باہمی تعلقات اور اسلامی ہدایات

مولانااسرارالحق قاسمی
ایک ملک اور معاشرے میں رہتے ہوئے انسان کو بہت سے لوگوں اور الگ الگ مزاج و عادات رکھنے والے انسانوں سے سابقہ پڑتاہے،ہرشخص کی سوچ الگ ہوتی اورہرانسان کا زندگی گزارنے کا معیاراور طریقہٴ کار علیحدہ ہوتاہے،ایک انسان فطری طورپرنرم دل ہوتا،جبکہ دوسرے انسان کے مزاج اور طبیعت میں نسبتاً شدت اور تلخی ہوتی ہے،کوئی ایسابھی ہوتاہے کہ اسے ہر وقت دوستوں کاایک مجمع چاہیے،جبکہ کچھ لوگ تنہائی پسندہوتے ہیں،الغرض اس دنیامیں بسنے والاہر انسان کسی نہ کسی اعتبار سے دوسرے سے مختلف ہوتاہے،مگراس اختلاف کے باوجودہمیں ایک دوسرے کے ساتھ ہی زندگی گزار نا ہوتا ہے،ایسے میں ہمیں ان اصولوں اور اخلاقی ضابطوں کواپناناچاہیے جوہمارے باہمی تعلقات کوبہتربنانے میں معاون ثابت ہوں اور اختلافِ مزاج و فکرکے باوجودہماری آپسی محبت و مودت کوبرقراراورمضبوط رکھنے کی جانب رہنمائی کرتے ہوں،اس سلسلے میں اسلام کی تعلیمات نہایت ہی واضح بھی ہیں اورقابلِ قدربھی،اسلام نے باہمی تعلقات کوبنائے رکھنے اورانھیں مضبوط کرنے کے لیے نہایت ہی قیمتی اصول بتائے ہیں۔ دینِ اسلام کی یہ امتیازی خصوصیت ہے کہ وہ تمام انسانوں کو ایک انسانی وحدت کی لڑی میں پروتا ہے، چاہے وہ کسی جنس،مذہب، نسل یا رنگ سے تعلق رکھتے ہوں، اس انسانی وحدت کی اصل بنیاد اور طبیعت ایک ہی ہے ،اسی بنیاد پر اسلام نے ایسے اصول و اقدار کی بنیادپرلوگوں کے مابین تعلقات قائم کئے ہیں، جو الفت و رحمت اور ایک دوسرے ساتھ رواداری برتنے کی تعلیم دیتے ہیں۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک انسان سے پیدا کیا (یعنی انسانِ اوّل) اس سے اس کا جوڑا بنایا پھر اُن دونوں سے کثرت سے مرد و عورت (پیدا کر کے روئے زمین پر) پھیلا دئیے اور اللہ سے، جس کے نام کو تم اپنی حاجت برآری کا ذریعہ بناتے ہو ڈرو اور ناطہ توڑنے سے (بچو) کچھ شک نہیں کہ اللہ تمہیں دیکھ رہا ہے “۔ (سورہٴ نساء: 1)مزید اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:” لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنائیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو،درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ پرہیز گار ہو، یقیناً اللہ سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے“۔ (سورہٴ حجرات:13)پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے انسانی تخلیق کی اصلیت کوبتاتے ہوئے یہ تلقین کی ہے کہ آپسی تعلقات جب قائم ہوجائیں،توانھیں نبھاناچاہیے اورانھیں توڑنے سے گریزکرناچاہیے،جبکہ دوسری آیت میں بھی اسی چیزکوذرااوروسیع معنوں میں بیان کرتے ہوئے کہاگیاہے کہ تمھاری مختلف برادریاں اور قبائل اس لیے نہیں ہیں کہ ان میں سے ایک دوسرے پر اپنی برتری جتائے اوربے جا فخرکرے،بلکہ یہ باہمی جان پہچان اور تعلقات کو فروغ دینے کے لیے ہیں،البتہ تم میں بہترکون ہے اوربراکون ہے،اس کا تعلق دل سے ہے کہ جس کا دل جتنا متقی اور پرہیزگارہوگا،وہ اسی قدرمتقی و پرہیزگاراورعنداللہ مقرب ہوگا۔
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے ایام تشریق کے وسط میں ہمارے سامنے خطبہٴ حجتہ الوداع دیا توآپﷺ نے فرمایا: اے لوگو، بلاشبہ تمہارا رب ایک ہی ہے اور تمہارا باپ بھی ایک ہی ہے ، سن لو ! کسی عربی کو کسی عجمی پر ، اور کسی عجمی کو کسی عربی پر اور کسی گورے کو کالے پر اور کسی کالے کو کسی گورے پر کوئی فضیلت نہیں ہے ،مگر صرف تقویٰ کی وجہ سے ، بلاشبہ اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ مکرم وباعزت وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی ہو، سن لو! کیا میں نے پہنچا دیا؟ سب نے جواب دیا: ہاں، اے اللہ کے رسول!پھر آپ ﷺ نے فرمایا :یہاں موجود لوگ غیر موجود لوگوں تک پہنچادیں“۔( شعب الایمان :4774)اس تاریخی خطبے میں آپنے جس چیزپرزوردیا،وہ انسانی مساوات و برابری ہے اور اسی بنیادپرلوگوں سے تعلقات بنانے اور انھیں برقراررکھنے کی ترغیب و تعلیم دی۔ایک موقع پر آپنے فرمایا:” وہ مسلمان جو لوگوں کے ساتھ ملتا جلتا ہے اور ان کی تکلیفوں پر صبر کرتا ہے ، اس مسلمان سے کہیں بہتر ہے جو نہ لوگوں سے ملتا جلتا ہے اور نہ ہی ان کی تکلیفوں پر صبر کرتا ہے“۔ (سنن ترمذی:2507) قرآنِ کریم اور احادیثِ نبویہ میں غور وفکرکے بعد یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ تمام انسانوں کے ساتھ خیر اور بھلائی کا معاملہ کرنا اسلام کی بنیادی تعلیمات کا حصہ ہے، اور یہی وہ بنیاد ہے جس پر لوگوں کے ساتھ تعلقات کی عمارت قائم ہو نی چاہئے ، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں ایک دوسرے کا تعاون کرو اور گناہ اور زیادتی کے کاموں میں ایک دوسرے کا تعاون مت کرو“۔ ( سورہٴ مائدہ :2)
انہی اخلاقِ عالیہ اور بلند اقدار کے ساتھ مسلمانوں نے ماضی میں اپنی ہمعصر اقوام و ملل کے ساتھ معاملہ کیا، اور اسلام کی خالص تعلیمات کی روشن تصویر ان کے سامنے پیش کی، ایسے اسلام کی جو رحمت و محبت، الفت و اخوت ، ایک دوسرے کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنے اور حل طلب مسائل میں ایک دوسرے کا موقف سننے اورجاننے کی ہدایت دیتا ہے، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں نے دوسروں کی صلاحیتوں ، ان کے علوم و فنون اور کامیابیوں سے فائدہ اٹھایا اور ان کو بھی فائدہ پہنچایا، اور محبت و ہمدردی اور امن و سلامتی کا پیغام عام کیا۔ مسلمان اس دنیا میں دوسروں سے الگ تھلگ اور تنہا نہیں رہ سکتے ، دوسروں کے ساتھ تعلقات استوار کرنے اور باہمی معاملہ کرنے کے ذریعہ ہی وہ کامیابی سے ہمکنار ہو سکتے ہیں،اوراسی کے نتیجے میں انسانیت خیر اور نفع سے فیضیاب ہو سکتی ہے ، انسان صرف اپنی ذات تک منحصر رہنے کی صورت میں نہایت کمزور ہے جب کہ وہ دوسرے کے ساتھ مل کر قوی اور طاقتور بن جاتا ہے، خاص طور پر مصیبت و آزمائش کے مواقع پر ایک مسلمان کواپنے ایمان کے تقاضے کی بنیاد پر مصیبت زدہ لوگوں کی تکلیف کو دور کرنے اور ان کی مدد کرنے کے لئے آگے بڑھناچاہیے، یہ ایک افضل ترین عمل اور اللہ کاتقرب حاصل کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے، نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے:” مغفرت کو واجب کرنے والے اعمال میں سے یہ ہے کہ تم اپنے مسلمان بھائی کی زندگی میں خوشی اور سرور داخل کرو،اس کی بھوک کو ختم کرو اور اس کی مصیبت کو دور کرو“۔ (مسند الحارث :912)
ہمارے ذہن میں زندگی کے یہ اصول ہر وقت رہنے چاہئیں کہ زندگی لینے اور دینے، دوسروں کو نفع پہنچانے اور ان کی تکلیف دور کرنے کے لئے مسلسل کوشش کرنے کا نام ہے۔ دوسروں کے ساتھ تعلقات استوار کرنا اور خیر کے کاموں میں ان سے تعاون کرنا ایمان کا تقاضا ہے۔نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں ایک دوسرے کا تعاون انسانیت کے لئے بہت سے فوائد کے حصول اور محبت و رواداری کا ماحول سا ز گار کرنے کا ذریعہ ہے۔ انہی اسلامی اصول اور ضابطوں کے تحت ہم اپنے اہلِ خاندان ،دوسرے مسلمان اور برادرانِ وطن کے ساتھ اپنے تعلقات استوارکریں،ان شاء اللہ یہ معاشرے کے لیے بھی نہایت مفید ہوگا اور ملک و قوم کی مجموعی ترقی و خوش حالی میں کلیدی رول اداکرے گا۔
(مضمون نگار ممبرپارلیمنٹ اور آل انڈیاتعلیمی وملی فاوٴنڈیشن کے صدرہیں)

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے