا کہ اسلام کی تکمیل کا اعلان تو حجة الوداع میں عرفہ کے دن ہوگیا تھا۔ اسکے بعد وہ کونسا پیغمبر آیا تھا جس نے ایک ایسی چیز کو ان کے لیے شعارِ اسلام بنادیا جس سے چھ صدیوں کے مسلمان نا آشنا تھے۔ کیا اسلام میرے یا کسی کے ابا کے گھر کی چیز ہے کہ جب چاہو اس کی کچھ چیزیں حذف کردو اور جب چاہو اس میں کچھ اور چیزوں کا اضافہ کرڈالو؟
دراصل اسلام سے پہلے قوموں میں اور اپنے بزرگوں کے بانیان مذہب کی برسی منانے کا معمول ہے، جیسا کہ عیسائیوں میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے یوم ولادت پر ”عید میلاد“ منائی جاتی ہے۔ اس کے برعکس اسلام نے برسی منانے کی رسم کو ختم کردیا تھا اور اس میں دو حکمتیں تھیں۔ ایک یہ کہ سالگرہ کے موقع پر جو کچھ کیا جاتا ہے وہ اسلام کی دعوت اور اس کی روح و مزاج سے کوئی مناسبت نہیں رکھتا۔ اسلام اس ظاہری سج دھج، نمود و نمائش او رنعرہ بازی کا قائل نہیں، وہ اس شور و شغب اور ہاؤ ہو سے ہٹ کر اپنی دعوت کا آغاز دلوں کی تبدیلی سے کرتا ہے، اور عقائد حقہ، اخلاقِ حسنہ اور اعمالِ صالحہ کی تربیت سے ”انسان سازی“ کا کام کرتا ہے۔ اس کی نظر میں یہ ظاہری مظاہرے ایک کوڑی کی قیمت بھی نہیں رکھتے، جن کے بارے میں کہا گیا ہے #
جگمگاتے درو دیوار، دل بے نور ہیں
دوسری حکمت یہ ہے کہ اسلام دیگر مذاہب کی طرح کسی خاص موسم میں برگ و بار نہیں لاتا، بلکہ وہ تو ایسا سدا بہار شجرہٴ طوبیٰ ہے جس کا پھل اور سایہ دائم و قائم ہے۔ گویا اس کے بارے میں قرآنی الفاظ میں ”اکلہا دائم و ظلہا“ کہنا بجا ہے۔ اس کی دعوت اور اس کا پیغام کسی خاص تاریخ کا مرہونِ منت نہیں بلکہ آفاق و ازمان کو محیط ہے۔
اور پھر دوسری قوموں کے پاس تو دوچار ہستیاں ہوں گی جن کی سالگرہ مناکر وہ فارغ ہوجاتی ہیں۔ اس کے برعکس اسلام کے دامن میں ہزاروں لاکھوں نہیں، بلکہ کروڑوں ایسی قد آور ہستیاں موجود ہیں جو ایک سے ایک بڑھ کر ہیں اور جن کی عظمت کے سامنے آسمان کی بلندیاں ہیچ اور نورانی فرشتوں کا تقدس گردِ راہ ہے۔ اسلام کے پاس کم و بیش سوا لاکھ کی تعداد تو ان انبیاء علیہم السلام کی ہے۔ جو انسانیت کے ہیرو ہیں اور جن میں سے ایک ایک کا وجود کائنات کی ساری چیزوں پر بھاری ہے۔ پھر انبیاء کرام علیہم السلام کے بعد صحابہ کرام کا قافلہ ہے، ان کی تعداد بھی سوا لاکھ سے کیا کم ہوگی، پھر ان کے بعد ہر صدی کے وہ لاکھوں اکابر اولیاء الله ہیں جو اپنے اپنے وقت میں رشد و ہدایت کے مینارہٴ نور تھے اور جن کے آگے بڑے بڑے جابر بادشاہوں کی گردنیں جھک جاتی تھیں۔ اب اگر اسلام شخصیتوں کی سالگرہ منانے کا دروازہ کھول دیتا تو غور کیجیے! اس امت کو سال بھر میں سالگرہوں کے علاوہ کسی اور کام کے لیے ایک لمحہ کی بھی فرصت ہوتی؟
چونکہ یہ چیز ہی اسلام کی دعوت اور اس کے مزاج کے خلاف تھی، اس لیے آنحضرت صلی الله علیہ وسلم، صحابہ و تابعینکے بعد چھ صدیوں تک امت کا مزاج اس کو قبول نہ کرسکا۔ اگر آپ نے اسلامی تاریخ کا مطالعہ کیا ہے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ اسلامی تاریخ میں چھٹی صدی وہ زمانہ ہے، جس میں فرزندانِ تثلیث نے صلیبی جنگیں لڑیں، اور مسیحیت کے ناپاک اور منحوس قدموں نے عالم اسلام کو روند ڈالا۔ ادھر مسلمانوں کا اسلامی مزاج داخلی و خارجی فتنوں کی مسلسل یلغار سے کمزور پڑگیا تھا۔ ادھر مسیحیت کا عالم اسلام پر فاتحانہ حملہ ہوا، اور مسلمانوں میں مفتوح قوم کا سا احساس کمتری پیدا ہوا، اس لیے عیسائیوں کی تقلید میں یہ قوم بھی سال بعد اپنے مقدس نبی صلی الله علیہ وسلم کے ”یوم ولادت“ کا جشن منانے لگی، یہ قوم کے کمزور اعصاب کی تسکین کا ذریعہ تھا، تاہم جیسا کہ میں پہلے عرض کرچکا ہوں، امت کے مجموعی مزاج نے اس کو قبول نہیں کیا۔ بلکہ ساتویں صدی کے آغاز سے لے کر آج تک علمائے امت نے اسے ”بدعت“ قرار دیااور اسے ”ہر بدعت گمراہی ہے“ کے زمرے میں شمار کیا۔
اگرچہ ”میلاد“ کی رسم ساتویں صدی کے آغاز سے شروع ہوچکی تھی اور لوگوں نے اس میں بہت سے امور کے اضافے بھی کیے، لیکن کسی کو یہ جرأت نہیں ہوئی تھی کہ اسے ”عید“ کا نام دیتا۔ کیونکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ”میری قبر کوعید نہ بنانا“۔ اور میں اوپر حضرت قاضی ثناء الله پانی پتی کے حوالے سے بتاچکا ہوں کہ ”عید“ بنانے کی ممانعت کیوں فرمائی گئی تھی۔ مگر اب چند سالوں سے اس سالگرہ کو ”عید میلاد النبی صلی الله علیہ وسلم“ کہلانے کاشرف بھی حاصل ہوگیا ہے۔
دنیا کا کون مسلمان اس سے ناواقف ہوگا کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے مسلمانوں کے لیے ”عید“ کے دو دن مقر ر کیے ہیں: عید الفطر اور عید الاضحی۔ اگر آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے یوم ولادت کو بھی ”عید“ کہنا صحیح ہوتا اور اسلام کے مزاج سے یہ چیز کوئی مناسبت رکھتی تو آنحضرت صلی الله علیہ وسلم خود ہی اس کو ”عید“ قرار دے سکتے تھے، اور اگر آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے نزدیک یہ پسندیدہ چیز ہوتی تو آپ صلی الله علیہ وسلم نہ سہی، خلفائے راشدین ہی آپ صلی الله علیہ وسلم کے یوم ولادت کو ”عید“ کہہ کر ”جشن عید میلاد النبی صلی الله علیہ وسلم“ کی طرح ڈالتے، مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا، اس سے دو ہی نتیجے نکل سکتے ہیں یا یہ کہ ہم اس کو ”عید“ کہنے میں غلطی پر ہیں یا یہ کہ نعوذ بالله ہمیں تو آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے یوم ولادت کی خوشی ہے، مگر صحابہ کرام خصوصاً خلفائے راشدین کو کوئی خوشی نہیں تھی، انہیں آپ صلی الله علیہ وسلم سے اتنا عشق بھی نہیں تھا جتنا ہمیں ہے۔ ستم یہ ہے کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی تاریخ ولادت میں تو اختلاف ہے، بعض ۹/ ربیع الاول بتاتے ہیں، بعض ۸/ ربیع الاول، اور مشہور بارہ ربیع الاول ہے۔ لیکن اس میں کسی کا اختلاف نہیں کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی وفات شریفہ ۱۲/ ربیع الاول ہی کو ہوئی۔ گویا ہم نے ”جشن عید“ کے لیے دن بھی تجویز کیا تو وہ جس میں آنحضرت صلی الله علیہ وسلم دنیا سے داغِ مفارقت دے گئے، اگر کوئی ہم سے یہ سوال کرے کہ تم لوگ ”جشنِ عید“ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی ولادت طیبہ پر مناتے ہو یا آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی وفات کی خوشی میں؟ (نعوذ بالله) تو شاید ہمیں اس کا جواب دینا بھی مشکل ہوگا۔
بہرحال میں اس دن کو ”عید“ کہنا معمولی بات نہیں سمجھتا، بلکہ اس کو صاف صاف تحریف فی الدین سمجھتا ہوں اس لیے کہ ”عید“ اسلامی اصطلاح ہے، اور اسلامی مطابق اصطلاحات کو اپنی خودرائی سے غیر منقول جگہوں پر استعمال کرنا دین میں تحریف ہے۔
اور پھر یہ ”عید“ جس طرح منائی جاتی ہے، وہ بھی لائقِ شرم ہے، بے ریش لڑکے غلط سلط نعتیں پڑھتے ہیں، موضوع اور من گھڑت قصے کہانیاں، جن کا حدیث و سیرت کی کسی کتاب میں کوئی وجود نہیں، بیان کی جاتی ہیں، شورو شغب ہوتا ہے۔ نمازیں غارت ہوتی ہیں، اور نامعلوم کیا کیا ہوتا ہے، کاش! آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے نام پر جو ”بدعت“ ایجاد کی گئی تھی اس میں کم از کم آپ صلی الله علیہ وسلم کی عظمت و تقدس ہی کو ملحوظ رکھا جاتا۔
غضب یہ کہ سمجھا یہ جاتاہے کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم ان خرافاتی محفلوں میں بنفس نفیس تشریف بھی لاتے ہیں۔ فیاغربة الاسلام! (ہائے اسلام کی بیچارگی!)
اب میں اس ”عید میلاد النبی صلی الله علیہ وسلم“ کا آخری کارنامہ عرض کرتا ہوں، کچھ عرصہ سے ہمارے کراچی میں ”عید میلاد النبی صلی الله علیہ وسلم“ کے موقع پر آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے روضہٴ اطہر اور بیت الله شریف کی شبیہ بنائی جاتی ہے، اور جگہ جگہ بڑے بڑے چوکوں میں سانگ بناکر رکھے جاتے ہیں۔ لوگ ان سے تبرک حاصل کرتے ہیں اور ”بیت الله“ کی خود ساختہ شبیہ کا طواف بھی کرتے ہیں اور یہ سب کچھ مسلمانوں کے ہاتھوں اور علماء کی نگرانی میں کرایا جارہا ہے۔ فیا اسفاہ!
”جشن عید میلاد“ کی باقی ساری چیزوں کو چھوڑ کر اسی ایک منظر کاجائزہ لیجیے کہ اس میں کتنی قباحتوں کو سمیٹ کر جمع کردیا گیا ہے۔
اول : اس پر جو ہزاروں روپیہ خرچ کیا جاتاہے، یہ محض اسراف و تبذیر اور فضول خرچی ہے۔ آپ ملا علی قاری کے حوالے سے سن چکے ہیں کہ آ نحضرت صلی الله علیہ وسلم نے قبروں پر چراغ اور شمع جلانے والوں پر اس لیے لعنت فرمائی ہے کہ یہ فعل عبث ہے اور خدا کے دیے ہوئے مال کو مفت ضائع کرنا ہے۔ ذراسوچیے! جو مقدس نبی صلی الله علیہ وسلم قبر پر ایک چراغ جلانے کو فضول خرچی کی وجہ سے ممنوع اور ایساکرنے والوں کو ملعون قرار دیتا ہے ، اس کا ارشاد اس ہزاروں لاکھوں روپے کی فضول خرچی کرنے والوں کے بارے میں کیا ہوگا؟ اور پھر یہ بھی دیکھیے کہ یہ فضول خرچی وہ غربت زدہ قوم کررہی ہے جو روٹی، کپڑا، مکان کے نام پر ایمان تک کا سودا کرنے کو تیار ہے۔ اس فضول خرچی کے بجائے اگر یہی رقم آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے ایصال ثواب کے لیے غرباء و مساکین کو چپکے سے نقد دے دی جاتی، تو نمائش تو بلاشبہ نہ ہوتی مگر اس رقم سے سینکروں اجڑے گھر آباد ہوسکتے تھے۔ ان سینکڑوں بچیوں کے ہاتھ پیلے کیے جاسکتے تھے جو اپنے والدین کے لیے سوہانِ روح بنی ہوئی ہیں۔ کیا یہ فضول خرچی اس قوم کے رہنماؤں کو سجتی ہے جس کے بہت سے افراد و خاندان نانِ شبینہ سے محروم اورجان و تن کا رشتہ قائم رکھنے سے قاصر ہوں؟ اور پھر یہ سب کچھ کیا بھی جارہا ہے کس ہستی کے نام پر؟ جو خود تو پیٹ پر پتھر بھی باندھ لیتے تھے، مگر جانوروں تک کی بھوک پیاس سن کرتڑپ جاتے تھے۔ آج کمیونزم اور لادین سوشلزم، اسلام کو دانت دکھا رہاہے۔ جب ہم دنیا کی مقدس ترین ہستی کے نام پر یہ سارا کھیل کھیلیں گے تو لادین طبقے، دین کے بارے میں کیا تاثر لیں گے؟ فضول خرچی کرنے والوں کو قرآن کریم نے ”اخوان الشیاطین“ فرمایا تھا، مگر ہماری فاسد مزاجی نے اس کو اعلیٰ ترین نیکی اور اسلامی شعار بناڈالا ہے #
بسوخت عقل زحیرت کہ ایں چہ بوالعجبیست
دوسرے اس فعل میں شیعوں اور رافضیوں کی تقلید ہے۔ آپ کو معلوم ہے کہ رافضی، حضرت حسین رضی الله عنہ کی سالانہ برسی منایا کرتے اور اس موقع پر تعزیہ، علم، دُلدُل وغیرہ نکالا کرتے ہیں، انہوں نے جو کچھ حضرت حسین اور آلِ رسول صلی الله علیہ وسلم کے نام پر کیا، وہی ہم نے خود رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے نام پر کرنا شروع کردیا۔ انصاف کیجیے کہ اگر رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے روضہٴ اطہر اور بیت الله شریف کا سوانگ بناکر اسے بازاروں میں پھرانا اور اس کے ساتھ روضہٴ اطہر اور بیت الله کا معاملہ کرنا صحیح ہے تو روافض کا تعزیہ اور دلدل کا سوانگ رچانا کیوں غلط ہے؟ افسوس ہے کہ جوملعون بدعت رافضیوں نے ایجاد کی تھی، ہم نے ان کی تقلید کرکے اس پرمہرِ تصدیق ثبت کرنے کی کوشش کی۔
تیسرے : اس بات پر بھی غور کیجیے کہ روضہٴ اطہر اور بیت الله کی جو شبیہ بنائی جاتی ہے، وہ شیعوں کے تعزیہ کی طرح محض جعلی اور مصنوعی جسے آج بنایا جاتا ہے اور کل توڑ دیا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس مصنوعی سوانگ میں اصل روضہٴ اطہر اور بیت الله کی کوئی خیر و برکت منتقل ہوجاتی ہے یا نہیں؟ اور اپنے ہاتھوں کی بنائی ہوئی اس چیز میں کسی درجے میں تقدس پیدا ہوجاتا ہے یا نہیں؟ اگر اس میں کوئی تقدس اور کوئی برکت نہیں تو اس فعل کے محض لغو اور عبث ہونے میں کیا شک ہے؟ اور اگر اس میں تقدس اور برکت کا کچھ اثر آجاتا ہے تو اس کی شرعی دلیل کیا ہے؟ اور کسی مصنوعی اور جعلی چیز میں روضہٴ مقدس اور بیت الله شریف سے تقدس و برکت کا اعتقاد رکھنا اسلام کی علامت ہے یا جاہلیت کی؟ اور پھر روضہ شریف اور بیت الله شریف کی شبیہ بناکر اگلے دن اسے توڑ پھوڑ دینا کیا ان کی توہین نہیں؟ آپ جانتے ہیں کہ بادشاہ کی تصویر بادشاہ نہیں ہوتی، نہ کسی عاقل کے نزدیک اس میں بادشاہ کا کوئی کمال ہوتا ہے۔ اس کے باوجود بادشاہ کی تصویر کی توہین کو قانون کی نظر میں لائقِ تعریز جرم تصور کیا جاتا ہے۔ اور اسے بادشاہ سے بغاوت پر محمول کیا جاتا ہے۔ لیکن آج روضہٴ اطہر اور بیت الله شریف کی شبیہ بناکر کل اسے منہدم کرنے والوں کو یہ احساس تک نہیں ہوتاکہ وہ اسلامی شعائر کی توہین کے مرتکب ہورہے ہیں۔
چوتھے: جس طرح شیعہ لوگ حضرت حسین رضی الله عنہ کے تعزیہ پر چڑھاوے چڑھاتے اور منتیں مانتے ہیں۔ اب رفتہ رفتہ عوام کالانعام اس نو ایجاد ”بدعت“ کے ساتھ بھی یہی معاملہ کرنے لگے ہیں۔ روضہٴ اطہر کی شبیہ پر درود و سلام پیش کیا جاتاہے اور بیت الله شریف کی شبیہ کا باقاعدہ طواف ہونے لگا ہے۔ گویا مسلمانوں کو حج و عمرہ کے لیے مکہ مکرمہ اور آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے روضہٴ اطہر کی زیارت کے لیے مدینہ منورہ جانے کی ضرورت نہیں، ہمارے ان دوستوں نے گھر گھر میں روضے اور بیت الله بنادیے ہیں، جہاں سلام بھی پڑھا جاتاہے اور طواف بھی ہوتا ہے۔ میرے قلم میں طاقت نہیں کہ میں اس فعل کی قباحت و شناعت اور ملعونیت کو ٹھیک ٹھیک واضح کرسکوں۔ ہمارے ائمہ اہل سنت کے نزدیک یہ فعل کس قدر قبیح ہے؟ اس کا اندازہ لگانے کے لیے صرف ایک مثال کافی ہے، وہ یہ کہ ایک زمانے میں ایک بدعت ایجاد ہوئی تھی کہ عرفہ کے دن جب حاجی حضرات عرفات کے میدان میں جمع ہوتے ہیں تو ان کی مشابہت کے لیے لوگ اپنے شہر کے کھلے میدان میں نکل کر جمع ہوتے اور حاجیوں کی طرح سارا دن دعا و تضرع، گریہ و زاری اور توبہ و استغفار میں گزارتے، اس رسم کا نام ”تعریف“ یعنی عرفہ منانا رکھا گیا تھا۔ بظاہر اس میں کوئی خرا بی نہیں تھی، بلکہ یہ ایک اچھی چیز تھی کہ اگر اس کا رواج عام ہوجاتا تو کم از کم سال بعد تو مسلمانوں کو توبہ و استغفار کی توفیق ہوجایا کرتی۔ مگر ہمارے علمائے اہل سنت نے (الله ان کو جزائے خیر عطا فرمائے) اس بدعت کی سختی سے تردید کی اور فرمایا: ”التعریف لیس بشیٴ“ یعنی اس طرح عرفہ منانا بالکل لغو اور بیہودہ حرکت ہے۔
شیخ ابن نجیم صاحب البحر الرائق لکھتے ہیں:
”چونکہ وقوف عرفات ایک ایسی عبادت ہے جو ایک خاص مکان کے ساتھ مخصوص ہے اس لیے یہ فعل اس مکان کے سوا دوسری جگہ جائز نہ ہوگا۔ جیسا کہ طواف وغیرہ جائز نہیں، آپ دیکھتے ہیں طواف کعبہ کی مشابہت کے طور پر کسی اور مکان کا طواف جائز نہیں۔“
(ص، ۱۷۶ ، ج۲)
حضرت شاہ ولی الله محدث دہلوی فرماتے ہیں:
”آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے جو فرمایا کہ ”میری قبر کو عید نہ بنالینا“ اس میں تحریف کا دروازہ بند کرنے کی طرف اشارہ ہے۔ کیونکہ یہود و نصاریٰ نے اپنے نبیوں کی قبروں کے ساتھ یہی کیا تھا، اور انہیں حج کی طرح عید اور موسم بنالیا تھا۔“ (حجة الله البالغہ)
شیخ علی القاری رحمہ الله شرح مناسک میں فرماتے ہیں کہ:
”طواف کعبہ شریف کی خصوصیات میں سے ہے۔ اس لیے انبیاء و اولیاء کی قبور کے گرد طواف کرنا حرام ہے۔ جاہل لوگوں کے فعل کا کوئی اعتبار نہیں، خواہ وہ مشایخ و علماء کی شکل میں ہوں۔“ (بحوالہ الجنة لاہل السنة ص۷)
اور البحرالرائق، کفایہ شرح ہدایہ اور معراج الدرایہ میں ہے کہ: ”جو شخص کعبہ شریف کے علاوہ کسی اور مسجد کا طواف کرے، اس کے حق میں کفر کا اندیشہ ہے۔“ (الجنة لاہل السنة ص۷)
ان تصریحات سے معلوم ہوسکتاہے کہ روضہٴ اطہر اور کعبہ شریف کا سوانگ بناکر ان کے ساتھ اصل کا سا جو معاملہ کیا جاتاہے، ہمارے اکابر اہل سنت کی نظر میں اس کی کیا حیثیت ہے۔
خلاصہ یہ کہ ”جشن عید میلاد“ کے نام پر جو خرافات رائج کردی گئی ہیں اور جن میں ہر آئے سال مسلسل اضافہ کیا جارہا ہے، یہ اسلام کی دعوت، اس کی روح اور اس کے مزاج کے یکسر منافی ہیں۔ میں اس تصور سے پریشان ہوجاتا ہوں کہ ہماری ان خرافات کی روئیداد جب آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی بارگاہِ عالی میں پیش ہوتی ہوگی تو آپ صلی الله علیہ وسلم پر کیا گزرتی ہوگی؟ اور اگر صحابہ کرام رضوان الله علیہم ہمارے درمیان موجود ہوتے تو ان چیزوں کو دیکھ کر ان کا کیا حال ہوتا؟ بہرحال میں اس کو نہ صرف ”بدعت“ بلکہ ”تحریف فی الدین“ تصور کرتا ہوں اور اس بحث کو امام ربانی مجدد الف ثانی کے ایک ارشاد پر ختم کرتا ہوں۔ جو انہوں نے اسی مسئلہ میں اپنے مرشد خواجہ باقی بالله کے بارے میں فرمایا ہے:
”بہ نظر انصاف بینند کہ اگر فرضاً حضرت ایشاں دریں اوان در دنیا زندہ می بودندوایں مجلس و اجتماع منعقد می شد، آیا بایں امر راضی می شد ند، وایں اجتماع رامی پسندیدندیانہ؟ یقینِ فقیر آں است کہ ہر گز ایں معنی را تجویز نمی فرمودند، بلکہ انکارمی نمودند، مقصودِ فقیر اعلام بود، قبول کنندیانہ کنند، ہیچ مضائقہ نیست و گنجائش مشاجرہ نہ۔“
ترجمہ:۔ ”انصاف کی نظر سے دیکھیے کہ اگر بالفرض حضرت ایشاں اس وقت دنیا میں تشریف فرما ہوتے اور یہ مجلس اور یہ اجتماع منعقد ہوتا، آیا آپ اس پر راضی ہوتے اور اس اجتماع کو پسند فرماتے یا نہیں؟ فقیر کا یقین یہ ہے کہ اس کو ہرگز جائز نہ رکھتے بلکہ اس پر نکیر فرماتے… فقیر کا مقصود صرف امر حق کا اظہار ہے قبول کریں یا نہ کریں کوئی پرواہ نہیں اور نہ کسی جھگڑے کی گنجائش۔“ (دفتر اول مکتوب ۲۷۳)
(اِختلافِ اُمت اور صراطِ مستقیم)

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے